Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

45۔ 1 یہ کفار مکہ کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ تم نے جھٹلایا اور انکار کا راستہ اختیار کیا ہے، وہ نہایت خطرناک ہے تم سے پچھلی امتیں بھی اسی راستے پر چل کر تباہ ہوچکی ہیں۔ یہ امتیں مال ودولت، قوت وطاقت اور عمروں کے لحاظ سے تم سے بڑھ کر تھیں، تم ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچتے لیکن اس کے باوجود وہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکیں، اسی مضمون کو سورة احقاف کی (وَلَقَدْ مَكَّنّٰهُمْ فِيْمَآ اِنْ مَّكَّنّٰكُمْ فِيْهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَّاَبْصَارًا وَّاَفْـــِٕدَةً ڮ فَمَآ اَغْنٰى عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَآ اَبْصَارُهُمْ وَلَآ اَفْــِٕدَتُهُمْ مِّنْ شَيْءٍ اِذْ كَانُوْا يَجْـحَدُوْنَ ۙبِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ ) 46 ۔ الاحقاف :26) میں بیان فرمایا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٦٩] یعنی اقوام سابقہ جو تباہ کی جاچکیں وہ ان قریش مکہ سے قدو قامت، ڈیل ڈول، قوت، مال و دولت اور عیش و فراوانی غرض ہر لحاظ سے بہت زیادہ تھیں۔ یہ قریش مکہ تو ان کے مقابلہ میں دسواں حصہ بھی نہیں۔ پھر جب ان اقوام نے ہمارے رسولوں کی تکذیب کی تو انہیں اس قوت اور سطوت کے باوجود تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا۔ تو آخر یہ لوگ کس کھیت کی مولی ہیں جو ہماری گرفت سے بچ سکیں گے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَكَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۔۔ : ” مِعْشَارَ “ اور ” عُشْرٌ“ دونوں کا معنی دسواں حصہ ہے۔ یعنی پہلی اقوام جو تباہ کی گئیں، انھیں جو قد و قامت، قوت و دولت اور شان و شوکت عطا کی گئی تھی، ان عرب کے کافروں کے پاس تو اس کا دسواں حصہ بھی نہیں۔ دیکھیے سورة روم (٩) ، مومن (٢١) اور سورة احقاف (٢٦) ۔- فَكَذَّبُوْا رُسُلِيْ ۣ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ :” نَكِيْرِ “ اصل میں ” نَکِیْرِيْ “ ہے، آیات کے فواصل (آخری حروف) کی موافقت کے لیے یاء حذف کردی اور کسرہ یہ بتانے کے لیے باقی رکھا کہ یہاں یاء محذوف ہے، یعنی میرا انکار، میرا عذاب۔ انھوں نے میرے رسولوں کو جھٹلایا تو دیکھ لو اس پر میں نے انھیں کیسی سخت سزا دی اور کس طرح برباد کیا کہ ان کا نشان تک نہیں ملتا، تو ان بےچاروں کی کیا حیثیت ہے کہ یہ ہماری گرفت سے بچ سکیں گے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - (آیت) ومابلغوا معشار ما اتینہم، لفظ معشار بعض نے بمعنی عشر کہا ہے۔ یعنی دسواں حصہ اور بعض علماء نے عشرالعشر یعنی سوواں حصہ اور بعض نے عشرالعشیر یعنی ہزارویں حصہ کو معشار کہا ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اس لفظ میں بہ نسبت عشر کے مبالغہ ہے، معنی آیت کے یہ ہیں کہ دنیا کی ثروت و دولت و حکومت اور عمر طویل اور صحت قوت وغیرہ، جو پچھلی امتوں کو دی گئی تھی اہل مکہ کو اس کا دسواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی حاصل نہیں، اسی لئے ان کو چاہئے کہ ان پچھلی اقوام کے حالات اور انجام بد سے عبرت حاصل کریں کہ وہ لوگ رسولوں کی تکذیب کر کے خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوئے اور وہ عذاب آ گیا تو ان کی قوت و شجاعت اور مال و دولت اور محفوظ قلعے کچھ کام نہ آسکے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَكَذَّبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝ ٠ ۙ وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَآ اٰتَيْنٰہُمْ فَكَذَّبُوْا رُسُلِيْ ۝ ٠ ۣ فَكَيْفَ كَانَ نَكِيْرِ۝ ٤٥ۧ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - بلغ - البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15]- ( ب ل غ ) البلوغ - والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ - عشر - العَشْرَةُ والعُشْرُ والعِشْرُونَ والعِشْرُ معروفةٌ. قال تعالی: تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة 196] ، عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال 65] ، تِسْعَةَ عَشَرَ [ المدثر 30] ، وعَشَرْتُهُمْ أَعْشِرُهُمْ : صِرْتُ عَاشِرَهُمْ ، وعَشَرَهُمْ : أَخَذَ عُشْرَ مالِهِمْ ، وعَشَرْتُهُمْ : صيّرتُ مالهم عَشَرَةً ، وذلک أن تجعل التِّسْعَ عَشَرَةً ، ومِعْشَارُ الشّيءِ : عُشْرُهُ ، قال تعالی: وَما بَلَغُوا مِعْشارَ ما آتَيْناهُمْ- [ سبأ 45] ، وناقة عُشَرَاءُ : مرّت من حملها عَشَرَةُ أشهرٍ ، وجمعها عِشَارٌ. قال تعالی: وَإِذَا الْعِشارُ عُطِّلَتْ [ التکوير 4] ، وجاء وا عُشَارَى: عَشَرَةً عَشَرَةً ، والعُشَارِيُّ : ما طوله عَشَرَةُ أذرع، والعِشْرُ في الإظماء، وإبل عَوَاشِرُ ، وقَدَحٌ أَعْشَارٌ: منکسرٌ ، وأصله أن يكون علی عَشَرَةِ أقطاعٍ ، وعنه استعیر قول الشاعر : بسهميك في أَعْشَارِ قلب مقتّل والعُشُورُ في المصاحف : علامةُ العَشْرِ الآیاتِ ، والتَّعْشِيرُ : نُهَاقُ الحمیرِ لکونه عَشَرَةَ أصواتٍ ،- ( ع ش ر ) العشرۃ دس العشرۃ دسواں حصہ العشرون بیسواں العشر ( مویشیوں کا دسویں دن پانی پر وار ہونا ) قرآن میں ہے : تِلْكَ عَشَرَةٌ كامِلَةٌ [ البقرة 196] یہ پوری دس ہوئے عِشْرُونَ صابِرُونَ [ الأنفال 65] بیس آدمی ثابت قدم ۔ تِسْعَةَ عَشَرَ [ المدثر 30] انیس ( درواغے ) میں ان میں دسواں بن گیا عشرھم ان سے عشر یعنی مال کا دسواں حصہ وصول کیا ۔ عشرتھم میں نے ان کے مویشی دس بنادیئے یعنیپہلے نو تھے ان میں ایک اور شامل کر کے دس بنادیا معشار الشئی دسواں حصہ ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما بَلَغُوا مِعْشارَ ما آتَيْناهُمْ [ سبأ 45] اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا تھا یہ اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے ۔ ناقۃ عشرء دس ماہ کی حاملہ اونٹنی اس کی جمع عشار آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَإِذَا الْعِشارُ عُطِّلَتْ [ التکوير 4] ، اور جب دس ماہ کی گابھن ( حاملہ ) اور نٹینیاں بیکار ہوجائیں گی ۔ جاؤ عشاری وہ دس دس افراد پر مشتعمل ٹولیاں بن کر آئے ۔ العشاری ہر وہ چیز دس ہاتھ لمبی ہو ۔ العشاری ہر وہ چیز جو دس ہاتھ لمبی ہو ۔ العشر اونٹوں کو پانی نہ پلانے کی مدت ( نودن ) ابل عواشر نودن کے پیا سے اونٹ قدح اعشار ٹوٹا ہوا پیالہ دراصل اعشار لا لفظ اس چیز پر بولا جاتا ہے جو ٹوٹ کر دس ٹکڑے ہوگیا ہو اسی سے شاعر نے بطور استعارہ کہا ہے ( 311 ) بسھمیک فی اعشار قلب مقتل تم اپنی ( نگاہوں ) کے دونوں تیرے میرے شکستہ دل کے ٹکڑوں پر ( مارنا چاہتی ہو العشور کے معنی گدھے کی آواز کے ہیں کیونکہ گدھا جب آواز کرتا ہے تو دس مرتبہ آواز کرتا ہے - آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - نكر - الإِنْكَارُ : ضِدُّ العِرْفَانِ. يقال : أَنْكَرْتُ كذا، ونَكَرْتُ ، وأصلُه أن يَرِدَ علی القَلْبِ ما لا يتصوَّره، وذلک ضَرْبٌ من الجَهْلِ. قال تعالی: فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ- [هود 70] ، فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58]- وقد يُستعمَلُ ذلک فيما يُنْكَرُ باللّسانِ ، وسَبَبُ الإِنْكَارِ باللّسانِ هو الإِنْكَارُ بالقلبِ لکن ربّما يُنْكِرُ اللّسانُ الشیءَ وصورتُه في القلب حاصلةٌ ، ويكون في ذلک کاذباً. وعلی ذلک قوله تعالی: يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] ، فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ- ( ن ک ر )- الانکار ضد عرفان اور انکرت کذا کے معنی کسی چیز کی عدم معرفت کے ہیں اس کے اصل معنی انسان کے دل پر کسی ایسی چیز کے وارد ہونے کے ہیں جسے وہ تصور میں نہ لاسکتا ہو لہذا یہ ایک درجہ جہالت ہی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَمَّا رَأى أَيْدِيَهُمْ لا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ [هود 70] جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے کی طرف نہین جاتے ( یعنی وہ کھانا نہین کھاتے ۔ تو ان کو اجنبی سمجھ کر دل میں خوف کیا ۔ فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف (علیہ السلام) کے پاس گئے تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ اس کو نہ پہچان سکے ۔ اور کبھی یہ دل سے انکار کرنے پر بولا جاتا ہے اور انکار لسانی کا اصل سبب گو انکار قلب ہی ہوتا ہے ۔ لیکن بعض اوقات انسان ایسی چیز کا بھی انکار کردیتا ہے جسے دل میں ٹھیک سمجھتا ہے ۔ ایسے انکار کو کذب کہتے ہیں ۔ جیسے فرمایا ۔ يَعْرِفُونَ نِعْمَتَ اللَّهِ ثُمَّ يُنْكِرُونَها[ النحل 83] یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر واقف ہوکر ان سے انکار کرتے ہیں ۔ فَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [ المؤمنون 69] اس وجہ سے ان کو نہیں مانتے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور آپ کی قوم سے پہلے کافروں نے انبیاء کرام کی تکذیب کی تھی تو یہ قریش اس سامان کے جو کہ ہم نے ان سے پہلے کافروں کو دے رکھا تھا دسویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے یا یہ کہ ان کے اموال و اولاد اور ان کی عمارتیں اور طاقتیں ان کافروں کے جو کہ ان سے پہلے گزرے ہیں دسویں حصہ کے برابر بھی نہیں۔- غرض کہ جب وہ ایمان نہیں لائے تو میں نے عذاب کے ذریعے کیسا ان کا خاتمہ کیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٥ وَکَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ” اور ان لوگوں نے بھی جھٹلایا تھا جو ان سے پہلے تھے “- وَمَا بَلَغُوْا مِعْشَارَ مَـآ اٰتَـیْنٰہُمْ ” اور یہ تو اس کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا تھا “- مثلاً قوم عاد کو جو شان و شوکت عطا ہوئی تھی اور اپنے علاقے میں جیسا ان کا رعب ودبدبہ تھا قریش مکہ کو تو اس کا ُ عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہے۔- فَکَذَّبُوْا رُسُلِیْقف فَکَیْفَ کَانَ نَـکِیْرِ ” تو انہوں نے میرے رسولوں (علیہ السلام) کو جھٹلایا ‘ پس کیسی رہی (ان کے لیے ) میری پکڑ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :65 یعنی مکے کے لوگ تو اس قوت و شوکت اور اس خوشحالی کے عشر عشیر کو بھی نہیں پہنچے ہیں جو ان قوموں کو حاصل تھی ۔ مگر دیکھ لو کہ جب انہوں نے ان حقائق کو ماننے سے انکار کیا جو انبیاء علیہم السلام نے ان کے سامنے پیش کیے تھے ، اور باطل پر اپنے نظام زندگی کی بنیاد رکھی تو آخر کار وہ کس طرح تباہ ہوئیں اور ان کی قوت و دولت ان کے کسی کام نہ آسکی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani