Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ارشادات الٰہی کی روشنی میں اسوہ امہات المومنین اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو آداب سکھاتا ہے اور چونکہ تمام عورتیں انہی کے ماتحت ہیں ۔ اس لئے یہ احکام سب مسلمان عورتوں کے لئے ہیں پس فرمایا کہ تم میں سے جو پرہیزگاری کریں وہ بہت بڑی فضیلت اور مرتبے والی ہیں ۔ مردوں سے جب تمہیں کوئی بات کرنی پڑے تو آواز بنا کر بات نہ کرو کہ جن کے دلوں میں روگ ہے انہیں طمع پیدا ہو ۔ بلکہ بات اچھی اور مطابق دستور کرو ۔ پس عورتوں کو غیر مردوں سے نزاکت کے ساتھ خوش آوازی سے باتیں کرنی منع ہیں ۔ گھل مل کر وہ صرف اپنے خاوندوں سے ہی کلام کر سکتی ہیں ۔ پھر فرمایا بغیر کسی ضروری کام کے گھر سے باہر نہ نکلو ۔ مسجد میں نماز کے لئے آنا بھی شرعی ضرورت ہے جیسے کہ حدیث میں ہے اللہ کی لونڈیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو ۔ لیکن انہیں چاہئے کہ سادگی سے جس طرح گھروں میں رہتی ہیں اسی طرح آئیں ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کے لئے ان کے گھر بہتر ہیں ۔ بزار میں ہے کہ عورتوں نے حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جہاد وغیرہ کی کل فضیلتیں مرد ہی لے گئے ۔ اب آپ ہمیں کوئی ایسا عمل بتائیں جس سے ہم مجاہدین کی فضیلت کو پا سکیں ۔ آپ نے فرمایا تم میں سے جو اپنے گھر میں پردے اور عصمت کے ساتھ بیٹھی رہے وہ جہاد کی فضیلت پا لے گی ۔ ترمذی وغیرہ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں عورت سر تا پا پردے کی چیز ہے ۔ یہ جب گھر سے باہر قدم نکالتی ہے تو شیطان جھانکنے لگتا ہے ۔ یہ سب سے زیادہ اللہ کے قریب اس وقت ہوتی ہے جب یہ اپنے گھر کے اندرونی حجرے میں ہو ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے عورت کی اپنے گھر کی اندرونی کوٹھڑی کی نماز گھر کی نماز سے افضل ہے اور گھر کی نماز صحن کی نماز سے بہتر ہے ۔ جاہلیت میں عورتیں بےپردہ پھرا کرتی تھیں اب اسلام بےپردگی کو حرام قرار دیتا ہے ۔ ناز سے اٹھلا کر چلنا ممنوع ہے ۔ دوپٹہ گلے میں ڈال لیا لیکن اسے لپیٹا نہیں جس سے گردن اور کانوں کے زیور دوسروں کو نظر آئیں ، یہ جاہلیت کا بناؤ سنگھار تھا جس سے اس آیت میں روکا گیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت نوح اور حضرت ادریس کی دو نسلیں آباد تھیں ۔ ایک تو پہاڑ پر دوسرے نرم زمین پر ۔ پہاڑیوں کے مرد خوش شکل تھے عورتیں سیاہ فام تھیں اور زمین والوں کی عورتیں خوبصورت تھیں اور مردوں کے رنگ سانولے تھے ۔ ابلیس انسانی صورت اختیار کر کے انہیں بہکانے کے لئے نرم زمین والوں کے پاس آیا اور ایک شخص کا غلام بن کر رہنے لگا ۔ پھر اس نے بانسری وضع کی ایک چیز بنائی اور اسے بجانے لگا اس کی آواز پر لوگ لٹو ہوگئے اور پھر بھیڑ لگنے لگی اور ایک دن میلے کا مقرر ہو گیا جس میں ہزارہا مرد و عورت جمع ہونے لگے ۔ اتفاقاً ایک دن ایک پہاڑی آدمی بھی آ گیا اور ان کی عورتوں کو دیکھ کر واپس جا کر اپنے قبیلے والوں میں اس کے حسن کا چرچا کرنے لگا ۔ اب وہ لوگ بکثرت آنے لگے اور آہستہ آہستہ ان عورتوں مردوں میں اختلاط بڑھ گیا اور بدکاری اور زنا کاری کا عام رواج ہو گیا ۔ یہی جاہلیت کا بناؤ ہے جس سے یہ آیت روک رہی ہے ۔ ان کاموں سے روکنے کے بعد اب کچھ احکام بیان ہو رہے ہیں کہ اللہ کی عبادت میں سب سے بڑی عبادت نماز ہے اس کی پابندی کرو اور بہت اچھی طرح سے اسے ادا کرتی رہو ۔ اسی طرح مخلوق کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو ۔ یعنی زکوٰۃ نکالتی رہو ۔ ان خاص احکام کی بجا آوری کا حکم دے کر پھر عام طور پر اللہ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا ۔ پھر فرمایا اس اہل بیت سے ہر قسم کے میل کچیل کو دور کرنے کا ارادہ اللہ تعالیٰ کا ہو چکا ہے وہ تمہیں بالکل پاک صاف کر دے گا ۔ یہ آیت اس بات پر نص ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ان آیتوں میں اہل بیت میں داخل ہیں ۔ اس لئے کہ یہ آیت انہی کے بارے میں اتری ہے ۔ آیت کا شان نزول تو آیت کے حکم میں داخل ہوتا ہی ہے گو بعض کہتے ہیں کہ صرف وہی داخل ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں وہ بھی اور اس کے سوا بھی ۔ اور یہ دوسرا قول ہی زیادہ صحیح ہے ۔ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ تو بازاروں میں منادی کرتے پھرتے تھے کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں ہی کے بارے میں خالصتاً نازل ہوئی ہے ( ابن جریر ) ابن ابی حاتم میں حضرت عکرمہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو چاہے مجھ سے مباہلہ کر لے ۔ یہ آیت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ اس قول سے اگر یہ مطلب ہے کہ شان نزول یہی ہے اور نہیں ، تو یہ تو ٹھیک ہے اور اگر اس سے مراد یہ ہے کہ اہل بیت میں اور کوئی ان کے سوا داخل ہی نہیں تو اس میں نظر ہے اس لئے کہ احادیث سے اہل بیت میں ازواج مطہرات کے سوا اوروں کا داخل ہونا بھی پایا جاتا ہے ۔ مسند احمد اور ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لئے جب نکلتے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے پر پہنچ کر فرماتے اے اہل بیت نماز کا وقت آ گیا ہے پھر اسی آیت تطہیر کی تلاوت کرتے ۔ امام ترمذی اسے حسن غریب بتلاتے ہیں ۔ ابن جریر کی ایک اسی حدیث میں سات مہینے کا بیان ہے ۔ اس میں ایک راوی ابو داؤد اعمی نفیع بن حارث کذاب ہے ۔ یہ روایت ٹھیک نہیں ۔ مسند میں ہے شد اد بن عمار کہتے ہیں میں ایک دن حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گیا اس وقت وہاں کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور حضرت علی کا ذکر ہو رہا تھا ۔ وہ آپ کو برا بھلا کہہ رہے تھے میں نے بھی ان کا ساتھ دیا جب وہ لوگ گئے تو مجھ سے سے حضرت واثلہ نے فرمایا تو نے بھی حضرت علی کی شان میں گستا خانہ الفاظ کہے؟ میں نے کہا ہاں میں نے بھی سب کی زبان میں زبان ملائی ۔ تو فرمایا سن میں نے جو دیکھا ہے تجھے سناتا ہوں ۔ میں ایک مرتبہ حضرت علی کے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں گئے ہوئے ہیں ۔ میں ان کے انتظار میں بیٹھا رہا تھوڑی دیر میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ رہے ہیں اور آپ کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی ہیں دونوں بچے آپ کی انگلی تھامے ہوئے تھے آپ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تو اپنے سامنے بٹھا لیا اور دونوں نواسوں کو اپنے گھٹنوں پر بٹھا لیا اور ایک کپڑے سے ڈھک لیا پھر اسی آیت کی تلاوت کر کے فرمایا اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت اور میرے اہل بیت زیادہ حقدار ہیں ۔ دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے یہ دیکھ کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ کی اہل بیت میں سے ہوں؟ آپ نے فرمایا تو بھی میرے اہل میں سے ہے ۔ حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان میرے لئے بہت ہی بڑی امید کا ہے اور روایت میں ہے حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جب حضرت علی حضرت فاطمہ حضرت حسن حضرت حسین رضی اللہ عنہم اجمعین آئے آپ نے اپنی چادر ان پر ڈال کر فرمایا اے اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں یا اللہ ان سے ناپاکی کو دور فرما اور انہیں پاک کر دے ۔ میں نے کہا میں بھی؟ آپ نے فرمایا ہاں تو بھی ۔ میرے نزدیک سب سے زیادہ میرا مضبوط عمل یہی ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے جب حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حریرے کی ایک پتیلی بھری ہوئی لائیں ۔ آپ نے فرمایا اپنے میاں کو اور اپنے دونوں بچوں کو بھی بلا لو ۔ چنانچہ وہ بھی آ گئے اور کھانا شروع ہوا آپ اپنے بستر پر تھے ۔ خیبر کی ایک چادر آپ کے نیچے بچھی ہوئی تھی ۔ میں حجرے میں نماز ادا کر رہی تھی جب یہ آیت اتری ۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر انہیں اڑھا دی اور چادر میں سے ایک ہاتھ نکال کر آسمان کی طرف اٹھا کر یہ دعا کی کہ الٰہی یہ میرے اہل بیت اور حمایتی ہیں تو ان سے ناپاکی دور کر اور انہیں ظاہر کر میں نے اپنا سر گھر میں سے نکال کر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی آپ سب کے ساتھ ہوں آپ نے فرمایا یقینا تو بہتری کی طرف ہے فی الواقع تو خیر کی طرف ہے ۔ اس روایت کے روایوں میں عطا کے استاد کا نام نہیں جو معلم ہو سکے کہ وہ کیسے راوی ہیں باقی راوی ثقہ ہیں ۔ دوسری سند سے انہی حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ان کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آیا تو آپنے فرمایا آیت تطہیر تو میرے گھر میں اتری ہے ۔ آپ میرے ہاں آئے اور فرمایا کسی اور کو آنے کی اجازت نہ دینا ۔ تھوڑی دیر میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آئیں ۔ اب بھلا میں بیٹی کو باپ سے کیسے روکتی؟ پھر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو نواسے کو نانا سے کون روکے؟ پھر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے میں نے انہیں بھی نہ روکا ۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے میں انہیں بھی نہ روک سکی ۔ جب یہ سب جمع ہو گئے تو جو چادر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھے ہوئے تھے اسی میں ان سب کو لے لیا اور کہا الٰہی یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے پلیدی دور کر دے اور انہیں خوب پاک کر دے ۔ پس یہ آیت اس وقت اتری جبکہ یہ چادر میں جمع ہو چکے تھے میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی؟ لیکن اللہ جانتا ہے آپ اس پر خوش نہ ہوئے اور فرمایا تو خیر کی طرف ہے ۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ میرے گھر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے جب خادم نے آ کر خبر کی کہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آ گئے ہیں تو آپ نے مجھ سے فرمایا ایک طرف ہو جاؤ میرے اہل بیت آ گئے ہیں ۔ میں گھر کے ایک کونے میں بیٹھ گئی جب دونوں ننھے بچے اور یہ دونوں صاحب تشریف لائے ۔ آپ نے دونوں بچوں کو گودی میں لے لیا اور پیار کیا پھر ایک ہاتھ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن میں دوسرا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی گردن میں ڈال کر ان دونوں کو بھی پیار کیا اور ایک سیاہ چادر سب پر ڈال کر فرمایا یا اللہ تیری طرف نہ کہ آگ کی طرف میں اور میری اہل بیت ۔ میں نے کہا میں بھی؟ فرمایا ہاں تو بھی ۔ اور روایت میں ہے کہ میں اس وقت گھر کے دروازے پر بیٹھی ہوئی تھی اور میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟ آپ نے فرمایا تو بھلائی کی طرف ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں سے ہے اور روایت میں ہے میں نے کہا مجھے بھی ان کے ساتھ شامل کر لیجئے تو فرمایا تو میری اہل ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سیاہ چادر اوڑھے ہوئے ایک دن صبح ہی صبح نکلے اور ان چاروں کو اپنی چادر تلے لے کر یہ آیت پڑھی ( مسلم وغیرہ ) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ایک مرتبہ کسی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تھے ان کے گھر میں آپ کی صاحبزادی تھیں جو سب سے زیادہ آپ کی محبوب تھیں ۔ پھر چادر کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا میں نے قریب جا کر کہا یا رسول اللہ میں بھی آپ کے اہل بیت سے ہوں آپ نے فرمایا دور رہو تم یقیناً خیر پر ہو ( ابن ابی حاتم ) حضرت سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور ان چاروں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے ۔ اور سند سے یہ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنا قول ہونا مروی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری تو آپ نے ان چاروں کو اپنے کپڑے تلے لے کر فرمایا یارب یہ میرے اہل ہیں اور میرے اہل بیت ہیں ( ابن جریر ) صحیح مسلم شریف میں ہے حضرت یزید بن حبان فرماتے ہیں میں اور حصین بن سیرہ اور عمر بن مسلمہ مل کر حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے ۔ حصین کہنے لگے اے زید آپ کو تو بہت سی بھلائیاں مل گئیں ۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ، آپ کی حدیثیں سنیں ، آپ کے ساتھ جہاد کئے ، آ پکے پیچھے نمازیں پڑھیں غرض آپ نے بہت خیر و برکت پا لیا اچھا ہمیں کوئی حدیث تو سناؤ ۔ آپ نے فرمایا بھتیجے اب میری عمر بڑی ہو گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ دور ہو گیا ۔ بعض باتیں ذہن سے جاتی رہیں ۔ اب تم ایسا کرو جو باتیں میں از خود بیان کروں انہیں تم قبول کر لو ورنہ مجھے تکلیف نہ دو ۔ سنو مکے اور مدینے کے درمیان ایک پانی کی جگہ پر جسے خم کہا جاتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر ہمیں ایک خطبہ سنایا ۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور وعظ و پند کے بعد فرمایا میں ایک انسان ہوں ۔ بہت ممکن ہے کہ میرے پاس میرے رب کا قاصد آئے اور میں اس کی مان لوں میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ پہلی تو کتاب اللہ جس پر ہدایت و نور ہے ۔ تم اللہ کی کتابوں کو لو اور اسے مضبوطی سے تھام لو پھر تو آپ نے کتاب اللہ کی بڑی رغبت دلائی اور اس کی طرف ہمیں خوب متوجہ فرمایا ۔ پھر فرمایا اور میری اہل بیت کے بارے میں اللہ کو یاد دلاتا ہوں تین مرتبہ یہی کلمہ فرمایا ۔ تو حصین نے حضرت زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا آپ کی بیویاں آپ کی اہل بیت نہیں ہیں؟ فرمایا آپ کی بیویاں تو آپ کی اہل بیت ہیں ہی ۔ لیکن آپ کی اہل بیت وہ ہیں جن پر آپ کے بعد صدقہ کھانا حرام ہے ، پوچھا وہ کون ہیں؟ فرمایا آل علی ، آل عقیل ، آل جعفر ، آل عباس رضی اللہ عنہم ۔ پوچھا کیا ان سب پر آپ کے بعد صدقہ حرام ہے؟ کہا ہاں دوسری سند سے یہ بھی مروی ہے کہ میں نے پوچھا کیا آپ کی بیویاں بھی اہل بیت میں داخل ہیں؟ کہا نہیں قسم ہے اللہ کی بیوی کا تو یہ حال ہے کہ وہ اپنے خاوند کے پاس گو عرصہ دراز سے ہو لیکن پھر اگر وہ طلاق دے دے تو اپنے میکے میں اور اپنی قوم میں چلی جاتی ہے ۔ آپ کے اہل بیت آپ کی اصل اور عصبہ ہیں جن پر آپکے بعد صدقہ حرام ہے ۔ اس روایت میں یہی ہے لیکن پہلی روایت ہی اولیٰ ہے اور اسی کو لینا ٹھیک ہے اور اس دوسری میں جو ہے اس سے مراد صرف حدیث میں جن اہل بیت کا ذکر ہے وہ ہے کیونکہ وہاں وہ آل مراد ہے جن پر صدقہ خوری حرام ہے یا یہ کہ مراد صرف بیویاں نہیں ہیں بلکہ وہ مع آپ کی اور آل کے ہیں ۔ یہی بات زیادہ راحج ہے اور اس سے اس روایت اور اس سے پہلے کی روایت میں جمع بھی ہو جاتی ہے اور قرآن اور پہلی احادیث میں بھی جمع ہو جاتی ہے لیکن یہ اس صورت میں کہ ان احادیث کی صحت کو تسلیم کر لیا جائے ۔ کیونکہ ان کی بعض اسنادوں میں نظر ہے واللہ تعالیٰ اعلم ۔ جس شخص کو نور معرفت حاصل ہو اور قرآن میں تدبر کرنے کی عادت ہو وہ یقینا بیک نگاہ جان لے گا کہ اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بلاشبک و شبہ داخل ہیں اس لئے کہ اوپر سے کلام ہی ان کے ساتھ اور انہی کے بارے میں چل رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد ہی فرمایا کہ اللہ کی آیتیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں جن کا درس تمہارے گھروں میں ہو رہا ہے انہیں یاد رکھو اور ان پر عمل کرو ۔ پس اللہ کی آیات اور حکمت سے مراد بقول حضرت قتادہ وغیرہ کتاب و سنت ہے ۔ پس یہ خاص خصوصیت ہے جو ان کے سوا کسی اور کو نہیں ملی کہ ان کے گھروں میں اللہ کی وحی اور رحمت الٰہی نازل ہوا کرتی ہے اور ان میں بھی یہ شرف حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بطور اولیٰ اور سب سے زیادہ حاصل ہے کیونکہ حدیث شریف میں صاف وارد ہے کہ کسی عورت کے بستر پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی نہیں آتی بجز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بسترے کے یہ اس لئے بھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے سوا کسی اور باکرہ سے نکاح نہیں کیا تھا ۔ ان کا بستر بجز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی کے لئے نہ تھا ۔ پس اس زیادتی درجہ اور بلندی مرتبہ کی وہ صحیح طور پر مستحق تھیں ۔ ہاں جبکہ آپ کی بیویاں آپ کے اہل بیت ہوئیں تو آپ کے قریبی رشتے دار بطور اولیٰ آپ کی اہل بیت ہیں ۔ جیسے حدیث میں گذر چکا کہ میرے اہل بیت زیادہ حقدار ہیں ۔ اس کی مثال میں یہ آیت ٹھیک طور پر پیش ہو سکتی ہے ۔ ( لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَي التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ ۭ فِيْهِ رِجَالٌ يُّحِبُّوْنَ اَنْ يَّتَطَهَّرُوْا ۭوَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِيْنَ ١٠٨؁ ) 9- التوبہ:108 ) کہ یہ اتری تو ہے مسجد قبا کے بارے میں جیسا کہ صاف صاف احادیث میں موجود ہے ۔ لیکن صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ اس مسجد سے کون سی مسجد مراد ہے؟ تو آپ نے فرمایا وہ میری ہی مسجد ہے یعنی مسجد نبوی ۔ پس جو صفت مسجد قبا میں تھی وہی صفت چونکہ مسجد نبوی میں بھی ہے اس لئے اس مسجد کو بھی اسی نام سے اس آیت کے تحت داخل کر دیا ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا ۔ آپ ایک مرتبہ نماز پڑھا رہے تھے کہ بنو اسد کا ایک شخص کود کر آیا اور سجدے کی حالت میں آپ کے جسم میں خنجر گھونپ دیا جو آپ کے نرم گوشت میں لگا جس سے آپ کئی مہینے بیمار رہے جب اچھے ہوگئے تو مسجد میں آئے منبر پر بیٹھ کر خطبہ پڑھا جس میں فرمایا اے عراقیو ہمارے بارے میں اللہ کا خوف کیا کرو ہم تمہارے حاکم ہیں ، تمہارے مہمان ہیں ، ہم اہل بیت ہیں جن کے بارے میں آیت ( وَقَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَــبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا 33؀ۚ ) 33- الأحزاب:33 ) اتری ہے ۔ اس پر آپ نے خوب زور دیا اور اس مضمون کو بار بار ادا کیا جس سے مسجد والے رونے لگے ۔ ایک مرتبہ آپ نے ایک شامی سے فرمایا تھا کیا تو نے سورہ احزاب کی آیت تطہیر نہیں پڑھی؟ اس نے کہا ہاں کیا اس سے مراد تم ہو؟ فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ بڑے لطف و کرم والا ، بڑے علم اور پوری خبر والا ہے ۔ اس نے جان لیا کہ تم اس کے لطف کے اہل ہو ، اس لیے اس نے تمہیں یہ نعمتیں عطا فرمائیں اور یہ فضیلتیں تمہیں دیں ۔ پس اس آیت کے معنی مطابق تفسیر ابن جریر یہ ہوئے کہ اے نبی کی بیویو اللہ کی جو نعمت تم پر ہے اسے تم یاد کرو کہ اس نے تمہیں ان گھروں میں کیا جہاں اللہ کی آیات اور حکمت پڑھی جاتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت پر اس کا شکر کرنا چاہئے اور اس کی حمد پڑھنی چاہئے کہ تم پر اللہ کا لطف و کرم ہے کہ اس نے تمہیں ان گھروں میں آباد کیا ۔ حکمت سے مراد سنت و حدیث ہے ۔ اللہ انجام تک سے خبردار ہے ۔ اس نے اپنے پورے اور صحیح علم سے جانچ کر تمہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بننے کے لئے منتخب کر لیا ۔ پس دراصل یہ بھی اللہ کا تم پر احسان ہے جو لطیف و خبیر ہے ہر چیز کے جزوکل سے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

321یعنی تمہاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ نے تمہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا جو شرف عطا فرمایا ہے، اس کی وجہ سے تمہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرح تمہیں بھی امت کے لئے ایک نمونہ بننا چاہیے چناچہ انھیں ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ کرکے انھیں کچھ ہدایت دی جا رہی ہے۔ اس کی مخاطب اگرچہ ازواج مطہرات ہیں جنہیں امہات المومنین قرار دیا گیا ہے لیکن انداز بیان سے صاف واضح ہے کہ مقصد پوری امت مسلمہ کی عورتوں کو سمجھانا اور متنبہ کرنا ہے اس لیے یہ ہدایات تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہیں۔ 322اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لئے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لئے بھی خصو سی ہدایت دی گئی ہے تاکہ عورت مرد کے لئے فتنے کا باعث نہ بنے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے، بنا بریں اس آواز کے لئے بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہو، تاکہ کوئی بد ظن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو۔ 323یعنی روکھا پن، صرف لہجے کی حد ہی ہو، زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قائدے اور اخلاق کے منافی ہو۔ اِنِ اتقیتن کہہ کر اشارہ کردیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایات جو آگے آرہی ہیں متقی عورتوں کے لئے ہیں، کیونکہ انھیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہوجائے۔ جن کے دل خوف الٰہی سے عاری ہیں، انھیں ان ہدایات سے کیا تعلق ؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پروا کرتی ہیں ؟

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٥] معاشرہ سے فحاشی کے خاتمہ کے لئے احکام :۔ سابقہ دو آیات سے دراصل معاشرہ سے فواحش کی تطہیر کا پروگرام دیا جا رہا ہے۔ اس کے آغاز میں دو باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا گیا ایک تو اس کا آغاز نبی کے گھرانہ سے کیا گیا۔ دوسرے سب سے پہلے فاحشہ مبینہ (یعنی زنا) کا ذکر کردیا گیا۔ اس کے بعد اب زنا کے سدباب کے احکام کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے اور اس میں پہلے یہ خاص طور پر وضاحت کردی گئی کہ تمہارا معاملہ عام عورتوں کا سا نہیں ہے۔ بلکہ تمہارے کردار کے نتائج بڑے دور رس ہیں۔ لہذا تمہیں پوری طرح ان احکام پر عمل کرنا ہوگا۔ تمہارے ہر عمل کو لوگ حجت سمجھیں گے اور بطور حجت ہی پیش کریں گے۔- [ ٤٦] آواز پر پابندی :۔ جنگ احزاب سے پہلے تک عرب معاشرہ کا یہ حال تھا کہ مسلمان عورتیں بھی اپنی پوری زینت اور میک اپ کے ساتھ بےحجاب پھرتی تھیں۔ مسلم گھرانوں میں بھی غیر مردوں کے داخلہ پر کوئی پابندی نہ تھی۔ ازواج مطہرات بھی اسی طرح گھروں سے باہر جایا آیا کرتی تھیں۔ جیسے دوسری عورتیں، اس بےحجابانہ معاشرہ کی اصلاح کے لئے سب سے پہلے غیر مرد اور غیر عورت کی باہمی گفتگو اور آواز پر پابندی لگائی گئی اور اس حکم میں مخاطب نبی کی بیویوں کو بالخصوص اس لئے کیا گیا کہ ان سے بھی لوگوں کو مسئلے مسائل پوچھنے کی ضرورت پیش آتی رہتی تھی۔ چناچہ انھیں حکم دیا گیا کہ ان کی آواز شیریں اور لوچدار ہونے کی بجائے روکھی اور معقول حد تک بلند ہونا چاہئے۔ دبی زبان میں ہرگز بات نہ کی جائے۔ جو نرم گوشہ لئے ہوئے ہو۔ لوچدار اور شیریں آواز بذات خود دل کا ایک مرض ہے۔ پھر اگر مخاطب کے دل میں پہلے سے ہی اس قسم کا روگ موجود ہو تو وہ صرف اسی لذیذ گفتگو سے کئی غلط قسم کے خیالات اور تصورات دل میں جمانا شروع کردے گا اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے اس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ تاہم یہ حکم عام ہے۔ اور عورت کی آواز پر اصل پابندی یہ ہے کہ غیر مرد اس کی آواز نہ سننے پائیں۔ نیز اس کی آواز میں نرمی، لوچ، بانکپن اور شیرینی نہ ہونی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت اذان نہیں کہہ سکتی یا نماز باجماعت میں اگر امام غلطی کر جائے تو وہ نہ سبحان اللہ کہہ سکتی ہے اور نہ لقمہ دے سکتی ہے۔ بلکہ اس کے لئے تصفیق کا حکم ہے یعنی اپنے ایک ہاتھ پر دوسرا ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنے سے متنبہ کرے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ ۔ : یعنی تمہاری حیثیت اور مرتبہ عام عورتوں جیسا نہیں، بلکہ تمہیں نبی کی بیویاں ہونے کا جو شرف عطا ہوا ہے اس کی وجہ سے تمہارا مقام دوسری عورتوں سے بلند ہے اور تم ان کے لیے نمونہ ہو۔ اس آیت سے بعض اہل علم نے استدلال کیا ہے کہ ازواج مطہرات دوسری عورتوں سے افضل ہیں، البتہ آسیہ زوجہ فرعون، مریم بنت عمران اور فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے مستثنیٰ ہیں، کیونکہ ان کی فضیلت صحیح نصوص سے ثابت ہے۔ دیکھیے سورة آل عمران (٤٢) زمخشری نے فرمایا : ” أَحَدٍ “ کا لفظ مذکر، مؤنث، واحد، تثنیہ اور جمع سب کے لیے آتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم عورتوں کی جماعتوں میں سے کسی ایک جماعت جیسی نہیں ہو۔ یعنی جب عورتوں کی قوم کو ایک ایک جماعت کر کے دیکھا جائے تو ان میں سے کوئی جماعت ایسی نہیں جو فضیلت اور پیش قدمی میں تمہارے برابر ہو۔ “- اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ : اس کا تعلق پہلے جملے سے ہے، یعنی دوسری عورتوں سے افضل ہونے کے لیے شرط تقویٰ ہے۔ یہ اس لیے فرمایا کہ وہ بےخوف نہ ہوجائیں، بلکہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہیں اور ان کاموں سے بچتی رہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ ازواج مطہرات کا آخر دم تک تقویٰ پر قائم رہنا ایک ثابت شدہ حقیقت ہے، لہٰذا ان کی فضیلت بھی مسلّم ہے۔ ” اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ “ کا تعلق بعد والے جملے سے بھی ہوسکتا ہے، یعنی اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو بات کرنے میں لوچ اور نرمی اختیار نہ کرو۔- فَلَا تَخْـضَعْنَ بالْقَوْلِ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے جس طرح عورت کے وجود میں مرد کے لیے جنسی کشش رکھی ہے، جس کی حفاظت کے لیے پردے کا اور آنکھ نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح عورت کی آواز میں بھی فطری طور پر دل کشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے، جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے، اس لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں کو حکم دیا گیا کہ مردوں سے بات کرتے وقت ایسا لہجہ اختیار کریں جس میں نرمی اور دل کشی کے بجائے قدرے سختی اور مضبوطی ہو، تاکہ دل کا کوئی بیمار کسی غلط خیال میں مبتلا ہو کر آگے بڑھنے کی جرأت نہ کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امہات المومنین کو ایسے لہجے میں غیر محرم مردوں سے بات کرنے کی اجازت تھی جو لوچ اور ملائمت سے خالی ہو۔ خصوصاً اس لیے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گھریلو زندگی اور عورتوں کے مسائل کے متعلق امت کو وہی بہتر اور پوری طرح آگاہ کرسکتی تھیں اور فی الواقع انھوں نے یہ فریضہ بہترین طریقے سے ادا کیا۔ عام طور پر جو کہا جاتا ہے کہ عورت کی آواز غیر محرم کو سننا جائز نہیں، یہ بات درست نہیں۔ واضح رہے کہ یہ حکم امہات المومنین کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ امت کی تمام عورتوں کے لیے ہے، کیونکہ ازواج مطہرات امت کی عورتوں کے لیے نمونہ ہیں۔ اگلی آیت میں مذکور احکام بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اگرچہ ان کی اولین مخاطب امہات المومنین ہیں، مگر یہ حکم سب کے لیے ہے، ورنہ دوسری عورتوں کے لیے جاہلیت کے زمانے کی عورتوں کی طرح زیب و زینت کے عام اظہار کی اجازت ہوگی، جب کہ انھیں زور سے زمین پر پاؤں مار کر مخفی زینت کے اظہار کی بھی اجازت نہیں۔ دیکھیے سورة نور (٣١) ۔- وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا : نرمی سے بات کرنے کی ممانعت کا یہ مطلب نہیں کہ ایسی بات کرو جو اخلاق کے منافی ہو اور اس میں مخاطب کی بےعزتی ہو، بلکہ صرف لہجے میں مضبوطی ہونی چاہیے، بات بہرصورت اچھی اور دستور کے مطابق ہونی لازم ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ازواج مطہرات کو خاص ہدایات :- (آیت) ینساء النبی لستن کا حد من النساء ان اتقین فلا تخضعن بالقول، سابقہ آیات میں ازواج میں مطہرات کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے مطالبات کرنے سے روکا گیا ہے جن کا پورا کرنا آپ کے لئے دشوار ہو یا جو آپ کی شان کے مناسب نہ ہوں۔ اور جب انہوں نے اس کو اختیار کرلیا تو ان کا درجہ عام عورتوں سے بڑھا دیا گیا کہ ان کے ایک عمل کو دو کے قائم مقام بنادیا۔ آگے ان کو اصلاح عمل اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صحبت و زوجیت کے مناسب بنانے کے لئے چند ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ سب ہدایات اگرچہ ازواج مطہرات کے لئے مخصوص نہیں بلکہ تمام ہی مسلمان عورتیں ان کی مامور ہیں، مگر یہاں ازواج مطہرات کو خصوصی خطاب کر کے اس پر متوجہ کیا ہے کہ یہ اعمال و احکام جو سب مسلمان عورتوں کے لئے لازم و واجب ہیں آپ کو ان کا اہتمام دوسروں سے زیادہ کرنا چاہئے اور (آیت) لستن کا حد من النساء سے یہی خصوصیت مراد ہے۔- کیا ازواج مطہرات سارے عالم کی عورتوں سے افضل ہیں ؟- آیت کے ان الفاظ سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ازواج مطہرات تمام دنیا کی عورتوں سے افضل ہیں۔ مگر قرآن کریم کی آیت حضرت مریم (علیہا السلام) کے بارے میں یہ ہے (آیت) ان اللہ اصطفک وطہرک واصطفک علیٰ نساء العلمین، اس سے حضرت مریم (علیہ السلام) کا سارے جہاں کی عورتوں سے افضل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور ترمذی میں حضرت انس کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کافی ہیں تم کو ساری عورتوں میں سے مریم بنت عمران اور خدیجہ بنت خویلد (ام المومنین) اور فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آسیہ زوجہ فرعون۔ اس حدیث میں حضرت مریم کے ساتھ اور تین عورتوں کو نساء عالمین سے افضل فرمایا ہے۔- اس لئے اس آیت میں جو ازواج مطہرات کی افضلیت اور فوقیت بیان کی گئی ہے، وہ ایک خاص حیثیت یعنی ازواج النبی اور نساء النبی ہونے کی ہے، جس میں تمام عالم کی عورتوں سے بلاشبہ افضل ہیں۔ اس سے عام فضیلت مطلقہ ثابت نہیں ہوتی جو دوسری نصوص کے خلاف ہو۔ (مظہری)- لستن کا حد من النساء کے بعد ان اتقیتن یہ شرط اس فضیلت کی ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو نساء نبی ہونے کی وجہ سے بخشی ہے۔ مقصود اس سے اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ فقط اس نسبت وتعلق پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں کہ ہم ازواج رسول ہیں، بلکہ تقویٰ اور اطاعت احکام آلہیہ پر فضیلت کی شرط ہے۔ (قرطبی ومظہری)- اس کے بعد چند ہدایات ازواج مطہرات کو دی گئیں۔- پہلی ہدایت عورتوں کے پردہ سے متعلق آواز اور کلام پر پابندی ہے۔ فلا تخضعن بالقول، یعنی کسی غیر محرم سے پس پردہ بات کرنے کی ضرورت بھی پیش آئے تو کلام میں اس نزاکت اور لطافت کے لہجہ سے بتکلف پرہیز کیا جائے جو فطرت عورتوں کی آواز میں ہوتی ہے۔ مطلب اس نرمی اور نزاکت سے وہ نرمی ہے جو مخاطب کے دل میں میلان پیدا کرے جیسا کہ اس کے بعد فرمایا ہے (آیت) فیطمع الذین فی قلبہ مرض، یعنی ایسی نرم گفتگو نہ کرو جس سے ایسے آدمی کو طمع اور میلان پیدا ہونے لگے جس کے دل میں مرض ہو، مرض سے مراد نفاق ہے یا اس کا کوئی شعبہ ہو۔ اصلی منافق سے تو ایسی طمع سرزد ہونا ظاہر ہی ہے، لیکن جو آدمی مومن مخلص ہونے کے باوجود کسی حرام کی طرف مائل ہوتا ہے وہ منافق نہ سہی مگر ضعیف الایمان ضروری ہے۔ اور یہ ضعف ایمان جو حرام کی طرف مائل کرتا ہے درحقیقت ایک شعبہ نفاق ہی کا ہے۔ ایمان خالص جس میں شائبہ نفاق کا نہ ہو اس کے ہوتے ہوئے کوئی حرام کی طرف مائل نہیں ہو سکتا۔ (مظہری)- خلاصہ اس پہلی ہدایت کا عورتوں کے لئے اجنبی مردوں سے اجتناب اور پردہ کا وہ اعلیٰ مقام حاصل کرنا ہے کہ جس سے کسی اجنبی ضعیف الایمان کے دل میں کوئی طمع یا میلان پیدا ہو سکے اس کے پاس بھی نہ جائیں۔ پردہ نسواں کی مفصل بحث اسی سورة میں آگے آنے والی آیات کے تحت میں بیان ہوگی۔ یہاں ازواج مطہرات کے لئے خصوصی ہدایات کے ضمن میں جو کچھ آیا ہے صرف اس کی تشریح لکھی جاتی ہے۔ کلام کے متعلق جو ہدایت دی گئی ہے اس کو سننے کے بعد بعض امہات المومنین اس آیت کے نزول کے بعد اگر غیر مرد سے کلام کرتیں تو اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیتیں تاکہ آواز بدل جائے۔ اس لئے حضرت عمرو بن عاص کی ایک حدیث میں ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہیٰ ان یلکم النساء الا باذن ازواجہن (رواہ الطبرانی بسند حسن مظہری)- مسئلہ :- اس آیت اور حدیث مذکور سے اتنا تو ثابت ہوا کہ عورت کی آواز ستر میں داخل نہیں، لیکن اس پر بھی احتیاطی پابندی یہاں بھی لگا دی اور تمام عبادات اور احکام میں اس کی رعایت کی گئی ہے کہ عورتوں کا کلام جہری نہ ہو جو مرد سنیں۔ امام کوئی غلطی کرے تو مقتدیوں کو لقمہ زبان سے دینے کا حکم ہے، مگر عورتوں کو زبان سے لقمہ دینے کے بجائے یہ تعلیم دی گئی کہ اپنے ہاتھ کی پشت پر دوسرا ہاتھ مار کر تالی بجا دیں جس سے امام متنبہ ہوجائے زبان سے کچھ نہ کہیں۔- دوسری ہدایت :- مکمل پردہ کرنے کی ہے (آیت) وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاہلیة الاولیٰ ، ” یعنی بیٹھو اپنے گھروں میں اور زمانہ قدیم کی جاہلیت والیوں کی طرح نہ پھرو “ یہاں جاہلیت اولیٰ سے مراد وہ جاہلیت ہے جو اسلام سے پہلے دنیا میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس لفظ میں اشارہ ہے کہ اس کے بعد دوسری بھی کوئی جاہلیت آنے والی ہے، جس میں اس طرح کی بےحیائی و بےپردگی پھیل جائے گی، وہ شاید اس زمانہ کی جاہلیت ہے، جس کا اب مشاہدہ ہر جگہ ہو رہا ہے۔- اس آیت میں پردہ کے متعلق اصلی حکم یہی ہے کہ عورتیں گھروں میں رہیں (یعنی بلا ضرورت شرعیہ باہر نہ نکلیں) اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ جس طرح اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت کی عورتیں علانیہ بےپردہ پھرتی تھیں ایسے نہ پھرو۔ لفظ تبرج کے اصلی معنی ظہور کے ہیں اور اس جگہ مراد اس سے اپنی زینت کا اظہار ہے غیر مردوں پر، جیسا کہ دوسری آیت میں غیر متبرجت بزینة آیا ہے۔- عورتوں کے پردہ کی پوری بحث اور مفصل احکام آگے اسی سورت میں آئیں گے۔ یہاں صرف آیت مذکورہ کی تشریح لکھی جاتی ہے۔ اس آیت سے پردہ کے متعلق دو باتیں معلوم ہوئیں، اول یہ کہ اصل مطلوب عند اللہ عورتوں کے لئے یہ ہے کہ وہ گھروں سے باہر نہ نکلیں، ان کی تخلیق گھریلو کاموں کے لئے ہوئی ہے ان میں مشغول رہیں، اور اصل پردہ جو شرعاً مطلوب ہے وہ حجاب بالبیوت ہے۔- دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر بضرورت کبھی عورت کو گھر سے نکلنا ہی پڑے تو زینت کے اظہار کے ساتھ نہ نکلے، بلکہ برقع یا جلباب جس میں پورا بدن ڈھک جائے وہ پہن کر نکلے۔ جیسا کہ آگے اسی سورة احزاب کی (آیت) ویدنین علیہن من جلابیہن میں اس کی تفصیل آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ ۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰنِسَاۗءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَاۗءِ اِنِ اتَّــقَيْتُنَّ فَلَا تَخْـضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا۝ ٣ ٢ۚ- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- خضع - قال اللہ : فَلا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ [ الأحزاب 32] ، الخضوع : الخشوع، وقد تقدّم، ورجل خُضَعَة : كثير الخضوع، ويقال : خَضَعْتُ اللحم، أي : قطعته، وظلیم أَخْضَعُ : في عنقه تطامن - ( خ ض ع ) الخضوع کے معنی خشوع یعنی جھکنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ رجل خُضَعَة : وہ شخص جو ہر ایک کے سامنے عاجزی اور انکساری ظاہر کرتا پھرے ۔ خضعت اللحم ۔ میں نے گوشت کاٹا ۔ ظلیم اخضع شتر مرغ جس کی گردن میں پستی اور جھکاؤ ہو ۔- طمع - الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ.- قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] ،- ( ط م ع ) الطمع - کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ - إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔- أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - مرض - الْمَرَضُ : الخروج عن الاعتدال الخاصّ بالإنسان، وذلک ضربان :- الأوّل : مَرَضٌ جسميٌّ ، وهو المذکور في قوله تعالی: وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ- [ النور 61] ، وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] .- والثاني : عبارة عن الرّذائل کالجهل، والجبن، والبخل، والنّفاق، وغیرها من الرّذائل الخلقيّة .- نحو قوله : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ، أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] ، وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] . وذلک نحو قوله : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] ويشبّه النّفاق والکفر ونحوهما من الرذائل بالمرض، إما لکونها مانعة عن إدراک الفضائل کالمرض المانع للبدن عن التصرف الکامل، وإما لکونها مانعة عن تحصیل الحیاة الأخرويّة المذکورة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] ، وإمّا لمیل النّفس بها إلى الاعتقادات الرّديئة ميل البدن المریض إلى الأشياء المضرّة، ولکون هذه الأشياء متصوّرة بصورة المرض قيل : دوي صدر فلان، ونغل قلبه . وقال عليه الصلاة والسلام :- «وأيّ داء أدوأ من البخل ؟» «4» ، ويقال : شمسٌ مریضةٌ: إذا لم تکن مضيئة لعارض عرض لها، وأمرض فلان في قوله : إذا عرّض، والتّمریض القیام علی المریض، وتحقیقه : إزالة المرض عن المریض کالتّقذية في إزالة القذی عن العین .- ( م ر ض ) المرض کے معنی ہیں انسان کے مزاج خصوصی کا اعتدال اور توازن کی حد سے نکل جانا اور یہ دوقسم پر ہے ۔ مرض جسمانی جیسے فرمایا : وَلا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ [ النور 61] اور نہ بیمار پر کچھ گناہ ہے ۔ وَلا عَلَى الْمَرْضى[ التوبة 91] اور نہ بیماروں پر ۔ دوم مرض کا لفظ اخلاق کے بگڑنے پر بولا جاتا ہے اور اس سے جہالت بزدلی ۔ بخل ، نفاق وغیرہ جیسے اخلاق رزیلہ مراد ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَهُمُ اللَّهُ مَرَضاً [ البقرة 10] ان کے دلوں میں کفر کا مرض تھا ۔ خدا نے ان کا مرض اور زیادہ کردیا ۔ أَفِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ أَمِ ارْتابُوا [ النور 50] گناہ ان کے دلوں میں بیماری ہے یا یہ شک میں ہیں ۔ وَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزادَتْهُمْ رِجْساً إِلَى رِجْسِهِمْ [ التوبة 125] اور جن کے دلوں میں مرض ہے ۔ ان کے حق میں خبث پر خبث زیادہ کیا ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً مِنْهُمْ ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْياناً وَكُفْراً [ المائدة 64] اور یہ ( قرآن پاک) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے اس سے ان میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر بڑھے گا ۔ اور نفاق ، کفر وغیرہ اخلاق رذیلہ کی ( مجاز ) بطور تشبیہ مرض کہاجاتا ہے ۔ یا تو اس لئے کہ اس قسم کے اخلاق کسب فضائل سے مائع بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ بیماری جسم کو کامل تصرف سے روک دیتی ہے ۔ اور یا اس لئے اخروی زندگی سے محرومی کا سبب بنتے ہیں ۔ جس قسم کی زندگی کا کہ آیت کریمہ : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ لَوْ كانُوا يَعْلَمُونَ [ العنکبوت 64] اور ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے کاش کہ یہ لوگ سمجھتے ۔ میں ذکر پایا جاتا ہے ۔ اور یا رذائل کو اس چونکہ ایسے اخلاق بھی ایک طرح کا مرض ہی ہیں اس لئے قلب وصدر میں کینہ و کدورت پیدا ہونے کے لئے دوی صدر فلان وبخل قلبہ وغیر محاورات استعمال ہوتے ہیں ایک حدیث میں ہے : وای داء ادوء من ا لبخل اور بخل سے بڑھ کر کونسی بیماری ہوسکتی ہے ۔ اور شمس مریضۃ اس وقت کہتے ہیں جب گردہ غبار یا کسی اور عاضہ سے اس کی روشنی ماند پڑجائے ۔ امرض فلان فی قولہ کے معنی تعریض اور کنایہ سے بات کرنے کے ہیں ۔ المتریض تیمار داری کرنا ۔ اصل میں تمریض کے معنی مرض کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ۔ تقذبۃ کی طرح سے جس کے معنی آنکھ سے خاشاگ دور کرنا کے ہیں ۔- معْرُوفُ :- اسمٌ لكلّ فعل يُعْرَفُ بالعقل أو الشّرع حسنه، والمنکر : ما ينكر بهما . قال : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] ، وقال تعالی: وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ لقمان 17] ، وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] ، ولهذا قيل للاقتصاد في الجود : مَعْرُوفٌ ، لمّا کان ذلک مستحسنا في العقول وبالشّرع . نحو : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] ، إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ، وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] ، أي : بالاقتصاد والإحسان، وقوله : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] ، وقوله : قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] ، أي : ردّ بالجمیل ودعاء خير من صدقة كذلك، والعُرْفُ : المَعْرُوفُ من الإحسان، وقال : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ- [ الأعراف 199] . وعُرْفُ الفرسِ والدّيك مَعْرُوفٌ ، وجاء القطا عُرْفاً. أي : متتابعة . قال تعالی: وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1]- المعروف ہر اس قول یا فعل کا نام ہے جس کی خوبی عقل یا شریعت سے ثابت ہو اور منکر ہر اس بات کو کہاجائے گا جو عقل و شریعت کی رو سے بری سمجھی جائے ۔ قرآن پاک میں ہے : يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران 104] اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفاً [ الأحزاب 32] اور دستور کے مطابق ان سے بات کیا کرو ۔ یہی وجہ ہے کہ جود ( سخاوت ) میں اعتدال اختیار کرنے کو بھی معروف کہاجاتا ہے کیونکہ اعتدال عقل و شریعت کے اعتبار سے قابل ستائش ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمَنْ كانَ فَقِيراً فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ [ النساء 6] اور جو بےمقدور ہو وہ مناسب طور پر یعنی بقدر خدمت کچھ لے لے ۔ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ [ النساء 114] ہاں ( اس شخص کی مشاورت اچھی ہوسکتی ہے ) جو خیرات یا نیک بات ۔۔۔ کہے ۔ وَلِلْمُطَلَّقاتِ مَتاعٌ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 241] اور مطلقہ کو بھی دستور کے مطابق نان ونفقہ دینا چاہیے ۔ یعنی اعتدال اور احسان کے ساتھ ۔ نیز فرمایا : فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فارِقُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ [ الطلاق 2] تو یا تو ان کی اچھی طرح سے زوجیت میں رہنے دو اور اچھی طرح سے علیحدہ کردو ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ [ البقرة 263] نرم بات اور درگذر کرنا صدقہ سے بہتر ہے ۔ یعنی نرم جواب دے کر لوٹا دینا اور فقیر کے لئے دعا کرنا اس صدقہ سے بہتر ہے جس پر احسان جتلایا جائے ۔ العرف : وہ نیک بات جس کی اچھائی کو سب تسلیم کرتے ہوں قرآن پاک میں ہے : وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ [ الأعراف 199] اور نیک کام کرنے کا حکم دو ۔ عرف الفرس گھوڑے کی ایال عرف الدیک : مرغی کی کلغی جاء القطاعرفا : قطار جانور آگے پیچھے یکے بعد دیگرے آئے اسی سے قرآن پاک میں ہے : وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفاً [ المرسلات 1] ہواؤں کی قسم جو متواتر چلتی ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

خواتین غیر محرموں سے لچکدار گفتگو نہ کریں - قول باری ہے (فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض۔ تو تم گفتگو میں نزاکت اختیار نہ کرو کہ اس سے ایسے شخص کو خیال (فاسد) پیدا ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے) ایک قول کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مردوں کے ساتھ گفتگو کے دوران ایسی لچک پیدا نہ کریں جو کسی بدقماش انسان کے لئے ان کے بارے میں کسی غلط آرزو کا سبب نہ بن جائے۔- اس میں یہ دلالت موجود ہے کہ تمام مسلمان عورتوں کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ گفتگو میں ایسا نرم لہجہ اختیار نہ کریں جس کی بنا پر کوئی بدچلن انسان ان کے بارے میں کسی غلط آرزو کو اپنے دل میں جگہ دے کر ان کے اس نرم لہجہ کو اپنی طرف ان کے میلان کی دلیل بنالے۔- اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ عورت کے لئے احسن طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنی آواز اتنی بلند نہ کرے کہ وہ اجنبی مردوں کے کانوں تک پہنچ جائے۔- اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ عورت کو اذان دینے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمارے اصحاب کا بھی یہی قول ہے۔- ایک اور آیت میں ارشاد باری ہے (ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن اور عورتیں اپنے پیر، زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے) جب عورت کو پازیب کی جھنکار کی آواز اجنبی مردوں کو سنانے سے روک دیا گیا ہے تو خود اس کی آواز ، خاص طور پر جب کہ وہ جوان ہو اور اس کی وجہ سے فتنے کا خطرہ ہو، اس نہی کی زیادہ حقدار ہوگی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے نبی کی بیویو تم فرمانبرداری و گناہ اور ثواب و سزا میں معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو تو بولنے میں نزاکت و نرمی مت کیا کرو کہ اس سے خرابی والے کو خیال فاسد ہونے لگتا ہے اور صحیح صحیح بات کہو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویو تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو “- مراد یہ ہے کہ نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں ہونے کی حیثیت سے تمہیں تا قیام قیامت امت کی خواتین کے لیے اسوہ بننا ہے۔ - آئندہ آیات میں ازواجِ مطہرات (رض) کو پردے سے متعلق خصوصی ہدایات دی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی ہدایت یہ ہے :- اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ ” اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو گفتگو میں نرمی پیدا نہ کرو “- جیسا کہ قبل ازیں بیان ہوچکا ہے ‘ ان آیات کے نزول کے وقت عربوں کے رواج کے مطابق غیر مرد ایک دوسرے کے گھروں میں بےدھڑک آتے جاتے تھے اور گھر کی عورتوں سے بلا روک ٹوک گفتگو بھی کرتے تھے۔ چناچہ اس سلسلے میں پہلی ہدایت یہ دی گئی کہ اگر کسی مرد سے تمہیں براہ راست کبھی کوئی بات کرنی پڑے تو تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ تمہاری آواز میں کسی قسم کی نزاکت ‘ نرمی یا چاشنی کا شائبہ تک نہ ہو۔- فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ ” کہ وہ شخص جس کے دل میں روگ ہے وہ کسی لالچ میں پڑجائے “- ظاہر ہے کہ منافق بھی اسی معاشرے میں موجود تھے اور وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ حضرت عائشہ (رض) پر بہتان تراشی کا واقعہ اس کی واضح مثال ہے جس کی تفصیل ہم سورة النور میں پڑھ چکے ہیں۔ چناچہ پہلے اقدام کے طور پر یہاں غیر محرم َمردوں سے بات چیت میں احتیاط کا حکم دیا گیا ہے ‘ کیونکہ مخاطب خاتون کی آواز میں نرمی اور لوچ محسوس کرکے گندی ذہنیت کے حامل کسی شخص کے دل میں کوئی منفی آرزو پیدا ہوسکتی ہے اور وہ بات آگے بڑھانے کی کوشش کا سوچ سکتا ہے۔ - وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ” اور بات کرو معروف انداز میں۔ “- اندازِ گفتگو میں نہ نرمی و نزاکت کی جھلک ہو اور نہ ہی ترشی و تلخی کا رنگ ‘ بس معقول اور معروف انداز میں صرف ضرورت کی بات چیت ہونی چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :46 یہاں سے آخر پیراگراف تک کی آیات وہ ہیں جن سے اسلام میں پردے کے احکام کا آغاز ہوا ہے ۔ ان آیات میں خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے کیا گیا ہے مگر مقصود تمام مسلمان گھروں میں ان اصلاحات کو نافذ کرنا ہے ۔ ازواج مطہرات کو مخاطب کرنے کی غرض صرف یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے اس پاکیزہ طرز زندگی کی ابتدا ہوگی تو باقی سارے مسلمان گھرانوں کی خواتین خود اس کی تقلید کریں گی ، کیونکہ یہی گھر ان کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا ۔ بعض لوگ صرف اس بنیاد پر کہ ان آیات کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ہے ، یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ یہ احکام انہی کے لیے خاص ہیں ۔ لیکن آگے ان آیات میں جو کچھ فرمایا گیا ہے اسے پڑھ کر دیکھ لیجئے ۔ کونسی بات ایسی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے لیے خاص ہو اور باقی مسلمان عورتوں کے لیے مطلوب نہ ہو ؟ کیا اللہ تعالیٰ کا منشا یہی ہو سکتا تھا کہ صرف ازواج مطہرات ہی گندگی سے پاک ہوں ، اور وہی اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں ، اور وہی نمازیں پڑھیں اور زکوٰۃ دیں ؟ اگر یہ منشا نہیں ہو سکتا تو پھر گھروں میں چین سے بیٹھے اور تبرُّج جاہلیت سے پرہیز کرنے اور غیر مردوں کے ساتھ دبی زبان سے بات نہ کرنے کا حکم ان کے لیے کیسے خاص ہو سکتا ہے اور باقی مسلمان عورتیں اس سے مستثنیٰ کیسے ہو سکتی ہیں ؟ کیا کوئی معقول دلیل ایسی ہے جس کی بنا پر ایک ہی سلسلۂ کلام کے مجموعی احکام میں سے بعض کو عام اور بعض کو خاص قرار دیا جائے ؟ رہا یہ فقرہ کہ تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو تو اس سے بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کہ عام عورتوں کو تو بن ٹھن کر نکلنا چاہیے اور غیر مردوں سے خوب لگاوٹ کی باتیں کرنی چاہییں ‘ البتہ تم ایسا طرز عمل اختیار نہ کرو ۔ بلکہ اس کے برعکس یہ طرز کلام کچھ اس طرح کا ہے جیسے ایک شریف آدمی اپنے بچے سے کہتا ہے کہ تمہیں گالی نہ بکنی چاہیے ۔ اس سے کوئی عقلمند آدمی بھی کہنے والے کا یہ مدعا اخذ نہ کرے گا کہ وہ صرف اپنے بچے کے لیے گالیاں بکنے کو برا سمجھتا ہے ، دوسرے بچوں میں یہ عیب موجود رہے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :47 یعنی ضرورت پیش آنے پر کسی مرد سے بات کرنے میں مضائقہ نہیں ہے ، لیکن ایسے مواقع پر عورت کا لہجہ اور انداز گفتگو ایسا ہونا چاہیے جس سے بات کرنے والے مرد کے دل میں کبھی یہ خیال تک نہ گزر سکے کہ اس عورت سے کوئی اور توقع بھی قائم کی جا سکتی ہے ۔ اس کے لہجے میں کوئی لوچ نہ ہو ، اس کی باتوں میں کوئی لگاوٹ نہ ہو ، اس کی آواز میں دانستہ کوئی شیرینی گھلی ہوئی نہ ہو جو سننے والے مرد کے جذبات میں انگیخت پیدا کر دے اور اسے آگے قدم بڑھانے کی ہمت دلائے ۔ اس طرز گفتگو کے متعلق اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ یہ کسی ایسی عورت کو زیب نہیں دیتا جس کے دل میں خدا کا خوف اور بدی سے پرہیز کا جذبہ ہو ۔ دوسرے الفاظ میں یہ فاسقات و فاجرات کا طرز کلام ہے نہ کہ مومنات متقیات کا ۔ اس کے ساتھ اگر سُورۂ نور کی وہ آیت بھی دیکھی جائے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ ( اور زمین پر اس طرح پاؤں مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے اس کا علم لوگوں کو ہو ) تو رب العٰلمین کا صاف منشا یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں خواہ مخواہ اپنی آواز یا اپنے زیوروں کی جھنکار غیر مردوں کو نہ سنائیں اور اگر بضرورت اجنبیوں سے بولنا پڑ جائے تو پوری احتیاط کے ساتھ بات کریں ۔ اسی بنا پر عورت کے لیے اذان دینا ممنوع ہے ۔ نیز اگر نماز با جماعت میں کوئی عورت موجود ہو اور امام کوئی غلطی کرے تو مرد کی طرح سبحان اللہ کہنے کی اسے اجازت نہیں ہے بلکہ اس کو صرف ہاتھ پر ہاتھ مار کر آواز پیدا کرنی چاہیے تاکہ امام متنبہ ہو جائے ۔ اب یہ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار انداز گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے بلا ضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے ، کیا وہ کبھی اس کو پسند کر سکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آ کر گائے ناچے ، تھرکے ، بھاؤ بتائے اور ناز و نخرے دکھائے ؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سنا سنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے ؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں ؟ یا ہوائی میزبان ( ) بنائی جائیں اور انہیں خاص طور پر مسافروں کا دل لبھانے کی تربیت دے جائے ؟ یا کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں اور مردوں سے خوب گھل مل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں ؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کی گئی ہے ؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے ۔ اس میں کہیں اس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کر دی جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

24: یعنی ازواجِ مطہراتؓ کا مقام عام عورتوں سے بلند ہے، اس لئے اگر وہ تقویٰ اختیار کریں گی تو انہیں ثواب بھی دوگنا ملے گا، اور کوئی گناہ کریں گی تو اُس کا عذاب بھی دوگنا ہوگا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو پیغمبر کے ساتھ جتنا قرب ہو، اُسے اپنے عمل میں اُتنا ہی محتاط ہونا چاہئے۔ 25: اِس آیت نے خواتین کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ اس میں جان بوجھ کر نزاکت اور کشش پیدا نہیں کرنی چاہئے، البتہ اپنی بات کسی بد اخلاقی کے بغیر پھیکے انداز میں کہہ دینی چاہئے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب عام گفتگو میں بھی خواتین کو یہ ہدایت کی گئی ہے تو غیر مردوں کے سامنے ترنّم کے ساتھ اشعار پڑھنا یا گنا کتنا برا ہوگا۔