71۔ 1 یہ تقویٰ اور قول کا نتیجہ ہے کہ تمہارے عملوں کی اصلاح ہوگی اور مزید تو فیق سے نوازے جاؤ گے اور کچھ کمی کوتاہی رہ جائیگی، تو اسے اللہ معاف فرما دے گا۔
[١٠٩] راست بازی کے فوائد :۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے دین و دنیا میں کامیاب زندگی کا ایک زرین اصول بیان فرما دیا جو کسی انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ بات سیدھی اور صاف کہا کرو جس میں جھوٹ نہ ہو۔ کوئی ایچ پیچ اور ہیرا پھیرا بھی نہ ہو۔ کسی کی جانبداری بھی نہ ہو۔ بات جتنی ہی ہو اتنی ہی کرو اس پر حاشیے نہ چڑھاؤ۔ اور اپنی طرف سے کمی بیشی بھی نہ کرو۔ اسی کا دوسرا نام راست بازی ہے۔ راست بازی سے بعض دفعہ اپنی ذات کو، اپنے اقرباء کو اور اپنے دوست احباب کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ برداشت کرو لیکن راست بازی کا دامن نہ چھوڑو۔ اس لئے کہ اس کے نتائج بڑے مفید اور دوررس ہوتے ہیں۔ اس سے انسان کا وقار قائم ہوتا ہے۔ عزت ہوتی ہے، ساکھ بنتی ہے پھر اس ساکھ سے انسان کو بیشمار فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ تو دنیوی فوائد ہوئے اور روحانی فوائد یہ ہیں کہ اس سے انسان کے اعمال خود بخود درست ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں شہادتین کا اقرار کرتا ہوں مگر اسلام لانے کی اپنے آپ میں جرأت نہیں پاتا کیونکہ مجھ میں فلاں عیب بھی ہے اور فلاں عیب بھی اور فلاں بھی۔ آپ نے اسے فرمایا : کیا تم مجھ سے جھوٹ چھوڑنے کا اقرار کرتے ہو ؟ وہ کہنے لگا ہاں۔ آپ نے فرمایا تمہارا اسلام منظور ہے۔ چناچہ جب بھی وہ کوئی قصور کرنے لگتا تو اسے خیال آتا کہ فلاں آدمی یا اللہ کا رسول مجھ سے پوچھے گا یا قیامت کو اللہ پوچھے گا تو اب میں جھوٹ تو بول نہیں سکتا پھر کیا ہوگا۔ اس خیال سے وہ اس عیب سے باز رہتا۔ آہستہ آہستہ اس کے تمام اعمال درست ہوگئے۔- یہ تو صرف جھوٹ چھوڑنے کی بات تھی جبکہ قول سدید جھوٹ ترک کرنے سے بہت اعلیٰ اخلاقی قدر ہے۔ پھر اس سے انسان کے اعمال کیوں درست نہ ہوں گے۔ اور جب اس کے اعمال درست ہوگئے تو سابقہ گناہ اللہ تعالیٰ خود ہی حسب وعدہ معاف فرما دیں گے اور یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ وہ اللہ سے ڈرتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول کا مطیع فرمان ہو۔ اور ایسے شخص کی اخروی زندگی بھی بہرحال بہت کامیاب زندگی ہوگی۔
يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ : اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور سیدھی صاف بات کہنے کے دو فائدے بیان فرمائے، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور دوسرا یہ کہ گناہوں پر پردہ ڈال دے گا۔ عام طور پر لوگ بگڑے ہوئے کاموں کو درست کرنے کے لیے جھوٹ بولتے اور چالاکی و ہوشیاری سے کام لیتے ہیں۔ ان کے ایچ پیچ اور غلط بیانی کی وجہ سے سننے والے مزید بھڑکتے اور بدگمان ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ کام مزید بگڑتے ہیں اور کبھی درست نہیں ہوتے، مگر جب آدمی اللہ سے ڈرے اور سیدھی صاف بات کہے تو اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ سارے کام درست بھی ہوجائیں گے اور گزشتہ گناہوں کی مغفرت بھی ہوجائے گی۔ کیونکہ سیدھی بات دلوں سے کدورت ختم کرنے اور باہمی صلح صفائی کا باعث بن جاتی ہے اور سیدھا ہوجانے پر اللہ تعالیٰ بھی درگزر فرماتا ہے۔- 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نکاح اور دوسری حاجات کے موقع پر پڑھے جانے والے جس خطبہ کی تعلیم دی اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چار آیات پڑھتے تھے، جن میں سے دو یہ ہیں۔ کیونکہ اللہ سے ڈرنا اور سیدھی بات کہنا ہر معاملے میں ضروری ہے، خصوصاً میاں بیوی کے معاملے میں تو اس کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے، کیونکہ ان کے درمیان معاملات کا کوئی گواہ نہیں ہوتا، صرف اللہ کا خوف اور سیدھی بات ان کے معاملات کو درست رکھ سکتی ہے اور معمولی سی چالاکی اور غلط بیانی باہمی اعتماد کو ختم کر کے گھر برباد کرنے کا باعث بن سکتی ہے ۔- وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۔۔ : کیونکہ اصل کامیابی جنت کا حصول اور جہنم سے نجات ہے، جو صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ دیکھیے سورة نساء (١٣، ١٤) اور آل عمران (١٨٥) ۔
زبان کی اصلاح باقی سب اعضاء و اعمال کی اصلاح میں موثر ذریعہ ہے :- اس آیت میں اصل حکم سب مسلمانوں کو یہ دیا گیا ہے کہ اتقوا اللہ یعنی تقویٰ اختیار کرو جس کی حقیقت تمام احکام آلہیہ کی مکمل اطاعت ہے کہ تمام اوامر کی تعمیل کرے اور تمام منہیات و مکروہات سے اجتناب کرے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ کام انسان کے لئے آسان نہیں، اس لئے اتقوا اللہ کے بعد ایک خاص عمل کی ہدایت ہے، یعنی اپنے کلام کی درستی اور اصلاح۔ یہ بھی اگرچہ تقویٰ کا ہی ایک جز ہے مگر ایسا جز ہے کہ اس پر قابو پا لیا جائے تو باقی اجزاء تقویٰ خود بخود حاصل ہوتے چلے جائیں گے جیسا کہ خود آیت مذکورہ میں قول سدید اختیار کرنے کے نتیجہ میں (آیت) یصلح لکم اعمالکم کا وعدہ ہے یعنی اگر تم نے اپنی زبان کو غلطی سے روک لیا اور کلام درست اور بات سیدھی کہنے کے خوگر ہوگئے تو اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال کی اصلاح فرمائیں گے، اور سب کو درست کردیں گے اور آخر آیت میں یہ وعدہ فرمایا کہ یغفرلکم ذنوبکم یعنی جس شخص نے اپنی زبان پر قابو پا لیا، راست گوئی اور سیدھی بات کا عادی بن گیا، اللہ تعالیٰ اس کے باقی اعمال کی بھی اصلاح فرما دیں گے اور جو لغزشیں اس سے ہوئی ہیں ان کو معاف فرما دیں گے۔- قرآنی احکام میں تسہیل کا خاص اہتمام :- قرآن کریم کے عام اسلوب میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کوئی حکم ایسا دیا گیا جس کی تعمیل میں کچھ مشقت و دشواری ہو تو ساتھ ہی اس کے آسان کرنے کا طریقہ بھی بتلا دیا گیا ہے۔ اور چونکہ سارے دین کا خلاصہ تقویٰ ہے اور اس میں پورا اترنا بڑی مشقت ہے، اس لئے عموماً جہاں اتقوا اللہ کا حکم دیا گیا ہے تو اس سے پہلے یا بعد میں کوئی ایک عمل ایسا بتلا دیا ہے جس کے اختیار کرنے سے تقویٰ کے باقی ارکان پر عمل منجانب اللہ آسان کردیا جاتا ہے۔ اسی کی ایک نظر اس آیت میں اتقوا اللہ کے بعد قولوا قولاً سدیداً کی تلقین ہے، اور اس سے پہلی آیت میں اتقوا اللہ سے پہلے (آیت) ولا تکونوا کالذین اذا واموسیٰ فرما کر اس بات کی طرف ہدایت فرما دی کہ تقویٰ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اللہ کے نیک اور مقبول بندوں کو ایذاء دینا ہے اسے چھوڑ دو تو تقویٰ آسان ہوجائے گا۔- ایک آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) اتقوا اللہ وکونوامع الصدقین، اس میں تقویٰ کو آسان کرنے کے لئے ایسے لوگوں کی صحبت ومجالست کی تلقین فرمائی جو بات کے سچے ہوں اور عمل کے بھی سچے ہوں، جس کا حاصل ولی اللہ ہونا ہے۔ اور دوسری آیت میں اتقوا اللہ کے ساتھ (آیت) ولتنظر نفس ماقدمت لغد بڑھا دیا، جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر انسان کو اس کی فکر چاہئے کہ اس نے کل یعنی روز محشر کے لئے کیا سامان بھیجا ہے ؟ جس کا خلاصہ فکر آخرت ہے اور یہ فکر تقویٰ کے تمام ارکان کو آسان کردینے والی چیز ہے۔- زبان و کلام کی درستی دین و دنیا دونوں کے کام درست کرنیوالی ہے :- حضرت شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی (رح) نے جو ترجمہ اس آیت کا کیا ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں جو سیدھی بات کا عادی ہونے پر اصلاح اعمال کا وعدہ ہے وہ صرف دینی اعمال ہی نہیں، بلکہ دنیا کے سب کام بھی اس میں داخل ہیں، جو شخص قول سدید کا عادی ہوجائے یعنی کبھی جھوٹ نہ بولے، سوچ سمجھ کر کلام کرے جو خطاء و لغزش سے پاک ہو، کسی کو فریب نہ دے، دل خراش بات نہ کرے، اس کے اعمال آخرت میں بھی درست ہوجائیں گے اور دنیا کے کام بھی بن جائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب کا ترجمہ یہ ہے کہ (کہو بات سیدھی کہ سنوار دے تم کو تمہارے کام) ۔
يُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ٠ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيْمًا ٧١- صلح - والصُّلْحُ يختصّ بإزالة النّفار بين الناس، يقال منه : اصْطَلَحُوا وتَصَالَحُوا، قال : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] - ( ص ل ح ) الصلاح - اور الصلح کا لفظ خاص کر لوگوں سے باہمی نفرت کو دورکر کے ( امن و سلامتی پیدا کرنے پر بولا جاتا ہے ) چناچہ اصطلحوا وتصالحوا کے معنی باہم امن و سلامتی سے رہنے کے ہیں قرآن میں ہے : أَنْ يُصْلِحا بَيْنَهُما صُلْحاً وَالصُّلْحُ خَيْرٌ [ النساء 128] کہ آپس میں کسی قرار داد پر صلح کرلیں اور صلح ہی بہتر ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - ذنب - والذَّنْبُ في الأصل : الأخذ بذنب الشیء، يقال : ذَنَبْتُهُ : أصبت ذنبه، ويستعمل في كلّ فعل يستوخم عقباه اعتبارا بذنب الشیء، ولهذا يسمّى الذَّنْبُ تبعة، اعتبارا لما يحصل من عاقبته، وجمع الذّنب ذُنُوب، قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] ،- الذنب ( ض )- کے اصل معنی کسی چیز کی دم پکڑنا کے ہیں کہا جاتا ہے ذنبتہ میں نے اس کی دم پر مارا دم کے اعتبار ست ہر اس فعل کو جس کا انجام برا ہوا سے ذنب کہہ دیتے ہیں اسی بناء پر انجام کے اعتباڑ سے گناہ کو تبعتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ذنب کی جمع ذنوب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ بِذُنُوبِهِمْ [ آل عمران 11] تو خدا نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ( عذاب میں ) پکڑلیا تھا۔- طوع - الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» .- قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً )- ( ط و ع ) الطوع - کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے - وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ - کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے - فوز - الْفَوْزُ : الظّفر بالخیر مع حصول السّلامة . قال تعالی: ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] ، فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] ، - ( ف و ز ) الفوز - کے معنی سلامتی کے ساتھ خیر حاصل کرلینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ ذلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُ [ البروج 11] یہی بڑی کامیابی ہے ۔ فازَ فَوْزاً عَظِيماً [ الأحزاب 71] تو بیشک بڑی مراد پایئکا ۔ یہی صریح کامیابی ہے ۔
آیت ٧١ یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ” اللہ تمہارے سارے اعمال درست کردے گا اور تمہاری خطائیں بخش دے گا۔ “- اگر بھول کر یا جذبات کی رو میں تم سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی تو اللہ اسے معاف کر دے گا۔- وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ” اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت پر کاربند ہوگیا تو اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی۔ “- یہاں کامیابی کا معیار بیان کردیا گیا کہ اہل ایمان کی کامیابی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت میں ہے۔ - اس سورت کی یہ دو آیات (آیت ٧٠ اور ٧١) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ نکاح میں تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ بھی جان لیں کہ ان دو آیات کے علاوہ مندرجہ ذیل آیات بھی خطبہ نکاح میں شامل ہیں : یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآئً ج وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا۔ (النساء) ۔ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ ۔ (آل عمران) ۔ - ۔ خطبہ نکاح میں مذکورہ چار آیات کا ُ لب ّلباب ” تقویٰ “ ہے۔