61۔ 1 یہ حکم نہیں ہے کہ ان کو پکڑ کر مار ڈالا جائے، بلکہ بددعا ہے کہ اگر وہ اپنے نفاق اور حرکتوں سے باز نہ آئے تو ان کا نہایت عبرت ناک حشر ہوگا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حکم ہے۔ لیکن یہ منافقین نزول آیت کے بعد اپنی حرکتوں سے باز آگئے تھے، اس لئے ان کے خلاف یہ کاروائی نہیں کی گئی جس کا حکم اس آیت میں دیا گیا تھا (فتح القدیر
[١٠٢] اس سے مراد بنو قریظہ کا انجام ہے۔ بنونضیر کا سردار حیی بن اخطب بھی ان کے ساتھ ہی قتل ہوا تھا جس نے بنوقریظہ کو عہد شکنی پر مجبور کیا تھا۔
مَّلْعُوْنِيْنَ ڔ اَيْنَـمَا ثُــقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَــقْتِيْلًا : یعنی ایسے لوگ ملعون ہیں، جہاں پائے جائیں گے انھیں گرفتار کر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ان آیات میں مذکورہ احکام وقتی اور عارضی نہیں، بلکہ قرآن مجید کے دوسرے احکام کی طرح قیامت تک کے لیے ہیں۔ اب بھی حکومت پر لازم ہے کہ ایسے لوگوں کا یہی علاج کرے، جو لوگ بھرے بازار سے لڑکیاں اٹھا لیں، لڑکے اٹھا کر ان سے قوم لوط کا عمل کریں، پورے معاشرے کے سامنے نکاح کے بغیر بدکار مرد عورت اکٹھے رہ کر اللہ کی حدود کو للکارتے رہیں۔ ان کا علاج یہی ہے کہ انھیں گرفتار کر کے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے، تاکہ دوبارہ کسی کو ایسا کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اغوا اور ایسے دوسرے معاملات سادہ زنا کے کیس نہیں ہیں، بلکہ زنا کے علاوہ یہ فساد فی الارض کے تحت بھی آتے ہیں، جن کی سزا ایسے لوگوں کا صفایا ہے۔ براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں : ( لَقِیْتُ عَمِّيْ وَ مَعَہُ رَایَۃٌ فَقُلْتُ لَہُ أَیْنَ تُرِیْدُ ؟ قَالَ بَعَثَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلٰی رَجُلٍ نَکَحَ امْرَأَۃَ أَبِیْہِ فَأَمَرَنِيْ أَنْ أَضْرِبَ عُنُقَہُ وَآخُذَ مَالَہُ ) [ أبو داوٗد، الحدود، باب في الرجل یزني بحریمہ : ٤٤٥٧، قال الألباني صحیح ] ” میں اپنے چچا سے ملا، اس کے پاس جھنڈا تھا، میں نے اس سے کہا : ” کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟ “ اس نے کہا : ” مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا ہے کہ میں اس کی گردن اتاردوں اور اس کا مال لے لوں۔ “ مزید دیکھیے سورة مائدہ (٣٣) ۔
جو شخص مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوجائے اس کی سزا قتل ہے :- آیت مذکورہ میں منافقین کی دو شرارتوں کا ذکر کے ان سے باز نہ آنے کی صورت میں جس سزا کا ذکر کیا گیا ہے کہ (آیت) ملعونین اینما اخذوا وقتلوا تقتیلا، ” یعنی یہ لوگ جہاں رہیں گے لعنت اور پھٹکار ان کے ساتھ ہوگی، اور جہاں ملیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور قتل کردیئے جائیں گے۔ “ یہ سزا عام کفار کی نہیں، بیشمار نصوص قرآن و سنت اس پر شاہد ہیں کہ عام کفار کے لئے شریعت اسلام میں یہ قانون نہیں ہے، بلکہ قانون یہ ہے کہ اول ان کو دعوت اسلام دی جائے، ان کے شبہات دور کرنے کی کوشش کی جائے اس پر بھی وہ اسلام نہ لائیں تو مسلمانوں کے تابع ذمی بن کر رہنے کا حکم دیا جائے، اگر وہ اس کو قبول کرلیں تو ان کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت مسلمانوں پر مسلمانوں ہی کی طرح فرض ہوجاتی ہے، ہاں جو اس کو بھی قبول نہ کریں اور جنگ پر آمادہ ہوجائیں تو ان کے مقابلہ میں جنگ کرنے کا حکم ہے۔- اس آیت میں ان لوگوں کو مطلقاً قید و قتل کی سزا سنائی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معاملہ منافقین کا تھا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ اور جب کوئی مسلمان احکام اسلام کی کھلی مخالفت اور انکار کرنے لگے تو وہ اصطلاح شرع میں مرتد کہلاتا ہے، اس کے ساتھ شریعت اسلام میں کوئی مصالحت نہیں، بجز اس کے کہ وہ تائب ہو کر پھر مسلمان ہوجائے، اور احکام اسلام کو قولاً وعملاً تسلیم کرلے ورنہ پھر اس کو قتل کیا جائے گا جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واضح ارشادات اور صحابہ کرام کے اجماعی تعامل سے ثابت ہے۔ مسیلمہ کذاب اور اس کی جماعت کے خلاف باجماع صحابہ جنگ و جہاد اور مسیلمہ کا قتل اس کی کافی شہادت ہے، اور آخر آیت میں اس کو اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت و دستور قرار دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ انبیاء سابقین کی شرائع میں بھی مرتد کی سزا قتل ہی تھی۔- مذکور الصدر خلاصہ تفسیر میں ان سزاؤں کو عام کفار کے ضابطہ میں لانے کے لئے جو توجیہ کی گئی ہے اس تقریر سے اس کی ضرورت نہیں رہتی۔- چند مسائل :- اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ :- (١) عورتوں کو جب کسی ضرورت کی بنا پر گھر سے نکلنا پڑے تو لمبی چادر سے تمام بدن چھپا کر نکلیں، اور اس چادر کو سر کے اوپر سے لٹکا کر چہرہ بھی چھپا کر چلیں، مروجہ برقع بھی اس کے قائم مقام ہے۔- (٢) مسلمانوں میں ایسی افواہیں پھیلانا حرام ہے جن سے ان کو تشویش اور پریشانی ہو اور نقصان پہنچے۔
مَّلْعُوْنِيْنَ ٠ ۚ ۛ اَيْنَـمَا ثُــقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَــقْتِيْلًا ٦١- لعن - اللَّعْنُ : الطّرد والإبعاد علی سبیل السّخط، وذلک من اللہ تعالیٰ في الآخرة عقوبة، وفي الدّنيا انقطاع من قبول رحمته وتوفیقه، ومن الإنسان دعاء علی غيره . قال تعالی: أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18]- ( ل ع ن ) اللعن - ۔ کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا ۔ خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق سے اثر پذیر ہونے محروم ہوجائے اور آخرت عقوبت کا مستحق قرار پائے اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنی بد دعا کے ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ [هود 18] سن رکھو کہ ظالموں پر خدا کی لعنت ہے ۔ - ثقف - الثَّقْفُ : الحذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه قيل : رجل ثَقِفٌ ، أي : حاذق في إدراک الشیء وفعله، ومنه استعیر : المُثَاقَفَة «3» ، ورمح مُثَقَّف، أي : مقوّم، وما يُثَقَّفُ به : الثِّقَاف، ويقال : ثَقِفْتُ كذا : إذا أدركته ببصرک لحذق في النظر، ثم يتجوّز به فيستعمل في الإدراک وإن لم تکن معه ثِقَافَة . قال اللہ تعالی: وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة 191] ، وقال عزّ وجل : فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال 57] ، وقال عزّ وجل : مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب 61] .- ( ث ق ف ) الثقف ( س ک ) کے معنی ہیں کسی چیز کے پالینے یا کسی کام کے کرنے میں حذا وقت اور مہارت سی کام لینا ۔ اسی سے المثاقفۃ کا لفظ مستعار ہے ( جس کے معنی ہتھیاروں کے ساتھ باہم کھیلنے کے ہیں اور سیدھے نیزے کو رمح مثقف کہا جاتا ہو ۔ اور الثقاف اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے نیزوں کو سیدھا کیا جاتا ہے ثقفت کذا کے اصل معنی مہارت نظر سے کسی چیز کا نگاہ سے اور اک کرلینا کے ہیں ۔ پھر مجاذا محض کسی چیز کے پالینے پر بولا جاتا ہے خواہ اسکے ساتھ نگاہ کی مہارت شامل ہو یا نہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ [ البقرة 191] اور ان کو جہان پاؤ قتل کردو ۔ فَإِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِي الْحَرْبِ [ الأنفال 57] اگر تم ان کو لڑائی میں پاؤ ۔ مَلْعُونِينَ أَيْنَما ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا [ الأحزاب 61] . پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے ۔ اور جان سے مار ڈالے گئے ۔- أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]
(٦١۔ ٦٢) اور ہر طرف سے مارے پٹے رہیں گے جہاں بھی ملیں گے پکڑ دھکڑ اور مار دھاڑ کی جائے گی اسی طرح دنیا میں عذاب الہی ان لوگوں پر نازل ہوتا چلا آرہا ہے جو ان منافقین سے پہلے گزرے ہیں۔- کہ جب انہوں نے انبیائے کرام اور مومنین سے مقابلہ کیا اللہ تعالیٰ نے ان کے قتل کرنے کا حکم دے دیا اور آپ عذاب الہی کے دستور میں کوئی رد و بدل نہ پائیں گے۔ چناچہ ان منافقین کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی تو وہ اپنی باتوں سے رک گئے۔
آیت ٦١ مَّلْعُوْنِیْنَ اَیْنَمَا ثُقِفُوْٓا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا ” یہ پھٹکارے ہوئے لوگ ہیں ‘ جہاں بھی پائے جائیں گے پکڑ لیے جائیں گے اور ُ بری طرح قتل کردیے جائیں گے۔ “- یہ الفاظ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی شدید بیزاری اور ناراضی کا مظہر ہیں مگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت سے منافقین کے خلاف ایسا کوئی اقدام ثابت نہیں ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایسا کوئی حکم باقاعدہ طور پر نہیں دیا گیا تھا۔
49: یہاں منافقین کو خبر دار کیا گیا ہے کہ اس وقت ان کی منافقت چھپی ہوئی ہے، لیکن اگر انہوں نے اپنی نازیبا حرکتیں نہ چھوڑیں جن میں عورتوں کو چھیڑنے اور بے بنیاد افواہیں پھیلانے کا خاص طور پر حوالہ دیا گیا ہے تو ان کی منافقت صاف واضح ہوجائے گی، اور اس صورت میں ان کے ساتھ غیر مسلم دشمنوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔