الَّذِيْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ : ” دَارَ الْمُقَامَةِ “ ہمیشہ رہنے کا گھر، جس سے کبھی نکالا نہیں جائے گا۔ - مِنْ فَضْلِهٖ : یعنی جنت میں داخلہ اور ہمیشہ اس میں رہنا محض اللہ کے فضل سے ہے، کیونکہ آدمی کے اعمال تو ان نعمتوں کے شکر کے لیے بھی کافی نہیں جو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اسے عطا کی ہیں، پھر اگر کوئی نیکی کی ہے تو محدود وقت میں کی ہے، اس پر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت محض اللہ کا فضل ہے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا، آپ فرماتے تھے : ( لَنْ یُّدْخِلَ أَحَدًا عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ ) ” کسی شخص کا عمل بھی اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ “ صحابہ نے کہا : ” تو کیا آپ کو بھی نہیں اے اللہ کے رسول ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( لَا، وَ لَا أَنَا إِلَّا أَنْ یَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰہُ بِفَضْلٍ وَ رَحْمَۃٍ ) [ بخاري، المرضٰی، باب تمنی المریض الموت : ٥٦٧٣ ]” نہیں، مجھے بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے فضل و رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔ “ - لَا يَمَسُّنَا فِيْهَا نَصَبٌ وَّلَا يَمَسُّنَا فِيْهَا لُغُوْبٌ : یعنی ہماری تمام محنتوں اور تکلیفوں کا خاتمہ ہوگیا۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” رہنے کا گھر اس سے پہلے کوئی نہ تھا، ہر جگہ چل چلاؤ اور روزی کا غم، دشمنوں کا ڈر اور رنج اور مشقت، وہاں پہنچ کر سب گئے۔ “ (موضح)
الذی احلنا دارالمقامة من فضلہ لا یمسنا فیہا نصب ولا یمسنا فیہا لغوب، اس آیت میں جنت کی چند خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ اول یہ کہ وہ دارالمقامة ہے، اس کے زوال یا وہاں سے نکالے جانے کا کسی وقت خطرہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ وہاں کسی کو کوئی غم پیش نہ آئے گا، تیسرے یہ کہ وہاں کسی کو تھکان بھی محسوس نہیں ہوگا جیسے دنیا میں آدمی کو تھکان ہوتا ہے، کام چھوڑ کر نیند کی ضرورت محسوس کرتا ہے، جنت اس سے بھی پاک ہوگی۔ بعض روایات حدیث میں بھی یہ مضمون مذکور ہے۔ (مظہری)
الَّذِيْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖ ٠ ۚ لَا يَمَسُّـنَا فِيْہَا نَصَبٌ وَّلَا يَمَسُّـنَا فِيْہَا لُغُوْبٌ ٣٥- حلَ- أصل الحَلّ : حلّ العقدة، ومنه قوله عزّ وجلّ : وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] ، وحَللْتُ : نزلت، أصله من حلّ الأحمال عند النزول، ثم جرّد استعماله للنزول، فقیل : حَلَّ حُلُولًا، وأَحَلَّهُ غيره، قال عزّ وجلّ : أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] ،- ( ح ل ل ) الحل - اصل میں حل کے معنی گرہ کشائی کے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسانِي[ طه 27] اور میری زبان کی گرہ کھول دے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں اور حللت کے معنی کسی جگہ پر اترنا اور فردکش ہونا بھی آتے ہیں ۔ اصل میں یہ سے ہے جس کے معنی کسی جگہ اترنے کے لئے سامان کی رسیوں کی گر ہیں کھول دینا کے ہیں پھر محض اترنے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ لہذا کے معنی کسی جگہ پر اترنا ہیں اور احلۃ کے معنی اتارنے کے قرآن میں ہے : ۔ أَوْ تَحُلُّ قَرِيباً مِنْ دارِهِمْ [ الرعد 31] یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی - دار - الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ، أي : الجنة، - ( د و ر ) الدار ۔- منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ - مَقامُ- والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] ، ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] ، وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] ، وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] ، وقوله : وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] ، خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] ، وقال : وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ، وقال : أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قال الأخفش : في قوله قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] : إنّ المَقَامَ المقعد، فهذا إن أراد أنّ المقام والمقعد بالذّات شيء واحد، وإنما يختلفان بنسبته إلى الفاعل کالصّعود والحدور فصحیح، وإن أراد أنّ معنی المقام معنی المقعد فذلک بعید، فإنه يسمی المکان الواحد مرّة مقاما إذا اعتبر بقیامه، ومقعدا إذا اعتبر بقعوده، وقیل : المَقَامَةُ : الجماعة، قال الشاعر : 379-- وفيهم مَقَامَاتٌ حسان وجوههم - «1» وإنما ذلک في الحقیقة اسم للمکان وإن جعل اسما لأصحابه . نحو قول الشاعر :- 380-- واستبّ بعدک يا كليب المجلس - «2» فسمّى المستبّين المجلس .- المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ ذلِكَ لِمَنْ خافَ مَقامِي وَخافَ وَعِيدِ [إبراهيم 14] اس شخص کے لئے ہے جو قیامت کے روز میرے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرے ۔ وَلِمَنْ خافَ مَقامَ رَبِّهِ [ الرحمن 46] اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ۔ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقامِ إِبْراهِيمَ مُصَلًّى [ البقرة 125] کی جگہ بنا لو ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ مَقامُ إِبْراهِيمَ [ آل عمران 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراھیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ [ الدخان 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ خَيْرٌ مَقاماً وَأَحْسَنُ نَدِيًّا [ مریم 73] مکان کس کے اچھے اور مجلس کس کی بہتر ہیں ۔ وَما مِنَّا إِلَّا لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ [ الصافات 164] ہم میں سے ہر ایک کا ایک مقرر مقام ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنَا آتِيكَ بِهِ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ مِنْ مَقامِكَ [ النمل 39] قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھیں میں اس کو آپ کے پاس حاضر کرتا ہوں ۔ کی تفسیر میں اخفش نے کہا ہے کہ یہاں مقام بمعنی مقعد یعنی نشستگاہ کے ہیں اگر اخفش کا مقصد اس سے یہ ہے کہ مقام اور مقصد بالزات ایک ہی چیز کے دو نام ہیں صرف نسبت ( لی ) الفاعل کے لحاظ سے دونوں میں فرق پایا جاتا ( یعنی ایک ہی جگہ کو کسی شخص کے ہاں اور بیٹھنے کے اعتبار سے مقعد کہا جاتا ہے جس طرح کہ صعود اور حدور کے الفاظ ہیں ( کہ ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور اس سے نیچے اترنے کے لحاظ سے حدود کہا جاتا ہے ) تو بجا ہے اور اگر ان کا مقصد یہ ہے کہ لغت میں مقام بمعنی نے المقامتہ کے معنی جماعت بھی کئے ہیں ۔ چناچہ شاعر نے کہا ہے ( الطویل ) ( 322 ) ونیھم مقامات حسان وجوھم اور ان میں خوڈ لوگوں کی جماعتیں ہیں مگر یہ بھی دراصل ظرف مکان ہے اگرچہ ( مجازا ) اصھاب مقام مراد ہیں جس طرح کہ ا ( الکامل ) ؎( 327 ) واستب بعدک یاکلیب المجلس اے کلیب تیرے بعد لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے ہیں ۔ میں مجلس سے اہل مجلس مراد ہیں ۔- فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - نصب ( تعب)- والنُّصْبُ والنَّصَبُ : التَّعَبُ ، وقرئ : بِنُصْبٍ وَعَذابٍ [ ص 41] و ( نَصَبٍ ) وذلک مثل : بُخْلٍ وبَخَلٍ. قال تعالی: لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر 35] والنَّصَبُ : التَّعَبُ. قال تعالی: لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] . وقد نَصِبَ فهو نَصِبٌ ونَاصِبٌ ، قال تعالی:- عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية 3] .- ( ن ص ب ) نصب - اور نصب ونصب کے معنی تکلیف ومشقت کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ لا يَمَسُّنا فِيها نَصَبٌ [ فاطر 35] ایذا اور تکلیف میں ایک قراءت نصب بھی ہے اور یہ بخل وبخل کی طرح ہے قرآن میں ہے : ۔ یہاں نہ ہم کو رنج پہنچے گا ۔ النصب کے معنی مشقت کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف 62] اس سفر سے ہم کو بہت تھکان ہوگئی ہے ۔ اور نصب ( س ) فھو نصب وناصب کے معنی تھک جائے یا کسی کام میں سخت محنت کرنے کے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ عامِلَةٌ ناصِبَةٌ [ الغاشية 3] سخت محنت کرنے والے تھکے ماندے ۔- لغب - اللُّغُوبُ : التّعب والنصب . يقال : أتانا ساغبا لَاغِباً أي : جائعا تعبا . قال : وَما مَسَّنا مِنْ لُغُوبٍ [ ق 38] . وسهم لَغِبٌ: إذا کان قذذه ضعیفة، ورجل لَغِبٌ: ضعیف بيّن اللَّغَابَةِ. وقال أعرابيّ : فلان لَغُوبٌ أحمق، جاء ته کتابي فاحتقرها . أي : ضعیف الرّأي، فقیل له في ذلك : لم أنّثت الکتاب وهو مذكّر ؟ فقال : أولیس صحیفة - ( ل غ ب ) اللغوب کے معنی بہت زیادہ درماندہ ہونے اور تھک جانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے : وہ ہمارے پاس بھوکا اور تھکاہا را ہوکر پہنچا ۔ قرآن میں ہے : وَما مَسَّنا مِنْ لُغُوبٍ [ ق 38] اور ہم کو ذر ا بھی تکان محسوس نہیں ہوئی ۔ سھم لغیب ۔ وہ تیر جس کے پر کمزور ہوں ۔ رجل لغب کاہل اور کمزور رائے آدمی ۔ ایک اعرابی کا قول ہے ۔ فلان لغوب احمق جاء تہ کتابی فاحتقرہ کہ فلان شخص بڑا بیوقوف اور احمق ہے کہ اس نے میرے خط کو حقیر سمجھا یہاں لغوب کے معنی کمزور رائے آدمی کے ہیں ۔ اسپر اعرابی سے کسی نے سوال کیا کہ کتاب تو مذکر ہے پھر جاء تہ کیوں کہا تو اس نے جواب دیا الیس الکتاب بصحیفۃ کہ کیا کتاب بھی ایک صحیفہ نہیں ہے ( اور صحیفہ مونث ہے )
جس نے ہمیں اپنے فضل سے جنت میں اتارا کہ جہاں نہ ہمیں کوئی تکلیف پہنچے اور نہ کوئی تھکان پہنچے گی۔- شان نزول : لَا يَمَسُّنَا فِيْهَا نَصَبٌ (الخ)- اور امام بیہقی نے کتاب البعث میں اور ابن ابی حاتم نے نفیع بن حارث کے واسطہ سے حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ نیند ایسی چیز ہے کہ جس سے اللہ تعالیٰ دنیا میں ہماری آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے تو کیا جنت میں بھی سونا میسر ہوگا۔ آپ نے فرمایا نہیں سونا تو موت کا شریک ہے اور جنت میں موت نہیں ہوگی اس نے عرض کیا تو پھر ان کی راحت کا کیا سامان ہوگا۔ رسول اکرم پر سوال گراں گزرا آپ نے فرمایا وہاں ہر ایک کو راحت ہوگی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت ٣٥ نِ الَّذِیْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَۃِ مِنْ فَضْلِہٖ ” جس نے ہمیں ہمیشہ آباد رہنے والے گھر میں لااتارا ہے اپنے خاص فضل سے۔ “- اللہ تعالیٰ نے ہم پر خاص فضل اور کرم فرمایا ہے کہ اس نے ہمیں جنت میں جگہ عطا کی ہے۔ اہل جنت کی اس سے ملتی جلتی دعا اس سے پہلے ہم سورة الاعراف کی آیت ٤٣ میں بھی پڑھ چکے ہیں : وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ہَدٰٹنَا لِہٰذَاقف وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَآ اَنْ ہَدٰٹنَا اللّٰہُج ” کل ُ تعریف اور کل شکر اس اللہ کا ہے جس نے ہمیں یہاں پہنچا دیا ‘ اور ہم ہرگز نہ پہنچ پاتے اگر اللہ ہی ہمیں نہ پہنچاتا۔ “- لَا یَمَسُّنَا فِیْہَانَصَبٌ وَّلَا یَمَسُّنَا فِیْہَا لُغُوْبٌ ” اب ہمیں اس میں نہ تو کوئی مشقت جھیلنی پڑے گی اور نہ ہی اس میں ہمیں کوئی تکان لاحق ہوگی۔ “
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :60 یعنی دنیا ہماری سفر حیات کی ایک منزل تھی جس سے ہم گزر آئے ہیں ، اور میدان حشر بھی اس سفر کا ایک مرحلہ تھا جس سے ہم گزر لیے ہیں ، اب ہم اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں سے نکل کر پھر کہیں جانا نہیں ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :61 بالفاظ دیگر ہماری تمام محنتوں اور تکلیفوں کا خاتمہ ہو چکا ہے ۔ اب یہاں ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا پڑتا جس کے انجام دینے میں ہم کو مشقت پیش آتی ہو اور جس سے فارغ ہو کر ہم تھک جاتے ہوں ۔