Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

امہات المومنین سب سے معزز قرار دے دی گئیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے یعنی مومنوں کی ماؤں نے جب اللہ کو اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آخرت کے پہلے گھر کو پسند کر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں وہ ہمیشہ کے لئے مقرر ہو چکیں ۔ تو اب جناب باری عز اسمہ اس آیت میں انہیں وعظ فرما رہا ہے اور بتلا دیا ہے کہ تمہارا معاملہ عام عورتوں جیسا نہیں ہے ۔ اگر بالفرض تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری سے سرتابی اور بدخلقی سرزد ہوئی تو تمہیں دنیا اور آخرت میں عتاب ہوگا چونکہ تمہارے بڑے رتبے ہیں تمہیں گناہوں سے بالکل دور رہنا چاہئے ۔ ورنہ رتبے کے مطابق مشکل بھی بڑھ جائے گی ۔ اللہ پر سب باتیں سہل اور آسان ہیں ۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ فرمان بطور شرط کے ہے اور شرط کا ہونا ضروری نہیں ہوتا جیسے فرمان ہے آیت ( لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ 65؀ ) 39- الزمر:65 ) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے اعمال اکارت ہو جائیں گے ۔ نبیوں کا ذکر کر کے فرمایا آیت ( وَلَوْ اَشْرَكُوْا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ 88؀ ) 6- الانعام:88 ) اگر یہ شرک کریں تو ان کی نیکیاں بیکار ہو جائیں اور آیت میں ہے ( قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ 81؀ ) 43- الزخرف:81 ) اگر رحمان کے اولاد ہو تو میں تو سب سے پہلے عابد ہوں اور آیت میں ارشاد ہو رہا ہے ( لَوْ اَرَادَ اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ ۙ سُبْحٰنَهٗ ۭ هُوَ اللّٰهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ Ć۝ ) 39- الزمر:4 ) یعنی اگر اللہ کو اولاد منظور ہوتی تو وہ اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا پسند فرما لیتا وہ پاک ہے وہ یکتا اور ایک ہے وہ غالب اور سب پر حکمران ہے پس ان پانچوں آیتوں میں شرط کے ساتھ بیان ہے لیکن ایسا ہوا نہیں ۔ نہ نبیوں سے شرک ہونا ممکن نہ سردار رسولاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ممکن ۔ نہ اللہ کی اولاد ۔ اسی طرح امہات المومنین کی نسبت بھی جو فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی کھلی لغو حرکت کرے تو اسے دگنی سزا ہوگی اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ واقعی ان میں سے کسی نے کوئی ایسی نافرمانی اور بدخلقی کی ہو ۔ نعوذ باللہ

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

301قرآن میں الفَاحِشَۃُ (مُعَرَّف بلام) کو زنا کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے لیکن فاحِشَۃ (نکرہ) کو برائی کے لئے، جیسے یہاں ہے۔ یہاں اس کے معنی بد اخلاقی اور نامناسب رویے کے ہیں۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بد اخلاقی اور نامناسب رویہ، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچانا ہے جس کا ارتکاب کفر ہے۔ علاوہ ازیں ازواج مطہرات (رض) خود بھی مقام بلند کی حامل تھیں اور بلند مرتبہ لوگوں کی معمولی غلطیاں بڑی شمار ہوتی ہیں، اس لئے انھیں دوگنے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٢] نبی کی بیویوں کا مقام :۔ نبی کی بیویوں کا مقام عام عورتوں سے بہت بلند ہے کیونکہ وہ امہات المومنین ہیں۔ جس طرح نبی کی ذات مومنوں کے لئے نمونہ ہے۔ اسی طرح نبی کا گھر اور اس کی بیویاں بھی سب کے لئے نمونہ ہیں۔ اگر نبی کی بیوی کوئی غلطی کرے گی تو اس کو اپنی ہی غلطی کی سزا نہیں ملے گی بلکہ اس کی اقتداء میں جو لوگ بھی وہ غلطی کریں گے ان سب کی سزا سے حصہ رسدی اسے بھی ملے گا۔ لہذا اس کی سزا عام لوگوں کی سزا سے دوگنی بلکہ بہت زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔- اس آیت میں (بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ 19؀) 4 ۔ النسآء :19) سے مراد زنا ہے اور یہ بفرض تسلیم ہے جس طرح اللہ نے اپنے پیارے نبی کو فرمایا کہ اگر تم بھی شرک کرو تو تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں گے تو جس طرح آپ سے شرک کا صدور ممکن نہیں اسی طرح نبی کی بیویوں سے زنا کا ارتکاب ممکن نہیں۔ اور یہ انداز خطاب تاکید مزید کے طور پر اختیار کیا گیا ہے۔- [ ٤٣] یعنی اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھے گا کہ اگر تم کوئی برا کام کرو تو تمہیں نبی کی بیویاں سمجھ کر چھوڑ دیا جائے بلکہ عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہوگا کہ تمہیں دوسروں سے دگنی سزا دی جائے اور انللہ اس پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَةٍ ۔۔ : قاموس میں ہے : ” اَلْفَاحِشَۃُ الزِّنَا وَمَا یَشْتَدُّ قَبْحُہُ مِنَ الذُّنُوْبِ وَ کُلُّ مَا نَھَی اللّٰہُ عَنْہُ “ یعنی ” فاحشہ کا معنی ہے زنا اور وہ گناہ جو سخت قبیح ہوں اور ہر وہ چیز جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ “ قرآن مجید میں ” اَلْفَاحِشَۃُ “ (خاص بےحیائی، معرف باللام) کا لفظ زنا کے لیے آیا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ ) [ النساء : ١٥ ] ” اور تمہاری عورتوں میں سے جو بدکاری کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے میں سے چار مرد گواہ طلب کرو۔ “ جبکہ ” فَاحِشَۃٌ“ (نکرہ) سے مراد کوئی بھی گناہ ہوتا ہے اور ” فَاحِشَۃٌ مُّبَیِِّنَۃٌ“ سے مراد فحش کلامی، بد خلقی، ایذا رسانی یا کوئی بھی علانیہ گناہ لیا گیا ہے، جس میں زنا بھی شامل ہے۔ دیکھیے سورة نساء (١٩) یہاں سے امہات المومنین کو ادب سکھانے کے لیے چند نصیحتیں کی گئیں ہیں، کیونکہ وہ امت کے لیے نمونہ ہیں۔ فرمایا، اے نبی کی بیویو تم میں سے جو کھلی بےحیائی عمل میں لائے گی اس کا عذاب دگنا بڑھایا جائے گا، یعنی تم میں سے جو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بدخلقی یا فحش کلامی یا ایذا رسانی کا معاملہ کرے گی اسے دگنا عذاب دیا جائے گا، کیونکہ جس کا مقام جتنا بلند ہوتا ہے نافرمانی کی صورت میں اسے سزا بھی اتنی سخت ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کی طرف مائل ہونے کی صورت میں فرمایا : (اِذًا لَّاَذَقْنٰكَ ضِعْفَ الْحَيٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ) [ بني إسرائیل : ٧٥ ] ” اس وقت ہم ضرور تجھے زندگی کے دگنے اور موت کے دگنے (عذاب) کا مزہ چکھاتے۔ “ - الوسیط (للطنطاو ی) میں لکھا ہے : ” کسی نے حسین (رض) کے بیٹے علی زین العابدین سے کہا، تم اہل بیت تو بخشے بخشائے ہو۔ تو وہ غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ ہم پر تو وہ قانون زیادہ لاگو ہونا چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں پر لاگو کیا کہ ہمارے برائی کرنے والے کو دگنا عذاب ہو اور ہمارے نیکی کرنے والے کو دگنا ثواب ہو۔ “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں سے گناہ کے ارتکاب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی حرف آتا تھا اور یہ آپ کے لیے سخت تکلیف کا باعث ہوتا، جو عام مسلمانوں کو تکلیف پہنچانے سے بڑا گناہ اور اللہ تعالیٰ کی لعنت کا باعث ہے، فرمایا : (اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا ) [ الأحزاب : ٥٧ ] ” بیشک وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں اللہ نے ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کیا۔ “- ” بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ “ کا لفظ نکرہ ہونے کی وجہ سے عام ہے، اس لیے اس سے بد خلقی، فحش کلامی کے علاوہ زنا بھی مراد ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں سوال اٹھتا ہے کہ معاذ اللہ، کیا ازواج مطہرات سے برائی کا اندیشہ تھا ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ جملہ شرطیہ ہے، واقع میں ایسا ہونا ضروری نہیں، مقصود صرف ازواج مطہرات کے مرتبے کے پیش نظر ان کو گناہ کے ارتکاب کی صورت میں دگنے عذاب سے خبردار کرنا ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے بھی بڑے، بلکہ تمام گناہوں سے بڑے گناہ کے انجام سے خبردار کرتے ہوئے فرمایا : (وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ ۚ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ) [ الزمر : ٦٥ ] ” اور بلاشبہ یقیناً تیری طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو تجھ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر تو نے شریک ٹھہرایا تو یقیناً تیرا عمل ضرور ضائع ہوجائے گا اور تو ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہوجائے گا۔ “ اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یا پہلے انبیاء سے شرک کے ارتکاب کا اندیشہ تھا۔- وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللّٰهِ يَسِيْرًا : یعنی تمہیں غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ تم نبی کی بیویاں ہو اور تم پر کوئی گرفت نہ ہوگی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ازواج مطہرات کی ایک خصوصیت اور اس کی وجہ سے ان پر کڑی پابندی :- (آیت) ینساء النبی من یات منکن بفاحشة مبینة یضعف لہا العذاب ضعفین وکان ذلک علیٰ اللہ یسیراً ۔ ومن یقنت منکن للہ و رسولہ وتعمل صالحاً نوتہا اجرہا مرتین الایة)- ان دو آیتوں میں ازواج مطہرات کی یہ خصوصیت بیان فرمائی ہے کہ اگر وہ کوئی گناہ کا کام کریں گی تو ان کو دوسری عورتوں کی نسبت سے دوگنا عذاب دیا جائے گا یعنی ان کا ایک گناہ دو کے قائم مقام قرار دیا جائے گا، اسی طرح اگر وہ نیک عمل کریں گی تو دوسری عورتوں کی نسبت ان کو ثواب بھی دوہرا دیا جائے گا، ان کا ایک نیک عمل دو کے قائم مقام ہوگا۔- یہ آیت ایک حیثیت سے ازواج مطہرات کے لئے ان کے اس عمل کی جزاء ہے جو انہوں نے آیت تخییر نازل ہونے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت پر دنیا کی فراخی کو قربان کردیا۔ اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایک عمل کو دو کا درجہ دے دیا، اور گناہ کی صورت میں دوہرا عذاب بھی ان کی خصوصی فضیلت اور امتیازی شرافت کی وجہ سے ہوا۔ کیونکہ یہ بات عقلی بھی ہے اور نقلی بھی کہ جتنا کسی کا اعزازو احترام ہوتا ہے اتنا ہی اس کی طرف سے غفلت و سرکشی کی سزا بھی بڑھ جاتی ہے۔- ازواج مطہرات پر حق تعالیٰ کے انعامات بڑے ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زوجیت کے لئے انتخاب فرمایا۔ ان کے گھروں میں وحی الہٰی نازل ہوتی رہی تو ان کی ادنیٰ غلطی کوتاہی بھی بڑی ہوگی۔ اگر دوسروں سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذاء پہنچے تو اس سے کہیں زیادہ اشد ہوگا کہ ان سے کوئی بات ایذاء و تکلیف کی سرزد ہو۔ قرآن کریم کے ان الفاظ میں خود اس سبب کی طرف اشارہ ہے۔ (آیت) واذکرن مایتلی فی بیوتکن۔- فائدہ :- ازواج مطہرات کی یہ خصوصیت کہ ان کے عمل کو دوہرا ثواب ملے عام امت کے اعتبار سے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ امت میں کسی فرد یا جماعت کو کسی خصوصیت سے ایسا انعام نہ بخشا جائے کہ اس کو دوہرا ثواب ملے، چناچہ اہل کتاب میں سے جو لوگ مسلمان ہوگئے ان کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد ہے (آیت) اولئک یوتون اجرہم مرتین۔- اور قیصر روم کے نام جو نامہ مبارک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تحریر فرمایا اس میں اس ارشاد قرآنی کی وجہ سے آپ نے قیصر روم کو یہ لکھا کہ یوتک اللہ اجرک مرتین۔ اہل کتاب جو اسلام لے آئیں ان کے متعلق تو خود قرآن میں اجر مرتین کی تصریح ہے۔ اور ایک حدیث اور بھی ہے جس میں تین آدمیوں کے لئے اس طرح دوہرا اجر مذکور ہے اس کی تفصیل سورة قصص میں (آیت) یوتون اجرہم مرتین کے تحت میں لکھی گئی ہے۔- عالم کے عمل صالح کا ثواب بھی دوسروں سے زیادہ ہے اور اس کے گناہ کی سزا بھی زیادہ :- امام ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا کہ جب سبب سے حق تعالیٰ نے ازواج مطہرات کے عمل صالح کا ثواب دوگنا اور ان کی معصیت کا عذاب بھی دوگنا قرار دیا ہے، کہ وہ علوم نبوت اور وحی الہٰی کی خاص مورد ہیں، یہی سبب علماء دین میں بھی موجود ہے۔ اس لئے جو عالم اپنے علم پر عامل بھی ہے اس کو بھی اس عمل کا ثواب دوسروں سے زیادہ ملے گا، اور اگر وہ کوئی گناہ کرے گا تو عذاب بھی دوسروں سے زیادہ ہوگا۔- بفاحشة مبینة، لفظ فاحشہ عربی زبان میں بدکاری اور زنا وغیرہ کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے، اور مطلق معصیت اور گناہ کے لئے بھی یہ لفظ قرآن میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔ اس آیت میں فاحشہ کے لفظ سے بدکاری اور زنا مراد نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے سب پیغمبروں کو ازواج کو اس سخت عیب سے بری فرمایا ہے، تمام انبیاء (علیہم السلام) کی بیبیاں ان کے دین سے منحرف ہوئیں اور سرکشی اختیار کی جس کی سزا ان کو ملی، لیکن بدکاری کا الزام ان میں بھی کسی پر نہیں تھا۔ ازواج مطہرات میں سے کسی بےحیائی و بدکاری کے صدور کا تو احتمال ہی نہ تھا۔ اس لئے اس آیت میں فاحشہ سے مراد عام گناہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء و تکلیف ہے۔ اور اس جگہ فاحشہ کے ساتھ جو لفظ مبینہ آیا ہے یہ اس پر شاید ہے۔ کیونکہ بےحیائی اور بدکاری کہیں بھی مبینہ نہیں ہوتی، وہ تو پردوں میں اخفاء سے کی جاتی ہے۔ فاحشہ مبینہ سے مراد عام گناہ ہیں، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء ؟ آئمہ تفسیر میں سے مقاتل بن سلیمان نے اس آیت میں فاحشہ کا مفہوم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی یا آپ سے کوئی ایسا مطالبہ قرار دیا ہے جس کا پورا کرنا آپ کے لئے شاق ہو۔ (رواہ البیہقی فی السنن)- اور قرآن کریم نے دوہرے عذاب کے سلسلہ میں تو صرف فاحشہ مبینہ پر یہ عذاب مرتب کیا ہے، مگر دوہرے اجر وثواب کے لئے کئی شرطیں رکھی ہیں ومن یقنت منکن للہ و رسولہ وتعمل صالحاً ، اس میں قنوت یعنی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی شرط ہے، پھر عمل صالح شرط ہے۔ سبب یہ ہے کہ اجر وثواب تو اسی وقت ملتا ہے جب اطاعت مکمل ہو اور سزا کے لئے ایک گناہ بھی کافی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ مَنْ يَّاْتِ مِنْكُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَيِّنَۃٍ يُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَيْنِ۝ ٠ ۭ وَكَانَ ذٰلِكَ عَلَي اللہِ يَسِيْرًا۝ ٣٠- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ «5» ، وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ «6» .- والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله :- فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعر :- 5-- أتيت المروءة من بابها - «7» فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) «1» فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته - الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔- فحش - الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] - ( ف ح ش ) الفحش - والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے :- إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ - ضعف ( دوگنا)- ضِّعْفُ هو من الألفاظ المتضایفة التي يقتضي وجود أحدهما وجود الآخر، کالنّصف والزّوج، وهو تركّب قدرین متساويين، ويختصّ بالعدد، فإذا قيل : أَضْعَفْتُ الشیءَ ، وضَعَّفْتُهُ ، وضَاعَفْتُهُ : ضممت إليه مثله فصاعدا . قال بعضهم : ضَاعَفْتُ أبلغ من ضَعَّفْتُ «1» ، ولهذا قرأ أكثرهم : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ، وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] ، وقال : مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام 160] ، والمُضَاعَفَةُ علی قضيّة هذا القول تقتضي أن يكون عشر أمثالها، وقیل : ضَعَفْتُهُ بالتّخفیف ضَعْفاً ، فهو مَضْعُوفٌ ، فَالضَّعْفُ مصدرٌ ، والضِّعْفُ اسمٌ ، کا لثَّنْيِ والثِّنْيِ ، فَضِعْفُ الشیءِ هو الّذي يُثَنِّيهِ ، ومتی أضيف إلى عدد اقتضی ذلک العدد ومثله، نحو أن يقال : ضِعْفُ العشرةِ ، وضِعْفُ المائةِ ، فذلک عشرون ومائتان بلا خلاف، وعلی هذا قول الشاعر :- 293-- جزیتک ضِعْفَ الوِدِّ لمّا اشتکيته ... وما إن جزاک الضِّعف من أحد قبلي - «3» وإذا قيل : أعطه ضِعْفَيْ واحدٍ ، فإنّ ذلک اقتضی الواحد ومثليه، وذلک ثلاثة، لأن معناه الواحد واللّذان يزاوجانه وذلک ثلاثة، هذا إذا کان الضِّعْفُ مضافا، فأمّا إذا لم يكن مضافا فقلت : الضِّعْفَيْنِ فإنّ ذلك يجري مجری الزّوجین في أنّ كلّ واحد منهما يزاوج الآخر،- فيقتضي ذلک اثنین، لأنّ كلّ واحد منهما يُضَاعِفُ الآخرَ ، فلا يخرجان عن الاثنین بخلاف ما إذا أضيف الضِّعْفَانِ إلى واحد فيثلّثهما، نحو : ضِعْفَيِ الواحدِ ، وقوله : فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ 37] ، وقوله : لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران 130] ، فقد قيل : أتى باللّفظین علی التأكيد، وقیل : بل المُضَاعَفَةُ من الضَّعْفِ لا من الضِّعْفِ ، والمعنی: ما يعدّونه ضِعْفاً فهو ضَعْفٌ ، أي : نقص، کقوله : وَما آتَيْتُمْ مِنْ رِباً لِيَرْبُوَا فِي أَمْوالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُوا عِنْدَ اللَّهِ [ الروم 39] ، وکقوله : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة 276] ، وهذا المعنی أخذه الشاعر فقال : زيادة شيب وهي نقص زيادتي وقوله : فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف 38] ، فإنهم سألوه أن يعذّبهم عذابا بضلالهم، وعذابا بإضلالهم كما أشار إليه بقوله : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل 25] ، وقوله : لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف 38] ، أي : لكلّ منهم ضِعْفُ ما لکم من العذاب، وقیل : أي : لكلّ منهم ومنکم ضِعْفُ ما يرى الآخر، فإنّ من العذاب ظاهرا و باطنا، وكلّ يدرک من الآخر الظاهر دون الباطن فيقدّر أن ليس له العذاب الباطن .- ( ض ع ف ) الضعف - الضعف ۔ یہ اسمائے متضایقہ سے ہے یعنی وہ الفاظ جو اپنے مفہوم ومعنی کے تحقیق میں ایک دوسرے پر موقوف ہوتے ہیں جیسے نصف وزوج اور ضعف ( دوگنا) کے معنی ہیں ایک چیز کے ساتھ اس کے مثل کامل جانا اور یہ اسم عدد کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور اضعفت الشئی وضعتہ وضاعفتہ کے معنی ہیں کسی چیز کو دو چند کردینا بعض نے کہا ہے کہ ضاعفت ( مفاعلۃ ) میں ضعفت ( تفعیل ) سے زیادہ مبالغہ پایا جاتا ہے آیت کریمہ : ۔ يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ [ الأحزاب 30] ان کو دگنی سزادی جائے گی ۔ اور آیت : ۔ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضاعِفْها[ النساء 40] اور اگر نیکی ( رکی ) ہوگی تو اس کو دو چند کر دیگا ۔ میں یضاعف ( مفاعلۃ پڑھا ہے اور کہا ہے کہ اس سے نیکیوں کے دس گناہ ہونے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ مَنْ جاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثالِها [ الأنعام 160] سے معلوم ہوتا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ضعفتہ ضعفا فھوا مضعوف ۔ تخفیف عین کے ساتھ آتا ہے اس صورت میں ضعف مصدر ہوگا اور ضعف اسم جیسا کہ شئی اور شئی ہے اس اعتبار سے ضعف الشئی کے معنی ہیں کسی چیز کی مثل اتنا ہی اور جس سے وہ چیز دوگنی ہوجائے اور جب اس کی اضافت اسم عدد کی طرف ہو تو اس سے اتنا ہی اور عدد یعنی چند مراد ہوتا ہے لہذا ضعف العشرۃ اور ضعف المابۃ کے معنی بلا اختلاف بیس اور دو سو کے ہوں گے چناچہ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) جز نیتک ضعف الواد لما اشتیتہ وما ان جزاک الضعف من احد قبلی جب تونے محبت کے بارے میں شکایت کی تو میں نے تمہیں دوستی کا دو چند بدلہ دیا اور مجھ سے پہلے کسی نے تمہیں دو چند بد لہ نہیں دیا ۔ اور اعطہ ضعفی واحد کے معنی یہ ہیں کہ اسے سر چند دے دو کیونکہ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہا یک اور اس کے ساتھ دو اور دے دو اور یہ کل تین ہوجاتے ہیں مگر یہ معنی اس صورت میں ہوں گے جب ضعف کا لفظ مضاعف ہو ورنہ بدوں اضافت کے ضعفین کے معنی تو زوجین کی طرح دوگنا ہی ہوں گے ۔ لیکن جب واحد کی طرف مضاف ہوکر آئے تو تین گنا کے معنی ہوتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ جَزاءُ الضِّعْفِ [ سبأ 37] ایسے لوگوں کو دوگنا بدلہ ملے گا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَآتِهِمْ عَذاباً ضِعْفاً مِنَ النَّارِ [ الأعراف 38] تو ان کی آتش جہنم کا دوگنا عذاب دے ۔ میں دوگنا عذاب مراد ہے یعنی دوزخی بار تعالٰ سے مطالیہ کریں گے کہ جن لوگوں نے ہمیں کمراہ کیا تھا انہیں ہم سے دو گناہ عذاب دیا جائے گا ایک تو انکے خود گمراہ ہونے کا اور دوسرے ، ہمیں گمراہ کرنے کا جیسا کہ آیت کریمہ : لِيَحْمِلُوا أَوْزارَهُمْ كامِلَةً يَوْمَ الْقِيامَةِ وَمِنْ أَوْزارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ [ النحل 25] یہ قیامت کے ادن اپنے اعمال کے پورے بوجھ بھی اٹھائیں گے اور جن کو یہ بےتحقیق گمراہ کرتے ہیں ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے ۔ سے مفہوم ہوتا ہے ۔ پھر اس کے بعد لِكُلٍّ ضِعْفٌ وَلكِنْ لا تَعْلَمُونَ [ الأعراف 38] کہہ کر بتایا کہ ان میں سے ہر ایک کو تم سے دگنا عذاب دیا جائے گا ۔ بعض نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ تم اور ان میں سے ہر ایک کو اس سے دگنا عذاب ہور ہا ہے جتنا کہ دوسرے کو نظر آرہا ہے ۔ کیونکہ عذاب دو قسم پر ہے ظاہری اور باطنی ، ظاہری عذاب تو ایک دوسرے کو نظر آئے گا مگر باطنی عذاب کا ادراک نہیں کرسکیں گے اور سمجھیں گے کہ انہی اندرونی طور پر کچھ بھی عذاب نہیں ہورہا ہے ( حالانکہ وہ باطنی عذاب میں بھی مبتلا ہوں گے ۔ اور آیت ؛لا تَأْكُلُوا الرِّبَوا أَضْعافاً مُضاعَفَةً [ آل عمران 130] بڑھ چڑھ کر سود در سود نہ کھاؤ ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اضعافا کے بعد مضاعفۃ کا لفظ بطور تاکید لایا گیا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ مضاعفۃ کا لفظ ضعف ( بفتح الضاد ) سے ہے جس کے معنی کمی کے ہیں پس آیت کے معنی یہ ہیں کہ سود جسے تم افزونی اور بیشی سمجھ رہے ہو یہ ، دراصل بڑھانا نہیں ہے بلکہ کم کرنا ہے جیسے فرمایا : يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبا وَيُرْبِي الصَّدَقاتِ [ البقرة 276] کہ اللہ تعالیٰ سود کو کم کرتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی کے پیش نظر شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) (286) زیادۃ شیب وھی نقض زیادتی کہ بڑھاپے کی افرزونی دراصل عمر کی کمی ہے - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - يسير - واليَسِيرُ والمَيْسُورُ : السّهلُ ، قال تعالی: فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] واليَسِيرُ يقال في الشیء القلیل، فعلی الأوّل يحمل قوله : يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] ، وقوله : إِنَّ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ [ الحج 70] . وعلی الثاني يحمل قوله : وَما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14]- الیسیر - والمیسور سہل اور آسان قرآن میں ہے : ۔ فَقُلْ لَهُمْ قَوْلًا مَيْسُوراً [ الإسراء 28] تو ان سے نر می سے بات کہدیا کرو ۔ اور کبھی یسیر کے معنی حقیر چیز بھی آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ - يُضاعَفْ لَهَا الْعَذابُ ضِعْفَيْنِ وَكانَ ذلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيراً [ الأحزاب 30] اس کو دونی سزا دی جائیگی اور یہ بات خدا کو آسان ہے میں لفظ یسیرا کے معنی آسان اور سہل کے ہیں اور آیت وما تَلَبَّثُوا بِها إِلَّا يَسِيراً [ الأحزاب 14] اور اس کے لئے بہت کم توقف کریں میں اس کے معنی بہت کم عرصہ کے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

مرتبہ کے لحاظ سے جزاوسزا ہے - قول باری ہے (یا نساء النبی من یات منکن بفاحشۃ مبینۃ یضاعف لھا العذاب ضعفین) اے نبی کی بیویو تم میں سے جو کوئی کھلی ہوئی بیہودگی کرے گی اسے دہری سزا دی جائے گی۔- دہری سزا دینے کے دو مفہوم بیان ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ازواج مطہرات پر دوسری عورتوں کی بہ نسبت اللہ کا زیادہ فضل و انعام تھا، انہیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ہونے کا شرف حاصل تھا، ان کے گھروں میں نزول وحی کا سلسلہ رہتا تھا اور اس کی بنا پر انہیں ایک فضیلت حاصل تھی۔- اس صورت حال کے تحت اگر ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کا اظہار ہوتا تو یہ بات ان کی سزا کی تضعیف کا سبب بن جاتی۔ اس لئے کہ نعمت جس قدر عظیم ہوتی ہے اس کی ناشکری بھی اتنی ہی سنگین ہوتی ہے اور اس بنا پر یہ ناشکرا شخص اتنی ہی زیادہ سزا کا مستحق قرار پاتا ہے، کیونکہ سزا کا استحقان کفر ان نعمت کی سنگینی پر مترتب ہوتا ہے۔- آپ نہیں دیکھتے کہ اگر کوئی شخص اپنے باپ کو طمانچہ ماردیتا ہے تو اس صورت میں جس سزا کا وہ مستحق بن جاتا ہے وہ اس سزا سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے جو اسے کسی اجنبی کو طمانچہ مارنے کی صورت میں ملتی ہے اس لئے کہ اس پر اجنبی کے مقابلہ میں اس کے باپ کا احسان زیادہ ہوتا ہے اس لئے اس احسان ناشناسی کی سزا بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔- آیت کی اس تاویل پر سلسلہ تلاوت میں یہ قول باری دلالت کرتا ہے (واذکرن ما یتلی فی بیوتکن من ایات اللہ والحکمۃ۔ اور تم اللہ کی ان آیتوں اور اس علم کو یادرکھو جو تمہارے گھروں میں پڑھ کر سنائے جاتے رہتے ہیں) یہ بات اس پر دلالت کتری ہے کہ معصیت کی بنا پر ان کی سزا میں تضعیف کی وجہ یہ ہے کہ ان کے گھروں میں اللہ کی آیات کی تلاوت ہوتی رہتی ہے جو ان پر اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اسی بنا پر ان کی طاعات کا درجہ بھی بہت بلند ہے۔- چنانچہ ارشاد ہے (ومن یقنت منکن للہ ورسولہ وتعمل صالحا نو تھا اجرھا مرتین) اور جو کوئی تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور عمل صالح کرتی رہے گی ہم اس کا اجر دہرادیں گے) اس لئے کہ طاعت کی بنا پر اجر کا استحقاق معصیت کی بنا پر سزا کے استحقاق کے بالمقابل ہوتا ہے۔- دہری سزا دینے کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ازواج مطہرات کی طرف سے معصیت کے ارتکاب کی صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت ہوتی کیونکہ یہ چیز آپ کی بدنامی اور رنج وغم کا سبب بن جاتی۔ اور یہ بات تو واضح ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچانے کا جرم دوسروں کو تکلیف پہنچانے کے جرم سے زیادہ سنگین ہوتی ہے۔- ارشاد باری ہے (ان الذین یوذون اللہ ورسولہ لعنھم اللہ فی الدنیا والاخرۃ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے رہتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ لعنت کرتا ہے) پھر ارشاد ہوا (والذین یوذون المومنین والمومنات بغیر ما اکتسبوا فقد احتملوا بھتانا واثما مبینا۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ایذا پہنچاتے رہتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو وہ بہتان اور صریح گناہ کا بار اپنے اوپر لیتے ہیں)- جب اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کی طاعات کا درجہ بلند کرکے ان کے لئے دہرا اجر واجب کردیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اہل علم عامل کا اجر ، غیر اہل علم، عامل کے اجر سے افضل واعظم ہوگا۔ قول باری (واذکرن مایتلی فی بیوتکن من ایات اللہ والحکمۃ) کی اس پر دلالت ہورہی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے نبی کی بیوی جو کوئی تم میں سے کھلی ہوئی بےہودگی کرے گی تو تمہیں دوہری یعنی جلد اور رجم دونوں سزائیں دی جائیں گی اور یہ سزا دینا اللہ تعالیٰ کو آسان ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٠ یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویو تم میں سے جو کوئی (بالفرض) کسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرے گی اسے دوگنا عذاب دیاجائے گا۔ “- وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا ” اور یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ “- یہ نہ سمجھنا کہ آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ہو اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو بچا لیں گے۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کا قانون بہت واضح ہے کہ اگر کسی شخص کے اپنے اعمال درست نہ ہوں تو آخرت میں اسے کوئی دوسرا نہیں بچا سکے گا۔ اس حوالے سے حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کا ذکر قرآن میں کثرت سے آیا ہے۔ سورة التحریم میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی بیوی کے ساتھ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کا ذکر بھی ہے کہ وہ دونوں انبیاء کی بیویاں ہوتے ہوئے بھی عذاب سے نہ بچ سکیں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ جب یہ آیت وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ۔ (الشعراء) نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے تمام خاص و عام کو بلا کر جمع فرمایا اور ایک ایک قبیلے کا نام لے کر اس کے افراد کو مخاطب فرمایا : (یا بنی کعب بن لوی … یا بنی مُرۃ بن کعب … یا بنی عبد شمس … یا بنی عبد مناف … یا بنی ہاشم … یا بنی عبدالمطلب ) اور ہر ایک کو یہی فرمایا : (اَنْقِذُوْا اَنْفُسَکُمْ مِنَ النَّارِ ) ” اپنے آپ کو آگ سے بچائو “ آخر میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہراء (رض) کو مخاطب کرتے ہوئے بھی یہی فرمایا : (یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ ، فَاِنِّیْ لَا اَمْلِکُ لَـکُمْ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) ” اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ اپنے آپ کو آگ سے بچائو اس لیے کہ میں تم لوگوں کو اللہ کی گرفت سے بچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا۔ “ (صحیح مسلم ‘ ح : ٢٠٤)- دوسری روایت کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے خاندان کے افراد کو بھی نام لے لے کر مخاطب فرمایا : (یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا ، یَا فَاطِمَۃُ بِنْتَ رَسُوْلِ اللّٰہِ سَلِینِیْ بِمَا شِئْتِ ، لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا) (صحیح مسلم ‘ ح : ٢٠٦) ” اے (میرے چچا) عباس بن عبدالمطلب میں اللہ کے محاسبے کے وقت آپ کے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ میں اللہ کے محاسبے کے وقت آپ کے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ اے اللہ کے رسول کی بیٹی فاطمہ مجھ سے جو چاہو مانگ لو ‘ لیکن میں اللہ کے محاسبے کے وقت تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔ “- یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آیت قرآنی کے الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ ‘ معاذ اللہ ‘ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواجِ مطہرات سے کسی بےحیائی کا اندیشہ تھا ‘ بلکہ اس سے مقصود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کو یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں ان کا مقام جس قدر بلند ہے اسی کے لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت سخت ہیں ‘ اس لیے ان کا اخلاقی رویہ انتہائی پاکیزہ ہونا چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :43 اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے کسی فحش حرکت کا اندیشہ تھا ۔ بلکہ اس سے مقصود حضور کی ازواج کو یہ احساس دلانا تھا کہ اسلامی معاشرے میں ان کا مقام جس قدر بلند ہے اسی کے لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت سخت ہیں ، اس لیے ان کا اخلاقی رویہ انتہائی پاکیزہ ہونا چاہیے ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لِئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ ، اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا سب کیا کرایا برباد ہو جائے گا ( الزمر ۔ آیت ٦۵ ) اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ حضور سے شرک کا کوئی اندیشہ تھا ، بلکہ اس سے مقصود حضور کو اور آپ کے واسطہ سے عام انسانوں کو یہ احساس دلانا تھا کہ شرک کتنا خطرناک جرم ہے جس سے سخت احتراز لازم ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :44 یعنی تم اس بھلاوے میں نہ رہنا کہ نبی کی بیویاں ہونا تمہیں اللہ کی پکڑ سے بچا سکتا ہے ، یا تمہارے مرتبے کچھ ایسے بلند ہیں کہ ان کی وجہ سے تمہیں پکڑنے میں اللہ کو کوئی دشواری پیش آ سکتی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani