احکامات پردہ ۔ اس آیت میں پردے کا حکم ہے اور شرعی آداب و احکام کا بیان ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق جو آیتیں اتری ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے ۔ بخاری مسلم میں آپ سے مروی ہے کہ تین باتیں میں نے کہیں جن کے مطابق ہی رب العالمین کے احکام نازل ہوئے ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ اگر آپ مقام ابراہیم کو قبلہ بنائیں تو بہتر ہو ۔ اللہ تعالیٰ کا بھی یہی حکم اترا کہ ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ١٢٥ ) 2- البقرة:125 ) میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے تو یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ گھر میں ہر کوئی یعنی چھوٹا بڑا آ جائے آپ اپنی بیویوں کو پردے کا حکم دیں تو اچھا ہو پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے پردے کا حکم نازل ہوا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات غیرت کی وجہ سے کچھ کہنے سننے لگیں تو میں نے کہا کسی غرور میں نہ رہنا اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں چھوڑ دیں تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں آپ کو دلوائے گا چنانچہ یہی آیت قرآن میں نازل ہوئی ۔ صحیح مسلم میں ایک چوتھی موافقت بھی مذکور ہے وہ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ ہے اور روایت میں ہے سنہ 5 ھ ماہ ذی قعدہ میں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ہے ۔ جو نکاح خود اللہ تعالیٰ نے کرایا تھا اسی صبح کو پردے کی آیت نازل ہوئی ہے ۔ بعض حضرات کہتے ہیں یہ واقعہ سن تین ہجری کا ہے ۔ واللہ اعلم ۔ صحیح بخاری شریف میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح کیا تو لوگوں کی دعوت کی وہ کھا پی کر باتوں میں بیٹھے رہے آپ نے اٹھنے کی تیاری بھی کی ۔ پھر بھی وہ نہ اٹھے یہ دیکھ کر آپ کھڑے ہوگئے آپ کے ساتھ ہی کچھ لوگ تو اٹھ کر چل دیئے لیکن پھر بھی تین شخص وہیں بیٹھے رہ گئے اور باتیں کرتے رہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پلٹ کر آئے تو دیکھا کہ وہ ابھی تک باتوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ آپ پھر لوٹ گئے ۔ جب یہ لوگ چلے گئے تو حضرت انس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی ۔ اب آپ آئے گھر میں تشریف لے گئے حضرت انس فرماتے ہیں میں نے بھی جانا چاہا تو آپ نے اپنے اور میرے درمیان پردہ کر لیا اور یہ آیت اتری اور روایت میں ہے کہ حضور نے اس موقعہ پر گوشت روٹی کھلائی تھی اور حضرت انس کو بھیجا تھا کہ لوگوں کو بلا لائیں لوگ آتے تھے کھاتے تھے اور واپس جاتے تھے ۔ جب ایک بھی ایسا نہ بچا کہ جیسے حضرت انس بلاتے تو آپ کو خبر دی آپ نے فرمایا اب دستر خوان بڑھا دو لوگ سب چلے گئے مگر تین شخص باتوں میں لگے رہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے نکل کر حضرت عائشہ کے پاس گئے اور فرمایا اسلام علیکم اہل البیست و رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔ انہوں نے جواب دیا وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ فرمایئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیوی صاحبہ سے خوش تو ہیں؟ آپ نے فرمایا اللہ تمہیں برکت دے ۔ اسی طرح آپ اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور سب جگہ یہی باتیں ہوئیں ۔ اب لوٹ کر جو آئے تو دیکھا کہ وہ تینوں صاحب اب تک گئے نہیں ۔ چونکہ آپ میں شرم و حیا لحاظ و مروت بیحد تھا اس لئے آپ کچھ فرما نہ سکے اور پھر سے حضرت عائشہ کے حجرے کی طرف چلے اب نہ جانے میں نے خبر دی یا آپ کو خود خبردار کر دیا گیا کہ وہ تینوں بھی چلے گئے ہیں تو آپ پھر آئے اور چوکھٹ میں ایک قدم رکھتے ہی آپ نے پردہ ڈال دیا اور پردے کی آیت نازل ہوئی ۔ ایک روایت میں بجائے تین شخصوں کے دو کا ذکر ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ آپ کے کسی نئے نکاح پر حضرت ام سلیم نے مالیدہ بنا کر ایک برتن میں رکھ کر حضرت انس سے کہا اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچاؤ اور کہہ دینا کہ یہ تھوڑا سا تحفہ ہماری طرف سے قبول فرمایئے اور میرا سلام بھی کہہ دینا ۔ اس وقت لوگ تھے بھی تنگی میں ۔ میں نے جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ام المومنین کا سلام پہنچایا اور پیغام بھی ۔ آپ نے اسے دیکھا اور فرمایا اچھا اسے رکھ دو ۔ میں نے گھر کے ایک کونے میں رکھ دیا پھر فرمایا جاؤ فلاں اور فلاں کو بلا لاؤ بہت سے لوگوں کے نام لئے اور پھر فرمایا ان کے علاوہ جو مسلمان مل جائے میں نے یہی کیا ۔ جو ملا اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھانے کے لئے بھیجتا رہا واپس لوٹا تو دیکھا کہ گھر اور انگنائی اور بیٹھک سب لوگوں سے بھرے ہوئے ہے تقریباً تین سو آدمی جمع ہوگئے تھے اب مجھ سے آپ نے فرمایا آؤ وہ پیالہ اٹھا لاؤ میں لایا تو آپ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر دعا کی اور جو اللہ نے چاہا ۔ آپ نے زبان سے کہا پھر فرمایا چلو دس دس آدمی حلقہ کر کے بیٹھ جاؤ اور ہر ایک بسم اللہ کہہ کر اپنے اپنے آگے سے کھانا شروع کرو ۔ اسی طرح کھانا شروع ہوا اور سب کے سب کھا چکے تو آپ نے فرمایا پیالہ اٹھالو حضرت انس فرماتے ہیں میں نے پیالہ اٹھا کر دیکھا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ جس وقت رکھا اس وقت اس میں زیادہ کھانا تھا یا اب؟ چند لوگ آپ کے گھر میں ٹھہر گئے ان میں باتیں ہو رہی تھیں اور ام المومنین دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہوئی تھیں ان کا اتنی دیر تک نہ ہٹنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شاق گذر رہا تھا لیکن شرم و لحاظ کی وجہ سے کچھ فرماتے نہ تھے اگر انہیں اس بات کا علم ہو جاتا تو وہ نکل جاتے لیکن وہ بےفکری سے بیٹھتے ہی رہے ۔ آپ گھر سے نکل کر اور ازواج مطہرات کے حجروں کے پاس چلے گئے پھر واپس آئے تو دیکھا کہ وہ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ اب تو یہ بھی سمجھ گئے بڑے نادم ہوئے اور جلدی سے نکل لئے آپ اندر بڑھے اور پردہ لٹکا دیا ۔ میں بھی حجرے میں ہی تھا جب یہ آیت اتری اور آپ اس کی تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے سب سے پہلے اس آیت کو عورتوں نے سنا اور میں تو سب سے اول ان کا سننے والا ہوں ۔ پہلے حضرت زینب کے پاس آپ کا مانگا لے جانے کی روایت آیت ( فلما قضی زید ) الخ ، کی تفسیر میں گذر چکی ہے اس کے آخر میں بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ پھر لوگوں کو نصیحت کی گئی اور ہاشم کی اس حدیث میں اس آیت کا بیان بھی ہے ۔ ابن جریر میں ہے کہ رات کے وقت ازواج مطہرات قضائے حاجت کے لئے جنگل کو جایا کرتی تھیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ پسند نہ تھا آپ فرمایا کرتے تھے کہ انہیں اس طرح نہ جانے دیجئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس پر توجہ نہیں فرماتے تھے ایک مرتبہ حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نکلیں تو چونکہ فاروق اعظم کی منشا یہ تھی کہ کسی طرح ازواج مطہرات کا یہ نکلنا بند ہو اس لئے انہیں ان کے قدو قامت کی وجہ سے پہچان کر با آواز بلند کہا کہ ہم نے تمہیں اے سودہ پہچان لیا ۔ اس کے بعد پردے کی آیتیں اتریں ۔ اس روایت میں یونہی ہے لیکن مشہور یہ ہے کہ یہ واقعہ نزول حجاب کے بعد کا ہے ۔ چنانچہ مسند احمد میں حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ حجاب کے حکم کے بعد حضرت سودہ نکلیں اس میں یہ بھی ہے کہ یہ اسی وقت واپس آ گئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے ۔ ایک ہڈی ہاتھ میں تھی آ کر واقعہ بیان کیا اسی وقت وحی نازل ہوئی جب ختم ہوئی اس وقت بھی ہڈی ہاتھ میں ہی تھی اسے چھوڑی ہی نہ تھی ۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری ضرورتوں کی بناء پر باہر نکلنے کی اجازت دیتا ہے ۔ آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس عادت سے روکتا ہے جو جاہلیت میں اور ابتداء اسلام میں ان میں تھی کہ بغیر اجازت دوسرے کے گھر میں چلے جانا ۔ پس اللہ تعالیٰ اس امت کا اکرام کرتے ہوئے اسے یہ ادب سکھاتا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں بھی یہ مضمون ہے کہ خبردار عورتوں کے پاس نہ جاؤ ۔ پھر اللہ نے انہیں مستثنیٰ کر لیا جنہیں اجازت دے دی جائے ۔ تو فرمایا مگر یہ کہ تمہیں اجازت دیجائے ۔ کھانے کے لئے ایسے وقت پر نہ جاؤ کہ تم اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو ۔ مجاہد اور قتادہ فرماتے ہیں کہ کھانے کے پکنے اور اس کے تیار ہونے کے وقت ہی نہ پہنچو ۔ جب سمجھا کہ کھانا تیار ہو گا ۔ جا گھسے یہ خصلت اللہ کو پسند نہیں ۔ یہ دلیل ہے طفیلی بننے کی حرمت پر ۔ امام خطیب بغدادی نے اس کی مذمت میں پوری ایک کتاب لکھی ہے ۔ پھر فرمایا جب بلائے جاؤ تم پھر جاؤ اور جب کھا چکو تو نکل جاؤ ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ تم میں سے کسی کو جب اس کا بھائی بلائے تو اسے دعوت قبول کرنی چاہئے خواہ نکاح کی ہو یا کوئی اور اور حدیث میں ہے اگر مجھے فقط ایک کھر کی دعوت دی جائے تو بھی میں اسے قبول کروں گا ۔ دستور دعوت بھی بیان فرمایا کہ جب کھا چکو تو اب میزبان کے ہاں چوکڑی مار کر نہ بیٹھ جاؤ ۔ بلکہ وہاں سے چلے جاؤ ۔ باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو ۔ جیسے ان تین شخصوں نے کیا تھا ۔ جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی لیکن شرمندگی اور لحاظ سے آپ کچھ نہ بولے ، اسی طرح مطلب یہ بھی ہے کہ تمہارا بے اجازت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں چلے جانا آپ پر شاق گذرتا ہے لیکن آپ بوجہ شرم و حیا کے تم سے کہہ نہیں سکتے ۔ اللہ تعالیٰ تم سے صاف صاف فرما رہا ہے کہ اب سے ایسا نہ کرنا ۔ وہ حق حکم سے حیا نہیں کرتا ۔ تمہیں جس طرح بے اجازت آپ کی بیویوں کے پاس جانا منع ہے اسی طرح ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی حرام ہے ۔ اگر تمہیں ان سے کوئی ضروری چیز لینی دینی بھی ہو تو پس پردہ لین دین ہو ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مالیدہ کھا رہے تھے حضرت عمر کو بھی بلا لیا آپ بھی کھانے بیٹھ گئے ۔ حضرت صدیقہ پہلے ہی سے کھانے میں شریک تھیں حضرت عمر ازواج مطہرات کے پردے کی تمنا میں تھے کھاتے ہوئے انگلیوں سے انگلیاں لگ گئیں تو بےساختہ فرمانے لگے کاش کہ میری مان لی جاتی اور پردہ کرایا جاتا تو کسی کی نگاہ بھی نہ پڑتی اس وقت پردے کا حکم اترا ۔ پھر پردے کی تعریف فرما رہا ہے کہ مردوں عورتوں کے دلوں کی پاکیزگی کا یہ ذریعہ ہے ۔ کسی شخص نے آپ کی کسی بیوی سے آپ کے بعد نکاح کرنے کا ارادہ کیا ہو گا اس آیت میں یہ حرام قرار دیا گیا ۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں زندگی میں اور جنت میں بھی آپ کی بیویاں ہیں اور جملہ مسلمانوں کی وہ مائیں ہیں اس لئے مسلمانوں پر ان سے نکاح کرنا محض حرام ہے ۔ یہ حکم ان بیویوں کے لئے جو آپ کے گھر میں آپ کے انتقال کے وقت تھیں سب کے نزدیک اجماعاً ہے لیکن جس بیوی کو آپ نے اپنی زندگی میں طلاق دے دی اور اس سے میل ہو چکا ہو تو اس سے کوئی اور نکاح کر سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں دو مذہب میں اور جس سے دخول نہ کیا اور طلاق دے دی ہو اس سے دوسرے لوگ نکاح کر سکتے ہیں ۔ قیلہ بنت اشعث بن قیس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ملکیت میں آ گئی تھی آپ کے انتقال کے بعد اس نے عکرمہ بن ابو جہل سے نکاح کر لیا ۔ حضرت ابو بکر پر یہ گراں گذرا لیکن حضرت عمر نے سمجھایا کہ اے خلیفہ رسول یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی نہ تھی نہ اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار دیا نہ اسے پردہ کا حکم دیا اور اس کی قوم کے ارتداد کے ساتھ ہیں اس کے ارتداد کی وجہ سے اللہ نے اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بری کر دیا یہ سن کر حضرت صدیق کا اطمینان ہو گیا ۔ پس ان دونوں باتوں کی برائی بیان فرماتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دینا ان کی بیویوں سے ان کے بعد نکاح کر لینا یہ دونوں گناہ اللہ کے نزدیک بہت بڑے ہیں ، تمہاری پوشیدگیاں اور علانیہ باتیں سب اللہ پر ظاہر ہیں ، اس پر کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پوشیدہ نہیں ۔ آنکھوں کی خیانت کو ، سینے میں چھپی ہوئی باتوں اور دل کے ارادوں کو وہ جانتا ہے ۔
53۔ 1 اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر حضرت زینب کے ولیمے میں صحابہ کرام تشریف لائے جن میں سے بعض کھانے کے بعد بیٹھے ہوئے باتیں کرتے رہے جس سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خاص تکلیف ہوئی، تاہم حیا اور اخلاق کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں جانے کے لئے نہ کہا (صحیح بخاری) چناچہ اس آیت میں دعوت کے آداب بتلا دیئے گئے کہ ایک تو اس وقت جاؤ جب کھانا تیار ہوچکا ہو پہلے سے ہی جا کر دھرنا مار کر نہ بیٹھ جاؤ۔ دوسرا، کھاتے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ وہاں بیٹھے ہوئے باتیں مت کرتے رہو۔ کھانے کا ذکر تو سبب نزول کی وجہ سے ہے ورنہ ملطب یہ ہے کہ جب بھی تمہیں بلایا جائے چاہے کھانے کے لیے یا کسی اور کام کے لیے اجازت کے بغیر گھر کے اندر داخل مت ہو۔ 53۔ 2 یہ حکم حضرت عمر (رض) کی خواہش پر نازل ہوا۔ حضرت عمر (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یارسول اللہ آپ کے پاس اچھے برے ہر طرح کے لوگ آتے ہیں کاش آپ امہات المؤمنین کو پردے کا حکم دیں تو کیا اچھا ہو جس پر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا (صحیح بخاری) 53۔ 3 یہ پردے کی حکمت اور علت ہے کہ اس سے مرد اور عورت کے دل ریب و شک سے ایک دوسرے کے ساتھ فتنے میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہیں گے۔ 53۔ 4 چا ہے وہ کسی بھی لحاظ سے ہو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں بغیر اجازت داخل ہونا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خواہش کے بغیر گھر میں بیٹھے رہنا اور بغیر حجاب کے ازواج مطہرات سے گفتگو کرنا یہ امور بھی ایذا کے باعث ہیں ان سے بھی اجتناب کرو۔ 53۔ 2 یہ حکم ان ازواج مطہرات کے بارے میں ہے جو وفات کے وقت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حبالہ عقد میں تھیں۔ تاہم جن کو آپ نے ہم بستری کے بعد زندگی میں طلاق دے کر اپنے سے علیحدہ کردیا ہو وہ اس کے عموم میں داخل ہیں یا نہیں ؟ اس میں دو رائے ہیں۔ بعض ان کو بھی شامل سمجھتے ہیں اور بعض نہیں لیکن آپ کی ایسی کوئی بیوی تھی ہی نہیں اس لیے یہ محض ایک فرضی شکل ہے علاوہ ازیں ایک تیسری قسم ان عورتوں کی ہے جن سے آپ کا نکاح ہوا لیکن ہم بستری سے قبل ہی ان کو آپ نے طلاق دے دی دوسرے لوگوں کا نکاح درست ہونے میں کوئی نزاع معلوم نہیں (تفسیر ابن کثیر)
[٨٦] گھروں میں داخلہ پر پابندی (استیذان):۔ اس آیت میں کئی ایک معاشرتی آداب بیان فرمائے جارہے ہیں۔ اسی سورة میں پہلے ازواج النبی کو مخاطب کرکے کہا گیا تھا کہ عورتوں کا اصل مقام گھر ہے۔ انھیں نہ تو بلاضرورت گھر سے باہر نکلنا چاہئے اور نہ پہلی جاہلیت کی طرح عورتوں کو بن ٹھن کر باہر نکلنا اور اپنی زیب وزینت کی نمائش کرنا چاہئے اور یہ حکم بس باہر نکلنے تک یا آواز پر پابندی تک موقوف تھا۔ اب بھی لوگ سب گھروں میں حتیٰ کہ خود رسول اللہ کے گھروں میں بلا روک ٹوک آتے جاتے تھے اور سیدنا عمر کو بالخصوص یہ بات ناگوار تھی کہ نبی کے گھر میں ہر طرح کے لوگ بلاروک ٹوک داخل ہوا کریں۔ چناچہ انھیں کی اس خواہش کے مطابق وحی الٰہی نازل ہوئی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- سیدنا انس بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ سیدنا عمر نے نبی اکرم سے عرض کیا : یارسول اللہ آپ کے ہاں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ آتے رہتے ہیں۔ کیا اچھا ہو، اگر آپ امہات المؤمنین (اپنی بیویوں) کو پردے کا حکم دیں۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے پردے کا حکم نازل فرمایا (بخاری۔ کتاب التفسیر)- اس کے بعد سورة نور کی آیات نازل ہوئیں اور آیت نمبر ٢٧ کی رو سے یہ حکم تمام مسلم گھرانوں پر نافذ کردیا گیا کہ کوئی شخص بھی کسی دوسرے کے گھر میں بلا اجازت داخل نہ ہوا کرے۔- [٨٧] آداب دعوت طعام :۔ اس جملہ میں مزید دو ہدایات دی گئیں۔ ایک یہ کہ اگر صاحب خانہ خود تمہیں بلائے اور بالخصوص کھانے پر مدعو کرے تو تمہیں اس کے ہاں جانا چاہئے اور اس کا یہ بلانا ہی اس کی اجازت ہے۔ دوسری ہدایت یہ تھی کہ جس وقت بلایا جائے اسی وقت آؤ پہلے نہ آؤ۔ ایسا نہ ہونا چاہئے کہ پہلے آکر دعوت پکنے والے اور کھانے والے برتنوں کی طرف دیکھتے رہو کہ کب کھانا پکتا ہے اور ہمیں کھانے کو ملتا ہے یہ بات بھی صاحب خانہ کے لئے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے۔- [٨٨] اس ضمن میں چوتھی ہدایت یہ ہے کہ جب کھانا کھا چکو تو وہیں دھرنا مار کر بیٹھ نہ جاؤ اود ادھر ادھر کے حالات اور قصے کہانیاں شروع کردو۔ بلکہ کھانا کھا چکو تو چلتے بنو۔ اور صاحب خانہ کے لئے انتظار اور پریشانی کا باعث نہ بنو۔ کیونکہ دعوت کے بعد انھیں بھی کئی طرح کے کام ہوتے ہیں۔- [٨٩] آیہ حجاب :۔ یہی وہ آیت ہے جسے آیہ حجاب کہتے ہیں۔ حجاب کے معنی کسی کپڑا یا کسی دوسری چیز سے دو چیزوں کے درمیان ایسی روک بنادینا ہے جس سے دونوں چیزیں ایک دوسرے سے اوجھل ہوجائیں۔ اس آیت کی رو سے تمام ازواج النبی کے گھروں کے باہر پردہ لٹکا دیا گیا۔ پھر دوسرے مسلمانوں نے بھی اپنے گھروں کے سامنے پردے لٹکالیے اور یہ دستور اسلامی طرز معاشرت کا ایک حصہ بن گیا۔ اب اگر کسی شخص کو ازواج مطہرات سے کوئی بات پوچھنا یا کوئی ضرورت کی چیز مانگنے کی ضرورت ہوتی تو اسے حکم ہوا کہ پردہ سے باہر رہ کر سوال کرے۔ اب اس آیت کا شان نزول سیدنا انس کی زبانی ملاحظہ فرمائیے :- خ ولیمہ کی دعوت کھانے کے بعدبیٹھ رہنے والے تین شخص :۔ سیدنا انس کہتے ہیں کہ جب آپ نے زینب بنت جحش سے نکاح کیا اور صحبت کی تو (ولیمہ میں) گوشت روٹی تیار کیا گیا مجھے لوگوں کو بلانے کے لئے بھیجا گیا۔ لوگ آتے جاتے، کھانا کھاتے اور چلے جاتے، پھر اور لوگ آتے وہ بھی کھانا کھا کر چلے جاتے۔ میں نے سب کو بلایا حتیٰ کہ کوئی شخص ایسا نہ رہ گیا جسے میں نے بلایا نہ ہو۔ آپ نے مجھے فرمایا : اچھا اب کھانا اٹھاؤ (لوگ چلے گئے مگر) تین شخص بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ آپ گھر سے اٹھ کر سیدہ عائشہ (رض) کے کمرہ کی طرف گئے اور فرمایا : السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ سیدہ عائشہ (رض) نے جواب دیا : وعلیک السلام ورحمۃ اللہ آپ نے بیوی کو کیسا پایا، اللہ آپ کو برکت دے پھر آپ نے سب بیویوں کے کمروں کا دورہ کیا اور سب کو سیدہ عائشہ (رض) کی طرح سلام کیا اور انہوں نے بھی ویسا ہی جواب دیا۔ پھر آپ لوٹ کر گھر آئے تو وہ تین آدمی ابھی تک بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ آپ کے مزاج میں بڑی شرم تھی (لہٰذا انھیں کچھ نہ کہا) اس لئے پھر سیدہ عائشہ (رض) کے کمرہ کی طرف چلے گئے۔ پھر کسی نے آپ کو اطلاع دی کہ اب وہ تینوں آدمی چلے گئے۔ چناچہ آپ واپس آئے اور دروازے کی چوکھٹ میں آپ کا ایک پاؤں اندر تھا اور دوسرا باہر کہ آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا لیا اس وقت اللہ تعالیٰ نے پردے کی آیت اتاری۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- [٩٠] مرد اور عورت کے آزادانہ اختلاط کی روک تھام اور پردہ کا حکم :۔ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط اور فحاشی کی روک تھام کے لئے یہ ایک موثر اقدام ہے کہ کوئی غیر مرد کسی اجنبی عورت کو نہ دیکھے اور نہ ہی کسی کے دل میں کوئی وسوسہ یا برا خیال پیدا ہو۔ گویا معاشرہ سے بےحیائی اور فحاشی کے خاتمہ کے لئے پردہ نہایت ضروری چیز ہے۔ اب جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ اصل پردہ دل کا پردہ ہے کیونکہ شرم و حیا کا اور برے خیالات کا تعلق دل سے ہے یہ ظاہری پردہ کچھ ضروری نہیں۔ ایسے لوگ دراصل اللہ کے احکام کا مذاق اڑاتے ہیں۔- [٩١] جس بات سے اللہ کے رسول کو تکلیف پہنچے وہ ناجائز ہے :۔ ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کھانا کھانے کے بعد وہاں سے ہلنے کا نام تک نہ لیتے تھے۔ ان کی اس حرکت کو رسول اللہ نے بہت ناگوار اور تکلیف دہ محسوس کیا مگر شرم اور نرمی طبع کی بنا پر انھیں اٹھ کر چلے جانے کو نہ کہہ سکے۔ تاہم یہ حکم عام ہے اور اس کا میدان بڑا وسیع ہے۔ اس میں وہ الزام تراشیاں بھی شامل ہیں جو اس زمانے میں کافروں کے ساتھ منافق بھی رسول اللہ پر کر رہے تھے نیز ہر وہ بات بھی جسے رسول اللہ ناگوار محسوس کریں اس سے مسلمانوں کو اجتناب ضروری ہے مثلاً کوئی شخص اللہ کے رسول کے مقابلہ میں دوسرے کی بات مانے یا سنت رسول کے مقابلہ میں کسی دوسرے کے قول کو ترجیح دے یا آپ کی سنت چھوڑ کر بدعات کو رائج کرے یا فروغ دے تو ان باتوں سے رسول اللہ کو تکلیف ہوتی ہے اور ایسے تمام امور میں مسلمانوں کو محتاط رہنا چاہئے۔- [٩٢] یہ گناہ عظیم اس لحاظ سے ہے کہ ازواج النبی مسلمانوں کی مائیں ہیں۔ اور اگر کوئی آدمی ان سے نکاح کرے تو گویا اس نے اپنی ماں سے نکاح کیا۔ پھر جو احترام انھیں اللہ نے بخشا ہے وہ کبھی ملحوظ نہ رکھ سکے گا۔ اور اپنی عاقبت تباہ کرے گا۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ ۔۔ : گزشتہ آیات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی ازواج مطہرات کے باہمی معاملات کے متعلق راہ نمائی فرمائی گئی، اب امت کو امہات المومنین کے چند آداب بتائے جاتے ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں داخلے کے متعلق چند احکام بیان ہوتے ہیں، جو کچھ عرصہ بعد سورة نور میں تمام مسلمانوں کے گھروں میں داخلے کے لیے بھی نافذ کردیے گئے۔ دور جاہلیت میں عرب لوگ بلا تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے، کسی سے ملنے کے لیے اس کے دروازے پر کھڑے ہو کر اجازت لینے یا انتظار کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی، بلکہ ہر شخص گھر کے اندر جا کر عورتوں سے بات کرلیتا اور صاحب خانہ کے متعلق پوچھ لیتا اور عورتیں بھی پردہ نہیں کرتی تھیں۔ بعض اوقات اس سے بہت سی اخلاقی خرابیوں کا آغاز ہوتا تھا، اس لیے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی دوست ہو یا رشتہ دار اجازت کے بغیر آپ کے گھروں میں داخل نہ ہو، پھر سورة نور (٢٧) میں تمام گھروں میں داخلے کے لیے اس قاعدے کا اعلان کردیا گیا۔- اِلٰى طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىهُ ۔۔ : ” اِنٰىهُ “ میں ”إِنًی “ ” أَنٰی یَأْنِیْ “ (ض) کا مصدر ہے، اس کا معنی ہے ” کسی چیز کا وقت ہوجانا۔ “ جیسا کہ فرمایا : (اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ ) [ الحدید : ١٦ ] ” کیا ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد کے لیے جھک جائیں۔ “ یہ لفظ کھانا پک جانے کے معنی میں بھی آتا ہے، کیونکہ پکنے پر اس کے کھانے کا وقت ہوجاتا ہے۔ اہل عرب میں جو غیر مہذب عادات پھیلی ہوئی تھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ کھانے کے وقت کا اندازہ کر کے کسی کے گھر پہنچ جاتے، یا اس کے گھر آکر بیٹھے رہتے، یہاں تک کہ کھانے کا وقت ہوجاتا۔ اس سے صاحب خانہ مشکل میں پڑجاتا، نہ یہ کہہ سکتا کہ میرے کھانے کا وقت ہے، آپ تشریف لے جائیں، نہ اس کے بس میں ہوتا کہ اپنے کھانے کے ساتھ آنے والوں کے لیے بھی کھانا تیار کرے۔ بعض اوقات کھانے کے لیے دعوت دی جاتی، مگر مدعو حضرات وقت سے پہلے ہی آکر بیٹھ جاتے، جس سے گھر والے سخت کوفت میں مبتلا ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بےہودہ عادت سے منع فرمایا اور حکم دیا کہ کھانا تیار ہونے کے انتظار میں پہلے ہی جا کر نہ بیٹھ جاؤ، بلکہ جب گھر والا کھانے کے لیے بلائے اس وقت جاؤ۔ یہ حکم بھی نمونے کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے شروع ہوا، ورنہ ساری امت کے گھروں کے لیے یہی حکم ہے۔- وَلَا مُسْـتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ ۭ : یہ ایک اور بےہودہ عادت کی اصلاح ہے۔ بعض لوگ کھانے کی دعوت میں بلائے جاتے ہیں تو کھانے سے فارغ ہو کر وہیں باتوں کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں، جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔ انھیں پروا نہیں ہوتی کہ اس سے گھر والوں کو کس قدر کوفت ہو رہی ہے کہ نہ وہ حیا کی وجہ سے انھیں جانے کو کہہ سکتے ہیں اور نہ آزادی سے اپنا کوئی کام کرسکتے ہیں۔- اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْكُمْ : یعنی کھانے پینے سے فارغ ہو کر تمہارا باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہمیشہ تکلیف دیتا ہے۔ ہمیشہ کا مفہوم ” کان “ سے ظاہر ہو رہا ہے۔ پھر وہ تم سے حیا کرتے ہوئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اب اٹھ جاؤ۔ مگر اللہ تعالیٰ حق کہنے سے نہیں شرماتا، اس لیے اس نے یہ احکام دیے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے طفیلیوں (بن بلائے مہمانوں) اور بوجھ بن جانے والوں کو اپنے نبی کے لیے برداشت نہیں فرمایا، پھر عام آدمی انھیں کیسے برداشت کرسکتا ہے۔- 3 اس آیت میں امہات المومنین کے حجاب کا حکم نازل ہوا، اس لیے اسے آیت حجاب بھی کہا جاتا ہے۔ یہ عمر بن خطاب (رض) کی موافقات، یعنی ان باتوں میں سے ہے جن میں ان کی بات کے مطابق قرآن نازل ہوا، مگر ان کا حسن ادب یہ ہے کہ انھوں نے یہ کہنے کے بجائے کہ قرآن نے میری بات کی موافقت کی، یہ کہا کہ میں نے تین باتوں میں اپنے رب کی موافقت کی۔ چناچہ ان میں سے ایک یہ ہے : ( قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَوْ أَمَرْتَ نِسَاءَ کَ أَنْ یَحْتَجِبْنَ ، فَإِنَّہُ یُکَلِّمُہُنَّ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ ، فَنَزَلَتْ آیَۃُ الْحِجَابِ ) [ بخاري، الصلاۃ، باب ما جاء في القبلۃ۔۔ : ٤٠٢ ] ” میں نے کہا، یا رسول اللہ آپ کی بیویوں کے پاس اچھے اور برے ہر قسم کے لوگ (دینی یا دنیوی مسائل کے لیے) آتے ہیں کاش آپ انھیں حجاب کا حکم دے دیں، تو اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب کو نازل فرمایا۔ “- 3 اس آیت کا نزول جس موقع پر ہوا اسے انس (رض) نے بیان فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں : ” جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شادی زینب (رض) سے ہوئی تو (ولیمے میں) گوشت اور روٹی کھلائی گئی۔ مجھے لوگوں کو دعوت دینے کے لیے بھیجا گیا، لوگ آتے اور کھا کر چلے جاتے، پھر اور لوگ آتے اور کھا کر چلے جاتے۔ میں نے سب کو دعوت دی، حتیٰ کہ کوئی شخص باقی نہ رہا۔ آخر میں میں نے عرض کیا : ” یا رسول اللہ اب کوئی شخص نہیں ملتا جسے میں دعوت دوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اچھا اب کھانا اٹھا دو ۔ “ (سب لوگ کھانا کھا کر چلے گئے) اور تین شخص گھر میں بیٹھے باتیں کرتے رہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نکلے اور عائشہ (رض) کے حجرے کی طرف چلے گئے اور کہا : ” اے اہل بیت (گھر والو) اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ “ انھوں نے کہا : ( وَ عَلَیْکَ السَّلَامُ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ ، کَیْفَ وَجَدْتَ أَہْلَکَ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ ) ” آپ پر بھی سلامتی اور اللہ کی رحمت ہو، آپ نے اپنے اہل کو کیسا پایا، اللہ آپ کے لیے برکت کرے۔ “ اسی طرح آپ اپنی تمام بیویوں کے گھروں میں گئے اور سب کو عائشہ (رض) کی طرح سلام کیا، سب نے عائشہ (رض) کی طرح جواب دیا۔ پھر جب لوٹ کر آئے تو دیکھا کہ وہ تین آدمی (ابھی تک) گھر میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سخت حیا والے تھے، آپ پھر عائشہ (رض) کے حجرے کی طرف چلے گئے۔ مجھے معلوم نہیں کہ میں نے آپ کو جا کر بتایا یا کسی اور نے بتایا کہ وہ لوگ چلے گئے ہیں۔ چناچہ آپ واپس آئے اور اس حالت میں کہ دروازے کی دہلیز میں آپ کا ایک پاؤں اندر تھا اور دوسرا باہر تھا، آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ لٹکا دیا اور حجاب کی آیت نازل ہوگئی۔ “ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( لا تدخلوا بیوت النبي۔۔ ) : ٤٧٩٣ ]- وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا ۔۔ : اس آیت کے نزول کے ساتھ حکم ہوا کہ محرم مردوں کے سوا کوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر نہ آئے اور جسے بھی خواتین سے کوئی کام ہو وہ پردے کے پیچھے سے بات کرے، خواہ کوئی چیز مانگنے کی ضرورت ہو، یا کوئی بات یا دینی مسئلہ پوچھنے کی۔- ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ : اس جملے پر تھوڑی سی توجہ سے بھی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ جب امہات المومنین، جو دنیا کی پاک باز ترین خواتین تھیں اور صحابہ کرام، جو دنیا کے پاک باز ترین مرد تھے، انھیں دلوں کو پاک رکھنے کے لیے ایک دوسرے سے کوئی بات کرتے وقت حجاب کا حکم ہے تو عام لوگوں کو بلاحجاب ایک دوسرے سے ملنے کی، یعنی گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں، پارکوں، عدالتوں اور اسمبلیوں میں مردوں اور عورتوں کے بلا تکلف میل جول اور مخلوط معاشرے کی اسلام میں کیا گنجائش ہوسکتی ہے اور ان کے دلوں کی طہارت و پاکیزگی کی کیا ضمانت ہوسکتی ہے۔ اب جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود کہتے ہیں کہ اصل پردہ دل کا ہے، کیونکہ شرم و حیا کا اور برے خیالات کا تعلق دل سے ہے، یہ ظاہر پردہ کچھ ضروری نہیں، ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کے احکام کو دل سے مانا ہی نہیں۔ - وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُــؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ : یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دینا، خواہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں بلا اجازت داخل ہونا ہو، یا آپ کی خواہش کے بغیر آپ کے گھر میں بیٹھے رہنا ہو، یا حجاب کے بغیر ازواج مطہرات سے گفتگو کرنا ہو، یا منافقین کی طرح کسی قسم کی دل آزار باتیں کرنا ہو، غرض کسی بھی طریقے سے ہو، تمہارے لیے جائز نہیں، نہ ہی یہ تمہیں کبھی زیب دیتا ہے۔- وَلَآ اَنْ تَنْكِحُوْٓا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖٓ اَبَدًا : یہ گناہ عظیم اس لحاظ سے ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں۔ اگر کوئی آدمی ان سے نکاح کرے تو گویا اس نے اپنی ماں سے نکاح کیا، پھر جو احترام اللہ نے انھیں بخشا ہے وہ کبھی ملحوظ نہ رکھ سکے گا، بلکہ اپنی عاقبت برباد کرے گا۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتَ النَّبِيِّ اِلَّآ اَنْ يُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَيْرَ نٰظِرِيْنَ اِنٰىہُ ٠ ۙ وَلٰكِنْ اِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْـتَاْنِسِيْنَ لِحَدِيْثٍ ٠ ۭ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيٖ مِنْكُمْ ٠ ۡوَاللہُ لَا يَسْتَحْيٖ مِنَ الْحَقِّ ٠ ۭ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ ٠ ۭ ذٰلِكُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ ٠ ۭ وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُــؤْذُوْا رَسُوْلَ اللہِ وَلَآ اَنْ تَنْكِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖٓ اَبَدًا ٠ ۭ اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ عِنْدَ اللہِ عَظِيْمًا ٥٣- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- أَذِنَ :- والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء 64] أي : بإرادته وأمره، - ( اذ ن) الاذن - الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعنی ارادہ اور حکم ہے - طعم - الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ- [ المائدة 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا - [ الأحزاب 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا - [ المائدة 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله :- فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ- [ الحج 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ- [يس 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ- [ الأنعام 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام :- «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ.- ( ط ع م ) الطعم - ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - أنا - أَنَا ضمیر المخبر عن نفسه، وتحذف ألفه في الوصل في لغة، وتثبت في لغة «5» ، وقوله عزّ وجل : لكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي [ الكهف 38] فقد قيل : تقدیره : لکن أنا هو اللہ ربي، فحذف الهمزة من أوله، وأدغم النون في النون، وقرئ : لكنّ هو اللہ ربي، فحذف الألف أيضا من آخره ويقال : أُنِيَّة الشیء وأَنِيَّتُه، كما يقال : ذاته، وذلک إشارة إلى وجود الشیء، وهو لفظ محدث ليس من کلام العرب، وآناء اللیل : ساعاته، الواحد : إِنْيٌ وإنىً وأَناً «1» ، قال عزّ وجلّ : يَتْلُونَ آياتِ اللَّهِ آناءَ اللَّيْلِ [ آل عمران 113] وقال تعالی: وَمِنْ آناءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ [ طه 130] ، وقوله تعالی: غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي : وقته، والإنا إذا کسر أوّله قصر، وإذا فتح مدّ ، نحو قول الحطيئة وآنیت العشاء إلى سهيل ... أو الشّعری فطال بي الأناء أَنَى وآن الشیء : قرب إناه، وحَمِيمٍ آنٍ [ الرحمن 44] بلغ إناه من شدة الحر، ومنه قوله تعالی: مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ [ الغاشية 5] وقوله تعالی: أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا - [ الحدید 16] أي : ألم يقرب إناه . ويقال آنَيْتُ الشیء أُنِيّاً ، أي : أخّرته عن أوانه، وتَأَنَّيْتُ : تأخّرت، والأَنَاة : التؤدة . وتَأَنَّى فلان تَأَنِّياً ، وأَنَى يَأْنِي فهو آنٍ ، أي :- وقور . واستأنيته : انتظرت أوانه، ويجوز في معنی استبطأته، واستأنيت الطعام کذلک، والإِنَاء : ما يوضع فيه الشیء، وجمعه آنِيَة، نحو : کساء وأكسية، والأَوَانِي جمع الجمع .- ( ا ن ی ) انی ( ض) الشئ اس کا وقت قریب آگیا ۔ وہ اپنی انہتا اور پختگی کے وقت کو پہنچ گئی ۔ قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا ( سورة الحدید 16) کیا ابھی تک مومنوں کے لئے وقت نہیں آیا (57 ۔ 16) غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ ( سورة الأحزاب 53) تم کھانے وقت کا انتظار کر رہے ہو ( انی الحمیم ۔ پانی حرارت میں انتہا کو پہنچ گیا ) قرآن میں ہے حَمِيمٍ آنٍ ( سورة الرحمن 44) میں عین انیۃ انی ( بتثلیث الہمزہ ) وقت کا کچھ حصہ اس کی جمع اناء ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَتْلُونَ آيَاتِ اللهِ آنَاءَ اللَّيْلِ ( سورة آل عمران 113) جور ات کے وقت خدا کی ائتیں پڑھتے ہیں وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ ( سورة طه 130) اور رات کے اوقات میں ( بھی ) اس کی تسبیح کیا کرو۔ انی ۔ ہمزہ مکسور رہونے کی صورت میں اسم مقصور ہوگا اور ہمزہ مفتوح ہونے کی صورت میں اسم ممدود حطیہ نے کہا ہے ( الوافر ) (31) آنیت العشاء الی سھیل اوشعریٰ فطال بی الاناء میں نے سہیل یا شعری ستارہ کے طلوع ہونے تک کھانے کو مؤخر کردیا اور میرا انتظار طویل ہوگیا ۔ آنیت الشئی ایناء ۔ کسی کام کوا کے مقررہ وقت سے موخر کرنا ۔ تانیث ۔ میں نے دیر کی لاناۃ ۔ علم ۔ وقار ۔ طمانیست تانٰی فلان تانیا ۔ وانی یاتیٰ ان یا ( س) تحمل اور حلم سے کام لینا ۔ استانیت الشئ میں نے اس کے وقت کا انتظار کیا نیز اس کے معنی دیر کرنا بھی آتے ہیں جیسے استانیت الطعام ۔ میں نے کھانے کو اس کے وقت سے موخر کردیا ۔ الاناء ۔ برتن ۔ آنیۃ ۔ جیسے کساء واکسیۃ اس کی جمع الجمع الاثانی ہے ۔- (بقیہ حصہ کتاب سے ملاحضہ فرمائیں)
عورتوں کو پردہ کرنے کے حکم کا بیان - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا لا تدخلوا بیوت النبی الا ان یوذن لکم الی طعام غیر ناظرین اناہ۔ اے ایمان لانے والو نبی کے گھروں میں مت جایا کرو بجز اس وقت کے جب تمہیں کھانے کے لئے (آنے کی) اجازت دی جائے اور (وہاں جاکر) اس کی تیاری کے منتظر نہ ہو) ۔- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن بن ابی الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے ابوعثمان سے، ان کا نام جعد بن دینار ہے، اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب حضرت زینب (رض) سے عقد کیا تو حضرت ام سلیم (رض) نے نے پتھر کے ایک چھوٹے سے برتن میں آپ کے لئے ہدیہ کے طور پر حلوہ بھیجا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حکم دیا کہ باہر جاکر جو مسلمان بھی تمہیں ملے اسے میرے گھر بھیج دو ۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ لوگ آتے رہے اور کھانے کے بعد باہر چلے جاتے رہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر ہاتھ رکھ کر دعا مانگی تھی اور اللہ نے جو کچھ چاہا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر پڑھا تھا۔ اس دن مجھے بھیجو ملتا گیا میں اسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر بھیجتا گیا جتنے لوگ آئے تھے سب نے سیر ہوکر کھایا تھا۔ آنے والے لوگوں میں سے کچھ لوگ وہیں ٹھہر گئے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ دیر تک باتیں کرتے رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔- بشربن المفضل نے حمید الطویل سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے حضرت زینب (رض) کے ساتھ شب عروسی گزارنے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ ولیمہ کا انتظام تھا۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ شب عروسی کی جب صبح ہوتی تو امہات المومنین کے حجروں سر پے آپ گزرتے انہیں سلام کہتے وہ بھی جواب میں سلام کہتیں۔ آپ ان کے لئے دعا کرتے وہ بھی آپ کے لئے دعا کرتیں۔ ولیمہ کھا کر لوگ جب فارغ ہوگئے اور اپنے اپنے گھر کی طرف واپس ہونے لگے تو گھر کے کونے سے آپ کی نظر دو آدمیوں پر پڑی جو کسی بحث میں مصروف تھے، اس وقت میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ یہ دیکھ کر آپ واپس مڑنے لگے جب ان دونوں نے آپ کو واپس جاتے ہوئے دیکھا تو فوراً اٹھ کر گھر سے نکل گئے۔ جب آپ کو ان کے چلے جانے کی اطلاع مل گئی تو آپ واپس ہوکر گھر میں داخل ہوگئے اور پردے لٹکا لیے اور پھر پردے کی آیت نازل ہوئی۔- حماد بن زید نے اسلم العلوی سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب پردے کی آیت نازل ہوئی تو میں آپ کے گھر پر آیا اور حسب معمول گھر کے اندر جانے لگا۔ اتنے میں آپ نے آواز دی۔ “ انس پیچھے جائو۔ “- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں کئی احکام موجود ہیں۔ ایک تو یہ کہ اجازت کے بغیر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں داخل ہونے کی ممانعت نیز یہ کہ جب انہیں کھانے کے لئے بلایا جائے تو وہاں پہلے سے پہنچ کر کھانا تیار ہونے کے انتظار میں بیٹھے نہ رہیں۔ پھر جب کھانے سے فارغ ہوجائیں تو وہاں بیٹھ کر باتوں کا سلسلہ نہ شروع کردیں۔- مجاہد سے (غیر ناظرین اناہ) کی تفسیر میں منقول ہے کہ کھانا تیار ہونے کے وقت کے انتظار میں نہ رہیں۔ اور کھانے سے فراغت کے بعد گفتگو کا کوئی سلسلہ نہ شروع کریں۔ ضحاک کا قول ہے کہ آیت میں (اناہ) کے معنی کھانا تیار ہوجانے کے ہیں۔- قول باری ہے (واذا سالتموھن متاعا فاسئلو ھن من وراء حجاب اور جب تم ان (رسول کی ازواج) سے کوئی چیز مانگو تو ان سے پردے کے باہر سے مانگا کرو) یہ آیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات پر نظر ڈالنے کی ممانعت پر مشتمل ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی بیان ہوا ہے کہ یہ چیز ان کے دلوں کے لئے نیز ازواج مطہرات کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے۔ کیونکہ نظر پڑنے سے بعض دفعہ میلان اور شہوت کا خدشہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بنا پر پردہ کا حکم واجب کرکے اس چیز کی جڑ کاٹ دی۔- قول باری ہے (وما کان لکم ان توذوا رسول اللہ ولا ان تنکحو ازواجۃ من بعدہ ابدا اور تمہیں یہ جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو کسی طرح بھی تکلیف پہنچائو اور نہ یہ کہ آپ کے بعد آپ کی بیویوں سے کبھی بھی نکاح کرو)- اس سے مراد وہ احکامات ہیں جو آیت میں بیان کیے گئے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت حاصل کرنا واجب ہے ، کھانا کھانے کے بعد وہاں بیٹھ کر گفتگو کو طوالت دینے کی ممانعت ہے۔ نیز ازواج مطہرات اور لوگوں کے درمیان پر وہ ضروری ہے۔ اس حکم کا نزول اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ازواج مطہرات کے ساتھ خاص ہے لیکن اس کا مفہوم عام ہے جو آپ کے ساتھ تمام مسلمانوں کو بھی شامل ہے کیونکہ آپ کی اتباع اور اقتداء کا حکم دیا گیا ہے الا یہ کہ کسی حکم کا تعلق صرف آپ کی ذات کے ساتھ ہوا اور اس حکم میں امت کو شریک نہ کیا گیا ہو۔- معمر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے یہ کہا تھا کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انتقال ہوجائے گا تو میں حضرت عائشہ (رض) سے نکاح کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیت نازل فرمائی۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قتادہ نے جو بات بیان کی ہے وہ بھی آیت کے مضمون کا ایک پہلو ہے عیسیٰ بن یونس نے ابواسحق سے، انہوں نے صلۃ بن زفر سے اور انہوں نے حضرت حذیفہ (رض) سے روایت کی ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سے کہا تھا کہ اگر تمہیں یہ بات پسندہو کہ جنت میں بھی میری بیوی رہو تو وہاں بھی ہم ایک ہی مکان میں رہیں تو میرے مرنے کے بعد کسی سے نکاح نہ کرنا کیونکہ عورت اپنے آخری خاوند کے ساتھ ہوگی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج پر آپ کے بعد نکاح کرنا حرام کردیا ہے۔- حمید الطویل نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا کہ ایک عورت کے بعض دفعہ دو خاوند ہوتے ہیں۔ مرنے کے بعد سب جنت میں چلے جاتے ہیں۔ اس صورت میں یہ عورت کسی خاوند کو ملے گی۔ آپ نے جواب دیا۔” ام حبیبہ اس خاوند کو جس نے دنیا میں اس کے ساتھ حسن معاشرت کا زیادہ مظاہرہ کیا تھا اور اسی کے ساتھ زیادہ خوش خلقی سے پیش آیا تھا۔ یہ عورت اس کی بیوی بنے گی۔ ام حبیبہ ایسا شخص اپنے حسن اخلاق کی بنا پر دنیا اور آخرت کی بھلائیاں سمیٹ لے جائے گا۔ “
کچھ حضرات صبح و شام رسول اکرم کے گھروں میں جایا کرتے تھے اور کھانے کے انتظار میں بیٹھ کر ازواج مطہرات کے ساتھ گفتگو کرتے رہتے اس سے رسول اکرم کو رنجش ہوئی مگر آپ شرمائے کہ انہیں باہر جانے کا حکم دیں یا بغیر اجازت اندر آنے سے منع کردیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے منع فرما دیا۔- کہ اے ایمان والو نبی کے گھروں میں بغیر اجازت مت جایا کرو اور یہ کہ جس وقت تمہیں کھانے کے لیے بلایا جائے مگر پھر بھی ایسے وقت جاؤ کہ اس کھانے کے پکنے کے منتظر نہ ہو اور جب بلایا جائے تو چلے جایا کرو اور جس وقت کھالو تو فورا اٹھ کر چلے آیا کرو اور باتوں میں جی لگا کر مت بیٹھے رہا کرو۔- یہ بغیر اجازت جانا بیٹھے رہنا اور پھر ازواج مطہرات کے ساتھ باتیں کرنا ان چیزوں سے نبی اکرم کو ناگواری ہوتی ہے سو وہ تمہارا لحاظ کرتے ہیں اور زبان سے اٹھ کر چلے جانے کو نہیں فرماتے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اٹھ کر چلے آنے اور بلا اجازت جانے کی ممانعت کرنے میں کوئی لحاظ نہیں کرتے۔- اور جب تمہیں ازواج مطہرات سے کوئی ضروری مسئلہ پوچھنا ہو تو پردہ کے باہر سے کھڑے ہو کر پوچھو۔ یہ چیز آئندہ بھی سب کے دلوں کے پاک رہنے کا عمدہ ذریعہ ہے۔- اور تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ اس قسم کے طرز عمل سے رسول اکرم کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ جائز ہے کہ آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے کبھی نکاح کرو۔- یہ اللہ کے نزدیک بڑی سخت نافرمانی کی بات ہے جس پر زبردست گناہ ہے۔- یہ آیت طلحہ بن عبید اللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے (نزول حرمت سے قبل) انہوں نے حضور کے بعد حضرت عائشہ سے شادی کرنے کا ارادہ فرمایا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کی حرمت نازل فرمائی۔- شان نزول : يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا (الخ)- بخاری و مسلم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے حضرت زینب بنت جحش سے شادی کی تو لوگوں کو کھانے کے لیے بلایا۔ چناچہ سب کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھ کر باتیں کرنے لگے آپ اٹھنے کے لیے کچھ بےقرار ہوئے مگر پھر بھی وہ لوگ نہیں اٹھے مجبورا حضور خود کھڑے ہوگئے جب آپ اٹھ کھڑے ہوئے تو اور لوگ بھی اٹھ گئے مگر پھر بھی تین آدمی بیٹھے رہے۔ پھر کچھ دیر بعد وہ بھی چلے گئے۔ چناچہ میں نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ سب چلے گئے۔ چناچہ آپ آئے اور اندر تشریف لے گئے میں بھی اندر جانے لگا تو آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔- اور امام ترمذی نے تحسین کے ساتھ حضڑت انس سے روایت کی ہے فرماتے ہیں کہ میں رسول اکرم کے ساتھ تھا آپ اپنی ان زوجہ مطہرہ کے دروازے پر آئے جن سے شادی کی تھی وہاں آپ نے لوگوں کو بیٹھے ہوئے پایا آپ واپس تشریف لے گئے کچھ دیر بعد آپ لوٹ کر تشریف لائے تو وہ لوگ جا چکے تھے آپ نے میرے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا میں نے اس چیز کا ابو طلحہ سے ذکر کیا تو کہنے لگے ممکن ہے کچھ ایسا ہی ہوجائے جیسا تم کہتے تھے کہ ان عورتوں کے بارے میں کچھ حکم نازل ہوجائے چناچہ پردہ کا حکم نازل ہوگیا۔- اور امام طبرانی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں کہ میں رسول اکرم کے ساتھ ایک برتن میں کھایا کرتی تھی ایک مرتبہ حضرت عمر کا گزر ہوا آپ نے ان کو بلا لیا انہوں نے کھانا شروع کیا، کھانے کے دوران ان کی انگلی میری انگلی سے لگ گئی تو وہ کہنے لگے افسوس کاش تمہارے بارے میں میری بات پر عمل ہوتا تو کوئی آنکھ تمہیں نہ دیکھتی چناچہ فورا پردہ کا حکم نازل ہوگیا۔- اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص رسول اکرم کے پاس آیا اور دیر تک بیٹھا رہا۔ رسول اکرم تین مرتبہ اٹھ کر چلے تاکہ وہ بھی چل دے مگر اس نے ایسا نہ کیا اتنے میں حضرت عمر تشریف لائے اور رسول اکرم کے چہرہ انور پر ناگواری کے اثرات دیکھ کر اس شخص سے بولے کہ شاید تجھ کو رسول اکرم نے آنے کی اجازت دے دی ہے اس پر حضور بولے کہ میں تین مرتبہ اسی غرض سے کھڑا ہوا کہ ممکن ہے یہ بھی چل پڑے مگر اس نے پھر بھی ایسا نہیں کیا اس پر حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ پردہ لٹکا دیجیے کیونکہ آپ کی ازواج مطہرات دیگر تمام عورتوں کی طرح نہیں کیونکہ وہ زیادہ پاکیزہ دلوں والیاں ہیں۔ چناچہ پردہ کا حکم نازل ہوگیا۔- حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ دونوں واقعوں میں اس طرح مطابقت ممکن ہے کہ یہ واقعہ حضرت زینب کے شادی کے واقعہ سے پہلے واقع ہوا ہے اور قریب ہونے کی وجہ سے اس پر پردہ کے حکم کے نازل کا اطلاق کردیا گیا۔- اور پھر شان نزول کے متعدد ہونے میں بھی کوئی امر مانع نہیں اور ابن سعد نے محمد بن کعب سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم جب حجرہ مبارک میں جانے کے ارادہ سے کھڑے ہوتے تو سب آپ کے ساتھ ہو لیتے اور وہاں جاکر بیٹھ جاتے اور رسول اکرم کے چہرہ مبارک سے ناگواری کے اثرات نہ پہچان سکتے اور آپ حاضرین سے شرما کر کھانا تک تناول نہ فرماتے۔ چناچہ اس چیز کے بارے میں اللہ کی جانب سے ان پر غصہ کیا گیا کہ اے ایمان والو نبی کے گھروں میں مت جایا کرو۔- شان نزول : وَمَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُــؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ (الخ)- ابن ابی حاتم نے ابن زید سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم کو یہ بات پہنچی کہ فلاں شخص کہہ رہا ہے کہ رسول اکرم کے وصال کے بعد میں آپ کی فلاں بیوی سے شادی کرلوں گا اس پر یہ حکم نازل ہوا کہ تمہیں جائز نہیں کہ رسول اکرم کو تکلیف پہنچاؤ۔- نیز ابن عباس سے روایت کیا گیا ہے کہ یہ آیت اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے رسول اکرم کے بعد ازواج مطہرات میں سے کسی زوجہ مطہرہ کے ساتھ شادی کرنے کا ارادہ کیا تھا سفیان راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت عائشہ صدیقہ تھیں اور سدی سے روایت کیا گیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچتی ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ نے کہا کیا محمد ہم سے ہماری چچا زاد لڑکیوں کا پردہ کراتے اور ہماری عورتوں سے شادی کرتے ہیں اگر آپ کے ساتھ کوئی واقعہ پیش آیا تو ہم آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات سے شادی کرلیں گے اس پر یہ آیت مبارکہ نازل کی گئی۔- ابن سعد نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ جب رسول اکرم رحلت فرما جائیں گے تو میں حضرت عائشہ سے شادی کرلوں گا۔- اور جبیر ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص بعض ازواج مطہرات کے پاس آیا اور وہ ان کا چچا زاد بھائی تھا اور ان سے گفتگو کی رسول اکرم نے اس سے فرمایا کہ آج کے بعد اس جگہ پر مت کھڑے ہونا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اللہ کی قسم میں نے ان سے کوئی نازیبا بات نہیں کی اور نہ انہوں نے مجھ سے کی۔ حضور نے ارشاد فرمایا یہ تو میں نے سمجھ لیا باقی اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی غیرت مند نہیں اور اس کے بعد مجھ سے زیادہ کوئی غیرت والا نہیں۔ چناچہ وہ شخص چلا گیا اور کہنے لگا کہ میرے چچا کی لڑکی سے مجھے بات کرنے سے منع کرتے ہیں میں آپ کے بعد ان سے شادی کرلوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔- حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ پھر اس شخص نے اس کلمہ کی توبہ میں ایک غلام آزاد کیا اور دس مجاہد فی سبیل اللہ اونٹ دیے اور پیدل حج کیا اور جبیر نے بواسطہ ضحاک حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ عبدا اللہ بن ابی منافق اور اس کے کچھ ساتھ دینے والوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت لگائی تھی جس پر رسول اکرم نے خطبہ دیا کہ کون شخص ہے جو میری ایسے شخص سے معذرت کرتا ہے جو مجھے تکلیف پہنچاتا ہے اور اپنے گھر پر بھی ایسے لوگوں کو جمع کرتا ہے جو مجھے تکلیف پہنچاتے ہیں۔- امام بخاری نے حضرت عائشہ سے روایت کیا ہے فرماتی ہیں کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد حضرت سودہ اپنی حاجت کے لیے نکلیں یہ فربہ جسم کی تھیں جو ان کو دیکھنا چاہتا تھا اس سے چھپ نہیں سکتی تھیں۔ حضرت عمر نے ان کو دیکھ لیا تو کہنے لگے اے سودہ اللہ کی قسم تم لوگوں سے چھپ نہیں سکتیں تو تم گھر سے کیوں نکلتی ہو یہ سنتے ہی حضرت سودہ فورا واپس ہوگئی اور رسول اکرم میرے حجرہ میں تھے شام کا کھانا تناول فرما رہے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ہڈی تھی اتنے میں حضرت سودہ آئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی کسی حاجت کے لیے باہر نکلی تھی تو حضرت عمر نے مجھے ایسا ایسا کہا۔ حضرت عائشہ فرماتے ہیں اسی حالت میں آپ پر وحی آنا شروع ہوگئی اور ہڈی آپ کے ہاتھ میں تھی آپ نے اسے نیچے نہیں رکھا پھر وحی منقطع ہوئی تب آپ نے فرمایا کہ تمہیں اپنی ضروریات سے باہر نکلنے کی اجازت دے دی گئی۔- اور ابن سعد نے طبقات میں ابی بن مالک سے روایت کیا ہے کہ ازواج مطہرات رات کے وقت اپنی حاجت کے لیے باہر نکلا کرتی تھیں تو منافقین میں سے کچھ لوگ ان کے سامنے آجاتے جس سے ان کو تکلیف ہوا کرتی اس کی انہوں نے شکایت کی تو منافقین سے اس چیز کے بارے میں کہا گیا تو وہ کہنے لگے کہ ہم تو باندیوں کے ساتھ ایسا کرتے ہیں اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ یعنی اے پیغمبر اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے الخ پھر ابن سعد نے حسن اور محمد بن کعب قرظی سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
آیت ٥٣ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَـکُمْ اِلٰی طَعَامٍ ” اے اہل ِ ایمان مت داخل ہوجایا کرو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں میں مگر یہ کہ تمہیں کسی کھانے پر آنے کی اجازت دی جائے “- غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰـہُ ” نہ انتظار کرتے ہوئے کھانے کی تیاری کا “- اس حوالے سے سورة النور کا یہ حکم بھی یاد کرلیں : یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَہْلِہَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ” اے ایمان والو اپنے گھروں کے علاوہ دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو ‘ حتیٰ کہ مانوس ہو لو (بول چال کرلو) اور گھر والوں کو سلام کرلو ‘ یہ تمہارے لیے بہتر ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو “۔ یعنی اس وقت تک کسی کے گھر میں داخل مت ہوا کرو جب تک گھر والوں سے بات چیت کر کے انہیں اپنی پہچان نہ کرا لو۔ اس کے بعد سورة النور کی اگلی آیت (آیت ٢٨) میں حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْج (یہاں تک کہ تمہیں اجازت دے دی جائے) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ واضح رہے کہ سورة النور کا نزول سورة الاحزاب کے ایک سال بعد یعنی ٦ ہجری میں ہوا۔ گویا سب سے پہلے یہ حکم آیت زیر مطالعہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر کے لیے دیا گیا لیکن بعد میں سورة النور کی مذکورہ آیت میں اسے ایک عمومی حکم کا درجہ دے دیا گیا۔- وَلٰکِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا ” ہاں جب تمہیں بلایا جائے تب داخل ہوا کرو “- فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَلَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ ” پھر جب کھانا کھا چکو تو منتشر ہوجایا کرو اور باتوں میں لگے ہوئے بیٹھے نہ رہا کرو۔ “- یعنی اگر کھانے کے لیے بلایا جائے تو وقت سے پہلے ہی آکر نہ بیٹھ جایا کرو جب کہ ابھی کھانا تیار بھی نہ ہوا ہو۔ پھر جب کھانا کھالو تو فوراً وہاں سے اٹھ جایا کرو اور وہاں ڈیرہ جما کر نہ بیٹھے رہا کرو کہ اب باہم گفتگو کریں گے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی باتیں بھی سنیں گے۔- اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ ” تمہاری یہ باتیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تکلیف کا باعث تھیں “- ظاہر ہے اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں آکر بیٹھ جائے اور اٹھنے کا نام نہ لے تو گھر والوں کو تکلیف تو ہوگی۔ مگر اس حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکلیف کا ایک خصوصی پہلو یہ بھی تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جن گھروں کا یہاں ذکر ہو رہا ہے وہ دراصل چھوٹے چھوٹے حجرے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملنے کے لیے آجاتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے حجرئہ مبارک کے اندر بلا لیتے تو جب تک وہ چلا نہ جاتاحضرت عائشہ (رض) چادر اوڑھے چہرہ دیوار کی طرف کیے بیٹھی رہتیں۔ بہر حال ان حجروں کے اندر اتنی جگہ نہیں تھی کہ وہاں غیر محرم مرد محفل جما کر بیٹھتے ۔- فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ وَاللّٰہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ ” مگر وہ (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) آپ لوگوں سے جھجک محسوس کرتے ہیں ‘ اور اللہ حق (بیان کرنے) سے نہیں جھجکتا۔ “- گھروں کے اندر لوگوں کے تا دیر بیٹھنے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف تو ہوتی تھی مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مروّت اور شرافت میں انہیں جانے کا نہیں فرماتے تھے۔- وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ” اور جب تمہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو۔ “- قرآن حکیم میں اس مقام پر لفظ ” حجاب “ پہلی بار آیا ہے اور یہ حجاب سے متعلق احکام کے سلسلے کا پہلا حکم ہے ‘ جس کا منشا یہ ہے کہ آئندہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے جائیں اور اگر کسی غیر محرم مرد کو امہات المومنین (رض) میں سے کسی سے کوئی کام ہو وہ رُو در رُو نہیں بلکہ پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر بات کرے ۔ - ۔ اس آیت کو ” آیت حجاب “ کہا جاتا ہے ۔ - ۔ اس حکم کے بعد ازواجِ مطہرات (رض) کے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے ‘ اور چونکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی مسلمانوں کے لیے اُسوئہ حسنہ تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا ‘ چناچہ تمام مسلمانوں کے گھروں کے دروازوں پر بھی پردے لٹک گئے۔- ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ ” یہ طرز عمل زیادہ پاکیزہ ہے تمہارے دلوں کے لیے بھی اور ان (رض) کے دلوں کے لیے بھی۔ “- مرد اور عورت کے درمیان ایک دوسرے کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو کشش رکھی ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے بہتر طریقہ یہی ہے کہ غیر محرم مردوں کا غیر محرم عورتوں کے ساتھ آمنا سامنا نہ ہو۔- وَمَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ” اور تمہارے لیے جائز نہیں ہے کہ تم اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچائو “- یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی سمجھ لیں کہ اگرچہ معاشرتی اصلاحات کے بارے میں یہ احکام عمومی نوعیت کے ہیں لیکن ان اصلاحات کا آغاز خصوصی طور پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر سے کیا جا رہا ہے۔ اس کا ایک سبب تو وہی ہے جس کا حوالہ انگریزی ضرب المثل میں دیا گیا ہے کہ اچھے کام کی ابتدا اپنے گھر سے ہونی چاہیے۔ جبکہ دوسری طرف ان اقدامات کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات سے منسوب کر کے منافقین کی شرارتوں کے راستے بند کرنا بھی مقصود تھا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر والوں کے حوالے سے ہر وقت تاک میں رہتے تھے کہ انہیں کوئی بات ہاتھ آئے اور وہ اس کا بتنگڑ بنائیں۔- وَلَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْم بَعْدِہٖٓ اَبَدًا ” اور نہ یہ (جائز ہے) کہ تم نکاح کرو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کبھی بھی۔ “- ازواجِ مطہرات (رض) کے خصوصی تقدس کا ذکر قبل ازیں آیت ٦ میں وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْط (اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویاں اہل ایمان کی مائیں ہیں) کے الفاظ میں بھی آچکا ہے ‘ مگر یہاں پر صراحت کے ساتھ اس تقدس کو باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی گئی۔ دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت ٥٠ میں طلاق کا اختیار استعمال کرنے سے منع کرنے میں بھی یہی حکمت تھی کہ خدانخواستہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی کسی زوجہ محترمہ کو طلاق دیتے تو وہ کسی اور سے نکاح نہیں کرسکتی تھیں۔ اور طلاق کی گنجائش نہ ہونے ہی کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ازواج کی تعداد کے معاملے میں خصوصی رعایت دی گئی۔- اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمًا ” یقینا اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے۔ “- چناچہ اگر کسی خبیث کی نیت میں کہیں کوئی فتور جنم لے رہا تھا تو اس پر واضح ہوجائے کہ یہ دروازہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہوگیا ہے۔
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :95 یہ اس حکم عام کی تمہید ہے جو تقریباً ایک سال کے بعد سُورۂ نور کی آیت ۲۷ میں دیا گیا ۔ قدیم زمانے میں اہل عرب بے تکلف ایک دوسرے کے گھروں میں چلے جاتے تھے ۔ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص سے ملنا ہوتا تو وہ دروازے پر کھڑے ہو کر پکارنے اور اجازت لے کر اندر جانے کا پابند نہ تھا ۔ بلکہ اندر جا کر عورتوں اور بچوں سے پوچھ لیتا تھا کہ صاحب خانہ گھر میں ہے یا نہیں ۔ یہ جاہلانہ طریقہ بہت سی خرابیوں کا موجب تھا ۔ اور بسا اوقات اس سے بہت گھناؤنے اخلاقی مفاسد کا بھی آغاز ہو جاتا تھا ۔ اس لیے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ کوئی شخص ، خواہ وہ قریبی دوست یا دور پرے کا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں اجازت کے بغیر داخل نہ ہو ۔ پھر سُورۂ نور میں اس قاعدے کو تمام مسلمانوں کے گھروں میں رائج کرنے کا عام حکم دیدیا گیا ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :96 یہ اس سلسلے کا دوسرا حکم ہے ۔ جو غیر مہذب عادات اہل عرب میں پھیلی ہوئی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ کسی دوست یا ملاقاتی کے گھر کھانے کا وقت تاک کر پہنچ جاتے ۔ یا اس کے گھر آ کر بیٹھے رہتے یہاں تک کہ کھانے کا وقت ہو جائے ۔ اس حرکت کی وجہ سے صاحب خانہ اکثر عجیب مشکل میں پڑ جاتا تھا ۔ منہ پھوڑ کر کہے کہ میرے کھانے کا وقت ہے ، آپ تشریف لے جایئے ، تو بے مروتی ہے ۔ کھلائے تو آخر اچانک آئے ہوئے کتنے آدمیوں کو کھلائے ۔ ہر وقت ہر آدمی کے بس میں یہ نہیں ہوتا کہ جب جتنے آدمی بھی اس کے ہاں آ جائیں ، ان کے کھانے کا انتظام فوراً کر لے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس بیہودہ عادت سے منع فرمایا اور حکم دے دیا کہ کسی شخص کے گھر کھانے کے لیے اس وقت جانا چاہیے جبکہ گھر والا کھانے کی دعوت دے ۔ یہ حکم صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے لیے خاص نہ تھا بلکہ اس نمونے کے گھر میں یہ قواعد اسی لیے جاری کیے گئے تھے کہ وہ مسلمانوں کے ہاں عام تہذیب کے ضابطے بن جائیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :97 یہ ایک اور بیہودہ عادت کی اصلاح ہے ۔ بعض لوگ کھانے کی دعوت میں بلائے جاتے ہیں تو کھانے سے فارغ ہو جانے کے بعد دھرنا مار کر بیٹھ جاتے ہیں اور آپس میں گفتگو کا ایسا سلسلہ چھیڑ دیتے ہیں جو کسی طرح ختم ہونے میں نہیں آتا ۔ انہیں اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ صاحب خانہ اور گھر کے لوگوں کو اس سے کیا زحمت ہوتی ہے ۔ ناشائستہ لوگ اپنی اس عادت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تنگ کرتے رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اخلاق کریمانہ کی وجہ سے اس کو برداشت کرتے تھے ۔ آخر کار حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمے کے روز یہ حرکت اذیت رسانی کی حد سے گزر گئی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رات کے وقت ولیمے کی دعوت تھی ۔ عام لوگ تو کھانے سے فارغ ہو کر رخصت ہو گئے ، مگر دو تین حضرات بیٹھ کر باتیں کرنے میں لگ گئے ۔ تنگ آ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ازواج مطہرات کے ہاں ایک چکر لگایا ۔ واپس تشریف لائے تو دیکھا کہ وہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر پلٹ گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جا بیٹھے ۔ اچھی خاصی رات گزر جانے پر جب آپ کو معلوم ہوا کہ وہ چلے گئے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے مکان میں تشریف لائے ۔ اس کے بعد ناگزیر ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ خود ان بری عادات پر لوگوں کو متنبہ فرمائے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق یہ آیات اسی موقع پر نازل ہوئی تھیں ۔ ( مسلم ۔ نَسائی ۔ ابنِ جریر ) سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :98 یہی آیت ہے جس کو آیت حجاب کہا جاتا ہے ۔ بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آیت کے نزول سے پہلے متعدد مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کر چکے تھے کہ یا رسول اللہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں بھلے اور برے سب ہی قسم کے لوگ آتے ہیں ۔ کاش آپ اپنی ازواج مطہرات کو پردہ کرنے کا حکم دے دیتے ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ازواج رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ کے حق میں میری بات مانی جائے تو کبھی میری نگاہیں آپ کو نہ دیکھیں ۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ قانون سازی میں خود مختار نہ تھے ، اس لیے آپ اشارۂ الٰہی کے منتظر رہے ۔ آخر یہ حکم آگیا کہ محرم مردوں کے سوا ( جیسا کہ آگے آیت ۵۵ میں آ رہا ہے ) کوئی مرد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں نہ آئے ، اور جس کو بھی خواتین سے کوئی کام ہو وہ پردے کے پیچھے سے بات کرے ۔ اس حکم کے بعد ازواج مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے ، اور چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا ، اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے ۔ آیت کا آخری فقرہ خود اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی مردوں اور عورتوں کے دل پاک رکھنا چاہیں انہیں یہ طریقہ اختیار کرنا چاہئے ۔ اب جس شخص کو بھی خدا نے بینائی عطا کی ہے وہ خود دیکھ سکتا ہے کہ جو کتاب مردوں کو عورتوں سے رو در رو بات کرنے سے روکتی ہے ، اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی مصلحت یہ بتاتی ہے کہ تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے اس میں سے آخر یہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مردوں اور عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کسی کو قرآن کی پیروی نہ کرنی ہو تو اس کے لیے زیادہ معقول طریقہ یہ ہے کہ وہ خلاف ورزی کرے اور صاف صاف کہے کہ میں اس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا ۔ لیکن یہ تو بڑی ہی ذلیل حرکت ہے کہ وہ قرآن کے صریح احکام کی خلاف ورزی بھی کرے اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ یہ بھی کہے کہ یہ اسلام کی روح ہے جو میں نے نکال لی ہے ۔ آخر وہ اسلام کی کونسی روح ہے جو قرآن و سنت کے باہر کسی جگہ ان لوگوں کو مل جاتی ہے ؟ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :99 یہ اشارہ ہے ان الزام تراشیوں کی طرف جو اس زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کی جا رہی تھیں اور کفار و منافقین کے ساتھ بعض ضعیف الایمان مسلمان بھی ان میں حصہ لینے لگے تھے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :100 یہ تشریح ہے اس ارشاد کی جو آغاز سُورہ میں گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اہل ایمان کی مائیں ہیں ۔
44: ان آیات میں معاشرت کے کچھ آداب بتائے گئے ہیں اور یہ آیات اس وقت نازل ہوئیں جب حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت زینب (رض) کے ساتھ نکاح کے موقع پر ولیمے کا اہتمام فرمایا، اس وقت کچھ حضرات کھانے کے وقت سے کافی پہلے آبیٹھے جبکہ ابھی کھانا تیار نہیں ہوا تھا، اور کچھ حضرات کھانے کے بعد دیر تک آپ کے مکان مبارک میں بیٹھے باتیں کرتے رہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، اور ان حضرات کے دیر تک بیٹھے رہنے کی وجہ سے آپ کو ان کے ساتھ مشغول رہنا پڑا، جس سے آپ کو تکلیف ہوئی، یہ واقعہ تو چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ پیش آیا تھا، اس لئے اس آیت میں آپ کے گھروں کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے، لیکن ان آیتوں کے احکام عام ہیں، ادب یہ سکھایا گیا ہے کہ اول تو کسی کے گھر میں بلا اجازت جانا منع ہے، دوسرے اگر کسی نے کھانے کی دعوت کی ہے تو کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے جس سے میزبان کو تکلیف ہو، چنانچہ کھانے کے وقت سے بہت پہلے جا بیٹھنا یا کھانے کے بعد دیر تک بیٹھے رہنا، جس سے میز بان کی آزادی میں خلل آئے، اسلامی تہذیب کے خلاف ہے۔ 45: اسلامی معاشرت کا یہ دوسرا حکم ہے اور اس کے ذریعے خواتین کے لئے پردہ واجب کیا گیا ہے، یہاں اگرچہ براہ راست خطاب ازواج مطہرات کو ہے لیکن حکم عام ہے جیسا کے آگے آیت نمبر ٥٩ میں اس کی صراحت آرہی ہے۔