Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

روایات و احکامات بخاری شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں ان عورتوں پر عار رکھا کرتی تھی جو اپنا نفس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہبہ کریں اور کہتی تھیں کہ عورتیں بغیر مہر کے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے کرنے میں شرماتی ہیں ؟ یہاں تک کہ یہ آیت اتری تو میں نے کہا کہ آپ کا رب آپ کے لئے کشادگی کرتا ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ آیت سے مراد یہی عورتیں ہیں ۔ ان کے بارے میں اللہ کے نبی کو اختیار ہے کہ جسے چاہیں قبول کریں اور جسے چاہیں قبول نہ فرمائیں ۔ پھر اس کے بعد یہ بھی آپ کے اختیار میں ہے کہ جنہیں قبول نہ فرمایا ہو انہیں جب چاہیں نواز دیں عامر شعبی سے مروی ہے کہ جنہیں موخر کر رکھا تھا ان میں حضرت ام شریک تھی ۔ ایک مطلب اس جملے کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ آپ کی بیویوں کے بارے میں آپ کو اختیار تھا کہ اگر چاہیں تقسیم کریں چاہیں نہ کریں جسے چاہیں مقدم کریں جسے چاہیں موخر کریں ۔ اسی طرح خاص بات چیت میں بھی ۔ لیکن یہ یاد رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پوری عمر برابر اپنی ازواج مطہرات میں عدل کے ساتھ برابری کی تقسیم کرتے رہے ۔ بعض فقہاء شافعیہ کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ اس آیت کے نازل ہو چکنے کے بعد بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اجازت لیا کرتے تھے ۔ مجھ سے تو جب دریافت فرماتے میں کہتی اگر میرے بس میں ہو تو میں کسی اور کے پاس آپ کو ہرگز نہ جانے دوں ۔ پس صحیح بات جو بہت اچھی ہے اور جس سے ان اقوال میں مطابقت بھی ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ آیت عام ہے ۔ اپنے نفس سونپنے والیوں اور آپ کی بیویوں سب کو شامل ہے ۔ ہبہ کرنے والیوں کے بارے میں نکاح کرنے نہ کرنے اور نکاح والیوں میں تقسیم کرنے نہ کرنے کا آپ کو اختیار تھا ۔ پھر فرماتا ہے کہ یہی حکم بالکل مناسب ہے اور ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سہولت والا ہے ۔ جب وہ جان لیں گی کہ آپ باریوں کے مکلف نہیں ہیں ۔ پھر بھی مساوات قائم رکھتے ہیں تو انہیں بہت خوشی ہوگی ۔ اور ممنون و مشکور ہوں گی اور آپ کے انصاف و عدل کی داددیں گی ۔ اللہ دلوں کی حالتوں سے واقف ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ کسے کس کی طرف زیادہ رغبت ہے ۔ مسند میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طور پر صحیح تقسیم اور پورے عدل کے بعد اللہ سے عرض کیا کرتے تھے کہ الہ العالمین جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے انصاف کر دیا ۔ اب جو میرے بس میں نہیں اس پر تو مجھے ملامت نہ کرنا یعنی دل کے رجوع کرنے کا اختیار مجھے نہیں ۔ اللہ سینوں کی باتوں کا عالم ہے ۔ لیکن حلم و کرم والا ہے ۔ چشم پوشی کرتا ہے معاف فرماتا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

51۔ 1 اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک اور خصوصیت کا بیان ہے، وہ یہ کہ بیویوں کے درمیان باریاں مقرر کرنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار دے دیا گیا تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس کی باری چاہیں موقوف کردیں یعنی اسے نکاح میں رکھتے ہوئے اس سے مباشرت نہ کریں اور جس سے چاہیں یہ تعلق قائم رکھیں۔ 51۔ 2 یعنی جن بیویوں کی باریاں موقوف کر رکھی تھیں اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں کہ ان سے بھی مباشرت کا تعلق قائم کیا جائے، تو یہ اجازت بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے۔ 51۔ 3 یعنی باری موقوف ہونے اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے باوجود وہ خوش ہونگی، غمگین نہیں ہونگی اور جتنا کچھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے انھیں مل جائے گا، اس پر مطمئن رہیں گی اسلئے کہ انھیں معلوم ہے کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اجازت سے کر رہے ہیں اور یہ ازواج مطہرات اللہ کے فیصلے پر راضی اور مطمن ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اختیار ملنے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے استعمال نہیں کیا اور سوائے حضرت سودہ کے (کہ انہوں نے اپنی باری خود ہی حضرت حضرت عائشہ کے لئے ہبہ کردی تھی) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام ازواج مطہرات کی باریاں برابر مقرر کر رکھی تھیں، اسی لیے آپ نے مرض الموت میں ازواج مطہرات سے اجازت لے کر بیماری کے ایام حضرت عائشہ کے پاس گزارے (ان تقر اعینھن) کا تعلق آپ کے اسی طرز عمل سے ہے کہ آپ پر تقسیم اگرچہ (دوسرے لوگوں کی طرح) واجب نہیں تھی اس کے باوجود آپ نے تقسیم کو اختیار فرمایا، تاکہ آپ کی بیویوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس حسن سلوک اور عدل وانصاف سے خوش ہوجائیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خصوصی اختیار استعمال کرنے کے بجائے ان کی دلجوئی اور دلداری کا اہتمام فرمایا۔ 52۔ 4 یعنی تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے ان میں یہ بات بھی یقینا ہے کہ سب بیویوں کی محبت دل میں یکساں نہیں ہے۔ کیونکہ دل پر انسان کا اختیار ہی نہیں ہے۔ اس لئے بیویوں کے درمیان مساوات باری میں، نان، نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی اور آسائشوں میں ضروری ہے، جس کا اہتمام انسان کرسکتا ہے۔ دلوں کے میلان میں مساوات چونکہ اختیار میں ہی نہیں ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس پر گرفت بھی نہیں فرمائے گا بشرطیکہ دلی محبت کسی ایک بیوی سے امتیازی سلوک کا باعث ہو۔ اس لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا کرتے تھے یا اللہ یہ میری تقسیم ہے جو میرے اختیار میں ہے، لیکن جس چیز پر تیرا اختیار ہے، میں اس پر اختیار نہیں رکھتا اس میں مجھے ملامت نہ کرنا (مسند احمد)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨١] بیویوں کی باری کے سلسلے میں آپ کو خصوصی ہدایت :۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایک اور رعایت یہ مل گئی کہ آپ پر سے اپنی بیویوں کے پاس باری باری رہنے کی پابندی اٹھا لی گئی۔ بالفاظ دیگر آپ کی بیویوں کا آپ پر یہ حق ساقط کردیا گیا کہ فلاں رات آپ باری کے حساب سے فلاں بیوی کے پاس رہیں گے۔ اور اس سقوط حق سے اللہ تعالیٰ کا مقصد نبی اور اس کی بیویوں دونوں پر سے تنگی کو رفع کرنا مقصود تھا۔ نبی کی تنگی کا دور ہونا تو واضح ہے اور بیویوں سے تنگی کا دور ہونا اس لحاظ سے ہے کہ جب انھیں یہ معلوم ہوجائے گا کہ فلاں باری کے دن نبی کا اس کے ہاں شب بسری کرنا اس کا حق نہیں ہے تو ان کے باہمی تنازعات اور چپقلش از خود ختم ہوجائیں گے کیونکہ تنازعات کی بنیاد ہی حقوق سے تعلق رکھتی ہے۔ پھر جب حق ہی نہ رہا تو تنازعات کیسے ؟ لیکن آپ نے اللہ تعالیٰ سے دی گئی اس رعایت سے کبھی فائدہ نہیں اٹھایا اور اپنی بیویوں کی باری کو ملحوظ خاطر رکھا جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے واضح ہے۔- خ رعایت کے باوجود آپ نے ہمیشہ باری کو ملحوظ رکھا :۔ (١) سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب آپ کو ایک بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جانا منظور ہوتا تو آپ باری والی بیوی سے اجازت لیا کرتے تھے۔ معاذہ (راوی) کہتے ہیں کہ اس آیت کے اترنے کے بعد میں نے سیدہ عائشہ (رض) سے پوچھا : اگر نبی اکرم آپ سے اجازت لیتے تو آپ کیا کہتیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تو کہتی کہ اگر آپ مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں تو یہ چاہتی ہوں کہ آپ میرے پاس ہی رہیں ۔ (حوالہ ایضاً )- (٢) سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ جب سفر پر جانا چاہتے تو اپنی عورتوں پر قرعہ ڈالتے جس عورت کا نام قرعہ میں نکلتا اس کو ساتھ لے جاتے اور ہر عورت کے پاس باری باری ایک ایک دن رات رہتے۔ صرف سودہ بنت زمعہ (رض) نے (جو بہت بوڑھی ہوگئی تھیں) اپنا دن رات سیدہ عائشہ (رض) کو بخش دیا تھا۔ ان کی غرض یہ تھی کہ رسول اللہ خوش ہوں۔ (بخاری۔ کتاب الھبہ۔ باب ھبۃ المرأۃ لغیر زوجھا) - (٣) سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ جب آپ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری سخت ہوگئی تو آپ نے دوسری بیویوں سے بیماری میں میرے گھر رہنے کی اجازت چاہی تو انہوں نے اجازت دے دی۔ (بخاری۔ کتاب الھبۃ۔ باب ھبۃ الرجل لامرأتہ والمرأۃ لزوجھا)- [٨٢] یعنی وہ اللہ کے احکام سے خوش ہوجائیں اور باہمی جذبہ رقابت اور مسابقت کی الجھنوں میں پڑنے کی بجائے یکسو ہو کر نبی کے مشن میں اس کا ہاتھ بٹائیں اور جس طرح نبی اپنے کام میں پوری جدوجہد کر رہا ہے مصائب برداشت کررہا ہے اور تنگی ترشی سے بےنیاز رہ کر کررہا ہے۔ اسی طرح وہ بھی قناعت اور ایثار سے کام لیں۔ بلکہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت کو اپنا مقصد حیات قرار دے کر خوشدلی سے سب کام انجام دیں اور یہ سمجھ لیں کہ باری کے حق کا سقوط آپ کی مرضی سے نہیں بلکہ اللہ کے حکم سے ہوا ہے۔- [٨٣] تمہارے دلوں کا خطاب ازواج کی طرف بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی اگر تم نے اللہ کے ان احکام کو خوشدلی کے بجائے دل کی گھٹن سے یا کبیدہ خاطر ہو کر کیا ہے تو اللہ اسے بھی جانتا ہے اور اس پر گرفت ہوگی اور اگر اس لفظ کا خطاب عام لوگوں کی طرف ہو تو مطلب یہ ہوگا کہ اگر ان حقائق کے بجائے نبی کی ازدواجی زندگی سے متعلق تمہارے دلوں میں کوئی اور بدگمانی پیدا ہو تو وہ بھی اللہ سے چھپی نہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ساتھ ہی اپنی صفت حلیم کا ذکر فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا ہو جسے وہ دل سے نکال دے تو اللہ اس پر گرفت نہیں فرمائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْهُنَّ ۔۔ : اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بیویوں کے بارے میں مزید رعایتوں کا بیان ہے۔ ان میں سے ایک رعایت یہ ہے کہ جو عورتیں اپنے نفس آپ کے لیے ہبہ کریں، ان میں سے آپ جسے چاہیں مؤخر رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں، آپ پر ان کی پیش کش قبول کرنا لازم نہیں اور ایک رعایت یہ ہے کہ جو عورتیں آپ کے نکاح میں ہیں، آپ پر ان کے پاس باری باری جانے کی پابندی نہیں، آپ جس کے پاس چاہیں رات بسر کریں، جسے چاہیں مؤخر رکھیں۔ - وَ تُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاۗءُ ۭ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ : تیسری رعایت یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کی باری آپ نے ختم کی ہو اور دوبارہ اسے طلب کرنا چاہیں، تو اس میں بھی آپ پر کوئی مضائقہ نہیں۔- ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ ۔۔ : بیویوں کا حق ساقط کرنے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی بیویوں دونوں سے تنگی دور کرنا مقصود تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تنگی دور کرنا تو ظاہر ہی ہے، بیویوں کی تنگی دور کرنا اس لحاظ سے ہے کہ جب ان میں سے ہر ایک کو معلوم ہوجائے گا کہ فلاں باری کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اس کے ہاں رات بسر کرنا اس کا حق نہیں تو آپ کے ساتھ اور آپس میں ایک دوسری کے ساتھ بھی ان کی چپقلش اور تنازعات ازخود ختم ہوجائیں گے، کیونکہ تنازعات کی بنیاد ہی حقوق کا دعویٰ ہے۔ جب حق ہی نہ رہا تو جھگڑا کیسا۔ پھر جب آپ کسی بیوی کے پاس جائیں گے تو اس احساس سے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے لیے اس کے پاس جانا ضروری نہیں تھا، اسے آپ کے آنے سے خوشی ہوگی اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور انھیں یہ جان کر آپ کے نہ آنے سے غم بھی نہیں ہوگا کہ آپ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی اجازت سے کر رہے ہیں اور آپ اپنی بیویوں کو جتنا وقت یا جتنی توجہ دیں گے، سب اسی پر خوش رہیں گی اور شکر گزار ہوں گی۔- 3 واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان رعایتوں کے باوجود آپ نے ان سے فائدہ اٹھایا نہ اپنا نفس ہبہ کرنے والی کسی خاتون سے آپ نے نکاح کیا، نہ کسی بیوی کی باری ختم کی، صرف سودہ (رض) نے اپنی باری عائشہ (رض) کو دی تو آپ نے اس کی اجازت دی، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دوسری تمام بیویوں کے پاس باری باری جاتے تھے۔ آپ اس کا کس قدر اہتمام کرتے تھے وہ ان احادیث سے ظاہر ہے : - 1 معاذہ عدویہ نے عائشہ (رض) سے بیان کیا کہ اس آیت : (تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْهُنَّ وَ تُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاۗءُ ) (ان میں سے جسے تو چاہے مؤخر کر دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے دے) کے نازل ہونے کے بعد بھی جب آپ ہم میں سے کسی عورت کی باری کے دن میں ہوتے تو ہم سے اجازت مانگتے۔ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( ترجي من تشاء منھن۔۔ ) : ٤٧٨٩ ] فتح الباری میں ہے، یعنی آپ جس بیوی کی باری کے دن میں ہوتے دوسری کے پاس جانا چاہتے تو اس سے اجازت مانگتے۔ - 2 عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سفر پر جانا چاہتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے، پھر جس کا قرعہ نکلتا اسے ساتھ لے جاتے اور ہر بیوی کے پاس باری باری ایک دن رات رہتے، سوائے سودہ بنت زمعہ (رض) کے کہ اس نے اپنی باری عائشہ (رض) کے لیے ہبہ کردی تھی، اس سے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشی حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ “ [ بخاري، الھبۃ، باب ھبۃ المرأۃ لغیر زوجھا۔۔ : ٢٥٩٣ ] - 3 عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں : ” جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (بیماری کی وجہ سے) بوجھل ہوگئے اور آپ کی بیماری سخت ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوسری بیویوں سے بیماری کے ایام میرے گھر میں گزارنے کی اجازت مانگی تو انھوں نے آپ کو اجازت دے دی۔ “ [ بخاري، الھبۃ، باب ہبۃ الرجل لامرأتہ والمرأۃ لزوجھا : ٢٥٨٨ ] - 4 عروہ (رض) فرماتے ہیں کہ عائشہ (رض) نے ان سے کہا : ” میرے بھانجے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس ٹھہرنے کی تقسیم میں کسی کو دوسری پر فضیلت نہیں دیتے تھے اور کم ہی کوئی دن ہوگا، ورنہ آپ ہر روز ہم سب کے پاس چکر لگاتے اور بغیر مساس (بغیر صحبت) ہر ایک کے پاس ٹھہرتے، یہاں تک کہ اس بیوی کے پاس پہنچتے جس کی باری ہوتی اور اس کے پاس رات گزارتے۔ سودہ (رض) جب عمر رسیدہ ہوگئیں اور انھیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے علیحدگی اختیار کریں گے تو انھوں نے کہا : ” یا رسول اللہ میں نے اپنی باری عائشہ کو دی۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے ان سے قبول کرلیا۔ “ فرماتی ہیں : ” ہم کہا کرتی تھیں کہ اس اور اس جیسی عورتوں ہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے : (وَاِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۭ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۭوَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ۭوَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا) [ النساء : ١٢٨ ] ” اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے کسی قسم کی زیادتی یا بےرخی سے ڈرے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح کی صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے، اور تمام طبیعتوں میں حرص (حاضر) رکھی گئی ہے اور اگر تم نیکی کرو اور ڈرتے رہو تو بیشک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پورا باخبر ہے۔ “ - [ أبو داوٗد، النکاح، باب في القسم بین النساء : ٢١٣٥، و قال الألباني حسن صحیح ]- وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ : اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں سے بھی خطاب ہے اور تمام مومنوں سے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کی عظیم ذمہ داریوں کے پیش نظر جو رعایتیں دی ہیں، تاکہ وہ گھریلو پریشانیوں سے آزاد رہ کر اطمینان سے دعوت کا فریضہ سر انجام دے سکیں، اس کے متعلق اگر تمہارے دلوں میں تسلیم و رضا ہوگی یا کراہت و انکار تو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ اس لیے اہل ایمان کو جناب رسالت میں معمولی سوئے ظن سے بھی سخت اجتناب لازم ہے۔ - وَكَان اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا : یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے، مگر اس کے حلم کی بھی انتہا نہیں، اس لیے وہ تمہاری کسی خطا پر فوری گرفت نہیں کرتا، بلکہ تمہیں اپنی اصلاح کا موقع دیتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چھٹا حکم :- (آیت) ترجی من تشاء منہن وتوی الیک من تشاء۔ ، ترجی، ارجاء سے مسشتق ہے، جس کے معنی موخر کرنے کے ہیں، اور تو ی، ایواء سے مشتق ہے جس کے معنی قریب کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آپ کو اختیار ہے کہ ازواج مطہرات میں سے جس کو چاہیں موخر کردیں جس کو چاہیں اپنے قریب کریں۔ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مخصوص حکم ہے، عام امت کے لوگوں کے لئے جب متعدد بیویاں ہوں تو سب میں برابری کرنا ضروری ہے، اس کے خلاف کرنا حرام ہے۔ برابری سے مراد نفقہ کی برابری اور شب باشی میں برابری ہے کہ جتنی راتیں ایک بیوی کے ساتھ گزاریں اتنی دوسری اور تیسری کے ساتھ گزارنا چائے، کمی بیشی ناجائز ہے۔ مگر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس معاملے میں مکمل اختیار دے دیا کہ جس بی بی سے ایک مرتبہ اجتناب کا ارادہ کرلیا پھر اگر چاہیں تو اس کو پھر قریب کرسکتے ہیں، (آیت) و من ابتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک۔ کا یہی مطلب ہے۔- حق تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اعزاز بخشا کہ ازواج مطہرات میں برابری کرنے کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیا، لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس استثناء و اجازت کے باوجود اپنے عمل میں ہمیشہ برابری کا التزام ہی فرمایا۔ امام ابوبکر جصاص نے فرمایا کہ حدیث کی روایت یہی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کے نزول کے بعد بھی ازواج مطہرات میں برابری کی رعایت ہمیشہ رکھتے تھے، پھر اپنی اسناد کے ساتھ حضرت صدیقہ عائشہ سے یہ حدیث نقل کی جو مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابو داؤد وغیرہ میں بھی موجود ہے :- ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب ازواج میں برابری فرماتے تھے اور یہ دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ جس چیز میں میرا اختیار ہے اس میں تو میں نے برابر کرلی، (یعنی نفقہ اور شب باشی وغیرہ میں) مگر جس میں میرا اختیار نہیں اس معاملہ میں مجھے ملامت نہ فرمائیں اور مراد دل کی محبت ہے، کسی سے زیادہ کسی سے کم “- اور صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ہی کی روایت ہے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی بی بی کی نوبت میں ان کے یہاں جانے سے کوئی عذر ہوتا تو آپ اس سے اجازت لیتے تھے، جب کہ یہ آیت نازل ہوچکی تھی، تو یہ الیک الآیة (جس میں بیویوں میں برابری کرنے کا فرض آپ سے معاف کردیا گیا) ۔- یہ حدیث بھی سب کتب حدیث میں معروف ہے، کہ مرض وفات میں جب آپ کو ازواج مطہرات کے گھروں میں روزانہ منتقل ہونا مشکل ہوگیا تو آپ نے سب سے اجازت حاصل کر کے حضرت صدیقہ عائشہ کے بیت میں بیماری کے دن گزارنا اختیار فرمایا تھا۔- انبیاء (علیہم السلام) خصوصاً سید الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عادت شریفہ یہی تھی کہ جن کاموں میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رخصت آپ کی آسانی کے لئے دی جاتی تھی تو اس کی شکر گزاری کے طور پر آپ عموماً عزیمت پر عمل کرتے اور رخصت کو صرف ضرورت کے وقت استعمال کرتے تھے۔- (آیت) ذلک ادنی ان تقرا اعینہن ولا یحزن ویرضین الآیة۔ یہ حکم ششم یعنی نسبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ازواج مطہرات میں برابری کی فرضیت کا اٹھا دینا اور آپ کو ہر طرح کا اختیار دے دینا، اس کی علت و حکمت کا بیان ہے۔ آپ کو یہ عام اختیار دینے کی مصلحت یہ ہے کہ سب ازواج مطہرات کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ اپنے حصہ پر راضی رہیں۔- یہاں یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ یہ حکم تو بظاہر ازواج مطہرات کی مرضی اور منشاء کے خلاف اور ان کے رنج کا سبب ہوسکتا ہے، اس کو ازواج کی خوشی کا سبب کیسے قرار دیا گیا ؟ اس کا جواب خلاصہ تفسیر میں اوپر آ چکا ہے کہ دراصل ناراضی کا اصل سبب اپنا استحقاق ہوتا ہے، جس شخص کے متعلق انسان کو یہ معلوم ہو کہ میرا فلاں حق اس کے ذمہ واجب ہے، اگر وہ اس کی ادائیگی میں کوتاہی کرے تو رنج وغم پیش آتا ہے۔ اور جس شخص پر ہمارا کوئی حق واجب نہ ہو پھر وہ جو کچھ بھی مہربانی کرے وہ خوشی ہی خوشی ہوتی ہے، یہاں بھی جب یہ بتلا دیا گیا کہ ازواج میں برابری کرنا آپ پر واجب نہیں، بلکہ آپ مختار ہیں تو اب جس بی بی کو جتنا حصہ بھی آپ کی توجہ اور صحبت کا ملے گا، وہ اس کو ایک احسان و تبرع سمجھ کر خوش ہوگی۔- آخر میں فرمایا (آیت) واللہ یعلم ما فی قلوبکم وکان اللہ علیماً حلیماً ۔ - یعنی اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے، اور وہ بڑے علم والا بڑے حلم والا ہے۔ آیات مذکورہ میں اوپر سے یہاں تک ان احکام کا ذکر چلا آتا ہے جو دربارہ نکاح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کسی طرح کی خصوصیت رکھتے ہیں، آگے بھی ایسے ہی بعض احکام کا بیان آ رہا ہے، درمیان میں یہ آیت کہ اللہ تعالیٰ تمارے دلوں کا حال جانتا ہے اور علیم وحلیم ہے، بظاہر ما قبل اور ما بعد سے کوئی جوڑ نہیں رکھتا۔ روح المعانی میں فرمایا کہ احکام مذکورہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے چار سے زیادہ ازواج کی اجازت اور بلامہر کے نکاح کی اجازت سے کسی کے دل میں شیطانی وساوس پیدا ہو سکتے تھے، اس لئے درمیان میں اس آیت نے یہ ہدایت دے دی کہ مسلمان اپنے دلوں کی ایسے وساوس سے حفاظت کریں، اور اس پر ایمان کو پختہ کریں کہ یہ سب خصوصیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں جو بہت سی حکمتوں اور مصالح پر مبنی ہیں، نفسانی خواہشات کی تکمیل کا یہاں گزر نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْہُنَّ وَتُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاۗءُ۝ ٠ ۭ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُہُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَہُنَّ كُلُّہُنَّ۝ ٠ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ۝ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا۝ ٥١- ترجی۔ مضارع واحد مذکر حاضر ارجاء ( افعال) مصدر، تو ڈھیل دیوے، تو پیچھے رکھے۔ ر ج و۔ مادہ۔ ارجی یرجی کسی معاملہ کو موخر کرنا۔ ارج فعل امر۔ تو موخر کر۔ تو ٹال دے۔ تو تاخیر کر۔ تو التوا میں رکھ۔ قالوا ارجہ واخاہ (7: ١١١) وہ بولے اسے اور اس کے بھائی کو مہلت دو ۔ الاتقان میں اس کے معنی دئیے ہیں : ترجی ای توخر ( پیچھے ڈال دو ، علیحدہ کر دو ) روح المعانی میں ہے کہ :۔ ای توخر من تشاء من نسائک وتترک مضاجع تھا اپنی بیویوں سے جس کو چاہو علیحدہ رکھو اور اس کے ساتھ لیٹنے کو ترک کردو۔- أوى) ملانا)- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] ، وقال تعالی: آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف 69] آوی إِلَيْهِ أَخاهُ [يوسف 69] أي : ضمّه إلى نفسه .- ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اور آیت کریمہ :۔ آوَى إِلَيْهِ أَخَاهُ ( سورة يوسف 69) کے معنی یہ ہیں کہ ہوسف نے اپنے بھائی کو اپنے ساتھ ملالیا - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- ابتغاء (ينبغي)- البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48] ، - وأمّا الابتغاء - فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟- فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] .- ( ب غ ی ) البغی - کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔- الا بتغاء - یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔- اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو )- عزل - الاعْتِزَالُ : تجنّب الشیء عمالة کانت أو براءة، أو غيرهما، بالبدن کان ذلک أو بالقلب، يقال : عَزَلْتُهُ ، واعْتَزَلْتُهُ ، وتَعَزَّلْتُهُ فَاعْتَزَلَ. قال تعالی: وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ- [ الكهف 16] - ( ع ز ل ) الا عتزال - کے معنی ہیں کسی چیز سے کنارہ کش ہوجانا عام اس سے کہ وہ چیز کوئی پیشہ ہو یا کوئی بات وغیرہ ہو جس سے بری ہونے کا اعلان کیا جائے نیز وہ علیحدہ گی بذریعہ بدن کے ہو یا بذریعہ دل کے دنوں قسم کی علیحگی پر بولا جاتا ہے عزلتہ واعتزلتہ وتعزلتہ میں نے اس کو علیحہ فاعتزل چناچہ وہ علیحہ ہ ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذِ اعْتَزَلْتُمُوهُمْ وَما يَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ الكهف 16] اور جب تم نے ان مشرکوں سے اور جن کی یہ خدا کے سوا عبادت کرتے ہیں ان سے کنارہ کرلیا ۔ - جناح - وسمي الإثم المائل بالإنسان عن الحق جناحا ثم سمّي كلّ إثم جُنَاحاً ، نحو قوله تعالی: لا جُناحَ عَلَيْكُمْ «1» في غير موضع، وجوانح الصدر :- الأضلاع المتصلة رؤوسها في وسط الزور، الواحدة : جَانِحَة، وذلک لما فيها من المیل - اسی لئے ہر وہ گناہ جو انسان کو حق سے مائل کردے اسے جناح کہا جاتا ہے ۔ پھر عام گناہ کے معنی میں یہ لفظ استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں متعدد مواضع پر آیا ہے پسلیاں جن کے سرے سینے کے وسط میں باہم متصل ہوتے ہیں اس کا واحد جانحۃ ہے اور ان پسلیوں کو جو انح اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں میلان یعنی خم ہوتا ہے ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- قرر ( آنکھ ٹهنڈي کرنا)- صببت فيها ماء قَارّاً ، أي : باردا، واسم ذلک الماء الْقَرَارَةُ والْقَرِرَةُ. واقْتَرَّ فلان اقْتِرَاراً نحو : تبرّد، وقَرَّتْ عينه تَقَرُّ : سُرّت، قال : كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها [ طه 40] ، وقیل لمن يسرّ به : قُرَّةُ عين، قال : قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ [ القصص 9] ، وقوله : هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] ، قيل : أصله من القُرِّ ، أي : البرد، فَقَرَّتْ عينه، قيل : معناه بردت فصحّت، وقیل : بل لأنّ للسّرور دمعة باردة قَارَّةً ، وللحزن دمعة حارّة، ولذلک يقال فيمن يدعی عليه : أسخن اللہ عينه، وقیل : هو من الْقَرَارِ. والمعنی: أعطاه اللہ ما تسکن به عينه فلا يطمح إلى غيره، وأَقَرَّ بالحقّ : اعترف به وأثبته علی نفسه . وتَقَرَّرَ الأمرُ علی كذا أي :- حصل، والقارُورَةُ معروفة، وجمعها : قَوَارِيرُ قال : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 16] ، وقال : رْحٌ مُمَرَّدٌ مِنْ قَوارِيرَ [ النمل 44] ، أي : من زجاج .- قرت لیلتنا تقر رات کا ٹھنڈا ہونا ۔ یوم قر ٹھنڈا دن ) لیلۃ فرۃ ( ٹھنڈی رات ) قر فلان فلاں کو سردی لگ گئی اور مقرور کے معنی ٹھنڈا زدہ آدمی کے ہیں ۔ مثل مشہور ہے ۔ حرۃ تحت قرۃ یہ اس شخص کے حق میں بولتے ہیں جو اپنے ضمیر کے خلاف بات کرے ۔ قررت القدر اقرھا میں نے ہانڈی میں ٹھنڈا پانی ڈالا ۔ اور اس پانی کو قرارۃ قررہ کہا جاتا ہے ۔ اقتر فلان اقترار یہ تبرد کی طرح ہے جس کے معنی ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے ہیں ۔ قرت عینہ ت قرآن کھ کا ٹھنڈا ہونا ۔ مراد خوشی حاصل ہونا ہے قرآن پاک میں ہے : كَيْ تَقَرَّ عَيْنُها [ طه 40] تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اور جسے دیکھ کر انسان کو خوشی حاصل ہو اسے قرۃ عین کہاجاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : قُرَّتُ عَيْنٍ لِي وَلَكَ [ القصص 9] یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔ هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہمیں بیویوں کی طرف سے دل کا چین اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قر بمعنی سردی سے ہے لہذا قرت عینہ کے معنی آنکھ کے ٹھنڈا ہو کر خوش ہوجانے کے ہیں بعض نے کہا ہے کہ قرت عینہ کے معنی خوش ہونا اس لئے آتے ہیں کہ خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے ہیں اور غم کے آنسو چونکہ گرم ہونے ہیں اس لئے بددعا کے وقت اسخن اللہ عینہ کہاجاتا ہاے ۔ بعض نے کہا ہے کہ قرار س مشتق ہے مراد معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسے وہ چیزبخشے جس سے اس کی آنکھ کی سکون حاصل ہو یعنی اسے دوسری چیز کی حرص نہ رہے ۔ اقر بالحق حق کا اعتراف کرنا ۔ تقر الامر علی ٰ کذا کسی امر کا حاصل ہوجانا ۔ القارودۃ شیشہ جمع قواریر قرآن میں ہے : قَوارِيرَا مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 16] اور شیشے بھی چاندی کے ۔ صبح ممرد من قواریر یہ ایسا محل ہے جس میں ( نیچے ) شیشے جڑے ہوئے ہیں یعنی شیشے کا بنا ہوا ہے ۔- عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ «3» ، وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا - [ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ- [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔- حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - رضي - يقال : رَضِيَ يَرْضَى رِضًا، فهو مَرْضِيٌّ ومَرْضُوٌّ. ورِضَا العبد عن اللہ : أن لا يكره ما يجري به قضاؤه، ورِضَا اللہ عن العبد هو أن يراه مؤتمرا لأمره، ومنتهيا عن نهيه، قال اللہ تعالی:- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] ، وقال تعالی: لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] ، وقال تعالی: وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] ، وقال تعالی: أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] ، وقال تعالی: يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ- [ التوبة 8] ، وقال عزّ وجلّ : وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] ، والرِّضْوَانُ :- الرّضا الکثير، ولمّا کان أعظم الرِّضَا رضا اللہ تعالیٰ خصّ لفظ الرّضوان في القرآن بما کان من اللہ تعالی: قال عزّ وجلّ : وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ- [ الحدید 27] ، وقال تعالی: يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] ، وقال : يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ، وقوله تعالی: إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ- [ البقرة 232] ، أي : أظهر كلّ واحد منهم الرّضا بصاحبه ورَضِيَهُ.- ( ر ض و ) رضی - ( س ) رضا فھو مرضی و مرضو ۔ راضی ہونا ۔ واضح رہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ قضائے الہیٰ سے اس پر وارد ہو وہ اسے خوشی سے بر داشت کرے اور اللہ تعالیٰ کے بندے پر راضی ہونے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اسے اپنے اوامر کا بجا لانے والا اور منہیات سے رکنے والا پائے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ [ المائدة 119] اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور وہ اللہ تعالیٰ سے خوش ۔ لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 18] تو اللہ تعالیٰ ضرور ان مسلمانوں سے خوش ہوتا ہے وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلامَ دِيناً [ المائدة 3] اور ہم نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند فرمایا : ۔ أَرَضِيتُمْ بِالْحَياةِ الدُّنْيا مِنَ الْآخِرَةِ [ التوبة 38] کیا آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پر قناعت کر بیٹھے ہو ۔ يُرْضُونَكُمْ بِأَفْواهِهِمْ وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] اپنی زبانی باتوں سے تو تم کو رضا مند کردیتے ہیں اور ان کے دل ہیں کہ ان باتوں سے انکار کرتے ہیں ۔ وَلا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِما آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَ [ الأحزاب 51] اور آزردہ خاطر نہ ہوں گی اور جو کچھ ( بھی ) تم ان کو دوگے وہ ( لے کر سب ) راضی ہوجائیں گی ۔ الرضوان رضائے کثیر یعنی نہایت خوشنودی کو کہتے ہیں ۔ چونکہ سب سے بڑی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی ہے اس لئے قرآن پاک میں خاص کر رضا الہی ٰ کے لئے رضوان کا لفظ استعما ل ہوا ہے ۔ جیسا کہ فرمایا : ۔ وَرَهْبانِيَّةً ابْتَدَعُوها ما كَتَبْناها عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغاءَ رِضْوانِ اللَّهِ [ الحدید 27] اور ( لذت ) دنیا کا چھوڑ بیٹھنا جس کو انہوں نے از خود ایجاد کیا تھا ہم نے وہ طریق ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر ( ہاں ) انہوں نے اس کو خدا ( ہی ) کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایجاد کیا تھا ۔ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْواناً [ الفتح 29] اور خدا کے فضل اور خوشنودی کی طلب گاری میں لگے رہتے ہیں ۔ يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوانٍ [ التوبة 21] ان کا پروردگار ان کو اپنی مہربانی اور رضامندی کی خوشخبری دیتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔۔ : إِذا تَراضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ [ البقرة 232] ، جب جائز طور پر آپس میں وہ راضی ہوجائیں ۔ میں تراضوا باب تفاعل سے ہے جس کے معنی باہم اظہار رضامندی کے ہیں ،- إِيتاء - : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247]- الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم «5» ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل «6» ، وقد حَلُمَ «7» وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء «8» ، قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ- [هود 75] ، وقوله تعالی: فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات 101] ، أي : وجدت فيه قوّة الحلم، وقوله عزّ وجل : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ- [ النور 59] ، أي : زمان البلوغ، وسمي الحلم لکون صاحبه جدیرا بالحلم، ويقال : حَلَمَ «1» في نومه يَحْلُمُ حُلْماً وحُلَماً ، وقیل : حُلُماً نحو : ربع، وتَحَلَّمَ واحتلم، وحَلَمْتُ به في نومي، أي : رأيته في المنام، قال اللہ تعالی: قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 54] ، والحَلَمَة : القراد الکبير، قيل : سمیت بذلک لتصوّرها بصورة ذي حلم، لکثرة هدوئها، فأمّا حَلَمَة الثدي فتشبيها بالحلمة من القراد في الهيئة، بدلالة تسمیتها بالقراد في قول الشاعر :- 125-- كأنّ قرادي زوره طبعتهما ... بطین من الجولان کتّاب أعجمي - «2» وحَلِمَ الجلد : وقعت فيه الحلمة، وحَلَّمْتُ البعیر : نزعت عنه الحلمة، ثم يقال : حَلَّمْتُ فلانا : إذا داریته ليسكن وتتمکّن منه تمكّنک من البعیر إذا سكّنته بنزع القراد عنه «3» .- ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات 101] تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اس غلام ہیں قوت برداشت ۔۔۔۔۔۔ تھی اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں میں حلم کے معنی سن بلوغت کے ہیں اور سن بلوغت کو حلم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس عمر میں طور عقل وتمیز آجاتی ہے کہا جاتا ہے ۔ حلم ( ن ) فی نومہ خواب دیکھنا مصدر حلم اور حلم مثل ربع بھی کہا گیا ہے ۔ اور ۔ یہی معنی تحلم واحتلم کے ہیں ۔ حلمت بہ فی نومی ۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 54] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ الحلمۃ بڑی چیچڑی ۔ کیونکہ وہ ایک جگہ پر جمے رہنے کی وجہ سے حلیم نظر آتی ہے اور سر پستان کو حلمۃ الثدی کہنا محض ہیت میں چیچڑی کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس مجاز کی دلیل یہ ہے کہ سر پستان کو قراد بھی کہہ دیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) اس کے سینے پر پستانوں کے نشانات اسطرح خوشمنا نظر اتے ہیں کہ گویا کسی کاتب لے مٹی کی مہریں لگادیں ہیں چمڑے کو کیڑا الگ جانا ۔ حلمت البعیر میں نے اونٹ سے خیچڑ نکالے حلمت فلانا کسی پر قدرت حاصل کے لئے اس کے ساتھ مدارات سے پیش آنا تاکہ وہ مطمئن رہے جیسا کہ اونٹ سے چیچڑ دور کرنے سے اسے سکون اور راحت محسوس ہوتا ہے اور انسان اس پر پوری طرح قدرت پالیتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ترجی من تشآء منھن وتووی الیک من تشآء۔ آپ ان میں سے جسے چاہیں دور کردیں اور جسے چاہیں قریب کرلیں) ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی ہے، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمو سے، انہوں نے منصور سے اور انہوں نے ابورزین سے درج بالا آیت کی تفسیر روایت کی ہے کہ جن ازواج مطہرات کو دور رکھا گیا تھا وہ یہ تھیں حضرت میمومنہ (رض) ، حضرت سودہ (رض) ، حضرت صفیہ (رض) ، حضرت جویریہ (رض) اور حضرت ام حبیبہ (رض) ، حضرت عائشہ (رض) ، حضرت حفصہ (رض) ، حضرت ام سلمہ (رض) اور حضرت زینب (رض) کو باریوں کے تعین میں یکساں رکھا گیا تھا۔ اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان مساوات قائم رکھتے تھے۔- ہمیں عبداللہ بن محمد بن اسحاق نے روایت بیان کی ، انہیں حسن بن ابی الربیع نے انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے زہری سے اس قول باری کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ یہ اس وقت کی بات تھی جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اختیار دینے کا حکم دیا تھا، اس کے متعلق بحث گزشتہ آیات کی تفسیر میں گزر چکی ہے۔- زہری کہتے ہیں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات میں سے کسی کو بھی اپنی ذات سے دور کردیا تھا بلکہ آپ نے سب کو اپنی ذات سے قریب ہی رکھا تھا یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوگئی۔- معمر کا قول ہے کہ قتادہ نے کہا ” اللہ تعالیٰ نے آپ کو اجازت دے دی تھی کہ بارب مقرر کرنے میں جسے چاہیں نظر انداز کردیں اور جسے چاہیں منتخب کرلیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ازواج مطہرات کے لئے باری مقرر کرتے تھے۔ معمر کہتے ہیں کہ ہمیں راوی نے بتایا ہے کہ جس نے حسن کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی خاتون کا پیغام نکاح بھیج دیتے تو جب تک بات چلتی رہتی یا نکاح نہ ہوجاتا اس وقت تک دوسرا کوئی شخص اس خاتون کو پیغام نکاح نہیں بھیجتا تھا۔ اسی سلسلے میں زیر بحث آیت نازل ہوئی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ زکریا نے شعبی سے روایت کی ہے کہ قول باری (ترجی من تشآء منھن) میں وہ خواتین مراد ہیں جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اپنی ذات ہبہ کردی تھی پھر آپ نے ان میں سے بعض کو دور ہی رکھا اور بعض کے ساتھ شب باشی کی۔ ان میں سے ایک ام شریک ہیں جن کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح نہیں کیا۔ اس آیت کی تفسیر میں مجاہد کا قول ہے کہ آپ انہیں طلاق دیے بغیر دور کردیں اور ان کے پاس نہ جائیں۔- عاصم الاحول نے معاذہ عدویہ سے روایت کی ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے کہا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے اجازت طلب کرکے مقررہ باری چھوڑ کر کسی اور زوجہ محترمہ کے پاس جاتے ۔ معاذہ کہتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اجازت طلب کرتے تو آپ کیا جواب دیتیں ؟ حضرت عائشہ (رض) نے جواباً کہا : ” میں یہ کہتی کہ اگر اس بات کا انحصار مجھ پر ہے تو میں اپنی ذات پر کسی اور زوجہ محترمہ کو ترجیح دینے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر کرتے تھے۔ اس روایت میں ذکر نہیں ہے کہ آپ نے کسی زوجہ محترمہ کو باری کے دائرے سے خارج کردیا تھا۔- ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی ہے، انہیں ابودائود نے، انہیں موسیٰ بن اسمعیل نے۔ انہیں حماد نے ایوب سے، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے عبداللہ بن یزید الخطمی سے اور انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باری مقرر کرنے میں پورے انصاف سے کام لیتے تھے اور ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتے تھے۔ (اللھم ھذا قسمی فیما املک فلا تلمنی فیما تملک ولا املک ۔ اے اللہ جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے باری مقرر کردی ہے لیکن جو بات تیرے بس میں ہے اور میرے بس سے باہر ہے اس میں تو مجھے گرفت نہ کر)- ابودائود کہتے ہیں کہ اس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دل اور دلی جذبات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ محمد بن بکر نے ہمیں روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے، انہیں احمد بن یونس نے، انہیں عبدالرحمن یعنی ابن ابی الزناد نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے والد سے کہ حضرت عائشہ (رض) نے عروہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : بھانجے (عرورہ حضرت اسماء کے بیٹے تھے جو حضرت عائشہ (رض) کی بہن تھیں) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باری مقرر کرنے کے سلسلے میں ہم میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں دیتے تھے۔ یعنی شب باشی کے سلسلے میں۔ کوئی دن ایسا ہوگا جب آپ ہمارے پاس باری باری تشریف نہ لاتے۔ ہر زوجہ محترمہ کے قریب آکر بیٹھتے باتیں کرتے اور ہم بستری نہ کرتے یہاں تک کہ اس زوجہ کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور پھر وہیں رات گزارتے۔- سودہ بنت زمعہ نے بڑھاپے کی عمر پہنچ کو یہ خیال کیا کہ کہیں آپ انہیں طلاق نہ دے دیں، اس خیال کے تحت انہوں نے آپ سے عرض کیا۔” اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں اپنی باری عائشہ (رض) کو دیتی ہوں۔ “ چناچہ آپ نے ان کی یہ بات قبول کرلی۔ “ حضرت عائشہ (رض) نے مزید کہا۔ ہمارا خیال ہے کہ اسی سلسلے میں نیز اس جیسی دیگر صورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے آیت (وان اھراۃ خافت من بعلھا نشوزا۔ اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی طرف سے نفرت کا خطرہ محسوس کرے) نازل فرمائی۔- حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ آپ نے اپنی بیماری کے دوران ازواج مطہرات سے حضرت عائشہ (رض) کے پاس قیام کرنے کی اجازت طلب کی تھی، آپ کو اس کی اجازت مل گئی تھی۔- یہ روایت اس پر دلالت کرتی ہے کہ آپ تمام ازواج مطہرات کے لئے باری مقرر کرتے تھے۔ یہ روایت ابورزین کی روایت سے زیادہ صحیح ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض ازواج کو اپنی ذات سے دور کردیا تھا اور ان کے لئے باری مقرر نہیں کرتے تھے۔ ظاہر آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ آپ ان میں سے جسے چاہیں دور رکھیں اور جسے چاہیں قریب کرلیں۔ اس لئے اس میں کوئی امتناع نہیں کہ آپ نے حضرت سودہ (رض) کے سوا سب کو اپنی ذات سے قریب رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حضرت سودہ (رض) اپنی باری حضرت عائشہ (رض) کو دینے پر رضامند ہوگئی تھیں۔- قول باری (ومن ابتغیت ممن عزلت فلا جناح علیک) کا تعلق۔ واللہ اعلم۔ ان ازواج کو قریب کرنے کے سلسلے سے ہے جنہیں آپ نے دور کردیا تھا۔ اس آیت کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اجازت دے دی کہ ان میں سے جسے چاہیں الگ کردیں اور جسے چاہیں قریب کرلیں اور الگ کرنے کے بعد جسے چاہیں دوبارہ قریب کرلیں۔- قول باری ہے (ذلک ادنی ان تقراعینھن۔ اس (انتظام) میں زیادہ توقع ہے کہ اس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی) یعنی۔ واللہ اعلم۔ آپ سے دورہونے کے بعد جب انہیں اس بات کا علم ہوگا کہ آپ انہیں قریب کرسکتے ہیں اور ان کے لئے باری بھی منفرد کرسکتے ہیں تو اس سے انہیں سکون ہوگا اور ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر کرنا آپ پر واجب نہ تھا۔ بلکہ آپ کو اختیار تھا کہ جس کے لئے چاہیں باری مقرر کردیں اور جس کے لئے چاہیں مقرر نہ کریں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ان مذکورہ بالا رشتہ داروں میں سے آپ جس کو چاہیں خود سے دور رکھیں اور اس سے شادی نہ کریں اور جس کو چاہیں اپنے نزدیک رکھیں اور اس سے شادی کرلیں۔- اور جن کو دور رکھا تھا پھر ان کو طلب کریں اور ان سے شادی کریں تب بھی آپ پر کوئی گناہ نہیں یا یہ حکم ازواج مطہرات کی باری مقرر کرنے کے بارے میں ہے کہ آپ پر ان کی باری کی کوئی رعایت واجب نہیں چاہے جس کو باری دیں اور چاہے جس کو باری نہ دیں اور جن کو باری وغیرہ نہیں دی تھی پھر ان کو طلب کریں تو اس میں بھی آپ پر کچھ گناہ نہیں۔- رخصت و اجازت میں زیادہ توقع ہے کہ ان ازواج مطہرات کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔ جبکہ اس اجازت کا اللہ کی طرف سے ہونا ان کو معلوم ہوجائے گا اور وہ طلاق کے ڈر سے غمگین نہ ہوں گی اور جو کچھ آپ باری میں ان کا حصہ مقرر کردیں گے اس پر سب راضی رہیں گی۔- اور اللہ تعالیٰ کو تمہاری خوشی اور ناراضگی سب معلوم ہے۔- اور وہ تمہاری مصلحتوں اور ان کی مصلحتوں سے واقف ہے اور بردبار بھی ہے کہ معاف کردیتا ہے۔- شان نزول : تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ (الخ)- امام بخاری و مسلم نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے وہ فرمایا کرتی تھیں کہ عورت خود کو بلا عوض پیش کرنے سے نہیں شرماتی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی ان میں سے جس کو آپ چاہیں اپنے سے دور رکھیں، اس پر حضرت عائشہ کہنے لگیں کہ میں آپ کے پروردگار کو دیکھتی ہوں وہ آپ کی خواہش پوری کرنے میں سبقت کرتا ہے۔- اور ابن سعد نے ابو زرین سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دینے کا ارادہ فرمایا جب ازواج مطہرات نے یہ چیز محسوس کی تو ہر ایک نے آپ کو اپنی ذات کے بارے میں اختیار دے دیا۔ آپ جس کو چاہیں جس پر ترجیں دیں تب انا احللنا لک ازواج سے ترجی من تشاء منھن تک یہ آیت نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥١ تُرْجِیْ مَنْ تَشَآئُ مِنْہُنَّ وَتُـــْٔــوِیْٓ اِلَیْکَ مَنْ تَشَآئُ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے جس کو چاہیں پیچھے ہٹائیں اور جس کو چاہیں اپنے قریب جگہ دیں۔ “- یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصی اجازت دے دی گئی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تمام ازواجِ مطہرات (رض) کے درمیان مساوات کا برتائو اور برابری کا سلوک کرنا ضروری نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجازت تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چاہیں تو کسی زوجہ محترمہ کے پاس زیادہ دیر ٹھہریں اور چاہیں تو کسی کو نسبتاً کم وقت دیں۔- وَمَنِ ابْتَغَیْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکَ ” اور جن کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دور کردیا تھا ‘ ان میں سے کسی کو (دوبارہ قریب کرنا) چاہیں تو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی حرج نہیں۔ “- ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ تَقَرَّ اَعْیُنُہُنَّ وَلَا یَحْزَنَّ وَیَرْضَیْنَ بِمَآ اٰتَیْتَہُنَّ کُلُّہُنَّ ” یہ زیادہ قریب ہے اس سے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور وہ سب کی سب راضی رہیں اس پر جو بھی آپ انہیں دیں۔ “- یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے کسی چیز یا کسی سلوک کو اپنا حق نہ سمجھیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں جو کچھ بھی عطا فرمائیں اسے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عنایت سمجھتے ہوئے خوشی خوشی قبول کرلیں۔ اگرچہ اس حکم کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ازواج کے مابین مساوات کا برتائو واجب نہیں رہا تھا مگر اس کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ نان و نفقہ سمیت ایک ایک چیز میں ناپ تول کی حد تک سب کے ساتھ برابر کا معاملہ فرمایا کرتے تھے۔ تمام ازواج کے ہاں شب باشی کے لیے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باری مقرر فرما رکھی تھی۔ اسی طرح جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں ہوتے تو نمازعصر کے بعد باری باری سب ازواج مطہرات (رض) کے ہاں تشریف لے جاتے اور اس دوران وقت کی تقسیم میں مساوات کا خیال فرماتے۔ غرض ہر معاملے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بہت محتاط انداز میں عدل و مساوات کا اہتمام فرماتے اور اس کے باوجود فرمایا کرتے : (اَللّٰھُمَّ ھٰذَا قَسْمِیْ فِیْمَا اَمْلِکُ فَلَا تَلُمْنِیْ فِیْمَا تَمْلِکُ وَلَا اَمْلِکُ ) (١) ” اے اللہ جو چیزیں میرے اختیار میں ہیں ان میں تو میں نے برابر کی تقسیم کردی ہے ‘ لیکن جو میرے اختیار میں نہیں ہیں بلکہ تیرے اختیار میں ہیں ان کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا “۔ یعنی ایک سے زیادہ بیویوں کے درمیان مساوات کے حوالے سے ظاہری چیزوں کی حد تک تو کوشش کی جاسکتی ہے مگر دل کے رجحان یا میلان کو برابر تقسیم کرنا انسان کے بس میں نہیں۔ اس حوالے سے سورة النساء میں بہت واضح حکم آچکا ہے : وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآئِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلاَ تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِط وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا اور تمہارے لیے ممکن ہی نہیں کہ تم عورتوں کے درمیان انصاف کرسکو چاہے تم اس کے لیے کتنے ہی حریص بنو ‘ لیکن ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایک کی طرف پورے کے پورے جھک جائو اور دوسری کو معلق کر کے چھوڑ دو ۔ اور اگر تم اصلاح کرلو اور تقویٰ کی روش اختیار کروتو اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم فرمانے والا ہے۔ “- وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَلِیْمًا ” اور اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ اور اللہ ہرچیز کا علم رکھنے والا ‘ بہت بردبار ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :91 اس آیت سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خانگی زندگی کی الجھنوں سے نجات دلانا تھا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پورے سکون کے ساتھ اپنا کام کر سکیں ۔ جب اللہ تعلی نے صاف الفاظ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے اختیارات دے دیے کہ ازواج مطہرات میں سے جس کے ساتھ جو برتاؤ چاہیں کریں تو اس بات کا کو ئی امکان نہ رہا کہ یہ مومن خواتین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی طرح پریشان کرتیں یا آپس میں مسابقت اور رقابت کے جھگڑے پیدا کر کے آپ کے لیے الجھنیں پیدا کرتیں ۔ لیکن اللہ تعالی سے یہ اختیار پا لینے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام ازواج کے درمیان پورا پورا عدل فرمایا ، کسی کو کسی پر ترجیح نہ دی ، اور باقاعدہ باری مقرر کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے ہاں تشریف لے جاتے رہے ۔ محدثین میں سے صرف ابو رزین یہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صرف چار بیویوں ( حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ ، حضرت زنیب اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہن ) کو باریوں کی تقسیم میں شامل کیا تھا اور باقی ازواج کے لیے کوئی باری مقرر نہ تھی ۔ لیکن دوسرے تمام محدثین و مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں اور نہایت قوی روایت سے اس امر کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ اس اختیار کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں باری باری سے جاتے تھے اور سب سے یکساں برتاؤ کرتے تھے ۔ بخاری ، مسلم ، نسائی اور ابو داؤد وغیرہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہی رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جاتے تو اس سے اجازت لے کر جاتے تھے ۔ ابو بکر جصاص عروہ بن زبیر کی روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا رسول صلی اللہ علیہ وسلم باریوں کی تقسیم میں ہم میں سے کسی کو ترجیح نہ دیتے تھے ۔ اگرچہ کم ہی ایسا ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی روز اپنی سب بیویوں کے ہاں نہ جاتے ہوں ، مگر جس بیوی کی باری کا دن ہوتا تھا اس کے سوا کسی دوسری بیوی کو چھوتے تک نہ تھے اور یہ روایت بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی کی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری بیماری میں مبتلا ہوئے اور نقل و حرکت آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیے مشکل ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں سے اجازت طلب کی کہ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رہنے دو ، اور جب سب نے اجازت دے دی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزارا ۔ ابن ابی حاتم امام زہری کا قول نقل کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی بیوی کو باری سے محروم کرنا ثابت نہیں ہے اس سے صرف حضرت سودہ رضی اللہ عنہا مستثنیٰ ہیں جنہوں نے خود اپنی باری بخوشی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخش دی تھی ، کیونکہ وہ بہت سن رسیدہ ہو چکی تھیں ۔ اس مقام پر کسی کے دل میں یہ شبہ نہ رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے معاذاللہ اس آیت میں اپنے نبی کے ساتھ کوئی بے جا رعایت کی تھی اور ازواج مطہرات کے ساتھ حق تلفی کا معاملہ فرمایا تھا ۔ دراصل جن عظیم مصالح کی خاطر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بیویوں کی تعداد کے معاملہ میں عام قاعدے سے مستثنیٰ کیا گیا تھا ، انہی مصالح کا تقاضہ یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خانگی زندگی کا سکون بہم پہنچایا جائے اور ان اسباب کا سد باب کیا جائے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پریشان خاطری کے موجب ہو سکتے ہوں ازواج مطہرات کے لیے یہ ایک بہت بڑا شرف تھا کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسی بزرگ ترین ہستی کی زوجیت حاصل ہوئی اور اس کی بدولت ان کو یہ موقع نصیب ہوا کہ دعوت و اصلاح کے اس عظیم الشان کام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفیق کار بنیں جو رہتی دنیا تک انسانیت کی فلاح کا ذریعہ بننے والا تھا ۔ اس مقصد کے لیے جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیر معمولی ایثار و قربانی سے کام لے رہے تھے اور تمام صحابۂ کرام اپنی حد استطاعت تک قربانیاں کر رہے تھے اسی طرح ازواج مطہرات کا بھی یہ فرض تھا کہ ایثار سے کام لیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے کو تمام ازواج رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بخوشی قبول کیا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :92 یہ تنبیہ ہے ازواج مطہرات کے لیے بھی اور دوسرے تمام لوگوں کے لیے بھی ۔ ازواج مطہرات کے لیے تنبیہ اس بات کی ہے کہ اللہ کا یہ حکم آ جانے کے بعد اگر وہ دل میں بھی کبیدہ خاطر ہوں گی تو گرفت سے نہ بچ سکیں گی ۔ اور دوسرے لوگوں کے لیے اس میں یہ تنبیہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کے متعلق کسی طرح کی بدگمانی بھی اگر انہوں نے اپنے دل میں رکھی یا فکر و خیال کے کسی گوشے میں بھی کوئی وسوسہ پالتے رہے تو اللہ سے ان کی یہ چوری چھپی نہ رہ جائے گی ۔ اس کے ساتھ اللہ کی صفت حِلم کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے تاکہ آدمی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا تخیل بھی اگرچہ سخت سزا کا مستوجب ہے ، لیکن جس کے دل میں کبھی ایسا کوئی وسوسہ آیا ہو وہ اگر اسے نکال دے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں معافی کی امید ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

41: یہ چوتھا خصوصی حکم ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے مقرّر فرمایا گیا ہے۔ یعنی عام مسلمانوں پر یہ بات فرض ہے کہ اگر اُن کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو وہ ہر معاملے میں اُن کے ساتھ برابری کا سلوک کریں، چنانچہ جتنی راتیں ایک بیوی کے ساتھ گزاریں، اتنی ہی راتیں دوسری بیوی کے ساتھ گزارنا فرض ہے، لیکن اِس آیت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے باریاں مقرّر کرنے کی یہ پابندی اٹھالی گئی ہے، چنانچہ آپ کو یہ اجازت دی گئی ہے کہ آپ اپنی ازواجِ مطہراتؓ میں سے کسی کی باری ملتوی فرماسکتے ہیں، لیکن یہ بھی وہ سہولت ہے جس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے زندگی بھر فائدہ نہیں اٹھایا، اور ہمیشہ تمام ازواجِ مطہراتؓ سے مکمل برابری کا معاملہ فرمایا۔ 42: مطلب یہ ہے کہ جب ازواجِ مطہراتؓ پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر برابری کا معاملہ کرنے کی ذمہ داری عائد نہیں فرمائی، تو آپ کی طرف سے اُن کے ساتھ جتنا بھی حسن سلوک ہوگا، وہ اِسے اپنے اِستحقاق سے زیادہ سمجھ کر خوش ہوں گی۔