Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ازواج مطہرات کا عہد و فا ۔ پہلی آیتوں میں گذر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں رہیں اور اگر چاہیں تو آپ سے علیحدہ ہو جائیں ۔ لیکن امہات المومنین نے دامن رسول کو چھوڑنا پسند نہ فرمایا ۔ اس پر انہیں اللہ کی طرف سے ایک دنیاوی بدلہ یہ بھی ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت میں حکم ہوا کہ اب اس کے سوا کسی اور عورت سے نکاح نہیں کر سکتے نہ آپ ان میں سے کسی کو چھوڑ کر اس کے بدلے دوسری لاسکتے ہیں گو وہ کتنی ہی خوش شکل کیوں نہ ہو؟ ہاں لونڈیوں اور کنیزوں کی اور بات ہے اس کے بعد پھر رب العالمین نے یہ تنگی آپ پر سے اٹھالی اور نکاح کی اجازت دے دی لیکن خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سے کوئی اور نکاح کیا ہی نہیں ۔ اس حرج کے اٹھانے میں اور پھر عمل کے نہ ہونے میں بہت بڑی مصلحت یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ احسان اپنی بیویوں پر رہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ آپ کے انتقال سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے اور عورتیں بھی حلال کر دی تھیں ( ترمذی نسائی وغیرہ ) حضرت ام سلمہ سے بھی مروی ہے ۔ حلال کرنے والی آیت ( تُرْجِيْ مَنْ تَشَاۗءُ مِنْهُنَّ وَ تُـــــْٔوِيْٓ اِلَيْكَ مَنْ تَشَاۗءُ ۭ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَآ اٰتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ عَلِــيْمًا حَلِــيْمًا 51؀ ) 33- الأحزاب:51 ) ، ہے جو اس آیت سے پہلے گذر چکی ہے بیان میں وہ پہلے ہے اور اترنے میں وہ پیچھے ہے ۔ سورہ بقرہ میں بھی اس طرح عدت وفات کی پچھلی آیت منسوخ ہے اور پہلی آیت اس کی ناسخ ہے ۔ واللہ اعلم ۔ اس آیت کے ایک اور معنی بھی بہت سے حضرات سے مروی ہیں ۔ وہ کہتے ہیں مطلب اس سے یہ ہے کہ جن عورتوں کا ذکر اس سے پہلے ہے ان کے سوا اور حلال نہیں جن میں یہ صفتیں ہوں وہ ان کے علاوہ بھی حلال ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب سے سوال ہوا کہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بیویاں تھیں اگر وہ آپ کی موجودگی میں انتقال کرجائیں تو آپ اور عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے تھے؟ آپ نے فرمایا یہ کیوں؟ تو سائل نے لایحل والی آیت پڑھی ۔ یہ سن کر حضرت ابی نے فرمایا اس آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ عورتوں کی جو قسمیں اس سے پہلے بیان ہوئی ہیں یعنی نکاحتا بیویاں ، لونڈیاں ، چچا کی ، پھوپیوں کی ، مامو اور خالاؤں کی بیٹیاں ہبہ کرنے والی عورتیں ۔ ان کے سوا جو اور قسم کی ہوں جن میں یہ اوصاف نہ ہوں وہ آپ پر حلال نہیں ہیں ۔ ( ابن جریر ) ابن عباس سے مروی ہے کہ سوائے ان مہاجرات مومنات کے اور عورتوں سے نکاح کرنے کی آپ کو ممانعت کر دی گئی ۔ غیر مسلم عورتوں سے نکاح حرام کر دیا گیا قرآن میں ہے ( وَمَنْ يَّكْفُرْ بِالْاِيْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهٗ ۡ وَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ Ĉ۝ۧ ) 5- المآئدہ:5 ) یعنی ایمان کے بعد کفر کرنے والے کے اعمال غارت ہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ نے آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ الّٰتِيْٓ اٰتَيْتَ اُجُوْرَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ مِمَّآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلَيْكَ وَبَنٰتِ عَمِّكَ وَبَنٰتِ عَمّٰتِكَ وَبَنٰتِ خَالِكَ وَبَنٰتِ خٰلٰتِكَ الّٰتِيْ هَاجَرْنَ مَعَكَ ۡ وَامْرَاَةً مُّؤْمِنَةً اِنْ وَّهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِيُّ اَنْ يَّسْتَنْكِحَهَا ۤ خَالِصَةً لَّكَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۭ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِيْٓ اَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُوْنَ عَلَيْكَ حَرَجٌ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 50؀ ) 33- الأحزاب:50 ) ، میں عورتوں کی جن قسموں کا ذکر کیا وہ تو حلال ہیں ان کے ماسوا اور حرام ہیں ۔ مجاہد فرماتے ہیں ان کے سوا ہر قسم کی عورتیں خواہ وہ مسلمان ہوں خواہ یہودیہ ہوں خواہ نصرانیہ سب حرام ہیں ۔ ابو صالح فرماتے ہیں ان کے سوا ہر قسم کی عورتیں خواہ وہ مسلمان ہوں خواہ یہودیہ ہوں خواہ نصرانیہ سب حرام ہیں ۔ ابو صالح فرماتے ہیں کہ اعرابیہ اور انجان عورتوں سے نکاح سے روک دیئے گئے ۔ لیکن جو عورتیں حلال تھیں ان میں سے اگر چاہیں سینکڑوں کرلیں حلال ہیں ۔ الغرض آیت عام ہے ان عورتوں کو جو آپ کے گھر میں تھیں اور ان عورتوں کو جن کی اقسام بیان ہوئیں سب کو شامل ہے اور جن لوگوں سے اس کے خلاف مروی ہے ان سے اس کے مطابق بھی مروی ہے ۔ لہذا کوئی منفی نہیں ۔ ہاں اس پر ایک بات باقی رہ جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ کو طلاق دے دی تھی پھر ان سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت سودہ کے فراق کا بھی ارادہ کیا تھا جس پر انہوں نے اپنی باری کا دن حضرت عائشہ کو دے دیا تھا ۔ اس کا جواب امام ابن جریر نے یہ دیا ہے کہ یہ واقعہ اس آیت کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے ۔ بات یہی ہے لیکن ہم کہتے ہیں اس جواب کی بھی ضرورت نہیں ۔ اس لئے کہ آیت میں ان کے سوا دوسریوں سے نکاح کرنے اور انہیں نکال کر اوروں کو لانے کی ممانعت ہے نہ کہ طلاق دینے کی ، واللہ اعلم ۔ سودہ والے واقعہ میں آیت ( وَاِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِھَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا ۭ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ۭوَاُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ ۭوَاِنْ تُحْسِنُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ١٢٨؁ ) 4- النسآء:128 ) اتری ہے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والا واقعہ ابو داؤد وغیرہ میں مروی ہے ۔ ابو یعلی میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی صاحبزادی حضرت حفصہ کے پاس ایک دن آئے دیکھا کہ وہ رو رہی ہیں پوچھا کہ شاید تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے طلاق دے دی ۔ سنو اگر رجوع ہو گیا اور پھر یہی موقعہ پیش آیا تو قسم اللہ کی میں مرتے دم تک تم سے کلام نہ کروں گا ۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو زیادہ کرنے سے اور کسی کو نکال کر اس کے بدلے دوسری کو لانے سے منع کیا ہے ۔ مگر لونڈیاں حلال رکھی گئیں ۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت میں ایک خبیث رواج یہ بھی تھا کہ لوگ آپس میں بیویوں کا تبادلہ کر لیا کرتے تھے یہ اپنی اسے دے دیتا تھا اور وہ اپنی اسے دے دیتا تھا ۔ اسلام نے اس گندے طریقے سے مسلمانوں کو روک دیا ۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ عینیہ بن حصن فزاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۔ اور اپنی جاہلیت کی عادت کے مطابق بغیر اجازت لئے چلے آئے ۔ اس وقت آپ کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آپ نے فرمایا تم بغیر اجازت کیوں چلے آئے؟ اس نے کہا واہ میں نے تو آج تک قبیلہ مفر کے خاندان کے کسی شخص سے اجازت مانگی ہی نہیں ۔ پھر کہنے لگا یہاں آپ کے پاس کون سی عورت بیٹھی ہوئی تھیں؟ آپ نے فرمایا یہ ام المومنین حضرت عائشہ تھیں ۔ تو کہنے لگا حضور صلی اللہ علیہ وسلم انہیں چھوڑ دیں میں ان کے بدلے اپنی بیوی آپ کو دیتا ہوں جو خوبصورتی میں بےمثل ہے ۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنا حرام کر دیا ہے ۔ جب وہ چلے گئے تو مائی صاحبہ نے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون تھا ؟ آپ نے فرمایا ایک احمق سردار تھا ۔ تم نے ان کی باتیں سنیں؟ اس پر بھی یہ اپنی قوم کا سردار ہے ۔ اس روایت کا ایک راوی اسحاق بن عبداللہ بالکل گرے ہوئے درجے کا ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

52۔ 1 آیت تخییر کے نزول کے بعد ازواج مطہرات نے دنیا اسباب عیش و راحت کے مقابلے میں عسرت کے ساتھ، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ رہنا پسند کیا تھا، اس کا صلہ اللہ نے یہ دیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ازواج کے علاوہ (جن کی تعداد 9 تھی اور دیگر عورتوں سے نکاح کرنے یا ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنے سے منع فرمایا۔ بعض کہتے ہیں کہ بعد میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار دے دیا گیا تھا، لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کوئی نکاح نہیں کیا (ابن کثیر) 52۔ 2 یعنی لونڈیاں رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے بعض نے اس کے عموم سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ کافر لونڈی بھی رکھنے کی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اجازت تھی اور بعض نے ( وَلَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ ) 60 ۔ الممتحنہ :10) کے پیش نظر اسے آپ کے لیے حلال نہیں سمجھا (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٨٤] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ آپ کو جن چار قسم کی بیویوں سے نکاح کرلینے کی اجازت دی جاچکی ہے ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ پر حلال نہیں بس یہی کافی ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بیویاں اس بات پر آمادہ ہوگئی ہیں کہ جو آپ کی طرف سے روکھا سوکھا ملے اس بات پر وہ صابر و شاکر رہیں۔ اور باری کا مطالبہ کرکے بھی آپ کو پریشان نہ کریں نہ اسے وجہ نزاع بنائیں تو اب آپ کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ ان صابر و شاکر بیویوں سے کسی کو طلاق دے دیں اور اس کی جگہ کوئی اور لے آئیں۔ خواہ وہ خوبصورت ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو بھی اب انھیں بیویوں پر صابر و شاکر رہنا چاہئے۔- ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرد جس عورت سے شادی کرنا چاہے، اسے دیکھنا درست ہے۔ اور احادیث صحیحہ میں اس کی صراحت مذکور ہے۔- [٨٥] کنیزوں کی رخصت کا غلط استعمال :۔ یعنی کنیزوں کی تعداد پر شریعت نے کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ کیونکہ ان کا انحصار کسی جنگ میں قیدی عورتوں پر ہوتا ہے۔ اور یہ مستقبل کے حالات ہیں جو کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لیکن اس اجازت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ نواب اور امیر کبیر حضرات عیش و عشرت کے لئے جتنی کنیزیں چاہیں خرید خرید کر اپنے گھروں اور محلات کے اندر ڈالتے جائیں یہ اس اجازت کا غلط استعمال ہے۔ آپ کی کنیزیں صرف دو تھیں ایک ماریہ قبطیہ جن کے بطن سے سیدنا ابراہیم پیدا ہوئے تھے اور دوسری ریحانہ (رضی اللہ عنہما)

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ ۔۔ : پچھلی آیات میں گزر چکا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ اگر وہ چاہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت میں رہیں اور اگر چاہیں تو آپ سے علیحدہ ہوجائیں، لیکن جب انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چھوڑنا پسند نہ کیا اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دی تو انھیں اللہ کی طرف سے ایک دنیاوی بدلا یہ ملا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ اب آپ ان کے سوا کسی اور عورت سے نکاح نہیں کرسکتے، نہ ہی ان میں سے کسی کو چھوڑ کر اس کے بدلے دوسری لاسکتے ہیں، گو اس کا حسن آپ کو کتنا ہی پسند ہو۔ یہ صراحت اس لیے فرمائی کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ بیویوں کی تعداد نو (٩) سے زیادہ کرنا جائز نہیں، ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کے بدلے میں بیوی لا کر نو کا عدد پورا کرلیں تو اجازت ہے۔ فرمایا، انھیں طلاق دے کر ان کی جگہ بھی اور بیویاں لانے کی اجازت نہیں، خواہ نو سے زیادہ نہ بھی ہوں۔ ہاں، لونڈیوں کی بات دوسری ہے، ان پر کوئی پابندی نہیں۔- 3 ابن جریر طبری نے اس آیت کی دوسری تفسیر اختیار کی ہے کہ پچھلی آیت (٥٠) : ( اِنَّآ اَحْلَلْنَا لَكَ اَزْوَاجَكَ ۔۔ ) میں چار قسم کی جو عورتیں آپ کے لیے حلال کی گئی ہیں، ان کے بعد یعنی ان کے سوا کسی اور عورت سے نکاح جائز نہیں۔ نہ موجود بیویوں کو طلاق دے کر ان کی جگہ اور بیوی لانا جائز ہے۔ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کے ہاں امہات المومنین کے بلند مرتبے کا اظہار ہو رہا ہے۔- ” وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُهُنَّ “ سے یہ بات نکلتی ہے کہ جس عورت سے نکاح کا ارادہ ہو آدمی اسے دیکھ سکتا ہے۔- وَكَان اللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيْبًا : یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے ہر چیز پر پوری طرح نگران ہے، اس لیے کوئی بھی کام کرتے ہوئے ذہن میں حاضر رکھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تََرَاہُ فَإِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ ) [ بخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔۔ : ٥٠ ] ” اللہ کی عبادت (اس طرح) کرو گویا کہ اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زاہدانہ زندگی اور اس کے ساتھ تعدد ازواج کا مسئلہ :- اعداء اسلام نے ہمیشہ مسئلہ تعدد ازواج اور خصوصاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کثرت ازواج کو اسلام کی مخالفت میں موضوع بحث بنایا ہے، لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پوری زندگی کو سامنے رکھا جائے تو کسی شیطان کو بھی شان رسالت کے خلاف وسوسہ پیدا کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ جس سے ثابت ہے کہ آپ نے سب سے پہلا نکاح پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ سے کیا، جو بیوہ سن رسیدہ صاحب اولاد اور دو شوہروں کے نکاح میں رہنے کے بعد آئی تھیں، اور پچاس سال کی عمر تک صرف اسی ایک سن رسیدہ بیوی کے ساتھ شباب کا پورا زمانہ گزارا۔ یہ پچاس سالہ دور عمر مکہ کے لوگوں کے سامنے گزرا۔ چالیس سال کی عمر میں اعلان نبوت کے بعد شہر میں آپ کی مخالفت شروع ہوئی، اور مخالفین نے آپ کے ستانے اور آپ پر عیب لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، ساحر کہا، شاعر کہا، مجنون کہا، مگر کبھی کسی دشمن کو بھی آپ کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرنے کا موقع نہیں مل سکا، جو تقویٰ و شہارت کو مشکوک کرسکے۔- پچاس سال عمر شریف کے گزرنے اور حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد حضرت سودہ نکاح میں آئیں یہ بھی بیوہ تھیں۔- ہجرت مدینہ اور عمرشریف چون سال ہوجانے کے بعد ٢ ہجری میں حضرت صدیقہ عائشہ کی رخصتی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں ہوئی۔ اس کے ایک سال بعد حضرت حفصہ سے اور کچھ دنوں کے بعد حضرت زنیب بنت خزیمہ سے نکاح ہوا۔ یہ حضرت زینب چند ماہ کے بعد وفات پا گئیں۔ ٤ ہجری میں حضرت ام سلمہ جو صاحب اولاد بیوہ تھیں آپ کے نکاح میں آئیں۔ ٥ ہجری میں حضرت زینب بنت جحش سے بحکم خداوندی نکاح ہوا، جس کا ذکر سورة احزاب کے شروع میں آ چکا ہے۔ اس وقت آپ کی عمر شریف اٹھاون سال تھی۔ آخری پانچ سال میں باقی ازواج مطہرات آپ کے حرم میں داخل ہوئیں۔ پیغمبر کی خانگی زندگی اور گھریلو معاملات سے متعلق احکام دین کا ایک بہت بڑا حصہ ہوتے ہیں۔ ان نو ازواج مطہرات سے جس قدر دین کی اشاعت ہوئی اس کا اندازہ صرف اس سے ہوسکتا ہے کہ صرف حضرت صدیقہ عائشہ سے دو ہزار دو سو دس احادیث اور حضرت ام سلمہ سے تین سو اڑسٹھ احادیث کی روایت معتبر کتب حدیث میں جمع ہیں۔ حضرت ام سلمہ نے جو احکام و فتاویٰ لوگوں کو بتلائے ان کے متعلق حافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ اگر ان کو جمع کرلیا جائے تو ایک مستقل کتاب بن جائے، دو سو سے زیادہ حضرات صحابہ حضرت صدیقہ عائشہ کے شاگرد ہیں، جنہوں نے حدیث اور فقہ و فتاویٰ ان سے سیکھے ہیں۔- اور بہت سی ازواج کو حرم نبوی میں داخل کرنے میں ان کے خاندان کو اسلام کی طرف لانے کی حکمت بھی تھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کے اس اجمالی نقشہ کو سامنے رکھیں تو کیا کسی کو یہ کہنے کی گنجائش رہ سکتی ہے کہ یہ تعدد اور کثرت ازواج معاذ اللہ کسی نفسانی اور جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے ہوا تھا، اگر یہ ہوتا تو ساری عمر تجرد یا ایک بیوہ کے ساتھ گزارنے کے بعد عمر کے آخری حصہ کو اس کام کے لئے کیوں منتخب کیا جاتا۔ یہ مضمون پوری تفصیل کے ساتھ، نیز اصل مسئلہ تعدد ازواج پر شرعی اور عقلی، فطری اور اقتصادی حیثیت سے مکمل بحث معارف القرآن جلد دوم سورة نساء کی تیسری آیت کے تحت میں آ چکی ہے وہاں دیکھا جائے۔ (معارف جلد دوم، ص ٥٨٢ تا ٢٩٢) ۔- ساتواں حکم :- (آیت) لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بہن من ازواج ولوا عجبک حسنہن، ” یعنی اس کے بعد آپ کے لئے دوسری عورتوں سے نکاح حلال نہیں، اور یہ بھی حلال نہیں کہ موجودہ ازواج میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری بدلیں “- اس آیت میں لفظ من بعد کی دو تفسیریں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ من بعد سے مراد یہ ہو کہ بعد ان نو عورتوں کے جو اس وقت آپ کے نکاح میں ہیں، اور کسی سے آپ کا نکاح حلال نہیں، بعض صحابہ اور آئمہ تفسیر سے بھی یہی تفسیر منقول ہے، جیسا کہ حضرت انس نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ دنیا طلبی کے لئے آپ سے جدائی اختیار کریں یا پھر تنگی و فراخی جو کچھ پیش آئے اس پر قناعت کر کے آپ کی زوجیت میں رہیں، تو سب ازواج مطہرات نے اپنے نفقہ کی زیادتی کے مطالبہ کو چھوڑ کر اسی حال میں زوجیت کے اندر رہنا اختیار کیا تو اس پر بطور انعام کے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات گرامی کو بھی انہی نو ازواج کے لئے مخصوص کردیا، ان کے سوا کسی سے نکاح جائز نہ رہا۔ (رواہ البیہقی فی سننہ کذا فی الروح)- اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو آپ کے لئے مخصوص فرما دیا کہ آپ کے بعد بھی وہ کسی سے نکاح نہیں کرسکتیں، اسی طرح آپ کو بھی ان کے لئے مخصوص فرما دیا کہ آپ ان کے علاوہ اور کوئی نکاح نہیں کرسکتے۔ حضرت عکرمہ سے بھی ایک روایت میں یہ تفسیر منقول ہے۔- اور حضرت عکرمہ، ابن عباس اور مجاہد آئمہ تفسیر سے ایک روایت میں لفظ من بعد کی یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ من بعد الاصناف المذکورة، یعنی شروع آیت میں آپ کے لئے جتنی اقسام عورتوں کی حلال کی گئی ہیں، اس کے بعد یعنی ان کے سوا کسی اور قسم کی عورتوں سے آپ کا نکاح حلال نہیں۔ مثلاً شروع آیت میں اپنے خاندان کی عورتوں میں سے صرف وہ حلال کی گئیں جنہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کرنے میں آپ کی موافقت کی تھی، خاندان کی عورتوں میں غیر مہاجرات سے آپ کا نکاح حلال نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح مومنہ کی قید لگا کر آپ کے لئے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح ناجائز قرار دے دیا گیا۔ تو آیت کے جملہ من بعد کا مطلب یہ ہے کہ جتنی قسمیں آپ کے لئے حلال کردی گئی ہیں صرف انہی میں سے آپ کا نکاح ہوسکتا ہے، عام عورتوں میں تو مسلمان ہونا ہی شرط ہے اور خاندان کی عورتوں میں مسلمان ہونے کے ساتھ مہاجرہ ہونا بھی شرط ہے۔ جن میں یہ دو شرطیں موجود نہ ہوں، ان سے آپ کا نکاح حلال نہیں۔ اس تفسیر کے مطابق یہ جملہ کوئی نیا حکم نہیں، بلکہ پہلے ہی حکم کی تاکید و توضیح ہے، جو شروع آیت میں بیان ہوا ہے۔ اور اس آیت کی وجہ سے نو کے بعد کسی اور عورت سے نکاح حرام نہیں کیا گیا، بلکہ غیر مومنہ اور خاندان کی غیر مہاجرہ سے نکاح ممنوع ہوا ہے، جو پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے، باقی عورتوں سے مزید نکاح آپ کے اختیار میں رہا۔ حضرت عائشہ صدیقہ کی ایک روایت سے بھی اس دوسری تفسیر کی تائید ہوتی ہے، کہ آپ کیلئے مزید نکاح کرنے کی اجازت رہی ہے۔ واللہ اعلم۔- (آیت) ولا ان تبدل بہن من ازواج، آیت مذکورہ کی اگر دوسری تفسیر اختیار کی جائے تو اس جملے کا مطلب واضح ہے کہ اگرچہ آپ کو موجودہ ازواج کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح بشرائط مذکورہ جائز ہے، مگر یہ جائز نہیں کہ ایک کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری کو بدلیں یعنی خالص تبدیلی کی نیت سے کوئی نکاح جائز نہیں، بغیر لحاظ و نیت تبدیلی کے جتنے چاہیں نکاح کرسکتے ہیں۔- اور اگر آیت مذکورہ کی پہلی تفسیر مراد لی جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ آئندہ نہ کسی عورت کا اضافہ موجودہ ازواج میں آپ کرسکتے ہیں، اور نہ کسی کی تبدیلی کرسکتے ہیں، کہ اسے طلاق دے کر اس کے قائم مقام کسی اور عورت سے نکاح کرلیں۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَــبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَـبَكَ حُسْنُہُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ۝ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيْبًا۝ ٥٢ۧ- حلَال - حَلَّ الشیء حلالًا، قال اللہ تعالی: وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] ، وقال تعالی: هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] - ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ حل ( ض ) اشئی حلا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے حلال ہونا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلالًا طَيِّباً [ المائدة 88] اور جو حلال طیب روزی خدا نے تم کو دی ہے اسے کھاؤ ۔ هذا حَلالٌ وَهذا حَرامٌ [ النحل 116] کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے - نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- عجب - العَجَبُ والتَّعَجُّبُ : حالةٌ تعرض للإنسان عند الجهل بسبب الشیء، ولهذا قال بعض الحکماء : العَجَبُ ما لا يُعرف سببه، ولهذا قيل : لا يصحّ علی اللہ التَّعَجُّبُ ، إذ هو علّام الغیوب لا تخفی عليه خافية . يقال : عَجِبْتُ عَجَباً ، ويقال للشیء الذي يُتَعَجَّبُ منه : عَجَبٌ ، ولما لم يعهد مثله عَجِيبٌ. قال تعالی: أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا - [يونس 2] ، تنبيها أنهم قد عهدوا مثل ذلک قبله، وقوله : بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ- [ ق 2] ، وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] ،- ( ع ج ب ) العجب اور التعجب - اس حیرت کو کہتے ہیں جو کسی چیز کا سبب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوجاتی ہے اسی بنا پر حکماء نے کہا ہے کہ عجب اس حیرت کو کہتے ہیں جس کا سبب معلوم نہ ہو اس لئے اللہ تعالیٰ پر تعجب کا اطلاق جائز نہیں ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ تو علام الغیوب ہے اس بنا پر کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے عجبت عجبا ( س ) میں نے تعجب کیا عجب ہر وہ بات جس سے تعجب پیدا ہوا اور جس جیسی چیز عام طور نہ دیکھی جاتی ہوا ہے عجیب کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَيْنا[يونس 2] کیا لوگوں کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہم نے وحی بھیجی ۔ میں تنبیہ کی ہے کہ آنحضرت کی طرف وحی بھیجنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ پہلے سے سلسلہ وحی کو جانتے ہیں نیز فرمایا : ۔ بَلْ عَجِبُوا أَنْ جاءَهُمْ [ ق 2] بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا ہے کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا ۔ وَإِنْ تَعْجَبْ فَعَجَبٌ قَوْلُهُمْ [ الرعد 5] اور اگر تم عجیب بات سننی چاہو تو کافروں کا یہ کہنا عجیب ہے ۔ - حسن - الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب :- مستحسن من جهة العقل .- ومستحسن من جهة الهوى.- ومستحسن من جهة الحسّ.- والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله،- فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78]- ( ح س ن ) الحسن - ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ - رقب - الرَّقَبَةُ : اسم للعضو المعروف، ثمّ يعبّر بها عن الجملة، وجعل في التّعارف اسما للمماليك، كما عبّر بالرّأس وبالظّهر عنالمرکوب ، فقیل : فلان يربط کذا رأسا، وکذا ظهرا، قال تعالی: وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] ، وقال : وَفِي الرِّقابِ- [ البقرة 177] ، أي : المکاتبین منهم، فهم الذین تصرف إليهم الزکاة . ورَقَبْتُهُ :- أصبت رقبته، ورَقَبْتُهُ : حفظته . - ( ر ق ب ) الرقبۃ - اصل میں گردن کو کہتے ہیں پھر رقبۃ کا لفظ بول کر مجازا انسان مراد لیا جاتا ہے اور عرف عام میں الرقبۃ غلام کے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے جیسا کہ لفظ راس اور ظھر بول کر مجازا سواری مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے :۔ یعنی فلاں کے پاس اتنی سواریاں میں ۔ قرآن ہیں ہے : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ [ النساء 92] کہ جو مسلمان کو غلطی سے ( بھی ) مار ڈالے تو ایک مسلمان بردہ آزاد کرائے۔ اور رقبۃ کی جمع رقاب آتی ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ وَفِي الرِّقابِ [ البقرة 177] اور غلام کو آزاد کرنے میں ۔ مراد مکاتب غلام ہیں ۔ کیونکہ مال زکوۃ کے وہی مستحق ہوتے ہیں اور رقبتہ ( ن ) کے معنی گردن پر مارنے یا کسی کی حفاظت کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : لا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلا ذِمَّةً [ التوبة 10] کسی مسلمان کے بارے میں نہ تو قرابت کا پاس ملحوظ رکھتے ہیں اور نہ ہی عہد و پیمان کا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بھن من ازواج۔ ان عورتوں کے بعد آپ کے لئے کوئی جائز نہیں اور نہ یہی کہ آپ ان بیویوں کی جگہ دوسری کرلیں) لیث نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ ان خواتین کے بعد جن کا اوپر ذکر ہوا ہے کسی سے نکاح جائز نہیں خواہ وہ مسلمان ہو یا یہود یہ یا نصرانیہ یا کافرہ۔- مجاہد سے قول باری (الا ما ملکت یمینک۔ مگر ہاں بجز ان کے جو آپ کی لونڈیاں ہوں) کی تفسیر میں مروی ہے کہ یہودیہ یا نصرانیہ لونڈی سے ہم بستری کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ سعید نے قتادہ سے قول باری (لا یحل لک النساء ولا ان تبدل بھن من ازواج) کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا اور انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انتخاب کرلیا تو اس نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان پر انحصار کرنے کا حکم دے دیا۔ یہ نو ازواج مطہرات تھیں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول نیز دار آخرت کو منتخب کرلیا تھا ۔ حسن کا بھی یہی قول ہے۔- اس روایت کے علاوہ ایک اور روایت بھی ہے جسے اسرائیل نے سدی سے ، انہوں نے عبداللہ بن شداد سے قول باری (لا یحل لک النساء) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سب کو طلاق دے دیتے تو اس صورت میں آپ کے لئے دوسری عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہ ہوتا۔ اس آیت کے نزول کے بعد بھی آپ نے نکاح کیا تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت آپ کے عقد میں نو ازواج تھیں۔ پھر آپ نے حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان اور جویریہ بنت الحارث سے نکاح کیا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ پر ان خواتین کے سوا جو نزول آیت کے وقت آپ کے عقد میں تھیں تمام دوسری خواتین حرام کردی گئی تھیں۔ ابن جریج نے عطاء سے، انہوں نے عبید بن عمبر سے اور انہوں نے حضرت عائشہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال تک آپ کے لئے عورتوں سے نکاح حلال رہا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ یہ روایت اس بات کی موجب ہے کہ آیت منسوخ ہوچکی ہے۔ قرآن میں کوئی آیت ایسی نہیں ہے جو اس آیت کے نسخ کی موجب ہو اس لئے اس کا نسخ سنت کی بناء پر عمل میں آیا ہے۔- اس میں سنت کی بنا پر قرآن کے نسخ کی دلیل موجود ہے۔- اگر یہ کہا جائے کہ قول باری (لا یحل لک النساء من بعد) خیر کی صورت میں ہے اور خبر کے لئے اس بات کا جواز نہیں ہوتا کہ اس کے مجہرا کے سلسلے اسے منسوخ تسلیم کیا جائے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اگرچہ یہ خبر کی صورت میں ہے لیکن معنی کے لحاظ سے یہ نہی ہے اور نہی پر نسخ وارد ہونا جائز ہوتا ہے۔ اس کی حیثیت اس فقرے جیسی ہے۔ (لاتنزوج بعد ھن النساء ۔ ان ازواج کے بعد آپ دیگر عورتوں سے نکاح نہ کیجئے) اس لئے اس کا نسخ جائز ہے۔- قول باری ہے (ولواعجبک حسنھن ۔ خواہ ان کے حسن آپ کو بھلا ہی کیوں نہ لگے) یہ قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ اجنبی عورت کے چہرے پر نظر ڈالنے کا جواز ہے۔ کیونکہ حسن کا بھلا لگنا اس وقت ہی ہوسکتا ہے جب اس کے چہرے پر نظر ڈال لی جائے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ان کے علاوہ اور عورتیں جن میں یہ قید نہ ہو آپ کے لیے حلال نہیں یا یہ کہ جو نو ازواج مطہرات اس وقت آپ کے نکاح میں موجود ہیں ان کے علاوہ اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں اور اس وقت یہ ازواج مطہرات آپ کے نکاح میں موجود تھیں، حضرت عائشہ بنت ابوبکر صدیق، حضرت حفصہ بن عمر بن الخطاب، حضرت زینبت بنت جحش، حضرت ام سلمہ بنت ابی مایہ مخزومی، حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان، حضرت صفیہ بنت حی ابن اخطب، حضرت میمونہ بنت حارث، حضرت سودہ بنت زمعہ، حضرت جویریہ بنت الحارث المصطلیقہ اور نہ یہ درست ہے کہ آپ ان موجودہ بیویوں کی جگہ دوسری بیویاں کرلیں کہ ان میں سے کسی کو طلاق دے دیں اور اس کی جگہ مذکورہ رشتہ داروں میں سے اور کسی کے ساتھ شادی کرلیں اگرچہ آپ کو ان دوسریوں کا حسن اچھا معلوم ہو البتہ جو آپ کی ملکیت ہو جیسے حضرت ماریہ قبطیہ اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کا پورا نگران ہے۔- شان نزول : لَا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاۗءُ مِنْۢ بَعْدُ (الخ)- ابن سعد نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا تو سب نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو پسند کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ان کے علاوہ اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٢ لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَآئُ مِنْم بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ ” اب اس کے بعد اور عورتیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے حلال نہیں اور نہ ہی (اس کی اجازت ہے کہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں سے کسی کی جگہ کوئی اور بیوی لے آئیں “- یعنی آئندہ نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مزید کوئی نکاح کریں اور نہ ہی اپنی ازواجِ مطہرات (رض) میں سے کسی کو طلاق دیں ۔- وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ ” اگرچہ ان کا حسن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچھا لگے “- یعنی بر بنائے طبع بشری کسی خاتون کی طرف کوئی رغبت ہونے کے باوجود بھی اب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مزید نکاح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ آیت کے یہ الفاظ فطرتِ انسانی کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ انسانی فطرت کے اس طبعی میلان کی عکاسی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے : - (اِنَّمَا حُبِّبَ اِلَیَّ مِنْ دُنْیَاکُمُ النِّسَائُ وَالطِّیْبُ ، وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلَاۃِ ) (١)- ” مجھے تو تمہاری دنیا میں سے دو ہی چیزیں پسند ہیں : عورتیں اور خوشبو ‘ البتہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔ “- اِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ ” سوائے اس کے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مملوکہ ہو۔ “- یعنی مذکورہ پابندی مزید نکاح کرنے کے بارے میں ہے ‘ باندیوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ روایات میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دو باندیوں کا ذکر ملتا ہے : حضرت ماریہ قبطیہ اور حضرت ریحانہ (رض) ۔- وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ رَّقِیْبًا ” اور اللہ ہرچیز پر نگران ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :93 اس ارشاد کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ جو عورتیں اوپر آیت نمبر ۵۰ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کی گئی ہیں ان کے سوا دوسری کوئی عورت اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہیں ہے ۔ دوسرے یہ کہ جب آپ کی ازواج مطہرات اس بات کے لیے راضی ہو گئی ہیں کہ تنگی و ترشی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیں اور آخرت کے لیے دنیا کو انہوں نے تج دیا ہے ، اور اس پر بھی خوش ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو برتاؤ بھی ان کے ساتھ چاہیں کریں ، تو اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ ان میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ کوئی اور بیوی لے آئیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :94 یہ آیت اس امر کی صراحت کر رہی ہے کہ منکوحہ بیویوں کے علاوہ مملوکہ عورتوں سے بھی تمتع کی اجازت ہے اور ان کے لیے تعداد کی کوئی قید نہیں ہے ۔ اسی مضمون کی تصریح سوُرۂ نساء آیت ۳ ، سُورۂ مومنون آیت ٦ ، اور سورۂ معارج آیت ۳۰ میں بھی کی گئی ہے ۔ ان تمام آیات میں مملوکہ عورتوں کو منکوحہ ازواج کے بالمقابل ایک الگ صنف کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے اور پھر ان کے ساتھ ازدواجی تعلق کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ نیز سورۂ نساء کی آیت ۳ منکوحہ بیویوں کے لیے چار کی حد مقرر کرتی ہے ، مگر نہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے مملوکہ عورتوں کے لیے تعداد کی حد مقرر کی ہے اور نہ دوسری متعلقہ آیات میں ایسی کسی حد کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ بلکہ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا جا رہا ہے کہ آپ کے بعد دوسری عورتوں سے نکاح کرنا ، یا موجودہ بیویوں میں سے کسی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لانا حلال نہیں ہے ، البتہ مملوکہ عورتیں حلال ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ مملوکہ عورتوں کے معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں ہے ۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا کی شریعت یہ گنجائش مالدار لوگوں کو بے حساب لونڈیاں خرید کر عیاشی کرنے کے لیے دیتی ہے ۔ بلکہ یہ تو ایک بے جا فائدہ ہے جو نفس پرست لوگوں نے قانون سے اٹھایا ہے ۔ قانون بجائے خود انسانوں کی سہولت کے لیے بنایا گیا تھا ، اس لیے نہیں بنایا گیا تھا کہ لوگ اس سے یہ فائدہ اٹھائیں ۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے شریعت ایک مرد کو چار تک بیویاں کرنے کی اجازت دیتی ہے ، اور اسے یہ حق بھی دیتی ہے کہ اپنی بیوی کو طلاق دے کر دوسری بیوی لے آئے ۔ یہ قانون انسانی ضروریات کو ملحوظ رکھ کر بنایا گیا تھا ۔ اب اگر کوئی شخص محض عیاشی کی خاطر یہ طریقہ اختیار کرے کہ چار بیویوں کو کچھ مدت رکھ کر طلاق دیتا اور پھر ان کی جگہ بیویوں کی دوسری کھیپ لاتا چلا جائے ، تو یہ قانون کی گنجائشوں سے فائدہ اٹھانا ہے جس کی ذمہ داری خود اسی شخص پر عائد ہو گی نہ کہ خدا کی شریعت پر ۔ اسی طرح شریعت نے جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کو ، جبکہ ان کی قوم مسلمان قیدیوں سے تبادلہ کرنے یا فدیہ دے کر ان کو چھڑانے کے لیے تیار نہ ہو ، لونڈی بنانے کی اجازت دی ، اور جن اشخاص کی ملکیت میں وہ حکومت کی طرف سے دیدی جائیں ان کو یہ حق دیا کہ ان عورتوں سے تمتع کریں ان کا وجود معاشرے کے لیے اخلاقی فساد کا سبب نہ بن جائے ۔ پھر چونکہ لڑائیوں میں گرفتار ہونے والے لوگوں کی کوئی تعداد معین نہیں ہو سکتی تھی اس لیے قانوناً اس امر کی بھی کوئی حد معین نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایک شخص بیک وقت کتنے غلام اور کتنی لونڈیاں رکھ سکتا ہے ۔ لونڈیوں اور غلاموں کی خرید و فروخت کو بھی اس بنا پر جائز رکھا گیا کہ اگر کسی لونڈی یا غلام کا نباہ ایک مالک سے نہ ہو سکے تو وہ کسی دوسرے شخص کی ملکیت میں منتقل ہو سکے اور ایک ہی شخص کی دائمی ملکیت مالک و مملوک دونوں کے لیے عذاب نہ بن جائے ۔ شریعت نے یہ سارے قواعد انسانی حالات و ضروریات کو ملحوظ رکھ کر سہولت کی خاطر بنائے تھے ۔ اگر ان کو مالدار لوگوں نے عیاشی کا ذریعہ بنا لیا تو اس کا الزام انہی پر ہے نہ کہ شریعت پر ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

43: یہ آیت پچھلی دو آیتوں کے کچھ عرصے کے بعد نازل ہوئی ہے، پیچھے آیات نمبر ۲۸ و ۲۹ میں ازواجِ مطہراتؓ کو جو اختیار دیا گیا تھا، اُس کے جواب میں تمام ازواجِ مطہراتؓ نے دُنیا کی زیب وزینت کے بجائے آخرت کو اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رفاقت کو ترجیح دی تھی، اُس کے انعام کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کسی عورت سے نکاح کرنے سے منع فرمادیا، اور موجودہ ازواجِ مطہراتؓ میں سے کسی کو طلاق دے کر اُن کی جگہ کسی اور سے نکاح کرنا بھی ممنوع قراردے دیا۔ (بعض مفسرین نے اس آیت کی کسی اور طرح بھی تفسیر کی ہے، لیکن جو تفسیر اُوپر ذکر کی گئی، وہ حضرت انسؓ اور حضرت ابن عباسؓ وغیرہ سے منقول ہے، (روح المعانی بحوالہ بیہقی وغیرہ) اور زیادہ واضح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ سبحانہ اعلم۔