حضرت ابن عباس فرماتے ہیں فاطر کی بالکل ٹھیک معنی میں نے سب سے پہلے ایک اعرابی کی زبان سے سن کر معلوم کئے ۔ وہ اپنے ایک ساتھی اعرابی سے جھگڑتا ہوا آیا ایک کنویں کے بارے میں ان کا اختلاف تھا تو اعرابی نے کہا انا فطرتھا یعنی پہلے پہل میں نے ہی اسے بنایا ہے پس معنی یہ ہوئے کہ ابتداء بےنمونہ صرف اپنی قدرت کاملہ سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ۔ ضحاک سے مروی ہے کہ فاطر کے معنی خالق کے ہیں ۔ اپنے اور اپنے نبیوں کے درمیان قاصد اس نے اپنے فرشتوں کو بنایا ہے ۔ جو پر والے ہیں اڑتے ہیں تاکہ جلدی سے اللہ کا پیغام اس کے رسولوں تک پہنچا دیں ۔ اس میں سے بعض دو پروں والے ہیں بعض کے تین تین ہیں بعض کے چار چار پر ہیں ۔ بعض ان سے بھی زیادہ ہیں ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کو دیکھا ان کے چھ سو پر تھے اور ہر دو پر کے درمیان مشرق و مغرب جتنا فاصلہ تھا ۔ یہاں بھی فرماتا ہے رب جو چاہے اپنی مخلوق میں زیادتی کرے ۔ جس سے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ پر کر دیتا ہے اور کائنات میں جو چاہے رچاتا ہے ۔ اس سے مراد اچھی آواز بھی لی گئی ۔ چنانچہ ایک شاذ قرأت فی الحلن ح کے ساتھ بھی ہے ۔ واللہ اعلم ۔
1۔ 1 فَاطِر، ُ کے معنی ہیں، پہلے پہل ایجاد کرنے والا، یہ اشارہ ہے اللہ کی قدرت کی طرف کہ اس نے آسمان و زمین پہلے پہل بغیر نمونے کے بنائے، تو اس کے لئے دوبارہ انسانوں کو پیدا کرنا کون سا مشکل ہے ؟۔ 1۔ 2 مراد جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل فرشتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ انبیاء کی طرف یا مختلف مہمات پر قاصد بنا کر بھیجتا ہے۔ ان میں کسی کے دو کسی کے تین کسی کے چار پر ہیں جن کے ذریعے سے وہ زمین پر آتے اور زمین سے آسمان پر جاتے ہیں۔ 1۔ 3 یعنی بعض فرشتوں کے اس سے بھی زیادہ پر ہیں، جیسے حدیث میں آتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، میں نے معراج کی رات جبرائیل (علیہ السلام) کو اصلی صورت میں دیکھا اس کے چھ سو پر تھے (صحیح بخاری
[ ١] فَطَرَ کا مفہوم :۔ پیدا کرنے کے معنوں میں قرآن کریم میں چھ مترادف الفاظ آئے ہیں۔ اور ہر لفظ کے مفہوم میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ فطر کا معنی کسی چیز کو پیدا کرنا، پھر اس کو تراش خراش کرکے اسے خوبصورت شکل دینا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے آسمانوں یا زمین یعنی کائنات کو صرف پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اسے تراش خراش کر بہترین شکل و صورت پر بنایا ہے۔- [ ٢] پیغام رساں فرشتے :۔ فرشتوں کے ذمہ کئی قسم کے کام ہیں۔ جن میں سے ایک کام پیغام رسانی بھی ہے۔ پیغام رسانی کی ایک قسم تو معروف ہے کہ جبرئیل فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر نبی کے دل پر نازل ہوتا ہے۔ باقی صورتیں یہ ہیں کہ جو فرشتے تدبیر امور کائنات پر مامور ہیں ان کے ہاں بھی بعض فرشتے اللہ کا حکم لے کر پہنچتے ہیں اور پیغام رسانی کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔- [ ٣] فرشتوں کے پر اور سرعت رفتار :۔ فرشتوں کے پر کیسے ہوتے ہیں ؟ یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارے ذہن میں تو پرندوں کے پر ہی آسکتے ہیں۔ جو فضا میں اڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو عطا کیے ہیں اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے۔ جس فرشتے کو جتنی زیادہ سرعت رفتار سے اپنی ڈیوٹی پر پہنچنا ہوتا ہے اسی قدر اسے زیادہ پر عطا کیے جاتے ہیں، کم سے کم دو پر ہوتے ہیں پھر کسی فرشتے کے تین پر بھی ہوتے ہیں اور کسی کے چار بھی۔ اس آیت سے اس حقیقت کا بھی پتا چلتا ہے کہ فرشتے دراصل اللہ تعالیٰ کے خادم اور فرمانبردار بندے ہیں۔ وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا اللہ انہیں حکم دیتا ہے اور اتنا ہی کرتے ہیں جتنا انہیں حکم ہوتا ہے۔ وہ اپنے ارادہ و اختیار سے نہ اللہ کے حکم میں سرمو کمی بیشی کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ گویا اس آیت سے تمام مشرکوں کے اس نظریہ کی تردید ہوگئی جو انہیں ایک بااختیار بلکہ اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک سمجھ کر ان کی پرستش کرتے ہیں۔- [ ٤] ربط مضمون کے لحاظ سے اس جملہ کا معنی یہ ہوگا کہ بعض فرشتوں کے پر چار سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ میں نے ایک دفعہ جبرئیل کو اس کی اصلی حالت میں دیکھا۔ اس کے چھ سو پر تھے۔ اور مشرق و مغرب کی پوری فضا اس سے بھری ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة نجم)- اگر اس جملہ کو عام سمجھا جائے تو یہ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوگا۔ مثلاً وہ انسان کی نسل جتنی چاہے بڑھاتا رہتا ہے۔ حیوانات اور نباتات کی نئی سے نئی انواع وجود میں لاتا رہتا ہے۔ نئے سے نئے سیارے کائنات میں پیدا کرتا رہتا ہے اور کائنات کو ہر آن وسیع کر رہا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ : ” فَطَرَ یَفْطِرُ فَطْرًا “ (ض، ن) نئے سرے سے پیدا کرنا، پھاڑنا۔ سورت کی ابتدا اس دعوے کے ساتھ ہوئی ہے کہ تمام خوبیوں اور سب تعریف کا حق دار اللہ وحدہ ہے۔ ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کی تفسیر سورة فاتحہ کی ابتدا میں ملاحظہ فرمائیں۔ اس کے بعد پوری سورت میں اس بات کے دلائل بیان ہوئے ہیں کہ وہ اکیلا تمام خوبیوں کا مالک اور معبود برحق ہے۔ درمیان میں توحید کے ساتھ ساتھ نبوت، قیامت اور ان سے متعلق بعض باتوں کا ذکر بھی ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے اکیلے معبود برحق ہونے کی پہلی دلیل یہ بیان فرمائی کہ وہ آسمان و زمین کو ابتداءً کسی نمونے کے بغیر عدم سے پھاڑ نکالنے والا ہے۔ آسمان و زمین سے مراد ساری کائنات ہے۔ جب پیدا کرنے والا وہ ہے تو عبادت کا حق دار کوئی دوسرا کیسے ہوسکتا ہے ؟ یہی بات آگے صراحت کے ساتھ آیت (٣) میں آرہی ہے۔ پھر اس نے اپنی مخلوق کو پیدا فرما کر ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ان کے لیے دنیا کی ہر ضرورت مہیا فرمائی اور اس کی طرف ان کی راہ نمائی فرمائی، فرمایا : ( رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى ) [ طٰہٰ : ٥٠ ] ” ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی، پھر راستہ دکھایا۔ “ فطری ہدایت کے علاوہ انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا، اس کا ذکر آیت (٤) میں ہے۔ پھر ظاہر ہے کہ جب اس نے پہلے پہل نمونے کے بغیر یہ سب کچھ پیدا فرما لیا تو دوبارہ بنانا اس کے لیے کیا مشکل ہے، اس کا صراحت کے ساتھ ذکر آیت (٥) میں آرہا ہے۔- جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَةِ رُسُلًا : ” رُسُلًا “ ” رَسُوْلٌ“ (بروزن فَعُوْلٌ“ بمعنی مَفْعُوْلٌ) کی جمع ہے، جسے کوئی پیغام دے کر بھیجا جائے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے جن انبیاء و رسل کا انتخاب فرمایا، ان کے پاس اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اس نے فرشتوں کو اپنا رسول بنایا۔ (دیکھیے سورة شوریٰ : ٥١) ان میں سب سے بڑی شان والے جبریل (علیہ السلام) ہیں۔ ان کا لقب ” اَلرُّوْحُ الْأَمِیْنُ “ ہے۔ بعض اوقات وہ دوسرے فرشتوں کو بھی پیغام پہنچانے کے لیے یا اپنے احکام کی تنفیذ کے لیے بھیجتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے طائف میں کفار کی بدسلوکی اور زیادتی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : ( فَانْطَلَقْتُ وَ أَنَا مَہْمُوْمٌ عَلٰی وَجْہِيْ فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِيْ فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَۃٍ قَدْ أَظَلَّتْنِيْ فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِیْہَا جِبْرِیْلُ فَنَادَانِيْ فَقَالَ إِنَّ اللّٰہَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِکَ لَکَ وَمَا رَدُّوْا عَلَیْکَ وَ قَدْ بَعَثَ اللّٰہُ إِلَیْکَ مَلَکَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَہُ بِمَا شِءْتَ فِیْہِمْ فَنَادَانِيْ مَلَکُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللّٰہَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِکَ لَکَ ، وَ أَنَا مَلَکُ الْجِبَالِ وَ قَدْ بَعَثَنِيْ رَبُّکَ إِلَیْکَ لِتَأْمُرَنِيْ بِأَمْرِکَ فَمَا شِءْتَ ؟ إِنْ شِءْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَیْہِمُ الْأَخْشَبَیْنِ فَقَال النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَلْ أَرْجُوْ أَنْ یُّخْرِجَ اللّٰہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ وَحْدَہُ لَا یُشْرِکُ بِہِ شَیْءًا ) [ بخاري، بدء الخلق، باب إذا قال أحدکم آمین و الملائکۃ ۔۔ : ٣٢٣١۔ مسلم : ١٧٩٥ ] ” تو میں غم کی حالت میں جدھر منہ تھا چل پڑا۔ مجھے افاقہ ہوا تو میں قرن الثعالب پر تھا، میں نے سر اٹھایا تو ایک بدلی نے مجھ پر سایہ کیا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا تو اس میں جبریل (علیہ السلام) تھے۔ انھوں نے مجھے آواز دی اور کہا : ” اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کی بات اور آپ کو ان کا جواب سن لیا اور اس نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا ہے، تاکہ آپ ان کے متعلق اسے جو چاہیں حکم دیں۔ “ پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور مجھے سلام کہا، پھر کہا : ” اے محمد اللہ عزوجل نے آپ کی قوم کی بات سن لی ہے، میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور آپ کے رب نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے، تاکہ آپ مجھے جو حکم چاہیں کریں ؟ اگر چاہیں کہ میں انھیں دو پہاڑوں کے درمیان پیس دوں تو میں ایسے کردیتا ہوں۔ “ تو میں نے کہا : ” بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی پشتوں سے وہ لوگ نکالے گا جو اللہ کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ “ - بعض اوقات فرشتوں کو انبیاء کے علاوہ بھی اپنے صالح بندوں کو بشارت دینے کے لیے یا ان کی راہ نمائی کے لیے خواب میں یا بیداری میں بھیج دیتا ہے، جیسا کہ اسماعیل (علیہ السلام) کی والدہ، موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ اور مریم (علیہ السلام) کا معاملہ ہوا اور جیسا کہ وہ میدان قتال میں مجاہدین کے دل مضبوط رکھنے کے لیے فرشتوں کو بھیجتا ہے۔ بعض اوقات وہ انھیں آزمائش کے لیے بھی بھیج دیتا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری (٣٤٦٤) میں گنجے، برص والے اور اندھے کا قصہ مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ” اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ “ کی دلیل کے طور پر یہاں آسمان و زمین کی پیدائش کے بعد فرشتوں کا ذکر اس لیے فرمایا کہ وہ اس کے ہاں بہت معزز مقام رکھتے ہیں، اس کے باوجود اس کے بندے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ ) [ الأنبیاء : ٢٦ ] ” بلکہ وہ بندے ہیں جنھیں عزت دی گئی ہے۔ “ ان کے ذمے اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانا ہے اور انھیں نافذ کرنا بھی، جیسا کہ فرمایا : (فَالْمُدَبِّرٰتِ اَمْرًا) [ النازعات : ٥ ] ” پھر جو کسی کام کی تدبیر کرنے والے ہیں “ اس میں مشرکین کو اس بات کی طرف توجہ دلانا بھی مقصود ہے کہ جن فرشتوں کو تم نے معبود بنا رکھا ہے وہ اپنا اختیار کچھ نہیں رکھتے، ان کی حیثیت محض رسول (قاصد) کی ہے جس کی اپنی بات کچھ نہیں ہوتی، بلکہ وہ بھیجنے والے کا پیغام پہنچاتا ہے، یا اس پر عمل کرتا ہے۔- اُولِيْٓ اَجْنِحَةٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ۭ : فرشتوں کی پیدائش میں اپنے کمال قدرت کے بیان کے لیے ان کے ” اجنحۃ “ کا ذکر فرمایا، جو ” جَنَاحٌ“ (بفتح جیم) کی جمع ہے۔ یہ لفظ ہاتھ، بازو اور پہلو کے معنی میں بھی آتا ہے، مگر پرندوں کے ذکر کے ساتھ اس کا معنی ” پَر “ ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَا طٰۗىِٕرٍ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ ) [ الأنعام : ٣٨ ] ” اور نہ کوئی اڑنے والا، جو اپنے دو پروں سے اڑتا ہے۔ “ فرشتوں کی آسمانوں اور زمین میں آمد و رفت کے لیے پَر ہی موزوں ہوسکتے ہیں، اب اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، یا جس نے انھیں اصل صورت میں دیکھا ہے کہ ان ” اجنحۃ “ کی کیا کیفیت ہے ؟ آیا وہ صرف پرواز کے لیے ہیں، یا وہی بازوؤں کا کام بھی دیتے ہیں۔ آیت سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے پَر کم از کم دو ضرور ہیں، زیادہ کی حد اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ تین تین، چار چار سے معلوم ہوا کہ وہ دو سے زیادہ پروں والے بھی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ضروری نہیں فرشتوں کے پر جفت عدد میں ہوں بلکہ طاق بھی ہیں۔- يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاۗءُ : اس جملے کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں اور سبھی بیک وقت مراد لیے جاسکتے ہیں اور جامع کلمات ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کو پیدا کرتے ہوئے جس کے پَر جتنے چاہتا ہے زیادہ بنا دیتا ہے، جس سے ان کی قوت پرواز میں بےحساب اضافہ ہوجاتا ہے۔ عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں : ( أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ رَأَی جِبْرِیْلَ ، لَہُ سِتُّمِاءَۃِ جَنَاحٍ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ تعالیٰ : ( فأوحی إلی عبدہ ما أوحی ) : ٤٨٥٧ ] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل (علیہ السلام) کو (اصل صورت میں) دیکھا، ان کے چھ سو پَر تھے۔ “ - دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ساری مخلوق میں سے جس میں چاہتا ہے اور جتنی چاہتا ہے زیادتی کردیتا ہے، مثلاً طویل القامت یا قصیر القامت ہونے میں، حسن و جمال میں، عقل و دانش میں، جرأت و بہادری میں، سخاوت و بخل میں، بلندی و پستی میں، قوت و ضعف میں، غرض کمیت و کیفیت کی بیشمار صورتوں میں جتنی چاہتا ہے زیادتی کردیتا ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اس نے جتنی مخلوق بنائی ہے اس میں جتنا چاہتا ہے اضافہ کرتا رہتا ہے، نئی سے نئی مخلوق، نئے سے نئے سیارے، نئی کہکشائیں، نئے حیوانات و جمادات و نباتات پیدا فرماتا رہتا ہے۔ سورة رحمٰن میں ہے : ( كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ ) [ الرحمٰن : ٢٩ ] ” ہر دن وہ ایک (نئی) شان میں ہے۔ “ اس میں یہود کا رد ہے، جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آدم (علیہ السلام) کی پیدائش کے بعد ساتویں دن فارغ ہوگیا، اب وہ مزید کوئی چیز پیدا نہیں کرتا۔- اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ : ” اِنَّ “ عموماً پہلی بات کی علت بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ خلق میں اپنی مرضی کے مطابق اضافہ کرتا ہے اور زمین و آسمان کی اور پروں والے پیغام رساں فرشتوں کی پیدائش فرماتا ہے، کیونکہ وہ ہر چیز پر پوری طرح قارد ہے۔ وہاں کسی بھی ارادے کے پورا کرنے میں کسی عجز کا تصور نہیں ہے۔
خلاصہ تفسیر - تمام تر حمدو ثناء اسی) اللہ کو لائق ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، جو فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ہے، جن کے دو دو اور تین تین اور چار چار پر دار بازو ہیں (پیغام سے مراد انبیاء (علیہم السلام) کی طرف وحی لانا ہے خواہ وہ شرائع احکام سے متعلق ہو یا محض بشارت وغیرہ سے، اور بازوؤں کی تعداد کچھ چار چار ہی میں منحصر نہیں بلکہ) وہ پیدائش میں جو چاہتا ہے زیادہ کردیتا ہے (یہاں تک کہ بعض فرشتوں کے چھ سو بازو (پیدا کیے ہیں جیسا کہ حدیث میں حضرت جبرئیل کے متعلق آیا ہے) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے (اور قادر بھی ایسا جس کا کوئی مزاحم نہیں کہ وہ) اللہ جو رحمت لوگوں کے لئے کھول دے (مثلاً بارش، نباتات اور عام رزق) تو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے تو اس کے (بند کرنے کے) بعد اس کا کوئی جاری کرنے والا نہیں (البتہ وہ خود ہی بند و کشاد کرسکتا ہے) اور وہی غالب (یعنی قادر اور) حکمت والا ہے (یعنی کھولنے اور بند کرنے پر قادر بھی ہے اور بند و کشاد ہمیشہ حکمت کے ساتھ ہوتی ہے) اے لوگو جیسے اس کی قدرت کامل ہے اسی طرح اس کی نعمت بھی کامل ہے، اس کی نعمتوں کی کوئی شمار نہیں، اس لئے) تم پر جو اللہ کے احسانات ہیں ان کو یاد کرو (اور ان کا شکریہ ادا کرو اور وہ شکر یہ ہے کہ توحید اختیار کرو شرک چھوڑو کم از کم اس کی دو بڑی نعمتوں میں غور کرو جو مخلوقات کی ایجاد پھر ان کو باقی اور قائم رکھنا ہے) کیا اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی خالق ہے جو تم کو آسمان و زمین سے رزق پہنچاتا ہو (یعنی اس کے سوا نہ کوئی تخلیق و ایجاد کرسکتا ہے اور نہ کوئی ایجاد کردہ کو باقی اور قائم رکھنے کے لئے رزق پہنچانے کا کام کرسکتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ وہ ہر طرح کامل ہے تو یقیناً اس کے سوا کوئی لائحق عبادت (بھی) نہیں تو (جب معبود ہونا اسی کا حق ہے تو) تم (شرک کر کے) کہاں الٹے جا رہے ہو۔ - معارف ومسائل - جاعل الملئکة رسلا، فرشتوں کو رسول یعنی اللہ تعالیٰ کا پیغام اور احکام پہنچانے والا بنانے کا مطلب ظاہر یہ ہے کہ ان کو انبیاء (علیہم السلام) کی طرف اللہ کا قاصد و رسول بنا کر بھیجا جاتا ہے وہ اللہ کی وحی اور احکام ان کو پہنچاتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ رسول سے مراد اس جگہ واسطہ ہو اللہ تعالیٰ اور اس کی عام مخلوقات کے درمیان جن میں انبیاء (علیہم السلام) سب سے افضل و اعلیٰ ہیں ان کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان بھی وحی کا واسطہ بنتے ہیں اور عام مخلوقات تک اللہ تعالیٰ کی رحمت یا عذاب پہنچانے کا بھی واسطہ فرشتے ہی ہوتے ہیں۔- اولی اجنحة مثنی و ثلاث ورباع یعنی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پر والے بازو عطا فرمائے ہیں جن سے وہ اڑ سکتے ہیں حکمت اس کی ظاہر ہے کہ وہ آسمان سے زمین تک کی مسافت بار بار طے کرتے ہیں، یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ ان کو سرعت سیر کی قوت عطا کی جائے اور وہ اڑنے ہی کی صورت میں ہوتی ہے۔- اور لفظ مثنی و ثلاث ورباع ظاہر یہ ہے کہ اجنحۃ کی صفت ہے کہ فرشتوں کے پر مختلف تعداد پر مشتمل ہیں۔ بعض کے صرف دو دو پر ہیں بعض کے تین تین بعض کے چار چار اور اس میں کوئی حصر نہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث سے جبریل (علیہ السلام) کے چھ سو پر ہونا ثابت ہوتا ہے، بطور تمثیل کے چار تک ذکر کردیا گیا ہے۔ (قرطبی، ابن کثیر)- اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لفظ مثنی و ثلث رسلاً کی صفت ہو یعنی یہ فرشتے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسالات دنیا میں پہنچاتے ہیں، کبھی دو دو آتے ہیں کبھی تین تین یا چار چار اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں بھی چار کا عدد حصر کے لئے نہیں، محض تمثیل کے طور پر ہے، کیونکہ اس سے بہت زیادہ مقدار میں فرشتوں کا نزول خود قرآن کریم سے ثابت ہے (ابوحیان فی البحر المحیط)- یزید فی الخلق ما یشاء یعنی اللہ تعالیٰ کو سب اختیار ہے کہ اپنی مخلوقات کی تخلیق میں جتنی چاہے اور جس قسم کی چاہے زیادتی کرے۔ اس کا تعلق بظاہر تو اجنحہ ہی کے ساتھ ہے کہ فرشتوں کے پر وبازو کچھ دو چار میں منحصر نہیں، اللہ تعالیٰ چاہے تو اس سے بہت زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اکثر مفسرین کا قول یہی ہے اور زہری، قتادہ وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ اس زیادت خلق سے عام معنی مراد ہیں، جس میں فرشتوں کے پر وبازو کی زیادتی بھی شامل ہے اور مختلف انسانوں کی تخلیق میں خاص خاص صفات کی زیادتی بھی۔ جس میں حسن صورت، حسن سیرت، حسن صوت وغیرہ سب داخل ہیں۔ ابوحیان نے بحر محیط میں اسی کو اختیار کر کے فرمایا ہے کہ اس زیادت خلق میں حسن خلق، حسن صوت اور حسن خط اور حسن صورت کمال عقل و علم، شیریں کلامی وغیرہ سب داخل ہیں۔ اس دوسری تفسیر سے ثابت ہوا کہ کسی چیز کا بھی حسن و کمال جو انسان کو حاصل ہو وہ اللہ تعالیٰ کی عطاء اور نعمت ہے، اس کا شکر گذار ہونا چاہئے۔
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ اَلْحَمْدُ لِلہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ رُسُلًا اُولِيْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ٠ ۭ يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاۗءُ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن «4» ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - جنح - الجَنَاح : جناح الطائر، يقال : جُنِحَ «4» الطائر، أي : کسر جناحه، قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] ، وسمّي جانبا الشیء جَناحيه، فقیل : جناحا السفینة، وجناحا العسکر، وجناحا الوادي، وجناحا الإنسان لجانبيه، قال عزّ وجل : وَاضْمُمْ يَدَكَ إِلى جَناحِكَ- [ طه 22] ، أي : جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] ، عبارة عن الید، لکون الجناح کالید، ولذلک قيل لجناحي الطائر يداه، وقوله عزّ وجل : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء 24] ، فاستعارة، وذلک أنه لما کان الذلّ ضربین :- ضرب يضع الإنسان، وضرب يرفعه۔ وقصد في هذا المکان إلى ما يرفعه لا إلى ما يضعه۔ فاستعار لفظ الجناح له، فكأنه قيل : استعمل الذل الذي يرفعک عند اللہ من أجل اکتسابک الرحمة، أو من أجل رحمتک لهما، وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] ،- ( ج ن ح )- الجناح پر ندکا بازو ۔ اسی سے جنح الطائر کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی اس کا باز و تو (علیہ السلام) ڑ دینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛َ ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام 38] یا دوپروں سے اڑنے والا جانور ہے ۔ پھر کسی چیز کے دونوں جانب کو بھی جناحین کہدیتے ہیں ۔ مثلا جناحا السفینۃ ( سفینہ کے دونوں جانب ) جناحا العسکر ( لشکر کے دونوں جانب اسی طرح جناحا الوادی وادی کے دونوں جانب اور انسان کے دونوں پہلوؤں کو جناحا الانسان کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے جانبک وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ [ القصص 32] اور اپنا ہاتھ اپنے پہلو سے لگا لو ۔ اور آیت :۔ :۔ وَاضْمُمْ إِلَيْكَ جَناحَكَ مِنَ الرَّهْبِ [ القصص 32] اور خوف دور ہونے ( کی وجہ ) سے اپنے بازو کو اپنی طرف سکیڑلو ۔ میں جناح بمعنی ید کے ہے ۔ کیونکہ پرند کا بازو اس کے لئے بمنزلہ ہاتھ کے ہوتا ہے اسی لئے جناحا الطیر کو یدا لطیر بھی کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمۃ :۔ وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ [ الإسراء 24] اور عجز دنیا سے انگے آگے جھکے رہو ۔ میں ذل کے لئے جناح بطور استعارہ ذکر کیا گیا ہے کیونکہ ذل یعنی ذلت و انکساری دو قسم پر ہے ایک ذلت وہ ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا دیتی ہے اور دوسری وہ ہے جو انسان کے مرتبہ کو بلند کردیتی ہے اور یہاں چونکہ ذلت کی دوسری قسم مراد ہے ۔ جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرانے کی بجائے بلند کردیتی ہے اس لئے جناح کا لفظ بطور استعارہ ( یعنی معنی رفعت کی طرف اشارہ کے لئے ) استعمال کیا گیا ہے گویا اسے حکم دیا گیا ہے کہ رحمت الہی حاصل کرنے کے لئے ان کے سامنے ذلت کا اظہار کرتے رہو اور یا یہ معنی ہیں کہ ان پر رحمت کرنے کے لئے ذلت کا اظہار کرو ۔ قافلہ تیزی سے چلا گویا وہ اپنے دونوں بازوں سے اڑ رہا ہے ۔ رات کی تاریکی چھاگئی ۔- ثنی( مثني)- الثَّنْي والاثنان أصل لمتصرفات هذه الکلمة، ويقال ذلک باعتبار العدد، أو باعتبار التکرير الموجود فيه أو باعتبارهما معا، قال اللہ تعالی: ثانِيَ اثْنَيْنِ [ التوبة 40] ، اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] ، وقال : مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ [ النساء 3] فيقال : ثَنَّيْتُهُ تَثْنِيَة : كنت له ثانیا، أو أخذت نصف ماله، أو ضممت إليه ما صار به اثنین . والثِّنَى: ما يعاد مرتین، قال عليه السلام :«لا ثِنى في الصّدقة» أي : لا تؤخذ في السنة مرتین . قال الشاعر :- لقد کانت ملامتها ثنی وامرأة ثِنْيٌ: ولدت اثنین، والولد يقال له :- ثِنْيٌ ، وحلف يمينا فيها ثُنْيَا وثَنْوَى وثَنِيَّة ومَثْنَوِيَّة ويقال للاوي الشیء : قد ثَناه، نحو قوله تعالی: أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود 5] ، وقراءة ابن عباس : (يَثْنَوْنَى صدورهم) من : اثْنَوْنَيْتُ ، وقوله عزّ وجلّ : ثانِيَ عِطْفِهِ [ الحج 9] ، وذلک عبارة عن التّنكّر والإعراض، نحو : لوی شدقه، وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] .- ( ث ن ی ) الثنی والاثنان ۔ یہ دونوں ان تمام کلمات کی اصل ہیں جو اس مادہ سے بنتے ہیں یہ کبھی معنی عدد کے اعتبار سے استعمال ہوتے ہیں اور کبھی تکرار معنی کے لحاظ سے جو ان کے اصل مادہ میں پایا جاتا ہے اور کبھی ان میں عدد و تکرار دونوں ملحوظ ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ ثانِيَ اثْنَيْنِ [ التوبة 40] دو میں دوسرا ۔ اثْنَتا عَشْرَةَ عَيْناً [ البقرة 60] بارہ چشمے ۔ مَثْنى وَثُلاثَ وَرُباعَ [ النساء 3] دو دو یا تین تین یا چار چار ۔ کہا جاتا ہے ثنیتہ تثنیۃ میں دوسرا تھا میں نے اسکا نصف مال لے گیا ایک چیز کے ساتھ دوسری چیز کو ملا کر دو کردینا ۔ الثنی ۔ جس کا دو مرتبہ اعارہ ہو حدیث میں ہے ۔ (56) ۔ لاثنی فی الصدقہ ۔۔ یعنی صدقہ سال میں دو مرتبہ نہ لیا جائے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) (82) لقد کان ملا متھا ثنی ، ، بیشک اس نے بار بار ملامت کی ۔ امرٰۃ ثنی جس عورت نے دو بچے جنے ہوں اس دوسرے بچہ کو ثنی کہا جاتا ہے ۔ حلف یمینا فیھا ثنی و ثنویٰ وثنیۃ ومثنویۃ اس نے استثناء کے ساتھ قسم اٹھائی ۔ ثنا ( ض) ثنیا ۔ الشئی کسی چیز کو موڑنا دوسرا کرنا لپیٹنا قرآن میں ہے :۔ أَلا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ [هود 5] دیکھو یہ اپنے سینوں کو دوہرا کرتے ہیں ۔ حضرت ابن عباس کی قرآت یثنونیٰ صدورھم ہے ۔ جو اثنونیت کا مضارع ہے اور آیت کریمہ :۔ ثانی عطفہ ثانِيَ عِطْفِهِ [ الحج 9] اور تکبر سے ) گردن موڑ لیتا ہے ۔ میں گردن موڑنے سے مراد اعراض کرنا ہے جیسا کہ لوٰی شدقہ ونای بجانبہ کا محاورہ ہے ۔- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - شاء - والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادةالإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] .- ( ش ی ء ) الشیئ - المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
تمام تر حمد وثناء اسی اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق اور فرشتوں کو پیدا کرنے والا اور ان کو یعنی جبریل، میکائیل، اسرافیل، ملک الموت اور رعد و حفظہ کو پیغام رساں بنا کر سرفراز فرمانے والا ہے۔ ان فرشتوں میں سے بعض کے دو پر اور بازو ہیں کہ جن سے وہ اڑتے ہیں اور بعض کے تین ہیں اور بعضوں کے چار۔- بلکہ وہ فرشتوں کی پیدائش میں جو چاہے زیادہ کردیتا ہے یا یہ کہ ان پروں میں یا چھی اچھی نعمتوں میں یا عمدہ آواز میں جو چاہے اضافہ کردیتا ہے۔- وہ نقصان اور زیادتی ہر چیز پر قادر ہے۔
آیت ١ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ” کل حمد اور کل شکر اللہ کے لیے ہے جو پید ا کرنے والا ہے آسمانوں اور زمین کا “- فَاطِرکے لغوی معنی ہیں : عدم کے پردے کو چاک کر کے کسی چیز کو وجود بخشنے والا۔ یہاں پر ایک اہم لغوی نکتہ ضمنی طور پر نوٹ کرلیں کہ ” ف “ سے شروع ہونے والے عربی کے اکثر الفاظ میں توڑنے ‘ چاک کرنے ‘ پھاڑنے وغیرہ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ مثلاً فَطَرَکے علاوہ فَلَقَ ‘ فَرَطَ ‘ فَلَحَ ‘ فَتَحَ ‘ فَصَلَ ‘ فَتَرَوغیرہ الفاظ میں یہی مفہوم پایا جاتا ہے۔ ( فَترۃ الوحی سے وہ عرصہ مراد ہے جس میں وحی رکی رہی ‘ یعنی وحی کا تسلسل ٹوٹ گیا اور فترۃ من الرسل سے مراد چھ سو برس کا وہ زمانہ ہے جس کے دوران پیغمبروں کا سلسلہ رکا رہا۔ )- جَاعِلِ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا اُولِیْٓ اَجْنِحَۃٍ مَّثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ” فرشتوں کو پیغام رساں بنانے والا ‘ جو دو دو ‘ تین تین اور چار چار َپروں والے ہیں۔ “- فرشتوں کے پروں کی ہیئت اور کیفیت کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن تمثیل کے انداز میں سمجھنے کے لیے مختلف اقسام کے طیاروں کا تصور ذہن میں رکھا جاسکتا ہے ‘ جیسے کسی طیارے میں دو انجن ہوتے ہیں اور کسی میں چار۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مختلف فرشتوں کو اپنی مشیت اور حکمت کے مطابق مختلف نوعیت کی صلاحیتوں سے نواز رکھا ہے۔- یَزِیْدُ فِی الْخَلْقِ مَا یَشَآئُط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ ” اللہ اضافہ کرتا رہتا ہے تخلیق میں جو چاہتا ہے۔ یقینا اللہ ہرچیز پر قادر ہے۔ “- آج سائنس بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ تخلیق کا سلسلہ جاری وساری ہے ‘ مسلسل نئے نئے ستارے وجود میں آرہے ہیں اور نئی نئی کہکشائیں بن رہی ہیں۔ اقبالؔ نے اس نکتے کو یوں بیان کیا ہے :- یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید کہ آرہی ہے دمادم صدائے کُن فیکُون
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :1 اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتے اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء علیہم السلام کے درمیان پیغام رسانی کی خدمت انجام دیتے ہیں ، اور یہ بھی کہ تمام کائنات میں اللہ جل شانہ کے احکام لے جانا اور ان کو نافذ کرنا انہی فرشتوں کا کام ہے ۔ ذکر کا مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ فرشتے جن کو مشرکین دیوی اور دیوتا بنائے بیٹھے ہیں ، ان کی حیثیت اللہ وحدہ لا شریک کے فرماں بردار خادموں سے زائد کچھ نہیں ہے ۔ جس طرح کسی بادشاہ کے خدام اس کے احکام کی تعمیل کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اسی طرح یہ فرشتے کائنات کے فرمانروائے حقیقی کی خدمت بجا لانے کے لیے اڑے پھرتے ہیں ۔ ان خادموں کے اختیار میں کچھ نہیں ہے ۔ سارے اختیارات اصل فرمانروا کے ہاتھ میں ہیں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :2 ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ان فرشتوں کے بازوؤں اور پروں کی کیفیت کیا ہے ۔ مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے دوسرے الفاظ کے بجائے وہ لفظ استعمال فرمایا ہے جو انسانی زبان میں پرندوں کے بازوؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو یہ تصور ضرور کیا جا سکتا ہے کہ ہماری زبان کا یہی لفظ اصل کیفیت سے قریب تر ہے ۔ دو دو اور تین تین اور چار چار بازوؤں کے ذکر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مختلف فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف درجہ کی طاقتیں عطا فرمائی ہیں اور جس سے جیسی خدمت یعنی مطلوب ہے اس کو ویسی ہی زبردست سرعت رفتار اور قوت کار سے آراستہ فرمایا گیا ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :3 ان الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ فرشتوں کی بازوؤں کی انتہائی تعداد چار ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے بعض فرشتوں کو اس سے بھی زیادہ بازو عطا فرمائے ہیں ۔ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کو ایک مرتبہ اس شکل میں دیکھا کہ ان کے چھ سو بازو تھے ( بخاری ۔ مسلم ۔ ترمذی ) ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور نے جبریل کو دو مرتبہ ان کی اصلی شکل میں دیکھا ہے ، ان کے چھ سو بازو تھے افق پر چھائے ہوئے تھے ، ( ترمذی ) ۔
1: پچھلے جملے کی مناسبت سے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن فرشتوں کی پروں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتا ہے، اضافہ کردیتا ہے، چنانچہ حضرت جبرئیل (علیہ السلام) کے چھ سو پروں کی تعداد حدیث میں آئی ہے، لیکن الفاظ عام ہیں، اور ہر تخلیق کو شامل ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ جس کی تخلیق میں چاہتا ہے، کسی خاص وصف کا اضافہ فرما دیتا ہے۔