Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

موسیٰ علیہ السلام کا مزاج ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت ہی شرمیلے اور بڑے لحاظ دار تھے ۔ یہی مطلب ہے قرآن کی اس آیت کا ۔ کتاب التفسیر میں تو امام صاحب اس حدیث کو اتنا ہی مختصر لائے ہیں ، لیکن احادیث انبیاء کے بیان میں اسے مطول لائے ہیں ۔ اس میں یہ بھی ہے کہ وہ بوجہ سخت حیا و شرم کے اپنا بدن کسی کے سامنے ننگا نہیں کرتے تھے ۔ بنو اسرائیل آپ کو ایذاء دینے کے درپے ہوگئے اور یہ افواہ اڑا دی کہ چونکہ ان کے جسم پر برص کے داغ ہیں یا ان کے بیضے بڑھ گئے ہیں یا کوئی اور آفت ہے اس وجہ سے یہ اس قدر پردے داری کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوا کہ یہ بدگمانی آپ سے دور کردے ۔ ایک دن حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام تنہائی میں ننگے نہا رہے تھے ، ایک پتھر پر آپ نے کپڑے رکھ دیئے تھے ، جب غسل سے فارغ ہو کر آئے ، کپڑے لینے چاہے تو پتھر آگے کو سرک گیا ۔ آپ اپنی لکڑی لئے اس کے پیچھے گئے وہ دوڑنے لگا ۔ آپ بھی اے پتھر میرے کپڑے میرے کپڑے کرتے ہوئے اس کے پیچھے دوڑے ۔ بنی اسرائیل کی جماعت ایک جگہ بیٹھی ہوئی تھی ۔ جب آپ وہاں تک پہنچ گئے تو اللہ کے حکم سے پتھر ٹھہر گیا ۔ آپ نے اپنے کپڑے پہن لئے ۔ بنو اسرائیل نے آپ کے تمام جسم کو دیکھ لیا اور جو فضول باتیں ان کے کانوں میں پڑی تھیں ان سے اللہ نے اپنے نبی کو بری کردیا ۔ غصے میں حضرت موسیٰ نے تین یا چار پانچ لکڑیاں پتھر پر ماری تھیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں واللہ لکڑیوں کے نشان اس پتھر پر پڑ گئے ۔ اسی برأت وغیرہ کا ذکر اس آیت میں ہے ۔ یہ حدیث مسلم میں نہیں یہ روایت بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں ہے ۔ بعض روایتیں موقوف بھی ہیں ۔ حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام پہاڑ پر گئے جہاں حضرت ہارون کا انتقال ہوگیا لوگوں نے حضرت موسیٰ کی طرف بدگمانی کی اور آپ کو ستانا شروع کیا ۔ پروردگار عالم نے فرشتوں کو حکم دیا اور وہ اسے اٹھا لائے اور بنو اسرائیل کی مجلس کے پاس سے گزرے اللہ نے اسے زبان دی اور قدرتی موت کا اظہار کیا ۔ انکی قبر کا صحیح نشان نامعلوم ہے صرف اس ٹیلے کا لوگوں کو علم ہے اور وہی ان کی قبر کی جگہ جانتا ہے لیکن بےزبان ہے ۔ تو ہوسکتا ہے کہ ایذاء یہی ہو اور ہوسکتا ہے کہ وہ ایذاء ہو جس کا بیان پہلے گزرا ۔ لیکن میں کہتا ہوں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اور یہ دونوں ہوں بلکہ ان کے سوا اور بھی ایذائیں ہوں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ لوگوں میں کچھ تقسیم کیا اس پر ایک شخص نے کہا اس تقسیم سے اللہ کی رضامندی کا ارادہ نہیں کیا گیا ۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں میں نے جب یہ سنا تو میں نے کہا اے اللہ کے دشمن میں تیری اس بات کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور پہنچاؤں گا ۔ چنانچہ میں نے جاکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر کردی آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا پھر فرمایا اللہ کی رحمت ہو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وہ اس سے بہت زیادہ ایذاء دے گئے لیکن صبر کیا ۔ ( بخاری ، مسلم ) اور روایت میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عام ارشاد تھا کہ کوئی بھی میرے پاس کسی کی طرف سے کوئی بات نہ پہنچائے ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تم میں آکر بیٹھوں تو میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی بات چبھتی ہوئی نہ ہو ۔ ایک مرتبہ کچھ مال آپ کے پاس آیا آپ نے اسے لوگوں میں تقسیم کیا ۔ دو شخض اس کے بعد آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے گزرے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ واللہ اس تقسیم سے نہ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی خوشی کا ارادہ کیا نہ آخرت کے گھر کا ۔ میں ٹھہر گیا اور دونوں کی باتیں سنیں ۔ پھر خدمت نبوی میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپ نے تو یہ فرمایا ہے کہ کسی کی کوئی بات میرے سامنے نہ لایا کرو ۔ ابھی کا واقعہ ہے کہ میں جا رہا تھا جو فلاں اور فلاں سے میں نے یہ باتیں سنیں اسے سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ غصے کے مارے سرخ ہوگیا اور آپ پر یہ بات بہت ہی گراں گزری ۔ پھر میری طرف دیکھ کر فرمایا عبد اللہ جانے دو دیکھو موسیٰ اس سے بھی زیادہ ستائے گئے لیکن انہوں نے صبر کیا ، قرآن فرماتا ہے موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نزدیک بڑے مرتبے والے تھے ۔ مستجاب الدعوت تھے ۔ جو دعا کرتے تھے قبول ہوتی تھی ۔ ہاں اللہ کا دیدار نہ ہوا اس لئے کہ یہ طاقت انسانی سے خارج تھا ۔ سب سے بڑھ کر ان کی وجاہت کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کیلئے نبوت مانگی اللہ نے وہ بھی عطا فرمائی ۔ فرماتا ہے ( وَوَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَآ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِيًّا 53؁ ) 19-مريم:53 ) ہم نے اسے اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بنادیا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

69۔ 1 اس کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہایت با حیا تھے، چناچہ اپنا جسم انہوں نے کبھی لوگوں کے سامنے ننگا نہیں کیا۔ بنو اسرائیل کہنے لگے کہ شاید موسیٰ (علیہ السلام) کے جسم میں برص کے داغ یا کوئی اس قسم کی آفت ہے جس کی وجہ سے ہر وقت لباس میں ڈھکا چھپا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تنہائی میں غسل کرنے لگے، کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے۔ پتھر (اللہ کے حکم سے) کپڑے لے کر بھاگ کھڑا ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے پیچھے پیچھے دوڑے۔ حتٰی کہ بنی اسرائیل کی ایک مجلس میں پہنچ گئے، انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ننگا دیکھا تو ان کے سارے شبہات دور ہوگئے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نہایت حسین و جمیل ہر قسم کے داغ اور عیب سے پاک تھے۔ یوں اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر پتھر کے ذریعے سے ان کے اس الزام اور شبہہ سے صفائی کردی جو بنی اسرائیل کی طرف سے ان پر کیا جاتا تھا (صحیح بخاری) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے سے اہل ایمان کو سمجھایا جارہا ہے کہ تم ہمارے پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بنی اسرائیل کی طرح ایذا مت پہنچاؤ اور آپ کی بابت ایسی بات مت کرو جسے سن کر آپ قلق اور اضطراب محسوس کریں جیسے ایک موقعے پر مال غنیمت کی تقسیم میں ایک شخص نے کہا کہ اس میں عدل وانصاف سے کام نہیں لیا گیا جب آپ تک یہ الفاظ پہنچے تو غضب ناک ہوئے حتیٰ کہ آپ کا چہر مبارک سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو انھیں اس سے کہیں زیادہ ایذا پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٠٧] اس آیت کی تائید و توثیق درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے :- سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ آپ نے (حنین کی جنگ کا) مال غنیمت تقسیم کیا تو ایک شخص کہنے لگا : اس تقسیم سے اللہ کی رضامندی مقصود نہیں ہے۔ میں رسول اللہ کے پاس آیا اور انھیں یہ بات بتائی۔ آپ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے اثرات نمودار ہوئے اور فرمایا : اللہ موسیٰ پر رحم کرے انھیں اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد باب ماکان النبی یعطی المؤلفۃ قلوبھم وغیرھم من الخمس ونحوہ)- اور درج ذیل حدیث اس آیت کی تفسیر پیش کرتی ہے :- خ بنی اسرائیل کی موسیٰ (علیہ السلام) کو ایذا رسانی :۔ سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : بنی اسرائیل برہنہ غسل کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ مگر موسیٰ (علیہ السلام) تنہا غسل فرمایا کرتے۔ بنی اسرائیل کہنے لگے۔ واللہ موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے سے بجز اس کے اور کوئی بات مانع نہیں کہ وہ فتق (جلدی بیماری) میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) غسل کرنے لگے تو اپنا لباس ایک پتھر پر رکھ دیا وہ پتھر ان کا لباس لے بھاگا اور سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اس کے تعاقب میں یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ ثوبی یا حجر۔ ثوبی یا حجر (اے پتھر میرے کپڑے۔ اے پتھر میرے کپڑے) یہاں تک بنی اسرائیل نے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کو (ننگے) دیکھ لیا اور کہنے لگے : واللہ موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ (پتھر ٹھہر گیا) موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا لباس لے لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں : خدا کی قسم اس پتھر پر چھ یا سات نشان ہیں۔ (بخاری۔ کتاب الغسل۔ باب من اغتسل عریاناً )- اب ظاہر ہے کہ جو لوگ خرق عادت واقعات یا معجزات کے منکر ہیں۔ انھیں یہ تفسیر راس نہیں آسکتی۔ تاہم اس حدیث کے الفاظ میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ وہ بھی اسے تسلیم کرلیں وہ یوں کہ حجر کے معنی پتھر بھی ہیں اور گھوڑی بھی۔ (منجد) اس لحاظ سے یہ واقعہ یوں ہوگا کہ موسیٰ گھوڑی پر سوار تھے۔ کسی تنہائی کے مقام پر نہانے لگے تو گھوڑی کو کھڑا کیا اور اسی پر اپنے کپڑے رکھ دیئے۔ جب نہانے کے بعد کپڑے لینے کے لئے آگے بڑھے تو گھوڑی دوڑ پڑی اور موسیٰ (علیہ السلام) ثوبی یا حجر کہتے اس کے پیچھے دوڑے تاآنکہ کچھ لوگوں نے آپ کو ننگے بدن دیکھ لیا کہ آپ بالکل بےداغ اور ان کی مزعومہ بیماری سے پاک ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو ان لوگوں کے الزام سے بری کردیا۔ رہی یہ بات کہ سیدنا ابوہریرہ (رض) قسم اٹھاکر کہتے ہیں کہ پتھر پر مار کے چھ یا سات نشان ہیں تو یہ سیدنا ابوہریرہ (رض) کا اپنا قول ہے۔ ارشاد نبوی نہیں جس کا ماننا حجت ہو۔ - علاوہ ازیں قارون نے بھی ایک فاحشہ عورت کو کچھ دے دلا کر اس بات پر آمادہ کرلیا تھا کہ وہ سیدنا موسیٰ پر اپنے ساتھ زنا کی تہمت لگا دے۔ پھر جب سیدنا موسیٰ نے اسے اللہ کی قسم دے کر پوچھا تو اس پر کچھ ایسا رعب طاری ہوا کہ اس نے صاف انکار کرلیا کہ میں نے قارون کی انگیخت پر یہ تہمت لگائی تھی۔- اور بنی اسرائیل کا موسیٰ کو اس طرح دکھ پہنچانا اس لحاظ سے اور بھی شدید جرم بن جاتا ہے کہ آپ ہی کے ذریعہ بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ اور ان کی مصر میں وہی حالت تھی جو ہندوستان میں شودروں کی ہے۔ بلکہ اس سے بھی بدتر حالت میں وہاں زندگی گزار رہے تھے۔- [١٠٨] وَجِیْھًا کا دوسرا معنی ایسا آبرو اور رعب والا شخص ہے جس کے متعلق لوگوں کو کچھ اعتراض ہو بھی تو وہ اس کے منہ پر کچھ نہ کہہ سکیں اور ادھر ادھر باتیں کرتے پھریں۔ یہی لفظ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ کے لئے استعمال فرمایا اور کہا (وَجِیْھًا فِیْ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ ) (٣: ٤٥) یعنی عیسیٰ دنیا میں بھی وجیہ تھے اور آخرت میں بھی وجیہ ہوں گے۔ چناچہ دنیا میں یہود ان کی پیدائش سے متعلق الزام لگاتے تھے لیکن منہ پر بات کہنے کی کوئی جرات نہ کرتا تھا۔- اس آیت میں روئے سخن غالباً منافقوں کی طرف ہے جو مسلمانوں میں ملے جلے رہتے تھے۔ ورنہ مخلص مومنوں سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ اپنے مجبوب اور محسن اعظم کو دکھ پہنچائیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى : اوپر بتایا کہ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دینے والوں پر لعنت اور ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ سورت کے شروع ہی سے منافقین کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دینے کا ذکر چلا آرہا ہے، جو کبھی جنگ احزاب میں یہ کہنے کی صورت میں تھی کہ اللہ اور اس کے رسول نے محض دھوکا دینے کے لیے ہم سے فتح و نصرت کا وعدہ کیا تھا، کبھی میدان چھوڑ کر گھروں کو جانے کی اجازت مانگنے کی صورت میں اور کبھی یہ کہہ کر کہ اب مسلمانوں کی مدینہ میں رہنے کی کوئی صورت نہیں۔ اس کے علاوہ ان کی یہود اور دوسرے کفار کے ساتھ دوستی اور ان کی فتح کی خواہش رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے سخت تکلیف دہ تھی۔ آپ کی ذاتی زندگی کے متعلق تکلیف دہ باتیں اس پر مزید تھیں۔ مثلاً آپ کی چار سے زائد بیویوں پر اعتراض، اپنے متبنٰی زید (رض) کی بیوی زینب (رض) سے نکاح وغیرہ۔ سورت کے آخر میں پھر اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا سے یہ کہہ کر منع فرما رہے ہیں کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایذا دی۔- 3 موسیٰ (علیہ السلام) کو ایذا دینے والوں کی باتوں کا قرآن میں متعدد مقامات پر ذکر آیا ہے۔ ظاہر ہے تمام بنی اسرائیل ایسے نہیں تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی طرح ہونے سے منع فرمایا جنھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ایذا دی۔ ان لوگوں کا یہ رویہ موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے سخت تکلیف دہ تھا کہ عموماً وہ حکم ماننے سے صاف انکار کردیتے تھے اور اس کے لیے لفظ بھی ” لَنْ “ (ہر گز نہیں) کا استعمال کرتے جو نفی کی تاکید کے لیے آتا ہے، مثلاً : (لن نصبر علی طعام واحد) [ البقرۃ : ٦١ ] ، (لن نومن لک حتی نری اللہ جھرۃ) [ البقرۃ : ٥٥ ] اور : (لن ندخلھا ابدا ما داموا فیھا) [ المائدۃ : ٢٤ ] ہارون (علیہ السلام) کے بچھڑے کی عبادت سے منع کرنے پر کہنے لگے : (لن نبرح علیہ عکفین حتی یرجع الینا موسی) [ طٰہٰ : ٩١ ] ” ہم اسی پر مجاور بن کر بیٹھے رہیں گے، یہاں تک کہ موسیٰ ہماری طرف واپس آئے۔ “ کبھی حکم کی تعمیل میں ٹال مٹول سے کام لیتے تھے، جیسا کہ گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو پہلے ” اتتخذنا ھزوا “ کہا، پھر گائے کی کیفیت کے متعلق سوال پر سوال داغتے رہے۔ ان کا یہ رویہ ان کے اس محسن کے ساتھ تھا جس نے ان کی خاطر لمبی مدت تک فرعون سے تکلیفیں جھیلیں، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے انھیں فرعون کی غلامی سے نجات اور آزادی کی نعمت عطا فرمائی۔ جس کی دعا سے انھیں من وسلویٰ ملتا تھا، بادلوں کا سایہ میسر تھا اور ان کے لیے پانی کے بارہ چشمے جاری تھے۔- فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا : ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی ایذا موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات گرامی پر الزام اور دھبے لگانے تک پہنچ گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا ان کے تمام الزامات سے پاک ہونا روز روشن کی طرح ظاہر فرما دیا، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت مرتبے والے تھے۔ ممکن نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر کوئی داغ لگنے دیتا۔- 3 بنی اسرائیل کی جانب سے موسیٰ (علیہ السلام) کی ایذا کا ایک نمونہ اس حدیث میں بیان ہوا ہے جو ابوہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” موسیٰ (علیہ السلام) بہت حیا والے، بہت پردے والے تھے۔ شدید حیا کی وجہ سے ان کی جلد کا کوئی حصہ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ بنی اسرائیل کے ایذا دینے والوں میں سے بعض نے انھیں ایذا دی اور کہنے لگے : ” موسیٰ اپنا جسم اتنا سخت چھپاتے ہیں تو ضرور اس میں کوئی عیب ہے، یا برص ہے، یا خصیہ پھولا ہوا ہے، یا کوئی اور بیماری ہے۔ “ اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا ان چیزوں سے پاک ہونا ظاہر کرے، جو وہ ان کے متعلق کہتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اکیلے ہوئے تو اپنے کپڑے پتھر پر رکھ کر غسل کرنے لگے، جب فارغ ہوئے تو کپڑے لینے کے لیے بڑھے تو پتھر ان کے کپڑے لے کر بھاگ اٹھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی لاٹھی لی اور پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ اے پتھر میرے کپڑے، اے پتھر میرے کپڑے۔ یہاں تک کہ وہ پتھر بنی اسرائیل کی ایک مجلس کے پاس جا پہنچا اور انھوں نے انھیں ننگا دیکھ لیا۔ انھوں نے دیکھا کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ مخلوق میں سب سے خوب صورت اور ان عیبوں سے بالکل بری تھے جو وہ کہتے تھے۔ الغرض پتھر رک گیا، تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے لے کر پہن لیے اور پتھر کو اپنی لاٹھی سے مارنے لگے۔ اللہ کی قسم پتھر پر ان کے مارنے کی وجہ سے لاٹھی کے تین یا چار یا پانچ نشان پڑگئے۔ یہ مراد ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی : (يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا ۭ وَكَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِيْهًا ) [ الأحزاب : ٦٩ ] [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ٣٤٠٤ ]- 3 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بعض اوقات کسی بظاہر مسلمان کی طرف سے ایذا دی گئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دی جانے والی ایذا اور اس پر ان کے صبر کا ذکر فرمایا۔ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ مال تقسیم کیا تو ایک آدمی کہنے لگا : ” اس تقسیم میں اللہ کی رضا مقصود نہیں رکھی گئی۔ “ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ غصے میں آگئے، یہاں تک کہ میں نے آپ کے چہرے میں غصے کو دیکھا، پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یَرْحَمُ اللّٰہُ مُوْسٰی قَدْ أُوْذِيَ بِأَکْثَرَ مِنْ ہٰذَا فَصَبَرَ ) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ٣٤٠٥ ]” اللہ تعالیٰ موسیٰ پر رحم فرمائے، انھیں اس سے زیادہ ایذا دی گئی تو انھوں نے صبر کیا۔ “- 3 بعض تفاسیر میں اس ایذا کے ضمن میں مذکور ہے کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) پر ہارون (علیہ السلام) کے قتل کا الزام لگا دیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے بھیجے، جنھوں نے ہارون (علیہ السلام) کی میت اٹھا کر دکھا دی اور اس میں ایسا کوئی نشان نہیں تھا، اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی براءت فرما دی۔ مگر یہ قصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی نہیں، ظاہر ہے یہ اسرائیلی روایت ہے جسے ہم نہ سچا کہہ سکتے ہیں نہ جھوٹا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح مت ہونا جنہوں نے (کچھ تہمت تراش کر) موسیٰ (علیہ السلام) کو ایذاء دی تھی سو ان کو خدا تعالیٰ نے بری ثابت کردیا اس چیز سے جو وہ کہتے تھے (یعنی ان کو تو کچھ نقصان نہ پہنچا تہمت لگانے والے ہی کذاب اور مستحق سزا ٹھہرے) اور وہ (یعنی موسیٰ علیہ السلام) اللہ کے نزدیک بڑے معزز (پیغمبر) تھے (اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی براءت ظاہر فرما دی جیسا کہ دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کے لئے اس طرح کی تہمتوں سے برات عام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم رسول کی مخالفت کر کے ان کو ایذاء نہ دینا کیونکہ ان کی مخالفت اللہ کی مخالفت ہے، ورنہ اس کے نتیجہ میں تم خود اپنا ہی نقصان کرلو گے اس لئے ہر کام میں اللہ و رسول کی اطاعت کرنا جس کا حکم آگے آتا ہے کہ) اے ایمان والو اللہ سے ڈرو (یعنی ہر امر میں اس کی اطاعت کرو) اور (بالخصوص کلام کرنے میں اس کی بہت رعایت رکھو کہ جب بات کرو) راستی کی بات کرو (جس میں عدل و اعتدال سے تجاوز نہ ہو) اللہ تعالیٰ (اس کے صلہ میں) تمہارے اعمال کو قبول کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا (کچھ ان اعمال کی برکت سے کچھ توبہ کی برکت سے جو تقویٰ اور قول سدید میں داخل ہے) اور (یہ ثمرات اطاعت کے ہیں اور اطاعت ایسی چیز ہے کہ) جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ بڑی کامیابی کو پہنچے گا۔- معارف ومسائل - اس سے پہلی آیات میں اللہ و رسول کی ایذا کا مہلک اور خطرناک ہونا بیان کیا گیا تھا اس آیت میں خاص طور سے مسلمانوں کو اللہ و رسول کی مخالفت سے بچنے کی ہدایت کی ہے، کیونکہ یہ مخالفت ان کی ایذا کا سبب ہے۔- پہلی آیت میں ایک واقعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جس میں ان کی قوم نے ان کو ایذا پہنچائی تھی ذکر کر کے مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ مسلمانوں سے کوئی ایسا کام سرزد ہوا ہو بلکہ حفظ ماتقدم کے طور پر ان کو یہ قصہ سنا کر ہدایت کی گئی ہے۔ اور ایک روایت میں جو قصہ بعض صحابہ کا منقول ہے اس کا محمل بھی یہی ہے کہ ان کو اس وقت اس طرف توجہ نہ ہوئی ہوگی کہ یہ کلمہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایذا کا موجب ہے، بالقصد ایذا پہنچانے کا کسی صحابی سے امکان نہیں، جتنے قصے بالقصد ایذا کے ہیں وہ سب منافقین کے ہیں۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرما کر اس آیت کی تفسیر بیان فرما دی ہے جس کو امام بخاری نے کتاب التفیسر اور کتاب الانبیاء میں حضرت ابوہریرہ سے روایت فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت حیا کرنے والے اور اپنے بدن کو چھپانے والے تھے، ان کے بدن کو کوئی نہ دیکھتا تھا، جب غسل کی ضرورت ہوتی تو پردہ کے اندر غسل کرتے تھے، ان کی قوم بنی اسرائیل میں عام طور پر یہ رواج تھا کہ مرد سب کے سامنے ننگے ہو کر نہاتے تھے، تو بعض بنی اسرائیل کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جو کسی کے سامنے نہیں نہاتے اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے بدن میں کوئی عیب ہے، یا تو برص ہے یا خصیتین بہت بڑھے ہوئے ہیں، یا کوئی اور آفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی اس طرح کے عیوب سے برات کا اظہار فرما دیں۔ ایک روز موسیٰ (علیہ السلام) خلوت میں غسل کرنے کے لئے اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے، جب غسل سے فارغ ہو کر اپنے کپڑے لینے چاہے تو یہ پتھر (بحکم خداوندی حرکت میں آگیا) اور کپڑے لے کر بھاگنے لگا۔ موسیٰ (علیہ السلام) اپنی لاٹھی اٹھا کر پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے چلے ثوبی حجر ثوبی حجر، ” یعنی اے پتھر میرے کپڑے، اے پتھر میرے کپڑے “ مگر پتھر چلتا رہا یہاں تک کہ یہ پتھر ایسی جگہ جا کر ٹھہرا جہاں بنی اسرائیل کا ایک مجمع تھا، اس وقت بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سر سے پاؤں تک ننگا دیکھا تو بہترین صحیح وسالم بدن دیکھا (جس میں ان کا منسوب کیا ہوا کوئی عیب نہ تھا) اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی برات ان عیوب سے ان سب کے سامنے ظاہر فرما دی۔ پتھر یہاں پہنچ کر ٹھہر گیا تھا، موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے کپڑے اٹھا کر پہن لئے، پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے پتھر کو لاٹھی سے مارنا شروع کیا۔ خدا کی قسم اس پتھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کی ضرب سے تین یا چار یا پانچ اثر قائم ہوگئے۔- یہ واقعہ بیان فرما کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قرآن کی اس آیت کا یہی مطلب ہے۔ یعنی آیت مذکورہ (آیت) کالذین اذواموسیٰ ۔ کا آیت مذکورہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کی جس ایذا کا ذکر ہے اس کی تفسیر اس قصہ میں خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے۔ بعض صحابہ کرام سے ایذا موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک قصہ اور بھی مشہور ہے۔ وہ بھی اس کے ساتھ ضرور ملحق ہے۔ مگر تفسیر آیت وہی راجح ہے جو مرفوع حدیث میں موجود ہے۔- (آیت) وکان عند اللہ وجیہاً ” یعنی تھے موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے نزدیک صاحب وجاہت “ اللہ کے نزدیک کسی کی وجاہت اور جاہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرمائیں اس کی خواہش کو رد نہ کریں۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کا مستجاب الدعوات ہونا قرآن میں ان واقعات کثیرہ سے ثابت ہے جن میں انہوں نے کسی چیز کی دعا مانگی اللہ تعالیٰ نے اسی طرح قبول فرمایا۔ ان میں سب سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ ہارون (علیہ السلام) کو پیغمبر بنانے کی دعا کی، اللہ تعالیٰ نے قبول فرما کر ان کو موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ شریک رسالت بنادیا، حالانکہ منصب نبوت کسی کو کسی کی سفارش پر نہیں دیا جاتا۔ (ابن کثیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَہُ اللہُ مِمَّا قَالُوْا۝ ٠ ۭ وَكَانَ عِنْدَ اللہِ وَجِيْہًا۝ ٦٩ۭ- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] .- وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - أذي - الأذى: ما يصل إلى الحیوان من الضرر إمّا في نفسه أو جسمه أو تبعاته دنیویاً کان أو أخرویاً ، قال تعالی: لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذى [ البقرة 264] ، قوله تعالی:- فَآذُوهُما [ النساء 16] إشارة إلى الضرب، ونحو ذلک في سورة التوبة : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ [ التوبة 61] ، وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة 61] ، ولا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسی [ الأحزاب 69] ، وَأُوذُوا حَتَّى أَتاهُمْ نَصْرُنا [ الأنعام 34] ، وقال : لِمَ تُؤْذُونَنِي [ الصف 5] ، وقوله : يَسْئَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ : هُوَ أَذىً [ البقرة 222] - ( ا ذ ی ) الاذیٰ ۔- ہرا س ضرر کو کہتے ہیں جو کسی جاندار کو پہنچتا ہے وہ ضرر جسمانی ہو یا نفسانی یا اس کے متعلقات سے ہو اور پھر وہ ضرر دینوی ہو یا اخروی چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى ( سورة البقرة 264) اپنے صدقات ( و خیرات ) کو احسان جتا کر اور ایذا دے کر برباد نہ کرو ۔ اور آیت کریمہ ۔ فَآذُوهُمَا ( سورة النساء 16) میں مار پٹائی ( سزا ) کی طرف اشارہ ہے اسی طرح سورة تو بہ میں فرمایا ۔ وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ ( سورة التوبة 61) اور ان میں بعض ایسے ہیں جو خدا کے پیغمبر کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص نرا کان ہے ۔ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة التوبة 61) اور جو لوگ رسول خدا کو رنج پہنچاتے ہیں ان کے لئے عذاب الیم ( تیار ) ہے ۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى ( سورة الأحزاب 69) تم ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف دی ( عیب لگا کر ) رنج پہنچایا ۔ وَأُوذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا ( سورة الأَنعام 34) اور ایذا ( پر صبر کرتے رہے ) یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد پہنچتی رہی ۔ لِمَ تُؤْذُونَنِي ( سورة الصف 5) تم مجھے کیوں ایذا دیتے ہو۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ ( سورة البقرة 222) میں حیض ( کے دنوں میں عورت سے جماع کرنے ) کو اذی کہنا یا تو از روئے شریعت ہے یا پھر بلحاظ علم طب کے جیسا کہ اس فن کے ماہرین بیان کرتے ہیں ۔ اذیتہ ( افعال ) ایذاء و اذیۃ و اذی کسی کو تکلیف دینا ۔ الاذی ۔ موج بحر جو بحری مسافروں کیلئے تکلیف دہ ہو ۔- موسی - مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته .- برأ - أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون .- قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة 1] ،- ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری - کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- وَجِيهاً- وفلان وجِيهٌ: ذو جاه . قال تعالی: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ آل عمران 45] وأحمق ما يتوجّه به : كناية عن الجهل بالتّفرّط، وأحمق ما يتوجّه بفتح الیاء وحذف به عنه، أي : لا يستقیم في أمر من الأمور لحمقه، والتّوجيه في الشّعر : الحرف الذي بين ألف التأسيس وحرف الرّويّ - فلان وجہ القوم کے معنی رئیس قوم کے ہیں جیسا کہ قوم کے رئیس اور سردارکو را وجیہ اوذوجاہ فلاں صاحب وجاہت ہے قرآن میں ہے ۔ وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ آل عمران 45] اور جو دینا اور آخرت میں با آبر و ہوگا ۔ ایک محاورہ ہے ۔ احمق مایتوجہ بہ یعنی وہ انتہائی درجہ کا احمق ہے اور کبھی بہ کو حذف کرکے بھی بولتے ہیں ۔ اور مطلب یہ ہے کہ حماقت کی وجہ سے وہ کوئی کام بھی صحیح طور پر نہیں کرسکتا ۔ التوجیہ علم عروض میں اس حرف کو کہتے ہیں جو ایف تاسیس اور حرف روی کے درمیان ہو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے ایمان والو تم رسول اکرم کو تکلیف دینے میں ان لوگوں کی طرح مت ہو جنہوں نے کچھ تہمت تراش کر موسیٰ کو تکلیف دی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بری ثابت کردیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزیک بڑے معزز اور قدر و منزلت والے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٩ یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی ” اے اہل ِایمان تم ان لوگوں کی مانند نہ ہوجانا جنہوں نے موسیٰ ( علیہ السلام) ٰ کو اذیت دی تھی “- فَـبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَکَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْہًا ” تو اللہ نے اس کو بری ثابت کردیا اس بات سے جو انہوں نے کہی تھی ‘ اور وہ اللہ کے نزدیک بڑے مرتبے والا تھا۔ “ - حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی قوم بنی اسرائیل کی طرف سے کئی طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سورة الصف میں آپ ( علیہ السلام) کے وہ الفاظ نقل ہوئے ہیں جو آپ ( علیہ السلام) نے اپنی قوم کے طرزعمل پر شکوہ کرتے ہوئے فرمائے تھے : یٰـقَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْط (آیت ٥) ” اے میری قوم تم مجھے کیوں اذیت دیتے ہو درآنحالیکہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنی قوم کی طرف سے سب سے بڑی اذیت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب آپ ( علیہ السلام) نے قوم کو اللہ کے راستے میں قتال کرنے کا حکم دیا تو سوائے دو اشخاص کے پوری قوم نے انکار کردیا۔ قوم کے اس طرز عمل پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو کو فت اور اذیت محسوس کی اس کا اندازہ اس دعا سے کیا جاسکتا ہے جو آپ ( علیہ السلام) نے اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے کی : قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلاَّ نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ ۔ (المائدۃ) ” انہوں ( علیہ السلام) نے عرض کیا : اے میرے پروردگار مجھے تو اختیار نہیں ہے سوائے اپنی جان کے اور اپنے بھائی (ہارون ( علیہ السلام) کی جان) کے ‘ تو اب تفریق کردے ہمارے اور ان ناہنجار لوگوں کے درمیان ۔ “- اس کے علاوہ آپ ( علیہ السلام) پر ذاتی نوعیت کا ایک الزام لگا کر بھی آپ ( علیہ السلام) کو سخت اذیت پہنچائی گئی۔ اس حوالے سے احادیث میں ایک واقعہ بہت تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس واقعہ کا ُ لب ّلباب یہ ہے کہ اس زمانے میں عام طور پر مرد اپنے ستر کو چھپانے کا خاص اہتمام نہیں کرتے تھے اور سر ِعام برہنہ نہانے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اس کے برعکس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس بارے میں غیر معمولی طور پر احتیاط سے کام لیتے تھے۔ اس پر لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ آپ ( علیہ السلام) جسمانی طور پر کسی عیب یا مرض میں مبتلا ہیں جس کو چھپانے کے لیے آپ ( علیہ السلام) اس قدر شرم و حیا کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے ایک خاص ترکیب کے ذریعے لوگوں پر واضح کردیا کہ ان کا یہ الزام جھوٹا اور بےبنیاد تھا۔ - سورة النور میں ہم حضرت عائشہ (رض) پر منافقین کی طرف سے بہتان تراشی کا وہ واقعہ بھی پڑھ چکے ہیں جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے سخت اذیت کا باعث بنا تھا۔ چناچہ یہاں تمام افرادِ امت کو خبردار کیا جارہا ہے کہ دیکھو تم بھی کہیں بنی اسرائیل کے ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو اپنے نبی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مختلف طریقوں سے تنگ کیا کرتے تھے۔ تمہارا کوئی عمل یا قول ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تکلیف پہنچے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :118 یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ قرآن مجید میں اے لوگو جو ایمان لائے ہو کے الفاظ سے کہیں تو سچے اہل ایمان کو خطاب کیا گیا ہے ، اور کہیں مسلمانوں کی جماعت بحیثیت مجموعی مخاطب ہے جس میں مومن اور منافق اور ضعیف الایمان سب شامل ہیں ، اور کہیں روئے سخن خالص منافقین ہی کی طرف ہے ۔ منافقین اور ضعیف الایمان لوگوں کو الذین اٰمنوا کہہ کر جب مخاطب کیا جاتا ہے تو اس سے مقصود ان کو شرم دلانا ہوتا ہے کہ تم لوگ دعویٰ تو ایمان لانے کا کرتے ہو اور حرکتیں تمہاری یہ کچھ ہیں ۔ سیاق و سباق پر غور کرنے سے ہر جگہ بآسانی معلوم ہو جاتا ہے کہ کس جگہ الذین اٰمنوا سے مراد کون ہیں ۔ یہاں سلسلۂ کلام صاف بتا رہا ہے کہ مخاطب عام مسلمان ہیں ۔ سورة الْاَحْزَاب حاشیہ نمبر :119 دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو تم یہودیوں کی سی حرکتیں نہ کرو ۔ تمہاری روش اپنے نبی کے ساتھ وہ نہ ہونی چاہیے جو بنی اسرائیل کی روش موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھی ۔ بنی اسرائیل خود مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ ان کے سب سے بڑے محسن تھے ۔ جو کچھ بھی یہ قوم بنی ، انہی کی بدولت بنی ، ورنہ مصر میں اس کا انجام ہندوستان کے شودروں سے بھی بدتر ہوتا ۔ لیکن اپنے اس محسن اعظم کے ساتھ اس قوم کاجو سلوک تھا اس کا اندازہ کرنے کے لیے با ئیبل کے حسب ذیل مقامات پر صرف ایک نظر ڈال لینا ہی کافی ہے : کتاب خروج ۔ ۵:۲۰ ۔ ۲۱ ۔ ۱٤ : ۱۱ ۔ ۱۲ ۔ ۳ ۔ ۱۷:۳ ۔ ٤ کتاب گنتی ۔ ۱۱:۱ ۔ ۱۵ ۔ ۱٤: ۱ ۔ ۱۰ ۔ ۱٦ مکمّل ۔ ۲۰:۱ ۔ ۵ قرآن مجید بنی اسرائیل کی اسی محسن کشی کی طرف اشارہ کر کے مسلمانوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ طرز عمل اختیار کرنے سے بچو ، ورنہ پھر اسی انجام کے لیے تیار ہو جاؤ جو یہودی دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں ۔ یہی بات متعدد مواقع پر خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ارشاد فرمائی ہے ۔ ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں میں کچھ مال تقسیم کر رہے تھے ۔ اس مجلس سے جب لوگ باہر نکلے تو ایک شخص نے کہا احمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس تقویم میں خدا اور آخرت کا کچھ بھی لحاظ نہ رکھا ۔ یہ بات حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سن لی اور جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آج آپ پر یہ باتیں بنائی گئی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا رحمۃ اللہ علیٰ موسیٰ فانہ اُوذی باکثر من ھٰذا فَصَبَر ۔ اللہ کی رحمت ہو موسیٰ پر ۔ انہیں اس سے زیادہ اذیتیں دی گئیں اور انہوں نے صبر کیا ( مُسند ، احمد ۔ ترمذی ۔ ابو داؤد )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

51: بنو اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر طرح طرح کے الزامات لگا کر انہیں بہت ستایا تھا۔ حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت سے فرمایا جا رہا ہے کہ وہ ایسی حرکت نہ کریں۔