تقویٰ کی ہدایت ۔ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اپنے تقویٰ کی ہدایت کرتا ہے ان سے فرماتا ہے کہ اس طرح وہ اس کی عبادت کریں کہ گویا اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور بات بالکل صاف ، سیدھی ، سچی ، اچھی بولا کریں ، جب وہ دل میں تقویٰ ، زبان پر سچائی اختیار کرلیں گے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انہیں اعمال صالحہ کی توفیق دے گا اور ان کے تمام اگلے گناہ معاف فرما دے گا بلکہ آئندہ کیلئے بھی انہیں استغفار کی توفیق دے گا تاکہ گناہ باقی نہ رہیں ۔ اللہ رسول کے فرمانبردار اور سچے کامیاب ہیں جہنم سے دور اور جنت سے سرفراز ہیں ۔ ایک دن ظہر کی نماز کے بعد مردوں کی طرف متوجہ ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اللہ کا حکم ہوا ہے کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرتے رہنے اور سیدھی بات بولنے کا حکم دوں ۔ پھر عورتوں کی طرف متوجہ ہو کر بھی یہی فرمایا ( ابن ابی حاتم ) ابن ابی الدنیا کی کتاب التقویٰ میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ منبر پر ہر خطبے میں یہ آیت تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔ لیکن اس کی سند غریب ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے جسے یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کی عزت کریں اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا چاہئے ۔ عکرمہ فرماتے ہیں قول سدید لا الٰہ الا اللہ ہے ۔ حضرت خباب فرماتے ہیں سچی بات قول سدید ہے ۔ مجاہد فرماتے ہیں ہر سیدھی بات قول سدید میں داخل ہے ۔
70۔ 1 یعنی ایسی بات جس میں کجی اور انحراف ہو، نہ دھوکا اور فریب۔ بلکہ سچ اور حق ہو، یعنی جس طرح تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے تاکہ ٹھیک نشانے پر جا لگے اسی طرح تمہاری زبان سے نکلی ہوئی بات اور تمہارا کردار راستی پر مبنی ہو، حق اور صداقت سے بال برابر انحراف نہ ہو۔
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا : ” سَدَّ یَسُدُّ “ (ن) بند کرنا، پر کرنا اور ” سَدَّ یَسَدُّ “ (س، ض) سیدھا ہونا۔ ” سَدِيْدًا “ سیدھا، درست۔ ” سَدَّدَ یُسَدِّدُ “ (تفعیل) سیدھا کرنا۔ علی (رض) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( قُلِ اللّٰھُمَّ اھْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ وَاذْکُرْ بالْھُدٰی ھِدَایَتَکَ الطَّرِیْقَ وَالسَّدَادِ سَدَاد السَّھْمِ ) [ مسلم، الذکر والدعاء، باب في الأدعیۃ : ٢٧٢٥ ] ” یوں کہو کہ اے اللہ مجھے ہدایت دے اور سیدھا کر دے اور ہدایت کی دعا کرتے ہوئے صحیح راستے پر جانے کو دل میں رکھو اور سیدھا کرنے کی دعا کرتے ہوئے تیر کے سیدھا کرنے کو دل میں رکھو۔ “- 3 گزشتہ آیت میں مسلمانوں کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا دہی سے منع فرمایا۔ ایذا تبھی ہوتی ہے جب کوئی شخص غلط بات کرے اور الزام لگائے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مال کی تقسیم میں ناانصافی کا الزام لگایا گیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی شخص اسی وقت غلط بیانی اور الزام تراشی کرسکتا ہے جب وہ اللہ سے نہ ڈرے۔ اس لیے ایذا دہی سے منع کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا اور سیدھی بات کہنے کا حکم دیا۔
عادة اللہ یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو ایسے جسمانی عیوب سے بھی بری رکھا جاتا ہے جو موجب نفرت ہوں :- اس واقعہ میں قوم کے عیب لگانے پر اس سے برات کا حق تعالیٰ نے اتنا اہتمام فرمایا کہ بطور معجزہ پتھر کپڑے لے کر بھاگا اور موسیٰ (علیہ السلام) اضطراراً لوگوں کے سامنے ننگے آگئے یہ اہتمام اس کی نشان دہی کرتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے انبیاء کے اجسام کو بھی قابل نفرت و تحقیر عیوب سے عموماً پاک اور بری رکھتا ہے، جیسا کہ حدیث بخاری سے یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء سب کے سب عالی نسب میں پیدا کئے جاتے ہیں۔ کیونکہ عرفاً جس نسب اور خاندان کو لوگ حقیر سمجھتے ہوں اس کی بات سننے ماننے کے لئے تیار ہونا مشکل ہے۔ اسی طرح تاریخ انبیاء میں کسی پیغمبر کا نابینا، بہرا، گونگا یا ہاتھ پاؤں سے معذور ہونا ثابت نہیں، اور حضرت ایوب (علیہ السلام) کے واقعہ سے اس پر اعتراض نہیں ہوسکتا کہ وہ بحکمت خداوندی ایک خاص ابتلاء و امتحان کے لئے چند روزہ تکلیف تھی پھر ختم کردی گئی۔ واللہ اعلم۔- (آیت) یایہا الذین امنوا اتقوا اللہ وقولوا قولاً سدیداً ۔ یصلح لکم اعمالکم ویغفرلکم ذنوبکم، قول سدید کی تفسیر بعض نے صدق کے ساتھ کی، بعض نے مستقیم اور بعض نے صواب وغیرہ سے کی۔ ابن کثیر نے سب کو نقل کر کے فرمایا کہ سب حق ہیں۔ مطلب یہ ہوا کہ قرآن کریم نے اس جگہ صادق یا مستقیم وغیرہ کے الفاظ چھوڑ کر سدید کا لفظ اختیار فرمایا، کیونکہ لفظ سدید ان تمام اوصاف کا جامع ہے۔ اسی لئے کاشفی نے روح البیان میں فرمایا کہ قول سدید وہ قول ہے جو سچا ہو جھوٹ کا اس میں شائبہ نہ ہو، صواب ہو جس میں خطاء کا شائبہ نہ ہو، ٹھیک بات ہو، ہزل یعنی مذاق و دل لگی نہ ہو، نرم کلام ہو دلخراش نہ ہو۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِيْدًا ٧٠ۙ- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- سد - السَّدُّ والسُّدُّ قيل هما واحد، وقیل : السُّدُّ : ما کان خلقة، والسَّدُّ : ما کان صنعة «1» ، وأصل السَّدِّ مصدر سَدَدْتُهُ ، قال تعالی: بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف 94] ، وشبّه به الموانع، نحو : وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، وقرئ سدا «2» السُّدَّةُ : کا لظُّلَّة علی الباب تقية من المطر، وقد يعبّر بها عن الباب، كما قيل :- ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) «3» ، والسَّدَادُ والسَّدَدُ : الاستقامة، والسِّدَادُ : ما يُسَدُّ به الثّلمة والثّغر، واستعیر لما يسدّ به الفقر .- ( س د د ) السد :- ( دیوار ، آڑ ) بعض نے کہا ہے سد اور سد کے ایک ہی معنی ہیں اور بعض دونوں میں فرق کرتے ہیں کہ سد ( بضمہ سین ) اس آڑ کو کہا جاتا ہے جو قدرتی ہو اور سد ( بفتحہ سین ) مصنوعی اور بنائی ہوئی روک کو کہتے ہیں ۔ اصل میں یہ سددتہ ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی رخنہ کو بند کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَيْنَنا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا، [ الكهف 94] کہ ( آپ ) ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں ۔ اور تشبیہ کے طور پر ہر قسم کے موانع کو سد کہہ دیا جاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنا دی اور ان کے پیچھے بھی ایک قراءت میں سدا بھی ہے ۔ السدۃ برآمدہ جو دروازے کے سامنے بنایا جائے تاکہ بارش سے بچاؤ ہوجائے ۔ کبھی دروازے کو بھی سدۃ کہہ دیتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے : ۔ ( الفقیر الذي لا يفتح له سُدَدُ السّلطان) یعنی وہ فقیر جن کے لئے بادشاہ کے دروازے نہ کھولے جائیں ۔ السداد والسدد کے معنی استقامت کے ہیں اور السداد اسے کہتے ہیں جس سے رخنہ اور شگاف کو بھرا جائے ۔ اور استعارہ کے طور پر ہر اس چیز کو سداد کہا جاتا ہے جس سے فقر کو روکا جائے ۔
(٧٠۔ ٧١) اے ایمان والو جن باتوں کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم دیا ہے ان باتوں میں اس کی اطاعت کرو اور سچائی کی بات یعنی کلمہ لا الہ الا اللہ کہو وہ اس کے بدلے میں تمہارے اعمال کو قبول کرے گا اور اسی صلہ میں تمہارے گناہ معاف کردے گا اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کی پیروی کرے گا وہ جنت حاصل ہونے اور دوزخ سے نجات ملنے کی وجہ سے بہت بڑی کامیابی حاصل کرے گا۔
آیت ٧٠ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا ” اے اہل ِایمان اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور بات کیا کرو سیدھی۔ “- چونکہ اس سے پہلے کی آیات میں عام گھریلو زندگی کے معاملات سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں ‘ چناچہ اس سیاق وسباق میں اس حکم کا مفہوم یہ ہوگا کہ اپنے گھریلو معاملات میں بھی تم لوگ تقویٰ کی روش اپنائے رکھو اور اپنی زبان کے استعمال میں محتاط رہو۔ یعنی اپنے اہل و عیال کے ساتھ گفتگو میں بھی راست گوئی اور راست بازی کا خیال رکھو۔