Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ملعون و معذب لوگ ۔ جو لوگ اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرکے اس کے روکے ہوئے کاموں سے نہ رک کر اس کی نافرمانیوں پر جم کر اسے ناراض کر رہے ہیں اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے طرح طرح کے بہتان باندھتے ہیں وہ ملعون اور معذب ہیں ۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں اس سے مراد تصویریں بنانے والے ہیں ۔ بخاری و مسلم میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے ابن آدم ایذاء دیتا ہے وہ زمانے کو گالیاں دیتا ہے اور زمانہ میں ہوں میں ہی دن رات کا تغیر و تبدل کر رہا ہوں ۔ مطلب یہ ہے کہ جاہلیت والے کہا کرتے تھے ہائے زمانے کی ہلاکت اس نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور یوں کیا ۔ پس اللہ کے افعال کو زمانے کی طرف منسوب کرکے پھر زمانے کو برا کہتے تھے گویا افعال کے فاعل یعنی خود اللہ کو برا کہتے تھے ۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا تو اس پر بھی بعض لوگوں نے باتیں بنانا شروع کی تھیں ۔ بقول ابن عباس یہ آیت اس بارے میں اتری ۔ آیت عام ہے کسی طرح بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دے وہ اس آیت کے ماتحت ملعون اور معذب ہے ۔ اس لئے کہ رسول اللہ کو ایذاء دینی گویا اللہ کو ایذاء دینی ہے ۔ جس طرح آپ کی اطاعت عین اطاعت الٰہی ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں تمہیں اللہ کو یاد دلاتا ہوں دیکھو اللہ کو بیچ میں رکھ کر تم سے کہتا ہوں کہ میرے اصحاب کو میرے بعد نشانہ نہ بنالینا میری محبت کی وجہ سے ان سے بھی محبت رکھنا ان سے بغض دبیر رکھنے والا مجھ سے دشمنی کرنے والا ہے ۔ انہیں جس نے ایذاء دی اور جس نے اللہ کو ایذاء دی یقین مانو کہ اللہ اس کی بھوسی اڑا دے گا ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے ۔ جو لوگ ایمانداروں کی طرف ان برائیوں کو منسوب کرتے ہیں ۔ جن سے وہ بری ہیں وہ بڑے بہتان باز اور زبردست گناہ گار ہیں ۔ اس وعید میں سب سے پہلے تو کفار داخل ہیں پھر رافضی شیعہ جو صحابہ پر عیب گیری کرتے ہیں اور اللہ نے جن کی تعریفیں کی ہیں یہ انہیں برا کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ وہ انصار و مہاجرین سے خوش ہے ۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ ان کی مدح و ستائش موجود ہے ۔ لیکن یہ بےخبر کند ذہن انہیں برا کہتے ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں اور ان میں وہ باتیں بتاتے ہیں جن سے وہ بالکل الگ ہیں ۔ حق یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے ان کے دل اوندھے ہوگئے ہیں اس لئے ان کی زبانیں بھی الٹی چلتی ہیں ۔ قابل مدح لوگوں کی مذمت کرتے ہیں اور مذمت والوں کی تعریفیں کرتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ غیبت کسے کہتے ہیں؟ آپ فرماتے ہیں تیرا اپنے بھائی کا اس طرح ذکر کرنا جسے اگر وہ سنے تو اسے برا معلوم ہو ۔ آپ سے سوال ہوا کہ اگر وہ بات اس میں ہو تب؟ آپ نے فرمایا جبھی تو غیبت ہے ورنہ بہتان ہے ۔ ( ترمذی ) ایک مرتبہ اپنے اصحاب سے سوال کیا کہ سب سے بڑی سود خواری کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ جانے اور اللہ کا رسول ۔ آپ نے فرمایا سب سے بڑا سود اللہ کے نزدیک کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرنا ہے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

57۔ 1 اللہ کو ایذا دینے کا مطلب ان کے افعال کا ارتکاب ہے جو وہ ناپسند فرماتا ہے ورنہ اللہ پر ایذا پہنچانے پر کون قادر ہے ؟ جسے مشرکین، یہود اور نصاریٰ وغیرہ کے لئے اولاد ثابت کرتے ہیں۔ یا جس طرح حدیث قدسی میں ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں اس کے رات دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے (صحیح بخاری) یعنی یہ کہنا کہ زمانے نے یا فلک کج رفتار نے ایسا کردیا یہ صحیح نہیں اس لیے کہ افعال اللہ کے ہیں زمانے یا فلک کے نہیں اللہ کے رسول کو ایذا پہنچانا آپ کی تکذیب آپ کو شاعر کذاب ساحر وغیرہ کہنا ہے علاوہ ازیں بعض احادیث میں صحابہ کرام کو ایذا پہنچانے اور ان کی تنقیص واہانت کو بھی آپ نے ایذا قرار دیا ہے لعنت کا مطلب اللہ کی رحمت سے دوری اور محرومی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٧] اللہ اور اس کے رسول کو ایذا کی صورتیں :۔ اللہ کو دکھ پہنچانے کی کئی صورتیں ہیں۔ پہلی صورت شرک ہے کہ اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک بنا لیا جائے چناچہ ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آدم کا بیٹا مجھے سخت دکھ پہنچاتا ہے۔ جب کہتا کہ اللہ کی اولاد ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دین اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے والے سب لوگ فی الحقیقت اللہ اور اس کے رسول دونوں کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ جو رسول اللہ کو الزام تراشیوں اور طعن وتشنیع سے دکھ پہنچاتے ہیں۔ اور ایسے مواقع رسول اللہ کی زندگی میں بکثرت آتے رہے۔ وہ لوگ حقیقتاً اللہ ہی کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ کیونکہ رسول اللہ کی ذات اللہ کی طرف سے مامور ہے اسی لحاظ سے رسول کی اطاعت ہی فی الحقیقت اللہ کی اطاعت ہے (٤: ٨٠) اسی طرح اللہ کے رسول کی نافرمانی فی الحقیقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ اسی طرح اللہ کے رسول کو ستانا اور تکلیف پہنچانا فی الحقیقت اللہ کو دکھ پہنچانا ہے۔ پھر آخر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ذلت و رسوائی کا عذاب کیوں نہ دے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۔۔ : قرآن مجید میں وعدہ و وعید اور ترغیب و ترہیب دونوں کا تذکرہ ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے ہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت، شان اور ان کے پاس آپ کی مدح و ثنا کے حوالے کے ساتھ ایمان والوں کو آپ کی مدح و ثنا اور آپ پر صلاۃ وسلام کا حکم دینے کے ساتھ ہی ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو مدح و ثنا کے بجائے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دیتے ہیں۔ فرمایا ان پر اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں لعنت فرمائی ہے اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ مراد ان لوگوں سے منافقین ہیں، جنھوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا، مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ کسی مومن سے اس بات کا تصور ہی نہیں ہوسکتا کہ وہ جان بوجھ کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دے۔- 3 اللہ تعالیٰ کو ایذا دینے سے مراد اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، اس کی شان میں گستاخی کرنا اور ان کاموں کا ارتکاب ہے جو اس نے حرام قرار دیے ہیں، مثلاً یہود کا کہنا : (ید اللہ مغلولۃ) [ المائدۃ : ٦٤ ] ، نصاریٰ کا کہنا : (المسیح ابن اللہ) [ التوبۃ : ٣٠ ] اور مشرکین کا فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں اور بتوں کو اور اللہ کی مخلوق کو اس کا شریک قرار دینا ہے۔ ابو موسیٰ اشعری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَا أَحَدٌ أَصْبَرُ عَلٰی أَذًی سَمِعَہُ مِنَ اللّٰہِ ، یَدَّعُوْنَ لَہُ الْوَلَدَ ، ثُمَّ یُعَافِیْہِمْ وَ یَرْزُقُہُمْ ) [ بخاري، التوحید، باب قول اللّٰہ تعالیٰ : ( إن اللّٰہ ھو الرزاق۔۔ ) : ٧٣٧٨ ] ” اللہ تعالیٰ سے زیادہ تکلیف دہ بات سن کر صبر کرنے والا کوئی نہیں، لوگ اس کے لیے اولاد قرار دیتے ہیں، پھر بھی وہ انھیں عافیت دیتا ہے اور رزق دیتا ہے۔ “ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، اللہ عزوجل نے فرمایا : ( یُؤْذِیْنِي ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّہْرَ وَ أَنَا الدَّہْرُ أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَ النَّہَارَ ) [ مسلم، الألفاظ من الأدب وغیرھا، باب النہي عن سب الدھر : ٢؍٢٢٤٦ ] ” ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے، (اس طرح کہ) وہ زمانے کو گالی دیتا ہے، حالانکہ زمانہ تو میں ہوں، رات دن کو میں بدلتا ہوں۔ “ - اس کے علاوہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور اہل ایمان کو ایذا بھی اللہ تعالیٰ کو ایذا ہے، جیسا کہ کعب بن اشرف کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کی ہجو کرنے پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ لِکَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ ؟ فَإِنَّہُ قَدْ آذَی اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہُ ) [ بخاري، الرھن، باب رھن السلاح : ٢٥١٠ ] ” کعب بن اشرف (کے قتل) کے لیے کون تیار ہے ؟ کیونکہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دی ہے۔ “- 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا سے مراد کسی بھی طرح کی ایذا ہے، جسمانی ہو یا روحانی، آپ کو جھٹلانا ہو یا مخالفت کرنا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر طرح کی تکلیف پہنچائی گئی، انس (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَقَدْ أُخِفْتُ فِي اللّٰہِ وَ مَا یُخَافُ أَحَدٌ وَ لَقَدْ أُوْذِیْتُ فِي اللّٰہِ وَمَا یُؤْذٰی أَحَدٌ ) [ ترمذي، صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب : ٢٤٧٢ ] ” مجھے اللہ تعالیٰ کے بارے میں ڈرایا گیا اتنا کہ کسی کو اتنا نہیں ڈرایا جاتا اور مجھے اللہ کی خاطر ایذا دی گئی اتنی کہ کسی کو اتنی نہیں دی جاتی۔ “ ان ایذاؤں میں مکہ مکرمہ میں شاعر، کاہن، ساحر کہنا، مذاق اڑانا، سجدے کی حالت میں اونٹنی کی اوجھڑی اور آلائش لا کر اوپر ڈال دینا، چادر کے ساتھ گلا گھونٹ دینا، شعب ابی طالب میں تین سال محصور رکھنا، اہل طائف کا زبانی بدسلوکی کے علاوہ سنگ باری کرنا وغیرہ شامل ہیں اور مدینہ میں منافقوں کی بد زبانی اور طعنہ زنی بھی، مثلاً ” لیخرجن الاعز منہا الاذل “ اور ” ویقولون ھو اذن “ جیسی باتیں آپ کے لیے شدید ایذا کا باعث تھیں۔ پچھلی آیات میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دینے والی بعض ایسی چیزوں سے بھی منع کیا گیا ہے جن کا ایذا ہونا عام طور پر معلوم نہیں تھا، خصوصاً آیت (٥٣) میں بیان کردہ چیزیں۔- 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا میں آپ کی تکذیب اور مخالفت کے علاوہ یہ بھی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات پر طعن و تشنیع کی جائے، یا آپ کے پیاروں کے متعلق بدزبانی کی جائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (قصداً ) ایذاء دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان پر دنیا و آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے، اور (اسی طرح) جو لوگ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو بدون اس کے کہ انہوں نے کچھ (ایسا کام) کیا ہو (جس سے وہ مستحق سزا ہوجاویں) ایذاء پہنچاتے ہیں تو وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ کا (اپنے اوپر) بار لیتے ہیں (یعنی اگر وہ ایذاء قولی ہے تو بہتان ہے اور اگر فعلی ہے تو مطلق گناہ ہی ہے)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَہُمُ اللہُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِيْنًا۝ ٥٧- أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] ، قوله تعالی:- فَآذُوهُما [ النساء 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة 222] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ فَآذُوهُمَا ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ لِمَ تُؤْذُونَنِي ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔- لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ - دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- آخرت - آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا «1» [يوسف 109] .- وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . و «أُخَر» معدول عن تقدیر ما فيه الألف واللام، ولیس له نظیر في کلامهم، فإنّ أفعل من کذا، - إمّا أن يذكر معه «من» لفظا أو تقدیرا، فلا يثنّى ولا يجمع ولا يؤنّث .- وإمّا أن يحذف منه «من» فيدخل عليه الألف واللام فيثنّى ويجمع .- وهذه اللفظة من بين أخواتها جوّز فيها ذلک من غير الألف واللام .- اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ یہ اصل میں ولاجر دار الحیاۃ الاخرۃ ہے ( اور دار کا لفظ الحیاۃ الاخرۃ کی طرف مضاف ہے ) اور اخر ( جمع الاخریٰ ) کا لفظ الاخر ( معرف بلام ) سے معدول ہے اور کلام عرب میں اس کی دوسری نظیر نہیں ہے کیونکہ افعل من کذا ( یعنی صیغہ تفصیل ) کے ساتھ اگر لفظ من لفظا یا تقدیرا مذکورہ ہو تو نہ اس کا تثنیہ ہوتا اور نہ جمع اور نہ ہی تانیث آتی ہے اور اس کا تثنیہ جمع دونوں آسکتے ہیں لیکن لفظ آخر میں اس کے نظائر کے برعکس الف لام کے بغیر اس کے استعمال کو جائز سمجھا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ الاخر سے معدول ہے ۔- عد ( اعداد)- والإِعْدادُ مِنَ العَدِّ كالإسقاء من السَّقْيِ ، فإذا قيل : أَعْدَدْتُ هذا لك، أي : جعلته بحیث تَعُدُّهُ وتتناوله بحسب حاجتک إليه . قال تعالی:- وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] ، وقوله : أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ، وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] ، وقوله : وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] ، قيل : هو منه، وقوله : فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ [ البقرة 184] ، أي : عدد ما قد فاته، وقوله : وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] ، أي : عِدَّةَ الشّهر، وقوله : أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ- [ البقرة 184] ، فإشارة إلى شهر رمضان . وقوله : وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] ، فهي ثلاثة أيّام بعد النّحر، والمعلومات عشر ذي الحجّة . وعند بعض الفقهاء : المَعْدُودَاتُ يومُ النّحر ويومان بعده «1» ، فعلی هذا يوم النّحر يكون من المَعْدُودَاتِ والمعلومات، والعِدَادُ : الوقت الذي يُعَدُّ لمعاودة الوجع، وقال عليه الصلاة والسلام :«ما زالت أكلة خيبر تُعَادُّنِي» «2» وعِدَّانُ الشیءِ : عهده وزمانه .- ( ع د د ) العدد - الاعداد تیار کرنا مہیا کرنا یہ عد سے ہے جیسے سقی سے اسقاء اور اعددت ھذا لک کے منعی ہیں کہ یہ چیز میں نے تمہارے لئے تیار کردی ہے کہ تم اسے شمار کرسکتے ہو اور جس قدر چاہو اس سے حسب ضرورت لے سکتے ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ [ الأنفال 60] اور جہاں تک ہوسکے ( فوج کی جمیعت سے ) ان کے ( مقابلے کے لئے مستعد رہو ۔ اور جو ) کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔ اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں ۔ أُولئِكَ أَعْتَدْنا لَهُمْ عَذاباً أَلِيماً [ النساء 18] ایسے لوگوں کے لئے ہم نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے وَأَعْتَدْنا لِمَنْ كَذَّبَ [ الفرقان 11] اور ہم نے جھٹلا نے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ اعتدت بھی اسی ( عد ) سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ [ البقرة 185] تم روزوں کا شمار پورا کرلو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم ماہ رمضان کی گنتی پوری کرلو ۔ أَيَّاماً مَعْدُوداتٍ [ البقرة 184] گنتی کے چند روز میں ماہ رمضان کی طرف اشارہ ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُوداتٍ [ البقرة 203] اور گنتی کے دنوں میں خدا کو یاد کرو ۔ میں سے عید قربان کے بعد کے تین دن مراد ہیں اور معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن بعض فقہاء نے کہا ہے کہ ایام معدودۃ سے یوم النحر اور اس کے بعد کے دو دن مراد ہیں اس صورت میں یوم النحر بھی ان تین دنوں میں شامل ہوگا ۔ العداد اس مقرر وقت کو کہتے ہیں جس میں بیماری کا دورہ پڑتا ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا مازالت امۃ خیبر تعادنی کہ خیبر کے دن جو مسموم کھانا میں نے کھایا تھا اس کی زہر بار بار عود کرتی رہی ہے عد ان الشئی کے معنی کسی چیز کے موسم یا زمانہ کے ہیں - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - هين - الْهَوَانُ علی وجهين :- أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن»- الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ- [ الروم 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل .- ( ھ و ن ) الھوان - اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (ان الذین یوذون اللہ ورسولہ ۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں) یعنی جو لوگ اللہ کے دوستوں اور اس کے رسول کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ کیونکہ اللہ کی ذات کو ایذا لاحق ہونا ممکن نہیں ہے اس لئے مجازی طور پر اس کا اطلاق ہوا ہے کیونکہ مخاطبین کو یہ بات خود بخود سمجھ میں آجاتی ہے جس طرح یہ قول باری ہے (واسئل القریۃ گائوں سے پوچھو) یعنی گائوں والوں سے پوچھو۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں قتل و جلا وطنی اور آخرت میں دوزخ کے ساتھ عذاب دیتا ہے جس میں یہ ذلیل کیے جائیں گے یہ آیت کریمہ یہود و نصاری کے بارے میں نازل ہوئی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ” یقینا وہ لوگ جو ایذا پہنچاتے ہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو “- یہ منافقین کا ذکر ہے۔ بعض دوسری مدنی سورتوں کی طرح اس سورة مبارکہ میں بھی منافقین کا ذکر کثرت سے آیا ہے۔- لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ وَاَعَدَّ لَہُمْ عَذَابًا مُّہِیْنًا ” اللہ نے لعنت کی ہے ان پر دنیا اور آخرت دونوں میں اور ان کے لیے اس نے اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :108 اللہ کو اذیت دینے سے مراد دو چیزیں ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کی نافرمانی کی جائے ، اس کے مقابلے میں کفر و شرک اور دہریت کا رویہ اختیار کیا جائے ، اور اس کے حرام کو حلال کر لیا جائے ۔ دوسرے یہ کہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دی جائے ، اور رسول کی نافرمانی خدا کی نافرمانی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani