Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ضد اور ہٹ دھرمی کفار کا شیوہ ۔ حکم ہوتا ہے کہ یہ کافر جو تجھے مجنوں بتا رہے ہیں ، ان سے کہہ کہ ایک کام تو کرو خلوص کے ساتھ تعصب اور ضد کو چھوڑ کر ذرا سی دیر سوچو تو آپس میں ایک دوسرے سے دریافت کرو کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجنوں ہیں؟ اور ایمانداری سے ایک دوسرے کو جواب دو ۔ ہر شخص تنہا تنہا بھی غور کرے اور دوسروں سے بھی پوچھے لیکن یہ شرط ہے کہ ضد اور ہٹ کو دماغ سے نکال کر تعصب اور ہٹ دھرمی چھڑ کر غور کرے ۔ تمہیں خود معلوم ہو جائے گا ، تمہارے دل سے آواز اٹھے گی کہ حقیقت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جنون نہیں ۔ بلکہ وہ تم سب کے خیر خواہ ہیں درد مند ہیں ۔ ایک آنے والے خطرے سے جس سے تم بےخبر ہو وہ تمہیں آگاہ کر رہے ہیں ۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے تنہا اور جماعت سے نماز پڑھنے کا مطلب سمجھا ہے اور اس کے ثبوت میں ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں لکین وہ حدیث ضعیف ہے ۔ اس میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تین چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی یہ میں فخر کے طور پر نہیں کہ رہا ہوں ۔ میرے لئے مال غنیمت حلال کیا گیا مجھ سے پہلے کسی کے لئے وہ حلال نہیں ہوا وہ مال غنیمت کو جمع کر کے جلا دیتے تھے اور میں ہر سرخ و سیاہ کی طرف بھیجا گیا ہوں اور ہر نبی صرف اپنی ہی قوم کی طرف بھیجا جاتا رہا ۔ میرے لئے ساری زمین مسجد اور وضو کی چیز بنا دی گئی ہے ۔ تاکہ میں اس کی مٹی سے تیمم کرلوں اور جہاں بھی ہوں اور نماز کا وقت آ جائے نماز ادا کرلوں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کے سامنے با ادب کھڑے ہو جایا کرو دو دو اور ایک ایک اور ایک مہینہ کی راہ تک میری مدد صرف رعب سے کی گئی ہے ۔ یہ حدیث سندا ضعیف ہے اور بہت ممکن ہے کہ اس میں آیت کا ذکر اور اسے جماعت سے یا الگ نماز پڑھ لینے کے معنی میں لے لینا یہ راوی کا اپنا قول ہو اور اس طرح بیان کر دیا گیا ہو کہ بہ ظاہر وہ الفاظ حدیث کے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات کی حدیثیں بہ سند صحیح بہت سے مروی ہیں اور کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں ، واللہ اعلم ۔ آپ لوگوں کو اس عذاب سے ڈرانے والے ہیں جو ان کے آگے ہے اور جس سے یہ بالکل بےخبر بےفکری سے بیٹھے ہوئے ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ گئے اور عرب کے دستور کے مطابق یا صباحاہ کہہ کر بلند آواز کی جو علامت تھی کہ کوئی شخص کسی اہم بات کے لئے بلا رہا ہے ۔ عادت کے مطابق اسے سنتے ہی لوگ جمع ہوگئے ۔ آپ نے فرمایا اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن تمہاری طرف چڑھائی کر کے چلا آرہا ہے اور عجب نہیں کہ صبح شام ہی تم پر حملہ کر دے تو کیا تم مھے سچا سمجھو گے؟ سب نے بیک زبان جواب دیا کہ ہاں بیشک ہم آپ کو سچا جانیں گے ۔ آپ نے فرمایا سنو میں تمہیں اس عذاب سے ڈرا رہا ہوں جو تمہارے آگے ہے ۔ یہ سن کر ابو لہب ملعون نے کہا تیرے ہاتھ ٹوٹیں کیا اسی کے لئے تو نے ہم سب کو جمع کیا تھا ؟ اس پر سورہ تبت اتری ۔ یہ حدیثیں ( وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ٢١٤؀ۙ ) 26- الشعراء:214 ) کی تفسیر میں گذر چکی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلے اور ہمارے پاس آ کر تین مرتبہ آواز دی ۔ فرمایا لوگو میری اور اپنی مثال جانتے ہو؟ انہوں نے کہا اللہ کو اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا علم ہے ۔ آپ نے فرمایا میری اور تمہاری مثال اس قوم جیسی ہے جن پر دشمن حملہ کرنے والا تھا ۔ انہوں نے اپنا آدمی بھیجا کہ جا کر دیکھے اور دشمن کی نقل و حرکت سے انہیں مطلع کرے ۔ اس نے جب دیکھا کہ دشمن ان کی طرف چلا آ رہا ہے اور قریب پہنچ چکا ہے تو وہ لپکتا ہوا قوم کی طرف بڑھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے اطلاع پہنچانے سے پہلے ہی دشمن حملہ نہ کر دے ۔ اس لئے اس نے راستے میں سے ہی اپنا کپڑا ہلانا شروع کیا کہ ہوشیار ہو جاؤ دشمن آ پہنچا ، ہوشیار ہو جاؤ دشمن آ پہنچا ، تین مرتبہ یہی کہا ایک اور حدیث میں ہے میں اور قیامت ایک ساتھ ہی بھیجے گئے قریب تھا کہ قیامت مجھ سے پہلے ہی آ جاتی ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یعنی میں تمہیں تمہارے موجودہ طرز عمل سے ڈراتا اور ایک ہی بات کی نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تم ضد، اور انانیت چھوڑ کر صرف اللہ کے لئے ایک ایک دو دو ہو کر میری بابت سوچو کہ میری زندگی تمہارے اندر گزری ہے اور اب بھی جو دعوت میں تمہیں دے رہا ہوں کیا اس میں کوئی ایسی بات ہے کہ جس سے اس بات کی نشان دہی ہو کہ میرے اندر دیوانگی ہے ؟ تم اگر عصبیت اور خواہش نفس سے بالا ہو کر سوچو گے تو یقینا سمجھ جاؤ گے کہ تمہارے رفیق کے اندر کوئی دیوانگی نہیں ہے۔ 46۔ 2 یعنی وہ تو صرف تمہاری ہدایت کے لئے آیا ہے تاکہ تم اس عذاب شدید سے بچ جاؤ جو ہدایت کا راستہ نہ اپنانے کی وجہ سے تمہیں بھگتنا پڑے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھ کر فرمایا یا صباحاہ جسے سن کر قریش جمع ہوگئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بتاؤ، اگر میں تمہیں خبر دوں کہ دشمن صبح یا شام کو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے، تو کیا میری تصدیق کرو گے، انہوں نے کہا، کیوں نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو پھر سن لو کہ میں تمہیں سخت عذاب آنے سے پہلے ڈراتا ہوں۔ یہ سن کہ ابو لہب نے کہا تَبَّالکَ اَلِھٰذا جَمَعْتَنَا تیرے لئے ہلاکت ہو، کیا اس لئے تو نے ہمیں جمع کیا تھا ْ جس پر اللہ تعالیٰ نے سورة تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ نازل فرمائی (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٧٠] یعنی میری صرف ایک بات مان لو۔ ضد اور تعصب کو چھوڑ کر پوری نیک نیتی سے یہ بات سوچو، اکیلے اکیلے بھی سوچو، دو دو اور اس سے زیادہ بھی مل بیٹھ کر اور سر جوڑ کر اس بات پر غور کرو کہ جو جو الزام تم مجھ پر لگا رہے ہو کیا وہ درت ہیں ؟ اور تم جو کچھ کہہ رہے ہو نیک نیتی سے کہہ رہے ہو ؟ میری بچپن سے لے کر آج تک کی زندگی سے تم خوب واقف ہو۔ میری صداقت اور میری دیانت کے تم آج تک قائل رہے ہو۔ کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ آج سے چند ہی برس پیشتر تعمیر کعبہ کے دوران جب تم میں حجر اسود کو رکھنے کے مسئلہ پر تم میں تنازعہ پیدا ہوگیا تھا تو تم نے کہا تھا کہ صبح جو شخص سب سے پہلے کعبہ میں داخل ہوگا تم اسے حکم تسلیم کرلو گے۔ پھر جب میں صبح کعبہ میں آیا تو تم سب نے برضا ورغبت مجھے حکم تسلیم کرنے پر اتفاق کرلیا تھا۔ پھر جب میں نے ایک چادر بچھا کر اس پر حجر اسود رکھ دیا اور تم سب کو کونوں سے چادر اٹھانے کو کہا تھا پھر مطلوبہ بلند پر پہنچنے پر میں نے حجر اسود خود اٹھا کر اس مقام پر رکھ دیا تھا۔ تو تم سب نے نہ صرف یہ کہ میرے فیصلہ کو برضا ورغبت تسلیم کرلیا تھا بلکہ میری دانشمندی کی داد بھی دی تھی اور آج تم ہی لوگ ہو جو مجھے دیوانہ کہتے ہو، کبھی یہ کہتے ہو کہ میں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے اور کبھی یہ کہتے ہو کہ میں قرآن خود بنا کر تمہیں دھوکا دے رہا ہوں۔ خدارا کچھ تو انصاف کی بات کرو۔ - [ ٧١] کیا تمہارے خیال میں میں اس لئے دیوانہ ہوں کہ تمہیں یہ بتلا رہا ہوں جو طریق زندگی تم نے اپنا رکھا ہے وہ غلط ہے۔ اور اس کے برے انجام سے ڈرا رہا ہوں۔ اور اگر میں یہ کہہ دیتا کہ شاباش تم لوگ بہت ٹھیک جارہے ہو تب تو سب معاملہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ اور اگر میں تمہیں چند ٹھوس حقائق کی اطلاع دیتا ہوں تو تم مجھے دیوانہ کہنے لگے ہو۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ۔۔ : ” جِنَّةٍ “ کا معنی جنون، دیوانگی اور پاگل پن ہے۔ مشرکین کے باطل اقوال کے رد کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نہایت قوی دلائل، مؤثر اسالیب اور مختلف انداز سے حق بات سمجھانے کی تلقین فرمائی۔ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کذّاب اور ساحر کے علاوہ مجنون، یعنی دیوانہ بھی کہتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہو کہ میں تمہیں صرف ایک نصیحت کرتا ہوں کہ بڑی مجلسوں میں تو شوروغل، بھیڑ بھاڑ اور اجتماعی دباؤ کی وجہ سے آدمی صحیح طرح سوچ نہیں سکتا، تم ضد اور تعصّب کو نکال کر اکیلے اکیلے یا دو دو ہو کر سوچو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آخر تمہارا صاحب ہے، تمہارے ساتھ اس نے نبوت سے پہلے چالیس برس گزارے، جسے تم صادق اور امین کہتے تھے، جس کی معاملہ فہمی اور درست رائے کی شہادت تم بھی دیتے تھے، اب اس نے جب تمہیں اللہ کا پیغام پہنچایا تو تم نے اسے مجنون کہنا شروع کردیا، لہٰذا تم اس کی لائی ہوئی ہر بات پر پوری طرح غور کرو اور سوچ کر بتاؤ کہ آخر ان میں سے کون سی بات ہے جسے تم جنون کہہ سکو ؟ کیا اللہ کو ایک ماننا دیوانگی ہے ؟ کیا زنا، چوری، قتل نفس اور بہتان سے منع کرنا دیوانگی ہے ؟ کیا صدق، عفاف، امانت، مہمان نوازی اور ہمدردی کا حکم دینا دیوانگی ہے ؟ کسی ایک بات پر انگلی رکھ کر تو بتاؤ کہ یہ بات دیوانے کی بات ہے۔ یہ تفسیر ’ مَا “ کو استفہامیہ مان کر ہے، اگر ” مَا “ نافیہ ہو تو معنی ہوگا کہ تمہارے ساتھی میں کسی طرح کا جنون نہیں۔ یہ معنی بھی درست ہے۔- اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ ۔۔ : یعنی پیغمبر تو تمہیں ایک نہایت سخت عذاب آنے سے پہلے اس سے ڈرانے والا ہے، تو تم اچھی طرح سوچ کر فیصلہ کرو کہ اپنی قوم کو شدید عذاب آنے سے پہلے آگاہ کر کے اس سے بچانے کی کوشش کرنے والا دیوانہ ہوتا ہے یا اس کا ہمدرد اور خیر خواہ۔ بخاری نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے، ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھے اور فرمایا : ” یَا صَبَاحَاہُ “ (جو کسی اہم خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے کہا جاتا تھا) تو قریش آپ کے پاس جمع ہوگئے اور کہنے لگے : ” تمہیں کیا ہوا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَرَأَیْتُمْ لَوْ أَخْبَرْتُکُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ یُصَبِّحُکُمْ أَوْ یُمَسِّیْکُمْ أَمَا کُنْتُمْ تُصَدِّقُوْنِيْ ؟ ) ” یہ بتاؤ کہ اگر میں تمہیں اطلاع دوں کہ دشمن تم پر صبح حملہ کرے گا یا شام حملہ کرے گا تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے ؟ “ انھوں نے کہا : ( بَلٰی ) ” کیوں نہیں “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( فَإِنِّيْ نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَيْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ ) ” تو پھر میں تمہیں ایک نہایت سخت عذاب سے پہلے اس سے ڈرانے والا ہوں۔ “ تو ابو لہب نے کہا : ( تَبًّا لَکَ أَلِہٰذَا جَمَعْتَنَا ؟ ) ” تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا ہے ؟ “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ (سورت) اتاری : (تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَّ تَبَّ ) [ بخاري، التفسیر، باب : ( إن ھو إلا نذیر لکم۔۔ ) : ٤٨٠١ ]

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

کفار مکہ کو دعوت :- (آیت) انما اعظکم بواحدة، اس میں اہل مکہ پر حجت تمام کرنے کے لئے ان کو تحقیق حق کا ایک مختصر راستہ بتلایا گیا ہے کہ صرف ایک کام کرلو کہ اللہ کے لئے کھڑے ہوجاؤ، دو دو اور ایک ایک، اللہ کے لئے کھڑے ہونے سے مراد حسی کھڑا ہونا نہیں کہ بیٹھے یا لیٹے ہوئے اٹھ کر کھڑا ہوجائے، بلکہ اس سے مراد محاورہ کے مطابق کام کا پورا اہتمام کرنا ہے۔ اور یہاں قیام کے ساتھ لفظ للہ بڑھا کر یہ بتلانا منظور ہے کہ خالص اللہ کے راضی کرنے کے لئے پچھلے خیالات و عقائد سے خالی الذہن ہو کر حق کی تلاش میں لگو تاکہ پچھلے خیالات اور اعمال قبول حق کی راہ میں حائل نہ ہوں۔ اور دو دو یا ایک ایک میں کوئی عدد خاص مقصود نہیں، مطلب یہ ہے کہ غور کرنے کے دو طریقے ہوتے ہیں، ایک خلوت و تنہائی میں خود غور کرنا، دوسرا اپنے احباب و اکابر سے مشورہ اور باہم بحث و تمحیص کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچنا۔ ان دونوں طریقوں کو یا ان میں سے جو پسند ہو اس کو اختیار کرو۔ - (آیت) ثم تفکروا، اس جملہ کا عطف ان تقوموا پر ہے جس میں قیام کے مقصد کو واضح کیا گیا ہے کہ سب خیالات سے خالی الذہن ہو کر خالص اللہ کے لئے اس کام کے واسطے تیار ہوجاؤ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت میں غور و فکر سے کام لو کہ حق ہے یا نہیں خواہ یہ غور و فکر تنہا تنہا کرو یا دوسروں کے ساتھ مشورہ اور بحث وتمحیص کے ساتھ۔- آگے اس غور و فکر کی ایک واضح راہ بتلائی گئی۔ وہ یہ کہ ایک اکیلا آدمی جس کے ساتھ نہ کوئی طاقتور جتھا اور جماعت ہے نہ مال و دولت کی بہتات وہ اپنی پوری قوم بلکہ پوری دنیا کے خلاف کسی ایسے عقیدہ کا اعلان کرے جو صدیوں سے ان میں راسخ ہوچکا ہے اور وہ سب اس پر متفق ہیں، ایسا اعلان صرف دو صورتوں میں ہوسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ کہنے والا بالکل مجنوں و دیوانہ ہو جو اپنے نفع نقصان کو نہ سوچے اور پوری قوم کو اپنا دشمن بنا کر مصائب کو دعوت دے، دوسرے یہ کہ اس کی وہ بات سچی ہو کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا رسول ہے، اس کے حکم کی تعمیل میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔- اب تم خالی الذہن ہو کر اس میں غور کرو کہ ان دونوں باتوں میں کون سی بات واقع میں ہے۔ اس طریقے سے غور کرو گے تو تمہیں اس یقین کے سوا کوئی چارہ نہ رہے گا کہ یہ دیوانے اور مجنوں نہیں ہو سکتے، ان کی عقل و دانش اور کردار و عمل سے سارا مکہ اور سب قریش واقف ہیں۔ ان کی عمر کے چالیس سال اپنی قوم کے درمیان گزرے، بچپن سے جوانی تک کے سارے حالات ان کے سامنے ہیں، کبھی کسی نے ان کے کسی قول و فعل کو عقل و دانش اور سنجیدگی و شرافت کے خلاف نہیں پایا، اور صرف ایک کلمہ لا الہ الا اللہ جس کی یہ دعوت دیتے ہیں اس کے سوا آج بھی کسی کو ان کے کسی قول و فعل پر یہ گمان نہیں ہو سکتا، کہ یہ عقل و دانش کے خلاف ہے۔ ان حالات میں یہ تو ظاہر ہوگیا کہ یہ مجنوں نہیں ہو سکتے، اسی کا اظہار آیت کے اگلے جملے میں اس طرح فرمایا : (آیت) ما بصاحبکم من جنہ، اس میں لفظ صاحبکم سے اس طرف اشارہ ہے کہ کوئی اجنبی مسافر باہر سے آجائے جس کے حالات معلوم نہ ہوں، اس کی کوئی بات پوری قوم کے خلاف سنیں تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ دیوانہ ہے، جن کی کوئی حالت و کیفیت تم سے مخفی نہیں، اور تم نے بھی کبھی اس سے پہلے ان پر اس طرح کا کوئی شبہ نہیں کیا۔- اور جب پہلی صورت کا نہ ہونا واضح ہوگیا تو دوسری صورت متعین ہوگئی، جس کا ذکر آیت میں اس طرح بیان فرمایا ہے، ان ہوا الا نذیر لکم بین یدی عذاب شدید یعنی آپ کا حال اس کے سوا نہیں کہ وہ لوگوں کو قیامت کے آنے والے عذاب شدید سے بچانے کے لئے اس سے ڈرانے والے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَۃٍ۝ ٠ ۚ اَنْ تَقُوْمُوْا لِلہِ مَثْنٰى وَفُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا۝ ٠ ۣ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِّنْ جِنَّۃٍ۝ ٠ ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ۝ ٤٦- وعظ - الوَعْظُ : زجر مقترن بتخویف . قال الخلیل . هو التّذكير بالخیر فيما يرقّ له القلب، والعِظَةُ والمَوْعِظَةُ : الاسم . قال تعالی: يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] - ( و ع ظ ) الوعظ - کے معنی ایسی زجر تو بیخ کے ہیں جس میں خوف کی آمیزش ہو خلیل نے اس کے معنی کئے ہیں خیر کا اس طرح تذکرہ کرنا جس سے دل میں رقت پیدا ہوا عظۃ وموعضۃ دونوں اسم ہیں قرآن میں ہے : ۔ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [ النحل 90] نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو ۔- ثنی - الثَّنْي والاثنان أصل لمتصرفات هذه الکلمة، ويقال ذلک باعتبار العدد، أو باعتبار التکرير الموجود فيه أو باعتبارهما معا، قال اللہ تعالی: ثانِيَ اثْنَيْنِ [ التوبة 40] ، اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، وقال : مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ [ النساء 3] فيقال : ثَنَّيْتُهُ تَثْنِيَة : كنت له ثانیا، أو أخذت نصف ماله، أو ضممت إليه ما صار به اثنین . والثِّنَى: ما يعاد مرتین، قال عليه السلام :«لا ثِنى في الصّدقة» أي : لا تؤخذ في السنة مرتین . قال الشاعر :- لقد کانت ملامتها ثنی وامرأة ثِنْيٌ: ولدت اثنین، والولد يقال له :- ثِنْيٌ ، وحلف يمينا فيها ثُنْيَا وثَنْوَى وثَنِيَّة ومَثْنَوِيَّة ويقال للاوي الشیء : قد ثَناه، نحو قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود 5] ، وقراءة ابن عباس : (يَثْنَوْنَى صدورهم) من : اثْنَوْنَيْتُ ، وقوله عزّ وجلّ : ثانِيَ عِطْفِهِ [ الحج 9] ، وذلک عبارة عن التّنكّر والإعراض، نحو : لوی شدقه، وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] .- ( ث ن ی ) الثنی والاثنان ۔ یہ دونوں ان تمام کلمات کی اصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدد کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے اور کبھی ان میں عدد و تکرار دونوں ملحوظ ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ ثانِيَ اثْنَيْنِ [ التوبة 40] دو میں دوسرا ۔ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] بارہ چشمے ۔ مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ [ النساء 3] دو دو یا تین تین یا چار چار ۔ کہا جاتا ہے ثنیتہ تثنیۃ میں دوسرا تھا میں نے اسکا نصف مال لے گیا ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز کو ملا کر دو کردینا ۔ الثنی ۔ جس کا دو مرتبہ اعارہ ہو حدیث میں ہے ۔ (56) ۔ لاثنی فی الصدقہ ۔۔ یعنی صدقہ سال میں دو مرتبہ نہ لیا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (82) لقد کان ملا متھا ثنی ، ، بیشک اس نے بار بار ملامت کی ۔ امرٰۃ ثنی جس عورت نے دو بچے جنے ہوں اس دوسرے بچہ کو ثنی کہا جاتا ہے ۔ حلف یمینا فیھا ثنی و ثنویٰ وثنیۃ ومثنویۃ اس نے استثناء کے ساتھ قسم اٹھائی ۔ ثنا ( ض) ثنیا ۔ الشئی کسی چیز کو موڑنا دوسرا کرنا لپیٹنا قرآن میں ہے :۔ أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس کی قرآت یثنونیٰ صدورھم ہے ۔ جو اثنونیت کا مضارع ہے اور آیت کریمہ :۔ ثانی عطفہ ثانِيَ عِطْفِهِ [ الحج 9] اور تکبر سے ) گردن موڑ لیتا ہے ۔ میں گردن موڑنے سے مراد اعراض کرنا ہے جیسا کہ لوٰی شدقہ ونای بجانبہ کا محاورہ ہے ۔- فرد - الفَرْدُ : الذي لا يختلط به غيره، فهو أعمّ من الوتر وأخصّ من الواحد، وجمعه : فُرَادَى. قال تعالی: لا تَذَرْنِي فَرْداً [ الأنبیاء 89] ، أي : وحیدا، ويقال في اللہ : فرد، تنبيها أنه بخلاف الأشياء کلّها في الازدواج المنبّه عليه بقوله : وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، وقیل : معناه المستغني عمّا عداه، كما نبّه عليه بقوله : غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمِينَ [ آل عمران 97] ، وإذا قيل : هو مُنْفَرِدٌ بوحدانيّته، فمعناه : هو مستغن عن کلّ تركيب وازدواج تنبيها أنه مخالف للموجودات کلّها . وفَرِيدٌ: واحد، وجمعه فُرَادَى، نحو : أسير وأساری. قال :- وَلَقَدْ جِئْتُمُونا فُرادی [ الأنعام 94] .- ( ف ر د ) الفرد - ( اکیلا ) اس چیز کو کہتے ہیں جس کے ساتھ دوسری نہ ملائی گئی ہو یہ لفظ وتر ( طاق ) سے عام اور واحد سے خاص ہے اس کی جمع فراد ی ہے قرآن میں ہے : ۔ لا تَذَرْنِي فَرْداً [ الأنبیاء 89] پروردگار ( مجھے اکیلا نہ چھوڑ ۔ اور اللہ تعالیٰ کے متعلق فرد کا لفظ بولنے میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ وہ تنہا ہے اس کے بر عکس باقی اشیار جوڑا جوڑا پیدا کی گئی ہیں جس پر کہ آیت وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں ۔ میں تنبیہ پائی جاتی ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اللہ کے فرد ہونے کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں سے بےنیاز ہے جیسا کہ آیت : ۔ غَنِيٌّ عَنِ الْعالَمِينَ [ آل عمران 97] اہل عالم سے بےنیاز ہے ۔ میں اس پر تبنبیہ کی ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ ذات باری تعالیٰ اپنی واحدنیت میں منفرد ہے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ وہ ذات ہر قسم کی ترکیب اور مجانست سے مبرا ہے اور جملہ موجودات کے بر عکس ہے ۔ اور فرید کے معنی واحد یعنی اکیلا اور تنہا کے ہیں اس کی جمع فراد ی آتی ہے جیسے اسیر کی جمع اساریٰ ہے قرآن میں ہے : ۔ وَلَقَدْ جِئْتُمُونا فُرادی [ الأنعام 94] اور جیسا ہم نے تم کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا ایسا ہی آج اکیلے ہمارے پاس آئے ۔- فكر - الْفِكْرَةُ : قوّة مطرقة للعلم إلى المعلوم، والتَّفَكُّرُ : جولان تلک القوّة بحسب نظر العقل، وذلک للإنسان دون الحیوان، قال تعالی: أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] ، أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا ما بصاحبِهِمْ مِنْ جِنَّةٍ [ الأعراف 184] ، إِنَّ فِي ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ [ الرعد 3]- ( ف ک ر ) الفکرۃ - اس قوت کو کہتے ہیں جو علم کو معلوم کی طرف لے جاتی ہے اور تفکر کے معنی نظر عقل کے مطابق اس قوت کی جو لانی دینے کے ہیں ۔ اور غور فکر کی استعداد صرف انسان کو دی گئی ہے دوسرے حیوانات اس سے محروم ہیں اور تفکرفیہ کا لفظ صرف اسی چیز کے متعلق بولا جاتا ہے جس کا تصور دل ( ذہن میں حاصل ہوسکتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُوا فِي أَنْفُسِهِمْ ما خَلَقَ اللَّهُ السَّماواتِ [ الروم 8] کیا انہوں نے اپنے دل میں غو ر نہیں کیا کہ خدا نے آسمانوں کو پیدا کیا ہے ۔ - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - جِنَّة :- جماعة الجن . قال تعالی: مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] ، وقال تعالی:- وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] .- ۔ الجنتہ - جنوں کی جماعت ۔ قرآن میں ہے ۔ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ [ الناس 6] جنات سے ( ہو ) یا انسانوں میں سے وَجَعَلُوا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجِنَّةِ نَسَباً [ الصافات 158] اور انہوں نے خدا میں اور جنوں میں رشتہ مقرر کیا ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، وقال تعالی: عَلَيْها مَلائِكَةٌ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] ، وقال : بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ، فَأَلْقِياهُ فِي الْعَذابِ الشَّدِيدِ [ ق 26] . والشَّدِيدُ والْمُتَشَدِّدُ : البخیل . قال تعالی: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ [ العادیات 8] . - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں ۔ غِلاظٌ شِدادٌ [ التحریم 6] تندخواہ اور سخت مزاج ( فرشتے) بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ [ الحشر 14] ان کا آپس میں بڑا رعب ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ ان کفار مکہ سے فرما دیجیے کہ میں تمہیں صرف ایک بات یعنی کلمہ لا الہ الا اللہ سمجھاتا ہوں۔ یہ ایسا ہے جیسا کہ ایک شخص دوسرے سے کہے آؤ میں تم سے ایک بات کہتا ہوں پھر اس سے زیادہ بات نہ کرے۔- وہ یہ کہ تم لوگ اللہ کے واسطے دو دو اور ایک ایک ہو کر کھڑے ہوجاؤ پھر اچھی طرح غور کرو کہ محمد نعوذ باللہ ساحر یا کاہن یا کاذب یا مجنون تو نہیں ہیں تو اچھی طرح سن لو کہ تمہارے نبی میں کسی قسم کا جنون نہیں ہے۔- بلکہ اگر تم ایمان نہ لائے تو رسول اکرم تمہیں قیامت کے آنے سے پہلے اس کے عذاب سے ڈرانے والے پیغمبر ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ قُلْ اِنَّمَآ اَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) آپ کہیے کہ میں تمہیں بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں۔ “- اس آیت کا تعلق آیت ٨ سے ہے۔ مذکورہ آیت کے ضمن میں ذکر ہوچکا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعوائے نبوت کے بارے میں مختلف لوگ مختلف آراء رکھتے تھے۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ابھی شش و پنج میں تھے کہ یہ معاملہ آخر ہے کیا ؟ ان میں سے بعض کا خیال تھا کہ ان کا دماغی توازن بگڑ گیا ہے۔ کچھ سمجھتے تھے کہ انہیں جنون کا عارضہ لاحق ہوگیا ہے ‘ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ آپ کسی منصوبہ بندی کے تحت جان بوجھ کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ (العیاذ باللہ ) لیکن ایسے لوگوں کے ذہنوں میں ایک بہت بڑا سوال یہ بھی گردش کرتا رہتا تھا کہ ایک ایسا شخص آخر اتنا بڑا جھوٹ کیسے بول سکتا ہے جس نے کبھی چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی جھوٹ نہیں بولا اور جس کو ہم خود الصادق اور الامین کا خطاب دے چکے ہیں۔ چناچہ بہت سے لوگ اس بارے میں ابھی ذہنی خلجان کا شکار تھے اور کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہے تھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کی اصل حقیقت ہے کیا ایسے تمام لوگوں کو ان آیات میں سنجیدہ غور و فکر پر آمادہ کرنے کے لیے دعوت دی جا رہی ہے کہ اس طرح شاید انہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنے ‘ اپنے موروثی عقائد کی عصبیت سے بالاتر ہو کر سوچنے اور کسی مثبت نتیجے پر پہنچنے کا موقع مل جائے۔ اس لحاظ سے یہ آیات بہت اہم ہیں۔ - اَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنٰی وَفُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا ” یہ کہ تم کھڑے ہو جائو اللہ کے لیے دو دو ہو کر یا اکیلے اکیلے ‘ پھر غور کرو “- یعنی کسی وقت تم دو دو آدمی باہم گفتگو کر کے یا الگ الگ کچھ دیر کے لیے اپنی توجہ کو مرتکز کر کے اللہ کو اپنے سامنے تصور کرتے ہوئے کھڑے ہو جائو ‘ پھر غور وفکر کرو۔ اگر تم اس انداز میں سنجیدگی سے غور کرو گے تو حقیقت ضرور تم پر واضح ہوجائے گی۔- مَا بِصَاحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍ ” تمہارے ساتھی کو جنون کا کوئی عارضہ نہیں ہے “- اگر کسی شخص پر جنون یا آسیب کے اثرات ہوں تو اس کے کچھ شواہد بھی نظر آتے ہیں۔ تم لوگ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی گزشتہ زندگی کے شب و روز کے بارے میں سوچو ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات چیت پر غور کرو ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اخلاق و معاملات کا جائزہ لو ‘ کیا تمہیں کسی بھی پہلو سے ان میں جنون کے کچھ آثار نظر آتے ہیں ؟ کیا آسیب زدہ لوگوں کے اقوال و افعال اور معمولاتِ زندگی ایسے صاف ستھرے اور مثالی ہوتے ہیں ؟- اِنْ ہُوَ اِلَّا نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ ” وہ نہیں ہیں مگر تمہارے لیے ایک خبردار کرنے والے ‘ ایک سخت عذاب کے آنے سے پہلے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :66 یعنی اغراض اور خواہشات سے پاک ہو کر خالصتہ لِلہ غور کرو ۔ ہر شخص الگ الگ بھی نیک نیتی کے ساتھ سوچے اور دو دو چار چار آدمی سر جوڑ کر بھی بے لاگ طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ بحث کر کے تحقیق کریں کہ آخر وہ کیا بات ہے جس کی بنا پر آج تم اس شخص کو مجنون ٹھہرا رہے ہو جسے کل تک تم اپنے درمیان نہایت دانا آدمی سمجھتے تھے ۔ آخر نبوت سے تھوڑی ہی مدت پہلے کا تو واقعہ تھا کہ تعمیر کعبہ کے بعد حجر اسود نصب کرنے کے مسئلے پر جب قبائل قریش باہم لڑ پڑے تھے تو تم ہی لوگوں نے بالاتفاق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تسلیم کیا تھا اور انہوں نے ایسے طریقے سے اس جھگڑے کو چکایا تھا جس پر تم سب مطمئن ہو گئے تھے ۔ جس شخص کی عقل و دانش کا یہ تجربہ تمہاری ساری قوم کو ہو چکا ہے ، اب کیا بات ایسی ہو گئی کہ تم اسے مجنون کہنے لگے؟ ہٹ دھرمی کی تو بات ہی دوسری ہے ، مگر کیا واقعی تم اپنے دلوں میں بھی وہی کچھ سمجھتے ہو جو اپنی زبانوں سے کہتے ہو؟ سورة سَبـَا حاشیہ نمبر :67 یعنی کیا یہی وہ قصور ہے جس کی بنا پر تم اسے جنون کا مریض ٹھہراتے ہو؟ کیا تمہارے نزدیک عقلمند وہ ہے جو تمہیں تباہی کے راستے پر جاتے دیکھ کر کہے کہ شاباش ، بہت اچھے جا رہے ہو ، اور مجنون وہ ہے جو تمہیں برا وقت آنے سے پہلے خبردار کرے اور فساد کی جگہ صَلاح کی راہ بتائے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

21: ’’اٹھ کھڑا ہونا‘‘ اہتمام اور سنجیدگی سے کنایہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ابھی تک تم لوگوں نے سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا، اس لئے یہ بے بنیاد الزام لگا رہے ہو کہ (معاذ اللہ) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جنون میں مبتلا ہیں۔ سنجیدگی سے سوچنے کا تقاضا یہ ہے کہ اوّل تو اِس مسئلے کی اہمیت محسوس کرو، دُوسرے اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنے کی نیت سے سوچو، اور کبھی اکیلے سوچنے سے فائدہ ہوتا ہے، کبھی اجتماعی طور پر سوچنے سے، اس لئے دونوں صورتیں ذکر فرمائی گئی ہیں۔