اللہ تعالیٰ کا چاہا ہوا سب کچھ ہو کر رہتا ہے بغیر اس کی چاہت کے کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ جو وہ دے اسے کوئی روکنے والا نہیں ۔ اور جسے وہ روک لے اسے کوئی دینے والا نہیں ۔ نماز فرض کے سلام کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ یہ کلمات پڑھتے ۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فضول گوئی اور کثرت سوال اور مال کی بربادی سے منع فرماتے تھے اور آپ لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے اور ماؤں کی نافرنیاں کرنے اور خود لینے اور دوسروں کو نہ دینے سے بھی روکتے تھے ( بخاری ۔ مسلم وغیرہ ) صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اسی آیت جیسی آیت ( وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا هُوَ ۭ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ 17 ) 6- الانعام:17 ) ہے ۔ اور بھی اس کی نظیر کی آیتیں بہت سی ہیں ۔ حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بارش برستی تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہم پر فتح کے تارے سے بارش برسائی گئی ۔ پھر اسی آیت کی تلاوت کرتے ( ابن ابی حاتم )
2۔ 1 ان ہی نعمتوں میں سے ارسال رسل اور انزال کتب بھی ہے۔ یعنی ہر چیز کا دینے والا بھی ہے، اور واپس لینے والا یا روک لینے والا بھی وہی ہے۔ اس کے علاوہ نہ کوئی معطی ہے اور نہ مانع و قابض۔
[ ٥] رحمت کی مادی شکل بارش اور روحانی شکل وحی الٰہی ہے۔ باقی ہر طرح کی رحمتیں ان کے بعد ہیں۔ اور یہ دونوں باتیں خالصتاً اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں۔ جن میں مشرکوں کے معبودوں کا ذرہ بھر بھی دخل نہیں۔ وہ چاہیں بھی کہ وحی الٰہی کو روک دیں تو کبھی نہیں کرسکتے۔ اور نہ ہی وہ یہ کرسکتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ قریش پر قحط مسلط کر دے تو وہ بارش برسا کر اپنے عبادت گزاروں کی تکلیف کو رفع کردیں اور جو کچھ خود چاہتا ہے اپنی حکمت بالغہ کے مطابق کرتا ہے اور جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ کیونکہ وہ سب پر غالب ہے۔
مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ للنَّاسِ مِنْ رَّحْمَةٍ ۔۔ : اس آیت سے مقصود بھی مشرکین کی اس غلط فہمی کا رد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی انھیں اولاد، روزی یا کوئی نعمت دے سکتا ہے یا روک سکتا ہے۔ رحمت سے مراد وہ نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے، چاہے وہ مادی ہو جیسے بارش، روزی، اولاد اور صحت وغیرہ، یا معنوی اور روحانی ہو، جیسے علم و حکمت، ایمان و اسلام، بعثت انبیاء، دعا کی قبولیت اور توبہ کی توفیق وغیرہ۔ مطلب یہ ہے کہ بندوں کو جو بھی نعمت حاصل ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ وہ اپنی نعمت کسی کو دینا چاہے تو کوئی اسے روکنے والا نہیں اور روکنا چاہے تو کوئی اسے دینے والا نہیں۔ مغیرہ بن شعبہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر فرض نماز کے بعد کہا کرتے تھے : ( لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ ، لَہُ الْمُلْکُ ، وَ لَہُ الْحَمْدُ ، وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْءٍ قَدِیْرٌ، اللّٰہُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَیْتَ ، وَ لَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ ، وَ لاَ یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ ) [ بخاري، الأذان، باب الذکر بعد الصلاۃ : ٨٤٤ ] ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کے لیے سب تعریف ہے اور وہ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ اے اللہ جو تو دے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو تو روک دے وہ دینے والا کوئی نہیں اور تیرے مقابلے میں کسی شان والے کو اس کی شان کوئی کام نہیں دیتی۔ “ یہ مضمون قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة انعام (١٧) ، یونس (١٠٧) اور سورة زمر (٣٨) ۔- وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ : خبر پر الف لام لانے سے کلام میں حصر پیدا ہوگیا۔ یہ پہلے جملے کی علت ہے کہ وہی ایسا زبردست غالب ہے کہ اس کے حکم کو کوئی روک نہیں سکتا اور ایسا کمال حکمت والا ہے جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، کسی اور میں یہ صفات ہیں ہی نہیں، تو پھر کون ہے جو اس کے کھولے ہوئے کو بند کرسکے یا اس کے بند کیے ہوئے کو کھول سکے ؟
(آیت) ما یفتح اللہ للناس من رحمة فلا ممسک لھا، یہاں لفظ رحمت عام ہے اس میں دینی اور اخروی نعمتیں داخل ہیں، جیسے ایمان اور علم اور عمل صالح اور نبوت و ولایت وغیرہ اور دنیوی نعمتیں بھی، جیسے رزق اور اسباب اور آرام و راحت اور صحت و تندرستی اور مال و عزت وغیرہ معنی آیت کے ظاہر ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے لئے اپنی رحمت کھولنے کا ارادہ کرے اس کو کوئی روک نہیں سکتا۔- اسی طرح دوسرا جملہ وما یمسک عام ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ روکتا ہے اس کو کوئی کھول نہیں سکتا۔ اس میں دنیا کے مصائب و آلام بھی داخل ہیں کہ جب اللہ ان کو اپنے کسی بندے سے روکنا چاہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ ان کو کوئی گزند و مصیبت پہنچا سکے اور اس میں رحمت بھی داخل ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ اپنی کسی حکمت سے کسی شخص کو رحمت سے محروم کرنا چاہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ اس کو دے سکے (ابو حیان)- اسی مضمون آیت کے متعلق ایک حدیث اس طرح آتی ہے کہ حضرت معاویہ نے اپنے عامل (گورنر) کوفہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کو خط لکھا کہ مجھے کوئی حدیث لکھ کر بھیجو جو تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو۔ حضرت مغیرہ نے اپنے میر منشی رواد کو بلاکر لکھوایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس وقت جبکہ آپ نماز سے فارغ ہوئے یہ کلمات پڑھتے ہوئے سنا اللھم لا مانع لما اعطیت ولامعطی لما منعت ولا ینفع ذا الجد منک الجد (یعنی یا اللہ جو چیز آپ کسی کو عطا فرما دیں اس کا کوئی روکنے والا نہیں اور جس کو آپ روکیں اس کو کوئی دینے والا نہیں، آپ کے ارادے کے خلاف کسی کوشش کرنے والے کی کوشش نہیں چلتی) ابن کثیر از مسند احمد)- اور صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید خدری کی روایت یہ ہے کہ یہ کلمہ آپ نے رکوع سے سر اٹھانے کے وقت فرمایا اور اس کلمہ سے پہلے فرمایا احق ما قال العبد وکلنا لک (یعنی یہ کلمہ ان تمام کلمات میں جو کوئی بندہ کہہ سکتا ہے سب سے زیادہ احق اور مقدم و اعلیٰ ہے۔- اللہ پر توکل و اعتماد سارے مصائب سے نجات ہے :۔- آیت مذکورہ نے انسان کو جو سبق دیا ہے کہ غیر اللہ سے نفع و ضرر کی امید و خوف نہ رکھے، صرف اللہ تعالیٰ کی طرف نظر رکھے۔ دین و دنیا کی درستی اور دائمی راحت کا نسخہ اکسیر ہے اور انسان کو ہزاروں غموں اور فکروں سے نجات دینے والا ہے۔ (روح)- حضرت عامر بن عبد قیس نے فرمایا کہ جب میں صبح کو چار آیتیں قرآن کریم کی پڑھ لوں تو مجھے یہ فکر نہیں رہتی صبح کو کیا ہوگا شام کو کیا، وہ آیتیں یہ ہیں۔ ایک یہ آیت (آیت) مایفتح اللہ للناس من رحمة فلا ممسک لھا وما یمسک فلا مرس لہ من بعدہ۔ دوسری آیت اسی کے ہم معنی یہ ہے ان یمسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ھو و ان یردک بخیر فلا راد لفضلہ، تیسری آیت سیجعل اللہ بعد عسر یسراً چوتھی وما من دابة فی الارض الا علی اللہ رزقھا (اخرجہ ابن منذر، روح)- اور حضرت ابوہریرہ جب بارش ہوتے دیکھتے تو فرمایا کرتے تھے مطرنا بنواء الفتح اور پھر آیت (آیت) ما یفتع اللہ للناس من رحمة پڑھتے تھے یہ عرب کے باطل خیالات کی تردید ہے جو بارش کو خاص خاص ستاروں کی طرف منسوب کر کے کہا کرتے کہ ہمیں یہ بارش فلاں ستارے کی وجہ سے ملی ہے۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ہمیں یہ بارش آیت فتح سے ملی ہے۔ مراد آیت فتح سے یہی مذکورہ آیت ہے جس کو وہ ایسے وقت تلاوت فرمایا کرتے (رواہ مالک فی الموطا)
مَا يَفْتَحِ اللہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِكَ لَہَا ٠ ۚ وَمَا يُمْسِكْ ٠ ۙ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ ٠ ۭ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ٢- فتح - الفَتْحُ : إزالة الإغلاق والإشكال، وذلک ضربان :- أحدهما : يدرک بالبصر کفتح الباب ونحوه، وکفتح القفل والغلق والمتاع، نحو قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] ، وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] .- والثاني : يدرک بالبصیرة کفتح الهمّ ، وهو إزالة الغمّ ، وذلک ضروب : أحدها : في الأمور الدّنيويّة كغمّ يفرج، وفقر يزال بإعطاء المال ونحوه، نحو : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] ، أي : وسعنا، وقال : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] ، أي : أقبل عليهم الخیرات . والثاني : فتح المستغلق من العلوم، نحو قولک : فلان فَتَحَ من العلم بابا مغلقا، وقوله : إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ، قيل : عنی فتح مكّةوقیل : بل عنی ما فتح علی النّبيّ من العلوم والهدایات التي هي ذریعة إلى الثّواب، والمقامات المحمودة التي صارت سببا لغفران ذنوبه وفَاتِحَةُ كلّ شيء : مبدؤه الذي يفتح به ما بعده، وبه سمّي فاتحة الکتاب، وقیل : افْتَتَحَ فلان کذا : إذا ابتدأ به، وفَتَحَ عليه كذا : إذا أعلمه ووقّفه عليه، قال : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] ، ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] ، وفَتَحَ الْقَضِيَّةَ فِتَاحاً : فصل الأمر فيها، وأزال الإغلاق عنها . قال تعالی: رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ- [ الأعراف 89] ، ومنه الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ، قال الشاعر : بأني عن فَتَاحَتِكُمْ غنيّ- وقیل : الفتَاحةُ بالضمّ والفتح، وقوله : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] ، فإنّه يحتمل النّصرة والظّفر والحکم، وما يفتح اللہ تعالیٰ من المعارف، وعلی ذلک قوله : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] ، وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] ، قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] ، أي : يوم الحکم . وقیل : يوم إزالة الشّبهة بإقامة القیامة، وقیل : ما کانوا يَسْتَفْتِحُونَ من العذاب ويطلبونه،- ( ف ت ح ) الفتح کے معنی کسی چیز سے بندش اور پیچیدگی کو زائل کرنے کے ہیں اور یہ ازالہ دوقسم پر ہے ایک وہ جس کا آنکھ سے ادراک ہو سکے جیسے ۔ فتح الباب ( دروازہ کھولنا ) اور فتح القفل ( قفل کھولنا ) اور فتح المتاع ( اسباب کھولنا قرآن میں ہے ؛وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف 65] اور جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ وَلَوْ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ باباً مِنَ السَّماءِ [ الحجر 14] اور اگر ہم آسمان کا کوئی دروازہ ان پر کھولتے ۔ دوم جس کا ادراک بصیرت سے ہو جیسے : فتح الھم ( یعنی ازالہ غم ) اس کی چند قسمیں ہیں (1) وہ جس کا تعلق دنیوی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے جیسے مال وغیرہ دے کر غم وانددہ اور فقر و احتیاج کو زائل کردینا ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا نَسُوا ما ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنا عَلَيْهِمْ أَبْوابَ كُلِّ شَيْءٍ [ الأنعام 44] پھر جب انہوں ن اس نصیحت کو جو ان کو کی گئی تھی ۔ فراموش کردیا تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے ۔ یعنی ہر چیز کی فرادانی کردی ۔ نیز فرمایا : لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 96] تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کے دروازے کھول دیتے ۔ یعنی انہیں ہر طرح سے آسودگی اور قارغ البالی کی نعمت سے نوازتے ۔ (2) علوم ومعارف کے دروازے کھولنا جیسے محاورہ ہے ۔ فلان فتح من العلم بابامغلقا فلاں نے طلم کا بندو دروازہ کھول دیا ۔ یعنی شہادت کو زائل کرکے ان کی وضاحت کردی ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا فَتَحْنا لَكَ فَتْحاً مُبِيناً [ الفتح 1] ( اے محمد ) ہم نے تم کو فتح دی اور فتح صریح وصاف ۔ میں بعض نے کہا ہے یہ فتح کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے کہا ہے کہ نہیں بلکہ اس سے علوم ومعارف ار ان ہدایات کے دروازے کھولنا مراد ہے جو کہ ثواب اور مقامات محمودہ تک پہچنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور آنحضرت کیلئے غفران ذنوب کا سبب ہے ۔ الفاتحۃ ہر چیز کے مبدء کو کہاجاتا ہے جس کے ذریعہ اس کے مابعد کو شروع کیا جائے اسی وجہ سے سورة فاتحہ کو فاتحۃ الکتاب کہاجاتا ہے ۔ افتح فلان کذ افلاں نے یہ کام شروع کیا فتح علیہ کذا کسی کو کوئی بات بتانا اور اس پر اسے ظاہر کردینا قرآن میں ہے : أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِما فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ [ البقرة 76] جو بات خدا نے تم پر ظاہر فرمائی ہے وہ تم ان کو ۔۔۔ بتائے دیتے ہو ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ [ فاطر 2] جو لوگوں کیلئے ۔۔ کھولدے فتح القضیۃ فتاحا یعنی اس نے معاملے کا فیصلہ کردیا اور اس سے مشکل اور پیچیدگی کو دور کردیا ۔ قرآن میں ہے ؛ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنا وَبَيْنَ قَوْمِنا بِالْحَقِّ وَأَنْتَ خَيْرُ الْفاتِحِينَ [ الأعراف 89] اے ہمارے پروردگار ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ۔ اسی سے الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ [ سبأ 26] ہے یعن خوب فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا یہ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے ہے کسی شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (335) وانی من فتاحتکم غنی اور میں تمہارے فیصلہ سے بےنیاز ہوں ۔ بعض نے نزدیک فتاحۃ فا کے ضمہ اور فتحہ دونوں کے ساتھ صحیح ہے اور آیت کریمہ : إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچیں اور فتح حاصل ہوگئی ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ الفتح سے نصرت ، کامیابی اور حکم مراد ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ علوم ومعارف کے دروازے کھول دینا مراد ہو ۔ اسی معنی ہیں میں فرمایا : نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] ( یعنی تمہیں ) خدا کی طرف سے مدد ( نصیب ہوگی ) اور فتح عنقریب ( ہوگی ) فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ [ المائدة 52] تو قریب ہے خدا فتح بھیجے وَيَقُولُونَ مَتى هذَا الْفَتْحُ [ السجدة 28] اور کہتے ہیں ۔۔۔ یہ فیصلہ کب ہوگا ۔ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ [ السجدة 29] کہدو کہ فیصلے کے دن ۔۔۔ یعنی حکم اور فیصلے کے دن بعض نے کہا ہے کہ الفتح سے قیامت بپا کرکے ان کے شک وشبہ کو زائل کرے کا دن مراد ہے اور بعض نے یوم عذاب مراد لیا ہے ۔ جسے وہ طلب کیا کرتے تھے - نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ- [ الزخرف 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ- [ الممتحنة 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال :- هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن .- ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی:- معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم «2» ، فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] - ( ح ک م ) الحکمتہ - کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟
اللہ تعالیٰ جو رحمت یعنی بارش رزق اور سلامتی بندوں کے لیے بھیجے تو اس کی رحمت کا کوئی روکنے والا نہیں اور جس رحمت کو وہ بند کردے سو اس کے بند کرنے کے بعد کوئی اس رحمت کا جاری کرنے والا نہیں۔- اور وہ بند کرنے پر غالب اور جو چھوڑی ہے اس میں حکمت والا ہے۔
آیت ٢ مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا ” جو رحمت (کا دروازہ) بھی اللہ لوگوں کے لیے کھول دے تو اسے بند کرنے والا کوئی نہیں۔ “- یہاں ” رحمت “ سے مراد نبوت ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لیے وحی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ اللہ کی رحمت کا بہت بڑا مظہر ہے۔ اسی لیے سورة الانبیاء میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں فرمایا گیا : وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپ کو مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر “۔ بنی نوع انسان کو چونکہ ایک بہت بڑے امتحان سے سابقہ ہے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی آسانی کے لیے نبوت کا دروازہ کھول دیا ہے اور اپنے رسول کی شخصیت اور سیرت کو ان کے سامنے رکھ دیا ہے ‘ جو بذات خود اللہ کی نشانیوں میں سے ایک بہت بڑی نشانی ہے ‘ تاکہ لوگ احکامِ وحی سے راہنمائی حاصل کریں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کی پیروی کر کے اس امتحان میں سرخرو ہونے کی کوشش کریں۔ بہر حال یہاں پر اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کی حکمت ‘ مشیت اور اختیار کا ذکر اس طرح فرمایا گیا کہ انسانیت کی راہنمائی کے لیے اس نے نبوت کی صورت میں اپنی رحمت کا جو دروازہ کھولا ہے اسے کوئی بند نہیں کرسکتا۔ - وَمَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ ” اور جسے وہ روک لے تو پھر اسے کوئی جاری کرنے والا نہیں ہے اس کے بعد۔ “- جب اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مشیت سے نبوت کا دروازہ بند فرما دے گا تو پھر اسے کوئی کھول نہیں سکے گا۔ چناچہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے ‘ اس لیے اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ البتہ مختلف ادوار میں نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی صورت میں دجالوں کا ظہور ہوتا رہے گا۔- وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ” اور یقینا وہ زبردست ہے ‘ کمال حکمت والا ہے۔ “
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :4 اس کا مقصود بھی مشرکین کی اس غلط فہمی کو رفع کرنا ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے کوئی انہیں روزگار دلانے والا اور کوئی ان کو اولاد عطا فرمانے والا اور کوئی ان کے بیماروں کو تندرستی بخشنے والا ہے ۔ شرک کے یہ تمام تصورات بالکل بے بنیاد ہیں اور خالص حقیقت صرف یہ ہے کہ جس قسم کی رحمت بھی بندوں کو پہنچتی ہے محض اللہ عز وجل کے فضل سے پہنچتی ہے ۔ کوئی دوسرا نہ اس کے عطا کرنے پر قادر ہے اور نہ روک دینے کی طاقت رکھتا ہے ۔ یہ مضمون قرآن مجید اور احادیث میں بکثرت مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان در در کی بھیک مانگنے اور ہر آستانے پر ہاتھ پھیلانے سے بچے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے کہ اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا ایک اللہ کے سوا کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :5 زبردست ہے ، یعنی سب پر غالب اور کامل اقتدار اعلیٰ کا مالک ہے ۔ کوئی اس کے فیصلوں کو نافذ ہونے سے نہیں روک سکتا ۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ حکیم بھی ہے ۔ جو فیصلہ بھی وہ کرتا ہے سراسر حکمت کی بنا پر کرتا ہے ۔ کسی کو دیتا ہے تو اس لیے دیتا ہے کہ حکمت اسی کی مقتضی ہے ۔ اور کسی کو نہیں دیتا تو اس لیے نہیں دیتا کہ اسے دینا حکمت کے خلاف ہے ۔