تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل کون؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تسلیما کو فرماتا ہے کہ آپ مومن عورتوں سے فرما دیں بالخصوص اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے کیونکہ وہ تمام دنیا کی عورتوں سے بہتر و افضل ہیں کہ وہ اپنی چادریں قدریں لٹکالیا کریں تاکہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہو جائیں اسی طرح لونڈیوں سے بھی آزاد عورتوں کی پہچان ہو جائے ۔ جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو عورتیں اپنی دوپٹیاکے اوپر ڈالتی ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو حکم دیتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج کیلئے باہر نکلیں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہیں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لیا کریں ، صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔ امام محمد بن سیرین رحمتہ اللہ علیہ کے سوال پر حضرت عبیدہ سلمانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر اور بائیں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دیا کہ یہ مطلب اس آیت کا ہے ۔ حضرت عکرمہ رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اپنی چادر سے اپنا گلا تک ڈھانپ لے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اس آیت کے اترنے کے بعد انصار کی عورتیں جب نکلتی تھیں تو اس طرح لکی چھپی چلتی تھیں گویا ان کے سروں پر پرند ہیں سیاہ چادریں اپنے اوپر ڈال لیا کرتی تھیں ۔ حضرت زہری سے سوال ہوا کہ کیا لونڈیاں بھی چادر اوڑھیں؟ خواہ خاوندوں والیاں ہوں یا بےخاوند کی ہوں؟ فرمایا دوپٹیا تو ضرور اوڑھیں اگر وہ خاوندوں والیاں ہوں اور چادر نہ اوڑھیں تاکہ ان میں اور آزاد عورتوں میں فرق رہے حضرت سفیان ثوری سے منقول ہے کہ ذمی کافروں کی عورتوں کی زینت کا دیکھنا صرف خوف زنا کی وجہ سے ممنوع ہے نہ کہ ان کی حرمت و عزت کی وجہ سے کیونکہ آیت میں مومنوں کی عورتوں کا ذکر ہے ۔ چادر کا لٹکانا چونکہ علامت ہے آزاد پاک دامن عورتوں کی اس لئے یہ چادر کے لٹکانے سے پہچان لی جائیں گی کہ یہ نہ واہی عورتیں ہیں نہ لونڈیاں ہیں ۔ سدی کا قول ہے کہ فاسق لوگ اندھیری راتوں میں راستے سے گزرنے والی عورتوں پر آوازے کستے تھے اس لئے یہ نشان ہوگیا کہ گھر گر ہست عورتوں اور لونڈیوں بانڈیوں وغیرہ میں تمیز ہو جائے اور ان پاک دامن عورتوں پر کوئی لب نہ ہلاسکے ۔ پھر فرمایا کہ جاہلیت کے زمانے میں جو بےپردگی کی رسم تھی جب تم اللہ کے اس حکم کے عامل بن جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمام اگلی خطاؤں سے درگزر فرمالے گا اور تم پر مہر و کرم کرے گا ، پھر فرماتا ہے کہ اگر منافق لوگ اور بدکار اور جھوٹی افواہیں دشمنوں کی چڑھائی وغیرہ کی اڑانے والے اب بھی باز نہ آئے اور حق کے طرفدار نہ ہوئے تو ہم اے نبی تجھے ان پر غالب اور مسلط کردیں گے ۔ پھر تو وہ مدینے میں ٹھہر ہی نہیں سکیں گے ۔ بہت جلد تباہ کردیے جائیں گے اور جو کچھ دن ان کے مدینے کی اقامت سے گزریں گے وہ بھی لعنت و پھٹکار میں ذلت اور مار میں گزریں گے ۔ ہر طرف سے دھتکارے جائیں گے ، راندہ درگاہ ہو جائیں گے ، جہاں جائیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور بری طرح قتل کئے جائیں گے ۔ ایسے کفار و منافقین پر جبکہ وہ اپنی سرکشی سے باز نہ آئیں مسلمانوں کو غلبہ دینا ہماری قدیمی سنت ہے جس میں نہ کبھی تغیر و تبدل ہوا نہ اب ہو ۔
59۔ 1 جلابیب، جلباب کی جمع ہے جو ایسی بڑی چادر کو کہتے ہیں جس سے پورا بدن ڈھک جائے اپنے اوپر چادر لٹکانے سے مراد اپنے چہرے پر اس طرح گھونگٹ نکالنا ہے کہ جس سے چہرے کا بیشتر حصہ بھی چھپ جائے اور نظریں جھکا کر چلنے سے اسے راستہ بھی نظر آتا جائے پاک وہند یا دیگر اسلامی ممالک میں برقعے کی جو مختلف صورتیں ہیں عہد رسالت میں یہ برقعے عام نہیں تھے پھر بعد میں معاشرت میں وہ سادگی نہیں رہی جو عہد رسالت اور صحابہ وتابعین کے دور میں تھی عورتیں نہایت سادہ لباس پہنتی تھیں بناؤ سنگھار اور زیب وزینت کے اظہار کا کوئی جذبہ ان کے اندر نہیں ہوتا تھا اس لیے ایک بڑی چادر سے بھی پردے کے تقاضے پورے ہوجاتے تھے لیکن بعد میں یہ سادگی نہیں رہی اس کی جگہ تجمل اور زینت نے لے لی اور عورتوں کے اندر زرق برق لباس اور زیورات کی نمائش عام ہوگئی جس کی وجہ سے چادر سے پردہ کرنا مشکل ہوگیا اور اس کی جگہ مختلف انداز کے برقعے عام ہوگئے گو اس سے بعض دفعہ عورت کو بالخصوص سخت گرمی میں کچھ دقت بھی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ ذرا سی تکلیف شریعت کے تقاضوں کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تاہم جو عورت برقعے کے بجائے پردے کے لیے بڑی چادر استعمال کرتی ہے اور پورے بدن کو ڈھانکتی اور چہرے پر صحیح معنوں میں گھونگٹ نکالتی ہے وہ یقینا پردے کے حکم کو بجالاتی ہے کیونکہ برقعہ ایسی لازمی شئی نہیں ہے جسے شریعت نے پردے کے لیے لازمی قرار دیا ہو لیکن آج کل عورتوں نے چادر کو بےپردگی اختیار کرنے کا ذریعہ بنالیا ہے پہلے وہ برقعے کی جگہ چادر اوڑھنا شروع کرتی ہیں پھر چادر بھی غائب ہوجاتی ہے صرف دوپٹہ رہ جاتا ہے اور بعض عورتوں کے لیے اس کا لینا بھی گراں ہوتا ہے۔ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ اب برقع کا استعمال ہی صحیح ہے کیونکہ جب سے برقعے کی جگہ چادر نے لے لی ہے بےپردگی عام ہوگئ ہے بلکہ عورتیں نیم برہنگی پر بھی فخر کرنے لگی ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون بہرحال اس آیت میں نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور عام مومن عورتوں کو گھر سے باہر نکلتے وقت پردے کا حکم دیا گیا جس سے واضح ہے کہ پردے کا حکم علماء کا ایجاد کردہ نہیں ہے جیسا کہ آج کل بعض لوگ باور کراتے ہیں یا اس کو قرار واقعی اہمیت نہیں دیتے بلکہ یہ اللہ کا حکم ہے جو قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے۔ اس سے اعراض، انکار اور بےپردگی پر اصرار کفر تک پہنچا سکتا ہے دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ نبی کی ایک بیٹی نہیں تھی جیسا کہ رافضیوں کا عقیدہ ہے بلکہ آپ کی ایک سے زائد بیٹیاں تھیں جیسا کہ نص قرآنی سے واضح ہے اور یہ چار تھیں جیسا کہ تاریخ و سیرت اور احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے۔ 59۔ 2 یہ پردے کی حکمت اور اس کے فائدے کا بیان ہے کہ اس سے ایک شریف زادی اور باحیا عورت اور بےشرم اور بدکار عورت کے درمیان پہچان ہوگی۔ پردے سے معلوم ہوگا کہ یہ خاندانی عورت ہے جس سے چھیڑ خانی کی جرات کسی کو نہیں ہوگی۔ اس کے برعکس بےپردہ عورت اوباشوں کی نگاہوں کا مرکز اور ان کی ابو الہوسی کا نشانہ بنے گی
[٩٩] اس حکم کے ذریعہ اوباش منافقوں کی چھیڑ چھاڑ کا سدباب کردیا گیا۔ نبی کی بیویوں، بیٹیوں اور سب مسلمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ بڑی چادریں اپنے سر کے اوپر سے نیچے لٹکا لیا کریں۔ اس سے بآسانی معلوم ہوسکے گا کہ یہ لونڈیاں نہیں بلکہ شریف زادیاں ہیں۔ لہذا منافق انھیں چھیڑ چھاڑ کی جرأت نہ کرسکیں گے۔- خ بنات النبی :۔ ضمناً اس سے اس بات کا پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ کی بیٹیاں تین یا تین سے زیادہ تھیں اور حقیقتاً یہ چار تھیں۔ سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ (رض) جبکہ شیعہ حضرات آپ کی صرف ایک بیٹی (سیدہ فاطمہ) تو تسلیم کرتے ہیں۔ باقی کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔- خ بڑی چادر اوڑھ کر عورتیں باہر نکلیں :۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بعض حضرات چہرہ کو پردہ کے حکم سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ (يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا 59) 33 ۔ الأحزاب :59) کا مطلب چادر لٹکا کر گھونگھٹ نکالنا نہیں بلکہ اس سے مراد چادر کو اپنے جسم کے ارد گرد اچھی طرح لپیٹ لینا ہے جسے پنجابی میں بکل مارنا کہتے ہیں۔ اس توجیہ کی تہ میں جو کچھ ہے وہ سب کو معلوم ہے ہم صرف یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ یہ توجیہ لغت، عقل اور نقل تینوں لحاظ سے غلط ہے۔ وہ یوں کہ :- ١۔ لغوی لحاظ سے دنٰی یدنی کا مطلب قریب ہونا، جھکنا اور لٹکنا سب کچھ آتا ہے۔ قرآن میں ہے (وَجَنَا الْجَنَّـتَيْنِ دَانٍ 54ۚ ) 55 ۔ الرحمن :54) یعنی ان دونوں باغوں کے پھل جھک رہے ہیں یا لٹک رہے ہیں اور اَدْنٰی یَدْنِی یعنی قریب کرنا، جھکانا اور لٹکانا اور ادنی الستر بمعنی پردہ لٹکانا ہے (منجد) اب اگر ادنٰی الیھن من جلابیبھن کے الفاظ ہوتے تو پھر ان معانی کی بھی گنجائش نکل سکتی تھی جو یہ حضرات چاہتے ہیں لیکن قرآن میں ادنیٰ کا صلہ علیٰ سے ہے جو اس کے معنی کو اِرْخَاء یعنی اوپر سے لٹکانے کے معنوں سے مختص کردیتا ہے۔ اور جب لٹکانا معنی ہو تو اس کا مطلب سر سے نیچے کو لٹکانا ہوگا جس میں چہرہ کا پردہ خود بخود آجاتا ہے۔- خ ہاتھوں اور چہرے کا پردہ :۔ ٢۔ اور عقلی لحاظ سے یہ توجیہ اس لئے غلط ہے کہ عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے۔ اگر اسے ہی حجاب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو حجاب کے باقی احکام بےسود ہیں۔ فرض کیجئے آپ اپنی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کی شکل و صورت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب اگر آپ کو اس لڑکی کا چہرہ نہ دکھایا جائے باقی تمام بدن ہاتھ، پاؤں وغیرہ دکھا دیئے جائیں تو کیا آپ مطمئن ہوجائیں گے ؟ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ کو اس لڑکی کا صرف چہرہ دکھادیا جائے اور باقی بدن نہ دکھایا جائے اس صورت میں آپ پھر بھی بہت حد تک مطمئن نظر آئیں گے۔ پھر جب یہ سب چیزیں روزمرہ کے تجربہ اور مشاہدہ میں آرہی ہیں تو پھر آخر چہرہ کو احکام حجاب سے کیونکر خارج کیا جاسکتا ہے ؟- چناچہ سیدنا ابوہریرہ (رض) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ کے پاس تھا۔ ایک شخص آیا اور آپ کو خبر دی کہ اس نے ایک انصاری عورت سے عقد کیا ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا : کیا تم نے اسے دیکھا بھی ہے ؟ وہ کہنے لگا نہیں آپ نے فرمایا : جا اس کو دیکھ لے اس لئے کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ عیب ہوتا ہے (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من اراد نکاح امرأۃ الیٰ ان ینظر الیٰ وجھھا وکفیھا قبل خطب تھا)- اس حدیث میں بھی آپ نے چہرہ دیکھنے کی ہی ہدایت فرمائی۔- آیت کے غلط معنی اور اس کا جواب :۔ ٣۔ نقلی لحاظ سے بھی یہ توجیہ غلط ہے۔ یہ سورة احزاب ذیقعد ٥ ھ میں نازل ہوئی اور واقعہ افک شوال ٦ ھ میں پیش آیا۔ اور واقعہ افک بیان کرتے ہوئے خود سیدہ عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ میں اسی جگہ بیٹھی رہی۔ اتنے میں میری آنکھ لگ گئی۔ ایک شخص صفوان بن معطل سلمی اس مقام پر آئے اور دیکھا کوئی سو رہا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا کیونکہ حجاب کا حکم اترنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر (إنَّا لِلّٰہِ وَإنَّا إلَیْہِ رَاجِِعُوْنَ ) پڑھا تو میری آنکھ کھل گئی تو میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث الافک۔۔ )- اب سوال یہ ہے کہ اگر (يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ 59) 33 ۔ الأحزاب :59) کا معنی وہ ہو جو یہ حضرات ہمیں سمجھانا چاہتے ہیں تو کیا (معاذ اللہ) سیدہ عائشہ (رض) اور دوسرے صحابہ (رض) نے اس کا معنی غلط سمجھا تھا ؟
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ ۔۔ : مسلمانوں کو ایذا دینے والوں کے لیے وعید کے بیان کے بعد مسلم عورتوں کو ایذا سے بچنے کے لیے پردے کی تاکید فرمائی۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹیاں ایک سے زیادہ تھیں۔ بعض لوگ فاطمہ (رض) کے علاوہ دوسری بیٹیوں کو آپ کی بیٹیاں تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے کہنے کے مطابق نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹیوں سے مراد امت کی عورتیں ہیں، مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں اور آپ کی بیٹیوں کے بعد مومنوں کی عورتوں کا الگ ذکر فرمایا ہے۔ حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار بیٹیاں مذکور ہیں، زینب، ام کلثوم، رقیہ اور فاطمہ۔ ” وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ “ میں مومنوں کی بیویوں کے علاوہ ان سے تعلق رکھنے والی تمام عورتیں، مثلاً ان کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بھتیجیاں اور بھانجیاں وغیرہ سب شامل ہیں۔ - ” جَلَابِیْبُ “ ” جِلْبَابٌ“ کی جمع ہے، بڑی چادر جو جسم کو ڈھانپ لے۔ ” من “ کا لفظ تبعیض کے لیے ہے، یعنی اپنی چادروں کا کچھ حصہ۔ ” يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ “ ، ” أَدْنٰی یُدْنِيْ “ کا معنی قریب کرنا ہے، ” علیھن “ کے لفظ سے اس میں لٹکانے کا مفہوم پیدا ہوگیا۔ عرب کی عورتیں تمام جاہل معاشروں کی طرح سب لوگوں کے سامنے کھلے منہ پھرتی تھیں، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اے نبی اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور ایمان والوں کی عورتوں سے کہہ دے کہ اپنی چادروں کا کچھ حصہ اپنے آپ پر لٹکا لیا کریں۔ “ اس لٹکانے سے مراد کیا ہے ؟ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل فرمایا : ” أَمَرَ اللّٰہُ نِسَاءَ الْمُؤْمِنِیْنَ إِذَا خَرَجْنَ مِنْ بُیُوْتِہِنَّ فِیْ حَاجَۃٍ أَنْ یُغَطِّیْنَ وُجُوْہَہُنَّ مِنْ فَوْقِ رُؤُوْسِہِنَّ بالْجَلاَبِیْبِ ، وَ یُبْدِیْنَ عَیْنًا وَاحِدَۃً “ [ طبري : ٢٨٨٨٠ ] ” اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے نکلیں تو اپنے چہرے کو اپنے سروں کے اوپر سے پڑی چادروں کے ساتھ ڈھانپ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔ “ ام سلمہ (رض) نے فرمایا : ( لَمَّا نَزَلَتْ : (يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ) خَرَجَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ کَأَنَّ عَلٰی رُءُ وْسِہِنَّ الْغِرْبَانَ مِنَ الْأَکْسِیَۃِ ) [ أبو داوٗد، اللباس، باب في قول اللّٰہ تعالیٰ : ( یدنین علیھن من جلا بیبھن ) : ٤١٠١، قال الألباني صحیح ] ” جب آیت ” يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ“ نازل ہوئی تو انصار کی عورتیں اس طرح نکلیں جیسے ان کے سروں پر (سیاہ) چادروں کی وجہ سے کوے ہوں۔ “- ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ : یہاں ایک سوال ہے کہ اگر اپنے آپ پر چادروں کا کچھ حصہ اس طرح لٹکایا جائے کہ صرف ایک آنکھ کھلی رہے، چہرہ نظر ہی نہ آئے تو اس طرح تو عورت کی پہچان ہو ہی نہیں سکتی، پھر یہ فرمانے کا کیا مطلب ہے کہ ” یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچانی جائیں تو انھیں تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ “ جواب اس کا یہ ہے کہ پہچانی جائیں سے یہ مراد نہیں کہ یہ فلاں عورت ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ پردہ کرنے کی وجہ سے ان کی پہچان ہوجائے کہ یہ شریف اور باحیا عورتیں ہیں، پھر کوئی انھیں چھیڑنے کی جرأت نہیں کرے گا، نہ کسی کے دل میں انھیں اپنی طرف مائل کرنے کا لالچ پیدا ہو سکے گا۔ اس کے برعکس بےپردہ عورت کی کیا پہچان ہوسکتی ہے کہ وہ شریف ہے یا بازار میں پیش ہونے والا سامان، جسے کوئی بھی حاصل کرسکتا ہے۔ پردہ اتارنے کے بعد اسے ایذا سے محفوظ رہنے کے بجائے فاسق و فاجر لوگوں کی چھیڑ چھاڑ، زبردستی اور بعض اوقات اغوا کا منتظر رہنا چاہیے۔- 3 بعض لوگ کہتے ہیں کہ چہرے کا پردہ نہیں، مگر یہ آیت ان کا رد کرتی ہے، اس کے علاوہ سورة نور کی آیت (٣١ اور ٦٠) سے اور سورة احزاب کی آیت (٥٣ اور ٥٥) سے بھی واضح طور پر پردے کا حکم ثابت ہو رہا ہے۔ زیر تفسیر آیت کے ساتھ ایک مرتبہ ان آیات کا ترجمہ و تفسیر بھی دیکھ لیں۔ واقعۂ افک میں عائشہ (رض) کا کہنا کہ صفوان نے مجھے پردے کی آیات اترنے سے پہلے دیکھا تھا، بھی چہرے کے پردے کی واضح دلیل ہے۔- وَكَان اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا : ”ۭغَفُوْرًا “ پردہ ڈالنے والا، ” رَّحِيْمًا “ بیحد مہربان۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے لیے پردے کا جو حکم دیا ہے اس کی وجہ اس کی صفت مغفرت و رحمت ہے۔ وہ تم پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے اور تم پر رحم کرنا چاہتا ہے اور اس کے حکم کی تعمیل ہی سے تم اس کی پردہ پوشی اور رحمت کے حق دار بنو گے، اگر تم نے اس کی اطاعت نہ کی تو اپنی کوتاہیوں پر اس کی پردہ پوشی کی اور رحمت کی امید نہ رکھو۔
خلاصہ تفسیر - اے پیغمبر پانی بیبیوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور دوسرے مسلمانوں کی عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ (سر سے) نیچی کرلیا کریں اپنے (چہرے کے) اوپر تھوڑی سی اپنی چادریں اس سے جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو آزار نہ دی جایا کریں گی (یعنی کسی ضرورت سے باہر نکلنا پڑے تو چادر سے سر اور چہرہ بھی چھپا لیا جائے جیسا کہ سورة نور کے ختم کے قریب غیر متبرجت بزینة میں اس کی تفسیر روایت سے گزر چکی ہے، چونکہ کنیزوں کے لئے سر فی نفسہ داخل ستر نہیں، اور چہرہ کھولنے میں ان کو آزاد عورتوں سے زیادہ رخصت ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے آقا کی خدمت میں لگی رہتی ہیں، اس لئے کام کاج کے لئے ان کو باہر نکلنے اور چہرہ وغیرہ کھولنے کی ضرورت زیادہ پڑتی ہے، بخلاف آزاد عورتوں کے کہ وہ اتنی مجبور نہیں، اور چونکہ اوباش لوگ آزاد عورتوں کو چھیڑنے کی ہمت ان کی خاندانی وجاہت و حمایت کی وجہ سے نہ کرتے تھے، کنیزوں کو چھیڑتے تھے، بعض اوقات کنیزوں کے دھوکے میں آزاد عورتوں کو بھی چھیڑنے لگتے تھے، اسی لئے اس آیت نے آزاد عورتوں کو کنیزوں سے ممتاز کرنے کے لئے بھی اور اس لئے بھی کہ سر اور گردن وغیرہ ان کا ستر میں داخل ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج و بنات اور عام مسلمانوں کی بیبیوں کو یہ حکم دیا کہ لمبی چادر میں مستور ہو کر نکلیں جس کو سر سے کچھ نیچے چہرے پر لٹکا لیا کریں جس کو اردو میں گھونگھٹ کرنا کہتے ہیں۔ اس حکم سے پردہ شرعی کے حکم کی تعمیل بھی ہوجائے گی اور بہت سہولت کے ساتھ اوباش اور شریر لوگوں سے حفاظت بھی۔ رہ گئی غیر حرائر یعنی کنیزیں سو ان کی حفاظت کا انتظام اگلی آیت میں آئے گا) اور (اس چہرہ کے اور سر کے ڈھانکنے میں اگر کوئی کمی یا بےاحتیاطی بلاقصد ہوجائے تو) اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے (اس کو معاف کر دے گا آگے ان لوگوں کی تنبیہ کی گئی جو کنیزوں کو چھیڑا کرتے تھے اور ان لوگوں کو بھی جو ایک دوسری شرارت کے مرتکب تھے کہ مسلمانوں کے خلاف غلط افواہیں پھیلا کر ان کو پریشان کرنا چاہتے تھے فرمایا) یہ (خاص اصل) منافقین اور (عام منافقین میں سے) وہ لوگ جن کے دلوں میں (شہوت پرستی کی) خرابی ہے (جس کی وجہ سے کنیزوں کو چھیڑتے اور پریشان کرتے ہیں) اور (انہی منافقین میں) وہ لوگ جو مدینہ میں (جھوٹی اور پریشان کرنے والی) افواہیں اڑایا کرتے ہیں (یہ لوگ) اگر (اپنی ان حرکتوں سے) باز نہ آئے تو ضرور (ایک نہ ایک دن) ہم آپ کو ان پر مسلط کردیں گے (یعنی ان کے مدینہ سے اخراج کا حکم دیں گے) پھر (اس حکم کے بعد) یہ لوگ آپ کے پاس مدینہ میں بہت ہی کم رہنے پائیں گے وہ بھی (ہر طرف سے) پھٹکارے ہوئے (یعنی مدینہ سے نکل جانے کا سامان کرنے کے لئے جو کچھ قلیل مدت معین کی جائے گی اس مدت میں تو یہ یہاں رہ لیں گے اور اس مدت میں بھی ہر طرف سے ذلیل و خوار ہوں گے، پھر نکال دیئے جائیں گے اور نکالنے کے بعد بھی کہیں امن نہ ہوگا بلکہ) جہاں ملیں گے پکڑ دھکڑ اور مار دھاڑ کی جائے گی (وجہ یہ کہ ان منافقین کے کفر کا مقتضا تو یہی تھا، لیکن نفاق کی آڑ میں ان کو پناہ ملی ہے جب علی الاعلان ایسی مخالفتیں کرنے لگیں گے، تو وہ مانع اٹھ گیا اس لئے ان کے ساتھ بھی کفر کے اصلی اقتضاء کے موافق معاملہ ہوگا کہ ان کا اخراج اور قید اور قتل سب جائز ہے، اور اگر خروج کے لئے کچھ عدت معین ہوجائے تو اس مدت کے اندر بوجہ معاہدہ کے مامون ہوں گے، اس کے بعد جہاں ملیں گے عہد ختم ہوجانے کی بنا پر ان کے قتل وقید کی اجازت ہوگی۔ منافقین کو جو یہ دھمکی دی گئی اس میں کنیزوں کو چھیڑنے کا بھی انتظام کیا اور دوسری شرارت افواہیں پھیلانے کا بھی انسداد ہوگیا۔- مطلب آیت کا یہ ہوگیا کہ اگر یہ لوگ علی الاعلان مخالفت احکام اور مسلمانوں کے خلاف حرکتوں سے باز آگئے گو اپنی درپردہ منافقانہ چالوں میں لگے رہیں تو یہ سزا جاری نہ ہوگی، ورنہ پھر عام کفار کے حکم میں داخل ہو کر سزاوار ہوجائیں گے، اور فساد و شورش پر سزا جاری کرنا کچھ انہی کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ) اللہ تعالیٰ نے ان (مفسد) لوگوں میں بھی اپنا یہی دستور (جاری) رکھا ہے جو (ان سے) پہلے ہو گزرے ہیں (کہ ان کو آسمانی سزائیں دیں یا انبیاء کے ہاتھ سے جہاد کے ذریعہ سزائیں دلوائی ہیں، پس اگر پہلے ایسا نہ ہو چکتا تو ایسی سزا میں کچھ استبعاد ہوسکتا تھا، اور اب تو اس کی کوئی گنجائش ہی نہیں) اور آپ اللہ تعالیٰ کے دستور میں (کسی شخص کی طرف سے) ردو بدل نہ پائیں گے (کہ خدا تو کوئی حکم جاری کرنا چاہئے اور کوئی اس کو روک سکے، لفظ سنتہ اللہ میں تو اس کا اظہار کردیا کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ سے پہلے کوئی کام نہیں کرسکتا، (آیت) ولن تجد لسنتہ اللہ تبدیلاً ، میں یہ بتلا دیا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا ارادہ فرما لیں تو کوئی اس کو روک نہیں سکتا)- معارف ومسائل - سابقہ آیات میں عام مسلمانوں مردوں اور عورتوں کو ایذاء پہنچانے کا حرام اور گناہ کبیرہ ہونا اور خصوصاً سیدالمومنین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا کا کفر موجب لعنت ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ منافقین کی طرف سے دو طرح کی ایذائیں سب مسلمانوں کو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پہنچتی تھیں۔ آیات مذکورہ میں ان ایذاؤں کے انسداد کا انتظام ہے اور اس کے ضمن میں عورتوں کے پردے کے کچھ مزید احکام کا بیان ایک مناسبت سے آیا ہے جو آگے معلوم ہوجائے گی۔ ان دونوں ایذاؤں میں ایک یہ تھی کہ منافقین کے عوام اور آوارہ قسم کے لوگ مسلمانوں کی باندیوں کنیزوں کو جب وہ کام کاج کے لئے باہر نکلتیں چھیڑا کرتے تھے، اور کبھی کنیزوں کے شبہ میں حرائر کو ستاتے تھے، جس کی وجہ سے عام مسلمانوں کو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچتی تھی۔- دوسری ایذاء یہ تھی کہ یہ لوگ ہمیشہ ایسی جھوٹی خبریں اڑاتے تھے کہ اب فلاں غنیم مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے۔ وہ سب کو ختم کر دے گا۔ آیات مذکورہ میں پہلی ایذاء سے حرائر (آزاد بیبیوں) کو بچانے کا فوری اور سہل انتظام یہ ہوسکتا تھا کہ ان کو یہ لوگ ان کے خاندان کی وجاہت اور حمایت کی وجہ سے باقصد چھیڑنے کی جرأت نہ کرتے تھے، کبھی کنیزوں کے شبہ میں یہ بھی ان کی چھیڑ چھاڑ کی زد میں آجاتی تھیں، اگر ان کی پہچان ہوجاتی تو یہ نوبت نہ آتی، اس لئے ضرورت پیش آئی کہ حرائر کا کوئی خاص امتیاز ہوجائے، تاکہ آسانی کے ساتھ خود بخود ہی کم از کم حرائر تو ان شریروں کے فساد سے فوری طور پر محفوظ ہوجائیں اور کنیزوں کا دوسرا انتظام کیا جائے۔- دوسری طرف شریعت اسلام نے حرائر اور کنیزوں کے پردہ شرعی میں بضرورت ایک فرق بھی رکھا ہے کہ کنیزوں کا شرعی پردہ وہ ہے جو حرائر کا اپنے محرموں کے سامنے ہوتا ہے کہ مثلاً چہرہ وغیرہ کھولنا جو حرائر کے لئے اپنے محرموں کے سامنے جائز ہے، کنیزوں کے لئے باہر بھی اس کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ ان کا کام ہی اپنے آقا اور اس کے گھر کی خدمت ہے جس میں ان کو باہر بھی بار بار نکلنا پڑتا ہے، اور چہرہ اور ہاتھ مستور رکھنا مشکل ہوتا ہے، بخلاف حرائر کے کہ ان کو کسی ضرورت سے باہر نکلنا بھی پڑے تو کبھی کبھی ہوگا جس میں پورے پردے کی رعایت مشکل نہیں، اس لئے حرائر کو یہ حکم دے دیا گیا کہ وہ لمبی چادر جس میں مستور ہو کر نکلتی ہیں اس کو اپنے سر پر سے چہرے کے سامنے لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ اجنبی مردوں کے سامنے نہ آئے اس سے ان کا پردہ بھی مکمل ہوگیا، اور باندیوں کنیزوں سے امتیاز خاص بھی ہوگیا، جس کے سبب وہ شریر لوگوں کی چھیڑ چھاڑ سے خود بخود مامون ہوگئیں۔ اور کنیزوں کی حفاظت کا انتظام ان منافقین کو سزا کی وعید سنا کر کیا گیا کہ اس سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں بھی اپنے نبی اور مسلمانوں کے ہاتھوں سزا دلوائیں گے۔- آیت مذکورہ میں حرہ (آزاد) عورتوں کے پردہ کے لئے یہ حکم ہوا ہے کہ (آیت) یدنین علیہن من جلابیبہن، اس میں یدنین، اوناً سے مشتق ہے، جس کے لفظی معنی قریب کرنے کے ہیں اور لفظ علیہن کے معنی اپنے اوپر اور جلابیب جمع جلباب کی ہے جو ایک خاص لمبی چادر کو کہا جاتا ہے، اس چادر کی ہئیت کے متعلق حضرت ابن مسعود نے فرمایا کہ وہ چادر ہے جو دوپٹہ کے اوپر اوڑھی جاتی ہے (ابن کثیر) اور حضرت ابن عباس نے اس کی ہئیت یہ بیان فرمائی ہے :- ” اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے یہ چادر لٹکا کر چہروں کو چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ (راستہ دیکھنے کے لئے) کھلی رکھیں “- اور امام محمد بن سیرین فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبیدہ سلمانی سے اس آیت کا مطلب اور جلباب کی کیفیت دریافت کی تو انہوں نے سر کے اوپر سے چادر چہرہ پر لٹکا کر چہرہ چھپا لیا، اور صرف بائیں آنکھ کھلی رکھ کر ادنا وجلباب کی تفسیر عملاً بیان فرمائی۔- سر کے اوپر سے چہرہ پر چادر لٹکانا جو حضرت ابن عباس اور عبیدہ سلمانی کے بیان میں آیا ہے یہ لفظ علیہن کی تفسیر ہے کہ اپنے اوپر چادر کو قریب کرنے کا مطلب چادر کو سر کے اوپر سے چہرہ پر لٹکانا ہے۔- اس آیت نے بصراحت چہرہ کے چھپانے کا حکم دیا ہے جس سے اس مضمون کی مکمل تائید ہوگئی جو اوپر حجاب کی پہلی آیت کے ذیل میں مفصل بیان ہوچکا ہے، کہ چہرہ اور ہتھیلیاں اگرچہ فی نفسہ ستر میں داخل نہیں مگر بوجہ خوف فتنہ کے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے، صرف مجبوری کی صورتیں مستثنیٰ ہیں۔- تنبیہ ضروری :- اس آیت میں حرہ عورتوں کو ایک خاص طرح کے پردہ کی ہدایت فرمائی کہ چادر کو سر کے اوپر سے لٹکا کر چہرے کو چھپا لیں، تاکہ عام کنیزوں سے ان کا امتیاز ہوجائے اور یہ شریر لوگوں کے فتنہ سے محفوظ ہوجائیں۔ مذکورہ الصدر بیان میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام نے عصمت وعفت کی حفاظت میں حرائر اور کنیزوں کے درمیان کوئی فرق کردیا کہ حرائر کی حفاظت کرائی، کنیزوں کو چھوڑ دیا، بلکہ درحقیقت یہ فرق اوباش شریر لوگوں نے خود کر رکھا تھا، کہ حرائر پر دست اندازی کی تو جرأت وہمت نہیں کرتے تھے، مگر اماء یعنی کنیزوں کو چھیڑتے تھے، شریعت اسلام نے ان کے اختیار کردہ اس فرق سے یہ فائدہ اٹھایا کہ عورتوں کی اکثریت تو خود انہی کے مسلمہ عمل کے ذریعہ خود بخود محفوظ ہوجائے گی، باقی رہا کنیزوں کا معاملہ سو ان کی عصمت کی حفاظت بھی اسلام میں ایسی ہی فرض و ضروری ہے جیسی حرائر کی۔ اس کے لئے قانونی تشدد اعتبار کئے بغیر چارہ نہیں، تو اگلی آیت میں اس کا قانون بتلا دیا کہ جو لوگ اپنی اس حرکت سے باز نہ آئیں گے ان کو کسی طرح معاف نہ کیا جائے گا، بلکہ جہاں ملیں گے پکڑے جائیں گے، اور قتل کردیئے جائیں گے، اس نے کنیزوں کی عصمت کو بھی حرائر کی طرح محفوظ کردیا۔- اس سے واضح ہوگیا کہ علامہ ابن حزم وغیرہ نے جو مذکورہ شبہ سے بچنے کیلئے آیت کی تفسیر جمہور علماء سے مختلف کرنے کی تاویل کی ہے۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں، شبہ تو جب ہوتا جبکہ کنیزوں کی حفاظت کا انتظام نہ کیا گیا ہوتا۔
يٰٓاَيُّہَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْہِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِہِنَّ ٠ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ٠ ۭ وَكَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ٥٩- نبی - النبيُّ بغیر همْز، فقد قال النحويُّون : أصله الهمْزُ فتُرِكَ همزُه، واستدلُّوا بقولهم : مُسَيْلِمَةُ نُبَيِّئُ سَوْءٍ. وقال بعض العلماء : هو من النَّبْوَة، أي : الرِّفعة «2» ، وسمّي نَبِيّاً لرِفْعة محلِّه عن سائر الناس المدلول عليه بقوله : وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] . فالنَّبِيُّ بغیر الهمْز أبلغُ من النَّبِيء بالهمْز، لأنه ليس كلّ مُنَبَّإ رفیعَ القَدْر والمحلِّ ، ولذلک قال عليه الصلاة والسلام لمن قال : يا نَبِيءَ اللہ فقال : «لَسْتُ بِنَبِيءِ اللہ ولكنْ نَبِيُّ اللهِ» «3» لمّا رأى أنّ الرّجل خاطبه بالهمز ليَغُضَّ منه . والنَّبْوَة والنَّبَاوَة : الارتفاع، ومنه قيل : نَبَا بفلان مکانُهُ ، کقولهم : قَضَّ عليه مضجعه، ونَبَا السیفُ عن الضَّرِيبة : إذا ارتدَّ عنه ولم يمض فيه، ونَبَا بصرُهُ عن کذا تشبيهاً بذلک .- ( ن ب و ) النبی - بدون ہمزہ کے متعلق بعض علمائے نحو نے کہا ہے کہ یہ اصل میں مہموز ہے لیکن اس میں ہمزہ متروک ہوچکا ہے اور اس پر وہ مسلیمۃ بنی سوء کے محاورہ سے استدلال کرتے ہیں ۔ مگر بعض علما نے کہا ہے کہ یہ نبوۃ بمعنی رفعت سے مشتق ہے اور نبی کو نبی اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے اندر معزز اور بلند اقداد کا حامل ہوتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ :۔ وَرَفَعْناهُ مَکاناً عَلِيًّا [ مریم 57] اور ہم نے ان کو بلند در جات سے نوازا کے مفہوم سے سمجھاتا ہے پس معلوم ہوا کہ نبی بدوں ہمزہ ( مہموز ) سے ابلغ ہے کیونکہ ہر منبا لوگوں میں بلند قدر اور صاحب مرتبہ نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ جب ایک شخص نے آنحضرت کو ارہ بغض ا نبی اللہ کہہ کر کر پکارا تو آپ نے فرمایا لست ینبی اللہ ولکن نبی اللہ کہ میں نبی اللہ نہیں ہوں بلکہ نبی اللہ ہوں ۔ النبوۃ والنباوۃ کے معنی بلندی کے ہیں اسی سے محاورہ ہے ۔ نبا بفلان مکا نہ کہ اسے یہ جگہ راس نہ آئی جیسا کہ قض علیہ مضجعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی بےچینی سے کروٹیں لینے کے ہیں نبا السیف عن لضربیۃ تلوار کا اچٹ جانا پھر اس کے ساتھ تشبیہ دے کر نبا بصر ہ عن کذا کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے کرا ہت کرنے کے ہیں ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- نِّسَاءُ- والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] - ما بالُ النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50]- النساء - والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔- جلب - أصل الجَلْب : سوق الشیء . يقال : جَلَبْتُ جَلْباً ، قال الشاعر - وقد يجلب الشیء البعید الجوالب وأَجْلَبْتُ عليه : صحت عليه بقهر . قال اللہ عزّ وجل : وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ [ الإسراء 64] ، والجَلَب المنهي عنه في قوله - عليه السلام : «لا جَلَب» قيل : هو أن يجلب المصّدّق أغنام القوم عن مرعاها فيعدها، وقیل : هو أن يأتي أحد المتسابقین بمن يجلب علی فرسه، وهو أن يزجره ويصيح به ليكون هو السابق . والجُلْبَة : قشرة تعلو الجرح، وأجلب فيه، والجِلْبُ : سحابة رقیقة تشبه الجلبة .- والجَلابیب : القمص والخمر، الواحد : جِلْبَاب .- ( ج ل ب ) جلب - ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ہنکاتے اور چلاتے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ کبھی جواب دور کی چیز کو کھینچ کرلے آتا ہے ۔ اجنب ( افعال ) علیہ کسی پر چلا کر زبر دستی ( سے آگے بڑھانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ [ الإسراء 64] اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ ۔ اور حدیث لاجنب ( یعنی جلب جائز نہیں ہے ) کے دو معنی بیان کئے جاتے ہیں ، ایک یہ کہ مصدق یعنی زکوۃ جمع کرنے والا چراگاہ سے کہیں دور بیٹھ جائے اور وہاں جانوروں کو حاضر کرنے کا حکم دے اور گھڑ دوڑ میں اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص دوڑ میں اپنے گھوڑے پر پہنچنے کے لئے ایک آدمی کو مقرر کرے تاکہ وہ آگے بڑھ جائے ۔ الجلبۃ ۔ پوست جراحی کہ خشک شدہ باشد ۔ الجلب ۔ پتلا سا بادل جو زخم کے پردہ کیطرح ہوتا ہے الجلا لیب اس کا واحد جلباب ہے جس کے معنی چادر یا قمیص کے ہیں ۔- عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، - قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] ، قوله تعالی:- فَآذُوهُما [ النساء 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة 222] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ فَآذُوهُمَا ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ لِمَ تُؤْذُونَنِي ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
قول باری ہے (یایھا النبی قل لازواجک وبناتک نسآء المومنین یدنین علیھن من جلا بیھن۔ اے نبی آپ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور ایمان والوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر تھوڑی سی نیچی کرلیا کریں)- حضرت عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ جلیاب چادر کو کہتے ہیں۔ ابن ابی نجیح نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ چادریں اوڑھ لیا کریں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ حرائر یعنی آزاد خواتین ہیں لونڈیاں نہیں ہیں۔ اور اس طرح کوئی آوارہ منش انسان ان سے کوئی تعرض نہ کرسکے۔ محمد بن سیرین نے عبیدہ سے روایت کی ہے کہ چادر لپیٹ لیں اور ایک آنکھ کھلی رکھیں۔- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی ہے۔ انہیں حسن بن ابی ربیع نے انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے حسن سے ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ مدینہ میں فلاں فلاں نام کی چنڈ لونڈیاں تھیں جب وہ باہر نکلتیں تو نادان لوگ انہیں چھیڑتے اور ایذا پہنچاتے۔ اگر کوئی آزاد یعنی شریف اور خاندانی عورت باہر نکلتی تو اسے لونڈی خیال کرکے اسے بھی چھیڑتے اور تکلیف پہنچاتے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے اوپر پڑی ہوئی چادریں ذرا نیچی رکھیں۔ اس سے وہ جلد پہچان لی جاتیں کہ یہ لونڈیاں نہیں ہیں بلکہ آزاد خواتین ہیں اور پھر انہیں ستانے کی کوئی ہمت نہ کرتا۔- حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ حوہ یعنی آزاد عورت جب باہر نکلے تو وہ اپنی پیشانی اور سر ڈھانپ کر رکھے ۔ یہ ہیئت لونڈیوں کی ہیئت کے خلاف تھی جو اپنی پیشانی اور سر کھلا رکھتی تھیں۔ ہمیں عبدالہل بن محمد نے روایت بیان کی، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے، انہیں معمر نے ابو خیثم سے، انہوں نے صفیہ بنت شیبہ سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ (رض) سے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصار کے کچھ خواتین باہر نکلیں۔ انہوں نے اپنے سروں پر سیاہ کپڑے باندھ رکھے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان کے سروں پر کوئے بیٹھے ہیں۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں اس امر پر دلالت موجود ہے کہ جوان عورت کو اجنبی مردوں سے اپنا چہرہ چھپائے رکھنے کا حکم ہے۔ نیز باہر نکلنے کی صورت میں پردہ کرنے پر پاکبازی ظاہر کرنے کا حکم ہے تاکہ مشکوک لوگوں کے دلوں میں ان کے متعلق کوئی غلط آرزو پیدا نہ ہوسکے۔ اس میں یہ دلالت بھی موجود ہے کہ لونڈی کو اپنا چہرہ اور اپنے بال چھپانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ قول باری (و نسآء المومنین) سے ظاہراً آزاد خواتین مراد ہیں۔- اس آیت کی تفسیر میں اسی طرح کی روایت ہے تاکہ اس کی ہیئت لونڈیوں کی ہیئت سے مختلف ہوجائے جنہیں اپنا سرا ور چہرہ چھپانے کا حکم نہیں ہے۔ اس طرح پردے کو آزاد وخاتون اور لونڈی کے درمیان فرق اور شناخت کا ذریعہ بنادیا گیا۔ حضرت عمر (رض) کے متعلق مروی ہے کہ آپ لونڈیوں کو ڈانٹ کر کہتے کہ اپنا سر کھلا رکھو اور آزاد وخواتین کی مشابہت اختیار نہ کرو۔
اے نبی کریم اپنی ازواج مطہرات اور اپنی صاحبزادیوں اور دوسرے مسلمانوں کی عورتوں سے بھی فرما دیجیے کہ اپنے چہرے اور سینوں پر سر سے چادریں نیچی کرلیا کریں اس پردہ کے حکم پر عمل کرنے آزاد عورتوں کو ممتاز طریقہ پر جلدی پہچان ہوجایا کرے گی تو ان کو تکلیف نہیں دی جایا کرے گی اور اللہ تعالیٰ پچھلی باتوں کا بخشنے والا اور موجودہ حالت پر مہربان ہے۔
اگلی آیات میں پردے سے متعلق مزید احکام دیے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ آیات میں اس حوالے سے ہم دو احکام پڑھ چکے ہیں۔ ان میں پہلا حکم یہ تھا کہ عورتوں کا اصل مقام ان کا گھر ہے ‘ وہ گھروں میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں۔ جبکہ دوسرا حکم مردوں اور عورتوں کے باہمی میل جول پر پابندی سے متعلق تھا کہ غیر محرم مردوں کو دوسروں کے گھروں میں داخلے کی اجازت نہیں۔ اگر ضرورت کے تحت کسی مرد کو کسی غیر محرم خاتون سے کوئی بات کرنی ہو تو رُو در رُو نہیں ‘ بلکہ پردے کے پیچھے رہ کر بات کرے۔ اب اگلی آیت میں اس سلسلے کا تیسرا حکم دیا جا رہا ہے کہ مسلمان خواتین اگر کسی ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلیں تو کس انداز سے نکلیں۔- آیت ٥٩ یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لّاَِِزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیویوں ‘ اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان خواتین سے کہہ دیں کہ “- گویا اب اصلاحات کا دائرہ وسیع ہورہا ہے۔ چناچہ اس حکم میں کاشانہ نبوت کی خواتین کے علاوہ عام مسلمان خواتین کو بھی شامل کرلیا گیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے انہیں حکم دیا گیا :- یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ” وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں۔ “- اس حکم کے متوازی سورة النور کی آیت ٣١ کے یہ الفاظ بھی ذہن میں تازہ کرلیں : وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ ” اور وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر۔ “ سورة النور کے مطالعے کے دوران اس آیت کے حوالے سے یہ وضاحت گزر چکی ہے کہ اسلام سے قبل بھی عرب خواتین کے ہاں اوڑھنی اور چادر کے استعمال کا رواج تھا۔ اس حوالے سے ان کے ہاں ” اوڑھنی “ تو گویا لباس کا مستقل جزو تھا جسے خواتین گھر کے اندر بھی اوڑھے رکھتی تھیں (جیسے کہ ہمارے ہاں بھی اکثر عورتیں دوپٹہ یا اوڑھنی ہر وقت اوڑھے رکھتی ہیں) جبکہ خاندانی شریف خواتین گھر سے باہر جاتے ہوئے ایک بڑی سی چادر لپیٹ کر نکلتی تھیں۔ جتنے اونچے خاندان سے کسی خاتون کا تعلق ہوتا اسی قدر زیادہ احتیاط سے وہ چادر کا اہتمام کرتی تھی۔ البتہ عرب خواتین کے ہاں قبل از اسلام چہرہ ڈھانپنے کا کوئی رواج نہیں تھا۔ چناچہ اس حکم کے تحت خواتین کے چادر اوڑھنے کے مروّجہ طریقہ پر یہ اضافہ کیا گیا کہ خواتین گھر سے باہر نکلتے ہوئے اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے چہرے پر بھی ڈال لیا کریں ‘ یعنی گھونگھٹ لٹکا لیا کریں۔ اسی حکم کی بنا پر خواتین کے نقاب کرنے کا تصور پیدا ہوا ہے۔ جیسا کہ آج بھی ہمارے دیہات میں خواتین گھر سے باہر چادر سے اپنا چہرہ چھپائے ہوئے نظر آتی ہیں۔ خاص طور پر پختون کلچر میں زیادہ تر خواتین نقاب کا اہتمام کرتی ہیں یا بڑی سی چادر اس طرح لپیٹ لیتی ہیں کہ بس ایک آنکھ کھلی رہتی ہے۔ ایران کے دیہاتی ماحول میں بھی اس کا رواج دیکھا گیا ہے ‘ البتہ ایرانی شہروں میں صورت حال بالکل مختلف ہے۔ بلکہ وہاں اصولی طور پر گویا طے کرلیا گیا ہے کہ پردے کے حکم میں چہرہ شامل نہیں ہے ‘ حالانکہ یہ بات قرآن کی رو سے غلط ہے۔- چہرے کے پردے کے حوالے سے آیت ٥٣ میں فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍط کے الفاظ خصوصی طور پر توجہ طلب ہیں کہ پردے کے پیچھے سے بات کرنے کی پابندی کا آخر مقصد کیا ہے۔ کیا خدانخواستہ ازواجِ مطہرات (رض) گھر کے اندر اوڑھنی کے بغیر ہوا کرتی تھیں ؟ اور اگر ایسا نہیں تھا تو پھر غیر محرم مردوں کو اس قدر اہتمام کے ساتھ پردے کے پیچھے سے بات کرنے کا حکم آخرکیوں دیا گیا ہے ؟ بہر حال بلا تعصب غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس حکم کے ذریعے دراصل چہرے کے پردے کا اہتمام کیا گیا ہے تاکہ کسی غیر محرم مرد کی نظر ان کے چہرے پر نہ پڑے۔ چناچہ اسی اصول کے تحت آیت زیر مطالعہ میں فرمایا گیا کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ یا ان کا پلو ّاپنے چہروں پر ڈال لیا کریں ‘ جسے عرف عام میں گھونگھٹ لٹکانا کہتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہاں ” جَلابیب “ کا لفظ آیا ہے جو ” جِلباب “ کی جمع ہے اور جِلباب کے معنی بڑی چادر کے ہیں۔ اس کے مقابل سورة النور کی آیت ٣١ میں لفظ خُمُر استعمال ہوا ہے ‘ جس کا واحد خمار ہے اور اس سے چھوٹی اوڑھنی مراد ہے ‘ جسے گھر کے اندر ہر وقت اوڑھا جاتا ہے۔ ” جِلباب “ کی تشریح اہل لغت نے یوں کی ہے : ” ھو الرداء فوق الخمار “ یعنی جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اوپر لی جاتی ہے۔ - ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ” یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں تو انہیں کوئی ایذا نہ پہنچائی جائے۔ “- تاکہ دیکھنے والے خود بخود پہچان لیں کہ کوئی خاندانی شریف خاتون جا رہی ہے۔ عرب کے اس ماحول میں لونڈیاں بغیر چادر کے کھلے عام پھرتی تھیں۔ اہل ایمان عورتوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوں ‘ بلکہ اپنے چہروں پر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق یا منافق ان کو چھیڑنے کی جرات نہ کرے۔- وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا ” اور اللہ بہت بخشنے والا ‘ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :110 اصل الفاظ ہیں یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ۔ جلباب عربی زبان میں بڑی چادر کو کہتے ہیں ۔ اور اِدْنَاء کے اصل معنی قریب کرنے اور لپیٹ لینے کے ہیں ، مگر جب اس کے ساتھ عَلیٰ کا صلہ آئے تو اس میں اِرْخَاء ، یعنی اوپر سے لٹکا لینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے ۔ موجودہ زمانے کے بعض مترجمین و مفسرین مغربی مذاق سے مغلوب ہو کر اس لفظ کا ترجمہ صرف لپیٹ لینا کرتے ہیں تاکہ کسی طرح چہرہ چھپانے کے حکم سے بچ نکلا جائے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا مقصود اگر وہی ہوتا جو یہ حضرات بیان کرنا چاہتے ہیں تو وہ یُدْنِیْنَ اِلَیْھِنَّ فرماتا ۔ جو شخص بھی عربی زبان جانتا ہو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ کے معنی محض لپیٹ لینے کے ہو سکتے ہیں ۔ مزید براں مِنْ جَلَا بِیْبِھِنّ کے الفاظ یہ معنی لینے میں اور زیادہ مانع ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہاں مِن تبعیض کے لیے ہے ، یعنی چادر کا ایک حصہ ۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ لپیٹی جائے گی تو پوری چادر لپیٹی جائے گی نہ کہ اس کا محض ایک حصہّ ۔ اس لیے آیت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ کر ان کا ایک حصہ ، یا ان کا پلو اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں ، جسے عرف عام میں گھونگھٹ ڈالنا کہتے ہیں ۔ یہی معنی عہد رسالت سے قریب ترین زمانے کے اکابر مفسرین بیان کرتے ہیں ۔ ابن جریر اور ابن المنذر کی روایت ہے کہ محمد بن سَیرین رحمہ اللہ نے حضرت عُبَیدۃ السّلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا ۔ ( یہ حضرت عُبیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہو چکے تھے مگر حاضر خدمت نہ ہو سکے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے ۔ انہیں فقہ اور قضا میں قاضی شُریح کا ہم پلہ مانا جاتا تھا ) ۔ انہوں نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھا کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا منہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی ۔ ابن عباس بھی قریب قریب یہی تفسیر کرتے ہیں ۔ ان کے جو اقوال ابن جریر ۔ ابن ابی حاتم اور ابن مَرْدُوْیہَ نے نقل کیے ہیں ان میں وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپا لیں اور صرف آنکھیں کھلی رکھیں ۔ یہی تفسیر قَتادہ اور سُدِّی نے بھی اس آیت کی بیان کی ہے ۔ عہد صحابہ و تابعین کے بعد جتنے بڑے بڑے مفسرین تاریخ اسلام میں گزرے ہیں انہوں نے بالا تفاق اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے ۔ امام ابنِ جریر طَبَرِی کہتے ہیں : یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ، یعنی شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھروں سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوں ، بلکہ انہیں چاہیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے ۔ ( جامع البیان جلد ۲۲ ۔ ص ۳۳ ) علامہ ابو بکر جصاص کہتے ہیں : یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جوان عورت کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت ستر اور عفت مآبی کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ مشتبہ سیرت و کردار کے لوگ اسے دیکھ کر کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں ۔ ( احکام القرآن ، جلد ۳ ، صفحہ ٤۵۸ ) علامہ زَمَخْشَری کہتے ہیں : یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَا بِیْبِھِنَّ ، یعنی وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں اور اس سے اپنے چہرے اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں ۔ ( الکشاف ۔ جلد ۲ ، ص ۲۲۱ ) علامہ نظام الدین نیشاپوری کہتے ہیں : یدنین علیھن من جلا بیبھنّ ، یعنی اپنے اوپر چادر کا ایک حصہ لٹکا لیں ۔ اس طرح عورتوں کو سر اور چہرہ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ ( غرائب القرآن جلد ۲۲ ، ص۳۲ ) امام رازی کہتے ہیں : اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں ۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی ، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے ، اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پر راضی ہو گی ۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ یہ باپردہ عورتیں ہیں ، اس سے زنا کی امید نہیں کی جا سکتی ۔ ( تفسیر کبیر ، جلد ٦ ، ص ۵۹۱ ) ضمناً ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی بیٹیاں ثابت ہوتی ہیں ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے اے نبی ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہو ۔ یہ الفاظ ان لوگوں کے قول کی قطعی تردید کر دیتے ہیں جو خدا سے بے خوف ہو کر بے تکلف یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں اور باقی صاحبزادیاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی صُلبی بیٹیاں نہ تھیں بلکہ گیَلڑ تھیں ۔ یہ لوگ تعصب میں اندھے ہو کر یہ بھی نہیں سوچتے کہ اولاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے انکار کر کے وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اس کی کیسی سخت جواب دہی انہیں آخرت میں کرنی ہو گی ۔ تمام معتبر روایات اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت خَدیِجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہ ہی نہ تھیں بلکہ تین اور بیٹیاں بھی تھیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدیم ترین سیرت نگار محمد بن اسحاق حضرت خدیجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کا ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں : ابراہیم علیہ السلام کے سوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد انہی کے بطن سے پیدا ہوئی اور ان کے نام یہ ہیں ۔ قاسم ، اور طاہر و طیب ، اور زینب ، اور رُقیَّہ ، اور امّ کلثوم اور فاطمہ ( سیرت ابن ہشام ، جلد اول ۔ ص ۳۰۲ ) مشہور ماہر علم انساب ہشام بن محمد بن السائب کلبی کا بیان ہے کہ : مکہ میں نبوت سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں سب سے پہلے قاسم پیدا ہوئے ، پھر زینب ، پھر رقیہ ، پھر اُمِ کلثوم ( طبقات ابن سعد ، جلد اول ، ص ۱۳۳ ) ۔ ابنِ حزْم نے جوامع السیرۃ میں لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ کے بطن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چار لڑکیاں تھیں ، سب سے بڑی حضرت زینب ان سے چھوٹی رقیّہ ، ان سے چھوٹی فاطمہ ، اور ان سے چھوٹی ام کلثوم ( ص۳۸ ۔ ۳۹ ) ۔ طَبَری ، ابن سعد ، ابو جعفر محمد بن حبیب صاحب کتاب المجرَّ اور ابن عبد البَر صاحب کتاب الاستیعاب ، مستند حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے حضرت خدیجہ کے دو شوہر گزر چکے تھے ۔ ایک ابو ھالہ تمیمی جس سے ان کے ہاں ہند بن ابو ہالہ پیدا ہوئے ۔ دوسرے عتیق بن عائذ مخزومی جس سے ان کے ہاں ایک لڑکی ہند نامی پیدا ہوئی ۔ اس کے بعد ان کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا اور تمام علمائے انساب متفق ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صلب سے ان کے ہاں وہ چاروں صاحبزادیاں پیدا ہوئیں جن کے نام اوپر مذکور ہوئے ہیں ( ملاحظہ ہو طبری ، جلد ۲ ، ص٤۱۱ ۔ طبقات ابنِ سعد ، جلد ۸ ، ص ٤۱ تا ۱٦ ۔ کتاب المجرَّ ص ۷۸ ، ۷۹ ، ٤۵۲ ۔ الاستیعاب جلد ۲ ، ص۷۱۸ ) ان تمام بیانات کو قرآن مجید کی یہ تصریح قطعی الثبوت بند کر دیتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ہی صاحبزادی نہ تھیں بلکہ کئی صاحبزادیاں تھیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :111 پہچان لی جائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کو اس سادہ اور حیا دار لباس میں دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کہ وہ شریف اور با عصمت عورتیں ہیں ، آوارہ اور کھلاڑی نہیں ہیں کہ کوئی بد کردار انسان ان سے اپنے دل کی تمنا پوری کرنے کی امید کر سکے ۔ نہ ستائی جائیں سے مراد یہ ہے کہ ان کو نہ چھیڑا جائے ، ان سے تعرض نہ کیا جائے ۔ اس مقام پر ذرا ٹھہر کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ قرآن کا یہ حکم ، اور وہ مقصد حکم جو اللہ تعالیٰ نے خود بیان کر دیا ہے ، اسلامی قانون معاشرت کی کیا روح ظاہر کر رہا ہے ۔ اس سے پہلے سورۂ نور ، آیت ۳۱ میں یہ ہدایت گزر چکی ہے کہ عورتیں اپنی آرائش و زیبائش کو فلاں فلاں قسم کے مردوں اور عورتوں کے سوا کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں ۔ اور زمین پر پاؤں مارتے ہوئے بھی نہ چلیں کہ لوگوں کو اس زینت کا علم ہو جو انہوں نے چھپا رکھی ہے ۔ اس حکم کے ساتھ اگر سورۂ احزاب کی اس آیت کو ملا کر پڑھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں چادر اوڑھنے کا جو حکم ارشاد ہوا ہے اس کا منشا اجنبیوں سے زینت چھپانا ہی ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ منشا اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جبکہ چادر بجائے خود سادہ ہو ، ورنہ ایک مزین اور جاذب نظر کپڑا لپیٹ لینے سے تو یہ منشا الٹا اور فوت ہو جائیگا ۔ اس پر مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں ۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھپ جائے ۔ پھر اس حکم کی علت اللہ تعالیٰ خود یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ وہ مناسب ترین طریقہ ہے جس سے یہ مسلمان خواتین پہچان لی جائیں اور اذیت سے محفوظ رہیں گی ۔ اس سے خود بخود یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ یہ ہدایت ان عورتوں کو دی جا رہی ہے جو مردوں کی نظر بازی اور ان کے شہوانی التفات سے لذت اندوز ہونے کے بجائے اس کو اپنے لیے تکلیف دہ اور اذیت ناک محسوس کرتی ہیں ، جو معاشرے میں اپنے آپ کو آبرو باختہ شمع انجمن قسم کی عورتوں میں شمار نہیں کرانا چاہتیں ، بلکہ عفت مآب چراغ خانہ ہونے کی حیثیت سے معروف ہونا چاہتے ہیں ۔ ایسی شریف اور نیک خواتین سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم فی الواقع اس حیثیت سے معروف ہونا چاہ رہی ہو اور مردوں کی ہوسناک توجہات حقیقت میں تمہارے لیے موجب لذت نہیں بلکہ موجب اذیت ہیں تو پھر اس کے لیے مناسب طریقہ یہ نہیں ہے کہ تم خوب بناؤ سنگھار کر کے پہلی رات کی دلہن بن کر گھروں سے نکلو اور دیکھنے والوں کی حریص نگاہوں کے سامنے اپنا حسن اچھی طرح نکھار نکھار کر پیش کرو ، بلکہ اس غرض کے لیے تو مناسب ترین طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ تم ایک سادہ چادر میں اپنے ساری آرائش و زیبائش کو چھپا کر نکلو ، اپنے چہرے پر گھونگھٹ ڈالو اور اس طرح چلو کہ زیور کی جھنکار بھی لوگوں کو تمہاری طرف متوجہ نہ کرے ۔ جو عورت باہر نکلنے سے پہلے بن ٹھن کر تیار ہوتی ہے اور اس وقت تک گھر سے قدم نہیں نکالتی جب تک سات سنگھار نہ کر لے ، اس کی غرض اس کے سوا آخر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ دنیا بھر کے مردوں کے لیے اپنے آپ کو جنت نگاہ بنانا چاہتی ہے اور انہیں خود دعوت التفات دیتی ہے ۔ اس کے بعد اگر وہ یہ کہتی ہے کہ دیکھنے والوں کی بھوکی نگاہیں اسے تکلیف دیتی ہیں ، اس کے بعد اگر اس کا دعویٰ یہ ہے کہ وہ معاشرے کی بیگم اور مقبول عام خاتون ہونے کی حیثیت سے معروف نہیں ہونا چاہتی بلکہ عفت مآب گھر گرہستن بن کر رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک فریب کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔ انسان کا قول اس کی نیت متعین نہیں کرتا بلکہ اس کی اصل نیت وہ ہوتی ہے جو اس کے عمل کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ لہٰذا جو عورت جاذب نظر بن کر غیر مردوں کے سامنے جاتی ہے اس کا یہ عمل خود ظاہر کر دیتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا محرکات کام کر رہے ہیں ۔ اسی لیے فتنے کے طالب لوگ اس سے وہی توقعات وابستہ کرتے ہیں جو ایسی عورت سے وابستہ کی جا سکتی ہیں ۔ قرآن عورتوں سے کہتا ہے کہ تم بیک وقت چراغ خانہ اور شمع انجمن نہیں بن سکتی ہو ۔ چراغ خانہ بننا ہے تو ان طور طریقوں کو چھوڑ دو جو شمع انجمن بننے کے لیے موزوں ہیں ۔ اور وہ طرز زندگی اختیار کرو جو چراغ خانہ بننے میں مددگار ہو سکتا ہے ۔ کسی شخص کی ذاتی رائے خواہ قرآن کے موافق ہو یا اس کے خلاف ، اور وہ قرآن کی ہدایت کو اپنے لیے ضابطۂ عمل کی حیثیت سے قبول کرنا چاہے یا نہ چاہے ، بہرحال اگر وہ تعبیر کی بددیانتی کا ارتکاب نہ کرنا چاہتا ہو تو وہ قرآن کا منشا سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا ۔ وہ اگر منافق نہیں ہے تو صاف صاف یہ مانے گا کہ قرآن کا منشا وہی ہے ، جو اوپر بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد جو خلاف ورزی بھی وہ کرے گا یہ تسلیم کر کے کرے گا کہ وہ قرآن کے خلاف عمل کر رہا ہے یا قرآن کی ہدایت کو غلط سمجھتا ہے ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :112 یعنی پہلے جاہلیت کی حالت میں جو غلطیاں کی جاتی رہی ہیں اللہ اپنی مہربانی سے ان کو معاف کر دے گا ، بشرطیکہ اب صاف صاف ہدایت مل جانے کے بعد تم اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لو اور جان بوجھ کر اس کی خلاف ورزی نہ کرو ۔
47: اس آیت نے واضح فرما دیا ہے کہ پردے کا حکم صرف ازواج مطہرات کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمان عورتوں کے لیے ہے۔ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت کے لیے گھر سے باہر نکلیں تو اپنی چادروں کو اپنے چہروں ر جھکا کر انہیں چھپا لیا کریں۔ مقصد یہ ہے کہ راستہ دیکھنے کے لیے آنکھوں کو چھوڑ کر چہرے کا باقی حصہ چھپا لیا جائے۔ اس کی صورت یہ بھی ممکن ہے کہ جس چادر سے پورا جسم ڈھکا ہوا ہے، اس کو چہرے پر اس طرح لپیٹ لیا جائے کہ آنکھوں کے سوا باقی چہرہ نظر نہ آئے، اور یہ صورت بھی ممکن ہے کہ چہرے پر الگ سے نقاب ڈال لیا جائے۔ 48: بعض منافقین عورتوں کو راستے میں چھیڑا کرتے تھے، اس آیت میں پردے کے ساتھ نکلنے کی یہ حکمت بیان فرمائی گئی ہے کہ جب عورتیں پردے کے ساتھ باہر نکلیں گی تو ہر دیکھنے والا یہ سمجھ جائے گا کہ یہ شریف اور پاک دامن عورتیں ہیں، اس لئے منافقین کو انہیں چھیڑنے اور ستانے کی جرأت نہیں ہوگی، اس کے برخلاف بے پردہ بن ٹھن کر باہر نکلنے والی خواتین ان کی چھیڑ چھاڑ کا زیادہ نشانہ بن سکتی ہیں، علامہ ابوحیان نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ (البحر المحیط)۔