Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

حق مہر اور بصورت علیحدگی کے احکامات ۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ آپ نے اپنی جن بیویوں کو مہر ادا کیا ہے وہ سب آپ پر حلال ہیں ۔ آپ کی تمام ازواج مطہرات کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا جس کے پانچ سو درہم ہوتے ہیں ۔ ہاں ام المومنین حضرت حبیبہ بنت ابی سفیان عنہا کا مہر حضرت نجاشی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا ۔ اور اسی طرح ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مہر صرف ان کی آزادی تھی ۔ خیبر کے قیدیوں میں آپ بھی تھیں پھر آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور اور اسی آزادی کو مہر قرار دیا اور نکاح کرلیا ۔ اور حضرت جویریہ بنت حارث مصطلقیہ نے جتنی رقم پر مکاتبہ کیا تھا وہ پوری رقم آپ نے حضرت ثابت بن قیس بن شماس کو ادا کر کے ان سے عقد باندھا تھا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی تمام ازواج مطہرات پر اپنی رضامندی نازل فرمائے ۔ اسی طرح جو لونڈیاں غنیمت میں آپ کے قبضے میں آئیں وہ بھی آپ پر حلال ہیں ۔ صفیہ اور جویریہ کے مالک آپ ہوگئے تھے پھر آپ نے انہیں آزاد کر کے ان سے نکاح کر لیا ۔ ریحانہ بنت شمعون نصریہ اور ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا بھی آپ کی ملکیت میں آئی تھیں ۔ حضرت ماریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کو فرزند بھی ہوا ۔ جن کا نام حضرت ابراہیم تھا ۔ چونکہ نکاح کے بارے میں نصرانیوں نے افراط اور یہودیوں نے تفریط سے کام لیا تھا اس لئے اس عدل و انصاف والی سہل اور صاف شریعت نے درمیانہ راہ حق کو ظاہر کر دیا ۔ نصرانی تو سات پشتوں تک جس عورت مرد کا نسب نہ ملتا ہو ۔ ان کا نکاح جائز جانتے تھے اور یہودی بہن اور بھائی کی لڑکی سے بھی نکاح کر لیتے تھے ۔ پس اسلام نے بھانجی بھتیجی سے نکاح کرنے کو روکا ۔ اور چچا کی لڑکی پھوپھی کی لڑکی ماموں کی لڑکی اور خالہ کی لڑکی سے نکاح کو مباح قرار دیا ۔ اس آیت کے الفاظ کی خوبی پر نظر ڈالئے کہ عم اور خال چچا اور ماموں کے لفظ کو تو واحد لائے اور عمات اور خلات یعنی پھوپھی اور خالہ کے لفظ کو جمع لائے ۔ جس میں مردوں کی ایک قسم کی فضیلت عورتوں پر ثابت ہو رہی ہے ۔ جیسے ( يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ٢٥٧؁ۧ ) 2- البقرة:257 ) اور جیسے ( وَجَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَالنُّوْرَ Ǻ۝ ) 6- الانعام:1 ) یہاں بھی چونکہ ظلمات اور نور یعنی اندھیرے اور اجالے کا ذکر تھا اور اجالے کو اندھیرے پر فضیلت ہے اس لئے وہ لفظ ظلمات جمع لائے ۔ اور لفظ نور مفرد لائے ۔ اس کی اور بھی بہت سی نظیریں دی جاسکتی ہیں ، پھر فرمایا جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے ۔ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میرے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مانگا آیا تو میں نے اپنی معذوری ظاہر کی جسے آپ نے تسلیم کر لیا ۔ اور یہ آیت اتری میں ہجرت کرنے والیوں میں نہ تھی بلکہ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والیوں میں تھی ۔ مفسرین نے بھی یہی کہا ہے کہ مراد ہے کہ جنہوں نے مدینے کی طرف آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو ۔ قتادہ سے ایک روایت میں اس سے مراد اسلام لانا بھی مروی ہے ۔ ابن مسعود کی قرائت میں ( وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْٓ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 50؀ ) 33- الأحزاب:50 ) پھر فرمایا اور وہ مومنہ عورت جو اپنا نفس اپنے نبی کے لئے ہبہ کر دیے ۔ اور نبی بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں ۔ تو بغیر مہر دیے اسے نکاح میں لا سکتے ہیں ۔ پس یہ حکم دو شرطوں کے ساتھ ہے جیسے آیت ( وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِيْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَكُمْ اِنْ كَانَ اللّٰهُ يُرِيْدُ اَنْ يُّغْوِيَكُمْ ۭ هُوَ رَبُّكُمْ ۣ وَاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ 34؀ۭ ) 11-ھود:34 ) میں ۔ یعنی حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرماتے ہیں اگر میں تمھیں نصیحت کرنا چاہوں اور اگر اللہ تمھیں اس نصیحت سے مفید کرنا نہ چاہے تو میری نصیحت تمھیں کوئی نفع نہیں دے سکتی ۔ اور جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس فرمان میں ( يٰقَوْمِ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰهِ فَعَلَيْهِ تَوَكَّلُوْٓا اِنْ كُنْتُمْ مُّسْلِمِيْنَ 84؀ ) 10- یونس:84 ) یعنی اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان لائے ہو ۔ اور اگر تم مسلمان ہوگئے ہو تو تمھیں اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ پس جیسے ان آیتوں میں دو دو شرائط ہیں اسی طرح اس آیت میں بھی دو شرائط ہیں ۔ ایک تو اس کا اپنا نفس ہبہ کرنا دوسرے آپ کا بھی اسے اپنے نکاح میں لانے کا ارادہ کرنا ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور کہا کہ میں اپنا نفس آپ کے لئے ہبہ کرتی ہوں ۔ پھر وہ دیر تک کھڑی رہیں ۔ تو ایک صحابی نے کھڑے ہو کر کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ ان سے نکاح کا ارادہ نہ رکھتے ہوں تو میرے نکاح میں دے دیجئے ۔ آپ نے فرمایا تمھارے پاس کچھ ہے ؟ جو انہیں مہر میں دیں ؟ جواب دیا کہ اس تہمد کی سوا اور کچھ نہیں ۔ آپ نے فرمایا یہ اگر تم انہیں دے دو گے تو خود بغیر تہمد کے رہ جاؤ گے کچھ اور تلاش کرو ۔ اس نے کہا میں اور کچھ نہیں پاتا ۔ آپ نے فرمایا تلاش تو کرو گو لوہے کی انگوٹھی ہی مل جائے ۔ انہوں نے ہر چند دیکھ بھال کی لیکن کچھ نہ پایا ۔ آپ نے فرمایا قرآن کی کچھ سورتیں بھی تمھیں یاد ہیں ؟ اس نے کہا فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں ۔ آپ نے فرمایا بس انہی سورتوں پر میں نے انہیں تمھارے نکاح میں دیا ۔ یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی ۔ حضرت انس جب یہ واقعہ بیان کرنے لگے تو ان کی صاحبزادی بھی سن رہی تھیں ۔ کہنے لگیں اس عورت میں بہت ہی کم حیا تھی ۔ تو آپ نے فرمایا تم سے وہ بہتر تھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی رغبت کر رہی تھیں اور آپ پر اپنا نفس پیش کر رہی تھیں ( بخاری ) مسند احمد میں ہے کہ ایک عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور اپنی بیٹی کی بہت سی تعریفیں کر کے کہنے لگیں کے حضور میری مراد یہ ہے کہ آپ اس سے نکاح کرلیں ۔ آپ نے قبول فرما لیا اور وہ پھر بھی تعریف کرتی رہیں ۔ یہاں تک کہ کہا حضور نہ وہ کبھی وہ بیمار پڑیں نہ سر میں درد ہوا یہ سن کر آپ نے فرمایا پھر مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں ۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی بیوی صاحبہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا تھیں ۔ اور روایت میں ہے یہ قبلہ بنو سلیم میں سے تھیں ۔ اور روایت میں ہے یہ بڑی نیک بخت عورت تھیں ۔ ممکن ہے ام سلیم ہی حضرت خولہ ہوں رضی اللہ عنہا ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ دوسری کوئی عورت ہوں ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ عورتوں سے نکاح کیا جن میں سے چھ تو قریشی تھیں ۔ خدیجہ ، عائشہ ، حفصہ ، ام حبیبہ ، سودہ و ام سلمہ رضی اللہ عنہن اجمعین اور تین بنو عامر بن صعصعہ کے قبیلے میں سے تھیں اور دو عورتیں قبیلہ بنوہلال بن عامر میں سے تھیں اور حضرت میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ یہی وہ ہیں جنہوں نے اپنا نفس رسول اللہ کوہبہ کیا تھا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا جن کی کنیت ام المساکین تھی ۔ اور ایک عورت بنو ابی بکرین کلاب سے ۔ یہ وہی ہے جس نے دنیا کو اختیار کیا تھا اور بنو جون میں سے ایک عورت جس نے پناہ طلب کی تھی ، اور ایک عورت اسدیہ جن کا نام زینب بنت جحش ہے رضی اللہ عنہا ۔ دو کنزیں تھیں ۔ صفیہ بنت حی بن اخطب اور جویریہ بنت حارث بن عمرو بن مصطلق خزاعیہ ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ اپنے نفس کو ہبہ کرنے والی عورت حضرت میمونہ بنت حارث تھیں لیکن اس میں انقطاع ہے ۔ اور یہ روایت مرسل ہے ۔ یہ مشہور بات ہے کہ حضرت زینب جن کی کنیت ام المساکین تھی ، یہ زینب بنت خزیمہ تھیں ، فبیلہ انصار میں سے تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہی انتقال کر گئیں ۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔ واللہ اعلم ، مقصد یہ ہے کہ وہ عورتیں جنہوں نے اپنے نفس کا اختیار آپ کو دیا تھا چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر غیرت کیا کرتی تھی جو اپنا نفس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کر دیتی تھیں اور مجھے بڑا تعجب معلوم ہوتا تھا کہ عورتیں اپنا نفس ہبہ کرتی ہیں ۔ جب یہ آیت اتری کہ ( تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْهُنَّ وَ تُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاۗءُ ۭ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا 51؀ ) 33- الأحزاب:51 ) الخ ، تو ان میں سے جسے چاہے اس سے نہ کر اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے اور جن سے تو نے یکسوئی کر لی ہے انہیں بھی اگر تم لے آؤ تو تم پر کوئی حرج نہیں ۔ تو میں نے کہا بس اب تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر خوب وسعت و کشادگی کر دی ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ کوئی عورت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ تھی جس نے اپنا نفس آپ کو ہبہ کیا ہو ۔ حضرت یونس بن بکیر فرماتے ہیں گو آپ کے لئے یہ مباح تھا کہ جو عورت اپنے تئیں آپ کو سونپ دے آپ اسے اپنے گھر میں رکھ لیں لیکن آپ نے ایسا کیا نہیں ۔ کیونکہ یہ امر آپ کی مرضی پر رکھا گیا تھا ۔ یہ بات کسی اور کے لئے جائز نہیں ہاں مہر ادا کر دے تو بیشک جائز ہے ۔ چنانچہ حضرت بروع بنت واشق کے بارے میں جنہوں نے اپنا نفس سونپ دیا تھا جب ان کے شوہر انتقال کر گئے تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ ان کے خاندان کی اور عورتوں کے مثل انہیں مہر دیا جائے ۔ جس طرح موت مہر کو مقرر کردیتی ہے اسی طرح صرف دخول سے بھی مہر و اجب ہو جاتا ہے ۔ ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے مستثنیٰ تھے ۔ ایسی عورتوں کو کچھ دینا آپ پر واجب نہ تھا گو اسے شرف بھی حاصل ہو چکا ہو ۔ اس لئے کہ آپ کو بغیر مہر کے اور بغیر ولی کے اور بغیر گواہوں کے نکاح کر لینے کا اختیار تھا جیسا کہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے قصے میں ہے ۔ حضرت قتادہ فرماتے ہیں کسی عورت کو یہ جائز نہیں کہ اپنے آپ کو بغیر ولی اور بغیر مہر کے کسی کے نکاح میں دے دے ۔ ہاں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ تھا ۔ اور مومنوں پر جو ہم نے مقرر کر دیا ہے اسے ہم خوب جانتے ہیں یعنی وہ چار سے زیادہ بیویاں ایک ساتھ رکھ نہیں سکتے ۔ ہاں ان کے علاوہ لونڈیاں رکھ سکتے ہیں ۔ اور ان کی کوئی تعداد مقرر نہیں ۔ اسی طرح ولی کی مہر کی گواہوں کی بھی شرط ہے ۔ پس امت کا تو یہ حکم ہے اور آپ پر اس کی پابندیاں نہیں ۔ تاکہ آپ کو کوئی حرج نہ ہو ۔ اللہ بڑا غفور ورحیم ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

50۔ 1 بعض احکام شرعیہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو امتیاز حاصل تھا جنہیں آپ کی خصوصیات کہا جاتا ہے مثلا اہل علم کی ایک جماعت کے بقول قیام اللیل (تہجد) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فرض تھا صدقہ آپ پر حرام تھا، اسی طرح کی بعض خصوصیات کا ذکر قرآن کریم کے اس مقام پر کیا گیا ہے جن کا تعلق نکاح سے ہے جن عورتوں کو آپ نے مہر دیا ہے وہ حلال ہیں چاہے تعداد میں وہ کتنی ہی ہوں اور آپ نے حضرت صفیہ (رض) اور جویریہ (رض) کا مہر ان کی آزادی کو قرار دیا تھا ان کے علاوہ بصورت نقد سب کو مہر ادا کیا تھا صرف ام حبیبہ (رض) کا مہر نجاشی نے اپنے طرف سے دیا تھا۔ 50۔ 2 چناچہ حضرت صفیہ (رض) اور جویریہ ملکیت میں آئیں جنہیں آپ نے آزاد کر کے نکاح کرلیا اور رحانہ اور ماریہ قبطیہ (رض) یہ بطور لونڈی آپ کے پاس رہیں۔ 50۔ 3 اس کا مطلب ہے جس طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہجرت کی اسی طرح انہوں نے بھی مکہ سے مدینہ ہجرت کی۔ کیونکہ آپ کے ساتھ تو کسی عورت نے بھی ہجرت نہیں کی تھی۔ 50۔ 4 نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا آپ ہبہ کرنے والی عورت، اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے نکاح کرنا پسند فرمائیں تو بغیر مہر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اس اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے۔ 50۔ 5 یہ اجازت صرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے (دیگر مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ حق مہر ادا کریں، تب نکاح جائز ہوگا۔ 50۔ 6 یعنی عقد کے جو شرائط اور حقوق ہیں جو ہم نے فرض کئے ہیں کہ مثلا چار سے زیادہ عورتیں بیک وقت کوئی شخص اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا، نکاح کے لئے ولی، گواہ اور حق مہر ضروری ہے۔ البتہ لونڈیاں جتنی کوئی چاہے، رکھ سکتا ہے، تاہم آجکل لونڈیوں کا مسئلہ تو ختم ہے۔ 50۔ 7 اس کا تعلق اِ نَّا اَ حْلَلْنَا سے ہے یعنی مذکورہ تمام عورتوں کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اجازت اس لئے ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کوئی تنگی محسوس نہ ہو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی کے نکاح میں گناہ نہ سمجھیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٧٨] آپ کو چار سے زائد بیویوں کی خصوصی اجازت اور اس کی وجہ :۔ یہ دراصل ایک اعتراض کا جواب ہے۔ سیدنا زینب بنت جحش جن سے آپ نے اللہ کے حکم سے نکاح کیا تھا یا جن کا نکاح سات آسمانوں پر ہوا تھا آپ کی پانچویں بیوی تھیں۔ اس سے پہلے چار بیویاں سیدہ عائشہ (رض) بنت ابی بکر سیدہ سودہ بنت زمعۃ (رض) سیدہ حفصہ (رض) بنت عمر اور سیدہ ام سلمہ (رض) موجود تھیں۔ اور عام مومنوں کے لئے چار بیویوں سے زائد کا جواز نہیں تھا۔ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس عام قاعدہ سے مستثنیٰ کردیا۔ یہ اعتراض کافروں کی طرف سے تو یقینا تھا تاہم مسلمانوں کو بھی اس کا خیال آسکتا تھا۔ لہذا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی کہ عام مومنوں کے لئے چار تک بیویوں کے جواز کا قانون بھی ہمارا ہی قانون ہے۔ اور نبی سے ہم جو کچھ کام لینا چاہتے ہیں اور جو ذمہ داریاں اس پر عائد ہوتی ہیں اس کی بنا پر ہم ہی نبی کے لئے اس عام قانون میں استثناء کرنے والے ہیں۔ نیز اس آیت کی رو سے اللہ نے آپ کو مزید بھی تین قسم کی عورتوں سے نکاح کرنے کی اجازت فرما دی۔ پہلی قسم وہ عورتیں جو مال غنیمت کے طور پر آپ کی ملکیت میں آئیں۔ دوسری آپ کے چچاؤں، پھوپھیوں، ماموؤں اور خالاؤں کی بیٹیاں جو ہجرت کرکے مدینہ آچکی ہوں۔ اور سیدہ زینب بنت جحش ایسی ہی تھیں۔ تیسری قسم وہ عورتیں جو از خود اپنے آپ کو آپ سے نکاح کے لئے پیش کریں اور اگر اپنانفس ہبہ کرنے والی کوئی عورت آپ کو پسند آجائے تو اس کا حق مہر کچھ نہیں ہوگا۔ نہ گواہوں کی ضرورت ہوگی اور نہ اس عورت کے ولی کی رضا کی۔ بس عورت کا اپنا نفس ہبہ کردینا ہی نکاح سمجھا جائے گا۔ اس سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث ملاحظہ فرما لیجئے۔- خ کون کون سی عورت نبی کی بیوی بن سکتی ہے ؟ ١۔ ام ہانی (رض) (ابوطالب کی بیٹی اور آپ کی چچا زاد بہن) کہتی ہیں کہ آپ نے مجھے نکاح کا پیغام دیا مگر میں نے معذرت کردی (کہ میرے چھوٹے چھوٹے رونے پیٹنے والے بچے ہیں) آپ نے میرا عذر قبول فرما لیا۔ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے آپ سے کہا کہ میں تو آپ پر حلال بھی نہیں کیونکہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی اور فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والوں سے تھی۔ (ترمذی کتاب التفسیر)- غیرت عائشہ (رض) کا تبصرہ :۔ ٢۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ مجھے ان عورتوں پر غیرت آئی تھی جو اپنے تئیں نبی کریم کو بخش دیتی تھیں میں کہتی، بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی عورت اپنے تئیں بخش دے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو میں نے (آپ سے) کہا : میں تو یہ دیکھ رہی ہوں کہ جیسی آپ کی خواہش ہو آپ کا پروردگار فورا ویسا ہی حکم دیتا ہے (بخاری۔ کتاب التفسیر)- [ ٧٩] خصائص انبیاء :۔ اس رعایت کا تعلق قریبی مضمون سے بھی ہوسکتا ہے اور سارے مضمون سے بھی۔ قریبی مضمون سے ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر کوئی عورت آپ کے لئے اپنا نفس ہبہ کرے تو آپ کو حق مہر نہیں دینا ہوگا۔ نہ گواہوں کی ضرورت ہے اور نہ ولی کی اجازت کی۔ اور سارے مضمون سے جوڑا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ چار سے زائد بیویوں کی اجازت صرف آپ کو ہے دوسرے مسلمانوں کو نہیں ہے۔ نبی کی چونکہ ذمہ داریاں عام مسلمانوں سے زیادہ ہوتی ہیں پھر ان کا عزوشرف بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے شریعت کے کئی احکام و ارشادات ایسے ہیں جو عام مسلمانوں سے الگ ہیں۔ پھر ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک تو ایسے امور ہیں جو تمام انبیاء سے مختص ہیں اور انھیں ہم خصائص انبیاء کہہ سکتے ہیں اور وہ درج ذیل ہیں :- ١۔ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ کو مدینہ میں صلح حدیبیہ سے پیشتر عمرہ کرنے کا خواب آیا تھا۔ (٤٨: ٢٧) یا سیدنا ابراہیم کو سیدنا اسماعیل کو ذبح کرنے کا خواب آیا تھا۔ (٣٧: ١٠٢)- ٢۔ انبیاء کا ترکہ وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتا بلکہ وہ صدقہ ہوتا ہے جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ہمارا (پیغمبروں کا) کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے (مسلم۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب حکم الفئی) اور ابوہریرہ (رض) کی دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : میرے وارث ایک دینار بھی بانٹ نہیں سکتے۔ میری بیویوں کے خرچ اور میرے عامل کی اجرت کے بعد جو کچھ میں چھوڑ جاؤں وہ صدقہ ہے۔ (مسلم۔ حوالہ ایضاً )- ٣۔ انبیاء کے اجسام کو مٹی نہیں کھاتی۔ اوس بن اوس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن فوت ہوئے۔ اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی میں نفخہ ہے۔ اس دن مجھ پر زیادہ درود بھیجو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جاتا ہے جبکہ آپ کی ہڈیاں پرانی ہوچکی ہوں گی۔ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کردیا ہے (ابوداؤد۔ نسائی۔ ابن ماجہ۔ دارمی۔ بیہقی فی دعوات الکبیر۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الجمعۃ۔ فصل ثانی)- اس کا یہ مطلب نہیں کہ انبیاء کے علاوہ سب لوگوں کے مردہ اجسام کو مٹی کھا جاتی ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ انبیاء کے اجسام کو تو بہرحال نہیں کھاتی اور امت میں سے بھی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جنہیں مدت دراز تک مٹی نہ کھائے۔ البتہ عام قاعدہ یہی ہے کہ مردہ اجسام کو زمین کھا جاتی ہے۔- ٤۔ موت سے پہلے اختیار۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں سنا کرتی تھی کہ کوئی پیغمبر اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اس کو یہ اختیار نہیں دیا جاتا کہ دنیا اختیار کرے یا آخرت۔ پھر میں نے رسول اللہ کی مرض الموت میں سنا۔ آپ کو ایک اچھو ہوا اور فرمانے لگے۔ یا اللہ ان لوگوں کے ساتھ جن پر تو نے انعام کیا آخر آیت تک۔ اس وقت میں سمجھ گئی کہ آپ کو وہ اختیار مل گیا۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب مرض النبی ووفاتہ)- ٥۔ ہر نبی کو مرنے سے پہلے جنت میں ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے۔ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ جب تندرست تھے تو فرماتے تھے کہ کوئی پیغمبر اس وقت تک نہیں مرا جب تک اس کو بہشت میں اس کا مقام دکھا نہیں دیا جاتا۔ پھر اسے اختیار دیا جاتا ہے زندہ رہے چاہے آخرت اختیار کرے۔ (بخاری۔ حوالہ ایضاً )- ٦۔ سیدنا انس بن مالک (رض) معراج کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں اس کے بعد آپ نے ان فرشتوں کو دوسری رات دیکھا۔ جیسے آپ دل سے دیکھا کرتے تھے اور رسول اللہ کی آنکھیں سوتی تھیں اور دل نہیں سوتا تھا اور سب پیغمبروں کا یہی حال ہے کہ ان کی آنکھیں سوتی ہیں مگر دل نہیں سوتا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب کان النبی تنام عینہ ولا ینام قلبہ۔۔ )- ٧۔ نبی جس مقام پر فوت ہو اسی مقام اور جگہ پر دفن ہوتا ہے۔ نبی کی وفات کے بعد یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے ؟ اور اس تکرار کا اسی حکم کے مطابق ہی فیصلہ ہوا اور آپ کو سیدہ عائشہ (رض) کے گھر میں دفن کیا گیا۔- اور استقصاء کرنے سے ان امور میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔- خ خصائص النبی :۔ اور دوسری قسم وہ ہے جس میں رسول اللہ کے لئے احکام الگ ہیں اور آپ کی امت کے الگ۔ ایسے امور کو ہم خصائص النبی کہہ سکتے ہیں اور وہ درج ذیل ہیں۔- ١۔ امتی کے لئے زیادہ سے زیادہ چار بیویاں جائز ہیں۔ جبکہ آپ کو چار سے زائد بیویوں کی خصوصی اجازت دی گئی جیسا کہ اسی حاشیہ کی ابتدا میں ذکر ہوچکا ہے۔- ٢۔ آپ پر بیویوں کا حق مہر اور نان و نفقہ واجب نہیں تھا۔ تفصیل اسی سورة کے حاشیہ نمبر ٨٠ میں دیکھئے۔- ٣۔ بیویوں کی باری کے سلسلہ میں بھی آپ سے یہ پابندی اٹھا لی گئی۔ تفصیل اسی سورة کے حاشیہ نمبر ٨١ میں دیکھئے۔- ٤۔ آپ پر نماز تہجد فرض تھی جبکہ امت کے لئے اس کی حیثیت سنت موکدہ کی ہے۔ تفصیل سورة بنی اسرائیل کے حاشیہ ٩٨ ئ، ٩٩ ء میں دیکھئے۔- وصلی روزوں کی ممانعت :۔ ٥۔ آپ خود وصلی روزے رکھتے ہیں لیکن امت کو وصلی روزے سے منع فرمایا۔ چناچہ سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے صحابہ کو وصلی روزے رکھنے سے، ان پر رحم کی بنا پر منع فرمایا (یعنی روزہ پر روزہ رکھنے سے جن کے درمیان افطار نہ کیا جائے) صحابہ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ آپ تو وصل کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : کہ میری صورت حال تمہارے جیسی نہیں ہے۔ مجھے تو میرا پروردگار کھلا اور پلا دیتا ہے (مسلم۔ کتاب الصیام۔ باب النہی عن الوصال) (بخاری۔ کتاب التمنی۔ باب مایجوز من اللَّو۔۔۔ )- بُودار اشیاء کے استعمال سے متعلق حکم :۔ ٦۔ لہسن یا بو والی چیزوں کا حکم۔ جابر بن عبداللہ (رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : کہ جو شخص لہسن یا پیاز (کچی) کھائے وہ ہم سے الگ رہے یا یوں فرمایا کہ ہماری مسجد سے الگ رہے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے (جب تک اس کے منہ میں بو رہے) نیز جابر (رض) نے کہا کہ بدر کے مقام پر آپ کے سامنے طباق لایا گیا جس میں کچھ سبزی ترکاری تھی۔ آپ کو اس میں بو محسوس ہوئی۔ آپ نے اس کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ اس میں فلاں فلاں ترکاری ہے۔ (آپ نے اسے نہیں کھایا اور) فرمایا کہ اسے فلاں صحابی (ابوایوب انصاری) کے پاس لے جاؤ جو آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ ابو ایوب انصاری نے جب یہ معاملہ دیکھا تو انہوں نے بھی اسے کھانے میں کراہت کی۔ آپ نے انھیں فرمایا : تم کھالو۔ کیونکہ میں تو ان (فرشتوں) سے سرگوشی کرتا ہوں جن سے تم نہیں کرتے۔ (بخاری۔ کتاب الاعتصام۔ باب الاحکام التی تعرف بالدلائل۔۔ )- ٧۔ آپ نے صدقہ کے متعلق امت کو حکم دیا کہ افضل الصدقۃ ما کان عن ظھر غنی یعنی بہتر صدقہ وہ ہے کہ صدقہ کرنے کے بعد انسان خود محتاج نہ ہوجائے۔ (بخاری۔ کتاب النفقات۔ باب وجوب النفقۃ علی الاہل والعیال) لیکن آپ خود قرضہ اٹھا کر بھی صدقہ کردیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ زکوٰ ۃ جو آپ پر بھی فرض تھی، اس کے ادا کرنے کا کبھی موقعہ ہی نہ آیا۔- ٨۔ آپ اور آپ کے اہل خانہ کوئی نیکی کا کام کریں تو دگنا اجر اور نافرمانی پر دگنی سزا قرآن سے ثابت ہے۔ حتیٰ کہ آپ کو بخار بھی دوگنی شدت سے چڑھتا تھا۔ چناچہ عبداللہ بن مسعود (رض) کہتے ہیں کہ میں آپ کے ہاں گیا۔ آپ کا جسم بخار سے جل رہا تھا۔ میں نے کہا : یارسول اللہ آپ کو بخار بہت سخت آیا ہے۔ فرمایا : مجھ پر اتنی سخت تپ آتی ہے جیسے تم میں دو آدمیوں کی تپ ملائی جائے۔ میں نے عرض کیا آپ کو اجر بھی دوگنا ملے گا۔ فرمایا : ہاں پھر فرمایا : جس شخص کو کوئی تکلیف بیماری وغیرہ ہو اللہ اس کے گناہ ایسے جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت (موسم خزاں میں) اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب المرضیٰ ۔ باب وضع الید علی المریض)- ٩۔ آپ کی وفات کے بعد کوئی شخص آپ کی بیویوں سے نکاح نہیں کرسکتا۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کی مائیں ہیں اور یہ اعزاز صرف آپ کی ازواج سے مخصوص ہے کوئی امتی اس اعزاز میں شریک نہیں ہوسکتا۔- خ کیا نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہش کی تکمیل یا حصول اولاد ہی ہے ؟ یہاں ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ نکاح کا مقصد شہوت رانی یا زیادہ سے زیادہ اولاد کا حصول ہے۔ یہ نظریہ کسی حد تک درست ہے مگر انتہائی تنگ نظری پر مبنی ہے۔ کسی حد تک ہم نے اس لئے کہا ہے کہ نکاح سے شریعت کا اصل مقصد معاشرہ کو فحاشی اور بےحیائی سے پاک و صاف رکھنا ہے۔ اسی لئے شریعت نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بلوغت کے بعد کوئی مرد یا عورت بےزوج نہ رہے۔ اگر زوج فوت ہوجائے یا شوہر طلاق دے دے تو ہر ایک کے لئے مستحب یہی ہے کہ وہ نکاح کرلے۔ (ملاحظہ ہو سورة نور کی آیت نمبر ٣٢ کا حاشیہ) حالانکہ جو انی کے انحطاط کے بعد انسان کی شہوت میں معتدبہ حد تک کمی واقع ہوجاتی ہے اور اگر اولاد ہو تو اسے اللہ کی قدرت ہی سمجھا جاتا ہے۔ بڑھاپے میں اولاد کا ہونا کوئی عادی امر نہیں ہے۔ البتہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اصل مقصد یعنی معاشرہ کی پاکیزگی کا ایک ثمرہ اولاد کا حصول بھی ہے۔ جو کبھی حاصل ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ زوجین کے بالغ اور بظاہر صحت مند ہونے کے باوجود ان کے ہاں ساری عمر اولاد نہیں ہوتی۔ اور صرف اولاد کے حصول کو تنگ نظری پر محمول ہم نے اس لئے کہا ہے کہ نکاح سے اور کئی مقاصد اور فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں مثلاً نکاح کا دوسرا مقصد قریبی رشتہ داروں میں قرابت کے تعلق کو برقرار رکھنا اور مودت بڑھانا ہے۔ تیسرا مقصد دینی اخوت کا قیام اور اس میں اضافہ ہے چوتھا مقصد کئی طرح کے دینی، سیاسی، معاشی فوائد کا حصول ہے اور بعض دفعہ ایسے مقاصد حصول اولاد سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں آپ ذرا رسول اللہ کی زندگی پر نظر ڈالئے کہ آپ نے کتنے نکاح کئے ؟ کس عمر میں کئے ؟ کس قسم کی عورتوں سے کئے اور کن کن مقاصد کے تحت کئے تو یہ حقیقت از خود منکشف ہوجائے گی کہ نکاح کا مقصد صرف جنسی خواہشات کی تکمیل یا حصول اولاد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس سے بلند تر مقاصد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔- خ آپ نے کتنی شادیاں کی اور کن کن اغراض کے تحت کیں ؟ :۔ آپ کا پہلا نکاح ٢٥ سال کی عمر میں سیدہ خدیجہ (رض) سے ہوا جو اس وقت چالیس سال کی تھیں اور ان کو پہلے دو مرتبہ طلاق ہوچکی تھی۔ ان کی وفات ١٠ نبوی میں ہوئی جبکہ رسول اللہ کی عمر پچاس سال تھی۔ ماسوائے سیدنا ابراہیم کے آپ کی ساری اولاد سیدہ خدیجہ (رض) ہی کے بطن سے پیدا ہوئی۔ یعنی جوانی کا پورا زمانہ آپ نے سیدہ خدیجہ (رض) ایک ہی بیوی کے ساتھ گزارا۔ اس کے بعد آپ نے سیدہ سودہ بنت زمعہ (رض) سے نکاح کیا جو ایک بوڑھی، بھاری بھر کم اور مطلقہ عورت تھیں اور اس نکاح سے آپ کا مقصد اولاد کی تربیت تھی۔ کیونکہ آپ نبوت کی ذمہ داریوں کی وجہ سے اولاد کی تربیت پر توجہ نہیں دے سکتے تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیق (رض) اور سیدنا عمر کی بیٹیوں سے آپ نے نکاح اس غرض سے کیا کہ یہ شیخین آپ کے دنیا و آخرت میں رفیق اور وزیر ہیں۔ اور تعلقات میں مزید محبت اور خوشگواری پیدا کرنے کے لئے آپ نے یہ نکاح کئے تھے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ آپ کی ساری بیویوں میں سے سیدہ عائشہ (رض) ہی کنواری تھیں جن سے آپ نے نکاح کیا باقی سب بیویاں مطلقہ تھیں یا بیوہ۔ پھر آپ کی ایک ذمہ داری یہ بھی تھی کہ قبائلی جاہلی نظام اور اس کی عصبیت کو ختم کرکے اسلامی نظام قائم کریں۔ اور سابقہ عداوتوں کو ختم کریں۔ آپ نے سیدہ ام سلمہ سے نکاح کیا جو اس خاندان کی بیٹی تھی جس سے ابو جہل اور خالد بن ولید کا تعلق تھا۔ سیدہ ام حبیبہ (رض) ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ ان شادیوں نے بڑی حد تک ان خاندانوں کی دشمنی کا زور توڑ دیا۔ سیدہ صفیہ (رض) ، سیدہ جویریہ (رض) اور ریحانہ (رض) یہودی خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ انھیں آزاد کرکے جب آپ نے ان سے نکاح کئے تو یہود کی معاندانہ سرگرمیاں ٹھنڈی پڑگئیں۔ کیونکہ عرب روایات کے مطابق کسی شخص کا داماد اس شخص کے پورے قبیلے کا داماد سمجھا جاتا تھا۔ اور اس سے لڑنا یا عداوت رکھنا بڑے عار کی بات تھی۔ پھر آپ کی نبوت کا ایک مقصد جاہلانہ رسوم کا قلع قمع بھی تھا۔ سیدہ زینب بنت جحش سے آپ نے اسی مقصد کے تحت نکاح کیا تھا۔ پھر ہر خاندان اور ہر عمر کی عورتوں سے نکاح کا ایک اہم مقصد دینی تعلیم بھی تھا۔ شریعت کے احکام کے کئی گوشے ایسے بھی ہیں جو صرف عورتیں ہی عورتوں کو سمجھا سکتی ہیں یا صرف بیویاں ہی اپنے شوہر کے اوصاف و خصائل اور ان کی پرائیویٹ زندگی امت کو بتاسکتی ہیں۔ پھر آپ کی بیویوں سے چند ایک فقیہ بھی تھیں حتیٰ کہ بڑے بڑے صحابہ آپ سے مسائل پوچھنے آتے تھے یہ تھے وہ مقاصد جن کی تکمیل کے لئے اللہ نے آپ کے لئے تعدد ازواج پر پابندی نہیں لگائی اور فرما دیا کہ ایسے مقاصد کی تکمیل میں آپ پر تعدد ازواج کی پابندی کہیں تنگی اور رکاوٹ کا سبب نہ بن جائے۔- [ ٨٠] آپ پر حق مہر یا نان ونفقہ واجب نہیں تھا :۔ عام مسلمانوں پر اپنی بیویوں کو حق مہر ادا کرنا بھی واجب ہے اور نان و نفقہ کی ادائیگی بھی۔ اگر کوئی عورت اپنا نفس ہبہ کرے تب بھی اس سے حق مہر ساقط نہیں ہوگا۔ اور نبی پر اپنی بیویوں کا نان و نفقہ اس طرح واجب نہیں جس طرح عام مسلمانوں پر ہے۔ بلکہ نبی جو کچھ اور جتنا کچھ اپنی بیویوں کو دے یا دے سکے اس پر انھیں صابر و شاکر رہنا ہوگا جیسا کہ پہلے واقعہ ایلاء میں وضاحت سے گزر چکا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ ۔۔ : اس آیت میں ان لوگوں کے اعتراض کا جواب ہے جو کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسرے لوگوں کے لیے چار سے زیادہ بیویاں ممنوع قرار دیتے ہیں تو خود انھوں نے چار سے زیادہ شادیاں کیسے کرلیں ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ اے نبی ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ تمام بیویاں حلال کی ہیں جن کا آپ نے مہر دیا ہے۔ مراد وہ بیویاں ہیں جو آیت کے نزول کے وقت آپ کے نکاح میں تھیں۔ مطلب یہ کہ عام مسلمانوں کے لیے چار کی قید لگانے والے ہم ہیں اور آپ کے لیے اس شرط کو ختم کرنے والے بھی ہم ہیں۔ جن عورتوں سے آپ نے نکاح فرمایا ان کی تعداد گیارہ تھی، جن میں سے نو بیویاں آپ کی وفات کے وقت زندہ تھیں۔ دو بیویاں خدیجہ اور زینب بنت خزیمہ ام المساکین (رض) وفات پاچکی تھیں۔ ان کے علاوہ چند عورتوں کے متعلق اختلاف ہے کہ آپ کا ان سے عقد نکاح ہوا یا نہیں، مگر اس پر اتفاق ہے کہ وہ رخصت ہو کر آپ کے گھر نہیں آئیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے وقت یہ نو امہات المومنین حیات تھیں : 1 عائشہ بنت ابی بکر (رض) 2 سودہ بنت زمعہ (رض) 3 حفصہ بنت عمر (رض) 4 ام سلمہ بنت ابی امیہ (رض) 5 زینب بنت جحش (رض) 6 جویریہ بنت الحارث (رض) 7 ام حبیبہ بنت ابی سفیان (رض) 8 صفیہ بنت حیی (رض) 9 اور میمونہ بنت حارث (رض) ۔- 3 ابن کثیر لکھتے ہیں : ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام بیویوں کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ تھا، جو پانچ سو درہم ہوتے ہیں۔ ہاں ام حبیبہ بنت ابی سفیان (رض) کا مہر نجاشی (رض) نے اپنے پاس سے چار سو دینار دیا تھا۔ صفیہ (رض) کا مہر انھیں آزاد کرنا تھا، وہ خیبر کے قیدیوں میں سے تھیں، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں آزاد کردیا اور اسی آزادی کو ان کا مہر قرار دیا اور نکاح کرلیا۔ جویریہ بنت حارث (رض) بنو المصطلق سے گرفتار ہو کر آئی تھیں، انھوں نے ثابت بن قیس بن شماس (رض) سے جتنی رقم پر مکاتبت کی تھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں اتنی رقم ادا کر کے ان سے عقد کرلیا تھا۔ “ (ابن کثیر)- وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ : ” أَفَاءَ یُفِيْءُ “ کا معنی ” لوٹا کر لانا “ ہے۔ ” فے “ عموماً ان اموال کو کہا جاتا ہے جو جنگ کے بغیر دشمن سے حاصل ہوں۔ بعض اوقات جنگ کے ساتھ ملنے والی غنیمت کو بھی ” فے “ کہہ لیتے ہیں۔ ان اموال کو ” فے “ اس لیے کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام اموال حقیقت میں مسلمان کی ملکیت ہیں جو عارضی طور پر کفار کے قبضے میں ہیں، جب مسلمان انھیں حاصل کرتے ہیں تو وہ اپنا ہی مال واپس لیتے ہیں۔ ان عورتوں کے آپ کے لیے حلال کرنے کے ذکر کے بعد جن کے ساتھ آپ نے مہر دے کر نکاح کیا تھا، تین قسم کی عورتیں حلال کرنے کا ذکر فرمایا۔ ان میں سے پہلی قسم لونڈیاں ہیں، جو بطور فے آپ کو حاصل ہوئیں اور آپ نے لونڈی کی حیثیت سے ان سے فائدہ اٹھایا۔ یہ ماریہ قبطیہ تھیں، جنھیں مقوقس مصر نے آپ کے لیے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ اس لیے وہ فے کے حکم میں تھیں، ان سے آپ کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے۔ ” مِمَّآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ “ کا یہ معنی نہیں کہ جو لونڈیاں بطور فے آپ کے پاس نہ آئیں وہ آپ کے لیے حلال نہیں، بلکہ ” سراری “ (لونڈیوں) کی تو آپ کے لیے اور آپ کی امت کے لیے عام اجازت ہے۔ (قرطبی)- وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ ۔۔ : پہلی بیویوں کے بعد آپ کے لیے حلال کی جانے والی عورتوں کی یہ دوسری قسم ہے، یعنی وہ عورتیں جو باپ یا ماں کی طرف سے آپ کی قریبی رشتہ دار ہیں اور انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ہے۔ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے۔ یہ تفسیر اس لیے کی گئی ہے کہ آپ کے ماموں یا خالہ کی کوئی بیٹی تھی ہی نہیں۔ آپ کی والدہ کے خاندان بنو زہرہ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماموں کہا جاتا تھا۔- وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا للنَّبِيِّ ۔۔ : یہ تیسری قسم ہے، یعنی مندرجہ بالا عورتوں کے علاوہ کوئی مومن عورت اگر اپنا آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کر دے، یعنی مہر کے بغیر نکاح میں دینے کی پیش کش کرے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے نکاح کرنا چاہیں تو آپ کے لیے ولی اور مہر کے بغیر اس سے نکاح حلال ہے۔ ثابت بنانی (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے انس (رض) کو یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ ایک عورت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئی، وہ اپنے آپ کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پیش کر رہی تھی، تو انس (رض) کی بیٹی نے کہا : ” اس کی حیا کتنی کم تھی ؟ “ تو انس (رض) نے فرمایا : ” وہ تجھ سے بہتر تھی، اس نے اپنے آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے پیش کیا تھا۔ “ [ بخاري، الأدب، باب ما لا یستحیا من الحق للتفقہ في الدین : ٦١٢٣ ]- خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ : یعنی یہ اجازت صرف آپ کے ساتھ خاص ہے، دوسرے مسلمانوں کے لیے وہی حکم ہے جو سورة نساء (٢٤) میں فرمایا : (ان تبتغوا باموالکم) یعنی بن مہر نکاح جائز نہیں۔ (موضح) اسی طرح چار سے زیادہ بیویوں کی اجازت صرف آپ کے لیے ہے، دوسرے مسلمانوں کے لیے نہیں۔- قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْٓ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ : یعنی عام مسلمانوں کو نکاح کے لیے جن شرائط کا پابند کیا گیا ہے، ان کا پابند رہنا ان کے لیے ضروری ہے اور وہ یہ کہ مہر، ولی اور گواہوں کے بغیر نکاح کرنا جائز نہیں، اس کے علاوہ وہ ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتیں نکاح میں نہیں رکھ سکتے۔ یہ مسائل سورة نساء (٣، ٤ اور ٢٤، ٢٥) میں گزر چکے ہیں۔- لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ : یعنی دعوت دین کی مصلحت کے لیے آپ کو ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت اس لیے دی گئی ہے کہ آپ پر زیادہ نکاح کرنے میں کوئی تنگی نہ رہے۔ کیونکہ بہت سی مصلحتوں کی وجہ سے آپ کو زیادہ نکاح کرنے ہوں گے۔ اہل علم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات میں سے ہر ایک کے ساتھ نکاح میں جو مصلحتیں مدنظر تھیں ان کا تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے اور اسلام کے مخالفین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تعدد ازواج پر جو جو اعتراض کرتے ہیں ان کا مدلل جواب دیا ہے۔ اس مقصد کے لیے مولانا ثناء اللہ امرتسری (رض) کی تصنیف ” مقدس رسول “ لاجواب کتاب ہے۔ الرحیق المختوم میں بھی یہ مصلحتیں اختصار کے ساتھ بیان کی گئی ہیں۔- وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : یعنی ہم نے رفع حرج کے لیے آپ کو جو اجازتیں عطا فرمائی ہیں ان کا باعث ہماری مغفرت و رحمت کی صفت ہے۔ (ابن عاشور)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے نبی (بعض احکام آپ کے ساتھ مخصوص ہیں جن سے آپ کا اختصاص اور شرف بھی ثابت ہوتا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں، حکم اول) ہم نے آپ کے لئے آپ کی یہ بیبیاں (جو کہ اس وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہیں اور) جن کو آپ ان کے مہر دے چکے ہیں (باوجود چار سے زائد ہونے کے) حلال کی ہیں (حکم دوم) اور وہ عورتیں بھی (خاص طور پر حلال کی ہیں) جو تمہاری مملوکہ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو غنیمت میں دلوا دی ہیں (اس خاص طور کا بیان معاف و مسائل میں آئے گا حکم سوم) اور آپ کے چچا کی بیٹیاں اور آپ کی پھوپھیوں کی بیٹیاں (مراد اس سے باپ کے خاندان کی بیٹیاں ہیں) اور آپ کے ماموں کی بیٹیاں اور آپ کی خالاؤں کی بیٹیاں (مراد اس سے ماں کے خاندان کی بیٹیاں ہیں، یعنی ان سب کو) ابھی (اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے حلال کیا ہے) مگر یہ خاندان کی عورتیں مطلقاً نہیں بلکہ ان میں سے صرف وہی) جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو (ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل ہجرت میں موافقت کی ہو اور معیت زمانیہ کی قید نہیں ہے اور اس قید سے وہ نکل گئیں جو مہاجر نہ ہوں، حکم چہارم) اور اس مسلمان عورت کو بھی (آپ کے لئے حلال کیا) جو بلا عوض (یعنی بلا مہر) اپنے کو پیغمبر کو دے دے (یعنی نکاح میں آنا چاہے، بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہے (اور مسلمان کی قید سے کافرہ نکل گئی کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے نکاح درست نہ تھا اور یہ حکم پنجم ہے اور) یہ سب (احکام) آپ کے لئے مخصوص کئے گئے ہیں اور نہ مومنین کے لئے (کہ ان کے لئے اور احکام ہیں چنانچہ) ہم کو وہ احکام معلوم ہیں (اور آیات و احادیث کے ذریعہ اور دن کو بھی معلوم کرا دیئے ہیں) جو ہم نے ان (عام مومنین) پر ان کی بیبیوں اور لونڈیوں کے بارے میں مقرر کئے ہیں (جو ان احکام سے متمائز اور متغائر ہیں، جن میں سے نمونہ کے طور پر ایک اوپر بھی آیت اذا نکحتم میں مذکور ہے، جس میں فمتعوہن سے مہر کا لزوم ہر نکاح کے لئے ثابت ہوتا ہے خواہ حقیقتاً یا حکماً ، اور خواہ باہم قرار داد سے ہو یا شرعی حکم سے۔ اور نکاح نبوی حکم چہارم میں مہر سے خالی ہے اور یہ اختصاص اس لئے ہے) تاکہ آپ پر کسی قسم کی تنگی (واقع) نہ ہو (پس جن احکام مخصوصہ میں اوروں سے توسیع ہے جیسے حکم اول و چہارم، ان میں تو تنگی نہ ہونا ظاہر ہے، اور جن میں ظاہراً تقیید و تضییق ہے جیسے حکم سوم اور پنجم وہاں تنگی نہ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے یہ قید آپ کے بعض مصالح کے لئے لگائی ہے اگر یہ قید نہ ہوتی تو آپ کی وہ مصلحت فوت ہوجاتی اور اس وقت آپ کو تنگی ہوتی جو ہم کو معلوم ہے، اس لئے رعایت اس مصلحت کی گئی تاکہ وہ تنگی متحمل واقع نہ ہو اور حکم دوم کے متعلق معارف و مسائل میں آوے گی) اور (رفع حرج کی رعایت کچھ انہی احکام مختصہ میں ہی نہیں ہے بلکہ عام مومنین کے متعلق جو احکام ہیں ان میں بھی یہ امر ملحوظ ہے کیونکہ) اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے (پس رحمت سے احکام میں سہولت کی رعایت فرماتے ہیں، اور سہل احکام میں بھی کوتاہی ہوجانے پر احیاناً مغفرت فرماتے ہیں جو دلیل غایت رحمت ہے جو بناء ہے سہولت احکام و رفع حرج کی اور یہ تو بیان تھا ان عورتوں کی اقسام کا جو آپ کے لئے حلال کی گئیں، آگے اس کا بیان ہے کہ جو اقسام حلال کی گئیں ہیں ان میں سے جتنی جس وقت آپ کے پاس ہوں ان کے کیا احکام ہیں، پس حکم ششم یہ ارشاد ہے کہ) ان میں سے آپ جس کو چاہیں (اور جب تک چاہیں) اپنے سے دور رکھیں (یعنی اس کو باری نہ دیں) اور جس کو چاہیں (اور جب تک چاہیں) اپنے نزدیک رکھیں (یعنی اس کو باری دیں) اور جن کو دور کر رکھا تھا ان سے پھر کسی کو طلب کریں تب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں (مطلب یہ ہوا کہ ازواج میں شب باشی کی باری وغیرہ کی رعایت آپ پر واجب نہیں اور اس میں ایک بڑی ضروری مصلحت ہے وہ یہ کہ) اس میں زیادہ توقع ہے کہ ان (بیبیوں) کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی (یعنی خوش رہیں گی) اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ بھی آپ ان کو دے دیں گے اس پر سب کی سب راضی رہیں گی (کیونکہ بنا رنج کی عادتاً دعویٰ استحقاق کا ہوتا ہے، اور جب معلوم ہوجائے کہ جو کچھ مال یا توجہ مبذول ہوگی وہ تبرع محض ہے، ہمارا حق واجب نہیں ہے تو کسی کو کوئی شکایت نہیں رہے گی، اور لونڈیوں کا حق باری میں نہ ہونا سب ہی کو معلوم ہے) اور (اے مسلمانو یہ احکام مختصہ سن کر دل میں یہ خیالات مت پکا لینا کہ یہ احکام عام کیوں نہ ہوئے اگر ایسا کرو گے تو) خدا تعالیٰ کو تم لوگوں کے دلوں کی سب باتیں معلوم ہیں (ایسا خیال پکا لینے پر تم کو سزا دے گا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حسد ہے جو موجب تعذیب ہے) اور اللہ تعالیٰ (یہی کیا) سب کچھ جاننے والا ہے (اور معترضین کو جو عاجلاً سزا نہیں ہوئی تو اس سے نفی علم لازم نہیں آتی بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ) بردبار (بھی) ہے (اس لئے کبھی سزا میں ڈھیل دیتا ہے، آگے بقیہ احکام مختصہ بحضرة الرسالة ارشاد فرماتے ہیں جن میں بعضے تو احکام بالا کا نتیجہ ہیں اور بعضے جدید ہیں، پس ارشاد ہے کہ اوپر جو حکم سوم و پنجم میں منکوحہ عورتوں میں ہجرت اور ایمان کی قید لگائی ہے سو) ان کے علاوہ اور عورتیں (جن میں یہ قید نہ ہو) آپ کے لئے حلال نہیں ہیں (یعنی اہل قرابت میں سے غیر مہاجرات حلال نہیں اور دوسری عورتوں میں سے غیر مومنات حلال نہیں، یہ تو تتمہ ہوا حکم بالا کا) اور (آگے حکم ہفتم جدید ہے کہ) نہ یہ درست ہے کہ آپ ان (مجودہ) بیبیوں کی جگہ دوسری بیبیاں کرلیں (اس طرح سے کہ ان میں سے کسی کو طلاق دے دیں اور بجائے ان کی دوسری کرلیں اور یوں بدون ان کے طلاق دیئے ہوئے اگر کسی سے نکاح کرلیں تو اس کی ممانعت نہیں اسی طرح اگر بلا قصد تبدل کسی کو طلاق دے دیں تو اس کی بھی ممانعت ثابت نہیں، بلکہ لفظ تبدل اس مجموعہ کی ممانعت پر دال ہے، پس یہ تبدل ممنوع ہے) اگرچہ آپ کو ان (دوسریوں) کا حسن اچھا معلوم ہو مگر جو آپ کی مملوکہ ہو (کہ وہ حکم پنجم اور ہفتم دونوں سے مستثنیٰ ہے، یعنی وہ کتابیہ ہونے پر بھی حلال ہے، اور اس میں تبدل بھی درست ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کی حقیقت اور آثار و مصالح) کا پورا نگراں ہے (اس لئے ان سب احکام میں مصلحتیں و حکمتیں ہیں گو عام مکلفین کو وہ تعییناً نہ بتلائی جائیں، اس واسطے کسی کو سوال یا اعتراض کا منصب و استحقاق نہیں)- معارف ومسائل - آیات مذکورہ میں نکاح و طلاق وغیرہ سے متعلق ان سات احکامات کا ذکر ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہیں۔ اور یہ خصوصیات آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک امتیازی شان اور خصوصی اعزاز کی علامت ہیں، ان میں سے بعض احکام تو ایسے ہیں کہ ان کی خصوصیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بالکل واضح اور جلی ہے اور بعض ایسے ہیں جو اگرچہ سب مسلمانوں کے لئے عام ہیں مگر ان میں کچھ قیدیں شرطیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مخصوص ہیں، اب ان کی تفصیل دیکھئے۔- پہلا حکم :- (آیت) انا احللنا لک ازواجک التی اتیت اجورھن، ” یعنی ہم نے حلال کردیا۔ آپ کے لئے آپ کی سب موجودہ ازواج کو جن کے مہر آپ نے ادا کردیئے ہیں۔ “ یہ حکم بظاہر سبھی مسلمانوں کے لئے عام ہے، مگر اس میں وجہ خصوصیت یہ ہے کہ نزول آیت کے وقت آپ کے نکاح میں چار سے زیادہ عورتیں موجود تھیں اور عام مسلمانوں کے لئے چار سے زائد عورتوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنا حلال نہیں، تو یہ آپ کی خصوصیت تھی کہ چار سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں رکھنا آپ کے لئے حلال کردیا گیا۔- اور اس آیت میں جو التی اتیت اجورھن، فرمایا ہے یہ کوئی قید احترازی یا شرط حلت نہیں بلکہ واقعہ کا اظہار ہے کہ جتنی عورتیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نکاح میں آئیں آپ نے سب کا مہر نقد ادا کردیا ادھار نہیں رکھا۔ آپ کی عادت شریفہ یہ تھی کہ جس چیز کا دینا آپ کے ذمہ عائد ہو اس کو فوراً دے کر سبکدوش ہوجاتے تھے، بلا ضرورت تاخیر نہ فرماتے تھے۔ اس واقعہ کے اظہار میں عام مسلمانوں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب ہے۔- دوسرا حکم :- (آیت) وما ملکت بمینک مما افاء اللہ علیک، ” یعنی آپ کے لئے حلال کردیا ان عورتوں کو جو آپ کی ملک میں ہوں، اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کا مالک بنادیا ہے اس آیت میں لفظ افاء فیی سے مشتق ہے۔ اصطلاحی معنی کے لحاظ سے وہ مال جو کفار سے بغیر جنگ کے یا بطور مصالحت کے حاصل ہوجائے اور کبھی مطلق مال غنیمت کو بھی لفظ فی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس آیت میں اس کا ذکر کسی شرط کے طور پر نہیں کہ آپ کے لئے صرف وہ کنیز حلال ہوگی جو مال فئی یا غنیمت میں سے آپ کے حصہ میں آتی ہو، بلکہ جس کو آپ نے قیمت دے کر خریدا ہو وہ بھی اس حکم میں شامل ہے۔- لیکن اس حکم میں بظاہر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی اختصاص و امتیاز نہیں، پوری امت کے لئے یہ حکم ہے، جو کنیز مال غنیمت سے حصہ میں آئے یا جس کی قیمت دے کر خریدیں وہ ان کے لئے حلال ہے، اور بظاہر سیاق ان تمام آیات کا یہ چاہتا ہے کہ ان میں جو احکام آئے ہیں وہ کچھ نہ کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خصوصیت رکھتے ہوں۔ اسی لئے روح المعانی میں کنیزوں کی حلت سے متعلق بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک خصوصیت یہ بتلائی ہے کہ جس طرح آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات میں سے کسی کا نکاح کسی امتی سے حلال نہیں۔- اسی طرح جو کنیز آپ کے لئے حلال کی گئی ہے آپ کے بعد وہ کسی کے لئے حلال نہ ہوگی، جیسا کہ حضرت ماریہ قبطیہ ہیں جن کو مقوقس بادشاہ روم نے آپ کے لئے بطور ہدیہ بھیجا تھا۔ تو جس طرح آپ کی وفات کے بعد ازواج مطہرات کا نکاح کسی سے جائز نہیں تھا ان کا بھی نکاح کسی سے جائز نہیں رکھا گیا۔ اس لحاظ سے (آیت) ما ملکت ایمانہم کے حلال ہونے میں بھی آپ کی ایک خصوصیت ثابت ہوگئی۔- اور سیدی حضرت حکیم الامة قدس سرہ، نے اور دو خصوصیتیں بیان القرآن میں بیان فرمائی ہیں جو مذکورہ خصوصیت سے زیادہ واضح ہیں :- اول یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ اختیار خصوصی دیا گیا تھا کہ مال غنیمت کو تقسیم کرنے سے پہلے آپ اس میں سے کسی چیز کا اپنے لئے انتخاب فرما لیں تو وہ آپ کی ملک خاص ہوجاتی تھی، اس خاص چیز کو اصطلاح میں صفی النبی کہا جاتا تھا، جیسا کہ غزوہ خیبر کی غنیمت میں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت صفیہ کو اپنے لئے مخصوص کرلیا تھا تو ملک یمین کے مسئلہ میں یہ صرف آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہے۔- دوسری خصوصیت یہ ہے کہ دار الحرب سے کسی غیر مسلم کی طرف سے اگر کوئی ہدیہ مسلمانوں کے امیر المومنین کے نام پر آئے تو حکم شرعی یہ ہے کہ اس کا مالک امیر المومنین نہیں ہوتا بلکہ وہ بیت المال شرعی کی ملک قرار دیا جاتا ہے، بخلاف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ ایسا ہدیہ آپ کے لئے خصوصیت سے حلال کردیا گیا، جیسا ماریہ قبطیہ کا معاملہ ہے کہ مقوقس نے ان کو بطور ہدیہ وتحفہ آپ کی خدمت میں پیش کیا، تو یہ آپ ہی کی ملک قرار پائیں۔ واللہ اعلم۔- تیسرا حکم :- بنت عمک وبنت عمتک الآیة، اس آیت میں عم اور خال کو مفرد اور عمات اور خالات کو جمع لانے کی توجیہات علماء نے بہت لکھی ہیں، تفسیر روح المعانی نے ابوحیان کی اس توجیہ کو اختیار کیا ہے کہ محاورہ عرب کا اسی طرح ہی اشعار عرب اس پر شاہد ہیں کہ عم کی جمع استعمال نہیں کرتے مفرد ہی استعمال ہوتا ہے۔- مطلب آیت کا یہ ہے کہ آپ کے لئے چچا اور پھوپھی کی لڑکیاں اور ماموں خالہ کی لڑکیاں حلال کردی گئیں، چچا پھوپھی میں باپ کے خاندان کی سب لڑکیاں اور ماموں خالہ میں ماں کے خاندان کی سب لڑکیاں شامل ہیں، اور ان سے نکاح کا حلال ہونا تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص نہیں، سب مسلمانوں کا یہی حکم ہے۔ لیکن ان میں یہ قید کہ انہوں نے آپ کے ساتھ مکہ مکرمہ سے ہجرت کی ہو یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ عام امت کے لئے تو باپ اور ماں کے خاندان کی یہ لڑکیاں بغیر کسی شرط کے حلال ہیں، خواہ انہوں نے ہجرت کی ہو یا نہ کی ہو، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ان میں سے صرف وہ حلال ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو۔ ساتھ ہجرت کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ سفر میں آپ کی معیت رہی ہو یا ایک ہی وقت میں ہجرت کی ہو، بلکہ مراد نفس ہجرت میں معیت وموافقت ہے۔ ان میں سے جس نے کسی وجہ سے ہجرت نہیں کی اس سے آپ کا نکاح حلال نہیں رکھا گیا، جیسا کہ آپ کے چچا ابو طالب کی بیٹی ام ہانی نے فرمایا کہ مجھ سے آپ کا نکاح اس لئے حلال نہیں تھا کہ میں نے مکہ سے ہجرت نہیں کی تھی، بلکہ میرا شمار طلقاء میں تھا۔ طلقاء ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کو فتح مکہ کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آزاد کردیا تھا نہ قتل کیا نہ غلام بنایا۔ (روح و جصاص)- اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نکاح کے لئے مہاجرات کی شرط صرف اپنی ماں باپ کے خاندان کی لڑکیوں میں تھی، عام امت کی عورتوں میں ہجرت کی شرط نہ تھی، بلکہ ان کا صرف مسلمان ہونا کافی تھا۔ اور خاندان کی لڑکیوں میں ہجرت کی شرط لگانے میں شاید یہ حکمت ہو کہ عموماً خاندان کی لڑکیوں کو اپنے خاندان کا ایک ناز اور فخر ہوتا ہے، اور رسول کی زوجیت کے لئے یہ شایان شان نہیں، اس کا علاج ہجرت کی شرط سے کیا گیا۔ کیونکہ ہجرت صرف وہی عورت کرے گی جو اللہ و رسول کی محبت کو اپنے سارے خاندان اور وطن و جائیداد کی محبت سے غالب رکھے۔ نیز ہجرت کے وقت انسان کو طرح طرح کی تکلیفیں پیش آتی ہیں، اور اللہ کی راہ میں جو تکلیف و مشقت اٹھائی جائے اس کو اصلاح اعمال میں خاص دخل ہے۔- خلاصہ یہ ہے کہ ماں اور باپ کے خاندان کی لڑکیوں سے نکاح میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک خصوصی شرط یہ ہے کہ انہوں نے مکہ سے ہجرت کرنے میں آپ کا ساتھ دیا ہو۔ - چوتھا حکم :- (آیت) وامراة مومنة ان وھبت نفسہا للنبی ان ارادالنبی ان یستنکہا خالصة لک من دون المومنین، ” یعنی اگر کوئی مسلمان عورت اپنے نفس کو آپ کے لئے ہبہ کر دے، یعنی بغیر مہر کے آپ سے نکاح کرنا چاہے، اگر آپ اس سے نکاح کا ارادہ کریں تو آپ کے لئے بلا مہر کے بھی نکاح حلال ہے، اور یہ خاص حکم آپ کے لئے ہے دوسرے مومنین کے لئے نہیں “- اس معاملہ کی خصوصیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بالکل واضح ہے کیونکہ عام لوگوں کے لئے نکاح میں مہر شرط لازم ہے، یہاں تک کہ اگر بوقت نکاح کسی مہر کا ذکر نہی یا نفی کے ساتھ آیا کہ عورت نے کہا کہ مہر نہیں لوں گی، یا مرد نے کہا کہ نکاح اس شرط پر کرتے ہیں کہ مہر نہیں دیں گے، دونوں صورتوں میں ان کا کہنا اور شرط شرعی حیثیت سے لغو ہوگی، اور شرعاً مہر مثل واجب ہوگا۔ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت سے نکاح بلا مہر حلال کیا گیا ہے جبکہ عورت بلا مہر نکاح کرنے کی خواہش مند ہو۔ - فائدہ :- یہ حکم کہ جو عورت آپ کے لئے اپنے آپ کو ہبہ کرے۔ یعنی بلا مہر کے نکاح کرنا چاہے وہ آپ کے لئے حلال ہے، اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ کوئی ایسا واقعہ پیش بھی آیا یا نہیں ؟ بعض نے فرمایا کہ کسی ایسی عورت سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نکاح کرنا ثابت نہیں، جس کا حاصل یہ ہے کہ آپ نے کسی ہبہ کرنے والی عورت سے نکاح نہیں کیا، اور بعض حضرات نے بعض ایسی عورتوں سے نکاح ہونا ثابت کیا ہے۔ (روح المعانی)- اس حکم کے ساتھ جو جملہ خالصة لک کا آیا ہے، اس کو بعض حضرات نے صرف اسی حکم چہارم کے ساتھ مخصوص کہا ہے اور زمخشری وغیرہ مفسرین نے اس جملے کو ان تمام احکام کے ساتھ لگایا ہے جو اوپر مذکور ہوئے ہیں، کہ یہ سب خصوصیات نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہیں۔ اس کے آخر میں فرمایا لکیلا یکون علیک حرج، یعنی یہ خصوصی احکام آپ کے لئے اس لئے دیئے گئے ہیں کہ آپ پر کوئی تنگی نہ ہو۔ جو احکام مخصوصہ اوپر بیان ہوئے ہیں ان میں پہلا حکم یعنی چار سے زائد بیبیاں آپ کے لئے حلال کردی گئیں اور حکم چہارم کے بغیر مہر کے نکاح حلال کردیا گیا، ان میں تو تنگی کا رفع کرنا اور مزید سہولت دیا جانا ظاہر ہے، مگر باقی تین حکم یعنی دوم و سوم اور پنجم ان میں تو بظاہر آپ پر کچھ مزید قیدیں لگا دی گئیں جن سے تنگی اور بڑھنی چاہئے۔ مگر اس میں اشارہ فرما دیا کہ اگرچہ ظاہر میں یہ قیدیں ایک تنگی بڑھاتی ہیں، مگر ان میں آپ کی ایسی مصلحتوں کی رعایت ہے کہ یہ قیدیں نہ ہوتیں تو آپ کو بڑی تکلیف پیش آتی جو ضیق قلب کا سبب بنتیں، اس لئے قید زائد میں بھی آپ کی تنگی رفع کرنا ہی مقصود ہے۔- پانچواں حکم :- جو آیات مذکورہ میں مومنہ کی قید سے مستفاد ہوتا ہے یہ کہ اگرچہ عام مسلمانوں کے لئے یہود و نصاریٰ کی عورتوں یعنی کتابیات سے نکاح بنص قرآن حلال ہے، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے عورت کا مومن ہونا شرط ہے، کتابیات سے آپ کا نکاح نہیں ہو سکتا۔- ان پانچوں احکام کی خصوصیت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بیان فرمانے کے بعد عام مسلمانوں کا حکم اجمالاً ذکر فرمایا ہے، (آیت) قد علمنا مافرضنا علیہم فی ازواجہم وما ملکت ایمانہم، یعنی احکام مذکورہ آپ کے لئے مخصوص ہیں، باقی مسلمانوں کے نکاح کے لئے جو ہم نے فرض کیا ہے وہ ہم جانتے ہیں، مثلاً عام مسلمانوں کا نکاح بغیر مہر کے نہیں ہوسکتا اور کتابیات سے ان کا نکاح ہوسکتا ہے، اسی طرح سابقہ احکام میں جو قیدیں شرطیں آپ کے نکاح کے لئے ضروری قرار دی گئی ہیں وہ اوروں کے لئے نہیں ہیں۔- آخر میں فرمایا (آیت) لکیلا یکون علیک حرج، یعنی نکاح کے معاملے میں آپ کے لئے یہ خصوصی احکام اس لئے ہیں کہ آپ پر کوئی تنگی نہ ہو اور جو قیدیں شرطیں آپ پر بہ نسبت دوسرے مسلمانوں کے زائد لگائی گئی ہیں اگرچہ بظاہر وہ ایک قسم کی تنگی ہے مگر جن مصالح اور حکمتوں کے پیش نظر آپ کے لئے یہ شرطیں لگائی ہیں ان میں غور کریں تو وہ بھی آپ کی روحانی پریشانی اور تنگ دلی کو دور کرنے ہی کے لئے ہیں۔- یہاں تک نکاح کے متعلق پانچ احکام آئے ہیں، جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کوئی نہ کوئی خصوصیت رکھتے ہیں۔ آگے دو حکم انہی پانچ احکام سے متعلق بیان فرمائے ہیں ،

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِيْٓ اٰتَيْتَ اُجُوْرَہُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَاۗءَ اللہُ عَلَيْكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِيْ ہَاجَرْنَ مَعَكَ۝ ٠ ۡوَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَہَا۝ ٠ ۤ خَالِصَۃً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ۝ ٠ ۭ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْہِمْ فِيْٓ اَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ۝ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا۝ ٥٠- حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی:- فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] - ( ز و ج ) الزوج - جن حیوانات میں نرا اور پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نرا اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علا وہ دوسری اشیائیں سے جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مما ثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] اور خر کار اس کی دو قسمیں کیں یعنی مرد اور عورت ۔- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - أجر - الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف 57] .- والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء 93] .- يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ .- والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی:- اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص 26] .- ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔- فيأ - الفَيْءُ والْفَيْئَةُ : الرّجوع إلى حالة محمودة . قال تعالی: حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ- [ الحجرات 9] ، وقال : فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] ، ومنه : فَاءَ الظّلُّ ، والفَيْءُ لا يقال إلّا للرّاجع منه . قال تعالی: يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] . وقیل للغنیمة التي لا يلحق فيها مشقّة : فَيْءٌ ، قال : ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] ، وَما مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] ، قال بعضهم : سمّي ذلک بِالْفَيْءِ الذي هو الظّلّ تنبيها أنّ أشرف أعراض الدّنيا يجري مجری ظلّ زائل، قال الشاعر : أرى المال أَفْيَاءَ الظّلال عشيّة- وکما قال :إنّما الدّنيا كظلّ زائل والفِئَةُ : الجماعة المتظاهرة التي يرجع بعضهم إلى بعض في التّعاضد . قال تعالی:إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] ، كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] ، فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] ، فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] ، مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] ، فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] .- ( ف ی ء ) الفیئی والفیئۃ کے معنی اچھی حالت کی طرف لوٹ آنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَفِيءَ إِلى أَمْرِ اللَّهِ فَإِنْ فاءَتْ [ الحجرات 9] یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے ۔ فَإِنْ فاؤُ [ البقرة 226] اور اسی سے فاء الظل ہے جس کے معنی سیایہ کے ( زوال کے بعد ) لوٹ آنے کے ہیں اور فئی اس سایہ کو کہا جاتا ہے ۔ ( جو زوال کے ) بعد لوت کر آتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَتَفَيَّؤُا ظِلالُهُ [ النحل 48] جنکے سائے ۔۔۔۔۔۔ لوٹتے ہیں ۔ اور جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہوجائے اسے بھی فیئ کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى رَسُولِهِ [ الحشر 7] جو مال خدا نے اپنے پیغمبر کو ۔۔۔۔۔ دلوایا ۔ مِمَّا أَفاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ [ الأحزاب 50] جو خدا نے تمہیں ( کفار سے بطور مال غنیمت ) دلوائی ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ مال غنیمت کوئی بمعنی سایہ کے ساتھ تشبیہ دے کر فے کہنے میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ دنیا کا بہترین سامان بھی بمنزلہ ظل زائل کے ہے شاعر نے کہا ہے ( اما دی المال افیاء الظلال عشیۃ اے مادی ماں شام کے ڈھلتے ہوئے سایہ کیطرح ہے ۔ دوسرے شاعر نے کا ہ ہے ( 349 ) انما الدنیا اظل زائل کہ دنیا زائل ہونے والے سایہ کی طرح ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کیطرف لوٹ آئیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً [ البقرة 249] بسا اوقات تھوڑی سی جماعت نے ۔۔۔۔۔ بڑی جماعت پر فتح حاصل کی ۔ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتا[ آل عمران 13] دو گر ہوں میں جو ( جنگ بدد میں ) آپس میں بھڑ گئے ۔ فِي الْمُنافِقِينَ فِئَتَيْنِ [ النساء 88] کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گر وہ ۔ مِنْ فِئَةٍ يَنْصُرُونَهُ [ القصص 81] کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہوسکی فَلَمَّا تَراءَتِ الْفِئَتانِ نَكَصَ عَلى عَقِبَيْهِ [ الأنفال 48] جب یہ دونوں فوجیں ایک دوسرے کے مقابلے میں صف آر ہوئیں ۔- عم - العَمُّ : أخو الأب، والعَمَّةُ أخته . قال تعالی: أَوْ بُيُوتِ أَعْمامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ- [ النور 61] ، ورجل مُعِمٌّ مُخْوِلٌ «1» ، واسْتَعَمَّ عَمّاً ، وتَعَمَّمَهُ ، أي : اتّخذه عَمّاً ، وأصل ذلک من العُمُومِ ، وهو الشّمول وذلک باعتبار الکثرة . ويقال : عَمَّهُمْ كذا، وعَمَّهُمْ بکذا . عَمّاً وعُمُوماً ، والعَامَّةُ سمّوا بذلک لکثرتهم وعُمُومِهِمْ في البلد، وباعتبار الشّمول سُمِّيَ المِشْوَذُ «2» العِمَامَةَ ، فقیل : تَعَمَّمَ نحو : تقنّع، وتقمّص، وعَمَّمْتُهُ ، وكنّي بذلک عن السّيادة . وشاة مُعَمَّمَةٌ: مُبْيَضَّةُ الرّأس، كأنّ عليها عِمَامَةً نحو : مقنّعة ومخمّرة . قال الشاعر : يا عامر بن مالک يا عمّا ... أفنیت عمّا وجبرت عمّا أي : يا عمّاه سلبت قوما، وأعطیت قوما . وقوله : عَمَّ يَتَساءَلُونَ [ عمّ 1] ، أي : عن ما، ولیس من هذا الباب .- ( ع م م ) العم ( چچا ) باپ کا بھائی ( جمع اعمام ) العمۃ ( پھو پھی ) باپ کی بہن ( جمیع عمات ) قرآن میں ہے : أَوْ بُيُوتِ أَعْمامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ [ النور یا اپنے چچا ئیوں کے گھر سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے ۔ رجل معم محول وہ شخص جس کے چچا اور ماموں ہوں یعنی نہیاں اور دوھیال کی طرف قوی ہو۔ استعم عما وتعممہ کسی کو چچا بناتا دراصل یہ عممو م سے ہے جس کے معنی شامل ہونے کے ہیں اور یہ شامل باعتبار کثرت ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ یعنی وہ چیز عام ہوگئی اور پبلک کو العامۃ کہا جاتا ہے کیونکہ شہروں میں وعامی لوگوں کی اکثریت ہوتی ہے اور معنی شمول یعنی لپیٹنے کے اعتبار سے پگڑی کو العامۃ کہا جاتا ہے اور تعمہ کے معنی سر پر پگڑی لپیٹنے کے ہیں جس طرح کہ تفعم وتقمص کے معنی چہرہ پر پر دہ ڈالنا یا قمیص پہننا کے آتے ہیں عممتہ میں نے اسے عمامہ پہنایا ۔ اور کنایہ اس کے معنی کسی کو سردار بنانا بھی آتے ہیں شاۃ معمۃ سفید سر والی بکری گویا اس کے سر پر عمامہ بند ھا ہوا ہے ۔ اور یہ مقتعۃ ومخمرۃ کی طرح استعمال ہوتا ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( 321 ) یا عامر بن مالک یا عما اننیت عما وجبرت عما اے میرے چچا عامر بن مالک تو نے بہت سے لوگوں کو فنا اور بہت سے لوگوں پر بخشش کی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ عَمَّ يَتَساءَلُونَ [ عمّ 1]( یہ لوگ کیس چیز کی نسبت پوچھتے ہیں ۔ میں عم اصل میں عن ماتھا ۔ اور یہ اس باب ( ع م م ) سے نہیں ہے ۔- هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله :- وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] ، وقوله تعالی:- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي :- (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه .- وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد،- ( ھ ج ر ) الھجر - والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے - (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

بیویوں کے بارے میں کیا فرض ہوا ؟- قول باری ہے (قا علمنا مافرضنا علیھم فی ازواجھم۔ ہم کو وہ (احکام) معلوم ہیں جو ہم نے ان کی بیویوں کے بارے میں ان پر مقرر کیے ہیں) قتادہ کا قول ہے کہ یہ فرض کردیا گیا کہ عورت کا نکاح ولی اور دو گواہوں نیز مہر کے بغیر نہ کرایا جائے۔ مرد چار سے زیادہ شادیاں نہ کرے۔ مجاہد اور سعید بن جبیر کا قول ہے کہ یہ فرض کردیا گیا ہے کہ مرد چار شادیاں کرے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری (وما ملکت ایمانھم اور ان کی لونڈیوں کے بارے ) سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس اباحت کا علم ہے جو اس نے ملک یمین کی بنیاد پر اہل ایمان کے لئے کردی ہے جس طرح یہ اباحت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کردی گئی تھی۔ قول باری (لکی لا یکون علیک حرج، تاکہ آپ پر کسی قسم کی تنگی واقع نہ ہو)- قول باری (انا احللنا لک ازواجک) اور اس کے مابعد مذکورہ خواتین کی طرف راجع ہے جن کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اباحت کردی گئی تھی تاکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کسی قسم کی تنگی واقع نہ ہو کیونکہ حرج تنگی کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کی خبر دی ہے کہ اس کی طرف سے ان خواتین کے ساتھ آپ کے نکاح کی اباحت کا حکم دراصل آپ کے لئے وسعت پیدا کرنے کی خاطر ہے۔ اسی طرح اہل ایمان کے لئے بھی اس کے ذریعے وسعت پیدا کردی گئی ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے نبی اکرم ہم نے آپ نے کے لیے آپ کی یہ ازواج مطہرات جن کو آپ ان کا مہر دے چکے ہیں حلال کردی ہیں اور وہ عورتیں بھی حلال کی ہیں جو تمہاری ملکیت ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غنیمت میں دلوا دی ہیں جیسا کہ حضڑت ماریہ قبطیہ اور آپ کی چچا کی بیٹیوں سے بھی آپ کے لیے شادی کرنا حلال ہے باوجود تعداد میں زیادہ ہونے کے کیونکہ یہ آپ کی خصوصیت ہے اور اسی طرح پھوپھی زاد بہنیں یعنی بنی عبدالمطلب اور آپ کی ماموں زاد اور خالہ زاد بہنیں یعنی بنی عبد مناف بن زہرہ جنہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کی ہو۔- اور مسلمان عورت کو بھی خاص آپ کے لیے حلال کیا ہے جو بغیر مہر کے خود کو پیغمبر خدا کے حوالے کر بشرطیکہ پیغمبر بغیر مہر کے اس کو نکاح میں لانا چاہیں۔ یہ احکام آپ کے لیے مخصوص کیے گئے ہیں نہ کہ اور مومنوں کے لیے - ہمیں وہ احکام معلوم ہیں جو ہم نے عام مومنوں پر ان کی بیویوں کے بارے میں مقرر کیے ہیں کہ چار عورتوں تک نکاح اور مہر کے ساتھ رکھ سکتے ہیں اور باندیوں کو بغیر کسی تعداد کے رکھ سکتے ہیں اور یہ اختصاص آپ کی ذات کے ساتھ اس لیے کیا تاکہ جن عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے حلال کردیا ہے آپ کو ان سے شادی کرنے میں کوئی تنگی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے کہ ان باتوں کی اجازت فرمائی۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ (الخ)- امام ترمذی نے تحسین اور امام حاکم نے صحت کے ساتھ سدی عن ابی صالح کے طریق سے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے وہ حضرت ام ہانی سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اکرم نے نکاح کا پیغام دیا تو میں نے معذرت کی اللہ تعالیٰ نے میری معذرت قبول کرلی اور یہ آیت نازل فرمائی۔ يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ (الخ) اور اس میں یہ قید لگائی کہ جن عورتوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہو اور میں نے ہجرت نہیں کی تھی اس لیے میں آپ کے لیے حلال ہی نہ تھی۔- اور ابن ابی حاتم نے اسماعیل بن ابی خالد عن صالح کے طریق سے حضرت ام ہانی سے روایت کیا فرماتی ہیں کہ یہ آیت مبارکہ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ (الخ) میرے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے تو آپ کو اس سے روک دیا گیا اس لیے کہ میں نے ابھی تک ہجرت نہیں کی تھی۔- شان نزول : وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً (الخ)- ابن سعد نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ام شریک دوسیہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور ابن سعد نے منیر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ ام شریک دوسیہ نے اپنے آپ کو رسول اکرم کے سامنے پیش کیا اور یہ خوبصورت تھیں آپ نے قبول کرلیا اس پر حضرت عائشہ بولیں ایسی عورت کے لیے کوئی بھلائی نہیں جو خود اپنے آپ کو کسی کے سامنے پیش کرے۔ حضرت ام شریک فرماتی ہیں کہ میں وہی عورت ہوں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مومنہ کا لقب دیا۔ چناچہ ارشاد فرمایا یعنی اس مومن عورت کو بھی جو بلا عوض اپنے آپ کو پیغمبر کو دے دے چناچہ جب یہ آیت نازل ہوئی حضرت نے عائشہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مرضی کے پورا کرنے میں سبقت کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٠ یٰٓــاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَکَ اَزْوَاجَکَ الّٰتِیْٓ اٰتَیْتَ اُجُوْرَہُنَّ ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کے لیے حلال ٹھہرایا ہے آپ کی ان تمام ازواج کو جن کے مہر آپ نے ادا کیے ہیں “- وَمَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ مِمَّآ اَفَآئَ اللّٰہُ عَلَیْکَ ” اور (ان کو بھی) جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملک یمین (باندیاں) ہیں ‘ ان سے جو اللہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بطور ’ فے ‘ عطا کیں “- جیسے مصر کے فرمانروا مقوقس نے حضرت ماریہ قبطیہ (علیہ السلام) کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بطور ہدیہ بھیجا تھا۔- وَبَنٰتِ عَمِّکَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِکَ وَبَنٰتِ خَالِکَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِکَ ” (اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نکاح کرنا جائز ہے) اپنے چچا کی بیٹیوں سے اور اپنی پھوپھیوں کی بیٹیوں سے ‘ اور اپنی ماموئوں کی بیٹیوں اور اپنی خالائوں کی بیٹیوں سے “- الّٰتِیْ ہَاجَرْنَ مَعَکَ ” جنہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ہجرت کی۔ “- وَامْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّہَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ ” اور وہ مومن عورت بھی جو ہبہ کرے اپنا آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے “- اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَہَا ” اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے اپنے نکاح میں لانا چاہیں۔ “- یعنی وہ مسلمان خاتون جو مہر کا تقاضا کیے بغیر خود کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کے لیے پیش کرے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے قبول فرمائیں۔- خَالِصَۃً لَّکَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ” یہ (رعایت) خالص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ہے ‘ مومنین سے علیحدہ۔ “- اس سلسلے میں نبی مکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عام قانون سے مستثنیٰ قرار دیا جا رہا ہے۔- قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْہِمْ فِیْٓ اَزْوَاجِہِمْ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ ” ہمیں خوب معلوم ہے جو ہم نے ان (عام مسلمانوں) پر ان کی بیویوں اور ان کی باندیوں کے ضمن میں فرض کیا ہے “- ایک عام مسلمان ایک وقت میں چار سے زیادہ بیویاں اپنے نکاح میں نہیں رکھ سکتا۔ اسی طرح باندیوں کے بارے میں بھی ان پر طے شدہ قواعد و ضوابط کی پابندی لازم ہے۔- لِکَیْلَا یَکُوْنَ عَلَیْکَ حَرَجٌ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ” تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی تنگی نہ رہے۔ اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “- اس موضوع کے حوالے سے ایک اہم نکتہ یہ بھی مد نظر رہنا چاہیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعدد نکاح کرنے میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کا عمل دخل تھا۔ مثلاً حضرت عائشہ (رض) اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوگئیں اور اس کے بعد آپ (رض) ایک طویل مدت تک خواتین اُِمت کے لیے ایک معلمہ کا کردار ادا کرتی رہیں۔ اسی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سے ایسے نکاح بھی کیے جن کی وجہ سے متعلقہ قبائل کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہوئے اور اس طرح اسلامی حکومت اور ریاست کو تقویت ملی۔ یہ مصلحتیں اس بات کی متقاضی تھیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے نکاح کے معاملے میں کوئی تنگی باقی نہ رکھی جائے ‘ تاکہ جو عظیم کام آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کیا گیا تھا اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپ جتنے نکاح کرنا چاہیں کرلیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :87 یہ دراصل جواب ہے ان لوگوں کے اعتراض کا جو کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) دوسرے لوگوں کے لیے تو بیک وقت چار بیویاں رکھنا ممنوع قرار دیتے ہیں ، مگر خود انہوں نے یہ پانچویں بیوی کیسے کر لی ۔ اس اعتراض کی بنیاد یہ تھی کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیویاں موجود تھیں ۔ ایک حضرت سودہ جن سے ۳ قبل ہجرت میں آپ نے نکاح کیا تھا ۔ دوسری ، حضرت عائشہ جن سے نکاح تو ۳ قبل ہجرت میں ہو چکا تھا مگر انکی رخصتی شوال ۱ ہجری میں ہوئی تھی ، تیسری ، حضرت حفصہ جن سے شعبان ۳ ھجری میں آپ کا نکاح ہوا ۔ اور چوتھی ، حضرت اُم سَلمہ ، جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال ٤ ہجری میں زوجیت کا شرف عطا فرمایا ۔ اس طرح حضرت زینب آپ کی پانچویں بیوی تھیں ۔ اس پر کفار و منافقین جو اعتراض کر رہے تھے اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دے رہا ہے کہ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہاری یہ پانچوں بیویاں جنہیں مہر دے کر تم اپنے نکاح میں لائے ہو ، ہم نے تمہارے لیے حلال کی ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں اس جواب کا مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے چار کی قید لگانے والے بھی ہم ہی ہیں اور اپنے نبی کو اس قید سے مستثنیٰ کرنے والے بھی ہم خود ہیں ۔ اگر وہ قید لگانے کے ہم مجاز تھے تو آخر اس استثناء کے مجاز ہم کیوں نہیں ہیں ۔ اس جواب کے بارے میں یہ بات پھر ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ اس سے مقصود کفار و منافقین کو مطمئن کرنا نہیں تھا بلکہ ان مسلمانوں کو مطمئن کرنا تھا جن کے دلوں میں مخالفین اسلام وسوسے ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ انہیں چونکہ یقین تھا کہ یہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ میں نازل ہوا ہے ، اس لیے قرآن کی ایک محکم آیت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا کہ نبی نے چار بیویوں کے عام قانون سے اپنے آپ کو خود مستثنیٰ نہیں کر لیا ہے بلکہ یہ استثنا کا فیصلہ ہمارا کیا ہوا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :88 پانچویں بیوی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کرنے کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چند مزید اقسام کی عورتوں سے بھی نکاح کی اجازت عطا فرمائی: ۱ ۔ وہ عورتیں جو اللہ کی عطا کردہ لونڈیوں میں سے آپ کی ملکیت میں آئیں ۔ اس اجازت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ قُریظہ کے سبایا میں سے حضرت رَیحانہ ، غزوۂ بنی المُصْطَلِق کے سبایا میں سے حضرت جُوَیْریہ غزوۂ خیبر کے سبایا میں سے حضرت صفیہ اور مُقَقَسِ مصر کی بھیجی ہوئی حضرت ماریہ قبطیہ کو اپنے لیے مخصوص فرمایا ۔ ان میں سے مقدم الذکر تین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے ان سے نکاح کیا تھا ، لیکن حضرت ماریہ سے بربنائے مِلکِ یمین تمتع فرمایا ، ان کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے ان سے نکاح کیا ہو ۔ ۲ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد ، ماموں زاد ، پھوپھی زاد اور خالہ زاد بہنوں میں سے وہ خواتین جنہوں نے ہجرت میں آپ کا ساتھ دیا ہو ۔ آیت میں آپ کے ساتھ ہجرت کرنے کا جو ذکر آیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سفر میں آپ کے ساتھ رہی ہوں ، بلکہ یہ تھا کہ وہ بھی اسلام کی خاطر راہ خدا میں ہجرت کر چکی ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دیا گیا کہ ان رشتہ دار مہاجر خواتین میں سے بھی آپ جس سے چاہیں نکاح کر سکتے ہیں ۔ چنانچہ اس اجازت کے مطابق آپ نے ۷ ھ میں حضرت اُمّ حبیبہ سے نکاح فرمایا ۔ ( ضمناً اس آیت میں یہ صراحت بھی ہے کہ چچا ، ماموں ، پھوپھی اور خالہ کی بیٹیاں ایک مسلمان کے لیے حلال ہیں ۔ اس معاملہ میں اسلامی شریعت عیسائی اور یہودی ، دونوں مذہبوں سے مختلف ہے ۔ عیسائیوں کے ہاں کسی ایسی عورت سے نکاح نہیں ہو سکتا جس سے سات پشت تک مرد کا نسب ملتا ہو ۔ اور یہودیوں کے ہاں سگی بھانجی اور بھتیجی تک سے نکاح جائز ہے ) ۔ ۳ ۔ وہ مومن عورت جو اپنے آپ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کرے ، یعنی بلا مہر آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں دینے کے لیے تیار ہو اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبول کرنا پسند فرمائیں ۔ اس اجازت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال ۷ ھ میں حضرت میمونہ کو اپنی زوجیت میں لیا ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند نہ کیا کہ مہر کے بغیر ان کے ہبہ سے فائدہ اٹھائیں ۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کسی خواہش اور مطالبہ کے بغیر ان کو مہر عطا فرمایا ۔ بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں کوئی موہوبہ بیوی نہ تھیں ۔ مگر اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبہ کرنے والی بیوی کو بھی مہر دیے بغیر نہ رکھا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :89 اس فقرے کا تعلق اگر صرف قریب کے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ دوسرے کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی عورت اپنے آپ کو اس کے لیے ہبہ کرے اور وہ بلا مہر اس سے نکاح کر لے ۔ اور اگر اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے مانا جائے تو اس سے مراد یہ ہو گی کہ چار سے زیادہ نکاح کرنے کی رعایت بھی صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے ، عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے ۔ اس آیت سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ کچھ احکام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہیں جن میں امت کے دوسرے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک نہیں ہیں ۔ قرآن و سنت کے تتبُّع سے ایسے متعدد احکام کا پتہ چلتا ہے ۔ مثلاً حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز تہجد فرض تھی اور باقی تمام امت کے لیے وہ نفل ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور آپ کے خاندان والوں کے لیے صدقہ لینا حرام ہے اور کسی دوسرے کے لیے وہ حرام نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تقسیم نہ ہو سکتی تھی ، باقی سب کی میراث کے لیے وہ احکام ہیں جو سورۂ نساء میں بیان ہوئے ہیں ۔ آپ کے لیے چار سے زائد بیویاں حلال کی گئیں ، بیویوں کے درمیان عدل آپ پر واجب نہیں کیا گیا ، اپنے نفس کو ہبہ کر نے والی عورت سے بلا مہر نکاح کرنے کی آپ کو اجازت دی گئی ، اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویاں تمام امت پر حرام کر دی گئیں ۔ ان میں سے کوئی خصوصیت بھی ایسی نہیں ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی مسلمان کو حاصل ہو ۔ مفسرین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصوصیت یہ بھی بیان کی ہے کہ آپ کے لیے کتابیہ عورت سے نکاح ممنوع تھا ، حالانکہ باقی امت کے لیے وہ حلال ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :90 یہ وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عام قاعدے سے مستثنیٰ فرمایا ۔ تنگی نہ رہے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہشات نفسانی بہت بڑھی ہوئی تھیں اس لیے آپ کو بہت بیویاں کرنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ آپ صرف چار بیویوں تک محدود رہنے میں تنگی محسوس نہ فرمائیں ۔ اس فقرے کا یہ مطلب صرف وہی شخص لے سکتا ہے جو تعصب میں اندھا ہو کر اس بات کو بھول جائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۵ سال کی عمر میں ایک ایسی خاتون سے شادی کی تھی جن کی عمر اس وقت ٤۰ سال تھی ، اور پوری ۲۵برس تک آپ ان کے ساتھ نہایت خوشگوار ازدواجی زندگی بسر کرتے رہے ۔ پھر جب ان کا انتقال ہو گیا تو آپ نے ایک اور سن رسیدہ خاتون حضرت سَودہ سے نکاح کیا اور پورے چار سال تک تنہا وہی آپ کی بیوی رہیں ۔ اب آخر کون صاحب عقل اور ایمان دار آدمی یہ تصور کر سکتا ہے کہ ۵۳ سال کی عمر سے گزر جانے کے بعد یکایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہشات نفسانی بڑھتی چلی گئیں اور آپ کو زیادہ سے زیادہ بیویوں کی ضرورت پیش آنے لگی ۔ دراصل تنگی نہ رہنے کا مطلب سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایک طرف تو اس کار عظیم کو نگاہ میں رکھے جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ڈالی تھی اور دوسری طرف ان حالات کو سمجھے جن میں یہ کار عظیم انجام دینے کے لیے آپ کو مامور کیا گیا تھا ۔ تعصب سے ذہن کو پاک کر کے جو شخص بھی ان دونوں حقیقتوں کو سمجھ لے گا وہ بخوبی جان لے گا کہ بیویوں کے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلی اجازت دینا کیوں ضروری تھا ، اور چار کی قید میں آپ کے لیے کیا تنگی تھی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد جو کام کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ آپ ایک ان گھڑ قوم کو جو اسلامی نقطۂ نظر ہی سے نہیں بلکہ عام تہذیب و تمدن کے نقطۂ نظر سے بھی ناتراشیدہ تھی ، ہر شعبۂ زندگی میں تعلیم و تربیت دے کر ایک اعلیٰ درجہ کی مہذب و شائستہ اور پاکیزہ قوم بنائیں ۔ اس غرض کے لیے صرف مردوں کو تربیت دینا کافی نہ تھا ، بلکہ عورتوں کی تربیت بھی اتنی ہی ضروری تھی ۔ مگر جو اصول تمدن و تہذیب سکھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مامور کیے گئے تھے ان کی رو سے مردوں اور عورتوں کا آزادانہ اختلاط ممنوع تھا اور اس قاعدے کو توڑے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عورتوں کو براہ راست خود تربیت دینا ممکن نہ تھا ۔ اس بنا پر عورتوں میں کام کرنے کی صرف یہی ایک صورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ممکن تھی کہ مختلف عمروں اور ذہنی صلاحیتوں کی متعدد خواتین سے آپ نکاح کریں ، ان کو براہ راست خود تعلیم و تربیت دیکر اپنی مدد کے لیے تیار کریں ، اور پھر ان سے شہری اور بدوی اور جوان اور بوڑھی ، ہر قسم کی عورتوں کو دین سکھانے اور اخلاق و تہذیب کے نئے اصول سمجھانے کا کام لیں ۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد یہ خدمت بھی کی گئی تھی کہ پرانے جاہلی نظام زندگی کو ختم کر کے اس کی جگہ اسلامی نظام زندگی عملاً قائم کر دیں ۔ اس خدمت کی انجام دہی میں جاہلی نظام کے علمبرداروں سے جنگ ناگزیر تھی ۔ اور یہ کشمکش ایک ایسے ملک میں پیش آ رہی تھی یہاں قبائلی طرز زندگی اپنی مخصوص روایات کے ساتھ رائج تھا ۔ ان حالات میں دوسری تدابیر کے ساتھ آپ کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف خاندانوں میں نکاح کر کے بہت سی دوستیوں کو پختہ اور بہت سی عداوتوں کو ختم کر دیں ۔ چنانچہ جن خواتین سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادیاں کیں ان کے ذاتی اوصاف کے علاوہ ان کے انتخاب میں یہ مصلحت بھی کم و بیش شامل تھی ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ کے ساتھ نکاح کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اپنے تعلقات کو اور زیادہ گہرا اور مستحکم کر لیا ۔ حضرت ام سلمہ اس خاندان کی بیٹی تھیں جس سے ابوجہل اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تعلق تھا ۔ اور حضرت اُم حبیبہ ابو سفیان کی بیٹی تھیں ۔ ان شادیوں نے بہت بڑی حد تک ان خاندان کی دشمنی کا زور توڑ دیا ، بلکہ اُم حبیبہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہونے کے بعد تو ابو سفیان پھر کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے پر نہ آیا ۔ حضرت صفیہ ، جُویریہ ، اور رَیحانہ رضی اللہ عنہن یہودی خاندانوں سے تھیں ۔ انہیں آزاد کر کے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیے تو آپ کے خلاف یہودیوں کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ گئیں ۔ کیونکہ اس زمانے کی عربی روایات کے مطابق جس شخص سے کسی قبیلے کی بیٹی بیاہی جاتی وہ صرف لڑکی کے خاندان ہی کا نہیں بلکہ پورے قبیلے کا داماد سمجھا جاتا تھا اور داماد سے لڑنا بڑے عار کی بات تھی ۔ معاشرے کی عملی اصلاح اور اس کی جاہلانہ رسوم کو توڑنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض منصبی میں شامل تھا ۔ چنانچہ ایک نکاح آپ کو اس مقصد کے لیے بھی کرنا پڑا ، جیسا کہ اسی سورۂ احزاب میں مفصل بیان ہو چکا ہے ۔ یہ مصلحتیں اس بات کی مقتضی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نکاح کے معاملے میں کوئی تنگی باقی نہ رکھی جائے ۔ تاکہ جو کار عظیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا تھا اس کی ضروریات کے لحاظ سے آپ جتنے نکاح کرنا چاہیں کرلیں ۔ اس بیان سے ان لوگوں کے خیال کی غلطی بھی واضح ہو جاتی ہے جو سمجھتے ہیں کہ تعدد ازواج صرف چند شخصی ضرورتوں کی خاطر ہی جائز ہے اور ان کے ماسوا کوئی غرض ایسی نہیں ہو سکتی جس کے لیے یہ جائز ہو ۔ ظاہر بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ایک سے زائد نکاح کیے ان کی وجہ یہ نہ تھی کہ بیوی بیمار تھی ، یا بانجھ تھی ، یا اولاد نرینہ نہ تھی ، یا کچھ یتیموں کی پرورش کا مسئلہ درپیش تھا ۔ ان محدود شخصی ضروریات کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام نکاح یا تو تبلیغی و تعلیمی ضروریات کے لیے کیے ، یا سیاسی و اجتماعی مقاصد کے لیے ۔ سوال یہ ہے کہ جب اللہ نے خود تعدد ازواج کو ان چند گنی چنی مخصوص اغراض تک ، جن کا آج نام لیا جا رہا ہے ، محدود نہیں رکھا اور اللہ کے رسول نے ان کے سوا بہت سے دوسرے مقاصد کے لیے متعدد نکاح کیے تو کوئی دوسرا شخص کیا حق رکھتا ہے کہ قانون میں اپنی طرف سے چند قیود تجویز کرے اور اوپر سے دعویٰ یہ کرے کہ یہ حد بندیاں وہ شریعت کے مطابق کر رہا ہے ۔ دراصل ان ساری حد بندیوں کی جڑ یہ مغربی تخیل ہے کہ تعدد ازواج بجائے خود ایک برائی ہے ۔ اسی تخیل کی بنا پر یہ نظریہ پیدا ہوا ہے کہ یہ فعل حرام اگر کبھی حلال ہو بھی سکتا ہے تو صرف شدید ناگزیر ضروریات کے لیے ہو سکتا ہے اب اس درآمد شدہ تخیل پر اسلام کا جعلی ٹھپہ لگانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کی جائے ، قرآن و سنت اور پوری امت مسلمہ کا لٹریچر اس سے قطعاً ناآشنا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

38:ٓآیت نمبر 50 اور 51 میں اللہ تعالیٰ نے نکاح کے بارے میں وہ احکام بیان فرمائے ہیں جو صرف آنحضصرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہیں۔ ان میں سے پہلا حکم یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لیے چار سے زیادہ نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے، لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چار سے زیادہ نکاح کی اجازت ہے۔ اس اجازت میں بہت سی حکمتیں تھیں جن کی تفصیل دیکھنی ہو تو ’’ معارف القرآن‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔ 39: یہ دوسرا حکم ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے، عام مسلمان اس میں شریک نہیں ہیں۔ اور وہ یہ کہ عام مسلمانوں کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی بھی مسلمان عورت سے یا اہل کتاب (یعنی عیسائیوں اور یہودیوں) میں سے کسی عورت سے بھی نکاح کرسکتے ہیں، لیکن حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے یہ جائز قرار نہیں دیا گیا کہ آپ کسی یہودی یا عیسائی عورت سے نکاح کریں، نیز مسلمان عورتوں میں سے بھی جنہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت نہ کی ہو، ان سے بھی آپ کے لیے نکاح جائز نہیں کیا گیا۔ 40: یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تیسرا خصوصی حکم ہے۔ یعنی عام مسلمانوں کے لیے کسی عورت سے مہر کے بغیر نکاح کرنا جائز نہیں ہے، لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے جائز قرار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی عورت خود سے یہ پیشکش کرے کہ وہ آپ سے مہر کے بغیر نکاح کرنا چاہتی ہے، اور آپ بھی اس سے نکاح کرنا چاہیں تو ایسا کرسکتے ہیں۔ اگرچہ قرآن کریم کی اس آیت نے آپ کے لیے یہ خصوصی اجازت دے دی تھی لیکن حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عملی طور پر اس اجازت سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا۔