2 9 1فتوحات کے نتیجے میں جب مسلمانوں کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوگئی تو انصار اور مہاجرین کی عورتوں کو دیکھ کر ازواج مطہرات نے بھی نان نَفَقَہ میں اضافے کا مطالبہ کردیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ نہایت سادگی پسند تھے، اس لئے ازواج مطہرات کے اس مطالبے پر سخت کبیدہ خاطر ہوئے اور بیویوں سے علیحدگی اختیار کرلی جو ایک مہینہ جاری رہی بالآخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی۔ اس کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضرت عائشہ کو یہ آیت سنا کر انھیں اختیار دیا تاہم انھیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی بجائے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں ؟ بلکہ میں اللہ اور رسول کو پسند کرتی ہوں یہی بات دیگر ازواج مطہرات (رض) نے بھی کہی اور کسی نے بھی آپ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش وآرام کو ترجیح نہیں دی۔ اس وقت رسول اللہ کے حبالہ عقد میں 9بیویاں تھیں، پانچ قریش میں سے تھیں۔ حضرت عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ اور ام سلمہ (رض) اور چار ان کے علاوہ، یعنی حضرت صفیہ، زینب اور جویریہ تھیں۔ بعض لوگ مرد کی طرف سے اختیار علیحدگی کو طلاق قرار دیتے ہیں، لیکن یہ بات صحیح نہیں، صحیح بات یہ ہے کہ اختیار علیحدگی کے بعد اگر عورت علیحدگی کو پسند کرلے، پھر تو یقینا طلاق ہوجائے گی (اور یہ طلاق بھی رجعی ہوگی نہ کہ بائنہ، جیسا کہ بعض علماء کا مسلک ہے) تاہم اگر عورت علیحدگی نہیں کرتی تو پھر طلاق نہیں ہوگی، جیسے ازواج مطہرات (رض) نے علیحدگی کی بجائے حرم رسول میں ہی رہنا پسند کیا تو اس اختیار کو طلاق شمار نہیں کیا گیا (صحیح بخاری)
[ ٤١] آیت تخییر :۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکمل اختیار دیا تھا کہ آپ چاہیں تو ایسی اجتماعی طور پر خرچ کے اضافہ کا مطالبہ کرنے اور اس طرح دباؤ ڈالنے والی بیویوں کو طلاق دے کر فارغ کردیں اور چاہیں تو اپنے پاس رکھیں۔ بشرطیکہ آئندہ وہ آپ کو اس سلسلہ میں پریشان نہ کریں۔ آپ نے ایک ماہ کے ایلاء (بیویوں سے الگ رہنے) کا فیصلہ کیا تھا۔ انتیس دن گزرنے کے بعد آپ مسجد کے بالا خانہ سے واپس اپنے گھر تشریف لائے سب سے پہلے سیدہ عائشہ (رض) ہی کے گھر آئے۔ پھر جس طرح آپ نے اس اختیار کو استعمال کیا وہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے :- خ بیویوں کا جواب :۔ ١۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ : جب آپ کو حکم ہوا کہ وہ اپنی بیویوں کو اختیار دیجئے (خواہ وہ آپ کے ساتھ رہنا چاہیں یا طلاق لے لیں) تو آپ نے سب سے پہلے مجھ سے پوچھا اور فرمایا : عائشہ (رض) میں تمہیں ایک بات کہتا ہوں مگر تم اس میں جلدی نہ کرنا بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرکے جواب دینا۔ اور آپ یہ بات خوب جانتے تھے کہ میرے والدین آپ سے جدا ہونے کا کبھی مشورہ نہ دیں گے۔ چناچہ آپ نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 28) 33 ۔ الأحزاب :28) (تک آپ نے پڑھا) میں نے کہا : میں اس معاملہ میں اپنے والدین سے کیا مشورہ کروں گی میں تو خود (بہرحال) اللہ، اس کے رسول اور آخرت کی بھلائی چاہتی ہوں پھر آپ نے یہی بات دوسری بیویوں سے پوچھی تو سب نے وہی جواب دیا جو میں نے دیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ : میں نے آپ سے کہا کہ آپ نے تو ایک ماہ کا کہا تھا اور آج انتیس دن ہوئے ہیں۔ آپ نے اپنی انگلیوں کے اشارے سے بتایا کہ مہینہ تیس دن کا بھی ہوتا ہے اور انتیس دن کا بھی۔ (گویا وہ مہینہ انتیس دن کا تھا) (بخاری۔ کتاب الصوم۔ باب قول النبی اذا رأیتم الہلال فصوموا، مسلم کتاب الصیام۔ باب وجوب صوم رمضان لرؤیۃ الھلال۔۔ )
وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۔۔ : اور دوسری یہ کہ اگر تم اللہ کی رضا اور اس کے رسول کی رضا اور آخرت کے گھر کی طلب گار ہو اور اس کے لیے تنگی ترشی کی زندگی پر صبر کرسکتی ہو تو تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔- لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ : شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ” یہ جو فرمایا ” لِلْمُحْسِنٰتِ “ (جو نیکی پر رہیں) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج سب نیک ہی رہیں، مگر حق تعالیٰ صاف خوش خبری کسی کو نہیں دیتا، تاکہ نڈر نہ ہوجائے، خاتمہ کا ڈر لگا رہے۔ “- اَجْرًا عَظِيْمًا : مفسر آلوسی نے فرمایا : ” جب ازواج مطہرات کو اختیار دیا گیا اور انھوں نے اللہ اور اس کے رسول کو اور دار آخرت کو پسند کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ان کی تعریف فرمائی اور فرمایا : (لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُهُنَّ ) [ الأحزاب : ٥٢ ] ” تیرے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں اور نہ یہ کہ تو ان کے بدلے کوئی اور بیویاں کرلے، اگرچہ ان کا حسن تجھے اچھا لگے۔ “ (روح المعانی) ان بیویوں سے مراد وہ نو بیویاں ہیں جن کا ذکر اوپر ہوا۔ اس سے بڑا اجر کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری اور عمل صالح کی صورت میں دوہرے اجر کی بشارت دی، پھر اس کے صلے میں انھیں زندگی بھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا شرف حاصل رہا اور جنت میں بھی وہ آپ کے ساتھ ہوں گی۔ [ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْھُنَّ وَ أَرْضَاھُنَّ ]
وَاِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْكُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا ٢٩- رود - والْإِرَادَةُ منقولة من رَادَ يَرُودُ : إذا سعی في طلب شيء، والْإِرَادَةُ في الأصل : قوّة مركّبة من شهوة وحاجة وأمل، نحو : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17]- ( ر و د ) الرود - الا رادۃ یہ اراد یرود سے ہے جس کے معنی کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادۃ اصل میں اس قوۃ کا نام ہے ، جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَرادَ بِكُمْ سُوءاً أَوْ أَرادَ بِكُمْ رَحْمَةً [ الأحزاب 17] یعنی اگر خدا تمہاری برائی کا فیصلہ کر ہے یا تم پر اپنا فضل وکرم کرنا چاہئے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔- أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] - ( ا ج ر ) الاجروالاجرۃ - کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دینوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا جر تو خدا کے ذمے ہے ۔ - عظیم - وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] ، - ( ع ظ م ) العظم - عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو پسند کرتی اور جنت کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے نیک کرداروں کے لیے جنت میں اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔
آیت ٢٩ وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا ” اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کی طالب ہو تو (اطمینان رکھو کہ) اللہ نے تم جیسی نیک خواتین کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ “- اب آپ لوگوں کی مرضی ہے کہ دنیا اور اس کی آسائشیں حاصل کرنے کا راستہ اختیار کر لویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہتے ہوئے فقر و فاقہ کی زندگی قبول کرلو۔- اس آیت کے نزول کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں چار بیویاں تھیں۔ حضرت سودہ ‘ حضرت عائشہ ‘ حضرت حفصہ اور حضرت اُمّ سلمہ (رض) ۔ ابھی حضرت زینب (رض) سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح نہیں ہوا تھا۔ روایات کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سب سے پہلے یہ بات حضرت عائشہ (رض) کے سامنے رکھی اور ان سے فرمایا کہ اس معاملے میں اپنے والدین کی رائے لے لو ‘ پھر فیصلہ کرو۔ انہوں نے بلاتوقف عرض کیا : ” کیا یہ معاملہ میں اپنے والدین سے پوچھوں ؟ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کی طالب ہوں۔ “ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باقی ازواجِ مطہرات (رض) میں سے ایک ایک کے پاس جا کر یہی بات فرمائی اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ (رض) نے دیا تھا۔ اور یوں سب ازواجِ مطہرات (رض) اپنے مطالبات سے دستبردار ہوگئیں۔ اس کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام ازواج مطہرات (رض) نے اپنی زندگیاں اس طرح گزار دیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی ایک گھر میں بھی متواتر دو وقت کا چولہا کبھی گرم نہ ہوا۔
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :42 اس آیت کے نزول کے وقت حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نکاح میں چار بیویاں تھیں ، حضرت سَودہ رضی اللہ عنہا ، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ، اور حضرت ام سَلمہ رضی اللہ عنہا ۔ ابھی حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نکاح نہیں ہوا تھا ۔ ( احکام لابن العربی طبع مصر ۱۹۵۸ عیسوی ، جلد ۳ ، ص ۱۳ ۔ ۱۵۱۲ ) ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے سب سے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو کی اور فرمایا میں تم سے ایک بات کہتا ہوں ، جواب دینے میں جلدی نہ کرنا ، اپنے والدین کی رائے لے لو ، پھر فیصلہ کرو پھر حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم آیا ہے اور یہ آیت ان کو سنا دی ۔ انھوں نے عرض کیا ، کیا اس معاملہ کو میں اپنے والدین سے پوچھوں ؟میں تو اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو چاہتی ہوں ۔ اس کے بعد حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) باقی ازواج مطہرات میں سے ایک ایک کے ہاں گئے اور ہر ایک سے یہی بات فرمائی ، اور ہر ایک نے وہی جواب دیا جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا ۔ مسند احمد ، مسلم ، نَسائی ) اصطلاح میں اس کو تخییر کہتے ہیں ، یعنی بیوی کو اس امر کا اختیار دینا کہ وہ شوہر کے ساتھ رہنے یا اس سے جدا ہو جانے کے درمیان کسی ایک چیز کا خود فیصلہ کر لے ۔ یہ تخییر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر واجب تھی ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو حکم دیا تھا ۔ اگر ازواج مطہرات میں سے کوئی خاتون علیٰحدگی کا پہلو اختیار کرتیں تو آپ سے آپ جدا نہ ہو جاتیں بلکہ حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے جدا کرنے سے ہوتیں ، جیسا کہ آیت کے الفاظ آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کر دوں سے ظاہر ہوتا ہے ۔ لیکن حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر یہ واجب تھا کہ اس صورت میں ان کو جدا کر دیتے ، کیونکہ نبی کی حیثیت سے آپ کا یہ منصب نہ تھا کہ اپنا وعدہ پورا نہ فرماتے ۔ جدا ہو جانے کے بعد بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اُمّہات المومنین کے زمرے سے خارج ہو جاتیں اور ان سے کسی دوسرے مسلمان کا نکاح حرام نہ ہوتا ، کیونکہ وہ دنیا اور اس کی زینت ہی کے لیے تو رسُولِ پاک ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے علیٰحدگی اختیار کرتیں جس کا حق انہیں دیا گیا تھا ، اور ظاہر ہے کہ ان کا یہ مقصد نکاح سے محروم ہو جانے کی صورت میں پورا نہ ہو سکتا تھا ۔ دوسری طرف آیت کا منشا یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جن ازواج نے اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو پسند کر لیا انہیں طلاق دینے کا اختیار حضور ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لیے باقی نہ رہا ، کیونکہ تخییر کے دو ہی پہلو تھے ۔ ایک یہ کہ دنیا کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جدا کر دیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کرتی ہو تو تمہیں جدا نہ کیا جائے ۔ اب ظاہر ہے کہ ان میں سے جو پہلو بھی کوئی خاتون اختیار کرتیں ان کے حق میں دوسرا پہلو آپ سے آپ ممنوع ہو جاتا تھا ۔ اسلامی فقہ میں تخییر دراصل تفویض طلاق کی حیثیت رکھتی ہے ۔ یعنی شوہر اس ذریعہ سے بیوی کو اختیار دے دیتا ہے کہ چاہے تو اس کے نکاح میں رہے ورنہ الگ ہو جائے ۔ اس مسئلہ میں قرآن و سنت سے استنباط کر کے فقہاء نے جو احکام بیان کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے : ۱ ۔ یہ اختیار ایک دفعہ عورت کو دے دینے کے بعد شوہر نہ تو اسے واپس لے سکتا ہے اور نہ عورت کو اس کے استعمال سے روک سکتا ہے ۔ البتہ عورت کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس اختیار کو استعمال ہی کرے ۔ وہ چاہے تو شوہر کے ساتھ رہنے پر رضا مندی ظاہر کر دے ، چاہے علیٰحدگی کا اعلان کر دے ، اور چاہے تو کسی چیز کا اظہار نہ کرے اور اس اختیار کو یونہی ضائع ہو جانے دے ۔ ۲ ۔ اس اختیار کے عورت کی طرف منتقل ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں ۔ اول یہ کہ شوہر نے یا تو اسے صریح الفاظ میں طلاق کا اختیار دیا ہو ، یا اگر طلاق کی تصریح نہ کی ہو تو پھر اس کی نیت یہ اختیار دینے کی ہو ۔ مثلاً اگر وہ کہے تجھے اختیار ہے یا تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ۔ تو اس طرح کے کنایات میں شوہر کی نیت کے بغیر طلاق کا اختیار عورت کی طرف منتقل نہ ہو گا ۔ اگر عورت اس کا دعویٰ کرے اور شوہر بحلف یہ بیان دے کہ اس کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی نہ تھی تو شوہر کا بیان قبول کیا جائے گا ۔ اِلّا یہ کہ عورت اس امر کی شہادت پیش کر دے کہ یہ الفاظ ناچاقی اور جھگڑے کی حالت میں ، یا طلاق کی باتیں کرتے ہوئے کہے گئے تھے ، کیونکہ اس سیاق و سباق میں اختیار دینے کے معنی یہی سمجھے جائیں گے کہ شوہر کی نیت طلاق کا اختیار دینے کی تھی ۔ ۔ دوم یہ کہ عورت کو معلوم ہو کہ یہ اختیار اسے دیا گیا ہے ۔ اگر وہ غائب ہو تو اسے اس کی اطلاع ملنی چاہیے ، اور اگر موجود ہو تو اسے یہ الفاظ سننے چاہییں ۔ جب تک وہ سنے نہیں ، یا اسے اس کی خبر نہ پہنچے اختیار اس کی طرف منتقل نہ ہو گا ۔ ۳ ۔ اگر شوہر کسی وقت کی تعیین کے بغیر مطلقاً اس کو اختیار دے تو عورت اس اختیار کو کب تک استعمال کر سکتی ہے ؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ جس نشست میں شوہر اس سے یہ بات کہے اسی نشست میں عورت اپنا اختیار استعمال کر سکتی ہے ۔ اگر وہ کوئی جواب دیے بغیر وہاں سے اٹھ جائے ، یا کسی ایسے کام میں مشغول ہو جائے جو اس بات پر دلالت کرتا ہو کہ وہ جواب نہیں دینا چاہتی ، تو اس کا اختیار باطل ہو جائے گا ۔ یہ رائے حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت ابن مسعود ، حضرت جابر بن عبد اللہ ، جابر بن زید ، عطاء ، مجاہر ، شَعبِی ، نَخَعِی ، امام مالک ، امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام اَوزاعی ، سفیان ثَوری اور ابو ثَور رضی اللہ عنہم کی ہے ۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس کا اختیار اس نشست تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ اس کے بعد بھی اسے استعمال کر سکتی ہے ۔ یہ رائے حضرت حَسَن بصری ، قتَادہ اور زُہْری کی ہے ۔ ٤ ۔ اگر شوہر وقت کی تعیین کر دے ، مثلاً کہے کہ ایک مہینے یا ایک سال تک تجھے اختیار ہے ، یا اتنی مدت تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو یہ اختیار اسی مدت تک اس کو حاصل رہے گا ۔ البتہ اگر وہ کہے کہ تو جب چاہے اس اختیار کو استعمال کر سکتی ہے تو اس صورت میں اس کا اختیار غیر محدود ہو گا ۔ ۵ ۔ عورت اگر علیٰحدگی اختیار کرنا چاہے تو اسے واضح اور قطعی الفاظ میں اس کا اظہار کرنا چاہیے ۔ مبہم الفاظ جن سے مدعا واضح نہ ہوتا ہو ، مؤثر نہیں ہو سکتے ۔ ٦ ۔ قانوناً شوہر کی طرف سے عورت کو اختیار دینے کے تین صیغے ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ وہ کہے تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے ۔ دوسرے یہ کہ وہ کہے تجھے اختیار ہے تیسرے یہ کہ وہ کہے تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے ۔ ان میں سے ہر ایک کے قانونی نتائج الگ الگ ہیں : الف ۔ تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے کے الفاظ اگر شوہر نے کہے ہوں اور عورت اس کے جواب میں کوئی صریح بات ایسی کہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ علیٰحدگی اختیار کرتی ہے تو حنفیہ کے نزدیک ایک طلاق بائن پڑ جائے گی ( یعنی اس کے بعد شوہر کو رجوع کا حق نہ ہو گا ، لیکن عدت گزر جانے پر یہ دونوں پھر چاہیں تو باہم نکاح کر سکتے ہیں ) ۔ اور اگر شوہر نے کہا ہو کہ ایک طلاق کی حد تک تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے تو اس صورت میں ایک طلاق رجعی پڑے گی ( یعنی عدت کے اندر شوہر رجوع کر سکتا ہے ) لیکن اگر شوہر نے معاملہ عورت کے ہاتھ میں دیتے ہوئے تین طلاق کی نیت کی ہو ، یا اس کی تصریح کی ہو تو اس صورت میں عورت کا اختیار طلاق ہی کا ہم معنی ہو گا خواہ وہ بصراحت اپنے اوپر تین طلاق وارد کرے یا صرف ایک بار کہے کہ میں نے علیٰحدگی اختیار کی یا اپنے آپ کو طلاق دی ۔ ب ۔ تجھے اختیار ہے کے الفاظ کے ساتھ اگر شوہر نے عورت کو علیٰحدگی کا اختیار دیا ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرنے کی تصریح کر دے تو حنفیہ کے نزدیک ایک ہی طلاق بائن پڑے گی خواہ شوہر کی نیت تین طلاق کا اختیار دینے کی ہو ، البتہ اگر شوہر کی طرف سے تین طلاق کا اختیار دینے کی تصریح ہو تب عورت کے اختیار طلاق سے تین طلاقیں واقع ہوں گی ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اگر شوہر نے اختیار دیتے ہوئے طلاق کی نیت کی ہو اور عورت علیٰحدگی اختیار کرے تو ایک طلاق رجعی واقع ہو گی ۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک مدخولہ بیوی پر تین طلاقیں پڑ جائیں گی لیکن اگر غیر مدخولہ کے معاملہ میں شوہر ایک طلاق کی نیت کا دعویٰ کرے تو اسے قبول کر لیا جائے گا ۔ ج ۔ تجھے طلاق ہے اگر تو چاہے کہنے کی صورت میں اگر عورت طلاق کا اختیار استعمال کرے تو طلاق رجعی ہو گی نہ کہ بائن ۔ ۷ ۔ اگر مرد کی طرف سے علیٰحدگی کا اختیار دیے جانے کے بعد عورت اسی کی بیوی بن کر رہنے پر اپنی رضا مندی ظاہر کر دے تو کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۔ یہی رائے حضرت عمر ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عائشہ ، حضرت ابو الدرداء ، ابن عباس ، اور ابن عمر رضی اللہ عنہم ، کی ہے اور اسی رائے کو جمہور فقہاء نے اختیار کیا ہے ۔ حضرت عائشہ سے مسروق نے یہ مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا : خیّر رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نساءہ فاخترنہ اکان ذٰلک طلاقاً؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو اختیار دیا تھا اور انہوں نے حضور ہی کے ساتھ رہنا پسند کر لیا تھا ، پھر کیا اسے طلاق شمار کیا گیا ؟ اس معاملہ میں صرف حضرت علی اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما کی یہ رائے منقول ہوئی ہے کہ ایک طلاق رجعی واقع ہو گی ۔ لیکن دوسری روایت ان دونوں بزرگوں سے بھی یہی ہے کہ کوئی طلاق واقع نہ ہو گی ۔
23: ان آیت کا پس منظر یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات یوں تو ہر قسم کے سرد و گرم حالات میں بڑی استقامت سے آپ کا ساتھ دیتی آئی تھیں، لیکن جنگ احزاب اور جنگ بنو قریظہ میں فتوحات کے بعد مسلمانوں کو کچھ مالی خوش حالی حاصل ہوئی تو ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جس تنگی ترشی میں وہ اب تک گذارہ کرتی رہی ہیں، اب اس میں کچھ تبدیلی آنی چاہئے، چنانچہ ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس خیال کا ذکر بھی کردیا، اور یہ مثال بھی دی کہ قیصر و کسری کی بیگمات بڑی سج دھج کے ساتھ رہتی ہیں، ان کی خدمت کے لیے کنیزیں موجود ہیں، اب جبکہ مسلمانوں میں خوشحالی آ چکی ہے، ہمارے نفقے میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔ اگرچہ ازواج مطہرات کے دل میں مالی وسعت کی خواہش پیدا ہونا کوئی گناہ کی بات تھی، لیکن اول تو پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج ہونے کی حیثیت سے یہ مطالبہ ان کے شایان شان نہیں سمجھا گیا۔ دوسرے شاید بادشاہوں کی بیگمات کی مثال دینے سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچی کہ وہ اپنے آپ کو ان بیگمات پر قیاس کر رہی ہیں۔ اس لے قرآن کریم کی ان آیات نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی کہ آپ ازواج مطہرات سے یہ بات اچھی طرح صاف کرلیں کہ اگر پیغمبر کے ساتھ رہنا ہے تو اپنے سوچنے کا یہ انداز بدلنا ہوگا، دوسری عورتوں کی طرح ان کا مطمح نظر دنیا کی سج دھج نہیں ہونی چاہئے، بلکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اور اس کے نتیجے میں آخرت کی بھلائی ہونی چاہئے۔ اور ساتھی ہی ان پر یہ بات بھی واضح کردی گئی کہ اگر وہ دنیا کی زیب و زینت کو پسند کریں گی تو پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ان کو کھلا اختیار ہے کہ وہ آپ سے علیحدگی اختیار کرلیں۔ اس صورت میں بھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں کسی تلخی کے ساتھ نہیں، بلکہ سنت کے مطابق جوڑوں وغیرہ کے تحفے دے کر خوش اسلوبی سے رخصت فرمائیں گے۔ چنانچہ ان آیات کے احکام کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کو یہ پیشکش فرمائی اور تمام ازواج نے اس کے جواب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنے ہی کو پسند کیا، خواہ اس کے لیے کیسی تنگی ترشی برداشت کرنی پڑے۔