[ ٣٩] یہ جملہ بالخصوص تیسرے طبقہ کے لوگوں کا وظیفہ ہوگا۔ جنہوں نے قیامت کے دن کی ساری مدت اس فکر میں گزاری ہوگی کہ دیکھیں کہ ان کے حق میں کیا فیصلہ صادر ہوتا ہے پھر جب انہیں جنت میں داخلہ کی اجازت مل جائے گی تو خوشی سے اللہ کی حمد بیان کریں گے۔ جس نے ان کے سارے غم و فکر دور کردیئے۔ ہمارا پروردگار تو واقعی بڑا بخشنے والا اور بڑا قدر دان ہے۔ جس نے ہماری خطائیں تو معاف فرما دیں اور ہمارے اعمال سے بہت زیادہ ہمیں بدلہ عطا فرما دیا۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ہمارا کون سا ٹھکانا ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں جائے رہائش دی جو لازوال ہے۔ ہر طرح کی نعمتیں اور رزق پہلے سے ہی موجود ہے جس کے لئے ہمیں چنداں محنت و مشقت نہیں کرنی پڑے گی۔
وَقَالُوا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ : حزن کسی چیز کے ہاتھ سے نکلنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی دل کی کیفیت کا نام ہے، یعنی غم، جیسا کہ فرمایا : (لِّكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰي مَا فَاتَكُمْ ) [ الحدید : ٢٣ ] ” تاکہ تم اس پر غم نہ کرو جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے۔ “ دنیا میں انسان کو جو بھی ملا ہے وہ اس کے ہاتھ سے نکل جانے والا ہے، اس لیے دنیا میں جب تک کوئی نعمت انسان کے پاس رہتی ہے وہ اس خوف میں رہتا ہے کہ یہ نعمت مجھ سے چھن نہ جائے اور جب چھنتی ہے تو اسے غم ہوتا ہے۔ جنت میں داخلے اور موت کے ذبح کردیے جانے کے بعد اہل جنت کو نہ کوئی نعمت چھننے کا خوف ہوگا، یعنی ” لا خوف علیھم “ اور نہ کسی نعمت کے ہاتھ سے نکل جانے کا غم، یعنی ” ولاھم یحزنون “ کیونکہ نہ ان کے جمال میں کمی ہوگی، نہ کھانے پینے میں، نہ ان کی قوت اور جوانی میں، نہ ان کی لذتوں میں اور نہ ہمیشہ رہائش میں تو پھر غم کس بات کا، اس لیے وہ اللہ کا شکر ادا کریں گے، جس نے ان سے ہر قسم کا غم دور کردیا۔ دنیا کی ہر نعمت تو ختم ہونے کی وجہ سے غم کا باعث بنتی تھی، یہ جنت ہی ہے جس کی کوئی نعمت غم کا باعث نہیں بنے گی۔ ابن الرومی نے کہا ہے - وَ مَنْ سَرَّہُ أَلَّا یَرٰی مَا یَسُوْءُہُ- فَلَا یَتَّخِذْ شَیْءًا یُبَالِيْ لَہُ فَقْدًا - ” جسے پسند ہو کہ وہ غمگین کرنے والی کوئی چیز نہ دیکھے تو وہ ایسی کوئی چیز نہ پکڑے جس کے گم ہونے کی اسے فکر ہو۔ “- اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۨ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے اسی سورت کی آیت (٣٠) ۔
جو شخص دنیا میں سونے چاندی کے برتن اور ریشمی لباس استعمال کرے گا جنت میں ان سے محروم ہوگا :- حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ریشمی لباس نہ پہنو، اور سونے چاندی کے برتنوں میں پانی نہ پیو، اور نہ ان کی پلیٹ کھانے میں استعمال کرو، کیونکہ یہ چیزیں دنیا میں کفار کے لئے ہیں اور تمہارے لئے آخرت میں (بخاری ومسلم)- اور حضرت عمر نے فرمایا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ جس مرد نے دنیا میں ریشمی کپڑا پہنا وہ آخرت میں نہ پہن سکے گا۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت ابو سعید خدری کی ایک روایت میں ہے کہ دنیا میں ریشمی لباس پہننے والا مرد آخرت میں اس سے محروم رہے گا، اگرچہ جنت میں چلا بھی جائے۔ (مظہری)- (آیت) وقالوا الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن، یعی اہل جنت جنت میں داخل ہونے کے وقت کہیں گے، شکر ہے اللہ کا جس نے ہمارا غم دور کردیا۔ اس غم سے کیا مراد اس میں ائمہ تفسیر کے مختلف اقوال ہیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ سارے ہی رنج وغم اس میں داخل ہیں۔ دنیا میں انسان کتنا ہی بڑا بادشاہ بن جائے یا نبی و ولی رنج و غم سے کسی کو چھٹکارا نہیں - دریں دنیا کسے بےغم نباشد - وگر باشد بنی آدم نباشد - اس دنیا میں غموں اور فکروں سے کسی نیک یا بد کو نجات نہیں، اسی لئے اہل دانش دنیا کو دارالحزان کہتے ہیں۔ اس آیت میں جس غم کے دور کرنے کا ذکر ہے اس میں یہ دنیا کے غم بھی سب کے سب داخل ہیں، دوسرا غم وفکر قیامت اور حشر ونشر کا، تیسرا حساب و کتاب کا، چوتھا جہنم کے عذاب کا، اہل جنت سے اللہ تعالیٰ یہ سب غم دور فرما دیں گے۔- حضرت عبداللہ ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کلمہ لا الہ الا اللہ والوں میں نہ موت کے وقت کوئی وحشت ہوتی ہے، نہ قبر میں اور نہ محشر میں۔ گویا کہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ جس وقت یہ لوگ اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو یہ کہتے ہوں گے الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن، (رواہ الطبرانی، مظہری)- اور حضرت ابو الدردا کی حدیث جو اوپر گزری ہے اس میں جو یہ فرمایا ہے کہ یہ قول ان لوگوں کا ہوگا جو ظالم لنفسہ ہیں۔ کیونکہ محشر میں ان کو ابتداء سخت رنج وغم اور اضطراب پیش آئے گا۔ آخر میں دخول جنت کا حکم مل کر یہ رنج وغم دور ہوجائے گا۔ اس حدیث ابن عمر کے منافی نہیں، کیونکہ ظالم لنفسہ کو دوسروں کے غموں سے زیادہ ایک غم محشر میں بھی پیش آئے گا جو دخول جنت کے وقت دور ہوجائے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ قول تو سبھی اہل جنت کہیں گے، خواہ سابقین میں سے ہوں یا مقتصدین میں سے یا ظالم لنفسہ، لیکن ہر ایک کے غموں کی فہرست الگ الگ ہونا کچھ مستبعد نہیں۔- امام جصاص نے فرمایا کہ مومن کی شان یہی ہے کہ دنیا میں فکر وغم سے خالی نہ رہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اکابر صحابہ کے حالات میں ہے کہ یہ حضرات اکثر محزون و مغموم نظر آتے تھے۔
وَقَالُوا الْحَـمْدُ لِلہِ الَّذِيْٓ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ٠ ۭ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۨ ٣٤ۙ- حمد - الحَمْدُ لله تعالی: الثناء عليه بالفضیلة، وهو أخصّ من المدح وأعمّ من الشکر، فإنّ المدح يقال فيما يكون من الإنسان باختیاره، ومما يقال منه وفيه بالتسخیر، فقد يمدح الإنسان بطول قامته وصباحة وجهه، كما يمدح ببذل ماله وسخائه وعلمه، والحمد يكون في الثاني دون الأول، والشّكر لا يقال إلا في مقابلة نعمة، فكلّ شکر حمد، ولیس کل حمد شکرا، وکل حمد مدح ولیس کل مدح حمدا، ويقال : فلان محمود :- إذا حُمِدَ ، ومُحَمَّد : إذا کثرت خصاله المحمودة، ومحمد : إذا وجد محمودا «2» ، وقوله عزّ وجلّ :إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] ، يصحّ أن يكون في معنی المحمود، وأن يكون في معنی الحامد، وحُمَادَاكَ أن تفعل کذا «3» ، أي : غایتک المحمودة، وقوله عزّ وجل : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] ، فأحمد إشارة إلى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم باسمه وفعله، تنبيها أنه كما وجد اسمه أحمد يوجد وهو محمود في أخلاقه وأحواله، وخصّ لفظة أحمد فيما بشّر به عيسى صلّى اللہ عليه وسلم تنبيها أنه أحمد منه ومن الذین قبله، وقوله تعالی: مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ- [ الفتح 29] ، فمحمد هاهنا وإن کان من وجه اسما له علما۔ ففيه إشارة إلى وصفه بذلک وتخصیصه بمعناه كما مضی ذلک في قوله تعالی: إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] ، أنه علی معنی الحیاة كما بيّن في بابه «4» إن شاء اللہ .- ( ح م د ) الحمدللہ - ( تعالیٰ ) کے معنی اللہ تعالے کی فضیلت کے ساتھ اس کی ثنا بیان کرنے کے ہیں ۔ یہ مدح سے خاص اور شکر سے عام ہے کیونکہ مدح ان افعال پر بھی ہوتی ہے جو انسان سے اختیاری طور پر سرزد ہوتے ہیں اور ان اوصاف پر بھی جو پیدا کشی طور پر اس میں پائے جاتے ہیں چناچہ جس طرح خرچ کرنے اور علم وسخا پر انسان کی مدح ہوتی ہے اس طرح اسکی درازی قدو قامت اور چہرہ کی خوبصورتی پر بھی تعریف کی جاتی ہے ۔ لیکن حمد صرف افعال اختیار یہ پر ہوتی ہے ۔ نہ کہ اوصاف اضطرار ہپ پر اور شکر تو صرف کسی کے احسان کی وجہ سے اس کی تعریف کو کہتے ہیں ۔ لہذا ہر شکر حمد ہے ۔ مگر ہر شکر نہیں ہے اور ہر حمد مدح ہے مگر ہر مدح حمد نہیں ہے ۔ اور جس کی تعریف کی جائے اسے محمود کہا جاتا ہے ۔ مگر محمد صرف اسی کو کہہ سکتے ہیں جو کثرت قابل ستائش خصلتیں رکھتا ہو نیز جب کوئی شخص محمود ثابت ہو تو اسے بھی محمود کہہ دیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ [هود 73] وہ سزاوار تعریف اور بزرگوار ہے ۔ میں حمید بمعنی محمود بھی ہوسکتا ہے اور حامد بھی حماد اک ان تفعل کذا یعنی ایسا کرنے میں تمہارا انجام بخیر ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَمُبَشِّراً بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ [ الصف 6] اور ایک پیغمبر جو میرے بعد آئیں گے جن کا نام احمد ہوگا ان کی بشارت سناتاہوں ۔ میں لفظ احمد سے آنحضرت کی ذات کی طرف اشارہ ہے اور اس میں تنبیہ ہے کہ جس طرح آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نام احمد ہوگا اسی طرح آپ اپنے اخلاق واطوار کے اعتبار سے بھی محمود ہوں گے اور عیٰسی (علیہ السلام) کا اپنی بشارت میں لفظ احمد ( صیغہ تفضیل ) بولنے سے اس بات پر تنبیہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت مسیح (علیہ السلام) اور ان کے بیشتر وجملہ انبیاء سے افضل ہیں اور آیت کریمہ : مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ [ الفتح 29] محمد خدا کے پیغمبر ہیں ۔ میں لفظ محمد گومن وجہ آنحضرت کا نام ہے لیکن اس میں آنجناب کے اوصاف حمیدہ کی طرف بھی اشنار پایا جاتا ہے جیسا کہ آیت کریمہ : إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ اسْمُهُ يَحْيى [ مریم 7] میں بیان ہوچکا ہے کہ ان کا یہ نام معنی حیات پر دلالت کرتا ہے جیسا کہ اس کے مقام پرند کو ہے ۔- ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - حزن - الحُزْن والحَزَن : خشونة في الأرض وخشونة في النفس لما يحصل فيه من الغمّ ، ويضادّه الفرح، ولاعتبار الخشونة بالغم قيل : خشّنت بصدره : إذا حزنته، يقال : حَزِنَ يَحْزَنُ ، وحَزَنْتُهُ وأَحْزَنْتُهُ قال عزّ وجلّ : لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] - ( ح ز ن ) الحزن والحزن - کے معنی زمین کی سختی کے ہیں ۔ نیز غم کی وجہ سے جو بیقراری سے طبیعت کے اندر پیدا ہوجاتی ہے اسے بھی حزن یا حزن کہا جاتا ہے اس کی ضد فوح ہے اور غم میں چونکہ خشونت کے معنی معتبر ہوتے ہیں اس لئے گم زدہ ہوے کے لئے خشنت بصررہ بھی کہا جاتا ہے حزن ( س ) غمزدہ ہونا غمگین کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلى ما فاتَكُمْ [ آل عمران 153] تاکہ جو چیز تمہارے ہاتھ سے جاتی رہے ۔۔۔۔۔ اس سے تم اندو ہناک نہ ہو - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
مومن کے غم جنت میں دور ہوں گے - قول باری ہے (الحمد للہ الذی اذھب عنا المحزن۔ اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم دور کردیا) بعض سلف سے منقول ہے کہ مومن کی شان یہ ہے کہ وہ دنیا میں غمزدہ زندگی گزارے کیونکہ جب اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے تو اس وقت دنیاوی زندگی میں لاحق ہونے والا غم دور ہونے پر اس کا شکرادا کریں گے۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا (الدنیا سجن المومن۔ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے) ایک زاہد سے پوچھا گیا کہ زہاد کو دوسروں کی چیزوں کی کیوں محتاجی ہوتی ہے ؟ اس زاہد نے جواب دیا۔ ” احتیاج کی وجہ یہ ہے کہ دنیا اہل ایمان کے لئے قید خانہ ہے اور تمہیں معلوم ہے کو جو شخص قید خانہ میں ہوتا ہے وہ ان لوگوں سے مانگ کر کھاتا ہے جو اس سے باہر اور آزاد ہوتے ہیں۔
اور جنتی جنت میں کہیں گے کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ جس نے ہم سے موت وزوال اور قیامت کی سختیوں کے غم کو یا یہ کہ دنیوی مصائب کے غم کو دور کیا بیشک ہمارا پروردگار بڑے گناہوں کو معاف کرنے والا اور معمولی نیکیوں کا قبول کرنے والا ہے۔
آیت ٣٤ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَذْہَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ” اور وہ (جب جنت میں داخل ہوں گے تو) کہیں گے کہ ُ کل حمد اور کل شکر اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہم سے غم کو دور کردیا ۔ “- واضح رہے کہ یہ ان لوگوں کا ذکر ہو رہا ہے جنہیں قبل ازیں آیت ٣٢ میں ” سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ “ کا لقب ملا ہے۔ آیت ماقبل میں اس امت کے تین گروہوں کا ذکر ہوا ہے ‘ یعنی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ‘ درمیانی راہ پر چلنے والے اور بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے۔ یہاں پر ربط ِکلام کو مدنظر رکھا جائے تو آیات ٣٣ ‘ ٣٤ اور ٣٥ کے مضمون کا تعلق آیت ٣٢ کے آخری الفاظ سے ہے۔ یعنی ان آیات میں امت کے مذکورہ آخری گروہ (سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ ) کو عطا کیے جانے والے انعامات کا ذکر ہے۔ البتہ کچھ لوگ اس کی تعبیر یوں بھی کرتے ہیں کہ یہ نعمتیں اور خوشخبریاں امت کے ان تینوں گروہوں کے لیے ہیں جن کا ذکر آیت ماقبل میں ہوا ہے۔ یہ تعبیر گویا ان لوگوں کے دل کی آواز ہے جو چاہتے ہیں کہ انہیں بغیر کوئی محنت اور کوشش کیے اور بغیر کوئی قربانی دیے جنت کے انعامات اور اونچے اونچے مقامات مل جائیں۔- اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَکُوْرُ ” یقینا ہمارا رب بہت بخشنے والا اور بہت قدر افزائی فرمانے والا ہے۔ “
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :58 ہر قسم کا غم ۔ دنیا میں جن فکروں اور پریشانیوں میں مبتلا تھے ان سے بھی نجات ملی ، عُقبیٰ میں اپنے انجام کی جو فکر لا حق تھی وہ بھی ختم ہوئی ، اور اب آگے چین ہی چین ہے ، کسی رنج و الم کا کوئی سوال ہی باقی نہ رہا ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :59 یعنی ہمارے قصور اس نے معاف فرما دیے اور عمل کی جو تھوڑی سی پونجی ہم لائے تھے اس کی ایسی قدر فرمائی کہ اپنی جنت اس کے بدلے میں ہمیں عطا فرمادی ۔