Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ کی کتاب کے وارث لوگ ۔ فرماتا ہے جن برگزیدہ لوگوں کو ہم نے اللہ کی کتاب کا وارث بنایا ہے انہیں قیامت کے دن ہمیشہ والی ابدی نعمتوں والی جنتوں میں لے جائیں گے ۔ جہاں انہیں سونے کے اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ حدیث میں ہے مومن کا زیور وہاں تک ہو گا جہاں تک اس کے وضو کا پانی پہنچتا ہے ۔ ان کا لباس وہاں پر خاص ریشمی ہو گا ۔ جس سے دنیا میں وہ ممانعت کر دیئے گئے تھے ۔ حدیث میں ہے جو شخص یہاں دنیا میں حریر و ریشم پہنے گا وہ اسے آخرت میں نہیں پہنایا جائے گا اور حدیث میں ہے یہ ریشم کافروں کے لئے دنیا میں ہے اور تم مومنوں کے لئے آخرت میں ہے ۔ اور حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل جنت کے زیوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا انیہں سونے چاندی کے زیور پہنائے جائیں گے جو موتیوں سے جڑاؤ کئے ہوئے ہوں گے ۔ ان پر موتی اور یاقوت کے تاج ہوں گے ۔ جو بالکل شاہانہ ہوں گے ۔ وہ نوجوان ہوں گے بغیر بالوں کے سرمیلی آنکھوں والے ، وہ جناب باری عزوجل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہیں گے کہ اللہ کا احسان ہے جس نے ہم سے خوف ڈر زائل کر دیا اور دنیا اور آخرت کی پریشانیوں اور پشمانیوں سے ہمیں نجات دے دی حدیث شریف میں ہے کہ لا الہ الا اللہ کہنے والوں پر قبروں میں میدان محشر میں کوئی دہشت و وحشت نہیں ۔ میں تو گویا انہیں اب دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے سروں پر سے مٹی جھاڑتے ہوئے کہہ رہے ہیں اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم و رنج دور کر دیا ۔ ( ابن ابی حاتم ) طبرانی میں ہے موت کے وقت بھی انہیں کوئی گھبراہٹ نہیں ہو گی ۔ حضرت ابن عباس کا فرمان ہے ان کی بڑی بڑی اور بہت سی خطائیں معاف کر دی گئیں اور چھوٹی چھوٹی اور کم مقدار نیکیاں قدر دانی کے ساتھ قبول فرمائی گئیں ، یہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے فضل و کرم لطف و رحم سے یہ پاکیزہ بلند ترین مقامات عطا فرمائے ہمارے اعمال تو اس قابل تھے ہی نہیں ۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے تم میں سے کسی کو اس کے اعمال جنت میں نہیں لے جا سکتے لوگوں نے پوچھا آپ کو بھی نہیں؟ فرمایا ہاں مجھے بھی اسی صورت اللہ کی رحمت ساتھ دے گی ۔ وہ کہیں گے یہاں تو ہمیں نہ کسی طرح کی شفقت و محنت ہے نہ تھکان اور کلفت ہے ۔ روح الگ خوش ہے جسم الگ راضی راضی ہے ۔ یہ اس کا بدلہ ہے جو دنیا میں اللہ کی راہ میں تکلیفیں انہیں اٹھانی پڑی تھیں آج راحت ہی راحت ہے ۔ ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ پسند اور دل پسند کھاتے پیتے رہو اور اس کے بدلے جو دنیا میں تم نے میری فرماں برداریاں کیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 بعض کہتے ہیں کہ جنت میں صرف سابقون جائیں گے لیکن یہ صحیح نہیں قرآن کا سیاق اس امر کا مقتاضی ہے کہ تینوں قسمیں جنتی ہیں یہ الگ بات ہے کہ سابقین بغیر حساب کتاب کے اور مقصدین آسان حساب کے بعد اور ظالمین شفاعت سے یا سزا بھگتنے کے بعد جنت میں جائیں گے۔ جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔ 33۔ 2 حدیث میں آتا ہے کہ ریشم کا لباس دنیا میں مت پہنو، اس لئے کہ جو اسے دنیا میں پہنے گا، وہ اسے آخرت میں نہیں پہنے گا (صحیح بخاری)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٣٨] نوابوں اور راجوں اور مہاراجوں میں یہ دستور تھا کہ وہ سونے کے کنگن پہنتے جن میں ہیرے اور جواہرات وغیرہ جڑے ہوتے تھے۔ نیز وہ ریشم کا نرم و نازک لباس پہنتے تھے یہی عیش و عشرت کی وہ انتہا تھی جو اس دنیا میں سمجھی جاسکتی تھی۔ اس لئے ان چیزوں کا نام لیا گیا۔ مقصد یہ ہے کہ جنت والوں کا لباس اور عیش و عشرت اس دنیا کے بادشاہوں اور راجوں مہاراجوں سے کم نہ ہوگا۔ سونا اور ریشم اس دنیا میں امت مسلمہ کے مردوں پر حرام کیا گیا ہے۔ جس میں بیشمار حکمتیں پوشیدہ ہیں سب سے بڑی اور عام فہم بات ہے کہ جو لوگ ایسی عیاشیوں میں پڑ کر اپنی ذات پر ہی اس طرح خرچ کرنا شروع کردیں تو وہ غریبوں کا کیا خیال رکھ سکیں گے۔ یہی باتیں طبقاتی تقسیم اور اس سے آگے بہت بڑے فتنہ و فساد کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ مگر جنت میں چونکہ ایسی خرابیوں کا احتمال ہی نہ ہوگا۔ لہذا وہاں یہ چیزیں جائز ہوں گی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَهَا : یعنی یہ تینوں گروہ آخر کار جنات عدن میں داخل ہوجائیں گے۔ طبری اور بیہقی نے علی بن ابی طلحہ کی معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل فرمایا ہے : ( ہُمْ أُمَّۃُ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ ، وَرَّثَہُمُ اللّٰہُ کُلَّ کِتَابٍ أَنْزَلَہُ ، فَظَالِمُہُمْ یُغْفَرُ لَہُ ، وَ مُقْتَصِدُہُمْ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیْرًا، وَ سَابِقُہُمْ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ ) [ طبري : ٢٩٢٣٦۔ البعث والنشور للبیھقي : ١؍٦٨، ح : ٦٤ ] ” یہ (کتاب کے وارث) امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لوگ ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی نازل کردہ تمام کتابوں کا وارث بنایا۔ ان میں سے ظالم کو بخش دیا جائے گا، ان کے میانہ رو کا آسان حساب ہوگا اور ان کے سبقت لے جانے والے جنت میں بغیر حساب داخل ہوں گے۔ “ یعنی امت مسلمہ میں سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے لوگ اگر جہنم میں گئے بھی تو ہمیشہ وہاں نہیں رہیں گے، بلکہ ایمان کی برکت سے انھیں شفاعت کے ذریعے سے یا ایمان والوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے نتیجے میں جہنم سے نکال لیا جائے گا اور وہ جنات عدن میں داخل ہوجائیں گے اور یہ بہت ہی بڑا فضل ہے جو ان لوگوں کو کبھی حاصل نہیں ہوگا جو امت مسلمہ میں داخل ہو کر کتاب اللہ کے وارث نہیں بنے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان پر جنت کی نعمتیں ہمیشہ کے لیے حرام کردی ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ) [ الأعراف : ٥٠ ] ” اللہ تعالیٰ نے جنت کا پانی اور اس کا رزق کافروں پر حرام کردیا ہے۔ “- بعض مفسرین نے ان تینوں گروہوں میں سے ” ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ “ کفار کو قرار دیا ہے اور تینوں گروہوں کی تفصیل ان تین گروہوں کے مطابق کی ہے جن کا ذکر سورة واقعہ میں ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کی تین قسمیں ہوجائیں گی، اصحاب الیمین، اصحاب الشمال اور سابقون۔ ان میں سے سابقون اور اصحاب الیمین جنتی ہوں گے اور اصحاب الشمال جہنمی ہوں گے۔ مگر پہلی تفسیر راجح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تینوں گروہوں کا ذکر کرکے تینوں کے متعلق فرمایا کہ وہ جنات عدن میں داخل ہوں گے۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب امت مسلمہ کا ہر فرد ہی جنت میں داخل ہوگا تو ایمان لانے کے بعد جہنم سے ڈرانے اور ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا، بلکہ اگر کوئی شخص جہنم میں مدتوں رہنے کے بعد آخر کار جنت میں داخل ہوجائے تو یہ بھی فضل کبیر ہے۔ کیونکہ جب ایسے لوگ جنت میں جائیں گے تو کافر اس وقت تمنا کریں گے کہ کاش وہ کسی درجے کے بھی مسلمان ہوتے تو ہمیشہ جہنم میں نہ رہتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ ) [ الحجر : ٢ ] ” بہت بار چاہیں گے وہ لوگ جنھوں نے کفر کیا، کاش وہ کسی طرح کے مسلم ہوتے۔ “ مزید سورة حجر کی آیت (٢) کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔- يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ : اس کی مفصل تفسیر کے لیے دیکھیے سورة حج کی آیت (٢٣) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) ذلک ہوالفضل الکبیر جنت عدن یدخلو نہا یحلون فیہا من اساور من ذھب ولولوءا ولباسہم فیہا حریر، شروع میں اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ منتخب لوگوں کی تین قسمیں بتلائی ہیں، پھر فرمایا ذلک ہو الفضل الکبیر، یعنی ان تینوں کو برگزیدہ بندوں میں شمار کرنا یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔ آگے ان کی جزاء کا بیان ہے کہ یہ جنت میں جائیں گے، ان کو سونے کے کنگن اور موتیوں کے زیور پہنائے جائیں گے، اور لباس ان کا ریشمی ہوگا۔- دنیا میں مردوں کے لئے سونے کا زیور پہننا بھی حرام ہے اور ریشمی لباس بھی، اس کے عوض میں ان کو جنت میں یہ سب چیزیں دی جائیں گی۔ اور اس پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ زیور پہننا تو عورتوں کا کام ہے، مردوں کے شایان شان نہیں، کیونکہ آخرت اور جنت کے حالات کو دنیا کے حالات پر قیاس کرنا بےعقلی ہے۔- حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اہل جنت کے سروں پر تاج موتیوں سے مرصع ہوں گے۔ ان کے ادنیٰ موتی کی روشنی ایسی ہوگی کہ مشرق سے مغرب تک پورے عالم کو روشن کر دے گی۔ رواہ الترمذی والحاکم وصحیحہ والبیہقی از مظہری) ۔- امام قرطبی نے فرمایا کہ حضرات مفسرین نے فرمایا ہے کہ ہر جنتی کے ہاتھ میں کنگن پہنائے جائیں گے، ایک سونے کا ایک چاندی کا ایک موتیوں کا۔ جنتی کنگن کے متعلق ایک آیت میں چاندی کے اور دوسری میں سونے کے مذکور ہیں۔ اس تفسیر سے ان دونوں آیتوں میں تطبیق بھی ہوگئی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

جَنّٰتُ عَدْنٍ يَّدْخُلُوْنَہَا يُحَلَّوْنَ فِيْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُــؤْلُــؤًا۝ ٠ ۚ وَلِبَاسُہُمْ فِيْہَا حَرِيْرٌ۝ ٣٣- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- عدن - قال تعالی: جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل 31] ، أي : استقرار وثبات، وعَدَنَ بمکان کذا : استقرّ ، ومنه المَعْدِنُ : لمستقرّ الجواهر، وقال عليه الصلاة والسلام : «المَعْدِنُ جُبَارٌ» «2» .- ( ع د ن ) عدن - ( ن ض ) کے معنی کسی جگہ قرار پکڑنے اور ٹہر نے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ عدن بمکان کذا یعنی اس نے فلاں جگہ قیام کیا قرآن میں ہے : ۔ جَنَّاتِ عَدْنٍ [ النحل 31] یعنی ہمیشہ رہنے کے باغات ۔ اسی سے المعدن ( کان ) ہے کیونکہ کا ن بھی جواہرات کے ٹھہر نے اور پائے جانے کی جگہ ہوتی ہے حدیث میں ہے ۔ المعدن جبار کہ اگر کوئی شخص کان میں گر کر مرجائیں تو کان کن پر اس کی دیت نہیں ہے ۔- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- حلی - الحُلِيّ جمع الحَلْي، نحو : ثدي وثديّ ، قال تعالی: مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف 148] ، يقال : حَلِيَ يَحْلَى «4» ، قال اللہ تعالی: يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف 31] ،- ( ح ل ی ) الحلی - ( زیورات ) یہ حلی کی جمع ہے جیسے ثدی کی جمع ثدی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف 148] اپنے زیور کا ایک بچھڑا ( بنالیا ) وہ ایک جسم ( تھا ) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی حلی یحلٰی آراستہ ہونا اور حلی آراستہ کرنا ) قرآن میں ہے ۔ يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف 31] ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔- وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان 21] اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ اور حلیتہ کے معنی زیور کے ہیں ۔ - ذهب ( سونا)- الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ورجل ذَهِبٌ: رأى معدن الذّهب فدهش، وشیء مُذَهَّبٌ: جعل عليه الذّهب، وكميت مُذْهَبٌ: علت حمرته صفرة، كأنّ عليها ذهبا،- ( ذ ھ ب ) الذھب ۔ سونا ۔ اسے ذھبتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجل ذھب ، جو کان کے اندر زیادہ سانا دیکھ کر ششدرہ جائے ۔ شیئ مذھب ( او مذھب ) زرا ندددہ طلاء کی ہوئی چیز ۔ کمیت مذھب ( اومذھب ) کمیت گھوڑا جس کی سرخی پر زردی غالب ہو ۔ گویا وہ سنہری رنگ کا ہے ۔ لؤلؤ - قال تعالی: يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ [ الرحمن 22] ، وقال : كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جمعه : لَآلِئٌ ، وتَلَأْلَأَ الشیء : لَمَعَ لَمَعان اللّؤلؤ، وقیل : لا أفعل ذلک ما لَأْلَأَتِ الظِّبَاءُ بأذنابها «1» .- ( ل ء ل ء ) اللؤ لوء ۔ جمع لاتی ۔ قرآن میں ہے : يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُؤُ [ الرحمن 22] دونوں دریاؤں سے ہوتی ۔۔۔ نکلتے ہیں ۔ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَكْنُونٌ [ الطور 24] جیسے چھپائے ہوئے ہوتی ۔ اور تلالالشئی کے معنی کسی چیز کے موتی کی طرح چمکنے کے ہیں مشہور محاورہ ہے ۔ لاافعل ذلک مالالات الظباء باذنابھا جب تک کہ آہو اپنے دم ہلاتے رہیں گے میں یہ کام نہیں کرونگا ۔ یعنی کبھی بھی یہ کام نہیں کروں گا ۔- لبس - لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه :- يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی:- هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله :- 402-- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ،- ( ل ب س ) لبس الثوب - ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔- لبس - لَبِسَ الثّوب : استتر به، وأَلْبَسَهُ غيره، ومنه :- يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] واللِّبَاسُ واللَّبُوسُ واللَّبْسُ ما يلبس . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] وجعل اللّباس لكلّ ما يغطّي من الإنسان عن قبیح، فجعل الزّوج لزوجه لباسا من حيث إنه يمنعها ويصدّها عن تعاطي قبیح . قال تعالی:- هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] فسمّاهنّ لباسا کما سمّاها الشاعر إزارا في قوله :- 402-- فدی لک من أخي ثقة إزاري«1» وجعل التّقوی لِبَاساً علی طریق التّمثیل والتّشبيه، قال تعالی: وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] وقوله : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] يعني به : الدِّرْعَ ، وقوله : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] ، وجعل الجوع والخوف لباسا علی التّجسیم والتشبيه تصویرا له، وذلک بحسب ما يقولون : تدرّع فلان الفقر، ولَبِسَ الجوعَ ،- ( ل ب س ) لبس الثوب - ۔ کے معنی کپڑا پہننے کے ہیں اور البسہ کے معنی دوسرے کو پہنانا کے ۔ قرآن میں ہے : يَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً [ الكهف 31] اور وہ سبز کپڑے پہنا کریں گے ۔ اللباس واللبوس واللبس وہ چیز جو پہنی جائے ۔ قرآن میں ہے : قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈاھانپے ۔ اور لباس کا لفظ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے ۔ جو انسان کے برے کاموں پر پردہ ڈال سکے ۔ چناچہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کو قبائح کے ارتکاب سے روکتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ هُنَّ لِباسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِباسٌ لَهُنَ [ البقرة 187] وہ تمہاری پوشاک اور تم ان کی پوشاک ہو ۔ چناچہ اسی معنی میں شاعرنے اپنی بیوی کو ازار کہا ہے ۔ اے میرے قابل اعتماد بھائی پر میری ازار یعنی بیوی قربان ہو ۔ اور تمثیل و تشبیہ کے طور پر تقوی کو بھی لباس قرار دیا گیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَلِباسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ [ الأعراف 26] اور جو پر ہیزگاری کا لباس ہے ۔ اور آیت کریمہ : صَنْعَةَ لَبُوسٍ لَكُمْ [ الأنبیاء 80] اور ہم نے تمہارے لئے ان کو ایک طرح کا لباس بنانا ۔۔۔۔۔ میں لبوس سے زر ہیں مراد ہیں اور آیت کریمہ : فَأَذاقَهَا اللَّهُ لِباسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ [ النحل 112] تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر ناشکری کا مزہ چکھا دیا ۔ میں جوں یعنی بھوک اور خوف کی تصویر کھینچے کے لئے اس لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے ۔- حَريرُ- من الثیاب : ما رقّ ، قال اللہ تعالی: وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] لحریری ( ریشمی کپڑا ) ہر ایک بار کپڑے کو حریر کیا جاتا ہے فرمایا :۔ وَلِباسُهُمْ فِيها حَرِيرٌ [ فاطر 33] وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جنت الفردوس ان کا ٹھکاناہ ہوگا کہ باغات جس کے چاروں طرف ہوں گے اور جنت میں مردوں کو سونے کے کنگن اور عورتوں کو موتی پہنائے جائیں گے اور پوشاک وہاں ریشم کی ہوگی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٣ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا ” (ان کے لیے ) باغات ہوں گے رہنے کے جن میں وہ داخل ہوں گے “- ” جَنّٰتُ عَدْنٍ “ کا ترجمہ ” ہمیشگی کے باغات “ بھی کیا گیا ہے اور ” رہنے کے باغات “ ( ) بھی۔ - یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًاج وَلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ ” ان میں انہیں پہنائے جائیں گے سونے کے کنگن اور موتی ‘ اور ان میں ان کا لباس ریشم ہوگا۔ “- سورة الحج کی آیت ٢٣ میں بھی بالکل یہی الفاظ آئے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :57 مفسرین میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ اس فقرے کا تعلق قریب ترین دونوں فقروں سے ہے ، یعنی نیکیوں پر سبقت کرنے والے ہی بڑی فضیلت رکھتے ہیں اور وہی ان جنتوں میں داخل ہوں گے ۔ رہے پہلے دو گروہ ، تو ان کے بارے میں سکوت فرمایا گیا ہے تاکہ وہ اپنے انجام کے معاملہ میں فکر مند ہوں اور اپنی موجودہ حالت سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں ۔ اس رائے کو علامہ زمخشری نے بڑے زور کے ساتھ بیان کیا ہے اور امام رازی نے اس کی تائید کی ہے ۔ لیکن مفسرین کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ اس کا تعلق اوپر کی پوری عبارت سے ہے ، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے یہ تینوں گروہ بالآخر جنت میں داخل ہوں گے ، خواہ محاسبہ کے بغیر یا محاسبہ کے بعد ، خواہ ہر مواخذہ سے محفوظ رہ کر یا کوئی سزا پانے کے بعد ۔ اسی تفسیر کی تائید قرآن کا سیاق کرتا ہے ، کیونکہ آگے چل کر وارثین کتاب کے بالمقابل دوسرے گروہ کے متعلق ارشاد ہوتا ہے کہ اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں نے اس کتاب کو مان لیا ہے ان کے لیے جنت ہے اور جنہوں نے اس پر ایمان لانے سے انکار کیا ہے ان کے لیے جہنم ۔ پھر اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث کرتی ہے جسے حضرت ابوالدارداء نے روایت کیا ہے اور امام احمد ، ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، طَبَرانی ، بہقی اور بعض دوسرے محدثین نے اسے نقل کیا ہے اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فامّا الذین سبقوا فاولٰئِک الذین یدخلون الجنۃ بغیر حساب ، وامّا الذین اقتصدوا فاولٰئِک الذین یحاسبون حسابا یسیرا ، واما الذین ظلموا انفسہم فاولٰئِک یُحبَسوْن طول المحشر ثم ھم الذین یتلقّا ھم اللہ برحمتہ فھم الذین یقولون الحمد لِلہ الذی اذھب عنا الحزن ۔ جو لوگ نیکیوں میں سبقت لے گئے ہیں وہ جنت میں کسی حساب کے بغیر داخل ہوں گے ۔ اور جو بیچ کی راس رہے ہیں ان سے محاسبہ ہوگا مگر ہلکا محاسبہ ۔ رہے وہ لوگ جنہوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے تو وہ محشر کے پورے طویل عرصہ میں روک رکھے جائیں گے ، پھر انہی کو اللہ اپنی رحمت میں لے لیگا اور یہی لوگ ہیں جو کہیں گے کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہم سے غم دور کر دیا ۔ اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی پوری تفسیر خود بیان فرمادی ہے اور اہل ایمان کے تینوں طبقوں کا انجام الگ الگ بتا دیا ہے ۔ بیچ کی راس والوں سے ہلکا محاسبہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کفار کو تو ان کے کفر کے علاوہ ان کے ہر ہر جرم اور گناہ کی جداگانہ سزا بھی دی جائے گی ، مگر اس کے برعکس اہل ایمان میں جو لوگ اچھے اور برے دونوں طرح کے اعمال لے کر پہنچیں گے ان کی نیکیوں اور ان کے گناہوں کا مجموعی محاسبہ ہو گا ۔ یہ نہیں ہو گا کہ ہر نیکی کی الگ جزا اور ہر قصور کی الگ سزا دی جائے ۔ اور یہ جو فرمایا کہ اہل ایمان میں سے جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہوگا وہ محشر کے پورے عرصے میں روک رکھے جائیں گے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جہنم میں نہیں ڈالے جائیں گے بلکہ ان کو تا برخاست عدالت کی سزا دی جائے گی ، یعنی روز حشر کی پوری طویل مدت ( جو نہ معلوم کتنی صدیوں طویل ہوگی ) ان پر اپنی ساری سختیوں کے ساتھ گزر جائے گی ، یہاں تک کہ آخر کار اللہ ان پر رحم فرمائے گا اور خاتمہ عدالت کے وقت حکم دے گا کہ اچھا ، انہیں بھی جنت میں داخل کردو ۔ اسی مضمون کے متعدد اقوال محدثین نے بہت سے صحابہ ، مثلاً حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت عبداللہ بن عباس ، حضرت عائشہ ، حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت بَراء ابن عازب سے نقل کیے ہیں ، اور ظاہر ہے کہ صحابہ ایسے معاملات میں کوئی بات اس وقت تک نہیں کہہ سکتے تھے جب تک انہوں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو نہ سنا ہو ۔ مگر اس سے یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں میں سے جن لوگوں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے ان کے لیے صرف تا برخاست عدالت ہی کی سزا ہے اور ان میں سے کوئی جہنم میں جائے گا ہی نہیں ۔ قرآن اور حدیث میں متعدد ایسے جرائم کا ذکر ہے جن کے مرتکب کو ایمان بھی جہنم میں جانے سے نہیں بچا سکتا ۔ مثلاً جو مومن کسی مومن کو عمداً قتل کر دے اس کے لیے جہنم کی سزا کا اللہ تعالیٰ نے خود اعلان فرما دیا ہے ۔ اسی طرح قانون وراثت کی خداوندی حدود کو توڑنے والوں کے لیے بھی قرآن مجید میں جہنم کی وعید فرمائی گئی ہے ۔ سود کی حرمت کا حکم آجانے کے بعد پھر سود خواری کرنے والوں کے لیے بھی صاف صاف اعلان فرمایا گیا ہے کہ وہ اصحاب النار ہیں ۔ اس کے علاوہ بعض اور کبائر کے مرتکبین کے لیے بھی احادیث میں تصریح ہے کہ وہ جہنم میں جائیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani