Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

صلوۃ و سلام کی فضیلت ۔ صحیح بخاری شریف میں حضرت ابو العالیہ سے مروی ہے کہ اللہ کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا اپنے فرشتوں کے سامنے آپ کی ثناء و صفت کا بیان کرنا ہے اور فرشتوں کا درود آپ کے لئے دعا کرنا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یعنی برکت کی دعا ۔ اکثر اہل علم کا قول ہے کہ اللہ کا درود رحمت ہے فرشتوں کا درود استغفار ہے ۔ عطا فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کی صلوۃ سبوح قدوس سبقت رحمتی غضبی ہے ۔ مقصود اس آیت شریفہ سے یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قدر و منزلت عزت و مرتبت لوگوں کی نگاہوں میں جچ جائے وہ جان لیں کہ خود اللہ تعالیٰ آپ کا ثناء خواں ہے اور اس کے فرشتے آپ پر درود بھیجتے رہتے ہیں ۔ ملاء اعلیٰ کی یہ خبر دے کر اب زمین والوں کو حکم دیتا ہے کہ تم بھی آپ پر درود و سلام بھیجا کرو تاکہ عالم علوی اور عالم سفلی کے لوگوں کا اس پر اجتماع ہو جائے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل نے پوچھا تھا کہ کیا اللہ تم پر صلوۃ بھیجتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ ان سے کہدو کہ ہاں اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں پر رحمت بھیجتا رہتا ہے ۔ اسی کی طرف اس آیت میں بھی اشارہ ہے دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ یہی رحمت اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر بھی نازل فرماتا ہے ارشاد ہے ۔ ( هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ وَمَلٰۗىِٕكَتُهٗ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ۭ وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا 43؀ ) 33- الأحزاب:43 ) ، یعنی اے ایمان والو تم اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرتے رہا کرو اور صبح شام اس کی تسبیح بیان کیا کرو وہ خود تم پر درود بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی اور کہا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم آپ پر سلام کہنا تو جانتے ہیں درود سکھا دیجئے تو آپ نے فرمایا یوں کہو ( اللھم اجعل صلواتک ورحمتک وبرکاتک علی محمد وعلی ال محمد کما جعلتھا علی ابراہیم وال ابراہیم انک حمید مجید ) اس کا ایک راوی ابو داؤد اعمیٰ جس کا نام نفیع بن حارث ہے وہ متروک ہے ۔ حضرت علی سے لوگوں کو اس دعا کا سکھانا بھی مروی ہے ۔ ( اللھم داحی المدحوات وباری المسموکات وجبار القلوب علی فطر تھا شقیتھا وسعیدھا اجعل شرائف صلواتک ونواحی برکاتک وفضائل الائک علی محمد عبدک و رسولک الفاتح لما اغلق والخاتم لما سبق والمعلن الحق بالحق والدامغ لجیشات الاباطیل کما حمل فاضطلع بامرک بطاعتک مستوفزا فی مرضاتک غیر نکل فی قدم ولا وھن فی عزم واعیا لوحیک حافظا لعھدک ماضیا علی نفاذ أمرک حتی اوریٰ قبسا لقباس الاء اللہ تصل باھلہ اسبابہ بہ ھدیت القلوب بعد خوضات الفتن والاثم وابھج موضحات الاعلام ونائرات الاحکام ومنیرات الاسلام فھو امینک المامون وخازن علمک المخزون وشھیدک یوم الدین وبعیثک نعمتہ و رسولک بالحق رحمتہ اللھم افسح لہ فی عدنک واجزہ مضاعفات الخیر من فضلک لہ مھنات غیر مکدرات من فوز ثوابک المعلول وجزیل عطائک المحلول اللھم أعل علی بناء الناس بناءہ واکرم مثواہ لدیک ونزلہ واثمم لہ نورہ واجزہ من ابطغائک لہ مقبول الشھادۃ مرضی المقالتہ ذا منطق عدل وخطتہ فصل وحجتہ وبرھان عظیم ) مگر اس کی سند ٹھیک نہیں اس کا راوی ابو الحجاج مزی سلامہ کندی نہ تو معروف ہے نہ اس کی علامات حضرت علی سے ثابت ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں جب تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تو بہت اچھا درود پڑھا کرو ۔ بہت ممکن ہے کہ تمہارا یہ درود حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کیا جائے ۔ لوگوں نے کہا پھر آپ ہی ہمیں کوئی ایسا درود سکھائیے آپ نے فرمایا بہتر ہے یہ پڑھو ( اللھم اجعل صلوتک ورحمتک وبرکاتک علی سید المرسلین وامام المتقین وخاتم النبیین محمد عبدک و رسولک امام الخیر وقائد الخیر و رسول الرحمۃ اللھم ابعثہ مقاما محمودا یغبطہ بہ الاولون ولاخرون ) اس کے بعد التحیات کے بعد کے دونوں درود ہیں ۔ یہ روایت بھی موقف ہے ۔ ابن جریر کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت یونس بن خباب نے اپنے فارس کے ایک خطبے میں اس آیت کی تلاوت کی ۔ پھر لوگوں کے درود کے طریقے کے سوال کو بیان فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں وارحم محمدا وال محمد کما رحمت ال ابراہیم کو بھی بیان فرمایا ہے ۔ اس سے یہ بھی استدلال کیا گیا ہے کہ آپ کے لئے رحم کی دعا بھی ہے ۔ جمہور کا یہی مذہب ہے ۔ اس کی مزید تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ ایک اعربی نے اپنی دعا میں کہا تھا اے اللہ مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر رحم کر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کر تو آپ نے اسے فرمایا تو نے بہت ہی زیادہ کشادہ چیز تنگ کر دی ۔ قاضی عیاض نے جمہور مالکیہ سے اس کا عدم جواز نقل کیا ہے ۔ ابو محمد بن ابو زید بھی اس کے جواز کی طرف گئے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تک کوئی شخص مجھ پر درد بھیجتا رہتا ہے تب تک فرشتے بھی اس کے لئے دعا رحم کرتے رہتے ہیں ۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ کمی کرو یا زیادتی کرو ۔ ( ابن ماجہ ) فرماتے ہیں سب سے قریب روز قیامت مجھ سے وہ ہو گا جو سب سے زیادہ مجھ پر درود پڑھا کرتا تھا ۔ ( ترمذی ) فرمان ہے مجھ پر جو ایک مرتبہ درود بھیجے اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں بھیجتا ہے اس پر ایک شخص نے کہا پھر میں اپنی دعا کا آدھا وقت درود میں ہی خرچ کروں گا ۔ فرمایا جیسی تیری مرضی اس نے کہا پھر میں دو تہائیاں کرلوں؟ آپ نے فرمایا اگر چاہے اس نے کہا پھر تو میں اپنا سارا وقت اس کے لئے ہی کر دیتا ہوں آپ نے فرمایا اس وقت اللہ تعالیٰ تجھے دین و دنیا کے غم سے نجات دے دے گا اور تیرے گناہ معاف فرما دے گا ۔ ( ترمذی ) ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ آدھی رات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلتے اور فرماتے ہیں ہلا دینے والی آرہی ہے اور اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی بھی ہے ۔ حضرت ابی نے ایک مرتبہ کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں رات کو کچھ نماز پڑھا کرتا ہوں ۔ تو اس کا تہائی حصہ آپ پر درود پڑھتا رہوں؟ آپ نے فرمایا آدھا حصہ ۔ انہوں نے کہا کہ آدھا کرلوں ؟ فرمایا دو تہائی کہا اچھا میں پورا وقت اسی میں گذاروں گا ۔ آپ نے فرمایا تب تو اللہ تیرے تمام گناہ معاف فرما دے گا ( ترمذی ) اسی روایت کی ایک اور سند میں ہے دو تہائی رات گذرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اللہ کی یاد کرو ۔ لوگو ذکر الٰہی کرو ۔ دیکھو کپکپا دینے والی آ رہی ہے اور اس کے پیچھے ہی پیچھے لگنے والی آ رہی ہے ۔ موت اپنے ساتھ کی کل مصیبتوں اور آفتوں کو لئے ہوئے چلی آ رہی ہے ۔ حضرت ابی نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ پر بکثرت درود پڑھتا ہوں پس کتنا وقت اس میں گذاروں؟ آپ نے فرمایا جتنا تو چاہے ۔ کہا چوتھائی؟ فرمایا جتنا چاہو اور زیادہ کرو تو اور اچھا ہے ۔ کہا آدھا تو یہی جواب دیا پوچھا دو تہائی تو یہی جواب ملا ۔ کہا تو بس میں سارا ہی وقت اس میں گذاروں گا فرمایا پھر اللہ تعالیٰ تجھے تیرے تمام ہم و غم سے بچا لے گا اور تیرے گناہ معاف فرما دے گا ۔ ( ترمذی ) ایک شخص نے آپ سے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں اپنی تمام تر صلوۃ آپ ہی پر کر دوں تو؟ آپ نے فرمایا دنیا اور آخرت کے تمام مقاصد پورے ہو جائیں گے ( مسند احمد ) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف فرماتے ہیں آپ ایک مرتبہ گھر سے نکلے ۔ میں ساتھ ہو لیا آپ کھجوروں کے ایک باغ میں گئے وہاں جا کر سجدے میں گر گئے اور اتنا لمبا سجدہ کیا ، اس قدر دیر لگائی کہ مجھے تو یہ کھٹکا گذرا کہ کہیں آپ کی روح پرواز نہ کر گئی ہو ۔ قریب جا کر غور سے دیکھنے لگا اتنے میں آپ نے سر اٹھایا مجھ سے پوچھا کیا بات ہے؟ تو میں نے اپنی حالت ظاہر کی ۔ فرمایا بات یہ تھی کہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ سے فرمایا تمہیں بشارت سناتا ہوں کہ جناب باری عزاسمہ فرماتا ہے جو تجھ پر درود بھیجے گا میں بھی اس پر درود بھیجوں گا اور جو تجھ پر سلام بھیجے گا میں بھی اس پر سلام بھیجوں گا ۔ ( مسند احمد بن حنبل ) اور روایت میں ہے کہ یہ سجدہ اس امر پر اللہ کے شکریے کا تھا ۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام کے لئے نکلے کوئی نہ تھا جو آپ کے ساتھ جاتا تو حضرت عمر صلی اللہ علیہ وسلم عنہ جلدی سے پیچھے پیچھے گئے ۔ دیکھا کہ آپ سجدے میں ہیں ، دور ہٹ کر کھڑے ہوگئے ۔ آپ نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھ کر فرمایا تم نے یہ بہت اچھا کیا کہ مجھے سجدے میں دیکھ کر پیچھے ہٹ گئے ۔ سنو میرے پاس جبرائیل آئے اور فرمایا آپ کی امت میں سے جو ایک مرتبہ آپ پر درود بھیجے گا ۔ اللہ اس پر دس رحمتیں اتارے گا اور اس کے دس درجے بلند کرے گا ۔ ( طبرانی ) ایک مرتبہ آپ اپنے صحابہ کے پاس آئے ۔ چہرے سے خوشی ظاہر ہو رہی تھی ۔ صحابہ نے سبب دریافت کیا تو فرمایا ایک فرشتے نے آ کر مجھے یہ بشارت دی کہ میرا امتی جب مجھ پر درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ کی دس رحمتیں اس پر اتریں گی ۔ اسی طرح ایک سلام کے بدلے دس سلام ( نسائی ) اور روایت میں ہے کہ ایک درود کے بدلے دس نیکیاں ملیں گی ، دس گناہ معاف ہوں گے ، دس درجے بڑھیں گے اور اسی کے مثل اس پر لوٹایا جائے گا ( مسند ) جو شخص مجھ پر ایک درود بھیجے گا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا ( مسلم وغیرہ ) فرماتے ہیں مجھ پر درود بھیجا کرو وہ تمہارے لئے زکوٰۃ ہے اور میرے لئے وسیلہ طلب کیا کرو وہ جنت میں ایک اعلیٰ درجہ ہے جو ایک شخص کو ہی ملے گا کیا عجب کہ وہ میں ہی ہوں ( احمد ) حضرت عبد اللہ بن عمرو کا قول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وسلم پر جو درود بھیجتا ہے اللہ اور اس کے فرشتے اس پر ستر درود بھیجتے ہیں ۔ اب جو چاہے کم کرے اور جو چاہے اس میں زیادتی کرے سنو ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے ایسے کہ گویا کوئی کسی کو رخصت کر رہا ہو ۔ تین بار فرمایا کہ میں امی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ مجھے نہایت کھلا بہت جامع اور ختم کر دینے والا کلام دیا گیا ہے ۔ مجھے جہنم کے داروغوں کی عرش کے اٹھانے والوں کی گنتی بتا دی گئی ہے ۔ مجھ پر خاص عنایت کی گئی ہے اور مجھے اور میری امت کو عافیت عطا فرمائی گئی ہے ۔ جب تک میں تم میں موجود ہوں سنتے اور مانتے رہو ۔ جب مجھے میرا رب لے جائے تو تم کتاب اللہ کو مضبوط تھامے رہنا اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھنا ۔ ( مسند احمد ) فرماتے ہیں جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اسے چاہئے کہ مجھ پر درود بھیجے ۔ ایک مرتبہ کے درود بھیجنے سے اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔ ( ابوداؤد طیالسی ) ایک درود دس رحمتیں دلواتا ہے اور دس گناہ معاف کراتا ہے ( مسند ) بخیل ہے وہ جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ پڑھا ۔ ( ترمذی ) اور روایت میں ہے ایسا شخص سب سے بڑا بخیل ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں ہے انسان کو یہ بخل کافی ہے کہ میرا نام سن کر درود نہ پڑھے ۔ فرماتے ہیں وہ شخص برباد ہوا جس کے پاس میرا ذکر کیا گیا اور اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا ۔ وہ برباد ہوا جس کی زندگی میں رمضان آیا اور نکل جانے تک اس کے گناہ معاف نہ ہوئے ۔ وہ بھی برباد ہوا جس نے اپنے ماں باپ کے بڑھاپے کے زمانے کو پا لیا پھر بھی انہوں نے اسے جنت میں نہ پہنچایا ۔ ( ترمذی ) یہ حدیثیں دلیل ہیں اس امر پر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنا واجب ہے ۔ علماء کی ایک جماعت کا بھی یہی قول ہے ۔ جیسے طحاوی حلیمی وغیرہ ۔ ابن ماجہ میں ہے جو مجھ پر درود پڑھنا بھول گیا اس نے جنت کی راہ سے خطا کی ۔ یہ حدیث مرسل ہے ۔ لیکن پہلی احادیث سے اس کی پوری تقویت ہو جاتی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں مجلس میں ایک دفعہ تو واجب ہے پھر مستحب ہے ۔ چنانچہ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اللہ کے ذکر اور درود کے بغیر اٹھ کھڑے ہوں وہ مجلس قیامت کے دن ان پر وبال ہو جائے گی ۔ اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب کرے چاہے معاف کر دے اور روایت میں ذکر اللہ کا ذکر نہیں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ گو وہ جنت میں جائیں لیکن محرومی ثواب کے باعث انہیں سخت افسوس رہے گا ۔ بعض کا قول ہے کہ عمر بھر میں ایک مرتبہ آپ پر درود واجب ہے پھر مستحب ہے تاکہ آیت کی تعمیل ہو جائے ۔ قاضی عیاض نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے وجوب کو بیان فرما کر اسی قول کی تائید کی ہے ۔ لیکن طبری فرماتے ہیں کہ آیت سے تو استحاب ہی ثابت ہوتا ہے اور اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ ان کا مطلب بھی یہی ہو کہ ایک مرتبہ واجب پھر مستحب جیسے آپ کی نبوت کی گواہی ۔ لیکن میں کہتا ہوں بہت سے ایسے اوقات ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کا ہمیں حکم ملا ہے لیکن بعض وقت واجب ہے اور بعض جگہ واجب نہیں ۔ چنانچہ ( 1 ) اذان سن کر ۔ دیکھئے مسند کی حدیث میں ہے جب تم اذان سنو تو جو موذن کہہ رہا ہو تم بھی کہو پھر مجھ پر درود بھیجو ایک کے بدلے دس درود اللہ تم پر بھیجے گا پھر میرے لئے وسیلہ مانگو جو جنت کی ایک منزل ہے اور ایک ہی بندہ اس کا مستحق ہے مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں سنو جو میرے لئے وسیلہ کی دعا کرتا ہے اس کے لئے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے ۔ پہلے درود کے زکوٰۃ ہونے کی حدیث میں بھی اس کا بیان گذر چکا ہے ۔ فرمان ہے کہ جو شخص درود بھیجے اور کہے اللھم انزلہ المقعد المقرب عندک یوم القیامتہ اس کے لئے میری شفاعت قیامت کے دن واجب ہو جائے گی ۔ ( مسند ) ابن عباس سے یہ دعا منقول ہے ( 2 ) مسجد میں جانے اور مسجد سے نکلنے کے وقت ۔ چنانچہ مسند میں ہے ۔ حضرت فاطمہ فرماتی ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں جاتے تو درود و سلام پڑھ کر اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب رحمتک پڑھتے اور جب مسجد سے نکلتے تو درود و سلام کے بعد اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابو اب رحمتک پڑھتے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کافرمان ہے جب مسجدوں میں جاؤ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا کرو ۔ ( 3 ) نماز کے آخری قعدہ میں التحیات کا دورد ۔ اس کی بحث پہلی گذر چکی ۔ ہاں اول تشہد میں اسے کسی نے واجب نہیں کہا ۔ البتہ مستحب ہونے کا ایک قول شافعی کا ہے ۔ گو دوسرا قول اس کے خلاف بھی انہی سے مروی ہے ۔ ( 4 ) جنازے کی نماز میں آپ پر درود پڑھنا ۔ چنانچہ سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ پڑھے ۔ دوسری میں درود پڑھ ۔ تیسری میں میت کے لئے دعا کرے چوتھی میں اللھم لاتحرمنا اجرہ ولاتفتنا بعدہ الخ ، پڑھے ۔ ایک صحابی کا قول ہے کہ مسنون نماز جنازہ یوں ہے کہ امام تکبیر کہہ کر آہستہ سلام پھیر دے ۔ ( نسائی ) ( 5 ) عید کی نماز میں ۔ حضرت ابن مسعود ، حضرت ابو موسیٰ اور حضرت حذیفہ کے پاس آ کر ولید بن عقبہ کہتا ہے عید کا دن ہے بتلاؤ تکبیروں کی کیا کفیت ہے؟ عبد اللہ نے فرمایا تکبیر تحریمہ کہہ کر اللہ کی حمد کر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر دود بھیج دعا مانگ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر ۔ پھر تکبیر کہہ کر یہی کر پھر قرأت کر پھر تکبیر کہہ کر رکوع کر پھر کھڑا ہو کر پڑھ اور اپنے رب کی حمد بیان کر اور حضور پر صلوۃ پڑھ اور دعا کر اور تکبیر کہہ اور اسی طرح کر پھر رکوع میں جا ۔ حضرت حذیفہ اور حضرت ابو موسیٰ نے بھی اس کی تصدیق کی ۔ ( 6 ) دعا کے خاتمے پر ۔ ترمذی میں حضرت عمر کا قول ہے کہ دعا آسمان و زمین میں معلق رہتی ہے یہاں تک کہ تو درود پڑھے تب چڑھتی ہے ۔ ایک روایت مرفوع بھی اسی طرح کی آئی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ دعا کے اول میں ، درمیان میں اور آخر میں درود پڑھ لیا کرو ۔ ایک غریب اور ضعیف حدیث میں ہے کہ مجھے سوار کے پیالے کی طرح نہ کر لو کہ جب وہ اپنی تمام ضروری چیزیں لے لیتا ہے تو پانی کا کٹورہ بھی بھر لیتا ہے اگر وضو کی ضرورت پڑی تو وضو کر لیا ، پیاس لگی تو پانی پی لیا ورنہ پانی بہاد دیا ۔ دعا کی ابتداء میں دعا کے درمیان میں اور دعا کے آخر میں مجھ پر درود پڑھا کرو ۔ خصوصاً دعائے قنوت میں درود کی زیادہ تاکید ہے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ کلمات سکھائے جنہیں میں وتروں میں پڑھا کرتا ہوں ۔ اللھم اھدنی فیمن ھدیت وعافنی فیمن عافیت وتولنیفیمن تولیت وبارک لی فیما اعطیت وقنی شر ماقضیت فانک تقضی ولا یقضی علیک انہ لا یذل من والیت ولا یعز من عادیت تبارکت ربنا وتعالیت ( اہل السنن ) نسائی کی روایت میں آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں ۔ وصل اللہ علی النبی ( 7 ) جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات میں ۔ مسند احمد میں ہے سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے ، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے ، اسی میں قبض کئے گئے ، اسی میں نفحہ ہے ، اسی میں بیہوشی ہے ۔ پس تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو ۔ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ صحابہ نے پوچھا آپ تو زمین میں دفنا دیئے گئے ہوں گے پھر ہمارے درود آپ پر کیس پیش کئے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا ۔ ابو داؤد نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ابن ماجہ میں ہے جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھو اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ جب کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ فارغ ہو پوچھا گیا موت کے بعد بھی؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا گلانا سڑانا حرام کر دیا ہے نبی اللہ زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں ۔ یہ حدیث غریب ہے اور اس میں انتقطاع ہے ۔ عبادہ بن نسی نے حضرت ابو الدرداء کو پایا نہیں ۔ واللہ اعلم ۔ بیہقی میں بھی حدیث ہے کہ جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات مجھ پر بکثرت درود بھیجو لیکن وہ بھی ضعیف ہے ۔ ایک روایت میں ہے اس کا جسم زمین نہیں کھاتی جس سے روح القدس نے کلام کیا ہو ۔ لیکن یہ حدیث مرسل ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں بھی جمعہ کے دن اور رات میں درود کی کثرت کا حکم ہے ۔ ( 8 ) اسی طرح خطیب پر بھی دونوں خطبوں میں درود و واجب ہے اس کے بغیر صحیح نہ ہوں گے اس لئے کہ یہ عبادت ہے اور اس میں ذکر اللہ واجب ہے پس ذکر رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی واجب ہو گا ۔ جیسے اذان و نماز شافعی اور احمد کا یہی مذہب ہے ( 9 ) آپ کی قبر شریف کی زیارت کے وقت ابو داؤد میں ہے جو مسلمان مجھ پر سلام پڑھتا ہے ۔ اللہ میری روح کو لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دوں ۔ ابو داؤد میں ہے اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ میری قبر پر عرس میلہ نہ لگاؤ ۔ ہاں مجھ پر درود پڑھو گو تم کہیں بھی ہولیکن تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے ۔ قاضی اسماعیل بن اسحاق اپنی کتاب فضل الصلوۃ میں ایک روایت لائے ہیں کہ ایک شخص ہر صبح روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آتا تھا اور درود سلام پڑھتا تھا ۔ ایک دن اس سے حضرت علی بن حسین بن علی نے کہا تم روز ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام کرنا مجھے بہت مرغوب ہے ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں ایک حدیث سناؤں میں نے اپنے باپ سے انہوں نے میرے دادا سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ میری قبر کو عید نہ بناؤ ۔ نہ اپنے گھروں کو قبریں بناؤ جہاں کہیں تم ہو وہیں سے مجھ پر درود و سلام بھیجو وہ مجھے پہنچ جاتے ہیں ۔ اس کی اسناد میں ایک راوی مبہم ہے جس کا نام مذکور نہیں اور سند سے یہ روایت مرسل مروی ہے ۔ حسن بن حسن بن علی سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ کی قبر کے پاس کچھ لوگوں کو دیکھ کر انہیں یہ حدیث سنائی کہ آپ کی قبر پر میلہ لگانے سے آپ نے روک دیا ہے ۔ ممکن ہے ان کی کسی بے ادبی کی وجہ سے یہ حدیث آپ کو سنانے کی ضرورت پڑی ہو مثلاً وہ بلند آواز سے بول رہے ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ایک شخص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ پر پے درپے آتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ تو اور جو شخص اندلس میں ہے جہاں کہیں تم ہو وہیں سے سلام بھیجو تمہارے سلام مجھے پہنچا دیئے جاتے ہیں ۔ طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا کہ یہ خاص راز ہے اگر تم مجھ سے نہ پوچھتے تو میں بھی نہ بتاتا ۔ سنو میرے ساتھ دو فرشتے مقرر ہیں جب میرا ذکر کسی مسلمان کے سامنے کیا جاتا ہے اور وہ مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ فرشتے کہتے ہیں اللہ تجھے بخشے ۔ اور خود اللہ اور اس کے فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں ۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور اس کی سند بہت ہی ضعیف ہے ۔ مسند احمد میں ہے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو زمین میں چلتے پھرتے رہتے ہیں میری امت کے سلام مجھ تک پہنچاتے رہتے ہیں ۔ نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو میری قبر کے پاس سے مجھ پر سلام پڑھتا ہے اسے میں سنتا ہوں اور جو دور سے سلام بھیجتا ہے اسے میں پہنچایا جاتا ہوں ۔ یہ حدیث سنداً صحیح نہیں محمد بن مروان سدی صغیر متروک ہے ۔ ( ١٠ ) ہمارے ساتھیوں کا قول ہے کہ احرام والا جب لبیک پکارے تو اسے بھی درود پڑھنآ چاہئے ۔ دارقطنی وغیرہ میں قاسم بن محمد بن اببوکر صدیق کا فرمان مروی ہے کہ لوگوں کو اس بات کا حکم کیا جاتا تھا ۔ صحیح سند سے حضرت فاروق اعظم کا قول مروی ہے کہ جب تم مکہ پہنچو تو سات مرتبہ طواف کرو ، مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کرو ۔ پھر صفا پر چڑھو اتنا کہ وہاں سے بیت اللہ نظر آئے وہاں کھڑے رہ کر سات تکبیریں کہو ان کے درمیان اللہ کی حمد و ثناء بیان کرو اور درود پڑھو ۔ اور اپنے لئے دعا کرو پھر مروہ پر بھی اسی طرح کرو ۔ ( ١١ ) ہمارے ساتھیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ذبح کے وقت بھی اللہ کے نام کے ساتھ درود پڑھنا چاہئے ۔ آیت ورفعنا لک ذکرک سے انہوں نے تائید چاہی ہے کیونکہ اس کی تفسیر میں ہے کہ جہاں اللہ کا ذکر کیا جائے وہیں آپ کا نام بھی لیا جائے گا جمہور اس کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں یہاں صرف ذکر اللہ کافی ہے ۔ جیسے کھانے کے وقت اور جماع کے وقت وغیرہ وغیرہ کہ ان اوقات میں درود کا پڑھنا سنت سے ثابت نہیں ہوا ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے تمام انبیاء اور رسولوں پر بھی صلوٰۃ و سلام بھیجو وہ بھی میری طرح اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں لیکن اس کی سند میں دو ضعیف راوی ہیں عمر بن ہارون اور ان کے استاد ۔ کان کی سنسناہٹ کے وقت بھی درود پڑھنآ ایک حدیث میں ہے ۔ اگر اس کی اسناد صحیح ثابت ہو جائے تو صحیح ابن خزیمہ میں ہے جب تم میں سے کسی کے کان میں سرسراہٹ ہو تو مجھے ذکر کرکے درود پڑھے اور کہے کہ جس نے مجھے بھلائی سے یاد کیا اسے اللہ بھی یاد کرے اس کی سند غریب ہے اور اس کے ثبوت میں نظر ہے ۔ مسئلہ: اہل کتاب اس بات کو مستحب جانتے ہیں کہ کاتب جب کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھے صلی اللہ علیہ وسلم لکھے ۔ ایک حدیث میں ہے جو شخص کسی کتاب میں مجھ پر درود لکھے اس کے درود کا ثواب اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ کتاب رہے لیکن کئی وجہ سے یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ امام ذہبی کے استاد تو اسے موضوع کہتے ہیں ۔ یہ حدیث بہت سے طریق سے مروی ہے لیکن ایک سند بھی صحیح نہیں ۔ امام خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب آداب الرادی والسامع میں لکھتے ہیں میں نے امام احمد کی دستی لکھی ہوئی کتاب میں بہت جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دیکھا جہاں درود لکھا ہوا نہ تھا آپ زبانی درود پڑھ لیا کرتے تھے ۔ فصل: نبیوں کے سوا غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنا اگر تبعاً ہو تو بیشک جائز ہے ۔ جیسے حدیث میں ہے اللھم صل علی محمد والہ وازواجہ و ذریتہ ۔ ہاں صرف غیر نبیوں پر صلوٰۃ بھیجنے میں اختلاف ہے ۔ بعض تو اسے جائز بتاتے ہیں اور دلیل میں آیت ھوالذی یصلی علیکم الخ اور اولئک علیھم صلوات اور وصل علیھم پیش کرتے ہیں اور یہ حدیث بھی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی قوم کا صدقہ آتا تو آپ فرماتے اللھم صل علیھم چنانچہ حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی فرماتے ہیں جب میرے والد آپ کے پاس اپنا صدقے کا مال لائے تو آپ نے فرمایا اللھم صل علی ال ابی اوفی بخاری و مسلم ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اور میرے خاوند پر صلوت بھیجئے تو آپ نے فرمایا صلی اللہ علیہ و علی زوجک لیکن جمہور علماء اس کے خلاف ہیں اور کہتے ہیں کہ انبیاء کے سوا اوروں پر خاصتہ صلوٰۃ بھیجنا ممنوع ہے ۔ اس لئے کہ اس لفظ کا استعمال انبیاء علیہم الصلوٰۃ السلام کیلئے اس قدر بکثرت ہوگیا ہے کہ سنتے ہی ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ یہ نام کسی نبی کا ہے تو احتیاط اسی میں ہے کہ غیر نبی کیلئے یہ الفاظ نہ کہے جائیں ۔ مثلاً ابو بکر صل اللہ علیہ یا علی صلی اللہ علیہ نہ کہا جائے گو معنی اس میں کوئی قباحت نہیں جیسے محمد عزوجل نہیں کہا جاتا ۔ حالانکہ ذی عزت اور ذی مرتبہ آپ بھی ہیں اس لئے کہ یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے مشہور ہوچکے ہیں اور کتاب و سنت میں صلوٰۃ کا جو استعمال غیر انبیاء کیلئے ہوا ہے وہ بطور دعا کے ہے ۔ اسی وجہ سے آل ابی اوفی کو اس کے بعد کسی نے ان الفاظ سے یاد نہیں کیا نہ حضرت جابر اور ان کی بیوی کو ۔ یہی مسلک ہمیں بھی اچھا لگتا ہے ، واللہ اعلم ۔ بعض ایک اور وجہ بھی بیان کرتے ہیں یعنی یہ کہ غیر انبیاء کیلئے یہ الفاظ صلوٰۃ استعمال کرنا بددینوں کا شیوہ ہوگیا ہے ۔ وہ اپنے بزرگوں کے حق میں یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں پاس ان کی اقتدا ہمیں نہ کرنی چاہئے ۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ یہ مخالفت کس درجے کی ہے حرمت کے طور پر یا کراہیت کے طور پر یا خلاف اولیٰ ۔ صحیح یہ ہے کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے ۔ اس لئے کہ بدعتیوں کا طریقہ ہے جس پر ہمیں کاربند ہونا ٹھیک نہیں اور مکروہ وہی ہوتا ہے جس میں نہی مقصود ہو ۔ زیادہ تر اعتبار اس میں اسی پر ہے کہ صلوٰۃ کا لفظ سلف میں نبیوں پر ہی بولا جاتا رہا جیسے کہ عزوجل کا لفظ اللہ تعالیٰ ہی کیلئے بولا جاتا رہا ۔ اب رہا سلام سو اس کے بارے میں شیخ ابو محمد جوینی فرماتے ہیں کہ یہ بھی صلوٰۃ کے معنی میں ہے پس غائب پر اس کا استعمال نہ کیا جائے اور جو نبی نہ وہ اس کیلئے خاصتہً اسے بھی نہ بولا جائے ۔ پس علی علیہ السلام نہ کہا جائے ۔ زندوں اور مردوں کا یہی حکم ہے ۔ ہاں جو سامنے موجود ہو اس سے خطاب کرکے سلام علیک یا سلام علیکم یا السلام علیک یا علیکم کہنا جائز ہے اور اس پر اجماع ہے ۔ یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ عموماً مصنفین کے قلم سے علی علیہ السلام نکلتا ہے یا علی کرم اللہ وجہہ نکلتا ہے گو معنی اس میں کوئی حرج نہ ہو لیکن اس سے اور صحابہ کی جناب میں ایک طرح کی سوء ادبی پائی جاتی ہے ۔ ہمیں سب صحابہ کے ساتھ حسن عقیدت رکھنی چاہئے ۔ یہ الفاظ تعظیم و تکریم کے ہیں اس لئے حضرت علی سے زیادہ مستحق ان کے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ۔ حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور پر صلوٰۃ نہ بھیجنی چاہئے ۔ ہاں مسلمان مردوں عورتوں کیلئے دعا مغفرت کرنی چاہئے ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ بعض لوگ آخرت کے اعمال سے دنیا کے جمع کرنے کی فکر میں ہیں اور بعض مولوی واعظ اپنے خلیفوں اور امیروں کیلئے صلوٰۃ کے ہی الفاظ بولتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے تھے ۔ جب تیرے پاس میرا یہ خط پہنچے تو انہیں کہہ دینا کہ صلوٰۃ صرف نبیوں کیلئے ہیں اور عام مسلمانوں کیلئے اس کے سوا جو چاہیں دعا کریں ۔ حضرت کعب کہتے ہیں ہر صبح ستر ہزار فرشتے اتر کر قبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیر لیتے ہیں اور اپنے پر سمیٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے دعا رحمت کرتے رہتے ہیں اور ستر ہزار رات کو آتے ہیں یہاں تک کہ قیامت کے دن جب آپ کی قبر مبارک شق ہوگی تو آپ کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے ( فرعو ) امام نووی فرماتے ہیں کہ حضور پر صلوٰۃ و سلام ایک ساتھ بھیجنے چاہئیں صرف صلی اللہ علیہ وسلم یا صرف علیہ السلام نہ کہے ۔ اس آیت میں بھی دونوں ہی کا حکم ہے پس اولیٰ یہ ہے کہ یوں کہا جائے صل اللہ علیہ وسلم تسلیما ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس مرتبہ و منزلت کا بیان ہے جو (آسمانوں) میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے اور یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ثنا و تعریف کرتا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمتیں بھیجتا ہے اور فرشتے بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے عالم سفلی (اہل زمین) کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ اور سلام بھیجیں تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعریف میں علوی اور سفلی دونوں عالم متحد ہوجائیں۔ حدیث میں آیا ہے صحابہ کرام (رض) نے عرض کیا یارسول اللہ سلام کا طریقہ تو ہم جانتے ہیں (یعنی التحیات میں السلام علیک ایھا النبی پڑھتے ہیں) ہم درود کس طرح پڑھیں ؟ اس پر آپ نے وہ درود ابراہیمی بیان فرمایا جو نماز میں پڑھا جاتا ہے (صحیح بخاری) علاوہ ازیں احادیث میں درود کے اور بھی صیغے آتے ہیں جو پڑھے جاسکتے ہیں۔ نیز مختصرا صلی اللہ علی رسول اللہ وسلم بھی پڑھا جاسکتا ہے تاہم الصلوٰۃ والسلام علیک یارسول اللہ وسلم پڑھنا اس لیے صحیح نہیں کہ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب ہے اور یہ صیغہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عام درود کے وقت منقول نہیں ہے اور تحیات میں السلام علیک ایھا النبی چونکہ آپ سے منقول ہے اس وجہ سے اس وقت میں پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں مزید برآں اس کا پڑھنے والا اس فاسد عقیدے سے پڑھتا ہے کہ آپ اسے براہ راست سنتے ہیں یہ عقیدہ فاسدہ قرآن و حدیث کے خلاف ہے اور اس عقیدے سے مذکورہ خانہ ساز درود پڑھنا بھی بدعت ہے جو ثواب نہیں گناہ ہے احادیث میں درود کی بڑی فضیلت وارد ہے نماز میں اس کا پڑھنا واجب ہے یا سنت ؟ جمہور علماء اسے سنت سمجھتے ہیں اور امام شافعی اور بہت سے علماء واجب اور احادیث سے اس کے وجوب ہی کی تائید ہوتی ہے اسی طرح احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آخری تشہد میں درود پڑھنا واجب ہے پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنے کی وہی حیثیت ہے اس لیے نماز کے دونوں تشہد میں درود پڑھنا ضروری اس کے دلائل مختصراحسب ذیل ہیں ایک دلیل یہ ہے کہ مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا یارسول اللہ آپ پر سلام کس طرح پڑھنا ہے یہ تو ہم نے جان لیا (کہ ہم تشہد میں السلام علیک پڑھتے ہیں) لیکن جب ہم نماز میں ہوں تو آپ پر درود کس طرح پڑھیں ؟ تو آپ نے درود ابراہیمی کی تلقین فرمائی (الفتح الربانی) مسند احمد کے علاوہ یہ روایت صحیح ابن حبان، سنن کبری بیہقی، مستدرک حاکم اور ابن خزیمہ میں بھی ہے اس میں صراحت ہے کہ جس طرح سلام نماز میں پڑھا جاتا ہے یعنی تشہد میں اسی طرح یہ سوال بھی نماز کے اندر درود پڑھنے سے متعلق تھا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درود ابراہیمی پڑھنے کا حکم فرمایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ نماز میں سلام کے ساتھ درود بھی پڑھنا چاہیے اور اس کا مقام تشہد ہے اور حدیث میں یہ عام ہے اسے پہلے یا دوسرے تشہد کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ استدلال کرنا صحیح ہے کہ (پہلے اور دوسرے) دونوں تشہد میں سلام اور درود پڑھا جائے اور جن روایات میں تشہد کا بغیر درود کے ذکر ہے انھیں سورة احزاب کی آیت صلوا علیہ وسلم وا کے نزول سے پہلے پر محمول کیا جائے گا لیکن اس آیت کے نزول یعنی 5 ہجری کے بعد جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کے استفسار پر درود کے الفاظ بھی بیان فرمادیئے تو اب نماز میں سلام کے ساتھ صلوۃ (درودشریف) کا پڑھنا بھی ضروری ہوگیا چاہے وہ پہلا تشہد ہو یا دوسرا اس کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے بیان فرمایا کہ (بعض دفعہ) رات کو 9 رکعات ادا فرماتے آٹھویں رکعت میں تشہد بیٹھتے تو اس میں اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے پھر سلام پھیرے بغیر کھڑے ہوجاتے اور نویں رکعت پوری کر کے تشہد میں بیٹھتے تو اپنے رب سے دعا کرتے اور اس کے پیغمبر پر درود پڑھتے اور پھر دعا کرتے پھر سلام پھیر دیتے (السنن الکبری مزید ملائظہ ہو صفۃ صلات النبی للألبانی) اس میں بالکل صراحت ہے کہ نبی نے اپنی رات کی نماز میں پہلے اور آخری دونوں تشہد میں درود پڑھا ہے یہ اگرچہ نفلی نماز کا واقعہ ہے لیکن مذکورہ عمومی دلائل کی آپ کے اس عمل سے تائید ہوجاتی ہے اس لیے اسے صرف نفلی نماز تک محدود کردینا صحیح نہیں ہوگا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٦] اس زمانہ میں کفار اور منافقین آپ پر طرح طرح کی الزام تراشیاں کرکے آپ کو بدنام کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ خود اپنے نبی پر رحمتوں کی بارش کر رہا ہے۔ فرشتے بھی اس کے حق میں دعائے رحمت و برکت کرتے ہیں۔ تو پھر ان لوگوں کے بےہودہ بکواس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ساتھ ہی مومنوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اس نبی پر بکثرت درود یا دعائے رحمت و مغفرت اور سلامتی کی دعا کیا کرو۔ وہ الزام تراشیاں تو وقتی اور عارضی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسا طریقہ بتادیا کہ تاقیامت آپ پر سلامتی اور رحمت و مغفرت کی دعائیں مانگی جایا کریں۔ اور ہمیشہ آپ کا ذکر بلند رہا کرے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل دو احادیث بھی ملاحظہ فرما لیجئے :- خ آپ پر درود وسلام کیوں ضروری ہے ؟ ١۔ ابو العالیہ نے کہا کہ اللہ کی صلوٰۃ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں میں آپ کی تعریف کرتا ہے اور فرشتوں کی صلوٰۃ سے دعا مراد ہے۔ اور ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہیصلون کا معنی یہ ہے کہ برکت کی دعا کرتے ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ عنوان باب)- ٢۔ سیدنا کعب صبن عجرہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے آپ سے پوچھا : یارسول اللہ آپ پر سلام کرنا تو ہم کو معلوم ہوگیا ہے۔ آپ پر درود کیسے بھیجیں ؟ آپ نے فرمایا : یوں کہو : (اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم انک حمید مجید۔ اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم انک حمید مجید) اور یزید بن ھاد کی روایت میں علی ابراہیم کے بعد دونوں جگہ علیٰ آل ابراہیم کے الفاظ بھی ہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)- درود وسلام کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ہر مومن کو رسول اللہ کے ذریعہ سے ہی ایمان کی نعمت نصیب ہوئی۔ اور ایمان اتنی بڑی نعمت ہے کہ دین و دنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی اور اس نعمت کا احسان مومن کبھی اتار نہیں سکتے۔ تاہم ایمانداروں کو اتنا ضرور کرنا چاہئے کہ وہ اپنے اس محسن اعظم کی محبت سے سرشار ہوں اور اس کے حق میں دعائے رحمت و برکت اور مغفرت کیا کریں۔ اس سے ان کے اپنے بھی درجات بلند ہوں گے اور ہر دفعہ درود پڑھنے کے عوض اللہ ان پر دس گناہ درود یا اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا۔ (مسلم۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی بعد التشہد)- خ سلموا تسلیما کے دو مطلب :۔ سلّموا تسلیما کے بھی دو معنے ہیں۔ ایک تو درج بالا حدیث سے واضح ہے کہ اس کے لئے سلامتی کی دعا کیا کریں۔ اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ دل و جان سے اس کے آگے سرتسلیم خم کردیں۔ جیسا کہ سورة نساء کی آیت نمبر ٦٥ میں ان الفاظ کے یہی معنی مراد ہیں۔ - خ صلوٰۃ وسلام کے فضائل :۔ درود وسلام پڑھنے کے فضائل میں اب چند مزید احادیث ملاحظہ فرمائیے :- ١۔ سیدنا انس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص ایک بار مجھ پر درود بھیجے گا تو اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجے گا۔ اس کے دس گناہ معاف کئے جائیں گے اور دس درجے بلند کئے جائیں گے۔ (حوالہ ایضاً )- ٢۔ سیدنا ابیص بن کعب فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول میں آپ پر بکثرت درود بھیجتا ہوں۔ میں اپنی دعا کا کتنا حصہ درود کے لئے مقرر کروں ؟ فرمایا : جتنا تو چاہے میں نے کہا : ایک چوتھائی ؟ فرمایا جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرے تو تیرے حق میں بہتر ہے میں نے کہا : آدھا حصہ ؟ فرمایا : جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرلے تو تیرے حق میں بہتر ہے پھر میں نے پوچھا : دو تہائی ؟ فرمایا : جتنا تو چاہے اور اگر زیادہ کرے تو تیرے لئے بہتر ہے پھر میں نے کہا : میں اپنے دعا کا سارا وقت آپ پر درود کے لئے مقرر کرلیتا ہوں۔ فرمایا : اب تو اپنے غم سے کفایت کیا جائے گا اور تیرے گناہ تجھ سے دور کردیئے جائیں گے (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ عن النبی فصل ثانی)- ٣۔ سیدنا عمر بن خطاب فرماتے ہیں : جب تک تو اپنے نبی پر درود نہ بھیجے دعا زمین و آسمان کے درمیان موقوف رہتی ہے اور اوپر نہیں چڑھتی۔ (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ۔ باب الصلوٰۃ علی النبی۔ فصل ثانی)- ٤۔ سیدنا علی (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : وہ شخص بڑا بخیل ہے جس کے پاس میرا ذکر ہوا پھر اس نے مجھ پر درود نہ بھیجا (ترمذی۔ بحوالہ مشکوٰۃ ایضاً )

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ ۔۔ : لفظ ” صلاۃ “ کی تفسیر اس سے پہلے آیت (٤٣) میں گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اور فرشتوں اور مومنوں کی نسبت سے ” صلاۃ “ کا کیا معنی ہے۔ اس سورت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والی کئی خصوصیات کا ذکر فرمایا، مثلاً آپ کا مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھنا، آپ کے لیے چار سے زیادہ بیویوں کا حلال ہونا، آپ کا خاتم النّبیین ہونا، آپ کی بیویوں کا امہات المومنین ہونا، ان کے حجاب و احترام کا خصوصی اہتمام اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد آپ کی ازواج سے نکاح کی حرمت وغیرہ۔ ” اِنَّ “ کا لفظ عموماً تعلیل کے لیے، یعنی پہلی باتوں کی علت بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ زیر تفسیر آیت میں مسلمانوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان بلند مراتب کا خاص خیال رکھنے اور ان کے تحفظ و احترام کا حکم دینے کی وجہ ذکر فرمائی۔ ابن کثیر فرماتے ہیں : ” مقصود اس آیت سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ” ملأ اعلیٰ “ یعنی آسمانوں کی بلند مجلس میں اپنے بندے اور نبی کے مرتبہ و منزلت کی بلندی کی خبر دے رہا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ آپ کی تعریف و ثنا کرتا اور آپ پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے بھی آپ کے لیے رحمت و مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ آسمانوں والوں کی خبر دے کر اب زمین والوں کو حکم دیتا ہے کہ تم بھی آپ پر صلاۃ وسلام بھیجو، تاکہ آپ کی تعریف و ثنا پر اور آپ کے لیے مغفرت و رحمت اور برکت کی دعا پر عالم علوی (آسمانوں والے) اور عالم سفلی (زمین والے) سب متحد ہوجائیں۔ “- 3 آیت کے آخری الفاظ سے ظاہر ہے کہ کلام میں کچھ الفاظ حذف ہیں، جو خود بخود معلوم ہو رہے ہیں، یعنی ” وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا “ سے ظاہر ہے کہ آیت کی ابتدا اس طرح ہے : ” إِنَّ اللّٰہَ وَ مَلَاءِکَتَہُ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ وَ یُسَلِّمُوْنَ “ اسے احتباک کہتے ہیں اور یہ کلام الٰہی کے حسن کا ایک مظہر ہے۔ (بقاعی) انبیاء ( علیہ السلام) پر اللہ تعالیٰ کے سلام کا ذکر قرآن میں الگ الگ بھی آیا ہے، جیسے : (سلم علی نوح فی العلمین) ، (سلم علی ابراھیم) وغیرہ اور اکٹھا بھی آیا ہے، جیسے : (سلم علی المرسلین) [ دیکھیے الصافات : ٧٩، ١٠٩، ١٨١ ]- 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ پر صلاۃ کے لیے کئی الفاظ مروی ہیں، جو سبھی اس مقصد کے لیے پڑھے جاسکتے ہیں۔ ان میں زیادہ مشہور کعب بن عجرہ (رض) کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں : ( سَأَلْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ کَیْفَ الصَّلَاۃُ عَلَیْکُمْ أَھْلَ الْبَیْتِ ؟ فَإِنَّ اللّٰہَ قَدْ عَلَّمَنَا کَیْفَ نُسَلِّمُ ، قَالَ قُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ، اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ٣٣٧٠ ] ” ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا : ” ہم نے کہا : ” آپ اہل بیت (گھر والوں) پر صلاۃ کس طرح ہے ؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تو سکھا دیا ہے کہ ہم آپ پر سلام کیسے بھیجیں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم یوں کہو کہ اے اللہ محمد اور آل محمد پر صلاۃ بھیج، جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر صلاۃ بھیجی، بیشک تو تعریف کیا ہوا بزرگی والا ہے اور اے اللہ محمد اور آل محمد پر برکتیں نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائیں، بیشک تو تعریف کیا ہوا ہے، بزرگی والا ہے۔ “ اس حدیث اور دوسری احادیث میں صحابہ کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ ہم آپ پر سلام کیسے بھیجیں، اس سلام سے مراد نماز کے تشہد میں سلام کی تعلیم ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں : ( عَلَّمَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ، وَ کَفِّيْ بَیْنَ کَفَّیْہِ ، التَّشَھُّدَ کَمَا یُعَلِّمُنِي السُّوْرَۃَ مِنَ الْقُرْآنِ : اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہُ ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَاد اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ ، أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ ) [ بخاري، الاستئذان، باب الأخذ بالیدین : ٦٢٦٥ ] ” مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تشہد اس طرح سکھایا جس طرح مجھے قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، اس وقت میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی : ” تمام قولی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں اور تمام بدنی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں، سلام ہو تجھ پر اے نبی اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر، میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔ “- جس طرح اس حدیث سے ظاہر ہے کہ آیت میں ” وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا “ پر عمل کی تعلیم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں تشہد کے اندر سلام کے الفاظ کے ساتھ دی ہے، اسی طرح صحابہ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلاۃ کے بھی وہی الفاظ سیکھنے کی درخواست کی جو نماز میں پڑھے جائیں۔ چناچہ ابو مسعود عقبہ بن عمرو (رض) فرماتے ہیں : ( أَقْبَلَ رَجُلٌ حَتّٰی جَلَسَ بَیْنَ یَدَيْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ نَحْنُ عِنْدَہُ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَمَّا السَّلَامُ عَلَیْکَ فَقَدْ عَرَفْنَاہُ فَکَیْفَ نُصَلِّيْ عَلَیْکَ إِذَا نَحْنُ صَلَّیْنَا فِيْ صَلَاتِنَا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ ؟ قَالَ فَصَمَتَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ حَتّٰی أَحْبَبْنَا أَنَّ الرَّجُلَ لَمْ یَسْأَلْہُ فَقَالَ إِذَا أَنْتُمْ صَلَّیْتُمْ عَلَيَّ فَقُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَ آلِ إِبْرَاھِیْمَ وَ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاھِیْمَ إِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ ) [ مسند أحمد : ٤؍١١٩، ح : ١٧٠٧٦، مسند احمد کے محقق نے بارہ کتب حدیث سے اس حدیث کا حوالہ نقل کر کے اس کی صحت بیان فرمائی ہے ] ” ایک آدمی آیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیٹھ گیا اور ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھے، اس نے کہا : ” یا رسول اللہ آپ پر سلام کو تو ہم جان چکے، اب ہم آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں، جب ہم اپنی نماز میں صلاۃ بھیجیں، اللہ تعالیٰ آپ پر صلاۃ نازل فرمائے ؟ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کچھ دیر خاموش رہے، حتیٰ کہ ہم نے چاہا کہ یہ شخص یہ سوال نہ کرتا کہ اتنے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب تم مجھ پر صلاۃ بھیجو تو اس طرح کہو۔ “ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صلاۃ کے ان الفاظ کی تعلیم دی جو اوپر حدیث میں مذکور ہیں۔- قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حکم ” صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا “ سے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس پر عمل کے لیے تشہد میں سلام اور صلاۃ کے الفاظ کی بہ نفس نفیس تعلیم سے ظاہر ہے کہ کم از کم نماز میں یہ صلاۃ وسلام پڑھنا ضروری ہے۔ بعض حضرات کی اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ صلاۃ وسلام زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ کلمۂ شہادت بھی زندگی میں صرف ایک دفعہ قبول اسلام کے وقت پڑھنا فرض ہے۔ حالانکہ صلاۃ کے علاوہ کلمہ شہادت پڑھنے کا حکم بھی ہر تشہد میں، اذان کا جواب دینے میں اور دوسرے کئی مقامات پر آیا ہے۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ زندگی میں صرف ایک دفعہ کلمہ اور درود پڑھنا فرض ہونے پر امت کے اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں، حالانکہ انھیں خوب معلوم ہے کہ کتنے جلیل القدر ائمہ نے نماز میں درود وسلام کو فرض تسلیم کیا ہے، پھر بھی اپنے غلط دعوئ اجماع پر اصرار کرتے چلے جاتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں ایسے کئی مواقع مذکور ہیں جہاں درود پڑھنے کا حکم ہے۔- 3 بہت سی احادیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر آنے پر صلاۃ بھیجنے کی تاکید آئی ہے۔ علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( اَلْبَخِیْلُ الَّذِيْ مَنْ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَيَّ ) [ ترمذي، الدعوات، باب رغم أنف رجل ذکرت عندہ۔۔ : ٣٥٤٦ ] ” بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے تو وہ مجھ پر صلاۃ نہ پڑھے۔ “ ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُکِرْتُ عِنْدَہُ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَيَّ وَ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَیْہِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ یُغْفَرَ لَہُ وَ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَکَ عِنْدَہُ أَبَوَاہُ الْکِبَرَ فَلَمْ یُدْخِلاَہُ الْجَنَّۃَ ) [ ترمذي، الدعوات، باب رغم أنف رجل ذکرت عندہ۔۔ : ٣٥٤٥، و قال الألباني حسن صحیح ] ” اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے تو وہ مجھ پر صلاۃ نہ بھیجے اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر ماہ رمضان آئے، پھر وہ اس کی بخشش ہونے سے پہلے گزر جائے اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے والدین اس کے پاس بڑھاپے کو پائیں پھر وہ اسے جنت میں داخل نہ کروائیں۔ “ ان احادیث کی رو سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر پر صلاۃ پڑھنا لازم ہے، اگرچہ آپ کا نام آنے پر ہر مرتبہ صلاۃ پڑھنی چاہیے اور محدثین کا یہی قول ہے، تاہم کسی مجلس میں آپ کا نام آنے پر اگر ایک مرتبہ صلاۃ پڑھ لے تو امید ہے کہ صلاۃ نہ پڑھنے کی وعید سے بچ جائے گا۔ جیسا کہ امام ترمذی نے بعض اہل علم سے نقل فرمایا ہے، کیونکہ حدیث کے الفاظ میں اس کی گنجائش موجود ہے اور آگے فائدہ (٦) میں مذکور دوسری حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ - 3 نماز میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جن الفاظ میں صلاۃ پڑھی جاتی ہے نماز کے علاوہ بھی انھی الفاظ میں پڑھی جائے گی، مگر اس کے علاوہ مختصر الفاظ میں بھی پڑھی جاسکتی ہے، جیسا کہ تمام صحابہ کرام جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے حدیث بیان کرتے یا آپ کا نام لیتے تھے تو ” صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ “ کے الفاظ ادا کرتے تھے، جیسا کہ تمام کتب احادیث کی تمام احادیث سے ثابت ہے۔ اگر ہر محدث نے اپنے استاذ سے حتیٰ کہ تابعی نے صحابی سے یہ الفاظ نہ سنے ہوتے تو وہ نقل نہ فرماتے، کیونکہ وہ نقل میں نہایت امین تھے، بلکہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گزرے ہوئے کسی وقت کو یاد کرتے تو یہی مختصر صلاۃ پڑھتے تھے۔ چناچہ بخاری میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر (رض) کے مولیٰ عبداللہ نے بیان کیا : ( أَنَّہُ کَانَ یَسْمَعُ أَسْمَاءَ تَقُوْلُ کُلَّمَا مَرَّتْ بالْحَجُوْنِ : صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مُحَمَّدٍ لَقَدْ نَزَلْنَا مَعَہُ ہَاہُنَا، وَ نَحْنُ یَوْمَءِذٍ خِفَافٌ ) [ بخاري، العمرۃ، باب متی یحل المعتمر ؟ : ١٧٩٦ ] ” اسماء (رض) جب بھی حجون کے پاس سے گزرتیں تو یہ کہتیں ” صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہِ مُحَمَّدٍ “ ہم آپ کے ساتھ یہاں اترے تھے، ان دنوں ہم ہلکی پھلکی تھیں۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر خیر کے وقت ” صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ “ کے الفاظ پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کے صیغے کے ساتھ ” الصلاۃ “ کا لفظ، مثلاً ” اَلصَّلَاۃُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یا کسی صحابی سے ثابت نہیں، کیونکہ مخلوق کے پاس صلاۃ (رحمت و برکت) ہے ہی نہیں، اس لیے وہ اللہ تعالیٰ ہی سے اسے نازل کرنے کی دعا کرسکتے ہیں۔- 3 نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلاۃ کی فضیلت اور نہ پڑھنے کی وعید میں بہت سی احادیث مروی ہیں، یہاں دو حدیثیں نقل کی جاتی ہیں : 1 عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا یَقُوْلُ ثُمَّ صَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّہُ مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ صَلَاۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ بِہَا عَشْرًا ) [ مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن۔۔ : ٣٨٤ ] ” جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر صلاۃ پڑھو، کیونکہ جو مجھ پر ایک بار صلاۃ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس دفعہ صلاۃ بھیجتا ہے۔ “ 2 ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ یَذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْہِ وَ لَمْ یُصَلُّوْا عَلٰی نَبِیِّہِمْ إِلاَّ کَانَ عَلَیْہِمْ تِرَۃً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَہُمْ وَ إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَہُمْ ) [ ترمذي، الدعوات، باب ما جاء في القوم یجلسون۔۔ : ٣٣٨٠، و قال الألباني صحیح ] ” کوئی قوم کسی مجلس میں نہیں بیٹھی جس میں انھوں نے نہ اللہ کا ذکر کیا اور نہ اپنے نبی پر صلاۃ بھیجی، مگر وہ (مجلس) قیامت کے دن ان کے لیے باعث حسرت ہوگی، پھر اگر اس نے چاہا تو انھیں سزا دے گا اور اگر چاہا تو انھیں بخش دے گا۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں ان پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اے ایمان والو تم بھی آپ پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ (تا کہ آپ کا حق عظمت جو تمہارے ذمہ ہے ادا ہوجائے)- معارف و مسائل - اس سے پہلی آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کچھ خصوصیات و امتیازات کا ذکر تھا، جن کے ضمن میں ازواج مطہرات کے پردہ کا حکم آیا تھا، اور آگے بھی کچھ احکام پردے کے آئیں گے، درمیان میں اس چیز کا حکم دیا گیا ہے جس کے لئے یہ سب خصوصیات و امتیازات رکھے گئے ہیں، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت شان کا اظہار اور آپ کی عظمت و محبت اور اطاعت کی ترغیب ہے۔- اصل مقصود و آیت کا مسلمانوں کو یہ حکم دینا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰة وسلام بھیجا کریں، مگر اس کی تعبیر وبیان میں اس طرح فرمایا کہ پہلے حق تعالیٰ نے خود اپنا اور اپنے فرشتوں کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے عمل صلوٰة کا ذکر فرمایا، اس کے بعد عام مومنین کو اس کا حکم دیا، جس میں آپ کے شرف اور عظمت کو اتنا بلند فرما دیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں جس کام کا حکم مسلمانوں کو دیا جاتا ہے وہ کام ایسا ہے کہ خود حق تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی وہ کام کرتے ہیں تو عام مومنین جن پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیشمار احسانات ہیں ان کو تو اس عمل کا بڑا اہتمام کرنا چاہئے۔ اور ایک فائدہ اس تعبیر میں یہ بھی ہے کہ اس سے درود وسلام بھیجنے والے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کام میں شریک فرما لیا جو کام حق تعالیٰ خود بھی کرتے ہیں اور اس کے فرشتے بھی۔- صلوٰة وسلام کے معنی :- لفظ صلوٰة عربی زبان میں چند معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے، رحمت، دعا، مدع وثناء، آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف جو نسبت صلوٰة کی ہے اس سے مراد رحمت نازل کرنا ہے، اور فرشتوں کی طرف سے صلوٰة ان کا آپ کے لئے دعا کرنا ہے، اور عام مومنین کی طرف سے صلوٰة کا مفہوم دعا اور مدح وثناء کا مجموعہ ہے۔ عامہ مفسرین نے یہی معنی لکھے ہیں۔ اور امام بخاری نے ابوالعالیہ سے یہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صلوٰة سے مراد آپ کی تعظیم اور فرشتوں کے سامنے مدح وثناء ہے، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی تعظیم دنیا میں تو یہ ہے کہ آپ کو بلند مرتبہ عطا فرمایا کہ اکثر مواقع اذان و اقامت وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ آپ کا ذکر شامل کردیا ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دین کو دنیا بھر میں پھیلا دیا، اور غالب کیا، اور آپ کی شریعت پر عمل قیامت تک جاری رکھا، اس کے ساتھ آپ کی شریعت کو محفوظ رکھنے کا ذمہ حق تعالیٰ نے لے لیا۔ اور آخرت میں آپ کی تعظیم یہ ہے کہ آپ کا مقام تمام خلائق سے بلند وبالا کیا، اور جس وقت کسی پیغمبر اور فرشتے کی شفاعت کی مجال نہ تھی اس حال میں آپ کو مقام شفاعت عطا فرمایا، جس کو مقام محمود کہا جاتا ہے۔- اس معنی پر جو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ صلوٰة وسلام میں تو روایات حدیث کے مطابق آپ کے ساتھ آپ کے آل و اصحاب کو بھی شامل کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور مدح وثناء میں آپ کے سوا کسی کو کیسے شریک کیا جاسکتا ہے ؟ اس کا جواب روح المعانی وغیرہ میں یہ دیا گیا ہے کہ تعظیم اور مدح وثناء وغیرہ کے درجات بہت ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا اعلیٰ درجہ حاصل ہے، اور ایک درجہ میں آل و اصحاب اور عام مومنین بھی شامل ہیں۔- ایک شبہ کا جواب :- اور ایک لفظ صلوٰة سے بیک وقت متعدد معنی رحمت، دعاء، تعظیم وثناء مراد لینا جو اصطلاح میں عموم مشترک کہلاتا ہے، اور بعض حضرات کے نزدیک وہ جائز نہیں، اس لئے اس کی یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ لفظ صلوٰة کے اس جگہ ایک ہی معنی لئے جائیں، یعنی آپ کی تعظیم اور مدح وثناء اور خیر خواہی پھر یہ معنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوں تو اس کا حاصل رحمت ہوگا اور فرشتوں کی طرف منسوب ہوں تو دعا و استغفار ہوگا، عام مومنین کی طرف منسوب کیا جائے تو دعاء اور مدح وثناء و تعظیم کا مجموعہ ہوگا۔- اور لفظ سلام مصدر بمعنی السلام ة ہے، جیسے ملام بمعنی ملامت مستعمل ہوتا ہے۔ اور مراد اس سے نقائص و عیوب اور آفتوں سے سالم رہنا ہے۔ اور السلام علیک کے معنی یہ ہیں کہ نقائص اور آفات سے سلامتی آپ کے ساتھ رہے۔ اور عربی زبان کے قاعدہ سے یہاں حرف علیٰ کا موقع نہیں، مگر چونکہ لفظ سلام معنی ثناء کو متضمن ہے، اس لئے حرف علیٰ کے ساتھ علیک یا علیکم کہا جاتا ہے۔- اور بعض حضرات نے یہاں لفظ سلام سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات لی ہے، کیونکہ سلام اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے تو مراد السلام علیک کی یہ ہوگی کہ اللہ آپ کی حفاظت و رعایت پر متولی اور کفیل ہے۔- صلوٰة وسلام کا طریقہ :- صحیح بخاری و مسلم وغیرہ سب کتب حدیث میں یہ حدیث آئی ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ نے فرمایا کہ (جب یہ آیت نازل ہوئی تو) ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ (آیت میں ہمیں دو چیزوں کا حکم ہے صلوٰة وسلام) سلام کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ (کہ السلام علیک ایہا النبی کہتے ہیں) صلوٰة کا طریقہ بھی بتلا دیجئے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ الفاظ کہا کرو۔ اللھم صلی علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم وعلیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید، اللہم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ابراہیم انک حمید مجید، دوسری روایات میں اس میں کچھ کلمات اور بھی منقول ہیں۔- اور صحابہ کرام کے سوال کرنے کی وجہ غالباً یہ تھی کہ ان کے سلام کرنے کا طریقہ تو تشہد (یعنی التحیات) میں پہلے سکھایا جا چکا تھا کہ السلام علیک ایہا النبی ورحمة اللہ وبرکاتہ کہا جائے، اس لئے لفظ صلوٰة میں انہوں نے اپنی طرف سے الفاظ مقرر کرنا پسند نہیں کیا، خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کر کے الفاظ صلوٰة متعین کرائے۔ اسی لئے نماز میں عام طور پر انہی الفاظ کے ساتھ صلوٰة کو اختیار کیا گیا ہے، مگر یہ کوئی ایسی تعیین نہیں جس میں تبدیلی ممنوع ہو، کیونکہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صلوٰة یعنی درودشریف کے بہت سے مختلف صیغے منقول و ماثور ہیں صلوٰة وسلام کے حکم کی تعمیل ہر اس صیغہ سے ہو سکتی ہے جس میں صلوٰة وسلام کے الفاظ ہوں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ الفاظ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعینہ منقول بھی ہوں بلکہ جس عبارت سے بھی صلوٰة وسلام کے الفاظ ادا کئے جائیں اس حکم کی تعمیل اور درود شریف کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ جو الفاظ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہیں وہ زیادہ بابرکت اور زیادہ ثواب کے موجب ہیں، اسی لئے صحابہ کرام نے الفاظ صلوٰة آپ سے متعین کرانے کا سوال فرمایا تھا۔- مسئلہ :- قعدہ نماز میں تو قیامت تک الفاظ صلوٰة وسلام اسی طرح کہنا مسنون ہے، جس طرح اوپر منقول ہوئے ہیں اور خارج نماز میں جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود مخاطب ہوں جیسا کہ آپ کے عہد مبارک میں وہاں تو وہی الفاظ الصلوٰة والسلام علیک کے اختیار کئے جائیں، آپ کی وفات کے بعد روضہ اقدس کے سامنے جب سلام عرض کیا جائے تو اس میں بھی صیغہ السلام علیک کا اختیار کرنا مسنون ہے۔ اس کے علاوہ جہاں غائبانہ صلوٰة وسلام پڑھا جائے تو صحابہ وتابعین اور ائمہ امت سے صیغہ غائب کا استعمال کرنا منقول ہے، مثلاً (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسا کہ عام محدثین کی کتابیں اس سے لبریز ہیں۔- صلوٰة وسلام کے مذکورہ طریقہ کی حکمت :- جو طریقہ صلوٰة وسلام کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک اور آپ کے عمل سے ثابت ہوا اس کا حاصل یہ ہے کہ ہم سب مسلمان آپ کے لئے اللہ تعالیٰ سے رحمت و سلامتی کی دعا کریں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقصود آیت کا تو یہ تھا کہ ہم آپ کی تعظیم و تکریم کا حق خود ادا کریں۔ مگر طریقہ یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق تعظیم و اطاعت پورا ادا کرنا ہمارے کسی کے بس میں نہیں، اس لئے ہم پر یہ لازم کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں۔ (روح)- صلوٰة وسلام کے احکام :- نماز کے قعدہ اخیرہ میں صلوٰة (درود شریف) سنت موکدہ تو سب کے نزدیک ہے، امام شافعی اور احمد بن حنبل کے نزدیک واجب ہے، جس کے ترک سے نماز واجب اعادہ ہوجاتی ہے۔- مسئلہ :- اس پر بھی جمہور فقاء کا اتفاق ہے کہ جب کوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کرے یا سنے تو اس پر درود شریف واجب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ حدیث میں آپ کے ذکر مبارک کے وقت درود شریف نہ پڑھنے پر وعید آئی ہے، جامع ترمذی میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : رغم انف رجل ذکرت عندہ فلم یصل علیٰ ، ” یعنی ذلیل ہو وہ آدمی جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے “ (قال الترمذی حدیث حسن و رواہ ابن السنی باسناد جید)- اور ایک حدیث میں ارشاد ہے البخیل من ذکرت عندہ فلم یصل علیٰ ” یعنی بخیل وہ شخص ہے جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے “ (رواہ الترمذی و قال حدیث حسن صحیح)- مسئلہ :- اگر ایک مجلس میں آپ کا ذکر مبارک بار بار آئے تو صرف ایک مرتبہ درود پڑھنے سے واجب ادا ہوجاتا ہے، لیکن مستحب یہ ہے کہ جتنی بار ذکر مبارک خود کرے یا کسی سے سنے ہر مرتبہ درود شریف پڑھے۔ حضرات محدثین سے زیادہ کون آپ کا ذکر کرسکتا ہے کہ ان کا ہر وقت کا مشغلہ ہی حدیث رسول ہے، جس میں ہر وقت بار بار آپ کا ذکر آتا ہے، تمام ائمہ حدیث کا دستور یہی رہا ہے کہ ہر مرتبہ درود سلام پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ تمام کتب حدیث اس پر شاہد ہیں۔ انہوں نے اس کی بھی پروا نہیں کی کہ اس تکرار صلوٰة وسلام سے کتاب کی ضخامت کافی بڑھ جاتی ہے کیونکہ اکثر تو چھوٹی چھوٹی حدیثیں آتی ہیں جن میں ایک دو سطر کے بعد نام مبارک آتا ہے، اور بعض جگہ تو ایک سطر میں ایک سے زیادہ مرتبہ نام مبارک مذکور ہوتا ہے، حضرات محدثین کہیں صلوٰة وسلام ترک نہیں کرتے۔- مسئلہ :- جس طرح زبان سے ذکر مبارک کے وقت زبانی صلوٰة وسلام واجب ہے اسی طرح قلم سے لکھنے کے وقت صلوٰة وسلام کا قلم سے لکھنا بھی واجب ہے، اور اس میں جو لوگ حروف کا اختصار کر کے ” صلعم “ لکھ دیتے ہیں یہ کافی نہیں، پورا صلوٰة وسلام لکھنا چاہئے۔- مسئلہ :- ذکر مبارک کے وقت افضل و اعلیٰ اور مستحب تو یہی ہے کہ صلوٰة اور سلام دونوں پڑھے اور لکھے جائیں، لیکن اگر کوئی شخص ان میں سے ایک یعنی صرف صلوٰة یا صرف سلام پر اکتفا کرے تو جمہور فقہاء کے نزدیک کوئی گناہ نہیں۔ شیخ الاسلام نووی وغیرہ نے دونوں میں سے صرف ایک پر اکتفا کرنا مکروہ فرمایا ہے۔ ابن حجر ہیثمی نے فرمایا کہ ان کی مراد کراہت سے خلاف اولیٰ ہونا ہے، جس کو اصطلاح میں مکروہ تنزیہی کہا جاتا ہے۔ اور علماء امت کا مسلسل عمل اس پر شاہد ہے کہ وہ دونوں ہی کو جمع کرتے ہیں اور بعض اوقات ایک پر بھی اکتفا کرلیتے ہیں۔- مسئلہ :- لفظ صلوٰة انبیاء (علیہم السلام) کے سوا کسی کے لئے استعمال کرنا جمہور علماء کے نزدیک جائز نہیں۔ امام بیہقی نے اپنے سنن میں حضرت ابن عباس کا یہ فتویٰ نقل کیا ہے : لا یصلی علیٰ احد الا علیٰ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکن یدعیٰ للمسلمین والمسلیمات بالاستغفار۔ امام شافعی کے نزدیک غیر نبی کے لئے لفظ صلوٰة کا استعمال مستقلاً مکروہ ہے، امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی مذہب ہے، البتہ تبعاً جائز ہے یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰة وسلام کے ساتھ آل واصحاب یا تمام مومنین کو شریک کرلے اس میں مضائقہ نہیں۔- اور امام جوینی نے فرمایا کہ جو حکم لفظ صلوٰة کا ہے وہی لفظ سلام کا بھی ہے کہ غیر نبی کے لئے اس کا استعمال درست نہیں، بجز اس کے کہ کسی کو خطاب کرنے کے وقت بطور تحیہ کے السلام علیکم کہے، یہ جائز و مسنون ہے۔ مگر کسی غائب کے نام کے ساتھ ” (علیہ السلام) “ کہنا اور لکھنا غیر نبی کے لئے درست نہیں (خصائص کبریٰ سیوطی ص ٢٦٢ ج ٢)- علامہ لقائی نے فرمایا کہ قاضی عیاض نے فرمایا ہے کہ محققین علماء امت اس طرف گئے ہیں اور میرے نزدیک بھی یہی صحیح ہے، اور اسی کو امام مالک، سفیان اور بہت سے فقہاء و متکلمین نے اختیار کیا ہے کہ صلوٰة و تسلیم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دوسرے انبیاء کے لئے مخصوص ہے غیر نبی کے لئے جائز نہیں، جیسے لفظ سبحانہ اور تعالیٰ ، اللہ جل شانہ، کے لئے مخصوص ہے۔ انبیاء کے سوا عام مسلمانوں کے لئے مغفرت اور رضا کی دعا ہونا چاہئے، جیسے قرآن میں حضرات صحابہ کے متعلق آیا رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ (روح المعانی)- صلوٰة وسلام کے احکام کی مفصل بحث احقر کے رسالہ تنقیح الکلام فی احکام الصلوٰة والسلام میں ہے جو بزبان عربی احکام القرآن سورة احزاب کا جز ہو کر شائع ہوچکا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ وَمَلٰۗىِٕكَتَہٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ۝ ٠ ۭ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۝ ٥٦- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- السلم والسلامۃ کے معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں۔ اور جب السلام بطور یکے از اسما الحسنی استعمال ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو عیوب وآفات مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے سلام بمعنی سلامتی، امان۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

صلوٰۃ کا مفہوم نسبت کے لحاظ سے ہے - قول باری ہے (ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی یایھا الذین امنوا صلا علیہ وسلم وا تسلیما۔ بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے ایمان والو تم بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو) اللہ کی طرف سے صلاۃ کے معنی رحمت کے ہیں اور بندوں کی طرف سے دعا کے ہیں۔ اس پر پہلے بھی روشنی ڈالی جاچکی ہے۔- ابوالعالیہ سے مروی ہے کہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلاۃ بھیجتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے رحمت بھیجتا ہے اور فرشتے آپ کے لئے رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس قول سے ان کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو آگاہ کرتا ہے کہ وہ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمت بھیج رہا ہے اور ان پر اپنی نعمت تمام کررہا ہے۔ فرشتوں کے سامنے اللہ کی طرف سے آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا یہی مفہوم ہے۔- حسن سے قول باری (ھوالذی یصلی علیکم وملائکتہ) کی تفسیر میں مروی ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا تھا کہ آیا تمہارا رب نماز پڑھتا ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو اس سوال سے بڑا دکھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی بھیج کر یہ حکم دیا کہ ان سے کہہ دو کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور یہ ہی نماز میری وہ رحمت ہے جو میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے۔- درود کا وجوب - قول باری ہے (یایھا الذین امنوا صلوا علیہ وسلم وا تسلیما) آیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجنے پر متضمن ہے۔ ظاہر آیت وجوب کا مقتضی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ فرض ہے۔ ایک دفعہ جب انسان نماز یا غیر نماز میں اس کی ادائیگی کرلے گا تو فرض ادا ہوجائے گا۔- اس کی مثال کلمہ توحید اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق جیسی ہے کہ اگر انسان اپنی زندگی میں ایک دفعہ ان کی ادائیگی کرے تو فرض ادا ہوجائے گا۔ امام شافعی کا خیال ہے کہ نماز میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجنا فرض ہے۔- تاہم جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے امام شافعی سے پہلے کسی اہل علم نے یہ بات نہیں کہی امام شافعی کی یہ بات ان آثار وروایات کے خلاف بھی ہے جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نماز میں درود پڑھنے کے سلسلے میں منقول ہیں۔- ایک روایت حضرت ابن مسعود (رض) سے منقول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں تشہید کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا تھا (اذا فعلت ھذا وقلت ھذا فقد تمت صلوتک ۔ جب تم یہ کرلو یا یہ کہہ لو تو تمہاری نماز مکمل ہوجائے گی) آپ نے مزید فرمایا تھا (فان شئت ان تقوم فقم ۔ پھر اگر تم قیام کرنا چاہو تو قیام کرلو) پھر آپ نے فرمایا (ثم اختر من اطیب الکلام ماشئت۔ پھر پاکیزہ ترین کلام میں سے جو پڑھنا چاہو اس کا انتخاب کرلو)- حضرت ابن عمر (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (اذارفع الرجل راسہ من اخر سجدۃ وقعد فاحدث قبل ان یسلم فقد تمت صلوٰۃ۔ جب نمازی آخری سجدے سے اپنا سر اٹھا کر قعدہ کرے اور سلام پھیرنے سے پہلے اسے حدث لاحق ہوجائے تو اس کی نماز مکمل ہوجائے گی۔ )- معاویہ بن الحلم السلمی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا (ان صلوتنا ھذہ لا یصلح شیء من کلام الناس انماھی التسبیح والتھلیل وقراۃ القران ۔ ہماری یہ نماز ایسی ہے کہ اس میں کلام الناس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس میں تو تسبیح وتہلیل اور قرآن کی تلاوت ہوتی ہے) اس روایت میں آپ نے درود کا ذکر نہیں کیا۔ ہم نے مختصر الطحاوی میں اس مسئلے پر سیر حاصل بحث کی ہے۔- قول باری ہے (وسلموا تسلیما) اس سے امام شافعی کے اصحاب نماز کے آخر میں سلام پڑھنے کی فرضیت پر استدلال کرتے ہیں۔ لیکن آیت میں ان کے قول پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں صلوٰۃ کا ذکر نہیں ہے۔ اس کے متعلق بھی وہی حکم ہے جو آپ پر درود بھیجنے کے متعلق ہم نے بیان کیا ہے۔ امام شافعی کے اصحاب آیت سے تشہد کی فرضیت پر بھی استدلال کرتے ہیں کیونکہ نماز کے اندر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیجاجاتا ہے۔ لیکن ان کے اس مسلک پر بھی آیت میں کوئی دلالت نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام بھیجنے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔- بلکہ یہاں یہ احتمال ہے اللہ تعالیٰ نے اس فقرے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجنے کے امر کی تاکید کا ارادہ فرمایا یعنی لوگ درود کے سلسلے میں اللہ کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کردیں جس طرح یہ قول باری ہے (ثم لا یجدوا فی انفسھم حرجامما قضیت ویسلموا تسلیما۔ پھر وہ آپ کے فیصلے سے اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریں اور پوری طرح اسے تسلیم کرلیں) ۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اپنے نام کا ذکر کیا ہے اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کیا ہے لیکن اپنی ذات کا ذکر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر سے الگ کرکے کیا ہے اور ایک کنایہ کے تحت دونوں اسموں کا اکٹھا نہیں کیا ہے مثلاً یہ قول باری ہے (واللہ ورسولہ احق ان ترضوہ اللہ اور اس کا رسول اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ تم انہیں راضی کرو) یہاں ” ان ترضوھما “ نہیں فرمایا اس لئے کہ اللہ کا نام اور اللہ کے سوا کسی اور کا نام ایک کنایہ کے تحت جمع نہیں ہوسکتے۔- ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تقریر کرنے لگا۔ اس نے دوران تقریر کہا : ” من یطع اللہ ورسولہ فقد رشد ومن یعصھما فقد غویٰ “ آپ نے اسے ٹوک دیا اور فرمایا ” بس کرو آج تم بہت برے خطیب ثابت ہوئے۔ “ اس نے ” یعصھما “ کہا تھا یعنی اللہ اور رسول دونوں کا ایک کنایہ کے تحت ذکر کیا تھا اس لئے آپ نے اسے روک دیا۔- اگر یہ کہا جائے کہ ارشاد باری ہے (ان اللہ وملئکتہ یصلون علی النبی) اللہ تعالیٰ نے اپنا نام اور فرشتوں کا نام ایک ضمیر میں جمع کردیے ہیں تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہم نے دونوں کو ایسے کنایہ کے تحت جمع کرنے کا انکار کیا ہے جو ان دونوں کے لئے اسم بنتا ہو۔ مثلاً ھاء جو اسم کے لئے کنایہ ہے لیکن اگر فعل ہو جو نہ اسم ہوتا ہے اور اسم سے کنایہ بلکہ اس میں ضمیر ہوتی ہے تو ایسی صورت میں کوئی امتناع نہیں ہوتا۔- درج بالا آیت کے متعلق ایک قول یہ بھی ہے کہ قول باری (یصلون) ملائکہ کے لئے ضمیر ہے اللہ کیا سم کے لئے نہیں ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ کی صلوٰۃ کا مفہوم معنی کی جہت سے سمجھ میں آجاتا ہے جس طرح یہ قول باری ہے (انفضوا الیھا ۔ تجارت کی طرف دوڑ پڑتے ہیں) اس میں کنایہ کو تجارت کی طرف راجع کیا گیا ہے لفظ (لھوا) کی طرف راجع نہیں کیا گیا ہے حالانکہ تجارت کے ساتھ اس کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معنی کی جہت سے لہو کا مفہوم خود بخود سمجھ میں آرہا ہے۔- اسی طرح یہ قول باری ہے (والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ۔ جو لوگ سونا چاندی خزانہ کے طور پر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ خرچ نہیں کرتے) یہاں جس کنایہ کا ذکر ہوا ہے وہ فضہ یعنی چاندی کی طرف راجع ہے۔ سونے کا مفہوم معنی کی جہت سے خود بخود سمجھ میں آرہا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ” یقینا اللہ اور اس کے فرشتے رحمتیں نازل کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر۔ “- اس سے پہلے آیت ٤٣ میں مومنین کے بارے میں فرمایا گیا کہ اللہ اور اس کے فرشتے اہل ایمان پر رحمتیں نازل کرتے ہیں۔ یہاں پر بھی وہی الفاظ آئے ہیں لیکن الفاظ کی ترتیب مختلف ہے۔- یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا ” اے ایمان والو تم بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر رحمتیں اور سلام بھیجا کرو۔ “- یعنی تم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود وسلام بھیجا کرو اور دعا کرتے رہا کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :106 اللہ کی طرف سے اپنے نبی پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ پر بے حد مہربان ہے ، آپ کی تعریف فرماتا ہے ، آپ کے کام میں برکت دیتا ہے ، آپ کا نام بلند کرتا ہے اور آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتا ہے ۔ ملائکہ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ سے غایت درجے کی محبت رکھتے ہیں اور آپ کے حق میں اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ کو زیادہ سے زیادہ بلند مرتبے عطا فرمائے ، آپ کے دین کو سر بلند کرے ، آپ کی شریعت کو فروغ بخشے اور آپ کو مقام محمُود پر پہنچائے ۔ سیاق و سباق پر نگاہ ڈالنے سے صاف محسوس ہو جاتا ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں یہ بات کس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے ۔ وقت وہ تھا جب دشمنان اسلام اس دین مبین کے فروغ پر اپنے دل کی جلن نکالنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر رہے تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کیچڑ اچھال کر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اخلاقی اثر کو ختم کر دیں گے جس کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے قدم روز بروز بڑھتے چلے جا رہے تھے ۔ ان حالات میں یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ بتایا کہ کفار و مشرکین اور منافقین میرے نبی کو بدنام کرنے اور نیچا دکھانے کی جتنی چاہیں کوشش کر دیکھیں ، آخر کار وہ منہ کی کھائیں گے ، اس لیے کہ میں اس پر مہربان ہوں اور ساری کائنات کا نظم و نسق جن فرشتوں کے ذریعہ سے چل رہا ہے وہ سب اس کے حامی اور ثنا خواں ہیں ۔ وہ اس کی مذمت کر کے کیا پا سکتے ہیں جبکہ میں اس کا نام بلند کر رہا ہوں اور میرے فرشتے اس کی تعریفوں کے چرچے کر رہے ہیں ۔ وہ اپنے اوچھے ہتھیاروں سے اس کا کیا بگاڑ سکتے ہیں جبکہ میری رحمتیں اور برکتیں اس کے ساتھ ہیں اور میرے فرشتے شب و روز دعا کر رہے ہیں کہ رب العالمین ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ اور زیادہ اونچا کر اور اس کے دین کو اور زیادہ فروغ دے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :107 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اے لوگو جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت راہ راست نصیب ہوئی ہے ، تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسان عظیم کا حق ادا کرو ۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھی ، اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی ۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے ، اس شخص نے تمہیں اٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو ۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے ، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا ۔ کفر کی دنیا اسی لیے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے ، ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہ کی تھی ۔ اس لیے اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیر مجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو ، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہو جاؤ ، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کی تعریف کرو ، جتنے وہ اس کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے خیر خواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب و روز اس کے لیے کر رہے ہیں کہ اے رب دوجہاں جس طرح تیرے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں ، تو بھی ان پر بے حد و بے حساب رحمت فرما ، ان کا مرتبہ دنیا میں بھی سب سے زیادہ بلند کر اور آخرت میں بھی انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما ۔ اس آیت میں مسلمانوں کو دو چیزوں کا حکم دیا گیا ہے ۔ ایک صَلُّوْا عَلَیْہِ ۔ دوسرے سَلِّمُوْا تَسْلِیْماً صلوٰۃ کا لفظ جب عَلیٰ کے صلہ کے ساتھ آتا ہے تو اس کے تین معنی ہوتے ہیں ۔ ایک ، کسی پر مائل ہونا ، اس کی طرف محبت کے ساتھ متوجہ ہونا اور اس پر جھکنا ۔ دوسرے ، کسی کی تعریف کرنا ۔ تیسرے ، کسی کے حق میں دعا کرنا ۔ یہ لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جائے گا تو ظاہر ہے کہ تیسرے میں معنی میں نہیں ہو سکتا ، کیونکہ اللہ کا کسی اور سے دعا کرنا قطعاً ناقابل تصور ہے ۔ اس لیے لامحالہ وہ صرف پہلے دو معنوں میں ہو گا ۔ لیکن جب یہ لفظ بندوں کے لیے بولا جائے گا ، خواہ وہ فرشتے ہوں یا انسان ، تو وہ تینوں معنوں میں ہو گا ۔ اس میں محبت کا مفہوم بھی ہو گا ۔ مدح و ثنا کا مفہوم بھی اور دعائے رحمت کا مفہوم بھی ۔ لہٰذا اہل ایمان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں صَلُّوْ عَلَیْہِ کا حکم دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم ان کے گرویدہ ہو جاؤ ، ان کی مدح و ثنا کرو ، اور ان کے لیے دعا کرو ۔ سَلَام کا لفظ بھی دو معنی رکھتا ہے ۔ ایک ، ہر طرح کی آفات اور نقائص سے محفوظ رہنا ، جس کے لیے ہم اردو میں سلامتی کا لفظ بولتے ہیں ۔ دوسرے صلح اور عدم مخالفت ۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سَلِّمُوْا تِسْلِیْماً کہنے کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم ان کے حق میں کامل سلامتی کی دعا کرو ۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم پوری طرح دل و جان سے ان کا سا تھ دو ، ان کی مخالفت سے پرہیز کرو ، اور ان کے سچے فرمانبردار بن کر رہو ۔ یہ حکم جب نازل ہوا تو متعدد صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ، سلام کا طریقہ تو آپ ہمیں بتا چکے ہیں ( یعنی نماز میں السلام علیک ایھا النبی ورحمۃاللہ و برکاتۃٗ اور ملاقات کے وقت السلام علیک یا رسول اللہ کہنا ) مگر آپ پر صلوٰۃ بھیجنے کا طریقہ کیا ہے ؟ اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے لوگوں کو مختلف مواقع پر جو درود سکھائے ہیں وہ ہم ذیل میں درج کرتے ہیں : کعب بن عجُرہ : اللّٰہم صل علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما صلیت علٰی ابراہم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید و بارک علٰی محمد و علٰی اٰل محمد کما بارکت علٰی ابراہیم و علٰی اٰل ابراہیم انک حمیدٌ مجید یہ درود تھوڑے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت کعب بن عجرہ سے بخاری ، مسلم ، ابو داؤد ترمذی ، نسائی ، ابن ماجہ ، امام احمد ، ابن ابی شیبہ ، عبدالرزاق ، ابن ابی حاتم اور ابن جریر نے روایت کیا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ : ان سے بھی بہت خفیف فرق کے ساتھ وہی درود مروی ہے جو اوپر نقل ہوا ہے ( ابن جریر ) ابو حمید ساعدی : اللہم صلی علی محمد وازواجہ وذریتہ کما صلیت علی ابراہیم وبارک علی محمد وازواجہ و ذریتہ کما بارکت علی ال ابراہیم انک حمیدٌ مجید ( مالک ، مسلم ، ابو داود ، ترمذی ، ، نسائی ، احمد ، ابن حبان ، حاکم ) ابُو مسعود بدری: اللّٰھُمّ صَلیّ علٰی مُحَمّدٍ وَ علیٰ اٰل محَمّدٍ کَمَا صَلّیتَ علیٰ اِبراھیمَ وَبارک عَلیٰ محمدٍ و علیٰ اٰل محَمّدٍ کما بارکت علیٰ ابراہیم فی العالمین انّکَ حمیدٌ مَّجید ( مالک ، مسلم ، ابوداود ، ترمذی ، نَسائی ، احمد ، ابن جریر ، ابن حبان ، حاکم ) ابو سعیدخُدری : اللہم صل علی محمد عبدک و رسولک کما صلیت علی ابراہیم و بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابرھیم ( احمد بخاری نسائی ، ابن ماجہ ) بریدۃ الخزاعی: اللھم اجعل صلوتک و رحمتک و برکاتک علی محمد و علی ال محمد کام جعلتھا علی ابراہیم انک حمید مجید ( احمد ، عبد بن حمید ، ابن مردویہ ) ابو ہریرہ : اللہم صل علی محمد و علی ال محمد و بارک علی محمد و علی ال محمد کما صلیت و بارکت علی ابراہیم و علی ال ابراہیم فی العالمین انک حمیدٌ مجید ( نسائی ) طلحہ: اللہم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم انک حمید مجید و بارک علی محمد و علی ال محمد کما بارکت علی ابراہیم انک حمیدٌ مجید ( ابن جریر ) یہ تمام درود الفاظ کے اختلاف کے باوجود معنی میں متفق ہیں ۔ ان کے اندر چند اہم نکات ہیں جنہیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے : اوّلاً ، ان سب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مجھ پر درود بھیجنے کا طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اے خدا ، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج ۔ نادان لوگ جنہیں معنی کا شعور نہیں ہے اس پر فوراً یہ اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی ، اللہ تعالی تو ہم سے فرما رہا ہے کہ تم میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو ، مگر ہم الٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ تو درود بھیج ۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ تم مجھ پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنا چاہو بھی تو نہیں کر سکتے ‘ اس لیے اللہ ہی سے دعا کر و کہ وہ مجھ پر صلوٰۃ فرمائے ۔ ظاہر بات ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم مراتب بلند نہیں کر سکتے ۔ اللہ ہی بلند کر سکتا ہے ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتے ۔ اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع ذکر کے لیے آپ کے دین کو فروغ دینے کے لیے خواہ کتنی ہی کوشش کریں ، اللہ کے فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی ۔ حتیٰ کہ محبت و عقیدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہو سکتی ہے ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منحرف کر سکتا ہے ۔ اعاذنا اللہ من ذالک ۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں کہ اللہ سے آپ پر صلوٰۃ کی دعا کی جائے ۔ جو شخص اللہم صل علی محمد کہتا ہے وہ گویا اللہ کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض کر تا ہے کہ خدا یا ، تیرے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے ادا کرنا بس میں نہیں ہے تو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے ۔ ثانیاً: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کرم نے یہ گوارا نہ فرمایا کہ تنہا اپنی ہی ذات کو اس دعا کے لیے مخصوص فرما لیں ، بلکہ اپنے ساتھ اپنی آل اور ازواج اور ذریت کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شامل کر لیا ۔ ازواج اور ذریت کے معنی تو ظاہر ہیں ۔ رہا آل کا لفظ ، تو وہ محض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان والوں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس میں وہ سب لوگ آ جاتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو ہوں اور آپ کے طریقہ پر چلیں ۔ عربی لغت کی رو سے آل اور اہل میں فرق یہ ہے کہ کسی شخص کی آل وہ سب لوگ سمجھے جاتے ہیں جو اس کے ساتھی ، مددگار اور متبع ہوں ، خواہ وہ اس کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں اور کسی شخص کے اہل وہ سب لوگ کہے جاتے ہیں جو اس کے رشتہ دار ہوں ، خواہ وہ اس کے ساتھی اور متبع ہوں یا نہ ہوں ۔ قرآن مجید میں ۱٤ مقامات پر آل فرعون کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ان میں سے کسی جگہ بھی آل سے مراد محض فرعون کے خاندان والے نہیں ہیں بلکہ وہ سب لوگ ہیں جو حضرت مو سیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں اس کے ساتھی تھے ( مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ آیت ٤۹ ۔ ۵۰ ۔ آل عمران ، ۱۱ ۔ الاعراف ، ۱۳۰ ۔ المومن ، ٤٦ ) پس آل محمد سے ہر وہ شخص خارج ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر نہ ہو ، خواہ وہ خاندان رسالت ہی کا ایک فرد ہو ، اور اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلتا ہو ، خواہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی دور کا بھی نسبی تعلق نہ رکھتا ہو ۔ البتہ خاندان رسالت کے وہ افراد بدرجۂ اولیٰ آل محمد صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جو آپ سے نسبی تعلق بھی رکھتے ہیں اور آپ کے پیرو بھی ہیں ۔ ثالثاً ہر درود جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے اس میں یہ بات ضرور شامل ہے کہ آپ پر ویسی ہی مہربانی فرمائی جائے جیسی ابراہیم علیہ السلام اور آل ابراہیم علیہ السلام پر فرمائی گئی ہے ۔ اس مضمون کو سمجھنے میں لوگوں کو بڑی مشکل پیش آئی ہے ۔ اس کی مختلف تاویلیں علماء نے کی ہیں ۔ مگر کوئی تاویل دل کو نہیں لگتی ۔ میرے نزدیک صحیح تاویل یہ ہے ( والعلم عنداللہ ) کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایک خاص کرم فرمایا ہے جو آج تک کسی پر نہیں فرمایا ، اور وہ یہ ہے کہ تمام وہ انسان جو نبوت اور وحی اور کتاب کو ماخذ ہدایت مانتے ہیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشوائی پر متفق ہیں ، خواہ وہ مسلمان ہوں یا عیسائی یا یہودی ۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے تمام انبیاء کے پیروؤں کا مرجع بنایا ہے اسی طرح مجھے بھی بنا دے ۔ اور کوئی ایسا شخص جو نبوت کا ماننے والا ہو ، میری نبوت پر ایمان لانے سے محروم نہ رہ جائے ۔ یہ امر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا سنت اسلام ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے اس کا پڑھنا مستحب ہے اور خصوصاً نماز میں اس کا پڑھنا مسنون ہے ، اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے ۔ اس امر پر بھی اجماع ہے کہ عمر میں ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا فرض ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں اس کا حکم دیا ہے ۔ لیکن اس کے بعد درود کے مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ نماز میں آخری مرتبہ جب آدمی تشہد پڑھتا ہے اس میں صلوٰۃ علی النبی پڑھنا فرض ہے ، اگر کوئی شخص نہ پڑھے گا تو نماز نہ ہو گی ۔ صحابہ میں سے ابن مسعود انصاری ، ابن عمر اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم ، تابعین میں سے شَعبِی ، امام محمد بن کعب قُرظی اور مُقاتِل بن حَیّان ، اور فقہاء میں سے اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مسلک تھا ، اور آخر میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی اسی کو اختیار کر لیا تھا ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام مالک رحمہ اللہ اور جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ درود عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے ۔ یہ کلمۂ شہادت کی طرح ہے کہ جس نے ایک مرتبہ اللہ کی اِلہٰیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کر لیا اس نے فرض ادا کر دیا ۔ اسی طرح جس نے ایک دفعہ درود پڑھ لیا وہ فریضۂ صلوٰۃ علی النبی سے سبکدوش ہو گیا ۔ اس کے بعد نہ کلمہ پڑھنا فرض ہے نہ درود ۔ ایک اور گروہ نماز میں اس کا پڑھنا مطلقاً واجب قرار دیتا ہے ۔ مگر تشہد کے ساتھ اس کو مقید نہیں کرتا ۔ ایک دوسرے گروہ کے نزدیک ہر دعا میں اس کا پڑھنا واجب ہے ۔ کچھ اور لوگ اس کے قائل ہیں کہ جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آئے ، درود پڑھنا واجب ہے ۔ اور ایک گروہ کے نزدیک ایک مجلس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خواہ کتنی ہی مرتبہ آئے ، درود پڑھنا بس ایک دفعہ واجب ہے ۔ یہ اختلافات صرف وجوب کے معاملہ میں ہیں ۔ باقی رہی درود کی فضیلت ، اور اس کا موجب اجر و ثواب ہونا ، اور اس کا ایک بہت بڑی نیکی ہونا ، تو اس پر ساری امت متفق ہے ۔ اس میں کسی ایسے شخص کو کلام نہیں ہو سکتا جو ایمان سے کچھ بھی بہرہ رکھتا ہو ۔ درود تو فطری طور پر ہر اس مسلمان کے دل سے نکلے گا جسے یہ احساس ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن ہیں ۔ اسلام اور ایمان کی جتنی قدر انسان کے دل میں ہو گی اتنی ہی زیادہ قدر اس کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کی بھی ہو گی ، اور جتنا آدمی ان احسانات کا قدر شناس ہو گا اتنا ہی زیادہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے گا ۔ پس درحقیقت کثرت درود ایک پیمانہ ہے جو ناپ کر بتا دیتا ہے کہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی کتنا گہرا تعلق رکھتا ہے اور نعمت ایمان کی کتنی قدر اس کے دل میں ہے ۔ اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ من صلّ عَلَیَّ صلوٰۃ لم تزل الملٰئِکۃ تصلّی علیہ ما صلّٰی علیَّ ( احمد و ابن ماجہ ) جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے ملائکہ اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے من صلّٰی علیّ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشراً ( جو مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس بار درود بھیجتا ہے ۔ اولی الناس بی یوم القیامۃ اکثرھم علیّ صلوٰۃ ( ترمذی ) قیامت کے روز میرے ساتھ رہنے کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجے گا ۔ البخیل الذی ذکرتُ عندہ فلم یصلّ عَلَیَّ ( ترمذی ) بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسروں کے لیے اللّٰھمَّ صلّ علیٰ فلان یا صلّی اللہ علیہ وسلم ۔ ۔ ۔ ۔ یا اسی طرح کے دوسرے الفاظ کے ساتھ صلوٰۃ جائز ہے یا نہیں ، اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے ۔ ایک گروہ جس میں قاضی عیاض سب سے زیادہ نمایاں ہیں ، اسے مطلقاً جائز رکھتا ہے ۔ ان لوگوں کا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود غیر انبیاء پر صلوٰۃ کی متعدد مقامات پر تصریح کی ہے ۔ مثلاً اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوَات مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ ( البقرہ ۔ ۱۵۷ ) خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرْھُمْ وُتُزَکِّھِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْھِمْ ۔ ( التوبہ ۔ ۱۰۳ ) ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّی عَلَیْکُمْ وَمَلٰٓئِکَتُہ ( الاحزاب ۔ ٤۳ ) اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی متعدد مواقع پر لفظ صلوٰۃ کے ساتھ غیر انبیاء کو دعا دی ہے ۔ مثلاً ایک صحابی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اللّٰھُمَّ صَلّ علیٰ اٰل ابی اوفیٰ ۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی بیوی کی درخواست پر فرمایا ، صلی اللہ علیکِ وعلیٰ زوجِکِ جو لوگ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے ان کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ اللھم صلِّ علیھم ۔ حضرت سعد بن عبادہ کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللھم اجعل صَلوٰتک ورحمتک علیٰ اٰل سَعد بن عُبادہ ۔ اور مومن کی روح کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ ملائکہ اس کے حق میں دعا کرتے ہیں صلی اللہ علیک وعلیٰ جسدک ۔ لیکن جمہور امت کے نزدیک ایسا کرنا اللہ اور اس کے رسول کے لیے تو درست تھا مگر ہمارے لیے درست نہیں ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اب یہ اہل اسلام کا شعار بن چکا ہے کہ وہ صلوٰۃ و سلام کو انبیاء علیہم السلام کے لیے خاص کرتے ہیں اس لیے غیر انبیاء کے لیے اس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ اسی بنا پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ایک مرتبہ اپنے عامل کو لکھا تھا کہ میں نے سنا ہے کہ کچھ واعظین نے یہ نیا طریقہ شروع کیا ہے کہ وہ صلوٰۃ علی النبی کی طرح اپنے سر پرستوں اور حامیوں کے لیے بھی صلوٰۃ کا لفظ استعمال کرنے لگے ہیں ۔ میرا یہ خط پہنچنے کے بعد ان لوگوں کو اس فعل سے روک دو اور انہیں حکم دو کہ وہ صلوٰۃ کو انبیاء کے لیے محفوظ رکھیں اور دوسرے مسلمانوں کے حق میں دعا پر اکتفا کریں ۔ ( روح المعانی ) ۔ اکثریت کا یہ مسلک بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی نبی کے لیے بھی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کا استعمال درست نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani