فرائض ، حدود امانت ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ امانت سے مراد یہاں اطاعت ہے ۔ اسے حضرت آدم علیہ السلام پر پیش کرنے سے پہلے زمین و آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا لیکن وہ بار امانت نہ اٹھا سکے اور اپنی مجبوری اور معذوری کا اظہار کیا ۔ جناب باری عزاسمہ نے اسے اب حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام پر پیش کیا کہ یہ سب تو انکار کر رہے ہیں ۔ تم کہو آپ نے پوچھا اللہ اس میں بات کیا ہے؟ فرمایا اگر بجا لاؤ گے ثواب پاؤ گے اور برائی کی سزا پاؤ گے ۔ آپ نے فرمایا میں تیار ہوں ۔ آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ امانت سے مراد فرائض ہیں دوسروں پر جو پیش کیا تھا یہ بطور حکم کے نہ تھا بلکہ جواب طلب کیا تھا تو ان کا انکار اور اظہار مجبوری گناہ نہ تھا بلکہ اس میں ایک قسم کی تعظیم تھی کہ باوجود پوری طاقت کے اللہ کے خوف سے تھرا اٹھے کہ کہیں پوری ادائیگی نہ ہوسکے اور مارے نہ جائیں ۔ لیکن انسان جو کہ بھولا تھا اس نے اس بار امانت کو خوشی خوشی اٹھالیا ۔ آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ عصر کے قریب یہ امانت اٹھائی تھی اور مغرب سے پہلے ہی خطا سرزد ہو گئی ۔ حضرت ابی کا بیان ہے کہ عورت کی پاکدامنی بھی اللہ کی امانت ہے ۔ قتادہ کا قول ہے دین فرائض حدود سب اللہ کی امانت ہیں ۔ جنابت کا غسل بھی بقول بعض امانت ہے ۔ زید بن اسلام فرماتے ہیں تین چیزیں اللہ کی امانت ہیں غسل جنابت ، روزہ اور نماز ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں سب کی سب امانت میں داخل ہیں ۔ تمام احکام بجا لانے تمام ممنوعات سے پرہیز کرنے کا انسان مکلف ہے ۔ جو بجالائے گا ثواب پائے گا جہاں گناہ کرے گا سزا پائے گا ۔ امام حسن بصری فرماتے ہیں خیال کرو آسمان باوجود اس پختگی ، زینت اور نیک فرشتوں کا مسکن ہونے کے اللہ کی امانت برداشت نہ کرسکا جب اس نے یہ معلوم کرلیا کہ بجا آوری اگر نہ ہوئی تو عذاب ہوگا ۔ زمین صلاحیت کے باوجود اور سختی کے لمبائی اور چوڑائی کے ڈر گئی اور اپنی عاجزی ظاہر کرنے لگی ۔ پہاڑ باوجود اپنی بلندی اور طاقت اور سختی کے اس سے کانپ گئے ۔ اور اپنی لاچاری ظاہر کرنے لگے ۔ مقاتل فرماتے ہیں پہلے آسمانوں نے جواب دیا اور کہا یوں تو ہم مطیع ہیں لیکن ہاں ہمارے بس کی یہ بات نہیں کیونکہ عدم بجا آوری کی صورت میں بہت بڑا خطرہ ہے ۔ پھر زمین سے کہا گیا کہ اگر پوری اتری تو فضل و کرم سے نواز دوں گا ۔ لیکن اس نے کہا یوں تو ہر طرح طابع فرمان ہو جو فرمایا جائے عمل کروں لیکن میری وسعت سے تو یہ باہر ہے ۔ پھر پہاڑوں سے کہا گیا انہوں نے بھی جواب دیا کہ نافرمانی تو ہم کرنے کے نہیں امانت ڈال دی جائے تو اٹھالیں گے لیکن یہ بس کی بات نہیں ہمیں معاف فرمایا جائے ۔ پھر حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا گیا انہوں نے کہا اے اللہ اگر پورا اتروں تو کیا ملے گا ؟ فرمایا بڑی بزرگی ہوگی جنت ملے گی رحم و کرم ہوگا اور اگر اطاعت نہ کی نافرمانی کی تو پھر سخت سزا ہوگی اور آگ میں ڈال دیئے جاؤ گے انہوں نے کہا یا اللہ منظور ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں آسمان نے کہا میں نے ستاروں کو جگہ دی فرشتوں کو اٹھا لیا لیکن یہ نہیں اٹھا سکوں گا یہ تو فرائض کا بوجھ ہے جس کی مجھ میں طاقت نہیں ۔ زمین نے کہا مجھ میں تونے درخت بوئے دریا جاری کئے ۔ لوگوں کو بسائے گا لیکن یہ امانت تو میرے بس کی نہیں ۔ میں فرض کی پابند ہو کر ثواب کی امید پر عذاب کے احتمال کو نہیں اٹھاسکتی ۔ پہاڑوں نے بھی یہی کہا لیکن انسان نے لپک کر اسے اٹھالیا ۔ بعض روایات میں ہے کہ تین دن تک وہ گریہ زاری کرتے رہے اور اپنی بےبسی کا اظہار کرتے رہے لیکن انسان نے اسے اپنے ذمے لے لیا ۔ اللہ نے اسے فرمایا اب سن اگر تو نیک نیت رہا تو میری اعانت ہمیشہ تیرے شامل حال رہے گی تیری آنکھوں پر میں دو پلکیں کردیتا ہوں کہ میری ناراضگی کی چیزوں سے تو انہیں بند کرلے ۔ میں تیری زبان پر دو ہونٹ بنا دیتا ہوں کہ جب وہ مرضی کے خلاف بولنا چاہے تو تو اسے بند کرلے ۔ تیری شرمگاہ کی حفاظت کیلئے میں لباس اتارتا ہوں کہ میری مرضی کے خلاف تو اسے نہ کھولے ۔ زمین و آسمان نے ثواب و عذاب سے انکار کردیا اور فرمانبرداری میں مسخر رہے لیکن انسانوں نے اسے اٹھالیا ۔ ایک بالکل غریب مرفوع حدیث میں ہے کہ امانت اور وفا انسانوں پر نبیوں کی معرفت نازل ہوئیں ۔ اللہ کا کلام ان کی زبانوں میں اترا نبیوں کی سنتوں سے انہوں نے ہر بھلائی برائی معلوم کرلی ۔ ہر شخص نیکی بدی کو جان گیا ۔ یاد رکھو سب سے پہلے لوگوں میں امانت داری تھی پھر وفا اور عہد کی نگہبانی اور ذمہ داری کو پورا کرنا تھا ۔ امانت داری کے دھندلے سے نشان لوگوں کے دلوں پر رہ گئے ۔ کتابیں ان کے ہاتھوں میں ہیں ۔ عالم عمل کرتے ہیں جاہل جانتے ہیں لیکن انجان بن رہے ہیں اب یہ امانت وفا مجھ تک اور میری امت تک پہنچی ۔ یاد رکھو اللہ اسی کو ہلاک کرتا ہے جو اپنے آپ کو ہلاک کرلے ۔ اسے چھوڑ کر غفلت میں پڑ جائے ۔ لوگو ہوشیار رہو اپنے آپ پر نظر رکھو ۔ شیطانی وسوسوں سے بچو ۔ اللہ تمہیں آزما رہا ہے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص ایمان کے ساتھ ان چیزوں کو لائے گا جنت میں جائے گا ۔ پانچوں وقتوں کی نماز کی حفاظت کرتا ہو ، وضو ، رکوع ، سجدہ اور وقت سجدہ اور وقت سمیت زکوٰۃ ادا کرتا ہو ۔ دل کی خوشی کے ساتھ زکوٰۃ کی رقم نکالتا ہو ۔ سنو واللہ یہ بغیر ایمان کے ہو ہی نہیں سکتا اور امانت کو ادا کرے ۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ امانت کی ادائیگی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا جنابت کا فرضی غسل ۔ پس اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اپنے دین میں سے کسی چیز کی اس کے سوا امانت نہیں دی ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کی راہ کا قتل تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے مگر امانت کی خیانت کو نہیں مٹاتا ان خائنوں سے قیامت کے دن کہا جائے گا جاؤ ان کی امانتیں ادا کرو یہ جواب دیں گے اللہ کہاں سے ادا کریں؟ دنیا تو جاتی رہی تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوگا پھر حکم ہوگا کہ انہیں ان کی ماں ہاویہ میں لے جاؤ ۔ فرشتے دھکے دیتے ہوئے گرا دیں گے ۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ تک پہنچ جائیں گے تو انہیں اسی امانت کی ہم شکل جہنم کی آگ کی چیز نظر پڑے گی ۔ یہ اسے لے کر اوپر کو چڑھیں گے جب کنارے تک پہنچیں گے تو وہاں پاؤں پھسل جائے گا ۔ پھر گر پڑیں گے اور جہنم کے نیچے تک گرتے چلے جائیں گے ۔ پھر لائیں گے پھر گریں گے ہمیشہ اسی عذاب میں رہیں گے ۔ امانت وضو میں بھی ہے ۔ نماز میں بھی امانت بات چیت میں بھی ہے اور ان سب سے زیادہ امانت ان چیزوں میں ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائیں ۔ حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال ہوتا ہے کہ آپ کے بھائی عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کیا حدیث بیان فرما رہے ہیں؟ تو آپ اس کی تصدیق کرتے ہیں کہا ہاں ٹھیک ہے ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دو حدیثیں سنی ہیں ۔ ایک کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور دوسری کے ظہور کا مجھے انتظار ہے ایک تو یہ کہ آپ نے فرمایا امانت لوگوں کی جبلت میں اتاری گئی پھر قرآن اترا حدیثیں بیان ہوئیں ۔ پھر آپ نے امانت کے اٹھ جانے کی بابت فرمایا انسان سوئے گا جو اس کے دل سے امانت اٹھ جائے گی اور ایسا نشان رہ جائے گا جیسے کسی کے پیر پر کوئی انگارہ لڑھک کر آگیا ہو اور پھپھولا پڑگیا ہو کہ ابھرا ہوا معلوم ہوتا ہے لیکن اندر کچھ بھی نہیں ۔ پھر آپ نے ایک کنکر لے کر اسے اپنے پیر پر لڑھکا کر دکھا دیا کہ اس طرح لوگ لین دین خرید و فروخت کیا کریں گے ۔ لیکن تقریباً ایک بھی ایماندار نہ ہوگا ۔ یہاں تک کہ مشہور ہو جائے گا کہ فلاں قبیلے میں کوئی امانت دار ہے ۔ اور یہاں تک کہ کہا جائے گا یہ شخص کیسا عقلمند ، کس قدر زیرک ، دانا اور فراست والا ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہ ہوگا ۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں دیکھو اس سے پہلے تو میں ہر ایک سے ادھار سدھار کرلیا کرتا تھا کیونکہ اگر وہ مسلمان ہے تو وہ خود میرا حق مجھے دے جائے گا اور اگر یہودی یا نصرانی ہے تو حکومت اسلام مجھے اس سے دلوا دے گی ۔ لیکن اب تو صرف فلاں فلاں کو ہی ادھار دیتا ہوں باقی بند کردیا ہے ۔ ( مسلم وغیرہ ) مسند احمد میں فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ چار باتیں تجھ میں ہوں پھر اگر ساری دنیا بھی فوت ہو جائے تو تجھے نقصان نہیں ۔ امانت کی حفاظت ، بات چیت کی صداقت ، حسن اخلاق اور وجہ حلال کی روزی ۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک کی کتاب الزھد میں ہے کہ جبلہ بن سحیم حضرت زیاد کے ساتھ تھے اتفاق سے ان کے منہ سے باتوں ہی باتوں میں نکل گیا قسم ہے امانت کی ۔ اس پر حضرت زیاد رونے لگے اور بہت روئے ۔ میں ڈرگیا کہ مجھ سے کوئی سخت گناہ سرزد ہوا ۔ میں نے کہا کیا وہ اسے مکروہ جانتے تھے فرمایا ہاں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسے بہت مکروہ جانتے تھے اور اس سے منع فرماتے تھے ۔ ابو داؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہ ہم میں سے نہیں جو امانت کی قسم کھائے ، امانتداری جو حضرت آدم علیہ السلام نے کی اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ منافق مرد و عورت اور مشرک مرد و عورت یعنی وہ جو ظاہر میں مسلمان اور باطن میں کافر تھے اور وہ جو اندر باہر یکساں کافر تھے انہیں تو سخت سزا ملے اور مومن مرد و عورت پر اللہ کی رحمت نازل ہو ۔ جو اللہ کو اس کے فرشتوں کو اس کے رسولوں کو مانتے تھے اور اللہ کے سچے فرمانبردار رہے ۔ اللہ غفور و رحیم ہے ۔
72۔ 1 جب اللہ تعالیٰ نے اہل اطاعت کا اجر وثواب اور اہل مصیت کا وبال اور عذاب بیان کردیا تو اب شرعی احکام اور اس کی صعوبت کا تذکرہ فرما رہا ہے۔ امانت سے وہ احکام شرعیہ اور فرائض و واجبات مراد ہیں جن کی ادائیگی پر ثواب اور ان سے اعراض و انکار پر عذاب ہوگا۔ جب یہ تکالیف شرعیہ آسمان اور زمین پر پیش کی گئیں تو وہ ان کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ لیکن جب انسان پر یہ چیز پیش کی گئی تو وہ اطاعت الٰہی (امانت) کے اجر وثواب اور اس کی فضیلت کو دیکھ کر اس بار گراں کو اٹھانے پر آمادہ ہوگیا۔ احکام شریعہ کو امانت سے تعبیر کر کے اشارہ فرما دیا کہ ان کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ پیش کرنے کا مطلب کیا ہے ؟ اور آسمان اور زمین اور پہاڑوں نے کس طرح اس کا جواب دیا ؟ اور انسان نے کس طرح قبول کیا ؟ اس کی پوری کیفیت نہ ہم جان سکتے ہیں اور نہ اسے بیان کرسکتے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ نے اپنی ہر مخلوق کیلئے ایک خاص قسم کا احساس و شعور رکھا ہے، گو ہم اس حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ تو ان کی بات سمجھنے پر قادر ہے، اس نے ضرور اس امانت کو ان پر پیش کیا ہوگا جسے قبول کرنے سے انہوں نے انکار کردیا۔ اور یہ انکار انہوں نے سرکشی و بغاوت کی بنا پر نہیں کیا بلکہ اس میں یہ خوف کار فرما تھا کہ اگر ہم اس امانت کے تقاضے پورے نہ کرسکے تو اس کی سزا ہمیں بھگتنی ہوگی۔ انسان چونکہ جلد باز ہے۔ اس نے عذاب کے پہلو پر زیادہ غور نہیں کیا اور حصول فضیلت کے شوق میں اسے نے ذمے داری کو قبول کرلیا۔ 72۔ 2 یعنی بار گراں اٹھا کر اس نے اپنے نفس پر ظلم کا ارتکاب اور اس کے مقتضیات سے اعراض یا اس کی قدر و قیمت سے غفلت کر کے جہالت کا مظاہرہ کیا۔
[١١٠] امانت کا بار جو انسان نے اٹھا لیا :۔ امانت سے مراد بار خلافت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں دنیا میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں اللہ تعالیٰ نے آسمان، زمین اور پہاڑوں جیسی عظیم الجثہ مخلوق کو پیدا کرکے ان سے پوچھا : بتاؤ اگر میں تمہیں قوت ارادہ و اختیار عطا کردوں اور تمہیں عقل وتمیز کی قوت بھی بخش دوں تو بتاؤ تم میرا خلیفہ بننے کو تیار ہو ؟ تمہیں وہی کام کرنا ہوگا جو میں کہوں تمہیں نافرمانی کے اختیار کے باوجود میرے احکام پر کاربند رہنا اور اسے نافذ کرنا ہوگا تو یہ تینوں قسم کی عظیم الجثہ مخلوق اس بار عظیم کو اٹھانے سے ڈرگئی اور اسے تسلیم نہ کیا۔ لیکن ان کے مقابلہ میں ضعیف البنیان مخلوق جو ایک منٹ سانس نہ چلنے سے مر بھی سکتی ہے۔ اس بار عظیم کو اٹھانے کے لئے تیار ہوگئی۔ حضرت انسان نے بڑی جرأت سے کہہ دیا کہ مجھے اگر قوت تمیز، عقل و فہم اور ارادہ و اختیار دے دیا جائے تو میں اس بار کو اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے اس بات پر عہد بھی لیا۔ جو عہد الست بربکم کے نام سے مشہور ہے۔- یہ مکالمہ زبان حال سے ہوا تھا یا قال سے ؟ یا یہ محض تمثیلی انداز ہے ؟ یہ باتیں تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ البتہ اتنا معلوم ہے کہ عہد الست تاقیامت پیدا ہونے والے انسان کی ارواح سے لیا گیا تھا اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انسان میں خلیفہ بننے اور نظام خلافت کو رائج کرنے کی صلاحیت بالقوہ موجود ہے۔- پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مکلف مخلوق ایک نہیں بلکہ دو ہیں۔ ایک انسان دوسرے جن لیکن یہاں صرف انسان کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ اس لئے کہ جتنی استعداد اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے جنوں میں نہیں رکھی۔ اشرف المخلوقات انسان ہے، جن نہیں۔ لہذا جن اس مکالمہ میں بالتبع شامل ہیں۔ بالاصل نہیں۔- [١١١] ظَلُوْم اور جھول دونوں ہی مبالغہ کے صیغے ہیں۔ یعنی انسان بڑا ہی ظالم اور بڑا ہی جاہل ہے جو اس نے یہ بار امانت اٹھا لیا۔ وہ ظالم تو اس لحاظ سے ہے کہ تمام مخلوق میں سب سے بلند منصب پر فائز ہونے کی خواہش کی وجہ سے اس نے اس ذمہ داری کو قبول تو کرلیا مگر اس دارالامتحان دنیا میں آکر وہ کچھ دنیا کی رنگینیوں اور دلفریبیوں میں اس قدر محو و مستغرق ہوگیا کہ اسے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ کتنی بڑی عظیم ذمہ داری اپنے سر پر لادے ہوئے ہے۔ اس طرح جو امانت اس کے سپرد کی گئی تھی اس میں وہ خیانت کا مرتکب ہوا۔ اور جاہل اس لحاظ سے ہے کہ اس کی ساری توجہ اسی بات کی طرف رہی کہ اسے تمام مخلوق میں سے سب سے اونچا اعزاز ملنے والا ہے۔ مگر اس اعزاز کی ذمہ داریوں کا اندازہ کرنے سے قاصر رہا۔ اکثر انسانوں نے یہ جاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے سے اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ ۔۔ : کائنات میں اللہ تعالیٰ کے دو قسم کے احکام جاری و ساری ہیں، ایک اس کا حکم ” کُنْ “ (ہو جا) ہے، جب وہ کسی چیز کو یہ حکم دیتا ہے تو وہ ہوجاتی ہے، ممکن نہیں کہ وہ اس کے حکم کے مطابق نہ ہو۔ اسے کونی حکم کہتے ہیں۔ دوسرا حکم وہ ہے جس میں اس نے اختیار دے دیا ہے کہ جسے حکم دیا گیا ہے چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے۔ ساتھ ہی تعمیل پر ثواب کا وعدہ اور عمل نہ کرنے پر عذاب کی وعید ہے، اسے شرعی حکم کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ان شرعی احکام و فرائض کا نام ” امانت “ ہے۔ جنّ و انس کو چھوڑ کر باقی پوری کائنات اللہ تعالیٰ کے کونی احکام کی پابند ہے۔ ان میں سے کسی کو اللہ کی نافرمانی کا اختیار ہی نہیں۔ نہ وہ نافرمانی کرتے ہیں، نہ کرسکتے ہیں۔ انسان بعض چیزوں میں دوسری مخلوقات کی طرح کونی احکام کا پابند ہے، مثلاً اس کا پیدا ہونا، اس کے جسم کے تمام نظام، سانس کی آمدورفت، دل کی دھڑکن، جوانی، بڑھاپے، صحت، بیماری، زندگی اور موت کے مراحل اس کے اختیار میں نہیں، البتہ بعض چیزوں یعنی شرعی احکام میں اسے اختیار دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اس کے لیے ثواب یا عذاب رکھا گیا ہے۔ اس آیت میں امانت سے مراد شرعی احکام، یعنی فرائض و محرمات ہیں جو انسان پر عائد کیے گئے ہیں۔- ترجمان القرآن ابن عباس (رض) نے اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے، چناچہ طبری نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ان کا قول نقل کیا ہے : ” اَلْأَمَانَۃُ الْفَرَاءِضُ (اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ ) إِنْ أَدَّوْہَا أَثَابَہُمْ ، وَ إِنْ ضَیَّعُوْہَا عَذَّبَہُمْ ، فَکَرِہُوْا ذٰلِکَ ، وَ أَشْفَقُوْا مِنْ غَیْرِ مَعْصِیَۃٍ ، وَ لٰکِنْ تَعْظِیْمًا لِّدِیْنِ اللّٰہِ أَنْ لَّا یَقُوْمُوْا بِہَا، ثُمَّ عَرَضَہَا عَلٰی آدَمَ ، فَقَبِلَہَا بِمَا فِیْہَا، وَ ہُوَ قَوْلُہُ : (وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا ) غُرًّا بِأَمْرِ اللّٰہِ “ [ طبري : ٢٨٩١٩، ٢٨٩١٧ ] ” امانت سے مراد فرائض ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا کہ اگر وہ انھیں ادا کریں گے تو وہ انھیں ثواب دے گا اور اگر انھوں نے وہ ضائع کیے تو انھیں عذاب دے گا۔ تو انھوں نے اسے ناپسند کیا اور اس سے ڈر گئے، کسی نافرمانی کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین پر عمل کو بہت بڑا سمجھتے ہوئے کہ وہ اس پر قائم نہیں رہ سکیں گے، پھر ان (فرائض) کو آدم (یعنی انسان) پر پیش کیا تو اس نے ان کو اس (ثواب و عذاب) سمیت قبول کرلیا جو ان میں تھا۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول کا یہی مطلب ہے : (وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا )” اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بیشک وہ ہمیشہ سے بہت ظالم بہت جاہل ہے۔ “ یعنی وہ اللہ کے حکم سے غافل ہے۔ “ - صحابہ اور تابعین سے جتنی تفسیریں آئی ہیں وہ سب اس میں آجاتی ہیں، جو ابن عباس (رض) نے فرمایا، مثلاً ابن کثیر میں ہے کہ ابی بن کعب (رض) نے فرمایا : ” عورت کو اس کی شرم گاہ کا امانت دار بنایا گا۔ “ بعض نے کہا : ” اس سے مراد غسل جنابت ہے۔ “ زید بن اسلم نے فرمایا : ” مراد نماز، روزہ اور غسل جنابت ہے۔ “ خلاصہ یہ کہ تمام اوامرو نواہی، فرائض و محرمات انسان کے لیے اللہ کی طرف سے امانت ہیں اور یہ امانت اتنی عظیم اور بھاری چیز ہے کہ آسمان و زمین اور پہاڑوں نے اتنی بڑی مخلوقات ہونے کے باوجود اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے۔ - 3 بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ بات تمثیلی طور پر بیان کی گئی ہے، یعنی اتنی بڑی مخلوقات میں یہ ذمہ داری اٹھانے کی استعداد نہیں جو انسان میں موجود ہے، ورنہ ایسا نہیں کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑ کے سامنے امانت پیش کی ہو اور انھوں نے اسے قبول نہ کیا ہو۔ مگر یہ بات درست نہیں، کیونکہ تاویل کی ضرورت تب ہوتی ہے جب ظاہری معنی مراد لینا ممکن نہ ہو، جب کہ زمین و آسمان اور پہاڑوں میں ادراک اور سمجھ کا ہونا، ان کا اللہ کی تسبیح کرنا، ان کا رونا اور خوش ہونا متعدد آیات و احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (٧٣) ، بنی اسرائیل (٤٤) ، نور (٤١) ، حشر (٢١) ، نحل (٤٨) ، دخان (٢٩) اور سورة حم السجدہ (٢١) ۔- 3 شاہ عبدالقادر نے ” ظَلُوْماً جَھُوْلاً “ کا ترجمہ ” بےترس نادان “ کیا ہے اور پھر لکھتے ہیں : ” یعنی اپنی جان پر ترس نہ کھایا۔ امانت کیا ؟ پرائی چیز رکھنی اپنی خواہش کو روک کر، زمین و آسمان میں اپنی خواہش کچھ نہیں، یا ہے تو وہی ہے جس پر قائم ہیں۔ آسمان کی خواہش پھرنا، زمین کی خواہش ٹھہرنا۔ انسان میں خواہش اور ہے اور حکم خلاف اس کے۔ اس پرائی چیز کو برخلاف اپنے جی کے تھامنا بڑا زور چاہتا ہے۔ اس کا انجام یہ کہ منکروں کو قصور پر پکڑنا اور ماننے والوں کا قصور معاف کرنا۔ اب بھی یہی حکم ہے کہ کسی کی امانت کوئی جان کر ضائع کرے تو بدلا ہے اور بےاختیار ضائع ہو تو بدلا نہیں۔ “ (موضح) شاہ صاحب کے کلام کا آخری حصہ (اس کا انجام یہ۔۔ ) اگلی آیت ”ۙ لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِيْنَ “ کی تفسیر ہے۔- 3 لفظ امانت جس طرح ان فرائض اور اوامرو نواہی پر بولا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر عائد ہوئے اور اس نے انھیں قبول کیا، اسی طرح اس صفت پر بھی بولا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں رکھی ہے، جس کی بدولت وہ ہر حق والے کو اس کا حق ادا کرتا اور ان فرائض کو ادا کرتا ہے جو حق تعالیٰ نے اس پر عائد کیے ہیں۔ چناچہ حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو حدیثیں بیان کیں، ان میں سے ایک میں نے دیکھ لی ہے اور دوسری کا انتظار کر رہا ہوں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں بیان فرمایا : ( أَنَّ الْأَمَانَۃَ نَزَلَتْ فِيْ جَذْرِ قُلُوْبِ الرِّجَالِ ، ثُمَّ عَلِمُوْا مِنَ الْقُرْآنِ ، ثُمَّ عَلِمُوْا مِنَ السُّنَّۃِ ) ” یعنی امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں اتری، پھر انھوں نے اسے قرآن سے سیکھا، پھر انھوں نے سنت سے سیکھا۔ “ حذیفہ (رض) نے فرمایا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس کے اٹھائے جانے کے متعلق بتایا، فرمایا : ( یَنَام الرَّجُلُ النَّوْمَۃَ فَتُقْبَضُ الْأَمَانَۃُ مِنْ قَلْبِہِ ، فَیَظَلُّ أَثَرُہَا مِثْلَ أَثَرِ الْوَکْتِ ، ثُمَّ یَنَام النَّوْمَۃَ فَتُقْبَضُ فَیَبْقٰی أَثَرُہَا مِثْلَ الْمَجْلِ ، کَجَمْرٍ دَحْرَجْتَہُ عَلٰی رِجْلِکَ فَنَفِطَ ، فَتَرَاہُ مُنْتَبِرًا، وَ لَیْسَ فِیْہِ شَيْءٌ، فَیُصْبِحُ النَّاسُ یَتَبَایَعُوْنَ فَلَا یَکَادُ أَحَدٌ یُؤَدِّي الْأَمَانَۃَ ، فَیُقَالُ إِنَّ فِيْ بَنِيْ فُلاَنٍ رَجُلاً أَمِیْنًا وَ یُقَال للرَّجُلِ مَا أَعْقَلَہُ وَ مَا أَظْرَفَہُ وَ مَا أَجْلَدَہُ وَ مَا فِيْ قَلْبِہِ مِثْقَالُ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إِیْمَانٍ ) [ بخاري، الرقاق، باب رفع الأمانۃ : ٦٤٩٧ ] ” آدمی سوئے گا تو اس کے دل سے امانت اٹھا لی جائے گی اور اس کا نشان ہلکے سے داغ کی طرح رہ جائے گا۔ پھر ایک اور دفعہ سوئے گا تو (مزید) اٹھا لی جائے گی، تو اس کا نشان ایک چھالے کی طرح رہ جائے گا، جیسے تو کوئی انگارا اپنے پاؤں پر لڑھکائے تو ایک چھالا پھول آتا ہے، تم اسے ابھرا ہوا دیکھتے ہو، حالانکہ اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا۔ حال یہ ہوجائے گا کہ صبح اٹھ کر لوگ خریدو فروخت کریں گے اور قریب نہیں ہوگا کہ کوئی بھی امانت ادا کرے، حتیٰ کہ کہا جائے گا کہ فلاں قبیلے میں ایک امانت دار آدمی ہے اور کہا جائے گا کہ فلاں آدمی کس قدر عقل مند، کس قدر ذہین اور کتنا مضبوط ہے، حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان نہیں ہوگا۔ “- 3 لفظ ” امانت “ کا ایک اور مفہوم بھی ہے، بریدہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ حَلَفَ بالْأَمَانَۃِ فَلَیْسَ مِنَّا ) [ أبو داوٗد، الإیمان والنذور، باب کراھیۃ الحلف بالأمانۃ : ٣٢٥٣، و قال الألباني صحیح ] ” جس نے امانت کی قسم اٹھائی وہ ہم میں سے نہیں۔ “ اس حدیث میں امانت سے کیا مراد ہے، اکثر شارحین حدیث نے فرمایا کہ آدمی کی طرح اس کی امانت بھی چونکہ مخلوق ہے اور مخلوق کی قسم کھانا جائز نہیں، اس لیے اس پر یہ سخت حکم لگایا گیا ہے۔ مگر میری دانست میں اس کا مصداق عیسائیوں کی شریعت کے عقائد و احکام پر مشتمل وہ کتاب ہے جو ان کے بادشاہ قسطنطین کے زمانہ میں اس کے حکم سے تین سو اٹھارہ پادریوں نے تصنیف کی تھی اور اس کا نام ” اَلْأَمَانَۃُ الْکَبِیْرَۃُ “ رکھا تھا۔ جس میں بہت سی حلال چیزوں کو حرام اور حرام کو حلال کردیا گیا۔ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں : ” انھوں نے اس کا نام ” اَلْأَمَانَۃُ الْکَبِیْرَۃُ “ رکھا، حالانکہ درحقیقت وہ ” اَلْخِیَانَۃُ الْحَقِیْرَۃُ “ ہے۔ “ تفسیر ابن کثیر میں اس کی تفصیل سورة آل عمران کی آیات (٥٥ تا ٥٨) اور سورة روم کی ابتدائی آیات اور کئی اور مقامات کی تفسیر میں موجود ہے۔- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق کہ ” امت مسلمہ بھی یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چل پڑے گی “ ہماری امت کے بعض بادشاہوں نے بھی اپنے زمانے کے علماء کے ذمے یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ شریعت کے احکام کے لیے کتاب تصنیف کریں، مگر ان علماء نے کتاب و سنت کے بجائے اقوال جمع کر کے اسے شریعت کے قوانین قرار دیا اور شاید ہی کوئی اللہ کی حد باقی رہی ہو جسے انھوں نے حیلے بہانے سے ختم نہ کیا ہو۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا اس امت پر احسان عظیم ہے کہ آسمانی ہدایت قرآن و سنت کی صورت میں محفوظ ہے۔ اس لیے لوگوں کے اقوال کو شریعت اسلام قرار دینے والے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے اور ان شاء اللہ کامیاب ہو بھی نہیں سکیں گے۔ مختصر یہ کہ امانت نامی کتاب، جسے عیسائی مقدس کتاب سمجھتے اور اس کی قسم اٹھاتے تھے، مسلمانوں کو نہایت سختی کے ساتھ اس کی قسم کھانے سے منع کردیا گیا۔
خلاصہ تفسیر - ہم نے یہ امانت (یعنی احکام جو بمنزلہ امانت کے ہیں) آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کی تھی (یعنی ان میں کچھ شعور پیدا کر کے جو کہ اب بھی ہے ان کے روبرو اپنے احکام اور بصورت ماننے کے اس پر انعام و اکرام اور بصورت نہ ماننے کے اس پر تعذیب و آلام پیش کر کے ان کو لینے نہ لینے کا اختیار دیا۔ اور حاصل اس پیش کرنے کا یہ تھا کہ اگر تم ان احکام کو اپنے ذمہ رکھتے ہو تو ان کے موافق عمل کرنے کی صورت میں تم کو ثواب ملے گا اور خلاف کرنے کی صورت میں عذاب ہوگا اور اگر نہیں لیتے تو مکلف نہ بنائے جاؤ گے، اور ثواب و عذاب کے بھی مستحق نہ ہو گے، تم کو دونوں اختیار ہیں کہ اس کو نہ لینے سے نافرمان نہ ہو گے جس قدر ان کو شعور تھا وہ اجمالاً اس قدر مضمون سمجھ لینے کے لئے کافی تھا، چونکہ ان کو اختیار بھی دیا گیا تھا) سو انہوں نے (خوف و عذاب کے سبب احتمال ثواب سے بھی دست برداری کی اور) اس کی ذمہ داری سے انکار کردیا اور اس (کی ذمہ داری) سے ڈر گئے (کہ خدا جانے کیا انجام ہو، اور اگر وہ اپنے ذمہ رکھ لیتے تو مثل انسان کے ان کو بھی عقل عطا کی جاتی، جو تفصیل احکام و مثوبات و عقوبات کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے، چونکہ اس کو نہیں منظور کیا، اس لئے عقل کی بھی ضرورت نہ ہوئی۔ غرض انہوں نے تو عذر کردیا) اور (جب ان سموات و ارض و جبال کے بعد انسان کو پیدا کر کے اس سے یہی بات پوچھی گئی تو) انسان نے (بوجہ اس کے کہ علم الٰہی میں اس کا خلیفہ ہونا مقرر تھا) اس کو اپنے ذمہ لے لیا (غالباً اس وقت تک اس میں بھی اتنا ہی ضرورت کے قدر شعور ہوگا اور غالباً یہ پیش کرنا اخذ میثاق سے مقدم ہے، اور وہ میثاق اسی حمل امانت کی فرع ہے، اور اس میثاق کے وقت اس میں عقل عطا کی گئی ہوگی، اور یہ کسی خاص انسان سے مثل آدم (علیہ السلام) کے نہیں پوچھا گیا، بلکہ مثل اخذ میثاق کے یہ عرض بھی عام ہوگا اور التزام بھی عام تھا۔ پس سموات و ارض جبال مکلف نہ ہوئے اور یہ مکلف بنادیا گیا۔ آیت میں اس کا یاد دلانا غالباً اسی حکمت سے ہے جیسا کہ میثاق یاد دلایا، یعنی ان احکام کا تم نے از خود التزام کیا ہے تو پھر نبھانا چاہئے۔ اور چونکہ مکلف جن بھی ہے اس لئے غالباً وہ اس عرض اور حمل میں شریک ہیں مگر تخصیص ذکر انسان کی صرف اس لئے ہے کہ اس مقام میں کلام اسی سے ہو رہا ہے، پھر اس التزام کے بعد انسان کی حالت باعتبار اکثر افراد کے یہ ہوئی کہ) وہ (انسان عملیات میں) ظالم ہے (اور عملیات میں) جاہل ہے (یعنی دونوں امر میں اعمال میں بھی اور عقائد میں بھی خلاف و رزی کرتا ہے یہ تو حالت با عتبار اکثر افراد کے ہے، باقی مجموعہ کے اعتبار سے اس ذمہ داری کا) انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ منافقین و منافقات اور مشرکین و مشرکات کو (کہ یہ لوگ احکام کے ضائع کرنیوالے ہیں) سزا دے گا اور مومنین و مومنات پر توجہ (اور رحمت) فرما دے گا اور (بعد مخالفت بھی اگر کوئی باز آ جاوے تو پھر اس کو بھی مومنین و مومنات کے زمرہ میں شامل کرلیا جائے گا۔ کیونکہ) اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔- معارف ومسائل - اس پوری سورة میں تعظیم و تکریم رسول اور ان کی اطاعت پر زور دیا گیا ہے، آخر سورة میں اس اطاعت کا مقام بلند اور اس کا درجہ بتلایا گیا ہے، اس میں اللہ و رسول کی اطاعت اور ان کے احکام کی تعمیل کو امانت سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کی وجہ آگے آجائے گی۔- امانت سے کیا مراد ہے :- اس جگہ لفظ امانت کی تفسیر میں ائمہ تفسیر صحابہ وتابعین وغیرھم کے بہت سے اقوال منقول ہیں۔ فرائض شرعیہ، حفاظت عفت، امانات اموال، غسل جنابت، نماز، زکوٰة، روزہ، حج وغیرہ، اسی لئے جمہور مفسرین نے فرمایا ہے کہ دین کے تمام وظائف و اعمال اس میں داخل ہیں۔ (قرطبی)- تفسیر مظہری میں فرمایا کہ شریعت کی تمام تکلیفات امر و نہی کا مجموعہ امانت ہے، ابوحیان نے بحیر محیط میں فرمایا :- ” یعنی ہر وہ چیز جس میں انسان پر اعتماد کیا جاتا ہے یعنی امر و نہی اور ہر حال جس کا دین یا دنیا سے تعلق ہو اور شریعت پوری کی پوری امانت ہے یہی جمہور کا قول ہے “- خلاصہ یہ ہے کہ امانت سے مراد احکام شرعیہ کا مکلف و مامور ہونا ہے، جن میں پورا اترنے پر جنت کی دائمی نعمتیں اور خلاف ورزی یا کوتاہی پر جہنم کا عذاب موعود ہے۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ امانت سے مراد احکام الہیہ کا بار اٹھانے کی صلاحیت و استعداد ہے جو عقل و شعور کے خاص درجہ پر موقوف ہے، اور ترقی اور استحقاق خلافت الہیہ اسی خاص استعداد پر موقوف ہے جن میں اجناس مخلوقات میں یہ استعداد نہیں ہے وہ اپنی جگہ کتنا ہی اونچا اور اعلیٰ مقام رکھتے ہوں مگر وہ اس مقام سے ترقی نہیں کرسکتے۔ اسی وجہ سے آسمان زمین وغیرہ میں یہاں تک کہ فرشتوں میں بھی ترقی نہیں جس کا جو مقام قرب ہے بس وہی ہے، ان کا حال یہ ہے مامنا الا لہ مقام معلوم، ” یعنی ہم میں سے کوئی نہیں مگر اس کا ایک معین مقام ہے “- امانت کے اس مفہوم میں تمام روایات حدیث جو امانت کے متعلق آئی ہیں مربوط و مطابق ہوجاتی ہیں، جمہور مفسرین کے اقوال بھی اس میں تقریباً متفق ہوجاتے ہیں۔- صحیحین بخاری و مسلم اور مسند احمد میں حضرت حذیفہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ہمیں دو حدیثیں سنائی تھیں، ان میں سے ایک کو تو ہم نے خود آنکھوں سے دیکھ لیا، دوسری کا انتظار ہے۔- پہلی حدیث یہ ہے کہ اول رجال دین کے قلوب میں امانت نازل کی گئی، پھر قرآن اتارا گیا، تو اہل ایمان نے قرآن سے علم حاصل اور سنت سے عمل حاصل کیا۔- اس کے بعد دوسری حدیث یہ سنائی کہ (ایک وقت ایسا آنے والا ہے جس میں) آدمی سو کر اٹھے گا تو اس کے قلب سے امانت سلب کرلی جائے گی اور اس کا کچھ اثر و نشان ایسا رہ جائے گا جیسے تم کوئی آگ کا انگارہ اپنے پاؤں پر لڑھکا دو (وہ انگارہ تو چلا گیا مگر) اس کا اثر پاؤں پر ورم یا چھالے کی صورت میں رہ گیا حالانکہ اس میں آگ کا کوئی جز نہیں (الیٰ قولہ) یہاں تک کہ لوگ باہم معاملات اور معاہدات کریں گے، مگر کوئی امانت کا حق ادا نہ کرے گا اور (دیانتدار آدمی کا ایسا قحط ہوجائے گا کہ) لوگ یہ کہا کریں گے کہ فلاں قبیلہ میں ایک آدمی دیانتدار ہے۔- اس حدیث میں امانت ایک ایسی چیز کو قرار دیا ہے جس کا تعلق انسان کے قلب سے ہے، اور وہی تکالیف شرعیہ اور وظائف دینیہ کے مکلف ہونے کی صلاحیت و استعداد رکھتا ہے۔- اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ چار چیزیں ایسی ہیں کہ جب وہ تمہیں حاصل ہوجائیں تو دنیا کی اور کوئی چیز تمہیں حاصل نہ ہو تو کوئی افسوس کی بات نہیں، (وہ چار چیزیں یہ ہیں)- امانت کی حفاظت، بات کی سچائی، حسن خلق اور لقمہ حلال۔ (از ابن کثیر)- عرض امانت کی تحقیق :- آیت مذکورہ میں یہ ارشاد ہے کہ ہم نے امانت کو آسمانوں پر، زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا تو سب نے اس کا بوجھ اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے، کہ ہم اس کا حق ادا کرسکیں گے، اور انسان نے یہ بوجھ اٹھا لیا۔- یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ آسمان، زمین، پہاڑ جو غیر ذی روح اور بظاہر بےعلم و شعور ہیں ان کے سامنے پیش کرنے اور ان کے جواب دینے کی کیا صورت ہو سکتی ہے ؟ بعض حضرات نے تو اس کو مجاز اور تمثیل قرار دے دیا جیسے قرآن کریم نے ایک موقع پر بطور تمثیل کے فرمایا (آیت) لو انزلنا ھذا القرآن علیٰ جبل لرایة خاشعاً متصدعاً من خشیة اللہ،” یعنی ہم اگر یہ قرآن پہاڑ پر نازل کرتے تو تم دیکھتے کہ وہ بھی اس کے بوجھ سے جھک جاتا اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا اللہ کے خوف سے “ کہ اس میں بطور فرض کے یہ مثال دی گئی ہے، یہ نہیں کہ حقیقتاً پہاڑ پر اتارا ہو۔ ان حضرات نے آیت انا عرضنا کو بھی اسی طرح کی تمثیل و مجاز قرار دے دیا۔- مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ صحیح نہیں، کیونکہ جس آیت سے تمثیل پر استدلال کیا گیا ہے وہاں تو قرآن کریم نے حرف لو کے ساتھ بیان کر کے اس کا قضیہ فرضیہ ہونا خود واضح کردیا ہے، اور آیت انا عرضنا میں ایک واقعہ کا اثبات ہے، جس کو مجاز و تمثیل پر حمل کرنا بغیر کسی دلیل کے جائز نہیں۔ اور اگر دلیل میں یہ کہا جائے کہ یہ چیزیں بےحس و بےشعور ہیں ان سے جواب سوال نہیں ہو سکتا، تو یہ قرآن کی دوسری تصریحات سے مردود ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کا واضح ارشاد ہے (آیت) و ان من شئی الا یسبح بحمدہ، ” یعنی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ کی حمد و تسبیح نہ پڑھتی ہو “ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننا اور اس کو خالق ومالک اور سب سے اعلیٰ و برتر جان کر اس کی تسبیح کرنا بغیر ادراک و شعور کے ممکن نہیں۔ اس لئے اس آیت سے ثابت ہوا کہ ادراک و شعور تمام مخلوقات میں یہاں تک کہ جمادات میں بھی موجود ہے، اسی ادراک و شعور کی بنا پر ان کو مخاطب بھی بنایا جاسکتا ہے اور وہ جواب بھی دے سکتے ہیں جواب کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، الفاظ و حروف کے ذریعہ بھی ہوسکتا ہے اور اس میں عقلی امتتاع نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان جمادات، آسمان، زمین اور پہاڑوں کو نطق و گویائی عطا فرما دیں۔ اس لئے جمہور امت کے نزدیک آسمان، زمین اور پہاڑوں پر عرض امانت حقیقی طور پر کیا گیا اور انہوں نے حقیقی طور پر ہی اپنا اس بار سے عاجز ہونا ظاہر کیا، اس میں کوئی تمثیل یا مجاز نہیں۔- عرض امانت اختیاری تھا جبری نہیں :- رہا یہ سوال کہ جب حق تعالیٰ شانہ نے آسمان زمین وغیرہ پر اس امانت کو خود پیش فرمایا تو ان کی مجال انکار کیسے ہوئی، حکم الہٰی سے روگردانی کی تھی تو ان کو نیست و نابود ہوجانا چاہئے تھا، اس کے علاوہ آسمان و زمین کا مطیع ہونا اور تابع فرمان ہونا قرآن کریم کی آیت اتینا طالعین سے بھی ثابت ہے یعنی جب حق تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حکم دیا کہ (ہمارے حکم کی تعمیل کے لئے) آجاؤ خواہ اپنی خوشی سے یا زبردستی سے، تو دونوں نے یہ جواب دیا کہ ہم تعمیل حکم کے لئے خوشی سے حاضر ہیں۔- جواب یہ ہے کہ آیت مذکورہ میں ان کو ایک حاکمانہ پابندی کا حکم دے دیا گیا تھا، جس میں یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ تم اس حکم پر دل سے راضی ہو یا نہ ہو بہرحال یہ حکم ماننا پڑے گا بخلاف اس آیت عرض امانت کے کہ اس میں امانت کو پیش کر کے ان کو اختیار دیا گیا تھا کہ قبول کریں یا نہ کریں۔- ابن کثیر نے متعدد سندوں کے ساتھ متعدد صحابہ وتابعین ابن عباس، حسن بصری، مجاہد وغیرہ سے عرض امانت کی یہ تفصیل نقل کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اول آسمان پر پھر زمین پر پھر پہاڑوں پر اختیاری صورت میں یہ پیش کیا۔ کہ ہماری امانت (یعنی اطاعت احکام) کا بار اٹھا لو اس معاوضہ کے ساتھ جو اس کے لئے مقرر ہے۔ ہر ایک نے سوال کیا کہ معاوضہ کیا ہے تو بتلایا گیا کہ امانت (یعنی اطاعت احکام) تم نے پوری طرح کی تو تمہیں جزاء وثواب اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اعزاز خاص ملے گا اور اگر تعمیل احکام نہ کی یا اس میں کوتاہی کی تو عذاب و سزا ملے گی۔ ان سب بڑے بڑے اجسام نے یہ سن کر جواب دیا کہ اے ہمارے پروردگار ہم اب بھی آپ کے تابع فرمان چل رہے ہیں، لیکن (جب ہمیں اختیار دیا گیا تو) ہم اس بار کو اٹھانے سے اپنے کو عاجز پاتے ہیں، ہم نہ ثواب چاہتے ہیں نہ ہی عذاب کے متحمل ہیں۔- اور تفسیر قرطبی میں حکیم ترمذی کے حوالہ سے حضرت ابن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ (آسمان، زمین وغیرہ پر عرض امانت اور ان کے جواب کے بعد) حق تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو خطاب فرمایا اور فرمایا کہ ہم نے اپنی امانت آسمان زمین کے سامنے پیش کی تو وہ اس کا بار اٹھانے سے عاجز ہوگئے، تو آپ اس بار امانت کو اٹھائیں گے مع اس چیز کے جو اس کے ساتھ ہے۔ آدم (علیہ السلام) نے سوال کیا کہ اے پروردگار وہ چیز جو اس کے ساتھ ہے کیا ہے ؟ جواب ملا کہ اگر حمل امانت میں پورے اترے (یعنی اطاعت مکمل کی) تو آپ کو جزا ملے گی (جو اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا اور جنت کی دائمی نعمتوں کی صورت میں ہوگی) اور اگر اس امانت کو ضائع کیا تو سزا ملے گی۔ آدم (علیہ السلام) نے (اللہ تعالیٰ کے قرب و رضا میں ترقی ہونے کے شوق میں) اس کو اٹھا لیا، یہاں تک کہ بار امانت اٹھانے پر اتنا وقت بھی نہ گزرا تھا جتنا ظہر سے عصر تک ہوتا ہے کہ اس میں شیطان نے ان کو مشہور لغزش میں مبتلا کردیا، اور جنت سے نکالے گئے۔- عرض امانت کا واقعہ کس زمانے میں ہوا ؟- ابھی جو روایت حضرت ابن عباس کی اوپر گزری ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عرض امانت آسمان، زمین وغیرہ پر تخلیق آدم سے پہلے ہوا تھا، پھر جب آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا گیا تو ان کے سامنے یہ بھی بیان فرمایا گیا کہ آپ سے پہلے آسمان زمین پر بھی یہ امانت پیش کی جا چکی ہے، جس کی ان کو طاقت نہ تھی، اس لئے عذر کردیا۔- اور ظاہر یہ ہے کہ یہ عرض امانت کا واقعہ میثاق اول یعنی عہد الست سے پہلے کا ہے کیونکہ عہد الست بربکم اسی بار امانت کی پہلی کڑی اور اپنے منصب کا حلف اٹھانے کے قائم مقام ہے۔ - خلافت ارضی کے لئے بار امانت اٹھانے کی صلاحیت ضروری تھی :- حق تعالیٰ نے تقدیر ازلی میں آدم (علیہ السلام) کو زمین میں اپنا خلیفہ بنانا طے فرمایا تھا اور یہ خلافت اسی کو سپرد کی جاسکتی تھی، جو احکام الہیہ کی اطاعت کا بار اٹھائے، کیونکہ اس خلافت کا حاصل ہی یہ ہے کہ زمین پر اللہ کے قانون کو نافذ کرے، خلق خدا کو احکام الہیہ کی اطاعت پر امادہ کرے۔ اس لئے تکوینی طور پر حضرت آدم (علیہ السلام) اس امانت کے اٹھانے کے لئے آمادہ ہوگئے، حالانکہ دوسری بڑی بڑی مخلوقات کا اس سے عاجز ہونا بھی معلوم ہوچکا تھا۔ (مظہری وبیان القرآن)- ان کان ظلوماً جھولاً ، ظلوم سے مراد اپنے نفس پر ظلم کرنے والا، اور جہول سے مراد انجام سے ناواقف۔ اس حملے سے بظاہر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ مطلقاً انسان کی مذمت میں آیا ہے کہ اس نادان نے اپنی جان پر ظلم کیا کہ اتنا بڑا بار اٹھا لیا۔ جو اس کی طاقت سے باہر تھا مگر قرآنی تصریحات کے مطابق واقعہ ایسا نہیں، کیونکہ انسان سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہوں یا پوری نوع انسانی، ان میں آدم (علیہ السلام) تو نبی معصوم ہیں، انہوں نے جو بار اٹھایا تھا اس کا حق بھی یقینی طور پر ادا کردیا۔ اسی کے نتیجہ میں ان کو خلیفة اللہ بنا کر زمین پر بھیجا گیا، ان کو فرشتوں کا مسجود بنایا گیا، اور آخرت میں ان کا مقام فرشتوں سے بھی بلند وبالا ہے۔ اور اگر نوع انسانی ہی مراد ہو تو اس پوری نوع میں لاکھوں تو انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور کروڑوں وہ صالحین اور اولیاء اللہ ہیں جن پر فرشتے بھی رشک کرتے ہیں، جنہوں نے اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ وہ امانت الٰہیہ کے اہل اور مستحق تھے۔ انہیں حق امانت کو ادا کرنے والوں کی بنا پر قرآن حکیم نے نوع انسانی کو اشرف المخلوقات ٹھہرایا۔ (آیت) ولقد کرمنا بنی آدم، اس سے ثابت ہوا کہ نہ آدم (علیہ السلام) قابل مذمت ہیں نہ پوری نوع انسانی، اسی لئے حضرات مفسرین نے فرمایا کہ یہ جملہ مذمت کے لئے نہیں بلکہ اکثر افراد نوع کے اعتبار سے بیان واقعہ کے طور پر ارشاد ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نوع انسانی کی اکثریت ظلوم و جہول ثابت ہوئی، جس نے اس امانت کا حق ادا نہ کیا، اور خسارہ میں پڑی، اور چونکہ اکثریت کا یہ حال تھا، اس لئے اس کو نوع انسانی کی طرف منسوب کردیا گیا۔- خلاصہ یہ ہوا کہ آیت میں ظلوم وجہول خاص ان افراد انسانی کو کہا گیا ہے جو احکام شرعیہ کی اطاعت میں پورے نہ اترے اور امانت کا حق ادا نہ کیا، یعنی امت کے کفار و منافقین اور فساق و فجار اور گناہ گار مسلمان۔ یہ تفسیر حضرت ابن عباس، ابن جبیر، حسن بصری وغیرہ سے منقول ہے۔ (قرطبی)- اور بعض حضرات نے فرمایا کہ لفظ ظلوم وجہول اس جگہ بھولے بھالے کے معنی ہیں بطور محبانہ خطاب کے ہے کہ اس نے اللہ جل شانہ کی محبت اور اس کے مقام قرب کی جستجو میں اور کسی انجام کو نہیں سوچا۔ اسی طرح یہ لفظ پوری بنی نوع کے لئے بھی ہوسکتا ہے۔ تفسیر مظہری میں حضرت مجدد الف ثانی اور دوسرے صوفیائے کرام سے اسی طرح کا مضمون منقول ہے۔
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ ٠ۭ اِنَّہٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا ٧٢ۙ- عرض - أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] ،- ( ع ر ض ) العرض - اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ - أمانت - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) امانت - ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔- وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- أبى- الإباء : شدة الامتناع، فکل إباء امتناع ولیس کل امتناع إباءا .- قوله تعالی: وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة 32] ، وقال : وَتَأْبى قُلُوبُهُمْ [ التوبة 8] ، وقوله تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] ، وقوله تعالی: إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى [ طه 116]- ( اب ی )- الاباء ۔ کے معنی شدت امتناع یعنی سختی کے ساتھ انکارکرنا ہیں ۔ یہ لفظ الامتناع سے خاص ہے لہذا ہر اباء کو امتناع کہہ سکتے ہیں مگر ہر امتناع کو اباء نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے ۔ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ [ التوبة : 32] اور خدا اپنے نور کو پورا کئے بغیر رہنے کا نہیں ۔ وَتَأْبَى قُلُوبُهُمْ ( سورة التوبة 8) لیکن ان کے دل ان باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة : 34] اس نے سخت سے انکار کیا اور تکبیر کیا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى [ البقرة : 34] مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔ ایک روایت میں ہے (3) کلکم فی الجنۃ الامن ابیٰ ( کہ ) تم سب جنتی ہو مگر وہ شخص جس نے ( اطاعت الہی سے ) انکار کیا ۔ رجل ابی ۔ خود دار آدمی جو کسی کا ظلم برداشت نہ کرے ابیت الضیر ( مضارع تابیٰ ) تجھے اللہ تعالیٰ ہر قسم کے ضرر سے محفوظ رکھے ۔ تیس آبیٰ ۔ وہ بکرا چوپہاڑی بکردں کا بول ملا ہوا پانی پی کر بیمار ہوجائے اور پانی نہ پی سکے اس کا مونث ابواء ہے - حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- شفق - الشَّفَقُ : اختلاط ضوء النّهار بسواد اللّيل عند غروب الشمس . قال تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ- [ الانشقاق 16] ، والْإِشْفَاقُ : عناية مختلطة بخوف، لأنّ الْمُشْفِقَ يحبّ المشفق عليه ويخاف ما يلحقه، قال تعالی: وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء 49] ، فإذا عدّي ( بمن) فمعنی الخوف فيه أظهر، وإذا عدّي ب ( في) فمعنی العناية فيه أظهر . قال تعالی:- إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور 26] ، مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری 18] ، مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری 22] ، أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة 13] .- ( ش ف ق ) الشفق - غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق 16] ہمیں شام کی سرخی کی قسم ۔ الاشفاق ۔ کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف پہنچنے سے ڈرتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء 49] اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ اور جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور اگر بواسطہ فی کے متعدی ہو تو عنایت کے معنی نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور 26] اس سے قبل ہم اپنے گھر میں خدا سے ڈرتے رہتے تھے ۔ مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری 18] وہ اس سے ڈرتے ہیں ۔ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری 22] وہ اپنے اعمال ( کے وبال سے ) ڈر رہے ہوں گے ۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة 13] کیا تم اس سے کہ ۔۔۔ پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے ہو ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔
اور ہم نے یہ امانت یعنی اطاعت و عبادت آسمان والوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے علی وجہ الاختیار والتخصیص پیش کی تھی تو انہوں نے خوف عذاب کی وجہ سے احتمال ثواب سے بھی دست برداری کی اور اس کی ذمہ داری لیتے ڈر گئے۔ اور (انسان) حضرت آدم نے بوجہ اس ثواب و عذاب کے اس ذمہ داری کو اپنے ذمہ لے لیا وہ اس کی ذمہ داری لینے میں یا یہ کہ درخت میں سے کھانے کے بارے میں ظالم اور اس کے انجام سے لا علم تھے۔
آیت ٧٢ اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ ” ہم نے اس امانت کو پیش کیا آسمانوں پر اور زمین پر اور پہاڑوں پر “- فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا ” تو ان سب نے انکار کردیا اس کو اٹھانے سے اور وہ اس سے ڈر گئے “- وَحَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا ” اور انسان نے اسے اٹھا لیا۔ یقینا وہ بڑا ظالم اور بڑا نادان تھا۔ “- یعنی انسان نے ایک بھاری ذمہ داری قبول کر کے اپنے اوپر ظلم کیا اور بڑی نادانی کا ثبوت دیا۔ مذکورہ امانت کے بارے میں بہت سی آراء ہیں اور ہر رائے کے بارے میں مفسرین نے اپنے اپنے دلائل بھی دیے ہیں۔ یہاں ان تمام آراء کا ذکر کرنا اور ایک ایک کے بارے میں دلائل کا جائزہ لینا تو ممکن نہیں ‘ البتہ اس حوالے سے میں اپنی رائے بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں جس کے بارے میں مجھے پورا وثوق ہے۔ میرے نزدیک اللہ کی امانت سے مراد یہاں وہ ” روح “ ہے جو انسان کے حیوانی وجود میں اللہ تعالیٰ نے بطور خاص پھونک رکھی ہے۔ انسان کا مادی وجود عالم خلق کی چیز ہے ‘ جبکہ ” روح “ کا تعلق عالم ِامر سے ہے۔ (عالم خلق اور عالم امر کی وضاحت کے لیے ملاحظہ ہو : سورة الاعراف ‘ تشریح آیت ٥٤) ۔ اللہ تعالیٰ نے عالم امر کی اس ” امانت “ کو عالم خلق کے مادی اور حیوانی وجود کے اندر رکھتے ہوئے اسے خاص اپنی طرف منسوب فرمایا ہے : وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ (سورۃ الحجر : ٢٩ اور سورة ص : ٧٢) ۔ چناچہ اسی روح کی بنا پر انسان مسجودِ ملائک ٹھہرا ‘ اسی کے باعث اسے خلافت کا اعزاز ملا اور اسی کی وجہ سے انسان کا سینہ ” مہبط ِوحی “ بنا۔ - وحی کا تعلق چونکہ عالم امر سے ہے اور وحی کا حامل فرشتہ بھی عالم امر کی مخلوق ہے ‘ اس لحاظ سے انسان اپنے مادی وجود کے ساتھ فرشتے کے ذریعے وحی کو وصول کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ لہٰذایہ روح ہی ہے جس نے اسے نزول وحی کے تجربے کو برداشت کرنے کے قابل بنایا۔ جنات کے اندر چونکہ یہ روح نہیں ہے اس لیے وہ وحی کے حصول ( ) کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ جنات کے ہاں کوئی نبی نہیں آیا اور ان کے لیے نبوت کے حوالے سے انسانوں (انبیاء) کی پیروی لازم قرار پائی۔ - اس نکتے کو مزید اس طرح سمجھئے کہ یہاں ” ظَلُوْمًا جَہُوْلًا “ کے الفاظ میں انسان کے حیوانی وجود کی اس کمزوری کا ذکر ہوا ہے جو اس کے اندر روح پھونکے جانے سے پہلے پائی جاتی تھی۔ اسی کمزوری کو سورة الانبیاء کی آیت ٣٧ میں خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍط اور سورة النساء میں وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ۔ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ کمزوری بہر حال ” نفخ روح “ سے پہلے کے انسان میں تھی۔ لیکن روح ربانی کی امانت ودیعت ہوجانے کے بعد اس کا رتبہ اس قدر بلند ہوا کہ وہ مسجودِ ملائک بن گیا۔ انسانی تخلیق کے ان دونوں مراحل کا ذکر سورة التین میں یوں فرمایا گیا ہے : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ ۔ ثُمَّ رَدَدْنٰــہُ اَسْفَلَ سَافِلِیْنَ ۔ ” یقینا ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین شکل و صورت میں۔ پھر ہم نے اس کو لوٹا دیا نچلوں میں سب سے نیچے۔ “ یعنی جب ارواح کی صورت میں انسانوں کو پیدا کیا گیا تو وہ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ کے مرتبے کی مخلوق تھی ‘ مگر جب اسے دنیا میں بھیجا گیا تو یہ اپنے جسد ِحیوانی کی کمزوریوں کے سبب جنات سے بھی نیچے چلا گیا۔ - بہر حال میرے نزدیک یہاں جس امانت کا ذکر ہوا ہے وہ انسان کی روح ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے جسد خاکی میں رکھی گئی ہے اور یہی وہ امانت ہے جس کی بنا پر اس کا احتساب ہوگا۔ جس انسان نے اس امانت کا حق ادا کیا وہ آخرت میں : فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ لا وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ ۔ (الواقعہ) سے نوازا جائے گا۔ یعنی اس کے لیے راحت اور خوشبو اور نعمتوں کے باغ کی ضیافت ہوگی۔ اس کے برعکس جو کوئی حیوانی خواہشات و داعیات کا اتباع کرتا رہا اور یوں اس امانت میں خیانت کا مرتکب ہوا وہ گویا حیوان ہی بن کر رہ گیا۔ چناچہ اس کو وہاں فَنُزُلٌ مِّنْ حَمِیْمٍ ۔ وَّتَصْلِیَۃُ جَحِیْمٍ ۔ (الواقعہ) کے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یعنی آخرت میں کھولتے پانی کی مہمانی اور جہنم کے عذاب کی زندگی اس کی منتظر ہوگی۔
سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :120 کلام کو ختم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسان کو یہ احساس دلانا چاہتا ہے کہ دنیا میں اس کی حقیقی حیثیت کیا ہے اور اس حیثیت میں ہوتے ہوئے اگر وہ دنیا کی زندگی کو محض ایک کھیل سمجھ کر بے فکری کے ساتھ غلط رویہ اختیار کرتا ہے تو کس طرح اپنے ہاتھوں خود اپنا مستقبل خراب کرتا ہے ۔ اس جگہ امانت سے مر اد وہی خلافت ہے جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین میں عطا کی گئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو طاقت و معصیت کی جو آزادی بخشی ہے ، اور اس آزادی کو استعمال کرنے کے لیے اسے اپنی بے شمار مخلوقات پر تصرف کے جو اختیارات عطا کیے ہیں ان کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خود اپنے اختیاری اعمال کا ذمہ دار قرار پائے اور اپنے صحیح طرز عمل پر اجر کا اور غلط طرز عمل پر سزا کا مستحق بنے ۔ یہ اختیارات چونکہ انسان نے خود حاصل نہیں کیے ہیں بلکہ اللہ نے اسے دیے ہیں ، اور ان کے صحیح و غلط استعمال پر وہ اللہ کے سامنے جواب دہ ہے ، اس لیے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کو خلافت کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ، اور یہاں انہی کے لیے امانت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ امانت کتنی اہم اور گراں بار ہے ، اس کا تصور دلانے کے لیے اللہ تعالی نے بتایا ہے کہ آسمان و زمین اپنی ساری عظمت کے باوجود اور پہاڑ اپنی زبردست جسامت و متانت کے باوجود اس کے اٹھانے کی طاقت اور ہمت نہ رکھتے تھے ، مگر انسان ضعیف البنیان نے اپنی ذرا سی جان پر یہ بھاری بوجھ اٹھا لیا ہے ۔ زمین و آسمان کے سامنے اس بار امانت کا پیش کیا جانا ، اور ان کا اسے اٹھانے سے انکار کرنا اور ڈر جانا ہو سکتا ہے کہ لغوی معنی میں ہو ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بات استعارے کی زبان میں ارشاد ہو ئی ہو ۔ اللہ تعالی کا اپنی مخلوقات کے ساتھ جو تعلق ہے اسے ہم نہ جان سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں زمین اور سورج اور چاند اور پہاڑ جس طرح ہمارے لیے گونگے ، بہرے اور بے جان ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ اللہ کے لیے بھی وہ ایسے ہی ہوں ۔ اللہ اپنی ہر مخلوق سے بات کر سکتا ہے اور وہ اس کو جواب دے سکتی ہے ۔ اس کی کیفیت کا سمجھنا ہمارے فہم و ادراک سے بالا تر ہے ۔ اس لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ فی الواقع اللہ نے ان کے سامنے یہ بار گراں پیش کیا ہو اور وہ اسے دیکھ کر کانپ اٹھے ہوں اور انہوں نے اپنے مالک و خالق سے یہ عرض کیا ہو کہ ہم تو سرکار کے بے اختیار خادم ہی بن کر رہنے میں اپنی خیر پاتے ہیں ، ہماری ہمت نہیں ہے کہ نافرمانی کی آزادی لے کر اس کا حق ادا کر سکیں اور حق ادا نہ کرنے کی صورت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا بر داشت کر سکیں ۔ اسی طرح یہ بھی بالکل ممکن ہے ہماری موجودہ زندگی سے پہلے پوری نوع انسانی کو اللہ تعالی نے کسی اور نوعیت کا وجود بخش کر اپنے سامنے حاضر کیا ہو اور اس نے یہ اختیارات سنبھالنے پر خود آمادگی ظاہر کی ہو ۔ اس بات کو ناممکن قرار دینے کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے ۔ اس کو دائرۂ امکان سے خارج قرار دینے کا فیصلہ تو وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنے ذہن و فکر کی استعداد کا غلط اندازہ لگا بیٹھا ہو ۔ البتہ یہ امر بھی اتنا ہی ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے یہ بات محض تمثیلی انداز میں فرمائی ہو اور صورت معاملہ کی غیر معمولی اہمیت کا تصور دلانے کے لیے اسی طرح کا نقشہ پیش کیا گیا ہو کہ گویا ایک طرف زمین و آسمان اور ہمالہ جیسے پہاڑ کھڑے ہیں اور دوسری طرف ۵ ۔ ٦ فیٹ کا آدمی کھڑا ہوا ہے ۔ اللہ تعالی پوچھتا ہے کہ : میں اپنی ساری مخلوقات میں سے کسی ایک کو یہ طاقت بخشنا چاہتا ہوں کہ وہ میری خدائی میں رہتے ہوئے خود اپنی رضا و رغبت سے میری با لا تری کا اقرار اور میرے احکام اطاعت کرنا چاہے تو کرے ، ورنہ وہ میرا انکار بھی کر سکے گا اور میرے خلاف بغاوت کا جھنڈا بھی لے کر اٹھ سکے گا ۔ یہ آزادی دے کر میں اس سے اس طرح چھپ جاؤں گا کہ گویا میں کہیں موجود نہیں ہوں ۔ اور اس آزادی کو عمل میں لانے کے لیے میں اس کو وسیع اختیارات دوں گا ، بڑی قابلیتیں عطا کروں گا ، اور اپنی بے شمار مخلوقات پر اس کو بلا دستی بخش دوں گا ، تاکہ وہ کائنات میں جو ہنگامہ بھی برپا کرنا چاہے کرسکے ۔ اس کے بعد میں ایک وقت خاص پر اس کا حساب لوں گا جس نے میری بخشی ہوئی آزادی کو غلط استعمال کیا ہو گا اسے وہ سزا دوں گا جو میں نے کبھی اپنی کسی مخلوق کو نہیں دی ہے ، اور جس نے نافرمانی کے سارے مواقع پاکر بھی میری فرمانبرداری ہی اختیار کی ہو گی اسے وہ بلند مرتبے عطا کروں گا جو میری کسی مخلو ق کو نصیب نہیں ہوئے ہیں ۔ اب بتاؤ تم میں سے کون اس امتحان گاہ میں اترنے کو تیار ہے ؟ یہ تقریر سن کر پہلے ساری کائنات میں سناٹا چھا جاتا ہے ۔ پھر ایک سے ایک بڑھ کر گراں ڈیل مخلوق گھٹنے ٹیک کر التجا کرتی چلی جاتی ہے کہ اسے اس کڑے امتحان سے معاف رکھا جائے ۔ آخر کار یہ مشت استخواں اٹھا ہے اور کہتا ہے کہ اے میرے رب میں یہ امتحان دینے کے لیے تیار ہوں ۔ اس امتحان کو پاس کر کے تیری سلطنت کا سب سے اونچا عہدہ مل جانے کی جو امید ہے اس کی بنا پر میں ان سب خطرات کو انگیز کر جاؤں گا جو اس آزادی و خود مختاری میں پوشیدہ ہیں ۔ یہ نقشہ اپنی چشم تصور کے سامنے لا کر ہی آدمی اچھی طرح اندازہ کر سکتا ہے کہ وہ کائنات میں کس نازک مقام پر کھڑا ہوا ہے ۔ اب جو شخص اس امتحان گاہ میں بے فکر بن کر رہتا ہے اور کوئی احساس نہیں رکھتا کہ وہ کتنی بڑی ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے ، اور دنیا کی زندگی میں اپنے لیے کوئی رویہ انتخاب کرتے وقت جو فیصلے وہ کرتا ہے ان کے صحیح یا غلط ہونے سے کیا نتائج نکلنے والے ہیں ، اسی کو اللہ تعالی اس آیت میں ظلوم و جہول قرار دے رہا ہے ۔ وہ جہول ہے ، کیونکہ اس احمق نے اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ لیا ہے ۔ اور وہ ظلوم ہے ، کیونکہ وہ خود اپنی تباہی کا سامان کر رہا ہے اور اپنے ساتھ نہ معلوم کتنے اور لوگوں کو لے ڈوبنا چاہتا ہے ۔
52: یہاں ’’ امانت‘‘ کا مطلب ہے : ’’ اپنی آزاد مرضی سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی ذمہ داری لینا ‘‘۔ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے بہت سے تکوینی احکام تو وہ ہیں جنہیں ماننے پر تمام مخلوقات مجبور ہیں، اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کر ہی نہیں سکتیں، مثلاً موت اور زندگی کا فیصلہ وغیرہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی مختلف مخلوقات کو یہ پیشکش فرمائی کہ بعض احکام کے معاملے میں انہیں یہ اختیار دیا جائے گا کہ اگر وہ چاہیں تو اللہ تعالیٰ حکم مان کر اس پر عمل کریں، اور اگر چاہیں تو حکم پر عمل نہ کریں۔ پہلی صورت میں ان کو جنت کی ابدی نعمتیں حاصل ہوں گی، اور دوسری صورت میں انہیں دوزخ کا عذاب دیا جائے گا۔ جب یہ پیشکش آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کو کی گئی تو وہ یہ ذمہ داری اٹھانے سے ڈر گئے، اور انہوں نے ایسی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں انہیں دوزخ کے عذاب کا خطرہ ہو۔ لیکن جب انسان کو یہ پیشکش کی گئی تو اس نے یہ زمہ داری اٹھا لی۔ آسمان، زمین اور پہاڑ اگرچہ دیکھنے میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے ان میں شعور نہیں ہے، لیکن قرآن کریم کی کئی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کسی نہ کسی درجے میں شعور موجود ہے، جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل آیت 44 میں گذرا ہے اس لیے ان مخلوقات کو یہ پیشکش حقیقی معنی میں ہوئی ہو، اور انہوں نے انکار کیا ہو تو اس میں کوئی اشکال کی بات نہیں ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ امانت کی پیشکش اور اس سے انکار مجازی معنی میں ہو، یعنی اس امانت کے اٹھانے کی صلاحیت نہ ہونے کو انکار سے تعبیر فرمایا گیا ہو، اس موقع پر سورۂ اعراف کی آیت : 172 اور اس پر ہمارا تشریحی حاشیہ بھی ملاحظہ فرما لیا جائے۔ 53: یہ جملہ ان لوگوں کے لیے فرمایا گیا ہے جنہوں نے امانت کا یہ بوجھ اٹھانے کے بعد اس کا حق ادا نہیں کیا، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہ کی، یعنی کافر اور منافق لوگ۔ چنانچہ اگلی آیت میں انہی کا انجام بیان ہوا ہے۔