28۔ 1 یعنی انسان اور جانور بھی سفید، سرخ، سیاہ اور زرد رنگ کے ہوتے ہیں۔ 28۔ 2 یعنی اللہ کی ان قدرتوں اور اس کے کمال صناعی کو وہی جان اور سمجھ سکتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں اس علم سے مراد کتاب وسنت اور اسرار الہیہ کا علم ہے جتنی ان کو رب کی معرفت حاصل ہوتی ہے اتنا ہی وہ ڈرتے ہیں اپنے رب سے۔ گویا جن کے اندر خشیت الہی نہیں ہے سمجھ لو کہ علم صحیح سے بھی وہ محروم ہیں۔ 28۔ 3 یہ رب سے ڈرنے کی علت ہے کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ نافرمان کو سزا دے اور توبہ کرنے والے کے گناہ معاف فرما دے۔
[ ٣٣] یعنی وہ چاہے تو اپنے باغیوں، کج فہمیوں اور نافرمانوں کو فوراً پکڑ سکتا ہے۔ مگر یہ اس کی صفت عفو کا ہی تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کو مہلت دیئے جاتا ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ كَذٰلِكَ : یعنی صرف نباتات اور جمادات ہی میں نہیں بلکہ دوسری تمام مخلوقات میں رنگا رنگی کا یہی عالم ہے۔ انسان، جانور اور چوپائے سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان میں ہر جنس کی مختلف قسمیں ہیں اور ہر قسم کا ہر فرد دوسرے سے مختلف ہے۔ - اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا : یہاں علم سے مراد دنیوی علوم نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی صفات کا علم ہے، جس کو اللہ کی عظمت وصفات کا جتنا علم ہوگا اتنا ہی وہ اس کی نافرمانی سے ڈرے گا۔ علاوہ ازیں آیت میں ” علماء “ سے مراد وہ اصطلاحی علماء بھی نہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ کا علم رکھنے کی بنا پر علمائے دین کہے جاتے ہیں۔ وہ اس آیت کے مصداق اسی صورت میں ہوں گے جب ان کے اندر اللہ کا ڈر بھی ہوگا۔ اسی طرح وہ مسلمان سائنس دان بھی اس کے مصداق ہیں جن کے دل میں کائنات کے عجائب سامنے آنے پر اللہ کی عظمت کے یقین اور اس سے ہیبت و خشیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمایا ہے کہ علماء وہ ہیں جو جانتے ہیں : (اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ) ” یقیناً اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ “- تفسیر قاسمی میں ہے : ” اس سے پہلے فرمایا تھا : ( اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَيْبِ ) [ فاطر : ١٨ ] ” تو صرف ان لوگوں کو ڈراتا ہے جو دیکھے بغیر اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ “ یہ جملہ اسی کی تکمیل ہے، لوگوں کے مختلف طبقات اور مراتب بیان کرنے کے بعد بتایا کہ رب تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس سے کون ڈرتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کو دیکھے بغیر اس سے وہی ڈرتے ہیں جو اس کا اور اس کی صفات جلیلہ و افعال جمیلہ کا علم رکھتے ہیں، کیونکہ بندہ اسی سے ڈرتا ہے جس کا اسے علم ہو اور جس کی قوت و عظمت اور صفات کمال کو وہ جانتا ہو۔ پھر جسے اس کا جتنا زیادہ علم ہوگا اتنا ہی وہ اس سے ڈرے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( وَاللّٰہِ لَأَنَا أَعْلَمُکُمْ باللّٰہِ وَ أَخْشَاکُمْ لَہُ ) [ منتخب مسند عبد بن حمید، ح : ١٥٠٢ ] ” اللہ کی قسم میں تم سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھنے والا اور تم سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا ہوں۔ “ صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں : ( إِنَّ أَتْقَاکُمْ وَ أَعْلَمَکُمْ باللّٰہِ أَنَا ) [ بخاري، الإیمان، باب قول النبي (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أنا أعلمکم باللہ : ٢٠ ] ” بیشک تم سب سے زیادہ ڈرنے والا اور اللہ کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا میں ہوں۔ “ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت پر دلالت کرنے والے کاموں کے ذکر کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے بندوں میں سے صرف علم والے ڈرتے ہیں۔ کافر چونکہ اللہ تعالیٰ کی اس پہچان سے بالکل بیخبر ہیں، اس لیے انھیں ڈرانا بالکل بےسود ہے۔ “ (افادہ از ابو السعود)- قاسمی ہی نے قاشانی سے نقل فرمایا ہے : ” یعنی اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اس کے عالم و عارف ہیں (اسے جاننے پہچاننے والے ہیں) ، کیونکہ یہاں خشیّت اور ڈرنے سے مراد عذاب کا ڈر نہیں ہے، بلکہ خشیّت دل میں خشوع و انکسار کی اس حالت کا نام ہے جو اس کی عظمت کے تصور اور اسے دل میں حاضر کرنے سے پیدا ہوتی ہے، کیونکہ جو اس کی عظمت کا تصور نہ کرے، ممکن نہیں اس سے ڈرے اور اللہ تعالیٰ اپنی عظمت کے ساتھ جس شخص کے دل کی آنکھوں کے سامنے حاضر ہو وہ اس سے اس طرح ڈرے گا جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور اللہ تعالیٰ کا کامل علم و معرفت رکھنے والے کے درمیان اور اس کا ناقص علم و معرفت رکھنے والے کے درمیان اس کی حاضری کے تصور میں بہت زیادہ فرق ہے اور دونوں کے درمیان علم و معرفت کی کمی بیشی کے لحاظ سے اتنے مرتبے ہیں جن کا شمار نہیں ہوسکتا۔ “ - اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ : یعنی اللہ تعالیٰ سب پر غالب ہے، چاہے تو نافرمان اور سرکش لوگوں کو فوراً پکڑے، مگر وہ بیحد بخشنے والا ہے، اس لیے انھیں مہلت دیے جاتا ہے، تاکہ وہ کسی وقت بھی پلٹ آئیں۔
(آیت) کذالک انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء، اس جگہ لفظ کذلک پر جمہور کے نزدیک وقف ہے، جو اس کی علامت ہے کہ یہ لفظ پچھلے مضمون کے ساتھ متعلق ہے۔ یعنی مخلوقات کو مختلف انواع و اقسام اور مختلف الوان پر بڑی حکمت کے ساتھ بنانا یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی خاص نشانی ہے۔- اور بعض روایات سے مستفاد ہوتا ہے کہ اس لفظ کا تعلق اگلے جملے سے ہے۔ یعنی جس طرح ثمرات، پہاڑ، حیوانات اور انسان مختلف رنگوں پر منقسم ہیں، اسی طرح خشیت اللہ میں بھی لوگوں کے درجات مختلف ہیں، کسی کو اس کا اعلیٰ درجہ حاصل ہے، کسی کو کم، اور مدار اس کا علم پر ہے جس درجہ کا علم ہے اسی درجہ کی خشیت بھی ہے۔ (روح)- سابقہ آیات میں ارشات فرمایا تھا (انما تنذر الذین یخشون ربہم بالغیب) جس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لئے فرمایا تھا کہ آپ کے انداز و تبلیغ کا فائدہ تو صرف وہ لوگ اٹھاتے ہیں جو غائبانہ اللہ تعالیٰ سے خوف و خشیت رکھتے ہیں، اس کی مناسبت سے آیت (آیت) انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کو اللہ تعالیٰ کی خشیت حاصل ہے۔ اور جیسا پہلے کفار و منکرین کا اور ان کے احوال کا ذکر آیا ہے، اس میں خاص اولیاء اللہ کا ذکر ہے۔ لفظ انما عربی زبان میں حصر بیان کرنے کے لئے آتا ہے، اس لئے اس جملے کے معنی بظاہر یہ ہیں کہ صرف علماء ہی اللہ سے ڈرتے ہیں مگر ابن عطیہ وغیرہ ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ حرف انما جیسے حصر کے لئے آتا ہے ایسے ہی کسی کی خصوصیت کے بیان کرنے کے لئے بھی مستعمل ہوتا ہے، اور یہاں یہی مراد ہے کہ خشیة اللہ علماء کا وصف خاص اور لازم ہے۔ یہ ضرور نہیں کہ غیر عالم میں خشیة نہ ہو (بحر محیط، ابو حیان)- اور آیت میں لفظ علماء سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ جل شانہ، کی ذات وصفات کا کماحقہ علم رکھتے ہیں، اور مخلوقات عالم میں اس کے تصرفات پر اور اس کے احسانات و انعامات پر نظر رکھتے ہیں۔ صرف عربی زبان یا اس کے صرف و نحو اور فنون بلاغت جاننے والوں کو قرآن کی اصطلاح میں عالم نہیں کہا جاتا جب تک اس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت مذکورہ طریق پر حاصل نہ ہو۔ - حسن بصری نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ عالم وہ شخص ہے جو خلوت و جلوت میں اللہ سے ڈرے، اور جس چیز کی اللہ تعالیٰ نے ترغیب دی ہے وہ اس کو مرغوب ہو اور جو چیز اللہ کے نزدیک مبغوض ہے اس کو اس سے نفرت ہو۔ - اور حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا۔- ” یعنی بہت سی احادیث یاد کرلینا یا بہت باتیں کرنا کوئی علم نہیں بلکہ علم وہ ہے جس کے ساتھ اللہ کا خوف ہو “- حاصل یہ ہے کہ جس قدر کسی میں خدائے تعالیٰ کا خوف ہے وہ اسی درجہ کا عالم ہے۔ اور احمد بن صالح مصری نے فرمایا کہ خشیتہ اللہ کو کثرت روایت اور کثرت معلومات سے نہیں پہچانا جاسکتا بلکہ اس کو کتاب و سنت کے اتباع سے پہچانا جاتا ہے۔ (ابن کثیر)- شیخ شہاب الدین سہروردی نے فرمایا کہ اس آیت میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ جس شخص میں خشیت نہ ہو وہ عالم نہیں (مظہری) اس کی تصدیق اکابر سلف کے اقوال سے بھی ہوتی ہے۔- حضرت ربیع بن انس نے فرمایا :- ” یعنی جو اللہ سے نہیں ڈرتا وہ عالم نہیں “- اور مجاہد نے فرمایا :- ” یعنی عالم تو صرف وہی ہے جو اللہ سے ڈرے “- سعد بن ابراہیم سے کسی نے پوچھا کہ مدینہ میں سب سے زیادہ فقیہ کون ہے ؟ تو فرمایا : اتقاہم لربہ ” یعنی جو اپنے رب سے زیادہ ڈرانے والا ہو “- اور حضرت علی مرتضیٰ نے فقیہ کی تعریف اس طرح فرمائی :- ” فقیہ مکمل فقیہ وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس بھی نہ کرے اور ان کو گناہوں کی رخصت بھی نہ دے اور ان کو اللہ کے عذاب سے مطمئن بھی نہ کرے، اور قرآن کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کی طرف رغبت نہ کرے، (اور فرمایا) اس عبادت میں کوئی خیر نہیں جو بےعلم کے ہو اور اس علم میں کوئی خیر نہیں جو بےقصہ یعنی بےسمجھ بوجھ کے ہو اور اس قرات میں کوئی خیر نہیں جو بغیر تدبر کے ہو “- مذکورہ تصریحات سے یہ شبہ بھی جاتا رہا کہ بہت سے علماء کو دیکھا جاتا ہے کہ ان میں خدا کا خوف و خشیت نہیں۔ کیونکہ تصریحات بالا سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نزدیک صرف عربی جاننے کا نام علم اور جاننے والے کا نام عالم نہیں جس میں خشیت نہ ہو وہ قرآن کی اصطلاح میں عالم ہی نہیں۔ البتہ خشیت کبھی صرف اعتضادی اور عقلی ہوتی ہے جس کی وجہ سے آدمی بہ تکلف احکام شرعیہ کا پابند ہوتا ہے، اور کبھی یہ خشیتہ حالی اور ملکہ راسخہ کے درجہ میں ہوجاتی ہے جس میں اتباع شریعت ایک تقاضائے طبیعت بن جاتا ہے۔ خشیت کا پہلا درجہ ماموربہ اور عالم کے لئے ضروری ہے دوسرا درجہ افضل واعلیٰ ہے ضروری نہیں۔ (از بیان القرآن)
وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاۗبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ كَذٰلِكَ ٠ ۭ اِنَّمَا يَخْشَى اللہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰۗؤُا ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ ٢٨- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب،- قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔ - دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- نعم ( جانور)- [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . - ( ن ع م ) نعام - النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔- لون - اللَّوْنُ معروف، وينطوي علی الأبيض والأسود وما يركّب منهما، ويقال : تَلَوَّنَ : إذا اکتسی لونا غير اللّون الذي کان له . قال تعالی: وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوانُها - [ فاطر 27] ، وقوله : وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] فإشارة إلى أنواع الألوان واختلاف الصّور التي يختصّ كلّ واحد بهيئة غير هيئة صاحبه، وسحناء غير سحنائه مع کثرة عددهم، وذلک تنبيه علی سعة قدرته . ويعبّر بِالْأَلْوَانِ عن الأجناس والأنواع . يقال : فلان أتى بالألوان من الأحادیث، وتناول کذا ألوانا من الطّعام .- ( ل و ن ) اللون - ۔ کے معنی رنگ کے ہیں اور یہ سیاہ سفید اور ان دونوں سے مرکب یعنی ہر قسم کے - رنگ پر بولا جاتا ہے ۔ تلون کے معنی رنگ بدلنے کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَمِنَ الْجِبالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوانُها[ فاطر 27] اور پہاڑوں میں سفید اور سرخ رنگوں کی دھار یاں ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاخْتِلافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوانِكُمْ [ الروم 22] اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف الوادع و اقسام کے رنگوں اور شکلوں کے مختلف ہونے کی طرف اشارہ ہے اور باوجود اس قدر تعداد کے ہر انسان اپنی ہیئت کذائی اور رنگت میں دوسرے سے ممتاز کذابی اور رنگت میں دوسرے سے ممتاز نظر آتا ہے ۔ اس سے خدا کی وسیع قدرت پر تنبیہ کی گئی ۔ اور کبھی الوان سے کسی چیز کے لوادع و اقسام مراد ہوتے ہیں چناچہ محاورہ ہے اس نے رنگا رنگ کی باتیں کیں اور الوان من الطعام سے مراد ہیں قسم قسم کے کھانے ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزۃ - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔
علم، حشیت اللہ پیدا کرتا ہے - قول باری ہے (انما یخشی اللہ من عبادہ العلمو۔ اللہ سے ڈرتے بس وہی بندے ہیں جو علم والے ہیں) آیت میں علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے نیز یہ کہ علم کے ذریعے اللہ کی خشیت اور تقویٰ تک رسائی ہوتی ہے۔ اس لئے کہ جو شخص اللہ کی توحید اور اس کے عدل کی معرفت حاصل کرلیتا ہے اس کی یہ معرفت اسے خشیت اور تقویٰ تک پہنچا دیتی ہے۔ کیونکہ جو شخص اللہ کی توحید، اس کے عدل اور کائنات کی تخلیق میں اس کے مقصد سے ناآشنا ہو وہ نہ تو اللہ سے ڈرتا ہے اور نہ ہی اس کے دل میں تقویٰ یعنی خوف خدا پیدا ہوتا ہے۔- ایک اور آیت میں ارشاد ہے (یرفع اللہ الذین امنا منکم والذین اوتوا العلم درجات ۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو تم میں سے ایمان لے آئے اور ان لوگوں کو جنہیں علم کی دولت دی گئی کئی درجے بلند کرتا ہے) نیز ارشاد ہے (ان الذین امنوا وعملوا الصالحات اولئک ھم خیر البریۃ۔ جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے عمل صالح کیے یہی لوگ بہترین مخلوق ہیں) تاقول باری (ذلک لمن خشی ربہ۔ یہ سب باتیں اس شخص کے لئے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتا ہے) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ بہترین مخلوق وہ لوگ ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔- آیت زیر بحث میں یہ خبر دی کہ علم والے لوگ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔ ان دونوں آیتوں کے مجموعی مفہوم سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اللہ کی معرفت رکھنے والے لوگ ہی بہترین مخلوق ہیں اگرچہ معرفت الٰہی کے لحاظ سے ان کے آگے کئی طبقات ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے معرفت الٰہی رکھنے والے اہل علم کی جو خشیت باری کی صفت سے متصف ہوتے ہیں مزیدتوصیف کرتے ہوئے فرمایا (ان الذین یتلون کتاب اللہ واقاموا الصلوٰۃ وانفقوا مما رزقنھم سراو علانیۃ یرجون تجارۃ لن تبور۔ جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کی آس لگائے ہوئے ہیں جو کبھی ماند نہ پڑے گی) ۔- یہ بات ان لوگوں کی توصیف میں بیان کی گئی ہے جو اللہ سے ڈرنے والے اور اپنے علم کے مطابق عمل کرنے والے ہیں۔ ایک اور آیت میں اس شخص کا ذکر ہوا ہے جو اپنے علم کے موجب عمل سے گریزاں ہے۔- ارشاد ہوا : (واتل علیھم نبا الذی اتیناہ ایاتنا فانسلخ منھا فاتبعہ الشیطان فکان من الغاوین ولو شئنا لرفعاناہ بھا ولکنہ اخلد الی الارض واتبع ھواہ۔ اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے جس کو ہم نے اپنی نشانیاں دی تھیں پھر وہ ان سے بالکل نکل گیا اور شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور وہ گمراہوں میں داخل ہوگیا اور اگر ہم چاہتے تو اس کا مرتبہ ان نشانیوں کے ذریعے اونچا کردیتے لیکن وہ زمین کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی خواہش نفسانی کی پیروی کرنے لگا) ۔- یہ اس شخص کی کیفیت ہے جو عالم ہے لیکن بےعمل ہے جبکہ پہلی آیت عالم باعمل کی کیفیت میں بیان ہوئی ہے جس کے دل میں اللہ کا خوف ہوتا ہے۔ پہلے گروہ کے متعلق اللہ نے یہ خبر دی ہے کہ انہیں اللہ کی طرف سے کیے گئے وعدے پر پورا بھروسہ ہے اور اپنے اعمال پر ثواب کا پورا یقین ہے کیونکہ قول باری ہے (یرجون تجارۃ لن تبور)
اور اسی طرح آدمیوں اور جانوروں اور چوپایوں میں بھی کچھ ایسے ہیں کہ ان کی رنگتیں مختلف ہیں کہ بعض اوقات اختلاف اصناف کے ساتھ یہ چیز ہے۔- اور اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت کا علم رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی سلطنت و بادشاہت میں زبردست اور مومن کی مغفرت فرمانے والا ہے۔
آیت ٢٨ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَآبِّ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ کَذٰلِکَ ” اور اسی طرح انسانوں ‘ جانوروں اور چوپایوں کے بھی مختلف رنگ ہیں۔ “- اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُاط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ ” یقینا اللہ سے ڈرتے تو اس کے بندوں میں سے وہی ہیں جو اہل علم ہیں۔ یقینا اللہ بہت زبردست ہے ‘ نہایت بخشنے والا۔ “- انسان کے دل میں اگر ایمان موجود ہے تو اس کے اندر لازماً خوفِ خدا بھی ہوگا۔ پھر جس قدر اس کے علم میں اضافہ ہوگا ‘ ارضیات ‘ حیوانات ‘ نباتات وغیرہ سے متعلق اس کی معلومات بڑھیں گی اور کائنات کے دیگر اسرار و رموز کے بارے میں اس کا مطالعہ وسیع ہوتا چلا جائے گا اسی قدر اس کے دل میں اللہ کی عظمت اور خشیت بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ لیکن اگر کوئی شخص بنیادی طور پر صاحب ایمان نہیں ہے تو اللہ کی معرفت کے حوالے سے اس کی سماعت و بصارت اور سمجھ بوجھ سب بےکار ہیں۔ اس حوالے سے آج کے سائنسدانوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہ آئے دن نئے نئے مشاہدات کرتے ہیں ‘ اور کائنات کے عجیب و غریب رازوں سے پردے اٹھاتے ہیں مگر اس ساری تدقیق و تحقیق کے دوران انہیں اللہ کی ذات کہیں نظر نہیں آتی۔ چناچہ اللہ کی عظمت وکبریائی اور حکمت و صناعی کی پہچان صرف وہی دل کرسکتا ہے جس کے اندر ایمان کی روشنی موجود ہے۔ ایسے دل میں اللہ کی معرفت جیسے جیسے بڑھتی جاتی ہے ویسے ویسے اس کی خشیت میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :48 اس سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ خدا کی پیدا کردہ کائنات میں کہیں بھی یک رنگی و یکسانی نہیں ہے ۔ ہر طرف تنُّوع ہی تنُّوع ہے ایک ہی زمین اور ایک ہی پانی سے طرح طرح کے درخت نکل رہے ہیں اور ایک درخت کے دو پھل تک اپنے رنگ ، جسامت اور مزے میں یکساں نہیں ہیں ۔ ایک ہی پہاڑ کو دیکھو تو اس میں کئی کئی رنگ تمہیں نظر آئیں گے اور اس کے مختلف حصوں کی مادی ترکیب میں بڑا فرق پایا جائے گا ۔ انسانوں اور جانوروں میں ایک ماں باپ کے دو بچے تک یکساں نہ ملیں گے ۔ اس کائنات میں اگر کوئی مزاجوں اور طبیعتوں اور ذہنیتوں کی یکسانی ڈھونڈے اور وہ اختلافات دیکھ کر گھبرا اٹھے جن کی طرف اوپر ( آیت نمبر 19 تا 22 میں ) اشارہ کیا گیا ہے تو یہ اس کے اپنے فہم کی کوتاہی ہے ۔ یہی تنوع اور اختلاف تو پتہ دے رہا ہے کہ اس کائنات کو کسی زبردست حکیم نے بے شمار حکمتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کا بنانے والا کوئی بے نظیر خلاق اور بے مثل صناع ہے جو ہر چیز کا کوئی ایک ہی نمونہ لے کر نہیں بیٹھ گیا ہے ، بلکہ اس کے پاس ہر شے کے لیے نئے سے نئے ڈیزائن اور بے حد و حساب ڈیزائن ہیں ۔ پھر خاص طور پر انسانی طبائع اور اذہان کے اختلاف پر کوئی شخص غور کرے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ درحقیقت حکمت تخلیق کا شاہکار ہے ۔ اگر تمام انسان پیدائشی طور پر اپنی افتاد طبع اور اپنی خواہشات ، جذبات ، میلانات اور طرز فکر کے لحاظ سے یکساں بنا دیے جاتے اور کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رکھی جاتی تو دنیا میں انسان کی قسم کی ایک نئی مخلوق پیدا کرنا ہی میرے سے لا حاصل ہو جاتا ۔ خالق نے جب اس زمین پر ایک ذمہ دار مخلوق اور اختیارات کی حامل مخلوق وجود میں لانے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے کی نوعیت کا لازمی تقاضا یہی تھا کہ اس کی ساخت میں ہر قسم کے اختلافات کی گنجائش رکھی جاتی ۔ یہ چیز اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے کہ انسان کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک عظیم الشان حکیمانہ منصوبے کا نتیجہ ہے اور ظاہر ہے کہ حکیمانہ منصوبہ جہاں بھی پایا جائے گا وہاں لازماً اس کے پیچھے ایک حکیم ہستی کار فرما ہوگی ۔ حکیم کے بغیر حکمت کا وجود صرف ایک احمق ہی فرض کر سکتا ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :50 یعنی وہ زبردست تو ایسا ہے کہ نافرمانوں کو جب چاہے پکڑ لے ، کسی میں یارا نہیں کہ اس کی پکڑ سے بچ نکلے ، مگر یہ اس کی شان عفو و در گزر ہے جس کی بنا پر ظالموں کو مہلت ملے جا رہی ہے ۔
8: کائنات کی ان عجیب و غریب مخلوقات کو دیکھ کر اور ان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی توحید پر استدلال کر کے انہی کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت پیدا ہوتی ہے جن کو اللہ تعالیٰ کی عظمت کا علم اور اس کی سمجھ ہے اور جو لوگ اس سمجھ سے محروم ہیں، وہ کائنات کے ان عجوبوں کی تہہ تک پہنچنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور اس کی عظمت تک نہیں پہنچتے۔