Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نکاح کی حقیقت ۔ اس آیت میں بہت سے احکام ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف عقد پر بھی نکاح کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس کے ثبوت میں اس سے زیادہ صراحت والی آیت اور نہیں ۔ اس میں اختلاف ہے کہ لفظ نکاح حقیقت میں صرف ایجاب وقبول کے لئے ہے ؟ یا صرف جماع کے لئے ہے ؟ یا ان دونوں کے مجموعے کے لئے ؟ قرآن کریم میں اس کا اطلاق عقد و وطی دونوں پر ہی ہوا ہے ۔ لیکن اس آیت میں صرف عقد پر ہی اطلاق ہے ۔ اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دخول سے پہلے بھی خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے ۔ مومنات کا ذکر یہاں پر بوجہ غلبہ کے ہے ورنہ حکم کتابیہ عورت کا بھی یہی ہے ۔ سلف کی ایک بڑی جماعت نے اس آیت سے استدلال کر کے کہا ہے کہ طلاق اسی وقت واقع ہوتی ہے جب اس سے پہلے نکاح ہو گیا ہو اس آیت میں نکاح کے بعد طلاق کو فرمایا ہے پس معلوم ہوا ہے کہ نکاح سے پہلے نہ طلاق صحیح ہے نہ وہ واقع ہوتی ہے ۔ امام شافعی اور امام احمد اور بہت بڑی جماعت سلف و خلف کا یہی مذہب ہے ۔ مالک اور ابو حنفیہ کا خیال ہے کہ نکاح سے پہلے بھی طلاق درست ہو جاتی ہے ۔ مثلاً کسی نے کہا کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ تو اب جب بھی اس سے نکاح کرے گا طلاق پڑ جائے گی ۔ پھر مالک اور ابو حنیفہ میں اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو کہے کہ جس عورت سے میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو امام ابو حنیفہ کہتے ہیں پس وہ جس سے نکاح کرے گا اس پر طلاق پڑ جائے گی اور امام مالک کا قول ہے کہ نہیں پڑے گی کیونکہ ابن عباس سے پوچھا گیا کہ اگر کسی شخص نے نکاح سے پہلے یہ کہا ہو کہ میں جس عورت سے نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو کیا حکم ہے ؟ آپ نے یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا اس عورت کو طلاق نہیں ہوگی ۔ کیونکہ اللہ عزوجل نے طلاق کو نکاح کے بعد فرمایا ہے ۔ پس نکاح سے پہلے کی طلاق کوئی چیز نہیں ۔ مسند احمد ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ میں ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ ابن آدم جس کا مالک نہ ہو اس میں طلاق نہیں ۔ اور حدیث میں ہے جو طلاق نکاح سے پہلے کی ہو وہ کسی شمار میں نہیں ۔ ( ابن ماجہ ) پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم عورتوں کو نکاح کے بعد ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو ان پر کوئی عدت نہیں بلکہ وہ جس سے چاہیں اسی وقت نکاح کر سکتی ہیں ۔ ہاں اگر ایسی حالت میں ان کا خاوند فوت ہوگیا ہو تو یہ حکم نہیں اسے چار ماہ دس دن کی عدت گذارنی پڑے گی ۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے ۔ پس نکاح کے بعد ہی میاں نے بیوی کو اس سے پہلے ہی اگر طلاق دے دی ہے تو اگر مہر مقرر ہو چکا ہے تو اس کا آدھا دینا پڑے گا ۔ ورنہ تھوڑا بہت دے دینا کافی ہے ۔ اور آیت میں ہے ( يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا 49؀ ) 33- الأحزاب:49 ) یعنی اگر مہر مقرر ہو چکا ہے اور ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دی تو آدھے مہر کی وہ مستحق ہے ۔ اور آیت میں ارشاد ہے ( لَاجُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ مَالَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِيْضَةً ښ وَّمَتِّعُوْھُنَّ ۚ عَلَي الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَعَلَي الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ ۚ حَقًّا عَلَي الْمُحْسِـنِيْنَ ٢٣٦؁ ) 2- البقرة:236 ) یعنی اگر تم اپنی بیویوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی طلاق دے دو تو یہ کچھ گناہ کی بات نہیں ۔ اگر ان کا مہر مقرر نہ ہوا ہو تو تم انہیں کچھ نہ کچھ دے دو ۔ اپنی اپنی طاقت کے مطابق ، امیر و غریب دستور کے مطابق ان سے سلوک کریں اور بھلے لوگوں پر یہ ضروری ہے ۔ چنانچہ ایسا ایک واقعہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی گذرا ۔ کہ آپ نے امیمہ بنت شرجیل سے نکاح کیا یہ رخصت ہو کر آگئیں آپ گئے ہاتھ بڑھایا تو گویا اس نے اسے پسند نہ کیا آپ نے حضرت ابو اسید کو حکم دیا کہ ان کا سامان تیار کر دیں اور دو کپڑے ارزقیہ کے انہیں دے دیں ۔ پس سراح جمیل یعنی اچھائی سے رخصت کر دینا یہی ہے کہ اس صورت میں اگر مہر مقرر ہے تو آدھا دے دے ۔ اور اگر مقرر نہیں تو اپنی طاقت کے مطابق اس کے ساتھ کچھ سلوک کر دے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 نکاح کے بعد جن عورتوں سے ہم بستری کی جاچکی ہو وہ بھی جوان ہوں، ایسی عورتوں کو طلاق مل جائے تو ان کی عدت تین حیض ہے اور جن سے نکاح ہوا ہے لیکن میاں بیوی کے درمیان ہم بستری نہیں ہوئی۔ ان کو اگر طلاق ہوجائے تو عدت نہیں ہے یعنی ایسی غیر مدخولہ مطلقہ بغیر عدت گزارے فوری طور پر کہیں نکاح کرنا چاہے، تو کرسکتی ہے، البتہ ہم بستری سے قبل خاوند فوت ہوجائے تو پھر اسے 4 ماہ اور دس دن کی عدت گزارنا پڑے گی (فتح القدیر، ابن کثیر) چھونا یا ہاتھ لگانا، یہ کنایہ ہے۔ جماع (ہم بستری) سے نکاح لفظ خاص جماع اور عقد زواج دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں عقد کے معنی میں ہے۔ اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا ہے کہ نکاح سے پہلے طلاق نہیں۔ اس لئے کہ یہاں نکاح کے بعد طلاق کا ذکر ہے۔ اس لئے جو فقہا اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں عورت سے میں نے نکاح کیا تو اسے طلاق، تو ان کے نزدیک اس عورت سے نکاح ہوتے ہی طلاق ہوجائے گی۔ اسی طرح بعض جو کہتے ہیں کہ اگر وہ یہ کہے کہ میں کسی بھی عورت سے نکاح کروں تو اسے طلاق، تو جس عورت سے بھی نکاح کرے گا، طلاق واقع ہوجائے گی۔ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ حدیث میں وضاحت ہے (لاطلاق قبل النکاح) اس سے واضح ہے کہ نکاح سے قبل طلاق، ایک فعل عبث ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے 49۔ 2 یہ متعہ، اگر مہر مقرر کیا گیا ہو تو نصف مہر ورنہ حسب توفیق کچھ دے دیا جائے۔ 49۔ 3 یعنی انھیں عزت و احترام سے بغیر کوئی ایذاء پہنچائے علیحدہ کردیا جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٧٧] طلاق دینے والے کو ہدایات :۔ اس آیت میں چند امور قابل ذکر ہیں۔ پہلا یہ کہ اگرچہ آیت میں مومن عورتوں سے نکاح کا ذکر ہے۔ تاہم اگر نکاح کتابیہ عورت سے ہو تو وہ بھی اسی حکم میں داخل ہوگا۔ دوسرا یہ کہ صحبت سے پیشتر طلاق دینے سے بھی نصف حق مہر ادا کرنا واجب ہے۔ بشرطیکہ حق مہر طے ہوچکا ہو۔ (٢: ٢٣٧) تیسرا یہ کہ اگر حق مہر مقرر ہی نہ کیا گیا ہو تو پھر کچھ نہیں دینا ہوگا۔ البتہ دونوں صورتوں میں عورت کو کچھ نہ کچھ دے دلا کر رخصت کرنا چاہئے۔ اور اس کچھ نہ کچھ کی مقدار طلاق دینے والے کی مالی حیثیت کے لحاظ سے ہوگی۔ چوتھا یہ کہ اگر عورت کو طلاق ہی دینا ہے تو پھر اس پر کوئی الزام نہ لگانا چاہئے۔ نہ ہی اسے بدنام کرکے گھر سے نکالنا چاہئے جو اس کی آئندہ زندگی پر ناخوشگوار اثر ڈالے۔ بھلے طریقہ سے رخصت کرنے کا یہی مطلب ہے اور پانچواں اور سب سے اہم امر یہ ہے کہ عدت کے دوران بھی مطلقہ عورت اپنے خاوند کی بیوی ہی رہتی ہے۔ اور یہ مرد کا عورت پر حق ہے۔ اس دوران مرد رجوع کا حق بھی رکھتا ہے اور اس میں زبردستی بھی کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر اس دوران حمل معلوم ہوجائے۔ تو بچہ بھی طلاق دینے والے مرد کا ہوگا۔ اور وہ اس کا وارث بھی ہوگا۔ صحبت سے پہلے طلاق دینے میں چونکہ حمل وغیرہ کا احتمال ہی نہیں ہوتا لہذا غیر مدخولہ عورت پر کوئی عدت نہیں۔ وہ اگر چاہے تو طلاق کے فوراً بعد نکاح کرسکتی ہے۔- ہمارے ہاں عموماً یہ رواج ہے کہ نکاح کے ساتھ ہی رخصتی ہوجاتی ہے اور اسے شادی کہتے ہیں۔ تاہم یہ رواج پایا جاتا ہے کہ پہلے نکاح ہوجاتا ہے مثلاً بچپن میں والدین نے نکاح کردیا اور رخصتی یا شادی کچھ مدت کے بعد یا زوجین کے جوان ہونے کے بعد ہوتی ہے۔ اس آیت میں مذکورہ صورت کا احتمال دوسری شکل میں ہی پایا جاتا ہے اور عرب میں یہ عام رواج تھا کہ نکاح پہلے ہوجاتا تھا اور رخصتی بعد میں ہوتی تھی۔- احناف نے خلوت صحیحہ کو بھی صحبت ہی کے مترادف قرار دیا ہے اور یہ ایسی بات ہے جس کی دلیل یا مثال کتاب و سنت میں نہیں ملتی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ۔۔ : سورت کے شروع سے متبنّٰی بنانے کی رسم توڑنے کا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبنٰی زید (رض) کے اپنی بیوی زینب کو طلاق دینے کا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس کے ساتھ نکاح کا ذکر آ رہا تھا۔ اس پر منافقین کی باتوں کا تذکرہ بھی ہوا اور ان کی پروا نہ کرنے کا بھی، پھر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا منصب، آپ کی رفعت شان اور آپ کی ذمہ داریاں نہایت جامع انداز میں بیان فرمائیں۔ اب دوبارہ نکاح و طلاق کے کچھ مسائل کا ذکر ہوتا ہے، جن میں سے اکثر کا سابقہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی پیش آیا۔ - ” مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ “ میں ہاتھ لگانے سے مراد جماع ہے اور یہ قرآن مجید کے بیان کی پاکیزگی ہے کہ وہ اس کے لیے صریح الفاظ کے بجائے کنائے کا لفظ استعمال کرتا ہے، مثلاً ” مساس “ یا ” ملامسہ “ وغیرہ۔ اس میں ہمارے لیے بھی سبق ہے کہ یہ مفہوم ادا کرنے کے لیے صریح الفاظ کے بجائے کنائے کے الفاظ استعمال کیے جائیں۔- 3 کسی مسلمان عورت کو اگر خاوند عقد نکاح کے بعد صحبت سے پہلے طلاق دے دے تو عورت پر کوئی عدت نہیں، جس میں خاوند رجوع کرسکتا ہو، بلکہ اگر وہ عورت چاہے تو اسی وقت دوسرا نکاح کرسکتی ہے، کیونکہ صحبت ہوئی ہی نہیں کہ یہ دیکھنے کے لیے انتظار کی ضرورت ہو کہ حمل تو نہیں ٹھہرا۔ استاذ محمد عبدہ (رض) لکھتے ہیں : ” بعض اہل علم نے خلوت صحیحہ کو بھی بمنزلہ صحبت کے شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ خلوت صحیحہ کے بعد طلاق دینے سے مہر اور عدت لازم ہوگی، مگر یہ مسئلہ بظاہر اس آیت کے خلاف ہے۔ “ (اشرف الحواشی) آیت میں اگرچہ مومن عورتوں کا ذکر ہے، مگر اس بات پر اجماع ہے کہ یہودی یا عیسائی عورت کا بھی یہی حکم ہے۔ مومن عورتوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ جب مومن عورت پر عدت نہیں، جسے مومن مرد کے نکاح میں رکھنے اور اسے رجوع کا موقع دینے کی ہر ممکن کوشش ہونی چاہیے، تو کتابیہ عورت پر تو بالاولیٰ عدت نہیں۔ (بقاعی) - 3 یہ حکم ان عورتوں کا ہے جنھیں دخول سے پہلے طلاق دی جائے، اگر نکاح کے بعد دخول سے پہلے خاوند فوت ہوجائے تو عورت پر عدت بھی ہوگی اور وہ خاوند کی وارث بھی ہوگی۔ معقل بن سنان (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بروع بنت واشق (رض) کے بارے میں یہ فیصلہ فرمایا تھا۔ [ أبوداوٗد، النکاح، باب فیمن تزوج و لم یسم لھا صداقًا حتی مات : ٢١١٤، و قال الألباني صحیح ]- فَمَتِّعُوْهُنَّ : جس عورت کو دخول سے پہلے طلاق دی گئی ہو وہ دو حال سے خالی نہیں، یا تو نکاح کے وقت اس کے لیے مہر مقرر کیا گیا ہوگا، یا نہیں۔ اگر مہر مقرر نہیں کیا گیا تو اسے مہر نہیں ملے گا اور اگر مقرر کیا گیا ہے تو نصف مہر دیا جائے گا۔ دونوں صورتوں میں عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق کچھ سامان مثلاً کپڑوں کا جوڑا وغیرہ دینا ضروری ہے، اسے ” متعہ طلاق “ کہا جاتا ہے۔ مقصد اس کا طلاق سے ہونے والی دل شکنی کا کچھ نہ کچھ مداوا ہے۔ سورة بقرہ کی آیات (٢٣٦، ٢٣٧) میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل سے اس کی مقدار کا اندازہ ہوتا ہے۔ چناچہ سہل بن سعد اور ابو اسید (رض) بیان کرتے ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے امیمہ بنت شراحیل سے نکاح کیا، جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لائی گئی اور آپ نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو جیسے اس نے ناپسند کیا، تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابو اسید سے کہا کہ وہ اس کا سامان تیار کریں اور اسے دو رازقیہ (کتان سے بنے ہوئے سفید لمبے) کپڑے بھی دے دیں۔ “ [ بخاري، الطلاق، باب من طلق وھل یواجہ الرجل امرأ تہ بالطلاق ؟: ٥٢٥٦، ٥٢٥٧ ]- ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ ۔۔ : لفظ ” ثم “ سے دو مسئلے ثابت ہوتے ہیں، ایک یہ کہ طلاق وہ معتبر ہے جو نکاح کے بعد دی جائے، نکاح سے پہلے دی ہوئی طلاق کا کوئی اعتبار نہیں، مثلاً اگر کوئی یہ کہے کہ میں جس عورت سے نکاح کروں اسے طلاق ہے، تو طلاق نہیں ہوگی، کیونکہ یہ نکاح کے بعد نہیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ابن عباس (رض) نے (اس آیت کے حوالے سے) فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے طلاق کو نکاح کے بعد رکھا ہے۔ “ اور علی، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، ابوبکر بن عبدالرحمان، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، ابان بن عثمان، علی بن حسین، شریح، سعید بن جبیر، قاسم، سالم، طاؤس، حسن، عکرمہ، عطاء، عامر بن سعد، جابر بن زید، نافع بن جبیر، محمد بن کعب، سلیمان بن یسار، مجاہد، قاسم بن عبدالرحمان، عمرو بن ہرم اور شعبی (رض) سے مروی ہے کہ ایسی عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔ [ بخاري، الطلاق، باب لا طلاق قبل النکاح، بعد الحدیث : ٥٢٦٨ ] دوسرا مسئلہ یہ کہ نکاح کے بعد اگر دخول نہیں ہوا تو خواہ کتنی مدت کے بعد طلاق ہوئی ہو، عدت نہیں ہے۔- وَسَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا : اچھے طریقے سے چھوڑنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی لڑائی جھگڑے کے بغیر اچھے طریقے سے اسے طلاق دے کر رخصت کر دے۔ لوگوں کے سامنے اس کے عیوب یا شکایات کے دفتر نہ کھولے کہ کوئی اور بھی اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ قرآن کے اس حکم سے ظاہر ہے کہ طلاق کو کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط کرنا درست نہیں، کیونکہ اس سے مرد نہ بھی چاہے تو اسے کوئی نہ کوئی شکوہ یا عیب بیان کرنا پڑے گا، جس سے عورت کی رسوائی ہوگی، جو اسے اچھے طریقے سے چھوڑنے کے خلاف ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو (تمہارے نکاح کے احکام میں سے تو ایک حکم یہ ہے کہ) جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو (اور) پھر ان کو قبل ہاتھ لگانے کے (کسی وجہ سے) طلاق دے دو تو تمہاری ان پر کوئی عدت (واجب) نہیں جس کو تم شمار کرنے لگو (تاکہ ان کو اس عدت میں نکاح ثانی سے روک سکو جیسا کہ عدت واجب ہونے کی صورت میں شرعاً یہ روکنا جائز بلکہ واجب ہے اور جب اس صورت میں عدت نہیں) تو ان کو کچھ (مال) متاع دے دو اور خوبی کے ساتھ ان کو رخصت کردو (اور مومنات کی طرح کتابیات کا بھی یہی حکم ہے) آیت میں مومنات کی قید بطور شرط کے نہیں بلکہ ایک ترغیبی ہدایت ہے، کہ مومن کو اپنے نکاح میں مسلمان عورت ہی کا انتخاب کرنا بہتر ہے۔- اور ہاتھ لگانا کنایہ ہے صحبت سے خواہ حقیقتاً یا حکماً ، جیسے باہم خلوت صحیحہ ہوجائے تو یہ بھی صحبت کے حکم میں ہے اور صحبت حقیقتاً ہو یا حکماً دونوں صورتوں میں عدت واجب ہے۔ کذا فی الہدایہ وغیرہا، اور اگر مہر مقرر ہوچکا ہے تو یہ متاع نصف مہر کی ادائیگی ہے۔ اور سراج جمیل یہ ہے کہ ان کو بغیر حق کے نہ روکے، اور جو متاع دینا واجب ہے وہ ادا کر دے اور دیا ہوا واپس نہ لے، زبان سے بھی کوئی سخت بات نہ کہے)- معارف ومسائل - پچھلی آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چند صفات کمال اور آپ کی مخصوص شان کا ذکر تھا آگے بھی آپ کی ان خصوصیات کا ذکر آنے والا ہے، جو نکاح و طلاق کے معاملات میں آپ کے ساتھ ایک گونہ خصوصیت رکھتی ہیں اور عام امت کی نسبت سے آپ کو ان میں ایک امتیاز حاصل ہے۔ اس سے پہلے بطور تمہید کے ایک عام حکم متعلقہ طلاق ذکر کیا گیا ہے، جو سب مسلمانوں کے لئے عام ہے۔- آیت مذکورہ میں اس کے متعلق تین احکام بیان کئے گئے ہیں :- پہلا حکم :- یہ کہ کسی عورت سے نکاح کرلینے کے بعد خلوت صحیحہ سے پہلے ہی کسی وجہ سے طلاق کی نوبت آجائے، تو مطلقہ عورت پر کوئی عدت واجب نہیں، وہ فوراً ہی دوسرا نکاح کرسکتی ہے۔ آیت مذکورہ میں ہاتھ لگانے سے مراد صحبت اور صحبت کا حقیقی یا حکمی ہونا اور دونوں کا ایک حکم ہونا خلاصہ تفسیر میں معلوم ہوچکا ہے، اور صحبت حکمی خلوت صحیحہ ہوجانا ہے۔- دوسرا حکم :- یہ ہے کہ مطلقہ عورت کو شرافت اور حسن خلق کے ساتھ کچھ سامان دے کر رخصت کیا جائے، کچھ سامان دے کر رخصت دینا ہر مطلقہ کے لئے مستحب و مسنون ہے اور بعض صورتوں میں واجب ہے۔ جس کی تفصیل خلاصہ تفسیر میں گزر چکی ہے اور سورة بقرہ کی آیت (آیت) لا جناح علیکم ان طلقتم النساء مالم تمسوہن کے تحت میں گزر چکی ہے، اور ان الفاظ قرآنی میں لفظ متاع اختیار فرمانا شاید اس حکمت سے ہو کہ یہ لفظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے، ہر اس چیز کے لئے جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس میں عورت کے حقوق واجبہ مہر وغیرہ بھی شامل ہیں کہ اگر اب تک مہر نہ دیا گیا ہو تو طلاق کے وقت خوش دلی سے ادا کردیں، اور غیر واجب حقوق مثلاً مطلقہ کو رخصت کے وقت کپڑوں کا ایک جوڑا دے کر رخصت کرنا یہ بھی داخل ہے جو ہر مطلقہ عورت کو دینا مستحب ہے (کذا فی المبسوط والمحیط، روح) اس لحاظ سے متعوہن کا صیغہ امر عام ترغیب کے لئے ہے، جس میں واجب اور غیر واجب دونوں قسمیں شامل ہیں۔ (روح)- امام حدیث عبد بن حمید نے حضرت حسن سے روایت کیا ہے کہ متعہ یعنی متاع و سامان دینا ہر مطلقہ کے لئے ہے خواہ اس کے ساتھ خلوت صحیحہ ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو اور اس کا مہر مقرر ہو یا نہ ہو۔ - طلاق کے وقت متعہ یعنی لباس کی تفصیل :- بدائع میں ہے کہ متعہ طلاق سے مراد وہ لباس ہے جو عورت گھر سے نکلنے کے وقت ضرور ہی استعمال کرتی ہے۔ اس میں پاجامہ، کرتا، اوڑھنی اور ایک بڑی چادر جو سر سے پاؤں تک بدن کو چھپا سکے شامل ہے۔ اور چونکہ لباس قیمت کے اعتبار سے اعلیٰ ، ادنیٰ ، اوسط ہر طرح کا ہوسکتا ہے، اس لئے فقہاء نے اس کی یہ تفصیل فرمائی کہ اگر شوہر بیوی دونوں مالدار گھرانوں کے ہیں تو کپڑے اعلیٰ قسم کے دیئے جائیں، اور دونوں غریب ہیں تو کپڑے ادنیٰ درجہ کے دیئے جائیں، اور ایک غریب اور دوسرا مالدار ہے تو اوسط درجہ کا لباس دیا جائے۔ (کذا قال الخصاف فی التفقات)- اسلام میں حسن معاشرت کی بےنظیر تعلیم :- دنیا میں حقوق کی ادائیگی عام طور پر صرف دوستوں عزیزوں تک اور زیادہ سے زیادہ عام لوگوں تک محدود رہتی ہے، حسن اخلاق حسن معاشرت کا سارا زور صرف یہیں تک خرچ ہوتا ہے، اپنے مخالف اور دشمن کے بھی حقوق پہچاننا اس کے لئے قوانین وضع کرنا صرف شریعت اسلام ہی کا کام ہے۔ اس زمانہ میں اگرچہ حقوق انسانیت کی حفاظت کے لئے دنیا میں بہت سے مستقبل ادارے قائم کئے گئے ہیں، اور اس کے لئے کچھ ضابطے قاعدے بھی بنائے ہوئے ہیں، اس مقصد کے لئے اقوام عالم سے لاکھوں روپے کا سرمایہ بھی جمع کیا جاتا ہے، مگر اول تو ان اداروں پر سیاسی مقاصد چھائے ہوئے ہیں۔ جو کچھ مصیبت زدگان کی امداد کی جاتی ہے وہ بھی بےغرض اور ہر جگہ نہیں، بلکہ جہاں اپنے سیاسی مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ اور بالفرض یہ ادارے بالکل صحیح طور پر بھی خدمت خلق انجام دیں تو ان کی زیادہ سے زیادہ اس وقت پہنچ ہو سکتی ہے جب کسی خطہ زمین میں کوئی عام حادثہ طوفان، وبائی امراض وغیرہ کا پیش آجائے۔ افراد واحاد کی مصیبت و تکلیف کو کس کی خبر ہوتی ہے، کون مدد کو پہنچ سکتا ہے ؟ شریعت اسلام کی حکیمانہ تعلیم دیکھئے کہ طلاق کا معاملہ ظاہر ہے کہ باہمی مخالفت غصے اور ناراضی سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ جو تعلق انتہائی یگانگت اور محبت والفت کی بنیاد پر قائم ہوا تھا وہ اب اس کی نقیض بن کر نفرت، دشمنی، انتقامی جذبات کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ قرآن کریم کی آیت مذکورہ اور اسی قسم کی بہت سی آیات نے عین طلاق کے موقع پر جو مسلمان کو ہدایات دی ہیں وہی ایسی ہیں کہ ان میں حسن خلق اور حسن معاشرت کا پورا امتحان ہوتا ہے۔ نفس کا تقاضا ہوتا ہے کہ جس عورت نے ہمیں ستایا اذیت دی یہاں تک کہ قطع تعلق پر مجبوری ہوئی اس کو خوب ذلیل کر کے نکالا جائے اور جو انتقام اس سے لیا جاسکتا ہے لے لیا جائے۔- مگر قرآن کریم نے عام مطلقہ عورتوں کے لئے تو ایک بڑی پابندی عدت کی اور ایام عدت کو شوہر کے مکان میں گزارنے کی لگا دی۔ طلاق دینے والے پر یہ فرض کردیا کہ اس مدت کے اندر عورت کو اپنے گھر سے نہ نکالے، اور اس کو بھی پابند کردیا کہ ایام عدت میں اس گھر سے نہ نکلے۔ دوسرے شوہر پر فرض کردیا کہ طلاق دے دینے کے باوجود اس زمانہ عدت کا نفقہ بدستور جاری رکھے۔ تیسرے شوہر کے لئے مستحب کیا کہ عدت پوری ہونے کے بعد بھی جب اس کو رخصت کرے تو متاع یعنی لباس دے کر عزت کے ساتھ رخصت کرے۔ صرف وہ عورتیں جن کے ساتھ صرف نکاح کا بول پڑھا گیا ہے رخصتی اور خلوت و صحبت کی نوبت نہیں آئی وہ عدت سے مستثنیٰ قرار دی گئیں، لیکن ان کے متاع کی تاکید بہ نسبت دوسری عورتوں کے زیادہ کردی گئی۔ اسی کے ساتھ - تیسرا حکم یہ دیا گیا کہ (آیت) سرحوہن سراحاً جمیلاً ، یعنی ان کو رخصت کرو خوبی کے ساتھ، جس میں یہ پابندی لگا دی گئی کہ زبان سے بھی کوئی سخت بات نہ کہیں، طعن وتشنیع کا طریقہ اختیار نہ کریں۔- مخالفت کے وقت مخالف کے حقوق کی رعایت وہی کرسکتا ہے جو اپنے نفس کے جذبات پر قابو رکھے، اسلام کی ساری تعلیمات میں اس کی رعایت رکھی گئی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَہَا۝ ٠ ۚ فَمَتِّعُوْہُنَّ وَسَرِّحُوْہُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا۝ ٤٩- نكح - أصل النِّكَاحُ للعَقْدِ ، ثم استُعِيرَ للجِماع، ومُحالٌ أن يكونَ في الأصلِ للجِمَاعِ ، ثمّ استعیر للعَقْد، لأَنَّ أسماءَ الجِمَاعِ كلَّهَا كِنَايَاتٌ لاسْتِقْبَاحِهِمْ ذكرَهُ كاسْتِقْبَاحِ تَعَاطِيهِ ، ومحال أن يَسْتَعِيرَ منَ لا يَقْصِدُ فحْشاً اسمَ ما يَسْتَفْظِعُونَهُ لما يَسْتَحْسِنُونَهُ. قال تعالی: وَأَنْكِحُوا الْأَيامی - [ النور 32] ، إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] ، فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ- [ النساء 25] إلى غير ذلک من الآیات .- ( ن ک ح ) اصل میں نکاح بمعنی عقد آتا ہے اور بطور استعارہ جماع کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ اصل میں بمعنی جماع ہو اور پھر عقد میں بطور استعارہ استعمال ہوا ہو کیوں کہ عربی زبان میں جماع کے معنی میں تمام الفاظ کنائی ہیں ۔ کیونکہ نفس فعل کی طرح صراحتا اس کا تذکرہ بھی مکروہ سمجھا جاتا ہے لہذا یہ نہیں ہوسکتا کہ زبان ذکر فحش سے اس قدر گریزا ہو وہ ایک مستحن امر کے لئے قبیح لفظ استعمال کرے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَأَنْكِحُوا الْأَيامی[ النور 32] اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کردیا کرو ۔ إِذا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِناتِ [ الأحزاب 49] جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَ [ النساء 25] تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کرلو ۔ علٰی ہذا لقیاس متعد آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔- طلق - أصل الطَّلَاقِ : التّخليةُ من الوثاق، يقال : أَطْلَقْتُ البعیرَ من عقاله، وطَلَّقْتُهُ ، وهو طَالِقٌ وطَلِقٌ بلا قيدٍ ، ومنه استعیر : طَلَّقْتُ المرأةَ ، نحو : خلّيتها فهي طَالِقٌ ، أي : مُخَلَّاةٌ عن حبالة النّكاح . قال تعالی: فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] ، الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة 229] ، وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة 228] ، فهذا عامّ في الرّجعيّة وغیر الرّجعيّة، وقوله : وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة 228] ، خاصّ في الرّجعيّة، وقوله : فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ- [ البقرة 230] ، أي : بعد البین، فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة 230] ، يعني الزّوج الثّاني . وَانْطَلَقَ فلانٌ: إذا مرّ متخلّفا، وقال تعالی: فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ [ القلم 23] ، انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات 29] ، وقیل للحلال :- طَلْقٌ ، أي : مُطْلَقٌ لا حَظْرَ عليه، وعدا الفرس طَلْقاً أو طَلْقَيْنِ اعتبارا بتخلية سبیله . والمُطْلَقُ في الأحكام : ما لا يقع منه استثناء «2» ، وطَلَقَ يَدَهُ ، وأَطْلَقَهَا عبارةٌ عن الجود، وطَلْقُ الوجهِ ، وطَلِيقُ الوجهِ : إذا لم يكن کالحا، وطَلَّقَ السّليمُ : خَلَّاهُ الوجعُ ، قال الشاعر :- 302-- تُطَلِّقُهُ طوراً وطورا تراجع«3» ولیلة طَلْقَةٌ: لتخلية الإبل للماء، وقد أَطْلَقَهَا .- ( ط ل ق ) - ا لطلاق دراصل اس کے معنی کسی بندھن سے آزاد کرنا کے ہیں ۔ محاورہ الطلقت البعر من عقالہ وطلقۃ میں نے اونٹ کا پائے بند کھول دیا طالق وطلق وہ اونٹ جو مقید نہ ہو اسی سے خلی تھا کی طرح طلقت المرءۃ کا محاورہ مستعار ہے یعنی میں نے اپنی عورت کو نکاح کے بندھن سے آزادکر دیا ایسی عورت کو طائق کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَ [ الطلاق 1] تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو ۔ الطَّلاقُ مَرَّتانِ [ البقرة 229] طلاق صرف دو بار ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْمُطَلَّقاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَ [ البقرة 228] اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے تئیں روکے کے رہیں ۔ میں طلاق کا لفظ عام ہے جو رجعی اور غیر رجعی دونوں کو شامل ہے ۔ لیکن آیت کریمہ : ۔ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ [ البقرة 228] اور ان کے خاوند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حقدار ہیں ۔ میں واپس لے لینے کا زیادہ حقدار ہونے کا حکم رجعی طلاق کے ساتھ مخصوص ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ [ البقرة 230] پھر اگر شوہر ( دو طلاقوں کے بعد تیسری ) طلاق عورت کو دے دے تو ۔۔۔۔ اس پہلے شوہر پر حلال نہ ہوگی ۔ میں من بعد کے یہ معنی ہیں کہ اگر بینونت یعنی عدت گزرجانے کے بعد تیسری طلاق دے ۔ تو اس کے لئے حلال نہ ہوگی تا و قتیلہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ طَلَّقَها فَلا جُناحَ عَلَيْهِما أَنْ يَتَراجَعا [ البقرة 230] میں طلقھا کے معنی یہ ہیں کہ اگر دوسرا خاوند بھی طلاق دے دے وہ پہلے خاوند کے نکاح میں آنا چاہیئے کے تو ان کے دوبارہ نکاح کرلینے میں کچھ گناہ نہیں ہے ۔ انطلق فلان کے معنی چل پڑنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَانْطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخافَتُونَ ، [ القلم 23] تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے : ۔ انْطَلِقُوا إِلى ما كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ [ المرسلات 29] جس چیز کو تم جھٹلا یا کرتے تھے اب اسکی طرف چلو ۔ اور حلال چیز کو طلق کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے کھالینے پر کسی قسم کی پابندی نہیں ہوتی ۔ عد الفرس طلقا اوطلقین گھوڑے نے آزادی سے ایک دو دوڑیں لگائیں اور فقہ کی اصطلاحی میں مطلق اس حکم کو کہا جاتا ہے جس سے کوئی جزئی مخصوص نہ کی گئی ہو ۔ طلق یدہ واطلقھا اس نے اپنا ہاتھ کھول دیا ۔ طلق الوجہ اوطلیق الوجہ خندہ رو ۔ ہنس مکھ ، طلق السلیم ( مجہول ) مار گزیدہ کا صحت یاب ہونا ۔ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) تطلقہ طورا وطور الرجع کہ وہ کبھی در د سے آرام پالیتا ہے اور کبھی وہ دور دوبارہ لوٹ آتا ہے لیلۃ طلحۃ وہ رات جس میں اونٹوں کو پانی پر وارد ہونے کے لئے آزاد دیا جائے کہ وہ گھاس کھاتے ہوئے اپنی مرضی سے چلے جائیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ الطلق الابل یعنی اس نے پانی پر وار ہونے کے لئے اونٹوں کو آزاد چھوڑدیا ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- سرح - السَّرْحُ : شجر له ثمر، الواحدة : سَرْحَةٌ ، وسَرَّحْتُ الإبل، أصله : أن ترعيه السَّرْحَ ، ثمّ جعل لكلّ إرسال في الرّعي، قال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ- [ النحل 6] ، والسَّارِحُ : الرّاعي، والسَّرْحُ جمع کا لشّرب «2» ، والتَّسْرِيحُ في الطّلاق، نحو قوله تعالی: أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقوله : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا - [ الأحزاب 49] ، مستعار من تَسْرِيحِ الإبل، کالطّلاق في كونه مستعارا من إطلاق الإبل، واعتبر من السّرح المضيّ ، فقیل : ناقة سَرْحٌ: تسرح في سيرها، ومضی سرحا سهلا . والْمُنْسَرِحُ : ضرب من الشّعر استعیر لفظه من ذلك .- ( س ر ح) السرح - ایک قسم کا پھلدار درخت ہے اس کا واحد سرحۃ ہے اور سرحت الابل کے اصل معنی تو اونٹ کو سرح ، ، درخت چرانے کے ہیں بعدہ چراگاہ میں چرنے کے لئے کھلا چھوڑ دینے پر اس کا استعمال ہونے لگا ہے چناچہ قرآن میں ہے : وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں ( جنگل سے ) لاتے ہو اور جب صبح کو ( جنگل ) چرانے لے جاتے ہو تو ان سے تمہاری عزت وشان ہے ۔ اور چروا ہے کو ، ، سارح کہاجاتا ہے اس کی جمع سرح ہے جیسے شارب کی جمع شرب ( اور راکب کی جمع رکب ) آتی ہے اور تسریح کا لفظ طلاق دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا : أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے ۔ اور اسی طرح آیت : وَسَرِّحُوهُنَّ سَراحاً جَمِيلًا[ الأحزاب 49] اور ان کو کچھ فائدہ ( یعنی خرچ ) دے کر اچھی طرح سرے رخصت کردو ۔ میں بھی سرحوھن کے معنی طلاق دینے کے ہیں اور یہ تسریح سے مستعار ہے جس کے معنی جانوروں کو چرنے کے لئے چھوڑ دینا کے ہیں ۔ جیسا کہ خود طلاق کا لفظ اطلاق الابل ( اونٹ کا پائے بند کھولنا) کے محاورہ سے مستعا رہے ۔ اور کبھی سرح ، ، میں تیز روی کے معنی کا اعتبار کر کے تیز رو اور سہل رفتار اونٹنی کو ناقۃ سرح کہاجاتا ہے اور اسی سے بطور ستعارہ شعر کے ایک بحر کا نام منسرح رکھا گیا ہے ۔- جمیل - الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان :- أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله .- والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83]- ( ج م ل ) الجمال - کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔- (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ - وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔- فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

نکاح سے پہلے طلاق کا بیان - قول باری ہے : (یایھا الذین امنوا اذ نکحتم المومنات ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تعتدونھا فمتعوھن وسرحوھن سراجا جمیلا۔ اے ایمان لانے والو تم جب مومن عورتوں سے نکاح کرو اور پھر انہیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو تمہارے لئے ان کے بارے میں کوئی عدت نہیں ہے جسے تم شمار کرنے لگو، انہیں کچھ مال دے دو اور خوبی کے ساتھ رخصت کردو) ۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ تزویج کی شرط پر طلاق واقع کرنے کی صحت پر آیا یہ دلالت کرتی ہے یا نہیں۔ اس بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ مثلاً کوئی شخص یہ کہے۔ اگر میں کسی عورت سے نکاح کرلو تو اس پر طلاق ہے۔ “ کچھ حضرات کا قول ہے آیت اس قول کے الغاء اور اس کے حکم کے سقوط کی مقتضی ہے کیونکہ یہ نکاح کے بعد طلاق کی صحت کی موجب ہے جبکہ زیر بحث شخص نکاح سے پہلے ہی طلاق دے رہا ہے۔- دوسرے حضرات کا قول ہے کہ قائل کے قول کی صحت اور نکاح کے وجود کی صورت میں اس کے حکم کے لزوم پر آیت کی دلالت واضح ہے کیونکہ آیت نے نکاح کے بعد طلاق کے وقوع کی صحت کا حکم لگادیا ہے۔ اب ایک شخص اگر کسی اجنبی عورت سے یہ کہتا ہے کہ ” جب تجھ سے میرا نکاح ہوجائے گا تو تجھے طلاق ہوجائے گی۔ “ اس لئے یہ شخص نکاح کے بعد طلاق دے رہا ہے۔ جس کی بنا پر ظاہر آیت کی رو سے اس کی طلاق کا واقع ہوجانا اور اس کے الفاظ کے حکم کا ثابت ہوجانا واجب ہوگیا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہی قول درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس قول کا قائل یا تو قول کی حالت میں طلاق دینے والا ہوگا یا نسبت واضافت اور وجود شرط کی حالت میں وہ ایسا کرنے والا ہوگا۔ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص اپنی بیوی سے یہ کے کہ ” جب تو مجھ سے بائن ہوکر میرے لئے اجنبی بن جائے گی تو تجھے طلاق ہوجائے گی۔ “ وہ اضافت کی حالت میں طلاق دینے والا ہوگا، قول کی حالت میں طلاق دینے والا نہیں ہوگا۔- اور اس کی حیثیت اس شوہر جیسی ہوگی جو پہلے اپنی بیوی کو بائن کردے اور پھر اس سے کہے ” تجھے طلاق ہے۔ “ اس طرح اس کے الفاظ کا حکم ساقط ہوگیا اور نکاح کے ہوتے ہوئے اس کے قول کی حالت کا اعتبار نہیں کیا گیا۔ اس لئے یہ کہنا درست ہوگیا کہ اضافت کی حالت کا اعتبار ہوتا ہے، عقد یعنی قول کی حالت کا اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لئے اجنبی عورت کو یہ کہنے والا کہ جب میں تجھ سے نکاح کروں گا تو تجھے طلاق ہوجائے گی۔ “ ملک کے بعد اسے طلاق دینے والا ہے۔ اور آیت اس شخص کی طلاق کے وقوع کی مقتضی ہے جو ملک کے بعد طلاق دے رہا ہو۔- طلاق قبل ازنکاح میں اختلاف ائمہ - اس مسئلے میں فقہاء کے مختلف اقوال ہیں۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ جب کوئی شخص یہ کہے جس عورت سے بھی نکاح کروں اسے طلاق ہے اور جس مملوک کا میں مالک بن جائوں وہ آزاد ہے۔ تو جس عورت سے بھی اس کا نکاح ہوگا اسے طلاق ہوجائے گی اور جس مملوک کا بھی وہ مالک ہوگا اسے آزادی مل جائے گی۔ ان حضرات نے اس میں تعمیم اور تخصیص کرنے والوں کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔- ابن ابی لیلیٰ کا قول ہے اگر کہنے والے نے اس میں تعمیم کی ہو تو کوئی چیز واقع نہیں ہوگی۔ البتہ اگر اس نے بعینہٖ کسی چیز یا جماعت کی ایک مدت تک تخصیص کردی ہو تو وہ واقع ہوجائے گی۔ امام مالک کا بھی یہی قول ہے۔ امام مالک سے یہ بھی مذکور ہے کہ اگر کسی نے طلاق کے لئے ایسی مدت مقرر کردی ہو جس کے متعلق سب کو یہ معلوم ہو کہ وہ اس مدت تک پہنچ نہیں سکتا تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی مثلاً کوئی شخص یہ کہے ” اگر میں فلاں فلاں سال تک کسی عورت سے نکاح کرلو تو اسے طلاق ہوجائے گی۔ “- پھر امام مالک نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے ” ہر وہ غلام جسے میں خریدلوں وہ آزاد ہے۔ “ تو اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی۔ سفیان ثوری کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ” اگر میں فلاں عورت سے نکاح کرلوں تو اسے طلاق ہوجائے گی تو اس پر اس کا یہ قول لازم ہوجائے گا۔- عثمان البتی کا بھی یہی قول ہے۔ اوزاعی نے اس شخص کے متعلق کہا ہے جو اپنی بیوی سے یہ کہے کہ ” ہر وہ لونڈی جس کے ساتھ تمہارے ہوتے ہوئے ہم بستری کروں وہ آزاد ہوجائے گی۔ “ پھر وہ بیوی کے ہوتے ہوئے کسی لونڈی سے ہم بستری کرلے تو وہ لونڈی آزاد ہوجائے گی۔- حسن بن صالح کا قول ہے کہ اگر کوئی یہ کہے ” جس مملوک کا میں مالک ہوجائوں وہ آزاد ہوجائے گا۔ “ تو اس کا یہ قول بےمعنی ہوگا۔ اگر وہ یہ کہے ” ہر وہ مملوک جس میں خرید لوں یا وارث بن جائوں۔ “ یا سای طرح کی کوئی اور بات کہے گا تو اس جہت سے ملکیت حاصل ہونے پر غلام آزاد ہوجائے گا۔ اس لئے کہ اس نے تخصیص کردی تھی۔ لیکن اگر وہ یہ کہے۔ ہر وہ عورت جس سے میں نکاح کروں گا اسے طلاق ہوجائے گی۔ “ تو اس صورت میں کچھ نہیں ہوگا۔ اگر وہ یہ کہے ” فلاں خاندان یافلاں گھرانے یا اہل کوفہ کی جس عورت سے میں نکاح کرلوں گا اسے طلاق ہوجائے گی۔ “ تو اس صورت پر طلاق واقع ہوجائے گی۔- حسن کا قول ہے کہ جب سے کوفہ کا شہر آباد ہوا ہے اس وقت سے آج تک ہمیں کسی اہل علم کے متعلق علم نہیں کہ اس نے اس کے سوا اور کوئی فتویٰ دیا ہو۔ لیث کا قول ہے کہ تخصیص کی صورت میں طلاق اور عتاق کے اندر اس پر اس کی کہی ہوئی بات لازم ہوجائے گی یعنی طلاق واقع ہوجائے گی اور غلام یا لونڈی کو آزادی مل جائے گی۔- امام شافعی کا قول ہے ک اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہوگی نہ تو تخصیص کی صورت میں اور نہ ہی تعمیم کی صورت میں۔- اس مسئلے میں سلف کے مابین بھی اختلاف رائے ہے۔ یا سین زیات سے مروی ہے کہ انہوں نے عطاء خراسانی سے اور انہوں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر (رض) نے اس شخص کے متعلق فرمایا تھا جس نے یہ کہا تھا۔ ” جس عورت سے بھی میرا نکاح ہوگا اسے طلاق ہوجائے گی۔ “ کہ جس طرح اس نے کہا ہے اس کے مطابق ہوگا۔- امام مالک نے سعید بن عمرو بن سلیم الزوتی سے رویت کی ہے کہ انہوں نے قاسم بن محمد سے اس شخص کے متعلق دریافت کیا تھا جو ایک عورت کو اس کے ساتھ نکاح ہونے سے قبل ہی طلاق دے دیتا ہے۔ قاسم نے اس کے جواب میں کہا تھا ک ایک شخص نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اگر میں اس سے نکاح کروں تو یہ میرے لئے میری ماں کی پشت کی طرح ہوگی۔ حضرت عمر (رض) نے اس شخص کو اس عورت سے نکاح کرلینے کا حکم دیا تھا اور ساتھ ہی یہ فرمادیا تھا کہ جب تک ظہار کا کفارہ ادا نہیں کرے گا اس وقت تک اس سے قربت نہیں کرے گا۔- سفیان ثوری نے محمد بن قیس سے، انہوں نے ابراہیم نخعی سے اور انہوں نے اسود سے روایت کی ہے کہ انہوں نے پہلے تو یہ کہا تھا کہ ” اگر میں فلاں عورت سے نکاح کرلوں تو اسے طلاق “ پھر بھول کر اس سے نکاح کرلیا اور یہ معاملہ حضرت ابن مسعود (رض) کے سامنے پیش کردیا۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے اس پر طلاق لازم کردی۔- ابراہیم نخعی، شعبی، مجاہد اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا بھی یہی قول ہے ۔ شعبی نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی خاص عورت کا نام لے کر یہ بات کہے یا یوں کہے کہ اگر میں فلاں خاندان کی عورت سے شادی کرلوں تو اس پر طلاق ہے تو اس صورت میں وہی ہوگا جو اس نے کہا ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہے : ” جس عورت سے بھی میں نکاح کروں اسے طلاق ہے۔ “ تو اس صورت میں یہ بےمعنی بات ہوگی۔- سعید بن المسیب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے۔” میں فلاں عورت سے اگر نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔ “ تو اس کی یہ بات بےمعنی ہوگی۔ قاسم بن سالم اور حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا ہے کہ اس کے لئے ایسا کہنا جائز ہے۔ یعنی طلاق واقع ہوجائے گی۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اگر کوئی شخص درج بالا فقرہ کہے تو اس کی یہ بات بےمعنی ہوگی۔ حضرت عائشہ (رض) ، حضرت جابر (رض) اور دوسرے حضرات سے مروی ہے کہ نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں۔- تاہم اس فقرے میں ہمارے اصحاب کے قول کی مخالفت پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں اگر کسی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے۔ “ وہ دراصل نکاح کے بعد طلاق دینے والا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہم نے آیت کی جس دلالت کا ذکر کیا ہے وہ ہمارے قول کی صحت اور مخالف پر حجت کے قیام نیز مسلک کی تصحیح کے لئے کافی ہے۔- اس پر قول باری (یایھا الذین امنوا اوفوا بالعقود۔ اے ایمان لانے والو عقود یعنی بندشوں کی پوری پابندی کرو) ظاہر آیت اس امر کا مقتضی ہے کہ ہر عاقد پر اس کے عقد کا موجب ومقتضیٰ لازم ہوجاتا ہے۔ جب یہ قائل اپنی ذات پر نکاح کے بعد طلاق واقع کرنے کی بندش باندھ رہا ہے تو اس سے ضرورت ہوگیا کہ اس بندش اور عقد کا حکم اس پر لازم ہوجائے۔- اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد بھی دلالت کرتا ہے۔ آپ نے فرمایا (المسلمون عند شروطھم۔ مسلمان اپنی شرطوں کے پاس ہوتے ہیں) یعنی اپنی شرطیں پوری کرتے ہیں۔ اس ارشاد نے یہ بات واجب کردی کہ جو شخص اپنے اوپر کوئی شرط عائد کرے گا شرط کے وجود کے ساتھ ہی اس پر اس کا حکم لازم کردیا جائے گا۔- اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ نذر صرف ملک کے اندر درست ہوتی ہے۔ نیز یہ کہ جو شخص یہ نذر مانتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے ہزار درہم عطا کردے تو میں اس میں سے سودرہم اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں گا، وہ اپنی ملکیت کے اندر نذر ماننے والا شمار ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس نے اس رقم کی اضافت اور نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے اگرچہ فی الحال وہ اس رقم کا مالک نہیں ہے۔- یہی صورت حال طلاق اور عتاق کی ہے کہ اگر ان کی اضافت اپنی ملک کی طرف کرلے گا تو اسے ملک کے اندر طلاق دینے والا اور آزاد کرنے والا شمار کیا جائے گا۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی لونڈی سے یہ کہے کہ ” اگر تمہارے بطن سے کوئی بچہ پیدا ہوا وہ آزاد ہوگا۔ “ اس کے بعد لونڈی کو حمل ٹھہر جائے اور بچہ پیدا ہوجائے تو وہ بچہ آزاد ہوجائے گا حالانکہ قول کی حالت میں آقا اس بچے کا مالک نہیں تھا۔- آزاد ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بچے کی اضافت ونسبت اس ماں کی طرف تھی جس کا وہ مالک تھا۔ اسی طرح اگر کوئی عشق کو اپنی ملکیت کی طرف منسوب کرے اسے اپنی ملکیت کے اندر آزاد کرنے والا شمار کیا جائے گا۔ اگرچہ فی الحال اس پر اس کی ملکیت موجود نہیں ہے۔ نیز اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے ” اگر تم گھر میں داخل ہوجائو تو تمہیں طلاق “ پھر نکاح کے ہوتے ہوئے اگر وہ گھر میں داخل ہوجائے گی تو اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔- اس کے اس فقرے کی حیثیت وہی ہے جو نکاح کی حالت میں اس کے اس فقرے کی ہے کہ ” تمہیں طلاق ہے۔ “ اگر یہی شخص اپنی بیوی کو پہلے بائن کردیتا اور پھر وہ گھر میں داخل ہوجاتی تو اس کے درج بالا فقرے کی حیثیت وہی ہوتی جو بینونت کی حالت میں اس کے اس یقرے کی ہوتی۔” تمہیں طلاق ہے۔ “ یعنی اس صورت میں اس پر طلاق واقع نہ ہوتی۔- یہ بات اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ قسم کھانے والا شخص دراصل جواب قسم کے وقت جواب قسم کے الفاظ زبان پر لانے والا شمار ہوتا ہے۔ اس لئے جو شخص یہ کہے ” ہر وہ عورت جس سے میرا نکاح ہوا سے طلاق ہے۔ “ اس کے بعد پھر وہ کسی عورت سے نکاح کرلے تو ضروری ہے کہ اس کے اس فقرے کو وہی حیثیت دی جائے جو کسی عورت سے نکاح کرے اس کے اس فقرے کی ہے کہ ” تمہیں طلاق ہے۔ “- اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا بات اگر درست ہوتی تو اس سے یہ لازم آتا کہ ایک شخص اگر حلف اٹھانے کے بعد دیوانہ ہوجاتا اور پھر اس کے قسم کی شرط وجود میں آجاتی تو درج بالا وضاحت کی روشنی میں اسے حانث قرار نہ دیا جاتا کیونکہ اس نے دراصل گویا جنون کی حالت کے وقت جواب قسم کے الفاظ اپنی زبان پر لائے تھے۔- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات ضروری نہیں ہے کیونکہ مجنون کا کوئی قول نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کا بولنا اور خاموش رہنا دونوں کی حیثیت یکساں ہوتی ہے ۔ چونکہ اس کا قول درست نہیں ہوتا اس لئے جنون کی صورت میں ابتداء وہی سے اس کا وقوع پذیر ہوجانا درست نہیں ہوتا۔ لیکن چونکہ جنون سے پہلے اس کا قول درست اور قابل تسلیم ہوتا ہے اس لئے صحت کی حالت میں اس کے کہے ہوئے قول کا حکم جنون کی حالت میں بھی اس پر لازم ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ہے کہ مجنون انسان اگر اپنی بیوی کو طلاق دے دے یا غلام آزاد کردے تو بعض دفعہ اس کی یہ طلاق اور اس کا یہ عتاق درست ہوجاتا ہے۔- مثلاً اگر یہی دیوانہ مقطوع الذکر یا نامرد ہوتا اور اسے اس کی بیوی سے علیحدہ کردیا جاتا تو یہ علیحدگی طلاق ہوتی۔ اسی طرح اگر یہ اپنے باپ کا وراثت کی صورت میں مالک بن جاتا تو باپ اس پر آزاد ہوجاتا۔ جس طرح نائم یعنی نیند میں پڑے ہوئے انسان کی حالت ہوتی ہے کہ طلاق واقع کرنے کی ابتداء تو اس سے درست نہیں ہوتی لیکن کسی سبب کی بنا پر اس کا حکم اسے لازم ہوجاتا ہے۔- مثلاً اس نے کسی کو یہ سپرداری دی ہو کہ وہ اس کی بیوی کو طلاق دے دے یا اس کا غلام آزاد کردے۔ اب اگر اس وکیل نے موکل کی نیند کی حالت میں اس کی بیوی کو طلاق دے دی ہو یا اس کا غلام آزاد کردیا ہو تو طلاق اور عتاق کا یہ حکم اس پر لازم ہوجائے گا۔- اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی (رض) ، حضرت معاذ بن جبل (رض) اور حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (لا طلاق قبل النکاح۔ نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ا سروایت کی اسانید فن روایت کے لحاظ سے مضطرب شمار ہوتی ہیں اس لئے روایت کی جہت سے یہ درست نہیں ہے۔ اگر اسے روایت کی جہت سے درست مان بھی لیا جائے تو بھی اختلافی نکتے پر اس کی کوئی دلالت نہیں ہورہی ہے۔- اس لئے کہ ہم نے جو صورت بیان کی ہے اس میں ایک شخص نکاح کے بعد طلاق دینے والا ہوتا ہے اس لئے یہ بات اس روایت کی خلاف نہیں ہے۔ نیز آپ نے اس ارشاد کے ذریعے نکاح سے پہلے طلاق واقع کرنے کی نفی کردی ہے لیکن عقد کی نفی نہیں کی۔ جب آپ کے ارشاد (لا طلاق قبل النکاح) کا حقیقی مفہوم ایقاع طلاق کی نفی ہے جبکہ طلاق پر عقد طلاق شمار نہیں ہوتا تو وہ وجوہ سے حدیث کے الفاظ اس صورت کو شامل نہیں ہوں گے۔ ایک تو یہ کہ عقد پر اس کا اطلاق مجازاً ہوگا۔ حقیقت کے طور پر نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ جو شخص طلاق پر کسی قسم کا انعقاد کرتا ہے۔ اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاتا کہ اس نے طلاق دے دی ہے جب تک وہ واقع نہ ہوجائے پھر لفظ کا حکم یہ ہوتا ہے کہ جب تک دلالت قائم نہ ہوجائے اس وقت اسے اس کے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا۔ دلالت قائم ہونے پر مجازی معنی لئے جائیں گے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ لفظ اپنے حقیقی معنی میں مستعمل ہے اس لئے اس سے مجازی معنی مراد لینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ ایک ہی لفظ سے حقیقی اور مجازی دو معنی مراد لینا جائز نہیں ہوتا۔- زہری سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد (لاطلاق قبل نکاح) کی وضاحت ہے انہوں نے کہا ہے کہ اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ کسی شخص کے سامنے کسی عورت کا تذکرہ کرکے اس سے اس کے ساتھ نکاح کرلینے کے لئے کہا جائے ۔ وہ شخص یہ سن کر کہے کہ ” اس عورت کو یقینا طلاق ہے۔ “ اس کی یہ بات ایک بےمعنی سی بات ہوگی۔- البتہ جو شخص یہ کہے ” اگر میں فلاں عورت سے نکاح کرلوں تو اسے یقینا طلاق ہے۔ “ وہ اسے نکاح کرنے پر طلاق دے دے گا۔ غلام آزاد کرنے کی بھی یہی صورت ہے۔ ایک قول کے مطابق یہاں عقد مراد ہے۔ وہ یہ کہ کوئی شخص اجنبی عورت سے کہے۔” اگر تم گھر میں داخل ہوگی تو تمہیں طلاق ہے۔ “ اس کے بعد پھر وہ اس عورت سے نکاح کرلے اور نکاح کے بعد عورت گھر میں داخل ہوجائے تو عورت پر طلاق واقع نہیں ہوگی خواہ نکاح کی حالت میں وہ گھر میں داخل ہوئی ہو۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس بارے میں تخصیص کرنے والے اور تعمیم کرنے والے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لئے کہ تخصیص کی صورت میں وہ ملک کے اندر طلاق دینے والا ہوگا۔ تعمیم کی صورت میں بھی اس کا یہی حکم ہوگا جب تعمیم کی صورت میں وہ ملک کے اندر طلاق دینے والا نہیں ہوتا تو تخصیص کی بھی یہی کیفیت ہوگی۔- اگر یہ کہا جائے کہ جب ایک شخص تعمیم کرتا ہے تو اپنی ذات پر تمام عورتوں کو حرام کردیتا ہے جس طرح ظہار کرنے والا جب اپنی بیوی کو مبہم صورت میں حرام کرلیتا ہے تو اس کا حکم ثابت نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے اول تو یہ کہ ظہار کرنے والا ایک متعین عورت یعنی اپنی بیوی کی تحریم کا ارادہ کرتا ہے اور ہمارے مخالف کا اصول ہے کہ جب کوئی شخص تعیین کی صورت میں تخصیص کرلے تو اس کی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔- البتہ جب وہ تعمیم کرتا ہے تو طلاق واقع نہیں ہوتی۔ اس لئے ہمارے مخالف کے اصول کے مطابق اس پر طلاق واقع نہ ہونا واجب ہوگا۔ خواہ اس نے تخصیص کیوں نہ کرلی ہو جس طرح ظہار کرنے والا اگر مبہم صورت میں تحریم کرے تو عورت اس پر حرام نہیں ہوتی۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اس کے ظہار نیز اس کی تحریم کے حکم کو باطل نہیں کیا بلکہ اس کے قول کے ساتھ اس پر اس عورت کو حرام کردیا ہے اور اس پر اس کے ظہار کا حکم ثابت کردیا ہے۔- نیز جو شخص اس بات کی قسم کھاتا ہے کہ وہ جس عورت سے بھی نکاح کرے گا اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ وہ اس قسم کے ذریعے اپنی ذات پر عورتوں کو حرام نہیں کرتا کیونکہ وہ اس قسم کے ذریعے نکاح کی تحریم کرو واجب نہیں کرتا۔ بلکہ اس نے صرف نکاح ہوجانے اور ملک بضع کے حصول کے بعد طلاق واجب کی ہے۔ نیز جب وہ کہتا ہے ” ہر وہ عورت جس میں نکاح کروں گا اس پر طلاق واقع ہوجائے گی۔ “- ایسے شخص پر جب ہم اس طلاق کو لازم کردیں گے جس کا اس نے قول کیا تھا تو اس صورت میں عورت کی تحریم مبہم نہیں ہوگی بلکہ اسے ایک طلاق ہوجائے گی اور اس شخص کے لئے اس کے بعد بھی دوسری مرتبہ اس عورت سے نکاح کرلینا جائز ہوگا اور کوئی طلاق وغیرہ واقع نہیں ہوگی۔- ہمارے بیان کردہ یہ تمام وجوہ معترض کی بیخبر ی کی نشاندہی کرتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ معترض کے درج بالا اعتراض کا اصل مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص یہ کہے ۔ اگر میں اس سے نکاح کرلوں تو اس پر طلاق ہے، اور اگر میں اسے خرید لوں تو وہ آزاد ہے۔ تو اس صورت میں کوئی چیز واقع نہیں ہوگی بلکہ طلاق اور آزادی اس صورت میں واقع ہوگی جب وہ عورت سے یہ کہے ” جب تمہارے ساتھ میرا دوست طریقے سے نکاح ہوجائے تو پھر اس کے بعد تمہیں طلاق ہے۔ یا یوں کہے ” جب تمہارے ساتھ میرا درست طریقے سے نکاح ہوجائے تو پھر اس کے بعد تمہیں طلاق ہے۔ “ یا یوں کہے ” جب میں خریداری کے بعد تمہارا مالک بن جائوں تو تم آزاد ہوجائو گے۔ “ ان حضرات نے اپنے اس قول کے لئے استدلال کی یہ راہ اختیار کی ہے کہ جب نکاح اور خریداری کو طلاق اور عتاق کے لئے شرط قرار دیا جاتا ہے تو اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ عقد کے ملک بضع اور ملک بضع اور ملک رقبہ کا حصول ہوتا ہے۔ ل - لیکن زیر بحث حالت میں ملک کے حصول کے ساتھ ہی عتاق اور طلاق بھی واقع ہورہی ہے یعنی ملک ، طلاق اور عتاق ایک ساتھ ہی وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ اس لئے ایسی صورت میں نہ طلاق واقع ہوگی اور نہ ہی عتاق۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں اس ملک کے اندر وقوع پذیر ہوتی ہیں جو اس سے پہلے حاصل ہوچکی ہو۔- ابوبکر حبصاص کے نزدیک یہ ایک بےمعنی استدلال ہے کیونکہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ ” جب میں تم سے نکاح کرلوں گا اور تمہیں طلاق ہوجائے گی۔ “ یا ” جب تمہیں خریدلوں گا تو تم آزاد ہوجائو گے۔ “ اس کے کلام کے مضمون سے یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اس نے نکاح ہوجانے کے بعدنیز ملکیت حاصل ہونے کے بعد طلاق واقع کرنے یا آزادی دینے کا ارادہ کیا ہے۔ اس لئے اس کی حیثیت اس شخص کے قول کی طرح ہوگی جو یہ کہے ” جب میں نکاح کی بنا پر تمہارا مالک ہوجائوں گا تو تمہیں طلاق ہوجائے گی۔ “ یا ” جب میں خریداری کی بنا پر تمہارا مالک ہوجائوں گا تو تمہیں آزادی مل جائے گی۔ “ اس لئے جب فقرے میں نکاح یا خریداری کی بنا پر ملکیت کا مفہوم موجود ہے تو اس کی حیثیت یہ ہوجائے گی کہ گویا اس نے زبان سے یہ بات کہہ دی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا بات اگر درست ہوتی تو پھر لازم ہوتا کہ اگر کوئی یہ کہتا۔ میں اگر کوئی غلام خریدوں تو میری بیوی کو طلاق۔ “ یہ کہہ کر وہ کسی اور شخص کے لئے کسی غلام کی خریداری کرلیتا تو اس صورت میں اس کی بیوی پر طلاق واقع نہ ہوتی۔ کیونکہ اس کے اس فقرے کے مضمون میں ملکیت کا کا مفہوم موجود ہے گویا اس نے یہ کہا ۔” اگر خریداری کی بنا پر میں غلام کا مالک ہوجائوں تو میری بیوی کو طلاق۔ “- اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا ہونا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ فقرے کے الفاظ ان صورتوں میں ملکیت کے مفہوم کو متضمن ہوتے ہیں جن میں وہ طلاق واقع کررہا ہو یا آزادی دے رہا ہو۔ ان دونوں صورتوں کے علاوہ باقی صورتوں میں فقرے کو الفاظ کے حکم پر محمول کیا جائے گا۔ اور اس میں ملکیت کے وقوع یا عدم وقوع کے معنی کی تضمین نہیں کی جائے گی۔- قول باری ہے (من قبل ان تمستوھن) ہم نے سورة بقرہ میں بیان کردیا ہے کہ سیس یعنی ہاتھ لگانے سے مراد خلوت صحیحہ ہے اور عدت کی نفی کا تعلق خلوت اور جماع دونوں کی نفی کے ساتھ ہے۔ اس بارے میں بحث کے اعادے کی یہاں ضرورت نہیں ہے۔ قول باری (ومتعوھن) سے اگر وہ بیوی مراد ہے جس کا مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو آیت کا حکم وجوب پر محمول ہوگا جس طرح یہ قول باری ہے (اوتفرضوا لھن فریضۃ ومتعوھن) اگر وہ بیوی مراد ہے جس کے ساتھ دخول ہوچکا ہو تو آیت کا حکم استجباب پر محمول ہوگا وجوب پر نہیں۔- ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے اور انہوں نے قتادہ سیآیت (فما لکم علیھن من عدۃ تعتدونھا) تاآخر آیت میں روایت کی ہے کہ اس سے مراد وہ عورت ہے جس کا نکاح ہوگیا ہو لیکن اس کے ساتھ نہ دخول ہوا ہو، نہ ہی اس کے لئے کوئی مہر مقرر کیا گیا ہو۔ ایسی عورت کونہ تو کوئی مہر ملے گا اور نہ ہی اس پر عدت واجب ہوگی۔- قتادہ نے سعید سے روایت کی ہے۔ سورة بقرہ میں قول باری (فنصف ما فوضتم) کی بنا پر یہ آیت منسوخ ہے۔ قول باری ہے (وسروحوھن) دخول سے پہلے طلاق کی ذکر کے بعداس حکم کا ذکر ہوا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ شوہر اسے اپنے گھر سے یا اپنے قبضے سے اسے رخصت کردے کیونکہ طلاق کے ذکر کے بعد اس کا ذکر ہوا ہے۔- اس لئے زیادہ واضح بات یہ ہے کہ تشریح یعنی گھر سے رخصت کردینا طلاق نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ذریعے یہ بیان ہوا ہے کہ اب اس پر مرد کا کوئی اختیار نہیں رہا اور اب اس پر یہ لازم ہے اپنے قبضے اور سرپرستی سے باہر کردے۔- اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے جن عورتوں کو - حلال کردیا ان کا بیان - قول باری ہے (یایھا النبی انا احللنا لک ازواجک اللاتی اتیت اجورھن اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کے لئے آپ کی (یہ) بیویاں حلال کی ہیں جن کو آپان کے مہر دے چکے ہیں) تا آخر آیت - ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ آیت نکاح کی ان صورتوں پر مشتمل ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مباح کردیا تھا۔ ایک صورت وہ ہے جس کا ذکر آیت کے درج بالا حصے میں ہوا ہے یعنی ازواج مطہرات جن کے ساتھ متعین مہر پر نکاح ہوا تھا اور آپ نے ان کے مہر انہیں ادا کردیے تھے۔- دوسری صورت ملک یمین کی تھی جس کا ذکر قول باری (وما ملکت یمینک مما افاء اللہ علیک اور وہ عورتیں بھی جو آپ کی ملک میں ہیں جنہیں اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوایا ہے) میں ہوا ہے۔ مثلاً ریحانہ ، صفیہ اور جویریہ۔ آپ نے ان میں سے دو کو آزاد کرکے ان سے عقد کرلیا تھا۔ یہ وہ خواتین تھیں جنہیں اللہ نے آپ کو غنیمت میں دلوایا تھا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان خواتین کا ذکر کیا جو آپ کے اقارب میں سے تھیں اور انہیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر حلال کردیا تھا۔- چنانچہ ارشاد ہوا (وبنات عمک وبنات عما تک ونبات خالک وبنات خلاتک التی ھاجرن معک اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالائوں کی بیٹیاں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی)- پھر اللہ تعالیٰ نے ان خواتین کا ذکر کیا جنہیں مہر کے بغیر آپ کے لئے حلال کردیا گیا تھا۔ چناچہ ارشاد ہوا (وامراۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی اور اس مسلمان عورت کو بھی جو (بلا عوض) اپنے کو نبی کے حوالے کردے) اور اس کے ساتھ ہی یہ بتادیا کہ یہ صورت صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے، امت کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ جن خواتین کا پہلے ذکر گزر چکا ہے ان کے لحاظ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کی حیثیت یکساں ہے۔- قول باری (التی ھاجون معک) کے سلسلے میں امام ابویوسف کا قول ہے کہ اس میں ایسی کوئی دلالت موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ جن خواتین نے آپ کے ساتھ ہجرت نہیں کی تھی وہ آپ پر حرام تھیں۔ یہ چیز اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ امام ابویوسف اس بات کے قائل نہیں تھے جس چیز کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کردیا ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کے ماسوا چیزوں کا حکم اس چیز کے حکم کے برعکس ہے۔- دائود بن ابی ہند نے محمد بن ابی موسیٰ سے روایت کی ہے، انہوں نے زیاد سے اور انہوں نے حضرت ابی بن کعب سے زیاد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی سے یہ پوچھا تھا کہ آپ کے خیال میں اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام بیویاں ہلاک ہوجاتیں تو کیا آپ کو نکاح کرنے کی اجازت ہوتی ؟ حضرت ابی بن کعب (رض) نے جواب دیا : ” اس میں کیا رکاوٹ پیش آتی، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مختلف قسم کی خواتین کو حلال کردیا تھا اس لئے آپ ان میں سے جن کے ساتھ چاہتے نکاح کرلیتے۔ “ پھر حضرت ابی بن کعب (رض) نے یہ آیت تلاوت کی (یایھا النبی انا احللنا لک) تاآخر آیت - یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے جن خواتین کے ساتھ آپ کے نکاح کی اباحت کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے اس سے آپ پر دوسری خواتین کے ساتھ نکاح کی ممانعت لازم نہیں آئی تھی۔ کیونکہ حضرت ابی نے یہ بتایا تھا کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام ازواج مطہرات فوت ہوجاتیں تو آپ کے لئے دوسری خواتین سے نکاح کرنا جائز ہوتا۔- حضرت ام ہانی (رض) سے اس کے خلاف روایت منقول ہے۔ اسرائیل نے سدی سے۔ انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ام ہانی (رض) سے روایت کی ہے وہ کہتی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا تھا۔ میں نے معذرت پیش کردی اس پر اللہ تعالیٰ نے (یایھا النبی انا احللنا لک ازواجک) تا (ھاجرن معک) نازل فرمائی۔ میں آپ پر حلال نہیں تھی کیونکہ میں نے آپ کے ساتھ ہجرت نہیں کی تھی۔ میں ان لوگوں کے ساتھ تھی جنہیں فتح مکہ کے دن آزاد کردیا گیا تھا۔ جنہیں طلقاء کہا جاتا ہے۔ اگر یہ روایت درست ہے تو حضرت ام ہانی (رض) کا مسلک یہ تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہجرت کرنے والی خواتین کی تخصیص سے ان خواتین کی ممانعت ہوگئی تھی جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت نہیں کی تھی۔- بہرحال یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت ام ہانی (رض) کو اس ممانعت کا علم درج بالا آیت کی دلالت کے بغیر کسی اور ذریعے سے ہوگیا تھا۔ اس آیت میں میں تو صرف ان خواتین کی اباحت کا ذکر ہے جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ آیت نے ہجرت نہ کرنے والی خواتین کی اباحت یا ممانعت کے مسئلے سے تعرض نہیں کیا ہے۔ حضرت ام ہانی (رض) کو اس آیت کے سوا کسی اور ذریعے سے ان کا علم ہوا تھا۔ - قول باری (وامراۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی) لفظ ہبہ کے ساتھ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عقد نکاح کی اباحت پر نص ہے۔- لفظ ہبہ کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا دوسروں کے ساتھ عقد نکاح کے جواز کے مسئلے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ، امام ابویوسف، امام محمد، زفر، سفیان ثوری اور حسن بن صالح کا قول ہے کہ لفظ ہبہ کے ساتھ عقد نکاح درست ہے۔ عورت کو مقررہ مہر ملے گا اور اگر مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو اسے مہر مثل ملے گا۔- ابن القاسم نے امام مالک سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی کے لئے کوئی عورت ہبہ کے لفظ کے ساتھ حلال نہیں ہوگی۔ اگر کوئی عورت نکاح کی خاطر کسی کے لئے اپنے آپ کو ہبہ نہ کرے بلکہ اس لئے ہبہ کردے کہ مرد اس کی حفاظت کرے یا اس کی ذمہ داری سنبھال لے تو اس صورت میں امام مالک کے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔- امام شافعی کا قول ہے کہ لفظ ہبہ کے ساتھ نکاح درست نہیں ہوتا۔ اس آیت کے حکم کے متعلق اہل علم کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ کچھ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ لفظ ہبہ کے ساتھ عقد نکاح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص تھا کیونکہ قول باری ہے (خالصۃ لک من دون المومنین) ۔- دوسرے حضرات کا قول ہے کہ لفظ ہبہ کے ساتھ عقد نکاح کے مسئلے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت یکساں درجے پر ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت یہ تھی کہ بدل کے بغیر بضع کی باحت کا آپ کے لئے جواز تھا۔- رہی بات مجاہد، سعید بن المسیب اور عطاء بن ابی رباح سے منقول ہے۔ یہی بات درست ہے اس لئے کہ آیت اور اصول کی اس پر دلالت ہورہی ہے۔ اس پر آیت کی کئی وجوہ سے دلالت ہورہی ہے۔ ایک تو یہ کہ قول باری ہے (وامراۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی ان اراد النبی ان یستعکحھا خالصۃ لک من دون المومنین، اور اس مسلمان عورت کو بھی جو (بلا عوض) اپنے آپ کو نبی کے حوالے کردے بشرطیکہ نبی بھی اسے نکاح میں لانا چاہیں یہ حکم آپ کے لئے مخصوص ہے نہ کہ اور مومنین کے لئے) جب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتادیا کہ یہ حکم آپ کے لئے مخصوص تھا دوسرے اہل ایمان اس میں شامل نہیں تھے اور اس کے ساتھ ہی ہبہ کی اضافت عورت کی طرف کردی تو اس سے اس بات پر دلالت حاصل ہوئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جس بات کی تخصیص تھی وہ بدل کے بغیر بضع کی اباحت کی بات تھی کیونکہ اگر لفظ ہبہ مراد ہوتا تو اس میں آپ کے ساتھ دوسرے افراد شریک نہ ہوسکتے اس لئے کہ جو چیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ مخصوص تھی اس میں دوسروں کی شرکت جائز نہیں تھی۔- اس طرح شرکت میں مساوات کی وجہ سے خصوصیت کا مفہوم ختم ہوجاتا اور تخصیص جاتی رہتی جب اللہ تعالیٰ نے ہبہ کے لفظ کی نسبت عورت کی طرف کردی اور فرمایا (وامراۃ مومنۃ ان وھبت نفسھا للنبی) اور لفظ ہبہ کے ساتھ عقد نکاح جائز کردیا تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ تخصیص لفظ کے اندر واقع نہیں ہوئی بلکہ صرف مہر کے اندر واقع ہوئی ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ بدل کے بغیر تملیک بضع کے جواز میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دوسروں کی شرکت ہے لیکن اس کے باوجود یہ چیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اس حکم کی تخصیص کے لئے مانع نہیں بنی اس لئے لفظ میں بھی یہی بات ہونی چاہیے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ یہ حکم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ مخصوص تھا۔ تخصیص صرف اس بات میں کی گئی تھی جو آپ کے حق میں تھی۔ لیکن عقد کے اندر عورت کی طرف سے مہر کا اسقاط اس کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف ہوتا ہے۔ - اس چیز نے اس سے اس بات سے خارج نہیں کیا کہ جو چیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص تھی اس میں عورت یا کوئی اور آپ کے ساتھ شریک نہ ہو۔ آیت کی دلالت کی دوسری وجہ یہ قول باری ہے (ان ارادا النبی ان یسنکحھا) اللہ تعالیٰ نے ہبہ کے ساتھ عقد کو نکاح کا نام دیا اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ ہر ایک کے لئے ہبہ کے لفظ کے ساتھ عقد نکاح جائز ہوجائے۔ کیونکہ قول باری ہے (فانکحوا ماطاب لکم من النسآء جو عورتیں تمہیں اچھی لگیں ان سے نکاح کرلو) نیز جب عقد کی صورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے جائز ہوگئی اور دوسری طرف ہمیں آپ کے اتباع کا بھی حکم دیا گیا ہے تو اس سے ہمارے لئے آپ کی طرح عمل کرنا واجب ہوگیا۔- الا یہ کہ کوئی ایسی دلالت ہوجائے جس سے یہ معلوم ہوجائے کہ لفظی طور پر یہ فعل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات کے ساتھ مخصوص تھا امت اس میں شریک نہیں۔ اسقاط مہر کی جہت سے آیت میں مذکور تخصیص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہوگئی تھی اس سے یہ بات ضروری ہوگئی کہ یہ تخصیص صرف اسقاط مہر کے حکم تک محدود رہے اور باقی ماندہ باتوں کو اس پر محمول نہ کیا جائے الا یہ کہ کوئی دلالت قائم ہوجائے جس سے یہ پتہ لگ جائے کہ ان میں سے فلاں بات آپ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت مہر کے ساتھ تھی۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں عبداللہ بن احمد بن جنبل کے حوالے سے سنائی گئی ہے۔ انہیں ان کے والد نے یہ روایت سنائی ہے، انہیں محمد بن بشر نے، انہیں ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے کہ وہ ان خواتین کو عار دلایا کرتی تھیں جنہوں نے اپنی ذات حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کردی تھی۔ حضرت عائشہ (رض) کہا کرتی تھیں کہ انہیں شرم نہیں آئی کہ انہوں نے مہر کے بغیر اپنے آپ کو پیش کردیا۔- اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (توجی من تشاء منھن وتووی الیک من تشآء ومن ابتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک۔ ان میں سے آپ جس کو چاہیں اپنے سے دور رکھیں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں، اور جن کو آپ نے الگ کررکھا تھا ان میں سے کسی کو پھر طلب کرلیں جب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں) اس آیت کے نزول کے بعد حضرت عائشہ (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہا : ” میں تو یہی دیکھ رہی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی مرضی پوری کرنے میں بڑی سرعت دکھا رہا ہے۔- لفظ ہبہ کے ساتھ عقدنکاح کے جواز پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن علی بن زید صائغ کے حوالے سے سنائی گئی ہے، انہیں یہ روایت سعید بن منصور نے سنائی ہے۔ انہیں یعقوب بن عبدالرحمن نے، انہیں ابوحازم نے حضرت سہل بن سعد سے کہ ایک عورت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئی اور عرض کرنے لگی کہ میں اپنی ذات آپ کے لئے ہبہ کرنے کی غرض سے آئی ہوں۔ “ یہ سن کر آپ نے اس پر ایک نظر ڈالی اور اپنے سر کو جنبشدی۔ یعنی آپ نے گویا انکار کردیا۔ اس موقعہ پر ایک صحابی نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ اگر آپ کو نکاح کی ضرورت نہیں ہے تو اس خاتون کا میرے ساتھ نکاح کرادیجئے۔- راوی نے سلسلہ گفتگو کی روایت کرتے ہوئے کہا کہ اس صحابی نے یہ عرض کیا کہ مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا۔” جائو میں نے اس عورت کو قرآن کی ان سورتوں کے بارے جو تمہیں یاد ہیں تمہاری ملکیت میں دے دیا، “ اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے لفظ تملیک کے ساتھ عقد نکاح کرادیا تھا اور ہبہ کا لفظ بھی تملیک کے الفاظ میں داخل ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہوگیا کہ لفظ ہبہ کے ساتھ بھی عقد نکاح درست ہوجائے۔- نیز یہ کہ جب سنت کے ذریعے تملیک کے لفظ کے ساتھ عقد نکاح کا ثبوت ہوگیا تو لفظ ہبہ کے ساتھ بھی اس کا ثبوت ہوگیا کیونکہ کسی نے بھی ان دونوں لفظوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ اس روایت کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ ” قرآن کی ان سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں، میں نے تمہارے ساتھ اس عورت کا نکاح کرادیا۔ “ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ ممکن ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ تزویج کے لفظ کا ذکر کیا ہوا اور پھر لفظ تملیک کا ذکر کیا ہو اور اس سے یہ بیان کرنا مقصود ہو کہ یہ دونوں لفظ عقد نکاح کے جواز کے لحاظ سے یکساں ہیں۔- نیز جب عقد نکاح تملیکات کے دوسرے عقود کے ساتھ اس لحاظ سے مشابہ ہے کہ اس میں وقت کے ذکر کے بغیر اسے مطلق رکھا جاتا ہے اور توقیت کی وجہ سے یہ فاسد ہوجاتا ہے تو اس سے ضروری ہوگیا کہ دوسری اشیاء مملوکہ کی طرح لفظ تملیک اور ہبہ کے ذریعہ اس کا بھی انعقاد جائز ہوجائے۔ تملیک کے تمام الفاظ کے اس جواز کے لئے یہی بات بنیاد اور اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔- لفظ اباحت کے ساتھ عقد نکاح کا جواز نہیں ہوتا کیونکہ یہاں ایک اور حکم بھی ہے جس کی موجودگی لفظ اباحت کے ساتھ عقد نکاح کے جواز کو مانع ہے۔ یہ متعہ کا حکم ہے جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام قرار دیا ہے ۔ متعہ کے معنی عورت سے جنسی لطف اندوزی کی اباحت کے ہیں۔- اس لئے ہر ایسا لفظ جس میں اباحت کا مفہوم پایا جائے گا متعہ پر قیاس کرتے ہوئے اس کے ساتھ عقد نکاح کا انعقاد نہیں ہوگا اور ہر ایسا لفظ جس میں تملیک کا مفہوم پایا جائے گا تملیکات کے تمام عقود پر قیاس کرتے ہوئے اس کے ساتھ عقد نکاح کا انعقاد ہوجائے گا کیونکہ عقد نکاح تملیکات کے عقود کے ساتھ ان وجوہ کی بنا پر مشابہت رکھتا ہے جن کا ہم نے گزشتہ سطور میں ذکر کیا ہے۔- اس خاتون کے متعلق اختلاف رائے ہے جس نے اپنی ذات کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہبہ کردیا تھا۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے نیز عکرمہ سے کہ یہ خاتون میمونہ بنت الحارث تھیں۔ علی بن الحسن کا قول ہے کہ یہ ام شریک تھیں جن کا تعلق قبیلہ دوس سے تھا۔ شعبی سے مروی ہے کہ یہ ایک انصار یہ خاتون تھیں۔ ایک قول کے مطابق یہ زینب بنت خزیمہ انصاریہ تھیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے ایمان والو جب تم مسلمان عورتوں سے شادی کرو اور ان کا کوئی مہر مقرر کرو اور پھر صحبت سے پہلے ان کو طلاق دے دو تو ان پر حیض یا مہینوں کے ذریعے سے کوئی عدت واجب نہیں۔- اور ان کو متعہ طلاق یعنی تین کپڑے اوڑھنی قمیص اور چادر دے دو اور بغیر کسی اذیت دینے کے سنت کے مطابق ان کو طلاق دے کر رخصت کردو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ ” اے اہل ایمان جب تم مومن خواتین سے نکاح کرو ‘ پھر انہیں طلاق دے دو قبل اس کے کہ انہیں چھوئو “- اس سے پہلے سورة البقرۃ کی آیات ٢٣٦ اور ٢٣٧ میں قبل از خلوت طلاق کی صورت میں مہر سے متعلق ہدایات ہم پڑھ چکے ہیں۔ مذکورہ آیات کے مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر مہر مقرر نہ ہوا ہو اور خلوت سے قبل ہی شوہر اپنی منکوحہ کو طلاق دے دے تو ایسی صورت میں وہ اسے کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرے۔ اور اگر مہر مقرر ہوچکا ہو اور قبل از خلوت طلاق کی نوبت آجائے تو اس صورت میں مرد کے لیے آدھے مہر کی ادائیگی لازمی ہوگی۔ اب اس آیت میں قبل از خلوت طلاق کی صورت میں عدت ّکے مسئلے کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ - فَمَا لَـکُمْ عَلَیْہِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَہَا ” تو تمہاری طرف سے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے جس کی تم انہیں گنتی پوری کرائو۔ “- عدت کا مقصد تو یہ ہے کہ سابق شوہر سے حمل کے ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق ہوجائے۔ چناچہ جب خلوت ِصحیحہ کی نوبت ہی نہیں آئی اور حمل ہونے کا کوئی امکان ہی پیدا نہیں ہوا تو عدت کی ضرورت بھی نہیں رہی۔- فَمَتِّعُوْہُنَّ وَسَرِّحُوْہُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا ” پس انہیں کچھ دے دلا کر بڑی خوبصورتی کے ساتھ رخصت کر دو ۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :85 یہ عبارت اس باب میں صریح ہے کہ یہاں لفظ نکاح کا اطلاق صرف عقد پر کیا گیا ہے ۔ علمائے لغت میں اس امر پر بہت کچھ اختلاف ہوا ہے کہ عربی زبان میں نکاح کے اصل معنی کیا ہیں ۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ یہ لفظ وطی اور عقد کے درمیان لفظاً مشترک ہے ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہ ان دونوں میں معنیً مشترک ہے ۔ تیسرا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی عقدِ ترْویج کے ہیں اور وطی کے لیے اس کو مجازاً استعمال کیا جاتا ہے ۔ اور چوتھا کہتا ہے کہ اس کے اصل معنی وطی کے ہیں اور عقد کے لیے یہ مجازاً استعمال کیا جاتا ہے ۔ اس کے ثبوت میں ہر گروہ نے کلام عرب سے شواہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن راغب اصفہانی نے پورے زور کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہے کہ : اصل النکاح العقد ثم استعیر للجماع و محال ان یکون فی الاصل للجماع ثم استعیر للعقد ۔ لفظ نکاح کے اصل معنی عقد ہی کے ہیں پھر یہ لفظ استعارۃً جماع کے لیے استعمال کیا گیا ہے ، اور یہ بات محال ہے کہ اس کے اصل معنی جماع کے ہوں اور استعارے کے طور پر اسے عقد کے لیے استعمال کیا گیا ہو ۔ اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جتنے الفاظ بھی جماع کے لیے عربی زبان ، یا دنیا کی کسی دوسری زبان میں حقیقۃً وضع کیے گیے ہیں وہ سب فحش ہیں ۔ کوئی شریف آدمی کسی مہذب مجلس میں ان کو زبان پر لانا بھی پسند نہیں کرتا ۔ اب آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو لفظ حقیقۃً اس فعل کے لیے وضع کیا گیا ہو اسے کوئی معاشرہ شادی بیاہ کے لیے مجاز و استعارے کے طور پر استعمال کرے ۔ اس معنی کو ادا کرنے کے لیے تو دنیا کی ہر زبان میں مہذب الفاظ ہی استعمال کیے گیے ہیں نہ کہ فحش الفاظ ۔ جہاں تک قرآن اور سنت کا تعلق ہے ، ان میں نکاح ایک اصطلاحی لفظ ہے جس سے مراد یا تو مجرد عقد ہے ، یا پھر وطی بعد عقد ۔ لیکن وطی بلا عقد کے لیے اس کو کہیں استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ اس طرح کی وطی کو تو قرآن اور سنت زنا اور سفاح کہتے ہیں نہ کہ نکاح ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :86 یہ ایک منفرد آیت ہے جو غالباً اسی زمانے میں طلاق کا کوئی مسئلہ پیدا ہو جانے پر نازل ہوئی تھی ، اس لیے پچھلے سلسلۂ بیان اور بعد کے سلسلۂ بیان کے درمیان اس کو رکھ دیا گیا ۔ اس ترتیب سے یہ بات خود مترشح ہوتی ہے کہ یہ تقریر ما سبق کے بعد اور تقریر ما بعد سے پہلے نازل ہوئی تھی ۔ اس آیت سے جو قانونی احکام نکلتے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے : ۱ ) آیت میں اگرچہ مومن عورتوں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ کتابی عورتوں کے معاملہ میں قانون وہ نہیں ہے جو یہاں بیان ہوا ہے ، لیکن تمام علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ معنًی یہی حکم کتابیات کے بارے میں بھی ہے ۔ یعنی کتابی عورت سے بھی کسی مسلمان نے نکاح کیا ہو تو اس کی طلاق ، اس کے مہر ، اس کی عدت اور اس کو متعۂ طلاق دینے کے جملۂ احکام وہی ہیں جو مومن عورت سے نکاح کی صورت میں ہیں ۔ علماء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں مخصوص طور پر صرف مومن عورتوں کا ذکر جو کیا ہے اس سے مقصود دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مومن عورتیں ہی موزوں ہیں ۔ یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح جائز ضرور ہے مگر مناسب اور پسندیدہ نہیں ہے ۔ بالفاظ دیگر قرآن کے اس انداز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اہل ایمان سے متوقع یہی ہے کہ وہ مومن عورتوں سے نکاح کریں گے ۔ ۲ ) ہاتھ لگانے یا مَس کرنے سے مراد لغت کے اعتبار سے تو محض چھونا ہے ، لیکن یہاں یہ لفظ کنایۃً مباشرت کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ اس لحاظ سے ظاہر آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر شوہر نے مباشرت نہ کی ہو تو خواہ وہ عورت کے پاس تنہائی میں رہا ہو ، بلکہ اسے ہاتھ بھی لگا چکا ہو تب بھی طلاق دینے کی صورت میں عدت لازم نہ آئے ۔ لیکن فقہاء نے برسبیل احتیاط یہ حکم لگایا ہے کہ اگر خلوت صحیحہ ہو جائے ( یعنی جس میں مباشرت ممکن ہو ) تو اس کے بعد طلاق دینے کی صورت میں عدت لازم آئے گی اور سقوط عدت صرف اس حالت میں ہو گا جبکہ خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو ۔ ۳ ) طلاق قبل خلوت کی صورت میں عدت ساقط ہو جانے کے معنی یہ ہیں کہ اس صورت میں مرد کا حق رجوع باقی نہیں رہتا اور عورت کو یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ طلاق کے فوراً بعد جس سے چاہے نکاح کر لے ۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ یہ حکم صرف طلاق قبل خلوت کا ہے ۔ اگر خلوت سے پہلے عورت کا شوہر مر جائے تو اس صورت میں عدت وفات ساقط نہیں ہوتی بلکہ عورت کو وہی چار مہینے دس دن کی عدت گزارنی ہوتی ہے جو منکوحۂ مدخولہ کے لیے واجب ہے ۔ ( عدت سے مراد وہ مدت ہے جس کے گزر نے سے پہلے عورت کے لیے دوسرا نکاح جائز نہ ہو ۔ ) ٤ ) مَالَکُمْ عَلَیھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ ( تمہارے لیے ان پر کوئی عدت لازم نہیں ہے ) کے الفاظ اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ عدت عورت پر مرد کا حق ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ صرف مرد ہی کا حق ہے ۔ دراصل اس میں دو حق اور بھی شامل ہیں ۔ ایک حق اولاد ۔ دوسرے حق اللہ یا حق الشرع ۔ مرد کا حق وہ اس بنا پر ہے کہ اس دوران میں اس کو رجوع کر لینے کا حق ہے ، نیز اس بنا پر کہ اس کی اولاد کے نسب کا ثبوت اس بات پر منحصر ہے کہ عدت کے زمانہ میں عورت کا حاملہ ہونا یا نہ ہونا ظاہر ہو جائے ۔ اولاد کا حق اس میں شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اپنے باپ سے بچے کے نسب کا ثابت ہونا اس کے قانونی حقوق قائم ہونے کے لیے ضروری ہے اور اس کے اخلاقی مرتبے کا انحصار بھی اس امر پر ہے کہ اس کا نسب مشتبہ نہ ہو ۔ پھر اس میں حق اللہ ( یا حق الشرع ) اس لیے شامل ہو جاتا ہے کہ اگر لوگوں کو اپنے اور اپنی اولاد کے حقوق کی پروا نہ بھی ہو تو خدا کی شریعت ان حقوق کی حفاظت ضروری سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی مرد کسی عورت کو یہ پروانہ بھی لکھ کر دیدے کہ میرے مرنے کے بعد یا مجھ سے طلاق لے لینے کے بعد تیرے اوپر میری طرف سے کوئی عدت واجب نہ ہو گی تب بھی شریعت کسی حال میں اس کو ساقط نہ کرے گی ۔ ۵ ) فَمَتِّعُوْھُنَّ وَسَرِّحُوْھُنَّ سَرَاحاً جَمِیْلاً ( ان کو کچھ مال دو اور بھلے طریقے سے رخصت کردو ) اس حکم کا منشا دو طریقوں میں سے کسی ایک طریقے پر پورا کرنا ہو گا ۔ اگر نکاح کے وقت مہر مقرر کیا گیا تھا اور پھر خلوت سے پہلے طلاق دے دی گئی تو اس صورت میں نصف مہر دینا واجب ہو گا جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت ۲۳۷ میں ارشاد ہوا ہے ۔ اس واجب سے زائد کچھ دینا لازم نہیں ہے مگر مستحب ہے ۔ مثلاً یہ بات پسندیدہ ہے کہ نصف مہر دینے کے ساتھ مرد وہ جوڑا بھی عورت کے پاس ہی رہنے دے جو دلہن بننے کے لیے بھیجا گیا تھا ، یا اور کچھ سامان اگر شادی کے موقع پر اسے دیا گیا تھا تو وہ واپس نہ لے لیکن اگر نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو اس صورت میں عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرنا واجب ہے ، اور یہ کچھ نہ کچھ آدمی کی حیثیت اور مقدرت کے مطابق ہونا چاہیے ، جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۳٦ میں فرمایا گیا ہے ۔ علماء کا ایک گروہ اس بات کا بھی قائل ہے کہ متعۂ طلاق دینا بہرحال واجب ہے خواہ مہر مقرر کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو ۔ ( اسلامی فقہ کی اصطلاح میں متعۂ طلاق اس مال کو کہتے ہیں جو طلاق دے کر رخصت کرتے وقت عورت کو دیا جاتا ہے ) ۔ ٦ ) بھلے طریقے سے رخصت کرنے کا مطلب صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ عورت کو کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کیا جائے بلکہ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی تھکا فضیحتی کے بغیر شریفانہ طریقے سے علیٰحدگی اختیار کر لی جائے ۔ ایک آدمی کو اگر عورت پسند نہیں آئی ہے یا کوئی اور وجہ شکایت پیدا ہوئی ہے جس کی بنا پر وہ اس عورت کو نہیں رکھنا چاہتا تو بھلے آدمیوں کی طرح اسے طلاق دے اور رخصت کر دے ۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس کے عیوب لوگوں کے سامنے بیان کرے اور اپنی شکایتوں کے دفتر کھولے تاکہ کوئی دوسرا بھی اس عورت قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔ قرآن کے اس ارشاد سے صاف طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ طلاق کے نفاذ کو کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ معلق کرنا خدائی تشریع کی حکمت و مصلحت کے بالکل خلاف ہے ، کیونکہ اس صورت میں بھلے طریقے سے رخصت کرنے کا کوئی امکان نہیں رہتا ، بلکہ مرد نہ بھی چاہے تو تھُکّا فضیحتی اور بدنامی و رسوائی ہو کر رہتی ہے ۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں اس امر کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے کہ مرد کا اختیار طلاق کسی پنچایت یا عدالت کی اجازت کے ساتھ مشروط ہو ۔ آیت بالکل صراحت کے ساتھ ناکح کو طلاق کا اختیار دے رہی ہے اور اسی پر یہ ذمہ داری ڈال رہی ہے کہ اگر وہ ہاتھ لگانے سے پہلے عورت کو چھوڑنا چاہے تو لازماً نصف مہر دے کر یا اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال دے کر چھوڑے ۔ اس سے آیت کا مقصود صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلاق کو کھیل بننے سے روکنے کے لیے مرد پر مالی ذمہ داری کا ایک بوجھ ڈال دیا جائے تاکہ وہ خود ہی اپنے اختیار طلاق کو سوچ سمجھ کر استعمال کرے اور دو خاندانوں کے اندرونی معاملے میں کسی بیرونی مداخلت کی نوبت نہ آنے پائے ، بلکہ شوہر سرے سے کسی کو یہ بتانے پر مجبور ہی نہ ہو کہ وہ بیوی کو کیوں چھوڑ رہا ہے ۔ ۷ ) ابن عباس ، سعید بن المُسَیِّب ، حسن بصری ، علی بن الحسین ( زین العابدین ) ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے آیت کے الفاظ جب تم نکاح کرو پھر طلاق دے دو سے یہ استدلال کیا ہے کہ طلاق اسی صورت میں واقع ہوتی ہے جبکہ اس سے پہلے نکاح ہو چکا ہو ۔ نکاح سے پہلے طلاق بے اثر ہے ۔ اس لیے اگر کوئی شخص یوں کہے کہ اگر میں فلاں عورت سے ، یا فلاں قبیلے یا قوم کی عورت سے یا کسی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ تو یہ قول لغو و بے معنیٰ ہے ، اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہو سکتی ۔ اس خیال کی تائید میں یہ احادیث پیش کی جاتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا طلاق لابن اٰدم فی مالا یملک ، ابن آدم جس چیز کا مالک نہیں ہے اس کے بارے میں طلاق کا اختیار استعمال کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا ( احمد ، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ ) اور لاَ طلاق قبل النکاح ، نکاح سے پہلے کوئی طلاق نہیں ۔ ( ابن ماجہ ) ۔ مگر فقہاء کی ایک بڑی جماعت یہ کہتی ہے کہ اس آیت اور ان احادیث کا اطلاق صرف اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی شخص ایک غیر عورت کو جو اس کے نکاح میں نہ ہو یوں کہے کہ تجھ پر طلاق ہے یا میں نے تجھے طلاق دی ۔ یہ قول بلا شبہ لغو ہے جس پر کوئی قانونی نتیجہ مرتب نہیں ہوتا ۔ لیکن اگر وہ یوں کہے کہ اگر میں تجھ سے نکاح کروں تو تجھ پر طلاق ہے ۔ تو یہ نکاح سے پہلے طلاق دینا نہیں ہے بلکہ دراصل وہ شخص اس امر کا فیصلہ اور اعلان کرتا ہے کہ جب وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی تو اس پر طلاق وارد ہو گی ۔ یہ قول لغو و بے اثر نہیں ہو سکتا ، بلکہ جب بھی وہ عورت اس کے نکاح میں آئے گی اسی وقت اس پر طلاق پڑ جائے گی ۔ یہ مسلک جن فقہاء کا ہے ان کے درمیان پھر اس امر میں اختلاف ہوا ہے کہ اس نوعیت کے ایقاع طلاق کی وسعت کس حد تک ہے ۔ امام ابو حنیفہ ، امام محمد اور امام زُفَر کہتے ہیں کہ خواہ کوئی شخص عورت یا قوم یا قبیلے کی تخصیص کرے یا مثال کے طور پر عام بات اس طرح کہے کہ جس عورت سے بھی میں نکاح کروں اس پر طلاق ہے ، دونوں صورتوں میں طلاق واقع ہو جائے گی ۔ ابو بکر جَصّاص نے یہی رائے حضرت عمر ، عبداللہ بن مسعود ، ابراہیم النَّخعی ، مجاہد اور عمر بن عبدالعزیز رحمہم اللہ سے بھی نقل کی ہے ۔ سُفیان ثَوری اور عثمان الْبَتِّی کہتے ہیں کہ طلاق صرف اسی صورت میں پڑے گی جب کہنے والا یوں کہے کہ اگر میں فلاں عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ حسن بن صالح ، لَیث بن سعد اور عامر الشَّعبِی کہتے ہیں کہ اس طرح کی طلاق عمومیت کے ساتھ بھی پڑ سکتی ہے بشرطیکہ اس میں کسی نوع کی تخصیص ہو ۔ مثلاً آدمی نے یوں کہا ہو کہ اگر میں فلاں خاندان ، یا فلاں قبیلے ، یا فلاں شہر یا ملک یا قوم کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے ۔ ابن ابی لیلیٰ اور امام مالک اوپر کی رائے سے اختلاف کرتے ہوئے مزید شرط یہ لگاتے ہیں کہ اس میں مدت کا بھی تعین ہونا چاہیے ۔ مثلاً اگر آدمی نے یوں کہا ہو کہ اگر میں اس سال یا آئندہ دس سال کے اندر فلاں عورت یا فلاں گروہ کی عورت سے نکاح کروں تو اس پر طلاق ہے تب یہ طلاق واقع ہو گی ورنہ نہیں ۔ بلکہ امام مالک رحمہ اللہ اس پر اتنا اضافہ اور کرتے ہیں کہ اگر یہ مدت اتنی طویل ہو جس میں اس شخص کا زندہ رہنا متوقع نہ ہو تو اس کا قول بے اثر رہے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: اگر رخصتی کے بعد طلاق ہو تو عورت کو عدت گزارنے کا حکم ہے جو سورۂ بقرۃ (٢: ٢٢٨) میں گزرا ہے کہ ایسی عورت تین مرتبہ ایام ماہواری گزرنے تک عدت میں بیٹھے گی، اور اس کے بعد نکاح کرسکے گی، لیکن اگر رخصتی نہ ہوئی ہو تو اس کا حکم اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے کہ ایسی صورت میں عورت پر عدت گزارنا واجب نہیں ہے، بلکہ وہ طلاق کے فوراً بعد بھی نکاح کرسکتی ہے، آیت میں چھونے کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس سے مراد رخصتی ہے یعنی میاں بیوی کو ایسی تنہائی میسر آجائے کہ اگر وہ ہم بستری کرنا چاہیں تو کوئی رکاوٹ نہ ہو، اگر ایسی تنہائی میسر آجائے تو عدت واجب ہوجاتی ہے، چاہے ہم بستری ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ 37: متاع (تحفے) سے مراد یہ ہے کہ بیوی کو طلاق کے ذریعے رخصت کرتے وقت ایک جوڑا دیا جائے جسے اصطلاح میں متعہ کہا جاتا ہے، اور یہ جوڑا مہر کے علاوہ ہے، اور ہر صورت میں مرد کو دینا چاہئیے، چاہے رخصتی سے پہلے طلاق ہو یا رخصتی کے بعد، آیت کا منشاء یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے آپس میں نبھاؤ ممکن نہ رہا ہو اور طلاق دینی ہی ہو تو دونوں کے درمیان جدائی بھی لڑائی اور دشمنی کی فضا کے بجائے خوش اسلوبی کے ساتھ ہونی چاہئیے۔