Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

یعنی ان کو بدنام کرنے کے لیے ان پر بہتان باندھنا ان کی ناجائز تنقیص و توہین کرنا جیسے روافض صحابہ کرام (رض) پر سب وشتم کرتے اور ان کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جن کا ارتکاب انہوں نے نہیں کیا امام ابن کثیر فرماتے ہیں رافضی منکوس القلوب ہیں ممدوح اشخاص کی مذمت کرتے اور مذموم لوگوں کی مدح کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٩٨] جب مسلمان عورتیں رات کو رفع حاجت کے لئے باہر نکلتیں تو کچھ اوباش لونڈے اور منافق ان سے بےہودہ قسم کی گفتگو اور چھیڑ چھاڑ کرتے اور جب ان سے باز پرس کی جاتی تو کہہ دیتے کہ ہم سمجھے یہ لونڈیاں ہیں۔ پھر کچھ منافق ایسے بھی تھے جو رسول اللہ کی پیٹھ پیچھے بدگوئی کرتے اور ازواج مطہرات پر بےہودہ قسم کے الزام تراشتے یہ سب قسم کے لوگ تہمت تراش اور بدترین قسم کے مجرم ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا ۔۔ : یعنی انھیں بدنام کرنے کے لیے ان کی طرف ایسے کاموں کی نسبت کرتے ہیں جو انھوں نے کیے ہی نہیں۔ یہ بہتان ہے اور بہت بڑا گناہ ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا : ” اے اللہ کے رسول غیبت کیا ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( ذِکْرُکَ أَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ ) ” تمہارا اپنے بھائی کا ذکر اس چیز کے ساتھ کرنا جسے وہ ناپسند کرتا ہے۔ “ کہا گیا : ” یہ بتائیں اگر میرے بھائی میں وہ چیز موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَإِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اغْتَبْتَہُ وَ إِنْ لَمْ یَکُنْ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدْ بَہَتَّہُ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب في الغیبۃ : ٤٨٧٤، قال الألباني صحیح ] ” اگر اس میں وہ چیز موجود ہے جو تم کہہ رہے ہو تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ چیز نہیں تو تم نے اس پر بہتان باندھا۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیعت لیتے وقت شرک، چوری، زنا اور قتل نہ کرنے کا عہد لینے کے ساتھ بہتان نہ باندھنے کا بھی عہد لیتے تھے۔ دیکھیے سورة ممتحنہ (١٢) ۔- سعید بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّ مِنْ أَرْبَی الرِّبَا الْاِسْتِطَالَۃَ فِيْ عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَیْرِ حَقٍّ ) [ أبوداوٗد، الأدب، باب في الغیبۃ : ٤٨٧٦، قال الألباني صحیح ] ” سود کی سب سے بڑی قسموں میں سے ایک کسی مسلمان کی عزت پر دست درازی یا زبان درازی ہے۔ “ ابن کثیر نے فرمایا : ” آیت : (وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ۔۔ ) اس وعید میں سب سے پہلے تو کفار داخل ہیں، پھر رافضی شیعہ جو صحابہ کے نقص بیان کرتے اور ان کے ذمے وہ عیب لگاتے ہیں جن سے انھیں اللہ تعالیٰ نے بری قرار دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی جو تعریف فرمائی یہ صاف اس کے الٹ کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین و انصار کی تعریف کی اور ان کے متعلق بتایا کہ وہ ان سے راضی ہوگیا اور یہ جاہل اور غبی انھیں برا بھلا کہتے، ان کے نقص نکالتے اور ان کے ذمے وہ چیزیں لگاتے ہیں جو حقیقت میں انھوں نے کبھی کی ہی نہیں، یہ الٹے دلوں والے ہیں کہ جو لوگ تعریف کے لائق ہیں ان کی مذمت کرتے ہیں اور جو مذمت کے لائق ہیں ان کی تعریف کرتے ہیں۔ “ (ابن کثیر)- 3 قاسمی نے فرمایا : ” اکلیل میں ہے کہ اس آیت سے مسلمان کو ایذا دینا حرام ثابت ہوا۔ ہاں کسی شرعی وجہ سے ہو تو الگ بات ہے، جیسے کسی گناہ کی سزا اور اس میں وہ تمام چیزیں آجاتی ہیں جو مسلمان کو ایذا کی وجہ سے حرام کی گئی ہیں، مثلاً دوسرے کی بیع پر بیع یا اس کے خطبہ (منگنی) پر خطبہ اور امام شافعی نے صراحت فرمائی کہ کسی شخص کے آگے سے کھانا جب اسے اس سے تکلیف ہوتی ہو، حرام ہے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - سابقہ آیات میں مسلمانوں کو ان چیزوں پر تنبیہ کی گئی تھی جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا و تکلیف پہنچتی تھی، مگر کچھ مسلمان ناواقفیت یا بےتوجہی کی وجہ سے بلاقصد ایذاء اس میں مبتلا ہوجاتے تھے، جیسا کہ آپ کے بیوت میں بلا دعوت چلے جانا یا دعوت کے وقت سے پہلے آ کر بیٹھ جانا یا کھانے کے بعد آپ کے گھر میں باہمی بات چیت میں مشغول ہو کر دیر لگانا وغیرہ جس پر (آیت) یایہا الذین امنوا لا تدخلوا بیوت النبی الآیہ میں تنبیہ کی گئی ہے۔ یہ وہ ایذاء تھی جو بلاقصد و ارادہ غفلت سے پہنچ جاتی تھی، اس پر تو صرف تنبیہ کردینا کافی سمجھا گیا۔ مذکور الصدر دو آیتوں میں اس ایذاء و تکلیف کا ذکر ہے جو مخالفین اسلام کفار و منافقین کی طرف سے قصداً آپ کو پہنچائی جاتی تھی۔ اسی لئے خلاصہ تفسیر میں یہاں قصداً کا لفظ بڑھایا ہے، جس میں جسمانی ایذائیں بھی داخل ہیں، جو مختلف اوقات میں کفار کے ہاتھوں آپ کو پہنچتی ہیں اور روحانی ایذائیں بھی جو آپ پر طعن وتشنیع اور ازواج مطہرات پر بہتان تراشی کے ذریعہ پہنچائی گئیں۔ اس بالارادہ ایذاء پہنچانے پر لعنت اور عذاب شدید کی وعید بھی آیت مذکورہ میں آتی ہے۔- اس آیت کے شروع میں جو یہ ارشاد ہوا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچاتے ہیں اس میں ایذاء پہنچانے سے مراد وہ افعال و اقوال ہیں جو عادتاً ایذاء کا سبب بنا کرتے ہیں۔ اگرچہ حق تعالیٰ کی ذات پاک ہر تاثر وانفعال سے بالاتر ہے کسی کی مجال ہی نہیں کہ اس تک کوئی تکلیف پہنچا سکے، لیکن ایسے افعال جن سے عادتاً ایذاء پہنچا کرتی ہے ان کو ایذاء اللہ سے تعبیر کردیا گیا ہے۔- اس میں ائمہ تفسیر کا اختلاف ہے کہ یہاں پر اللہ کو ایذاء دینے سے کیا مراد ہے ؟ بعض ائمہ تفسیر نے ان افعال و اقوال کو اس کا مصداق ٹھہرایا ہے، جن کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی احادیث میں بتلایا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایذاء کا سبب ہیں، مثلاً حوادث و مصائب کے وقت زمانہ کو برا کہنا کہ درحقیقت فاعل حقیقی حق تعالیٰ ہے، یہ لوگ زمانہ کو فاعل سمجھ کر گالیاں دیتے تھے تو درحقیقت وہ فاعل حقیقی تک پہنچتی تھیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ جان دار چیزوں کی تصویریں بنانا اللہ تعالیٰ کی ایذاء کا سبب ہے۔ تو آیت میں اللہ کو ایذاء دینے سے مراد یہ اقوال یا افعال ہوئے۔- اور دوسرے ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ یہاں درحقیقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء سے روکنا اور اس پر وعید کرنا مقصود ہے۔ مگر آیت میں ایذاء رسول کو ایذا حق تعالیٰ کے عنوان سے تعبیر کردیا گیا، کیونکہ آپ کو ایذا پہنچانا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کو ایذاء پہنچانا ہے، جیسا کہ حدیث میں آگے آتا ہے۔ اور قرآن کے سیاق وسباق سے بھی ترجیح اس دوسری قول کی معلوم ہوتی ہے کیونکہ پہلے بھی ایذاء رسول کا بیان تھا اور آگے بھی اسی کا بیان آ رہا ہے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء کا اللہ تعالیٰ کے لئے ایذاء ہونا حضرت عبدالرحمن بن مغفل مزنی کی روایت سے ثابت ہے کہ :- ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو ان کو میرے بعد اپنی اعتراضات و تنقیدات کا نشانہ نہ بناؤ، کیونکہ ان سے جس نے محبت کی، میری محبت کی وجہ سے کی اور جس نے بغض رکھا میرے بغض کی وجہ سے رکھا، اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے ایذاء دی تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے گرفت کرے گا “- اس حدیث سے جیسا یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء سے اللہ تعالیٰ کی ایذاء ہوتی ہے اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ اکرام میں سے کسی کو ایذا پہنچانا یا ان کی شان میں گستاخی کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذاء ہے۔- اس آیت کے شان نزول کے متعلق متعدد روایات ہیں، بعض میں ہے کہ یہ حضرت صدیقہ عائشہ پر بہتان لگانے کے متعلق نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جس زمانہ میں حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان باندھا گیا تو عبداللہ بن ابی منافق کے گھر میں کچھ لوگ جمع ہوئے اور اس بہتان کو پھیلانے چلتا کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام سے اس کی شکایت فرمائی کہ یہ شخص مجھے ایذاء پہنچاتا ہے۔ (مظہری)- بعض روایات میں ہے کہ حضرت صفیہ سے نکاح کے وقت کچھ منافین نے طعن کیا اس کے متعلق نازل ہوئی۔ اور صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت ہر ایسے معاملہ کے متعلق نازل ہوئی ہے جس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت پہنچے۔ اس میں صدیقہ عائشہ پر بہتان بھی داخل ہے اور حضرت صفیہ اور زینب کے نکاحوں پر طعن وتشنیع بھی شامل ہے دوسرے صحابہ کرام کو برا کہنا اور ان پر تبرا کرنا بھی داخل ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کی ایذاء پہنچانا کفر ہے :- مسئلہ :- جو شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی طرح کی ایذاء پہنچائے، آپ کی ذات باصفات میں کوئی عیب نکالے خواہ صراحتا ہو یا کنایةً وہ کافر ہوگیا، اور اس آیت کی رو سے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت دنیا میں بھی ہوگی اور آخرت میں بھی (کذا قال القاضی ثناء اللہ فی التفسیر المظہری)- دوسری آیت میں عام مومنین کو ایذاء پہنچانے کے حرام اور بہتان عظیم ہونے کو بیان کیا ہے جبکہ وہ شرعاً اس کے مستحق نہ ہوں۔ عام مومنین میں یہ قید اس لئے لگائی کہ ان میں دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ کسی نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس کے بدلے میں اس کو ایذاء دینا شرعاً جائز ہے، اور پہلی آیت میں چونکہ معاملہ اللہ و رسول کی ایذا کا تھا اس میں کوئی قید نہیں لگائی، اس لئے کہ وہاں جائز ہونے کا کوئی احتمال ہی نہیں۔- کسی مسلمان کو بغیر وجہ شرعی دکھ پہنچانا حرام ہے :- مذکورہ آیت میں الذین یوذون المومنین (الیٰ ) بہتاناً عظیماً ، کسی مسلمان کو بغیر وجہ شرعی کے کسی قسم کی ایذاء اور دکھ پہنچانے کی حرمت ثابت ہوئی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا :- ” مسلمان تو صرف وہ آدمی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے سب مسلمان محفوظ ہوں، کسی کو تکلیف نہ پہنچے، اور مومن تو صرف وہی ہے جس سے لوگ اپنے خون اور مال کے معاملہ میں محفوظ ومامون ہوں “

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا۝ ٥ ٨ۧ- أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] ، قوله تعالی:- فَآذُوهُما [ النساء 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة 222] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ فَآذُوهُمَا ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ لِمَ تُؤْذُونَنِي ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔- غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - كسب ( عمل رزق)- الكَسْبُ : ما يتحرّاه الإنسان مما فيه اجتلاب نفع، و تحصیل حظّ ، كَكَسْبِ المال، وقد يستعمل فيما يظنّ الإنسان أنه يجلب منفعة، ثم استجلب به مضرّة . والکَسْبُ يقال فيما أخذه لنفسه ولغیره، ولهذا قد يتعدّى إلى مفعولین، فيقال : كَسَبْتُ فلانا کذا، والِاكْتِسَابُ لا يقال إلّا فيما استفدته لنفسک، فكلّ اكْتِسَابٍ کسب، ولیس کلّ كَسْبٍ اکتسابا، وذلک نحو : خبز واختبز، وشوی واشتوی، وطبخ واطّبخ، وقوله تعالی:- أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] روي أنه قيل للنّبي صلّى اللہ عليه وسلم «4» : أيّ الکسب أطيب ؟ فقال عليه الصلاة والسلام، «عمل الرجل بيده» ، وقال : «إنّ أطيب ما يأكل الرجل من کسبه وإنّ ولده من كَسْبِهِ» «1» ، وقال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] وقد ورد في القرآن في فعل الصالحات والسيئات، فممّا استعمل في الصالحات قوله : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] ، وقوله :- وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] «2» . وممّا يستعمل في السّيّئات : أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] ، أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] - ( ک س ب ) الکسب - ۔ اصل میں جلب نفع یا خوش نصیبی حاصل کرنے کے لئے کسی چیز کا قصد کرنے کو کسب کہتے ہیں جیسے کسب مال وغیرہ ایسے کام کے قصد پر بولا جاتا ہ جسے انسان اس خیال پر کرے کہ اس سے نفع حاصل ہوگا لیکن الٹا اس کو نقصان اٹھا نا پڑے ۔ پس الکسب ایسا کام کرنے کو کہتے ہیں جسے انسان اپنی ذا ت اور اس کے ساتھ دوسروں کے فائدہ کے لئے کرے اسی لئے یہ کبھی دو مفعولوں کو طرف متعدی ہوتا ہے جیسے کسبت فلانا کذا میں نے فلاں کو اتنا کچھ حاصل کرکے دیا ۔ مگر الاکتساب ایسا کام کرنے کو کت ہے ہیں جس میں انسان صرف اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے لہذا ہر اکتساب لازم نہیں ہے ۔ اور یہ خبز و اختبرزو شوٰ ی واشتویٰ ، وطبخ و طبخ کی طرف ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّباتِ ما كَسَبْتُمْ [ البقرة 267] جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کھاتے ہو ۔۔۔۔ اس میں سے راہ خدا میں خرچ کرو ۔ کے متعلق آنحضرت سے سوال کیا گیا ای الکسب اطیب کہ کونسا کسب زیادہ پاکیزہ ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل الرجل بیدہ کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور نیز فرمایا : ان طیب مایکل الرجل من کسبہ وان ولدہ من کسبہ سب سے زیادہ پاکیزہ رزق وہ ہی جو انسان اپنے ہاتھ سے کماکر کھا اور اسکی اولاد اس کے کسب سے ہے : قرآن میں ہے : لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] اسی طرح ( یہ ریا کار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے ۔ اور قرآن میں نیک وبددونوں قسم کے اعمال کے متعلق یہ فعل استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ اعمال صالحہ کے متعلق فرمایا : أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمانِها خَيْراً [ الأنعام 158] یا اپنے ایمان کی حالت میں نیک عمل نہیں کئ ہونگے اور آیت کریمہ : وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنا آتِنا فِي الدُّنْيا حَسَنَةً إلى قوله : مِمَّا كَسَبُوا [ البقرة 201- 202] کے بعد فرمایا : انکے کاموں کا ( حصہ ) اور اعمال بدکے متعلق فرمایا : - أَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِما كَسَبَتْ [ الأنعام 70] تاکہ ( قیامت کے دن کوئی شخص اپنے اعمال کی سزا میں ہلاکت میں نہ ڈالا جائے ۔ أُولئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِما كَسَبُوا[ الأنعام 70] یہی لوگ ہیں کہ اپنے اعمال کے وبال میں ہلاکت میں ڈالے گئے ۔ - حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- بهت - قال اللہ عزّ وجل : فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] ، أي : دهش وتحيّر، وقد بَهَتَهُ.- قال عزّ وجل : هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] أي : كذب يبهت سامعه لفظاعته . قال تعالی: وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] ، كناية عن الزنا «2» ، وقیل : بل ذلک لکل فعل مستبشع يتعاطینه بالید والرّجل من تناول ما لا يجوز والمشي إلى ما يقبح، ويقال : جاء بالبَهِيتَةِ ، أي : بالکذب .- ( ب ھ ت ) بھت ( س ) حیران وششدرہ جانا نا سے مبہوث کردیا : قرآن میں ہے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ [ البقرة 258] یہ سن کر کافر حیران رہ گیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ هذا بُهْتانٌ عَظِيمٌ [ النور 16] یہ تو ( بہت ) بڑا بہتان ہے ۔ میں بہتان کے معنی ایسے الزام کے ہیں جسے سن کر انسان ششد ر و حیرانوی جائے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا يَأْتِينَ بِبُهْتانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ [ الممتحنة 12] نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی ۔ میں بہتان زنا سے کنایہ ہے ۔ بعض نے کہا ہے نہیں بلکہ اس سے ہر وہ عمل شنیع مراد ہے جسے ہا اور پاؤں سے سر انجام دیا جائے ۔ مثلا ہاتھ سے کسی نادا چیز کو پکڑنا یا کسی عمل شنیع کا ارتکاب کرنے کے لئے اس کی طرف چل کر جانا اس نے جھوٹ بولا ۔- إثم - الإثم والأثام : اسم للأفعال المبطئة عن الثواب «5» ، وجمعه آثام، ولتضمنه لمعنی البطء قال الشاعرجماليّةٍ تغتلي بالرّادفإذا کذّب الآثمات الهجير «6» وقوله تعالی: فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنافِعُ لِلنَّاسِ [ البقرة 219] أي : في تناولهما إبطاء عن الخیرات . وقد أَثِمَ إثماً وأثاماً فهو آثِمٌ وأَثِمٌ وأَثِيمٌ. وتأثَّم : خرج من إثمه، کقولهم : تحوّب وتحرّج : خرج من حوبه وحرجه، أي : ضيقه . وتسمية الکذب إثماً لکون الکذب من جملة الإثم، وذلک کتسمية الإنسان حيواناً لکونه من جملته . وقوله تعالی: أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة 206] أي : حملته عزته علی فعل ما يؤثمه، وَمَنْ يَفْعَلْ ذلِكَ يَلْقَ أَثاماً [ الفرقان 68] أي : عذاباً ، فسمّاه أثاماً لما کان منه، وذلک کتسمية النبات والشحم ندیً لما کانا منه في قول الشاعر :- 7-- تعلّى الندی في متنه وتحدّرا«7» وقیل : معنی: «يلق أثاماً» أي : يحمله ذلک علی ارتکاب آثام، وذلک لاستدعاء الأمور الصغیرة إلى الكبيرة، وعلی الوجهين حمل قوله تعالی: فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم 59] . والآثم : المتحمّل الإثم، قال تعالی: آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة 283] .- وقوبل الإثم بالبرّ ، فقال صلّى اللہ عليه وسلم : «البرّ ما اطمأنّت إليه النفس، والإثم ما حاک في صدرک» «1» وهذا القول منه حکم البرّ والإثم لا تفسیر هما .- وقوله تعالی: مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم 12] أي : آثم، وقوله : يُسارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوانِ- [ المائدة 62] . قيل : أشار بالإثم إلى نحو قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْكافِرُونَ [ المائدة 44] ، وبالعدوان إلى قوله : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة 45] ، فالإثم أعمّ من العدوان .- ( ا ث م ) الاثم والاثام ۔ وہ اعمال وافعال جو ثواب سے روکتے اور پیچھے رکھنے والے ہوں اس کی جمع آثام آتی ہے چونکہ اس لفظ میں تاخیر اور بطء ( دیرلگانا ) کا مفہوم پایا جاتا ہے اس لئے شاعر نے اونٹنی کے متعلق کہا ہے ۔ ( المتقارب ) (6) جمالیۃ تغتلی بالرادف اذا کذب الآثمات الھجیرا وہ اونٹ کی طرح مضبوط ہے جب سست رفتار اونٹنیاں دوپہر کے وقت چلنے سے عاجز ہوجاتی ہیں تو یہ ردیف کو لے کر تیز رفتاری کے ساتھ چلتی ہے اور آیت کریمہ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ( سورة البقرة 219) میں خمر اور میسر میں اثم کبیر کے یہ معنی ہیں کہ ان کا تناول ( اور ارتکاب ) انسان کو ہر قسم کے افعال خیر سے روک لیتا ہے ۔ اثم ( ص) اثما واثاما فھو آثم و اثم واثیم ( گناہ کا ارتکاب کرنا ) اور تاثم ( تفعل ) کے معنی گناہ سے نکلنا ( یعنی رک جانا اور توبہ کرنا ) کے ہیں جیسے تحوب کے معنی حوب ( گناہ ) اور تحرج کے معنی حرج یعنی تنگی سے نکلنا کے آجاتے ہیں اور الکذب ( جھوٹ ) کو اثم کہنا اس وجہ سے ہے کہ یہ بھی ایک قسم کا گناہ ہے اور یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ انسان کو حیوان کا ایک فرد ہونے کی وجہ سے حیوان کہہ دیا جاتا ہے اور آیت کریمہ : أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ [ البقرة : 206] کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عزت نفس ( اور ہٹ دھرمی ) اسے گناہ پر اکساتی ہے اور آیت : وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا [ الفرقان : 68] میں آثام سے ( مجازا ) عذاب مراد ہے اور عذاب کو اثام اس لئے کہا گیا ہے کہ ایسے گناہ ( یعنی قتل وزنا ) عذاب کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ نبات اور شحم ( چربی ) کو ندی ( نمی ) کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ نمی سے نباتات اور ( اس سے ) چربی پیدا ہوتی ہے چناچہ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (7) " تعلی الندی فی متنہ وتحدار ، اس کی پیٹھ پر تہ برتہ چربی چڑھی ہوئی ہے اور نیچے تک پھیلی ہوئی ہے ۔ بعض نے آیت کریمہ : میں یلق آثاما کے یہ معنی بھی کئے ہیں مذکورہ افعال اسے دوسری گناہوں پر برانگیختہ کرینگے کیونکہ ( عموما) صغائر گناہ کبائر کے ارتکاب کا موجب بن جاتے ہیں اور آیت کریمہ : فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا [ مریم : 59] کی تفسیر بھی ان دو وجہ سے بیان کی گئی ہے ۔ لآثم ۔ گناہ کا ارتکاب کرنے والا ۔ قرآں میں ہے : آثِمٌ قَلْبُهُ [ البقرة : 283] وہ دل کا گنہگار ہے ۔ اور اثم کا لفظ بر ( نیکی ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا : (6) (6) البرما اطمانت الیہ النفس والاثم ما حاک فی صدرک کہ نیکی وہ ہے جس پر طبیعت مطمئن ہو اور گناہ وہ ہے جس کے متعلق دل میں تردد ہو ۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں آنحضرت نے البرو الاثم کی تفسیر نہیں بیان کی ہے بلکہ ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : مُعْتَدٍ أَثِيمٍ [ القلم : 12] میں اثیم بمعنی آثم ہے اور آیت : يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ [ المائدة : 62] ( کہ وہ گناہ اور ظلم میں جلدی کر رہے ہیں ) کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ آثم سے آیت : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [ المائدة : 44] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ کفرا اور عدوان سے آیت کریمہ : وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [ المائدة : 45] کے مفہوم کی طرف اشارہ ( یعنی عدم الحکم بما انزل اللہ ظلم ) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ لفظ اثم عدوان سے عام ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

قول باری ہے (والذین یئوذون المومنین والمومنات بغیرما اکتسبو اور جو لوگ ایمان والوں اور ایمان والیوں کو ایذا پہنچاتے ہیں بغیر اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو) ایک قول کے مطابق یہاں وہ لوگ مراد ہیں جن کا ذکر پہلی آیت میں اضمار کے طور پر ہوا ہے یعنی اللہ کے دوست اضمار کے بعد اللہ تعالیٰ نے اظہار یعنی اس کی صورت میں ان کا ذکر کردیا اور یہ بتادیا کہ یہی لوگ پہلی آیت میں مراد ہیں۔ اور یہ خبر دی کہ انہیں ایذا پہنچانے والے لوگ بہتان اور گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر لاد لیتے ہیں اور اسی بنا پر وہ اس عذاب اور لعنت کے مستحق قرار پاتے ہیں جن کا پہلی آیت میں ذکر ہوا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جو لوگ مومن مردوں یعنی حضرت صفوان کو اور مومنہ عورتوں یعنی حضرت عائشہ پر سوائے اس کے کہ انہوں نے کچھ ایسا کام کیا ہوا افترا پردازی کرتے ہیں تو وہ لوگ بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھائے۔ مدینہ منورہ میں کچھ لوگ بد فعلی کیا کرتے تھے کہ جس سے مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کو تکلیف پہنچتی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کام سے روکا وہ رک گئے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا ” اور وہ لوگ جو ایذا پہنچاتے ہیں مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر اس کے کہ انہوں نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہو “- ان پر بےجا الزام لگاتے ہیں ‘ بہتان تراشی کرتے ہیں اور اس طرح کے دوسرے حربوں سے انہیں اذیت پہنچاتے ہیں۔- فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُہْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا ” تو انہوں نے اپنے سر بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ لے لیا ہے۔ “- واضح رہے کہ اس آیت کے نزول تک ” قذف “ (زنا سے متعلق جھوٹی تہمت لگانا) کی سزا کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے یہاں صرف اس جرم کی سنگینی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ‘ البتہ سورة النور کی آیت ٤ میں قذف کی حد ٨٠ کوڑے مقرر کی گئی ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص کسی مسلمان خاتون پر زنا کا الزام لگائے اور اس پر موقع کے چار گواہ پیش نہ کرسکے تو اس کو سزا کے طور پر ٨٠ کوڑے لگائے جائیں گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :109 یہ آیت بہتان کی تعریف متعین کر دیتی ہے ، یعنی جو عیب آدمی میں نہ ہو ، یا جو قصور آدمی نے نہ کیا ہو وہ اس کی طرف منسوب کرنا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تصریح فرمائی ہے ۔ ابو داؤد اور ترمذی کی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا غیبت کیا ہے ؟ فرمایا ذکرک اخاک بمَا یکرہ ۔ تیرا اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرنا جو اسے ناگوار ہو ۔ عرض کیا گیا اور اگر میرے بھائی میں وہ عیب موجود ہو ۔ فرمایا ان کان فیہ ما تقول فقد اغتبتہ وان لم یکن فیہ ما تقول فقد بھتّہ ۔ اگر اس میں وہ عیب موجود ہے جو تو نے بیان کیا تو تو نے اس کی غیبت کی ۔ اور اگر وہ اس میں نہیں ہے تو تو نے اس پر بہتان لگایا ۔ یہ فعل صرف ایک اخلاقی گناہ ہی نہیں ہے جس کی سزا آخرت میں ملنے والی ہو ۔ بلکہ اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلامی ریاست کے قانون میں بھی جھوٹے الزامات لگانے کو جرم مستلزم سزا قرار دیا جائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani