Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

کتاب اللہ کی تلاوت کے فضائل ۔ مومن بندوں کی نیک صفتیں بیان ہو رہی ہیں کہ وہ کتاب اللہ کی تلاوت میں مشغول رہا کرتے ہیں ۔ ایمان کے ساتھ پڑھتے رہتے ہیں عمل بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ نماز کے پابند زکوٰۃ خیرات کے عادی ظاہر و باطن اللہ کے بندوں کے ساتھ سلوک کرنے والے ہوتے اور وہ اپنے اعمال کے ثواب کے امیدوار اللہ سے ہوتے ہیں ۔ جس کا ملنا یقینی ہے ۔ جیسے کہ اس تفسیر کے شروع میں فضائل قرآن کے ذکر میں ہم نے بیان کیا ہے کہ کلام اللہ شریف اپنے ساتھی سے کہے گا کہ ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے اور تو تو سب کی سب تجارتوں کے پیچھے ہے ۔ انہیں ان کے پورے ثواب ملیں گے بلکہ بہت بڑھا چڑھا کر ملیں گے جس کا خیال بھی نہیں ۔ اللہ گناہوں کا بخشنے والا اور چھوٹے اور تھوڑے عمل کا بھی قدر دان ہے ۔ حضرت مطرف رحمتہ اللہ علیہ تو اس آیت کو قاریوں کی آیت کہتے تھے ۔ مسند کی ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے راضی ہوتا ہے تو اس پر بھلائیوں کی ثناء کرتا ہے جو اس نے کی نہ ہوں اور جب کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اسی طرح برائیوں کی ۔ لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

29۔ 1 کتاب اللہ سے مراد قرآن کریم ہے، تلاوت کرتے ہیں، یعنی پابندی سے اس کا اہتمام کرتے ہیں۔ 29۔ 2 اقامت صلوٰۃ کا مطلب ہوتا ہے، نماز کی ادائیگی جو مطلوب ہے، یعنی وقت کی پابندی، اعتدالِارکان اور خشوع و خضوع کے اہتمام کے ساتھ پڑھنا۔ 29۔ 3 یعنی رات دن، اعلانیہ اور پوشیدہ دونوں طریقوں سے حسب ضرورت خرچ کرتے ہیں، بعض کے نزدیک پوشیدہ سے نفلی صدقہ اور اعلانیہ سے صدقہ، واجبہ (زکوٰۃ) مراد ہے۔ 92۔ 4 یعنی ایسے لوگوں کا اجر اللہ کے ہاں یقینی ہے، جس میں مندے اور کمی کا امکان نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٣٤] دنیا میں انسان جس چیز کی بھی تجارت کرتا ہے۔ اس پر فوری توجہ بھی صرف کرتا ہے اور اس کام کے لئے مخلص بھی ہوتا ہے اس کے باوجود اسے نقصان کا خطرہ بھی رہتا ہے لیکن اللہ کا مخلص بندہ جو اپنے اللہ کے ساتھ تجارت کرتا ہے اس میں کبھی خسارے اور نقصان کا اندیشہ نہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ ۔۔ : یہ بات ذکر کرنے کے بعد کہ علماء ہی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، ان کے تین اوصاف ذکر فرمائے، پھر انھیں ملنے والے اجر کا ذکر فرمایا۔ ان تین اوصاف میں سے پہلا وصف اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے علم کا سرچشمہ وہی ہے اور اسی سے اللہ کی خشیت پیدا کرنے والا علم حاصل ہوتا ہے۔ دوسری اور تیسری صفت اس علم کے تقاضے پر عمل کرتے ہوئے نماز قائم کرنا اور اس کے دیے ہوئے میں سے خفیہ اور علانیہ ہر طرح سے خرچ کرنا ہے۔ یہ تینوں چیزیں علم و عمل کی بنیاد ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہود کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے اللہ کی کتاب کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا : (ۡ فَنَبَذُوْهُ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِھِمْ ) [ آل عمران : ١٨٧ ] ” تو انھوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا۔ “ اور نماز قائم کرنے کے بجائے اسے ضائع کردیا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بجائے خواہش پرستی، سود خوری اور شدید بخل کو اپنا شیوہ بنا لیا، فرمایا : (فَخَــلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَاتَّـبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا) [ مریم : ٥٩ ] ” پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ان کی جگہ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کردیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو وہ عنقریب گمراہی کو ملیں گے۔ “ جس کے نتیجے میں وہ اس علم سے محروم ہوگئے جس سے خشیّتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے۔- يَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَـبُوْرَ : علم و ایمان والوں کے عمل کو تجارت کے ساتھ تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ آدمی دنیا میں جو بھی تجارت کرتا ہے، اس میں اپنا سرمایہ اور محنت و قابلیت اس امید پر صرف کرتا ہے کہ اسے اصل کے ساتھ ساتھ نفع بھی حاصل ہوگا، اس کے باوجود اسے نفع کی امید کے ساتھ خسارے کا بلکہ اصل سرمایہ برباد ہونے کا ڈر بھی رہتا ہے، مگر اللہ کے بندے جو اپنے اوقات عزیزہ کو، جو ان کی زندگی کا سرمایہ ہیں، اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کے سودے میں صرف کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے سودے میں نفع ہی نفع کی امید ہے، خسارے کا یا اصل سرمایہ برباد ہونے کا کوئی خوف نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور جو لوگ کتاب اللہ (یعنی قرآن) کی تلاوت (مع العمل) کرتے رہتے ہیں اور (خصوصیت و اہتمام کے ساتھ) نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے پوشیدہ اور اعلانیہ (جس طرح بن پڑتا ہے) خرچ کرتے ہیں وہ (بوجہ وعدہ الٰہیہ کے) ایسی (دائم النفع) تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی ماند نہ ہوگی (کیونکہ اس سودے کا خریدار کوئی مخلوقات میں سے نہیں ہے جو کبھی تو سودے کی قدر کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا۔ بلکہ اس کا خریدار خود حق تعالیٰ ہوگا، جو ضرور حسب وعدہ اپنی غرض سے نہیں بلکہ محض ان کی نفع رسانی کے لئے اس کی قدر کرے گا) تاکہ ان کو ان (کے اعمال) کی اجرتیں (بھی) پوری (پوری) دیں (جس کا بیان آگے آئے گا، جنت عدن الخ) اور (علاوہ اجرت کے) ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ (بھی) دیں، (مثلاً یہ کہ ایک نیکی کا ثواب دس کے برابر دیں، کما قال تعالیٰ (آیت) من جاء بالحسنة فلہ عشر امثالہا) بیشک وہ بڑا بخشنے والا بڑا قدر دان ہے (پس ان کے اعمال میں کچھ کوتاہی رہ بھی گئی تب بھی اس کی ایسی قدر کی کہ اجرت کے علاوہ انعام بھی دیا) اور (قرآن مجید پر عمل کرنے کی برکت سے جو ان کو اجر و فضل ملا سو واقعی قرآن مجید ایسی ہی چیز ہے، کیونکہ) یہ کتاب جو ہم نے آپ کے پاس وحی کے طور پر بھیجی ہے یہ بالکل ٹھیک ہے جو کہ اپنے سے پہلی کتابوں کی بھی (بایں معنی) تصدیق کرتی ہے (کہ ان کو اصل کے اعتبار سے منزل من اللہ بتلاتی ہے، اگرچہ بعد میں محرف ہوگئی ہوں، غرض یہ کتاب ہر طرح کامل ہے، اور چونکہ) یقینا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی (حالت کی) پوری خبر رکھنے والا ( اور ان کی مصلحتوں کو) خوب دیکھنے والا ہے (اس لئے اس وقت ایسی ہی کتاب کامل کا نازل کرنا قرین حکمت بھی تھا اور کتاب کامل کا عامل مستحق جزائے کامل ہی کا ہوگا جو کہ مجموعہ ہے اصل اجر اور مزید فضل کا پس اس اجر و فضل کے افاضہ کے لئے یہ کتاب ہم نے اول آپ پر نازل کی اور) پھر یہ کتاب ہم نے ان لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچائی جن کو ہم نے اپنے (تمام دنیا جہان کے) بندوں میں سے (با عتبار ایمان کے) پسند فرمایا، مراد اس سے اہل اسلام ہیں جو اس حیثیت ایمان سے تمام دنیا والوں میں مقبول عند اللہ ہیں گو ان میں کوئی دوسری وجہ مثل بدعملی کے موجب ملامت بھی ہو۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں وہ کتاب پہنچائی) پھر (ان منتخب اور پسندیدہ لوگوں کی تین قسمیں ہیں کہ) بعضے تو ان میں (کوئی گناہ کر کے) اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعضے ان میں (جو نہ گناہ کرتے ہیں اور نہ طاعات میں ضروریات سے تجاوز کرتے ہیں) متوسط درجہ کے ہیں اور بعضے ان میں وہ ہیں جو خدا کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی کئے چلے جاتے ہیں (کہ گناہوں سے بھی بچتے ہیں اور فرائض کے ساتھ غیر فرائض کی بھی ہمت کرتے ہیں۔ غرض ہم نے تینوں قسم کے مسلمانوں کے ہاتھوں میں وہ کتاب پہنچائی اور) یہ (یعنی ایسی کتاب کامل کا پہنچا دینا خدا کا) بڑا فضل ہے (کیونکہ اس پر عمل کرنے کی بدولت کیسے اجر وثواب کے مستحق ہوگئے آگے اس اجر و فضل مذکورہ بالا کا بیان ہے کہ) وہ (اجر و فضل) باغات ہیں ہمیشہ رہنے کے جس میں یہ لوگ (مذکورین (آیت) ان الذین یتلون الخ) داخل ہوں گے (اور) ان کو سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے، اور پوشاک ان کی وہاں ریشم کی ہوگی اور (وہاں داخل ہو کر) کہیں گے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جس نے ہم سے (ہمیشہ کے لئے رنج و) غم دور کیا بیشک ہمارا پروردگار بڑا بخشنے والا بڑا قدر دان ہے جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ رہنے کے مقام میں لا اتارا جہاں نہ ہم کو کوئی کلفت پہنچے گی اور نہ ہم کو کوئی خستگی پہنچے گی (یہ تو عاملان کتاب اللہ و احکام کا حال ہوا) اور جو لوگ (برخلاف ان کے) کافر ہیں ان کے لئے دوزخ کی آگ ہے، نہ تو ان کو موت ہی آئے گی کہ مر ہی جاویں (اور مر کر چھوٹ جاویں) اور نہ دوزخ کا عذاب ہی ان سے ہلکا کیا جائے گا، ہم ہر کافر کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں اور وہ لوگ اس (دوزخ) میں (پڑے ہوئے) چلاویں گے، کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو (یہاں سے) نکال لیجئے ہم (اب خوب) اچھے (اچھے) کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو (پہلے) کیا کرتے تھے (ارشاد ہوگا کہ) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور (صرف عمر ہی دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ) تمہارے پاس (ہماری طرف سے) ڈرانے والا (یعنی پیغمبر) بھی پہنچا تھا (خواہ بواسطہ یا بلاواسطہ مگر تم نے ایک نہ سنی) سو (اب اس نہ ماننے کا) مزہ چکھو کہ ایسے ظالموں کا (یہاں) کوئی مددگار نہیں (ہم تو بوجہ ناراضی کے مدد نہ کریں گے، اور دوسرے لوگ بوجہ عدم قدرت کے) ۔- معارف ومسائل - ان آیات سے پہلی آیت میں علماء حق جو عارف باللہ ہوں ان کی ایک ایسی صفت کا ذکر تھا جن کا تعلق قلب سے ہے، یعنی خشیة اللہ۔ مذکور الصدر پہلی آیت میں انہی اولیاء اللہ کی چند ایسی صفات کا ذکر ہے جو اعضاء وجوارح سے ادا ہوتی ہیں۔ ان میں پہلی صفت تلاوت قرآن ہے، اور مراد اس سے وہ لوگ ہیں جو تلاوت کتاب اللہ پر مداومت کرتے ہیں۔ یتلون بصیغہ مضارع اس کی طرف مشیر ہے۔ اور بعض حضرات نے اس جگہ یتلون اس کے لغوی معنے میں لیا ہے یعنی وہ عمل میں اتباع کرتے ہیں قرآن کا، مگر پہلی تفسیر راجح ہے۔ اگرچہ سیاق وسباق سے یہ بھی متعین ہے کہ تلاوت وہی معتبر ہے جس کے ساتھ قرآن پر عمل بھی ہو۔ مگر لفظ تلاوت اپنے معروف معنی میں ہے۔ اسی طرح حضرت مطرف بن عبداللہ ابن شخیر نے فرمایا ہے ھذہ آیة القراء یعنی یہ آیت قراء کے لئے ہے جو تلاوت قرآن کو اپنا مشغلہ زندگی بناتے ہیں۔- ان کی دوسری صفت اقامت صلوٰة اور تیسری اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے۔ خرچ کرنے کے ساتھ سرا وعلانیةً فرما کر اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ اکثر عبادات میں ریاء سے بچنے کے لئے خفیہ کرنا بہتر ہوتا ہے، مگر بعض اوقات مصالح دینیہ اس کو بھی مقتضی ہوتی ہیں کہ اعلان کے ساتھ کیا جائے، جیسے نماز جماعت کہ میناروں پر اذان دے کر اور زیادہ سے زیادہ اجتماع کے ساتھ علانیہ طور پر ادا کرنے کا حکم ہے۔ اسی طرح بعض اوقات اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا اظہار بھی دوسروں کی ترغیب کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ حضرات فقہاء نے نماز اور اتفاق فی سبیل اللہ دونوں میں یہ تفصیل فرمائی ہے کہ فرض و واجب یا سنت موکدہ ہے اس کو تو علانیہ کرنا بہتر ہے اس کے سوا نفلی نماز کا خفیہ ادا کرنا بہتر ہے۔ اسی طرح جہاں مال خرچ کرنا فرض یا واجب ہے، جیسے زکوٰة فرض یا صدقة الفطر یا قربانی ان میں علانیہ خرچ کرنا بہتر اور افضل ہے، باقی صدقات نافلہ کو خفیہ خرچ کرنا افضل ہے۔- جو لوگ ان تینوں صفات کے حامل ہوں یعنی تلاوت قرآن پر مداومت اور اقامت صلوٰة اور اللہ کی راہ میں خوش دلی کے ساتھ مال خرچ کرنا کہ صرف فرض و واجب ہی کی حد تک نہ رہے بلکہ نفلی صدقات بھی کریں۔ آگے ان کی ایک صفت یہ بتلائی کہ (آیت) یرجون تجارة لن تبور، لن تبور، بوار سے مشتق ہے، جس کے معنی ضائع ہوجانے کے ہیں۔ معنی آیت کے یہ ہیں کہ صفات مذکورہ کے پابند مومنین ایک ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوتا۔ امیدوار ہونے کے لفظ سے اس طرف اشارہ ہے کہ مومن کو دنیا میں اپنے کسی بھی نیک عمل پر یقین کرنے کی گنجائش نہیں ہے، کہ یہ ہمیں ضرور بخشوا دے گا، اور اس کا اجر ثواب ہمیں یقینی ملے گا۔ کیونکہ مکمل مغفرت اور بخشش تو کسی انسان کی بھی صرف اس کے عمل سے نہیں ہو سکتی، کیونکہ انسان کتنا بھی عمل صالح کرے مگر وہ اللہ تعالیٰ کی عظمت و عبادت کے حق کو پورا نہیں کرسکتا۔ اس لئے مغفرت سب کی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں ہوگی، جیسا کہ ایک حدیث میں اس مضمون کی تصریح آئی ہے۔ اس کے علاوہ ہر نیک عمل کے ساتھ آدمی کو اس خطرہ سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے کہ بہت سے نیک اعمال میں کوئی مخفی کید شیطانی یا نفسانی شامل ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مقبول نہیں ہوتا، یا بعض اوقات ایک نیک عمل کے ساتھ کوئی برا عمل ایسا ہوجاتا ہے جو نیک عمل کی مقبولیت سے بھی مانع ہوجاتا ہے۔ اس لئے آیت میں لفظ یرجون لا کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ سارے اعمال صالحہ کی پابندی کے بعد بھی کسی کو اپنی نجات اور درجات عالیہ کا یقین کرلینے کا حق نہیں، بس زیادہ سے زیادہ امید ہی کرسکتے ہیں۔ (روح)- اعمال صالحہ کی مثال تجارت سے :- اس آیت میں ان اعمال صالحہ مذکورہ کو بطور تشبیہ و مثال ایک تجارت سے تعبیر کیا گیا، جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ کو تجارت سے تعبیر فرمایا ہے : (آیت) ھل ادلکم علیٰ تجارة تنجیکم من عذاب الیم، تو منون باللہ و رسولہ وتجاھدون فی سبیل اللہ باموالکم وانفسکم، تجارت کی مثال اس وصف میں ہے کہ تاجر اپنا سرمایہ اور وقت کسی کام میں اس وقت لگاتا ہے کہ اس سے اس کا سرمایہ بڑھ جائے گا، اور نفع پہنچے گا۔ لیکن دنیا کی ہر تجارت میں نفع کے ساتھ نقصان و خسارہ کا بھی احتمال لگا رہتا ہے۔ آیت مذکورہ میں تجارت کے ساتھ لن تبور کا لفظ بڑھا کر اشارہ کردیا کہ اس تجارت آخرت میں نقصان و خسارہ کا کوئی احتمال نہیں۔ اور اللہ کے نیک بندے جو اعمال صالحہ میں مشقت و محنت اٹھاتے ہیں وہ عام تجارتوں کی طرح تجارت نہیں کرتے، بلکہ ایک ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوتا۔ اور ان کی امیدواری کا ذکر کرنا اشارہ خفی اس طرف ہے کہ اللہ تعالیٰ کریم الکرما ہیں، وہ امیدواروں کی امید کو قطع نہیں کریں گے بلکہ پورا کریں گے، بلکہ اگلے جملے میں یہ بھی فرما دیا کہ ان کی امید تو صرف اپنے عمل کا پورا بدلہ ملنے تک محدود ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے ان کی امیدوں سے بھی زیادہ عطا فرمائیں گے۔ (آیت) لیوفیہم اجورھم ویزیدھم من فضلہ، لفظ لیوفیہم کا تعلق لن تبور سے ہے۔ یعنی ان کی تجارت خسارے کی متحمل نہیں بلکہ ان کے اجر وثواب ان کو پورے پورے ملیں گے، اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان کے مظنونہ اجر وثواب سے بھی کہیں زیادہ عطا فرمائیں گے۔- اس فضل و زیادتی میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی شامل ہے کہ مومن کے عمل کا اجر حق تعالیٰ چند در چند کر کے عطا فرماتے ہیں، جس کی ادنیٰ مقدار عمل کا دس گنا اور زیادہ سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے، اور دوسرے گناہگاروں کے حق میں ان کی سفارش قبول کرنا اس فضل میں شامل ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس فضل کی تفسیر میں یہ روایت کی ہے کہ ان لوگوں پر دنیا میں جس نے احسان کیا تھا یہ لوگ اس کی سفارش کریں گے تو باوجود سزائے جہنم کے مستحق ہونے کے ان کی سفارش سے ان کو نجات ہوجائے گی۔ (تفسیر مظہری بحوالہ ابن ابی حاتم) (اور یہ ظاہر ہے کہ شفاعت صرف اہل ایمان کے لئے ہو سکے گی، کافر کی شفاعت کی کسی کو اجازت نہ ہوگی) اسی طرح جنت میں حق تعالیٰ کا دیدار بھی اس فضل کا جزء اعظم ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللہِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً يَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَـبُوْرَ۝ ٢٩ۙ- تلو - تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] - ( ت ل و ) تلاہ ( ن )- کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - اقامت - والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً- [ الفرقان 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ- «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ- [هود 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4]- الاقامتہ - ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔- صلا - أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] - والصَّلاةُ ،- قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] - وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق :- تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة 157] ، - ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار،- كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة،- أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103]- ( ص ل ی ) الصلیٰ- ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ - الصلوۃ - بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، - جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔- اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں - چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔- نفق - نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] - ( ن ف ق ) نفق - ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - سرر (كتم)- وسَارَّهُ : إذا أوصاه بأن يسرّه، وتَسَارَّ القومُ ، وقوله : وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس 54] ، أي : کتموها - ( س ر ر ) الاسرار - اور تسارالقوم کے معنی لوگوں کا باہم ایک دوسرے کو بات چھپانے کی وصیت کرنے یا باہم سر گوشی کرنے کے ہیں اور آیت ۔ وَأَسَرُّوا النَّدامَةَ [يونس 54] ( پچھتائیں گے ) اور ندامت کو چھپائیں گے ۔ تو یہاں اسروا کے معنی چھپانے کے ہیں ۔ - علن - العَلَانِيَةُ : ضدّ السّرّ ، وأكثر ما يقال ذلک في المعاني دون الأعيان، يقال : عَلَنَ كذا، وأَعْلَنْتُهُ أنا . قال تعالی: أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] ، أي : سرّا وعلانية . وقال :- ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] . وعِلْوَانُ الکتابِ يصحّ أن يكون من : عَلَنَ اعتبارا بظهور المعنی الذي فيه لا بظهور ذاته .- ( ع ل ن ) العلانیہ - ظاہر اور آشکار ایہ سر کی ضد ہے اور عام طور پر اس کا استعمال معانی یعنی کیس بات ظاہر ہونے پر ہوتا ہے اور اجسام کے متعلق بہت کم آتا ہے علن کذا کے معنی میں فلاں بات ظاہر اور آشکار ہوگئی اور اعلنتہ انا میں نے اسے آشکار کردیا قرآن میں ہے : ۔ أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْراراً [ نوح 9] میں انہیں بر ملا اور پوشیدہ ہر طرح سمجھا تا رہا ۔ ما تُكِنُّ صُدُورُهُمْ وَما يُعْلِنُونَ [ القصص 69] جو کچھ ان کے سینوں میں مخفی ہے اور جو یہ ظاہر کرتے ہیں علوان الکتاب جس کے معنی کتاب کے عنوان اور سر نامہ کے ہیں ہوسکتا ہے کہ یہ علن سے مشتق ہو اور عنوان سے چونکہ کتاب کے مشمو لات ظاہر ہوتے ہیں اس لئے اسے علوان کہہ دیا گیا ہو ۔- رَّجَاءُ- ظنّ يقتضي حصول ما فيه مسرّة، وقوله تعالی: ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] ، قيل : ما لکم لا تخافون وأنشد :- إذا لسعته النّحل لم يَرْجُ لسعها ... وحالفها في بيت نوب عوامل - ووجه ذلك أنّ الرَّجَاءَ والخوف يتلازمان، قال تعالی: وَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] ، وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] ، وأَرْجَتِ النّاقة : دنا نتاجها، وحقیقته : جعلت لصاحبها رجاء في نفسها بقرب نتاجها . والْأُرْجُوَانَ : لون أحمر يفرّح تفریح الرّجاء .- اور رجاء ایسے ظن کو کہتے ہیں جس میں مسرت حاصل ہونے کا امکان ہو۔ اور آیت کریمہ ؛۔ ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقاراً [ نوح 13] تو تمہیں کیا بلا مار گئی کہ تم نے خدا کا و قروں سے اٹھا دیا ۔ میں بعض مفسرین نے اس کے معنی لاتخافون کہئے ہیں یعنی کیوں نہیں ڈرتے ہوجیسا کہ شاعر نے کہا ہے ۔ ( طویل) (177) وجالفھا فی بیت نوب عواسل جب اسے مکھی ڈنگ مارتی ہے تو وہ اس کے ڈسنے سے نہیں ڈرتا ۔ اور اس نے شہد کی مکھیوں سے معاہد کر رکھا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے ۔ کہ خوف ورجاء باہم متلازم ہیں لوجب کسی محبوب چیز کے حصول کی توقع ہوگی ۔ ساتھ ہی اس کے تضیع کا اندیشہ بھی دامن گیر رہے گا ۔ اور ایسے ہی اس کے برعکس صورت میں کہ اندیشہ کے ساتھ ہمیشہ امید پائی جاتی ہے ) قرآن میں ہے :َوَتَرْجُونَ مِنَ اللَّهِ ما لا يَرْجُونَ [ النساء 104] اور تم کو خدا سے وہ وہ امیدیں ہیں جو ان کو نہیں ۔ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ [ التوبة 106] اور کچھ اور لوگ ہیں کہ حکم خدا کے انتظار میں ان کا معاملہ ملتوی ہے ۔ ارجت الناقۃ اونٹنی کی ولادت کا وقت قریب آگیا ۔ اس کے اصل معنی یہ ہیں کہ اونٹنی نے اپنے مالک کو قرب ولادت کی امید دلائی ۔ الارجون ایک قسم کا سرخ رنگ جو رجاء کی طرح فرحت بخش ہوتا ہے ۔- تجر - التِّجَارَة : التصرّف في رأس المال طلبا للربح، يقال : تَجَرَ يَتْجُرُ ، وتَاجِر وتَجْر، کصاحب وصحب، قال : ولیس في کلامهم تاء بعدها جيم غير هذا اللفظ «1» ، فأمّا تجاه فأصله وجاه، وتجوب التاء للمضارعة، وقوله تعالی: هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] ، فقد فسّر هذه التجارة بقوله :- تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] ، إلى آخر الآية . وقال : اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ، تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] .- قال ابن الأعرابي «3» : فلان تاجر بکذا، أي : حاذق به، عارف الوجه المکتسب منه .- ( ت ج ر ) تجر ( ن ) تجرا وتجارۃ کے معنی نفع کمانے کے لئے المال کو کاروبار میں لگانے کے ہیں ۔ صیغہ صفت تاجر وتجور جیسے صاحب وصحت یاد رہے ۔ کہ عربی زبان میں اس کے سو ا اور کوئی لفظ ایسا نہیں ہے ۔ جس تاء ( اصل ) کے بعد جیم ہو ۔ رہا تجاۃ تو اصل میں وجاہ ہے اور تجوب وغیرہ میں تاء اصلی نہیں ہے بلکہ نحل مضارع کی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلى تِجارَةٍ تُنْجِيكُمْ مِنْ عَذابٍ أَلِيمٍ [ الصف 10] میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو عذاب الیم سے مخلص دے ۔ میں لفظ تجارہ کی تفسیر خود قرآن نے بعد کی آیت ؛ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ «2» [ الصف 11] آلایہ میں بیان فرمادی ہے ۔ نیز فرمایا ؛ اشْتَرَوُا الضَّلالَةَ بِالْهُدى فَما رَبِحَتْ تِجارَتُهُمْ [ البقرة 16] ہدایت چھوڑ کر گمراہی خریدی تو نہ ان کی تجارت ہی نہیں کچھ نفع دیا ۔ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجارَةً عَنْ تَراضٍ مِنْكُمْ [ النساء 29] ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کالین دین ہو ( اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہوجائے تو وہ جائز ہے ) تِجارَةً حاضِرَةً تُدِيرُونَها بَيْنَكُمْ [ البقرة 282] سود ا وست بدست ہو جو تم آپس میں لیتے دیتے ہو ۔ ابن لاعرابی کہتے ہیں کہ فلان تاجر بکذا کے معنی ہیں کہ فلاں اس چیز میں ماہر ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا جانتا ہے ۔- بور - البَوَار : فرط الکساد، ولمّا کان فرط الکساد يؤدّي إلى الفساد۔ كما قيل : كسد حتی فسد۔ عبّر بالبوار عن الهلاك، يقال : بَارَ الشیء يَبُورُ بَوَاراً وبَوْراً ، قال عزّ وجل : تِجارَةً لَنْ تَبُورَ [ فاطر 29] ، وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُورُ [ فاطر 10] ، وروي : «نعوذ بالله من بوار الأيّم» ، وقال عزّ وجل : وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوارِ [إبراهيم 28] ، ويقال : رجل حائر بَائِر، وقوم حور بُور . وقال عزّ وجل : حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكانُوا قَوْماً بُوراً [ الفرقان 18] ، أي : هلكى، جمع : بَائِر .- البوار ( ن )- اصل میں بارالشئ بیور ( ، بورا وبورا کے معنی کسی چیز کے بہت زیادہ مندا پڑنے کے ہیں اور چونکہ کسی چیز کی کساد بازاری اس کے فساد کا باعث ہوتی ہے جیسا کہ کہا جانا ہے کسد حتیٰ فسد اس لئے بوار بمعنی ہلاکت استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تِجارَةً لَنْ تَبُورَ [ فاطر 29] اس تجارت ( کے فائدے ) کے جو کبھی تباہ نہیں ہوگی ۔ وَمَكْرُ أُولئِكَ هُوَ يَبُورُ [ فاطر 10] اور ان کا مکرنا بود ہوجائیگا ۔ ایک روایت میں ہے (43) نعوذ باللہ من بوارالایم کہ ہم بیوہ کے مندا پن سے پناہ مانگتے ہیں یعنی یہ کہ اس کے لیے کہیں سے پیغام نکاح نہ آئے ۔ وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دارَ الْبَوارِ [إبراهيم 28] اور اپنی قوم کو تباہی کے گھرا تارا ۔ رجل جائر بائر مرد سر گشتہ خود رائے ۔ جمع کے لئے حور بور کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ ؛۔ حَتَّى نَسُوا الذِّكْرَ وَكانُوا قَوْماً بُوراً [ الفرقان 18] یہاں تک کہ وہ تیری یا د کو بھول گئے اور یہ ہلاک ہونے والے لوگ تھے ۔ میں بوبائر کے جمع ہے بعض نے کہا ہے کہ بور مصدر ہے اور واحد و جمع دونوں کی صفت واقع ہوتا ہے جیسے ۔ رجل بورو قوم بور

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جو حضرات یعنی حضرت ابوبکر اور ان کے ساتھی قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور پانچوں نمازوں کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو مال دیا ہے اس میں سے خفیہ طور پر بھی اور علانیہ طور پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ اور دائمی نفع والی تجارت یعنی جنت کے امیدوار ہیں جو کبھی ماند نہ ہوگی۔- شان نزول : اِنَّ الَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ (الخ)- عبدالغنی بن سعید ثقفی نے اپنی تفسیر میں حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ حسین بن حارث بن عبدالمطلب قرشی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ” یقینا وہ لوگ جو تلاوت کرتے ہیں اللہ کی کتاب کی اور نماز قائم کرتے ہیں “- وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً ” اور خرچ کرتے ہیں اس میں سے جو ہم نے انہیں دیا ہے خفیہ اور اعلانیہ “- یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ ” وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں کبھی خسارہ نہیں ہوگا۔ “- اللہ کے راستے میں جان و مال خرچ کرنے کو قرآن میں تجارت سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ سورة الصف میں اس حوالے سے پہلے اہل ِایمان سے سوال کیا گیا : یٰٓــاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ہَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ ۔ ” اے اہل ایمان کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کے بارے میں بتائوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچا لے ؟ “ اور پھر جواب میں یوں فرمایا گیا : تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْط (آیت ١١) ” (وہ تجارت یہ ہے کہ) تم ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کے راستے میں جہاد کرو اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ ۔ “- کسی بھی کاروبار اور تجارت کو کامیاب کرنے کے لیے سرمایہ اور محنت دونوں چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چناچہ جس طرح دنیا میں تم اپنی تجارت کو فروغ دینے اور زیادہ منافع کمانے کے لیے بڑھ چڑھ کر سرمایہ لگاتے ہو اور پھر اس میں دن رات کی محنت سے جان بھی کھپاتے ہو ‘ اسی طرح جان و مال لگا کر اگر تم اللہ کے ساتھ تجارت کرو گے تو اس میں تمہیں کبھی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا اور منافع بھی ایسا ملے گا کہ تم آخرت کے عذاب سے چھٹکارا پا کر ہمیشہ کی کامیابی سے ہمکنار ہو جائو گے۔- آیت زیر مطالعہ میں نیک اعمال کی ترغیب کو عام فہم بنانے کے لیے تجارت کی تشبیہہ کا استعمال کیا گیا ہے۔ دراصل قرآن مجید بنیادی باتوں کو سمجھانے کے لیے عموماً ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو عام لوگوں کی سمجھ میں بھی آسانی سے آجائیں۔ جیسے سورة التوبہ کی آیت ١١١ میں فرمایا گیا : اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط ” یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ “ اس آیت میں بھی ایک ” سودے “ کی بات کی گئی ہے تاکہ ہر آدمی مضمون کے اصل مدعا کو سمجھ سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرلے جو اس کے ساتھ اپنے مال و جان کا سودا کرنے والے ہیں

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani