Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

عظمت قرآن کریم اور ملت بیضا ۔ جس کتاب کا اوپر ذکر ہوا تھا اس بزرگ کتاب یعنی قرآن کریم کو ہم نے اپنے چیدہ بندوں کے ہاتھوں میں دیا ہے یعنی اس امت کے ہاتھوں ۔ پھر حرمت والے کام بھی اس سے سرزد ہوگئے ۔ بعض درمیانہ درجے کے رہے جنہوں نے محرمات سے تو اجتناب کیا واجبات بجا لاتے رہے لیکن کبھی کبھی کوئی مستحب کام ان سے چھوٹ بھی گیا اور کبھی کوئی ہلکی پھلکی نافرمانی بھی سرزد ہو گئی ۔ بعض درجوں میں بہت ہی آگے نکل گئے ۔ واجبات چھوڑ کر مستحباب کو بھی انہوں نے نہ چھوڑا اور محرمات چھوڑ کر مکروہات سے بھی یکسر الگ رہے ۔ بلکہ بعض مرتبہ مباح چیزوں کو بھی ڈر کر چھوڑ دیا ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پسندیدہ بندوں سے مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو اللہ کی ہر کتاب کی وارث بنائی گئی ہے ۔ ان میں جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں انہیں بخشا جائے گا اور ان میں جو درمیانہ لوگ ہیں ان سے آسانی سے حساب لیا جائے گا اور ان میں جو نیکیوں میں بڑھ جانے والے ہیں انہیں بےحساب جنت میں پہنچایا جائے گا ۔ طبرانی میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہ والوں کے لئے ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں سابق لوگ تو بغیر حساب کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے اور میانہ رو رحمت رب سے داخل جنت ہوں گے اور اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے اور اصحاب اعراف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جنت میں آئیں گے ۔ الغرض اس امت کے ہلکے پھلکے گنہگار بھی اللہ کے پسندیدہ بندوں میں داخل ہیں فالحمدللہ ۔ گو اکثر سلف کا قول یہی ہے ۔ لیکن بعض سلف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ لوگ نہ تو اس امت میں داخل ہیں نہ چیدہ اور پسندیدہ ہیں نہ وارثین کتاب ہیں ۔ بلکہ مراد اس سے کافر منافق اور بائیں ہاتھ میں نامہ اعمال دیئے جانے والے ہیں پس یہ تین قسمیں وہی ہیں جن کا بیان سورہ واقعہ کے اول و آخر میں ہے ۔ لیکن صحیح قول یہی ہے کہ یہ اسی امت میں ہیں ۔ امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند کرتے ہیں اور آیت کے ظاہری الفاظ بھی یہی ہیں ۔ احادیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ یہ تینوں گویا ایک ہیں اور تینوں ہی جنتی ہیں ۔ ( مسند احمد ) یہ حدیث غریب ہے اور اس کے راویوں میں ایک راوی ہیں جن کا نام مذکور نہیں ۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس امت میں ہونے کے اعتبار سے اور اس اعتبار سے کہ وہ جنتی ہیں گویا ایک ہی ہیں ۔ ہاں مرتبوں میں فرق ہونا لازمی ہے ۔ دوسری حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا سابقین تو بےحساب جنت میں جائیں گے اور درمیانہ لوگوں سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا اور اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے طول محشر میں روکے جائیں گے ۔ پھر اللہ کی رحمتوں سے تلافی ہو جائے گی اور یہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہم سے غم و رنج دور کر دیا ہمارا رب بڑا ہی غفور و شکور ہے ۔ جس نے ہمیں اپنے فضل و کرم سے رہائش کی ایسی جگہ عطا فرمائی جہاں ہمیں کوئی درد دکھ نہیں ۔ ( مسند احمد ) ابن ابی حاتم کی اس روایت میں الفاظ کی کچھ کمی بیشی ہے ۔ ابن جریر نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے ۔ اس میں ہے کہ حضرت ابو ثابت مسجد میں آتے ہیں اور حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ میری وحشت کا انیس میرے لئے مہیا کر دے اور میری غربت پر رحم کر اور مجھے کوئی اچھا رفیق عطا فرما ۔ یہ سن کر صحابی ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں میں تیرا ساتھی ہوں سن میں آج تجھے وہ حدیث رسول سناتا ہوں جسے میں نے آج تک کسی کو نہیں سنائی پھر اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا سابق بالخیرات تو جنت میں بےحساب جائیں گے اور مقتصد لوگوں سے آسانی کے ساتھ حساب لیا جائے گا اور ظالم لنفسہ کو اس مکان میں غم و رنج پہنچے گا ۔ جس سے نجات پا کر وہ کہیں گے اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم و رنج دور کر دیا ۔ تیسری حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تینوں کی نسبت فرمایا کہ یہ سب اسی امت میں سے ہیں ۔ چوتھی حدیث : میری امت کے تین حصے ہیں ایک بےحساب و بےعذاب جنت میں جانے والا ۔ دوسرا آسانی سے حساب لیا جانے والا اور پھر بہشت نشیں ہونے والا ۔ تیسری وہ جماعت ہو گی جن سے تفتیش و تلاش ہو گی لیکن پھرفرشتے حاضر ہو کر کہیں گے کہ ہم نے انہیں لا الہ الا اللہ وحدہ کہتے ہوئے پایا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا سچ ہے میرے سوا کوئی معبود نہیں اچھا انہیں میں نے ان کے اس قول کی وجہ سے چھوڑا جاؤ انہیں جنت میں لے جاؤ اور ان کی خطائیں دوزخیوں پر لاد دو اسی کا ذکر آیت ( وَلَيَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَهُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِمْ ۡ وَلَيُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ 13۝ۧ ) 29- العنكبوت:13 ) میں ہے یعنی وہ ان کے بوجھ اپنے بوجھ کے ساتھ اٹھائیں گے اس کی تصدیق اس میں ہے جس میں فرشتوں کا ذکر ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے جنہیں وارثین کتاب بنایا ہے ان کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تین قسمیں بتائی ہیں پس ان میں جو اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں وہ باز پرس کئے جائیں گے ۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ اس امت کی قیات کے دن تین جماعتیں ہوں گی ۔ ایک بےحساب جنت میں جانے والی ایک آسانی سے حساب لئے جانے والی ایک گنہگار جن کی نسبت اللہ تعالیٰ دریافت فرمائے گا حالانکہ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ فرشتے کہیں گے اللہ ان کے پاس بڑے بڑے گناہ ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا ۔ رب عزوجل فرمائے گا انہیں میری وسیع رحمت میں داخل کردو پھر حضرت عبداللہ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ( ابن جریر ) دوسرا اثر ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو آپ فرماتی ہیں بیٹا یہ سب جنتی لوگ ہیں سابق بالخیرات تو وہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے جنہیں خود آپ نے جنت کی بشارت دی ۔ مقتصد وہ ہیں جنہوں نے آپ کے نقش قدم کی پیروی کی یہاں تک کہ ان سے مل گئے ۔ اور ظالم لنفسہ مجھ تجھ جیسے ہیں ( ابوداؤد طیالسی ) خیال فرمایئے کہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا باوجودیکہ سابق بالخیرات میں سے بلکہ ان میں سے بھی بہترین درجے والوں میں سے ہیں لیکن کس طرح اپنے تئیں متواضع بناتی ہیں حالانکہ حدیث میں آ چکا ہے کہ تمام عورتوں پر حضرت عائشہ کو وہی فضیلت ہے جو فضیلت ثرید کو ہر قسم کے طعام پر ہے ۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰعنہ فرماتے ہیں ظالم لنفسہ تو ہمارے بدوی لوگ ہیں اور مقتصد ہمارے شہری لوگ ہیں اور سابق ہمارے مجاہد ہیں ۔ ( ابن ابی حاتم ) حضرت کعب احبار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تینوں قسم کے لوگ اسی امت میں سے ہیں اور سب جنتی ہیں ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان تینوں قسم کے لوگوں کے ذکر کے بعد جنت کا ذکر کر کے پھر فرمایا ( وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ ۚ لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ 36؀ۚ ) 35- فاطر:36 ) پس یہ لوگ دوزخی ہیں ۔ ( ابن جریر ) حضرت ابن عباس نے حضرت کعب سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کعب کے اللہ کی قسم یہ سب ایک ہی زمرے میں ہیں ہاں اعمال کے مطابق ان کے درجات کم و بیش ہیں ۔ ابو اسحاق سیعی بھی اس آیت میں فرماتے ہیں کہ یہ تینوں جماعتیں ناجی ہیں ۔ محمد بن حنفیہ فرماتے ہیں یہ امت مرحومہ ہے ۔ ان کے گنہگاروں کو بخش دیا جائے گا اور ان کے مقصد اللہ کے پاس جنت میں ہوں گے ۔ اور ان کے سابق بلند درجوں میں ہوں گے ۔ محمد بن علی باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہاں جن لوگوں کو ظالم لنفسہ کہا گیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گناہ بھی کئے تھے اور نیکیاں بھی ۔ ان احادیث اور آثار کو سامنے رکھ کر یہ تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں عموم ہے اور اس امت کی ان تینوں قسموں کو یہ شامل ہے ۔ پس علماء کرام اس نعمت کے ساتھ سب سے زیادہ رشک کے قابل ہیں اور اس رحمت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں ۔ جیسے کہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص مدینے سے دمشق میں حضرت ابو درداء کے پاس جاتا ہے اور آپ سے ملاقات کرتا ہے تو آپ دریافت فرماتے ہیں کہ پیارے بھائی یہاں کیسے آنا ہوا ؟ وہ کہتے ہیں اس حدیث کے سننے کے لئے آیا ہوں جو آپ بیان کرتے ہیں ۔ پوچھا کیا کسی تجارت کی غرض سے نہیں آئے؟ جواب دیا نہیں ۔ پوچھا پھر کوئی اور مطلب بھی ہو گا ؟ فرمایا کوئی مقصد نہیں ۔ پوچھا پھر کیا صرف حدیث کی طلب کے لئے یہ سفر کیا ہے؟ جواب دیا کہ ہاں ۔ فرمایا سنو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص علم کی تلاشی میں کسی راستے کو قطع کرے اللہ اسے جنت کے راستوں میں چلائے گا ۔ اللہ کی رحمت کے فرشتے طالب علموں کے لئے پر بچھا دیتے ہیں کیونکہ وہ ان سے بہت خوش ہیں اور ان کی خوشی کے خواہاں ہیں ۔ عالم کے لیے آسمان وزمین کی ہر چیز استغفار کرتی ہے یہاں تک کہ پانی کے اندر کی مچھلیاں بھی ۔ عابد و عالم کی فضیلت ایسی ہی ہے جیسی چاند کی فضیلت ستاروں پر ، علماء نبیوں کے وارث ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام نے اپنے ورثے میں درہم و دینار نہیں چھوڑے ان کا ورثہ علم دین ہے ۔ جس نے اسے لیا اس نے بڑی دولت حاصل کر لی ۔ ( ابو داؤد ، ترمذی وغیرہ ) اس حدیث کے تمام طریق اور الفاظ اور شرح میں نے صحیح بخاری کتاب العلم کی شرح میں مفصلاً بیان کر دی ہے فالحمد اللہ ۔ سورہ طہ کے شروع میں وہ حدیث گذر چکی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ علماء سے فرمائے گا ۔ میں نے اپنا علم و حکمت تمہیں اس لئے ہی دیا تھا کہ تمہیں بخش دوں گو تم کیسے ہی ہو مجھے اس کی کچھ پرواہ ہی نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 کتاب سے قرآن اور چنے ہوئے بندوں سے مراد امت محمدیہ ہے۔ یعنی اس قرآن کا وارث ہم نے امت محمدیہ کو بنایا ہے جسے ہم نے دوسری امتوں کے مقابلے میں چن لیا اور اسے شرف و فضل سے نوازا۔ یہ تقریبًا وہی مفہوم ہے جو آیت البقرہ ا۔ 142 کا ہے۔ 32۔ 2 امت محمدیہ کی تین قسمیں ہیں یہ پہلی قسم ہے جس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو بعض فرائض میں کوتاہی اور بعض محرکات کا ارتکاب کرلیتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو صغائر کا ارتکاب کرتے ہیں انہیں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا اس لیے کہا کہ وہ اپنی کچھ کوتاہیوں کی وجہ سے اپنے کو اس اعلی درجہ سے محروم کرلیں گے جو باقی دو قسموں کو حاصل ہوں گے۔ 32۔ 3 یہ دوسری قسم ہے۔ یعنی ملے جلے عمل کرتے ہیں یا بعض کے نزدیک وہ ہیں جو فرائض کے پابند، محرکات کے تارک تو ہیں لیکن کبھی دعاؤں سے منحرف اور بعض منع کی گئی چیزوں کا ارتکاب بھی ان سے ہوجاتا ہے یا وہ ہیں جو نیک تو ہیں لیکن پیش پیش نہیں ہیں . 32۔ 3 یہ وہ ہیں جو دین کے معاملے میں پچھلے دونوں سے سبقت کرنے والے ہیں۔ 32۔ 4 یعنی کتاب کا وارث کرنا اور شرف و فضل میں ممتاز (مصطفٰی) کرنا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٣٧] اعمال کے لحاظ سے تین قسم کے مسلمان اور ان کا انجام :۔ اس آیت میں کتاب سے مراد قرآن کریم ہے۔ اس کے اولین وارث صحابہ کرام (رض) کی جماعت ہے۔ اس آیت سے ان کی بہت فضیلت ثابت ہوئی۔ پھر ان کے بعد درجہ بدرجہ اور نسل بعد نسل آپ کی ساری امت بھی اس کتاب کی وارث ہے۔ پھر ان وارثوں کے تین طبقات ہیں یا تین قسم کے گروہ ہیں۔ ایک وہ جو اپنے نفس پر ظلم کر رہے ہیں۔ یعنی وہ اللہ کے باغی نہیں ہیں مشرک بھی نہیں ہیں۔ کتاب وسنت کی اتباع کے داعی بھی ہیں۔ مگر ان کے اعمال ان کے دعوٰے کی پوری طرح تصدیق نہیں کرتے۔ وہ خطا کار ضرور ہیں مگر اپنے جرائم پر نادم ضرور ہوتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو نیک اعمال بجا لارہا ہے تاہم کبھی کبھار ان سے گناہ کے کام بھی ہوتے ہیں۔ یہ درمیانہ درجہ کے لوگ ہیں۔ اور ایک وہ لوگ ہیں جو ہر نیکی کے کام کی طرف آگے بڑھ کر لپکتے ہیں۔ ان کی آرزو یہ رہتی ہے کہ جتنی زیادہ بھلائیاں سمیٹ سکتے ہیں سمیٹ لیں۔ وہ گناہوں سے اجتناب میں بھی ممکن حد تک احتیاط کرتے ہیں۔ سیدنا ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ تینوں قسم کے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) اور ان میں فرق یہ ہوگا کہ افضل قسم کے لوگ بلاحساب جنت میں داخل ہوں گے۔ درمیانہ طبقہ سے حساب تو لیا جائے گا مگر یہ آسان سا اور سرسری قسم کا حساب ہوگا اور زیادہ پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔ اور تیسرے درجہ کے لوگوں کو روک لیا جائے گا اور قیامت کا سارا دن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوسکیں گے۔ پھر اس مدت کے اختتام پر اللہ تعالیٰ ان پر مہربانی فرمائے گا اور انہیں بھی داخلہ کی اجازت مل جائے گی۔ تاہم یہ قیامت کے دن کی سختیاں ضرور برداشت کریں گے اور اللہ کا فضل تو ان سب پر ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا : یعنی ہم نے یہ کتاب آپ کی طرف وحی کی، پھر اس کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جنھیں ہم نے اس کتاب کا وارث بننے کے لیے، یعنی امت مسلمہ میں شامل ہونے کے لیے چن لیا اور یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم جسے چاہتے ہیں چن لیتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ ) [ الشورٰی : ١٣ ] ” اللہ اپنی طرف چن لیتا ہے جسے چاہتا ہے اور اپنی طرف راستہ اسے دیتا ہے جو رجوع کرے۔ “- فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ : کتاب اللہ کے وارث بننے والے افراد کی، یعنی امت مسلمہ کی تین قسمیں ہیں، کچھ وہ جو اپنی جان پر ظلم کرنے والے ہیں کہ ان کی نیکیاں گناہوں کے مقابلے میں کم ہیں، کچھ میانہ رو ہیں کہ جن کے نیک و بد اعمال قریباً برابر ہیں اور کچھ وہ جو اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں۔ ان تینوں گروہوں کو حاصل ہونے والی نعمت، یعنی کتاب اللہ کی وراثت اور امت مسلمہ میں شمولیت بہت ہی بڑا فضل ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا، حرف ثم عطف کے لئے آتا ہے، اور اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس حرف سے پہلے اور بعد کی دونوں چیزیں اصل وصف میں مشترک ہونے کے باوجود تقدیم و تاخیر رکھتی ہیں۔ پہلی چیز مقدم اور بعد کی چیز موخر ہوتی ہے، پھر یہ تقدیم و تاخیر کبھی زمانے کے اعتبار سے ہوتی ہے، کبھی رتبہ اور درجہ کے اعتبار سے۔ اس آیت میں حرف ثم عطف ہے اس سے پہلی آیت کے لفظ اوحینا پر، معنی یہ ہیں کہ ہم نے یہ کتاب یعنی قرآن جو خالص حق ہی ہے، اور تمام پہلی آسمانوں کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، پہلے بطور وحی آپ کے پاس بھیجی، اس کے بعد ہم نے اس کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنادیا جن کو ہم نے منتخب اور پسند کرلیا ہے اپنے بندوں میں سے۔ یہ اول و آخر اور مقدم و موخر ہونا رتبہ اور درجہ کے اعتبار سے تو ظاہر ہے کہ قرآن کا بذریعہ وحی آپ کے پاس بھیجنا رتبہ اور درجہ میں مقدم ہے اور امت محمدیہ کو عطا فرمانا اس سے موخر ہے۔ اور اگر امت کو وارث قرآن بنانے کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ نے اپنے بعد کے لئے امت کے واسطے زر و زمین کی وراثت چھوٹنے کے بجائے اللہ کی کتاب بطور وراثت چھوڑی، جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی شہادت موجود ہے کہ انبیاء درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑا کرتے، وہ وراثت میں علم چھوڑتے ہیں اور ایک دوسری حدیث میں علماء کو وارث انبیاء فرمایا ہے، تو اس لحاظ سے یہ تقدیم و تاخیر زمانی بھی ہو سکتی ہے کہ ہم نے یہ کتاب آپ کو عنایت فرمائی ہے پھر آپ نے اس کو امت کے لئے بطور وارث چھوڑا۔ وارث بنانے سے مراد عطا کرنا ہے، اس عطا کو بلفظ میراث تعبیر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح وارث کو میراث کا حصہ بغیر اس کے کسی عمل اور کوشش کے مل جاتا ہے، قرآن کریم کی یہ دولت بھی ان منتخب بندوں کو اسی طرح بغیر کسی محنت و مشقت کے دے دی گئی ہے۔- امت محمدیہ خصوصاً اس کے علماء کی ایک اہم فضیلت و خصوصیت :- الذین اصطفینا من عبادنا، یعنی جن کو ہم نے منتخب اور پسندیدہ قرار دے دیا اپنے بندوں میں سے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد امت محمدیہ ہے، اس کے علماء بلاواسطہ اور دوسرے لوگ بواسطہ علماء، علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ الذین اصطفینا سے مراد امت محمدیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر اس کتاب کا وارث بنایا ہے جو اس نے اتاری ہے، (یعنی قرآن سب کتب سابقہ کی تصدیق و حفاظت کرنے والی کتاب ہونے کی حیثیت سے تمام آسمانی کتابوں کے مضامین کی جامع ہے، اس کا وارث بننا گویا سب آسمانی کتابوں کا وارث بننا ہے) پھر فرمایا فظالمھم یغفرلہ ومقتصدھم یحاسب حساباً یسیراً وسابقہم یدخل الجنة بغیر حساب، یعنی اس امت کا ظالم بھی بخشا جائے گا اور میانہ روی کرنے والے سے آسان حساب لیا جائے گا، اور سابق بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوگا۔ (ابن کثیر)- اس آیت میں لفظ اصطفینا سے امت محمدیہ کی سب سے بڑی عظیم فضیلت ظاہر ہوئی۔ کیونکہ لفظ اصطفاء قرآن کریم میں اکثر انبیاء (علیہم السلام) کے لئے آیا ہے، اللہ یصطفی من الملئکة رسلاً ومن الناس، اور ایک آیت میں ہے (آیت) ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحاً وآل ابراہیم وآل عمران علیٰ العلمین، آیت مذکورہ میں حق تعالیٰ نے امت محمدیہ کو اصطفاء یعنی انتخاب میں انبیاء اور ملائکہ کے ساتھ شریک فرما دیا، اگرچہ اصطفاء کے درجات مختلف ہیں، انبیاء و ملائکہ کا اصطفاء اعلیٰ درجہ میں اور امت محمدیہ کا بعد کے درجہ میں ہے۔- امت محمدیہ کی تین قسمیں :- (آیت) فمنہم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات، یہ جملہ پہلے جملے کی تفسیر و توضیح ہے۔ یعنی ہم نے اپنے بندوں کو منتخب اور پسند فرما کر ان کو قرآن کا وارث بنایا ہے، ان کی تین قسمیں ہیں، ظالم، مقتصد، سابق۔- ان تینوں قسموں کی تفسیر امام ابن کثیر نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ظالم سے مراد وہ آدمی ہے جو بعض واجبات میں کوتاہی کرتا ہے اور بعض محرکات کو بھی ارتکاب کرلیتا ہے اور مقتصد (یعنی درمیانی چال چلنے والا) وہ شخص ہے جو تمام واجبات شرعیہ کو ادا کرتا ہے اور تمام محرمات سے بچتا ہے، مگر بعض اوقات بعض مستحبات کو چھوڑ دیتا ہے اور بعض مکروہات میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور سابق بالخیرات وہ شخص ہے جو تمام واجبات اور مستحبات کو ادا کرتا ہے، اور تمام محرمات و مکروہات سے بچتا ہے، اور بعض مباحات کو اشتغال عبادت یا شبہ حرمت کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔- یہ ابن کثیر کا بیان ہے۔ دوسرے مفسرین نے ان تین قسموں کی تفسیر میں بہت مختلف اقوام نقل کئے ہیں۔ روح المعانی میں بحوالہ تحریر تینتالیس اقوال کا ذکر کیا ہے، مگر غور کیا جائے تو ان میں سے اکثر کا حاصل وہی ہے جو اوپر ابن کثیر کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔- ایک شبہ اور جواب :- مذکورہ تفسیر سے یہ ثابت ہوا کہ الذین اصطفینا سے مراد امت محمدیہ ہے اور اس کی یہ تین قسمیں ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ اس کی پہلی قسم یعنی ظالم بھی الذین اصطفینا یعنی اللہ کے منتخب بندوں میں شامل ہیں، اس کو بظاہر مستبعد سمجھ کر بعض لوگوں نے کہا کہ یہ امت محمدیہ اور اصطفینا سے خارج ہے۔ مگر بہت سی احادیث صحیحہ معتبرہ سے ثابت ہے کہ یہ تینوں قسمیں امت محمدیہ کی ہیں اور اصطفینا کے وصف سے خارج نہیں۔ یہ امت محمدیہ کے مومن بندوں کی انتہائی خصوصیت اور فضیلت ہے کہ ان میں جو عملی طور پر ناقص بھی ہیں وہ بھی اس شرف میں داخل ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے اس جگہ وہ سب روایات حدیث جمع کردی ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں :- حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آیت مذکورہ الذین اصطفینا کی تینوں قسموں کے متعلق فرمایا کہ یہ سب ایک ہی مرتبے میں ہیں اور سب جنت میں ہیں۔ (رواہ احمد، ابن کثیر) ایک مرتبہ میں ہونے سے مراد یہ ہے کہ سب کی مغفرت ہوجائے گی اور سب جنت میں جائیں گے، یہ مطلب نہیں کہ درجات کے اعتبار سے ان میں تفاضل نہ ہوگا۔- اور حضرت ابو الدرداء سے باسانید متعددہ ایک حدیث منقول ہے، ابن کثیر نے ان سب کو نقل کیا ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو ابن جریر نے ابو ثابت سے نقل کی ہے کہ وہ ایک روز مسجد میں گئے تو وہاں ابو الدرداء پہلے سے بیٹھے تھے۔ ابو ثابت ان کے برابر جا کر بیٹھ گئے اور یہ دعا کرنے لگے، اللہم انس وحشتی وارحم غربتی ویسرلی جلیساً صالحاً ” یعنی یا اللہ میری قلبی وحشت و پریشانی کو دور فرما اور میری حالت مسافرت پر رحم فرما، اور مجھے کوئی جلیس (ہمنشین) صالح نصیب فرما دے “ (یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سلف صالحین میں جلیس صالح کی طلب و تلاش کا درجہ کیا تھا کہ اس کو اہم مقصد اور سب پریشانیوں کا علاج سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے اس کی دعائیں مانگتے تھے) ابو الدرداء نے یہ دعا سنی تو فرمایا کہ اگر آپ اپنی اس دعا و طلب میں سچے ہیں تو میں اس معاملہ میں آپ سے زیادہ خوش نصیب ہوں (مطلب یہ ہے کہ مجھے اللہ نے آپ جیسا جلیس صالح بےمانگے دے دیا) اور فرمایا کہ میں آپ کو ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہے، مگر جب سے میں نے اس کو سنا ہے اب تک کسی سے بیان کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ وہ یہ ہے کہ آپ نے اس آیت کا ذکر فرمایا (آیت) ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا الآیة، پھر فرمایا کہ ان تین قسموں میں سے جو سابق بالخیرات ہیں وہ تو بےحساب جنت میں جائیں گے اور جو مقتصد یعنی درمیانے ہیں ان سے ہلکا حساب لیا جائے گا، اور ظالم یعنی جو اعمال میں کوتاہی کرنے والے اور گناہوں کی لغزش میں مبتلا ہونے والے ہیں، ان کو اس مقام میں سخت رنج وغم طاری ہوگا، پھر ان کو بھی جنت میں داخلہ کا حکم ہوجائے گا، اور سب رنج و غم دور ہوجائیں گے۔ اسی کا ذکر اگلی آیت میں آیا ہے : (آیت) وقالوا الحمد اللہ الذی اذھب عنا الحزن ” یعنی وہ کہیں گے شکر ہے اللہ کا جس نے ہمارا غم دور کردیا “- اور طبرانی نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وکلہم من ھذہ الامة، یعنی یہ تینوں قسمیں اسی امت محمدیہ میں سے ہوں گی۔- اور ابو داؤد طیالسی نے عقبہ ابن صہبان بنائی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت صدیقہ عائشہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو انہوں نے فرمایا، بیٹا یہ تینوں قسمیں جنتی ہیں۔ ان میں سے سابق بالخیرات تو وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں گزر گئے، جن کے جنتی ہونے کی شہادت خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دے دی اور مقتصد وہ لوگ ہیں جو ان کے نشان قدم پر چلے، اور سابقین کی اقتداء پر قائم رہے یہاں تک کہ ان کے ساتھ مل گئے، باقی رہے ظالم لنفسہ، تو ہم تم جیسے لوگ ہیں۔- یہ صدیقہ عائشہ کی تواضع تھی کہ اپنے آپ کو بھی انہوں نے تیسرے درجہ میں یعنی ظالم لنفسہ میں شمار کیا حالانکہ وہ احادیث صحیحہ کی تصریحات کے مطابق سابقین اولین میں سے ہیں۔- اور ابن جریر نے حضرت محمد بن حنفیہ سے نقل کیا، فرمایا کہ یہ امت امت مرحومہ ہے اس کا ظالم بھی مغفور ہے اور مقتصد یعنی میانہ رو جنت میں ہے، اور سابق بالخیرات اللہ کے نزدیک درجات عالیہ میں ہے۔- اور حضرت محمد بن علی باقر (رض) نے ظالم لنفسہ کی تفسیر میں فرمایا الذین خلط عملاً صالحاً واخر سیئاً ، یعنی وہ شخص جس نے نیک وبد دونوں طرح کے اعمال میں خلط ملط کیا ہو۔ - علماء امت محمدیہ کی عظیم الشان فضیلت :- اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ہم نے اپنی کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جو ہمارے بندوں میں منتخب اور برگزیدہ ہیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کتاب اللہ اور علوم نبوت کے بلاواسطہ وارث حضرات علماء ہیں، جیسا کہ حدیث میں بھی ارشاد ہے العلماء ورثة الانبیاء، حاصل اس کا یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت کے علوم کا مشغلہ اخلاص کے ساتھ نصیب فرمایا یہ اس کی علامت ہے کہ وہ اللہ کے برگزیدہ اولیاء ہیں، جیسا کہ حضرت ثعلب بن الحکم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز علماء امت سے خطاب فرما کر کہیں گے کہ میں نے تمہارے سینوں میں اپنا علم و حکمت صرف اسی لئے رکھا تھا کہ میرا ارادہ یہ تھا کہ تمہاری مغفرت کر دوں عمل تمہارے کیسے بھی ہوں (یہ اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ جس شخص میں خشیت اور خوف خدا نہیں وہ علماء کی فہرست ہی سے خارج ہے۔ اس لئے یہ خطاب انہی لوگوں کو ہوگا جو خشیتہ اللہ میں رنگے ہوئے ہوں ان سے یہ ممکن ہی نہیں ہوگا کہ بےفکری سے گناہوں میں ملوث رہیں، ہاں طبیعت بشریہ کے تقاضوں سے کبھی کبھی لغزش ان سے بھی ہوتی ہے۔ اسی کو اسی حدیث میں فرمایا کہ عمل تمہارے کیسے بھی ہوں تمہارے لئے مغفرت مقدر ہے۔- یہ سب روایات تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں، اور آخری حدیث میں جو حضرت ثعلبہ سے روایت کی گئی ہے اس کو طبرانی نے بھی روایت کیا ہے، جس کی سند کے سب رجال ثقاة ہیں۔ (تفسیر مظری) اور تفسیر مظہری میں بحوالہ ابن عساکر حدیث مذکور کا یہی مضمون ابوعمر صنعانی سے بھی روایت کیا ہے، اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ محشر میں اللہ اپنے سب بندوں کو جمع فرما دیں گے پھر ان میں سے علماء کو ایک ممتاز مقام پر جمع کر کے فرما دیں گے :- ” یعنی میں نے اپنا علم تمہارے قلوب میں اسی لئے رکھا تھا کہ میں تم سے واقف تھا (کہ تم اس امانت علم کا حق ادا کرو گے) میں نے اپنا علم تمہارے سینوں میں اس لئے نہیں رکھا تھا کہ تمہیں عذاب دوں جاؤ میں نے تمہاری مغفرت کردی “۔ (مظہری)- فائدہ :- اس آیت میں سب سے پہلے ظالم کو پھر مقتصد کو آخر میں سابق بالخیرات کو ذکر فرمایا ہے۔ اس ترتیب کا سبب شاید یہ ہو کہ تعداد کے اعتبار سے ظالم لنفسہ سب سے زیادہ ہیں ان سے کم مقتصد اور ان سے کم سابق بالخیرات ہیں، جن کی تعداد زیادہ تھی ان کو مقدم کیا گیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا۝ ٠ ۚ فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ۝ ٠ ۚ وَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌ۝ ٠ ۚ وَمِنْہُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَــيْرٰتِ بِـاِذْنِ اللہِ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ ہُوَالْــفَضْلُ الْكَبِيْرُ۝ ٣٢ۭ- ورث - الوِرَاثَةُ والإِرْثُ : انتقال قنية إليك عن غيرک من غير عقد، ولا ما يجري مجری العقد، وسمّي بذلک المنتقل عن الميّت فيقال للقنيةِ المَوْرُوثَةِ : مِيرَاثٌ وإِرْثٌ. وتُرَاثٌ أصله وُرَاثٌ ، فقلبت الواو ألفا وتاء، قال تعالی: وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] وقال عليه الصلاة والسلام : «اثبتوا علی مشاعرکم فإنّكم علی إِرْثِ أبيكم» «2» أي :- أصله وبقيّته، قال الشاعر :- 461-- فينظر في صحف کالرّيا ... ط فيهنّ إِرْثٌ کتاب محيّ- «3» ويقال : وَرِثْتُ مالًا عن زيد، ووَرِثْتُ زيداً :- قال تعالی: وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] ، وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] ، وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] ويقال : أَوْرَثَنِي الميّتُ كذا، وقال : وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً- [ النساء 12] وأَوْرَثَنِي اللهُ كذا، قال : وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] ، وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] ، وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] ، وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ- الآية [ الأعراف 137] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً- [ النساء 19] ويقال لكلّ من حصل له شيء من غير تعب : قد وَرِثَ كذا، ويقال لمن خُوِّلَ شيئا مهنّئا : أُورِثَ ، قال تعالی: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] ، أُولئِكَ هُمُ الْوارِثُونَ الَّذِينَ يَرِثُونَ [ المؤمنون 10- 11] وقوله : وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ- [ مریم 6] فإنه يعني وِرَاثَةَ النّبوّةِ والعلمِ ، والفضیلةِ دون المال، فالمال لا قدر له عند الأنبیاء حتی يتنافسوا فيه، بل قلّما يقتنون المال ويملکونه، ألا تری أنه قال عليه الصلاة- ( ور ث ) الوارثۃ - ولا رث کے معنی عقد شرعی یا جو عقد کے قائم مقام ہے اوکے بغیر کسی چیز کے ایک عقد کے قائم مقام ہے کے بغیر کسی چیز کے ایک شخص کی ملکیت سے نکل کر دسرے کی ملکیت میں چلے جانا کئے ہیں اسی سے میت کی جانب سے جو مال ورثاء کی طرف منتقل ہوتا ہے اسے اذث تراث اور کیراث کہا جاتا ہے اور تراث اصل میں وراث ہے واؤ مضموم کے شروع میں آنے کی وجہ سے اسے تا سے تبدیل کرلو اسے چناچہ قرآن میں سے ۔ وَتَأْكُلُونَ التُّراثَ [ الفجر 19] اور حج کے موقعہ پر آنحضرت نے فرمایا : ۔ کہ اپنے مشاعر ( مواضع نسکہ ) پر ٹھہرے رہو تم اپنے باپ ( ابراہیم کے ورثہ پر ہو ۔ تو یہاں ارث کے معنی اصل اور بقیہ نشان کے ہیں ۔۔ شاعر نے کہا ہے ( 446 ) فینظر فی صحف کالریا فیھن ارث کتاب محی وہ صحیفوں میں تالت باندھنے والے کی طرح غور کرتا ہے جن میں کہ مٹی ہوئی کتابت کا بقیہ ہے ۔ اور محاورہ میں ورث مالا عن زید وو رثت زیدا ( میں زید کا وارث بنا دونوں طرح بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَوَرِثَ سُلَيْمانُ داوُدَ [ النمل 16] اور سلیمان داؤد کے قائم مقام ہوئے ۔ وَوَرِثَهُ أَبَواهُ [ النساء 11] اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں ۔- وَعَلَى الْوارِثِ مِثْلُ ذلِكَ [ البقرة 233] اور اسی طرح نان ونفقہ بچے کے وارث کے ذمہ ہے - يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّساءَ كَرْهاً [ النساء 19] مومنوں تم کو جائز نہیں ہے کہ زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ۔ اور اوثنی المیت کذا کے معنی ہیں میت نے مجھے اتنے مال کا وارث بنایا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً [ النساء 12] اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا ۔ اور اور ثنی اللہ کذا کے معنی کسی چیز کا وارث بنا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَأَوْرَثْناها بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 59] اور بنی اسرائیل کو کتاب کا وارث بنایا ۔ وَأَوْرَثْناها قَوْماً آخَرِينَ [ الدخان 28] اور ان کی زمین کا تم کو وارث بنایا : ۔ وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ [ الأحزاب 27] اور جو لوگ ( کمزور سمجھے جاتے تھے ان کو وارث کردیا ۔ وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الآية [ الأعراف 137] ہر وہ چیز جو بلا محنت ومشقت حاصل ہوجائے اس کے متعلق ورث کذا کہتے ہیں اور جب کسی کو خوشگوار چیز بطور دی جانے تو اورث کہا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔- وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوها[ الزخرف 72] اور یہ جنت جس کے تم مالک کردیئے گئے ہو - كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - اصْطِفَاءُ- : تناولُ صَفْوِ الشیءِ ، كما أنّ الاختیار : تناول خيره، والاجتباء : تناول جبایته .- واصْطِفَاءُ اللهِ بعضَ عباده قد يكون بإيجاده تعالیٰ إيّاه صَافِياً عن الشّوب الموجود في غيره، وقد يكون باختیاره وبحکمه وإن لم يتعرّ ذلک من الأوّل، قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج 75] ، إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى آدَمَ وَنُوحاً [ آل عمران 33] ، اصْطَفاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفاكِ [ آل عمران 42] ، اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ [ الأعراف 144] ، وَإِنَّهُمْ عِنْدَنا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيارِ [ ص 47] ، واصْطَفَيْتُ كذا علی كذا، أي : اخترت . أَصْطَفَى الْبَناتِ عَلَى الْبَنِينَ [ الصافات 153] ، وَسَلامٌ عَلى عِبادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى [ النمل 59] ، ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا[ فاطر 32] ، والصَّفِيُّ والصَّفِيَّةُ : ما يَصْطَفِيهِ الرّئيسُ لنفسه، قال الشاعر : لک المرباع منها والصَّفَايَا وقد يقالان للناقة الكثيرة اللّبن، والنّخلة الكثيرة الحمل، وأَصْفَتِ الدّجاجةُ : إذا انقطع بيضها كأنها صَفَتْ منه، وأَصْفَى الشاعرُ : إذا انقطع شعره تشبيها بذلک، من قولهم : أَصْفَى الحافرُ : إذا بلغ صَفًا، أي : صخرا منعه من الحفر، کقولهم : أكدى وأحجر «2» ، والصَّفْوَانُ کالصَّفَا، الواحدةُ : صَفْوَانَةٌ ، قال تعالی: كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة 264] ، ويقال : يوم صَفْوَانٌ: صَافِي الشّمسِ ، شدید البرد .- الاصطفا ء - کے معنی صاف اور خالص چیز لے لینا کے ہیں جیسا کہ اختیار کے معنی بہتر چیز لے لینا آتے ہیں اور الا جتباء کے معنی جبایتہ یعنی عمدہ چیا منتخب کرلینا آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چن لینا کبھی بطور ایجاد کے ہوتا ہے یعنی اسے ان اندرونی کثافتوں سے پاک وصاف پیدا کرتا ہے جو دوسروں میں پائی جاتی ہیں اور کبھی بطریق اختیار اور حکم کے ہوتا ہے گو یہ قسم پہلے معنی کے بغیر نہیں پائی جاتی ۔ قرآن میں ہے : اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج 75] خدا فرشتوں اور انسانوں میں رسول منتخب کرلیتا ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفى آدَمَ وَنُوحاً [ آل عمران 33] خدا نے آدم اور نوح ۔۔۔۔۔۔ کو ( تمام جمان کے لوگوں میں ) منتخب فرمایا تھا ۔ اصْطَفاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفاكِ [ آل عمران 42] خدا نے تم کو برگزیدہ کیا اور پاک بنایا اور ۔۔۔۔۔ منتخب کیا ۔ اصْطَفَيْتُكَ عَلَى النَّاسِ [ الأعراف 144] میں نے تم کو ۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں سے ممتاز کیا ۔ وَإِنَّهُمْ عِنْدَنا لَمِنَ الْمُصْطَفَيْنَ الْأَخْيارِ [ ص 47] اور یہ لوگ ہمارے ہاں منتخب اور بہتر افراد تھے ۔ اصطفیت کذا علی کذا ایک چیز کو دوسری پر ترجیح دینا اور پسند کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ أَصْطَفَى الْبَناتِ عَلَى الْبَنِينَ [ الصافات 153] کیا اس نے بیتوں کی نسبت بیٹیوں کو پسند کیا ۔ وَسَلامٌ عَلى عِبادِهِ الَّذِينَ اصْطَفى [ النمل 59] اس کے بندوں پر سلام جن کو اس نے منتخب فرمایا : ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا[ فاطر 32] پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا جن کو اپنے بندوں میں سے برگزیدہ کیا ۔ الصفی والصفیۃ مال غنیمت کی وہ چیز جسے امیر اپنے لئے منتخب کرنے ( جمع صفایا ) شاعر نے کہا ہے ( الوافر) (274) لک المریاع منھا والصفایا تمہارے لئے اس سے ربع اور منتخب کی ہوئی چیزیں ہیں ۔ نیز صفی وصفیۃ (1) بہت دودھ دینے والی اونٹنی (2) بہت پھلدار کھجور ۔ اصفت الدجاجۃ مرغی انڈے دینے سے رک گئی گویا وہ انڈوں سے خالص ہوگئی اس معنی کی مناسبت سے جب شاعر شعر کہنے سے رک جاے تو اس کی متعلق اصفی الشاعر کہاجاتا ہے اور یہ اصفی الحافر کے محاورہ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کنواں کھودنے والا صفا یعنی چٹان تک پہنچ گیا جس نے اسے آئندہ کھدائی سے روک دیا جیسا کہ اکدی واحجر کے محاورات اس معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ اور الصفا کی طرح صفوان کے معنی بھی بڑا صاف اور چکنا پتھر کے ہیں اس کا واحد صفوانۃ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ [ البقرة 264] اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو ۔ یوم صفوان خنک دن میں سورج صاف ہو ( یعنی بادل اور غبارہ نہ ہو )- عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - قصد - القَصْدُ : استقامة الطریق، يقال : قَصَدْتُ قَصْدَهُ ، أي : نحوت نحوه، ومنه : الِاقْتِصَادُ ، والِاقْتِصَادُ علی ضربین : أحدهما محمود علی الإطلاق، وذلک فيما له طرفان : إفراط وتفریط کالجود، فإنه بين الإسراف والبخل، وکالشّجاعة فإنّها بين التّهوّر والجبن، ونحو ذلك، وعلی هذا قوله : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان 19] وإلى هذا النحو من الاقتصاد أشار بقوله : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان 67] . والثاني يكنّى به عمّا يتردّد بين المحمود والمذموم، وهو فيما يقع بين محمود و مذموم، کالواقع بين العدل والجور، والقریب والبعید، وعلی ذلک قوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر 32] ، وقوله : وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة 42] أي : سفرا متوسّط غير متناهي هي البعد، وربما فسّر بقریب . والحقیقة ما ذکرت، وأَقْصَدَ السّهم : أصاب وقتل مکانه، كأنه وجد قَصْدَهُ قال :- 368-- فأصاب قلبک غير أن لم تقصد - «3» وانْقَصَدَ الرّمحُ : انکسر، وتَقَصَّدَ : تكسّر، وقَصَدَ الرّمحَ : كسره، وناقة قَصِيدٌ: مکتنزة ممتلئة من اللّحم، والقَصِيدُ من الشّعر : ما تمّ شطر أبنیته «4» .- ( ق ص د ) القصد - ( ض ) راستہ کا سیدھا ہونا محاورہ ہ قصدث قصدہ میں اس کی طرف سیدھا گیا ۔ اسی سے اقتصاد ہے اوراقتصاد دوقسم ہر ہے (1) محمود عل الاطلاق جو افراط وتفریط کے درمیان میں ہو جیسے سخاوت جو اسراف اور بخل کے مابین کو کہتے ہیں اور شجاعت جو لاپرواہی اور بزدلی کے درمیانی درجہ کا نام ہے چناچہ اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا : وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ [ لقمان 19] اور اپنی چال میں اعتدال کئے رہنا ۔ اوراقتصادی کی اسی نوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا «2» [ الفرقان 67] یعنی اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم ۔ (2) قصد کا لفظ کنایہ کے طور پر ہر اس چیز پر بولاجاتا ہے جس کے محمود اور مذموم ہونے میں شبہ ہو یعنی جو نہ بالکل محمود اور بالکل مذموم بلکہ ان کے درمیان میں ہو ۔ مثلا ایک چیز عدلی وجور کے مابین ہو چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ [ فاطر 32] و کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں اور کچھ میانہ رو ہیں ۔ اسی طرح درمیانی مسافت پر بھی قصد کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ چناچہ آیت وَسَفَراً قاصِداً [ التوبة 42] اور سفر بھی ہلکا سا ہوتا ہے ۔ میں قاصد ا کے معنی معتدل سفر کے ہیں جو زیادہ دو ر کا نہ ہو اور بعض نے اس کا معنی سفر قریب لکھا ہے ۔ لیکن اصل معنی وہی ہیں جو ہم نے بیان کردیئے ہیں ۔ اقصد السھم تیر کا لگ کر فورا ہلاک کردینا ۔ گویا اس نے اپنے قصد کو پالیا ۔ شاعرنے کہا ہے ( الکامل) (355) فاصاب قلبک غیرا ن لم یقصد وہ تیرے دل پر لگا لیکن اس نے قتل نہیں کیا انقصد الرمح کے معنی نیزہ ٹوٹ جانے کے ہیں اور تقصد بمعنی تکسر کے ہے ۔ قصد الرمح نیزہ تؤڑ دیا ۔ ناقۃ قصید گوشت سے گتھی ہوئی اونٹنی ۔ القصید کم ازکم سات اشعار کی نظم ۔- سبق - أصل السَّبْقِ : التّقدّم في السّير، نحو : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] ، والِاسْتِبَاقُ : التَّسَابُقُ. قال : إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ، وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] ، ثم يتجوّز به في غيره من التّقدّم، قال : ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] ،- ( س ب ق) السبق - اس کے اصل معنی چلنے میں آگے بڑھ جانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَالسَّابِقاتِ سَبْقاً [ النازعات 4] پھر وہ ( حکم الہی کو سننے کے لئے لپکتے ہیں ۔ الاستباق کے معنی تسابق یعنی ایک دوسرے سے سبقت کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :َ إِنَّا ذَهَبْنا نَسْتَبِقُ [يوسف 17] ہم ایک دوسرے سے دوڑ میں مقابلہ کرنے لگ گئے ۔ وَاسْتَبَقَا الْبابَ [يوسف 25] اور دونوں دوڑتے ہوئے دروز سے پر پہنچنے ۔ مجازا ہر شے میں آگے بڑ اجانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ ما سَبَقُونا إِلَيْهِ [ الأحقاف 11] تو یہ ہم سے اس کیطرف سبقت نہ کرجاتے ۔ - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- أَذِنَ :- والإِذنُ في الشیء : إعلام بإجازته والرخصة فيه، نحو، وَما أَرْسَلْنا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ [ النساء 64] أي : بإرادته وأمره، - ( اذ ن) الاذن - الاذن فی الشئی کے معنی ہیں یہ بتا دینا کہ کسی چیز میں اجازت اور رخصت ہے ۔ اور آیت کریمہ ۔ وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ ( سورة النساء 64) اور ہم نے پیغمبر بھیجا ہی اس لئے ہے کہ خدا کے فرمان کے مطابق اس کا حکم مانا جائے ۔ میں اذن بمعنی ارادہ اور حکم ہے - فضل - الفَضْلُ : الزّيادة عن الاقتصاد، وذلک ضربان : محمود : کفضل العلم والحلم، و مذموم : کفضل الغضب علی ما يجب أن يكون عليه . والفَضْلُ في المحمود أكثر استعمالا، والفُضُولُ في المذموم، والفَضْلُ إذا استعمل لزیادة أحد الشّيئين علی الآخر - فعلی ثلاثة أضرب :- فضل من حيث الجنس، کفضل جنس الحیوان علی جنس النّبات .- وفضل من حيث النّوع، کفضل الإنسان علی غيره من الحیوان، وعلی هذا النحو قوله :- وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70] ، إلى قوله : تَفْضِيلًا - وفضل من حيث الذّات، کفضل رجل علی آخر . فالأوّلان جوهريّان لا سبیل للناقص فيهما أن يزيل نقصه وأن يستفید الفضل، کالفرس والحمار لا يمكنهما أن يکتسبا الفضیلة التي خصّ بها الإنسان، والفضل الثالث قد يكون عرضيّا فيوجد السّبيل علی اکتسابه، ومن هذا النّوع التّفضیل المذکور في قوله : وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] ، لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] ، يعني : المال وما يکتسب،- ( ف ض ل ) الفضل - کے منعی کسی چیز کے اقتضا ( متوسط درجہ سے زیادہ ہونا کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے محمود جیسے علم وحلم وغیرہ کی زیادتی مذموم جیسے غصہ کا حد سے بڑھ جانا لیکن عام طور الفضل اچھی باتوں پر بولا جاتا ہے اور الفضول بری باتوں میں اور جب فضل کے منعی ایک چیز کے دوسری پر زیادتی کے ہوتے ہیں تو اس کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں ( ۔ ) بر تری بلحاظ جنس کے جیسے جنس حیوان کا جنس نباتات سے افضل ہونا ۔ ( 2 ) بر تری بلحاظ نوع کے جیسے نوع انسان کا دوسرے حیوانات سے بر تر ہونا جیسے فرمایا : ۔ وَلَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ [ الإسراء 70]- اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ ( 3 ) فضیلت بلحاظ ذات مثلا ایک شخص کا دوسرے شخص سے بر تر ہونا اول الذکر دونوں قسم کی فضیلت بلحاظ جو ہر ہوتی ہے ۔ جن میں ادنیٰ ترقی کر کے اپنے سے اعلٰی کے درجہ کو حاصل نہیں کرسکتا مثلا گھوڑا اور گدھا کہ یہ دونوں انسان کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے ۔ البتہ تیسری قسم کی فضیلت من حیث الذات چونکہ کبھی عارضی ہوتی ہے اس لئے اس کا اکتساب عین ممکن ہے چناچہ آیات کریمہ : ۔ وَاللَّهُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ [ النحل 71] اور خدا نے رزق ( دولت ) میں بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے ۔ لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ [ الإسراء 12] تاکہ تم اپنے پروردگار کا فضل ( یعنی روزی تلاش کرو ۔ میں یہی تیسری قسم کی فضیلت مراد ہے جسے محنت اور سعی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

پھر آپ پر قرآن حکیم نازل کرنے کے بعد اس کے یاد رکھنے اور اس کے لکھنے اور اس کی کتاب کی تلاوت کرنے کی دولت ان لوگوں کو نصیب فرمائی جن کو ہم نے بذریعہ ایمان اپنے تمام بندوں میں پسند کیا ہے یعنی رسول اکرم کی امت تو ان میں سے بعض کبیرہ گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں کہ ان کی نجات شفاعت یا مغفرت وعدہ ہی کے ساتھ ہوسکتی ہے اور کچھ ان میں سے ایسے ہیں کہ ان کی نیکیاں اور گناہ دونوں برابر ہیں کہ ان کا معمولی سا حساب ہو کر پھر ان کی نجات ہوجائے گی اور کچھ ان میں ایسے ہیں جو اللہ کی توفیق سے دنیا میں نیکیوں کی طرف سبقت کرتے جارہے ہیں اور آخرت میں جنت عدن کا قرب حاصل کرتے جارہے ہیں یہ انتخاب اور اعمال صالحہ میں سبقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ان پر بڑا عظیم الشان احسان ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاج ” پھر ہم نے کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں سے ُ چن لیا۔ “- یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو کتاب کی وراثت کے لیے چن لیا ہے۔ یہ مضمون اس سے پہلے سورة الحج کی آخری آیت میں واضح تر انداز میں آچکا ہے : وَجَاہِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖط ہُوَ اجْتَبٰٹکُمْ ” اور جہاد کرو اللہ کے لیے جیسے کہ اس کے لیے جہاد کا حق ہے ‘ اس نے تمہیں چن لیا ہے “۔ سورة الحج میں اس مفہوم کے لیے لفظ ” اِجْتَبٰی “ استعمال ہوا ہے جبکہ آیت زیر مطالعہ میں لفظ ” اِصْطَفٰی “ آیا ہے۔ سورة الحج کے مطالعے کے دوران بھی ذکر ہوا تھا کہ اجتباء اور اصطفاء دونوں قریب المفہوم الفاظ ہیں ‘ لیکن لغوی مفہوم کے اعتبار سے ان دونوں میں ایک لطیف سا فرق بھی ہے۔ اس فرق کو سمجھنے کے لیے آپ انگریزی کے دو الفاظ اور کو ذہن میں رکھیے۔ میں پسند ( ) کارفرما ہوتی ہے اور اس کا تعلق ” ذوق “ سے ہے کہ کوئی اپنے ذوق کے مطابق کیا پسند ( ) کرتا ہے ‘ جبکہ انتخاب ( ) ہمیشہ کسی مقصد کے لیے ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس فرق کو اس طرح واضح کیا جاسکتا ہے :- - ان دونوں الفاظ کے مذکورہ معانی کو اگر امت مسلمہ پر منطبق کریں تو یہ اہم حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ اس امت کے اجتباء ( ) میں ایک عظیم مقصد کارفرما ہے جبکہ اصطفاء ( ) کے حوالے سے اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ دونوں الفاظ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بھی آئے ہیں (محمد مصطفیٰ اور احمد مجتبیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور مذکورہ دونوں آیات (زیرمطالعہ آیت اور سورة الحج کی آخری آیت) کے حوالے سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں۔- بہر حال اس امت کو پسندیدہ ( ) قرار دے کر اجتباء ( ) کے اعزاز سے نواز تو دیا گیا لیکن بعد میں کیا ہوا ؟- فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ ج ” تو ان میں سے کچھ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔ “- یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو اللہ کی کتاب اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا رسول تو مانتے ہیں ‘ مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت ِرسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیروی میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔- سورة الشورٰی میں اسی مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے : وَاِنَّ الَّذِیْنَ اُوْرِثُوا الْکِتٰبَ مِنْم بَعْدِہِمْ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مُرِیْبٍ یعنی انبیاء ( علیہ السلام) کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے جاتے ہیں وہ اس کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔- وَمِنْہُمْ مُّقْتَصِدٌج ” اور ان میں کچھ درمیانی راہ پر چلنے والے ہیں۔ “- یعنی ایسے لوگ جو نیکی بھی کرتے ہیں اور ان سے برائی بھی سرزد ہوجاتی ہے۔ سورة التوبہ میں ایسے اہل ِایمان کا ذکر بایں الفاظ ہوا ہے : خَلَطُوْا عَمَلًا صَالِحًا وَّاٰخَرَ سَیِّئًا (آیت ١٠٢) ” انہوں نے اچھے اور برے اعمال کو گڈمڈ کردیا ہے۔ “- وَمِنْہُمْ سَابِقٌم بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰہِ ” اور ان میں سے کچھ نیکیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں ‘ اللہ کی توفیق سے۔ “- ان میں سے کچھ ایسے خوش قسمت بھی ہوتے ہیں جو اللہ کی عطا کردہ توفیق سے دین کی خدمت کرنے ‘ حق کی دعوت کو پھیلانے ‘ اللہ کی کتاب کا حق ادا کرنے اور ہر اچھے عمل میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔- ذٰلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ ” یہی بہت بڑی فضیلت ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :55 مراد ہیں مسلمان جو پوری نوع انسانی میں سے چھانٹ کر نکالے گئے ہیں تاکہ وہ کتاب اللہ کے وارث ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے لے کر اٹھیں ۔ اگرچہ کتاب پیش تو کی گئی ہے سارے انسانوں کے سامنے ۔ مگر جنہوں نے آگے پڑھ کر اسے قبول کر لیا وہی اس شرف کے لیے منتخب کر لیے گئے کہ قرآن جیسی کتاب عظیم کے وارث اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جیسے رسول عظیم کی تعلیم و ہدایت کے امین بنیں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :56 یعنی یہ مسلمان سب کے سب ایک ہی طرح کے نہیں ہیں ، بلکہ یہ تین طبقوں میں تقسیم ہو گئے ہیں: 1 ) ۔ اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سچے دل سے اللہ کی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایمانداری کے ساتھ اللہ کا رسول تو مانتے ہیں ، مگر عملاً کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی پیروی کا حق ادا نہیں کرتے ۔ مومن ہیں مگر گناہ گار ہیں ۔ مجرم ہیں مگر باغی نہیں ہیں ۔ ضعیف الایمان ہیں مگر منافق اور دل و دماغ سے کافر نہیں ہیں ۔ اسی لیے ان کو ظالمٌ لِنفسہ ہونے کے باوجود وارثین کتاب میں داخل اور خدا کے چنے ہوئے بندوں میں شامل کیا گیا ہے ، ورنہ ظاہر ہے کہ باغیوں اور منافقوں اور قلب و ذہن کے کافروں پر ان اوصاف کا اطلاق نہیں ہو سکتا ۔ تینوں درجات میں سے اس درجہ کے اہل ایمان کا ذکر سب سے پہلے اس لیے کیا گیا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے امت میں کثرت انہی کی ہے ۔ 2 ) ۔ بیچ کی راس ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس وراثت کا حق کم و بیش ادا تو کرتے ہیں مگر پوری طرح نہیں کرتے ۔ فرماں بردار بھی ہیں اور خطا کار بھی ۔ اپنے نفس کو بالکل بے لگام تو انہوں نے نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے خدا کا مطیع بنانے کی اپنی حد تک کوشش کرتے ہیں ، لیکن کبھی یہ اس کی باگیں ڈھیلی بھی چھوڑ دیتے ہیں اور گناہوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح انکی زندگی اچھے اور برے ، دونوں طرح کے اعمال کا مجموعہ بن جاتی ہے ۔ یہ تعداد میں پہلے گروہ سے کم اور تیسرے گروہ سے زیادہ ہیں اس لیے ان کو دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے ۔ 3 ) ۔ نیکیوں میں سبقت کرنے والے ۔ یہ وارثین کتاب میں صف اول کے لوگ ہیں ۔ یہی دراصل اس وراثت کا حق ادا کرنے والے ہیں ۔ یہ اتباع کتاب و سنت میں بھی پیش پیش ہیں ، خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچانے میں بھی پیش پیش ، دین حق کی خاطر قربانیاں کرنے میں بھی پیش پیش ، اور بھلائی کے ہر کام میں پیش پیش ۔ یہ دانستہ معصیت کرنے والے نہیں ہیں ، اور نادانستہ کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر متنبہ ہوتے ہی ان کی پیشانیاں شرم سے عرق آلود ہو جاتی ہیں ۔ ان کی تعداد امت میں پہلے دونوں گروہوں سے کم ہے اس لیے ان کا آخر میں ذکر کیا گیا ہے اگرچہ وراثت کا حق ادا کرنے کے معاملہ میں ان کو اولیت کا شرف حاصل ہے ۔ یہی بہت بڑا فضل ہے ۔ اس فقرے کا تعلق اگر قریب ترین فقرے سے مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیکیوں میں سبقت کرنا ہی بڑا فضل ہے اور جو لوگ ایسے ہیں وہ امت مسلمہ میں سب سے افضل ہیں ۔ اور اس فقرے کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کتاب اللہ کا وارث ہونا اور اس وراثت کے لیے چن لیا جانا بڑا فضل ہے ، اور خدا کے تمام بندوں میں وہ بندے سب سے افضل ہیں جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر اس انتخاب میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: اس سے مراد مسلمان ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ قرآن براہ راست تو حضور سرور عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا، لیکن پھر اس کا وراث ان مسلمانوں کو بنایا گیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لئے چن لیا تھا کہ وہ اللہ کی کتاب پر ایمان لائیں، لیکن ایمان لانے کے بعد ان کی تین قسمیں ہوگئیں، ایک وہ تھے جو ایمان تو لے آئے لیکن اس کے تقاضوں پر پوری طرح عمل نہیں کیا، چنانچہ اپنے بعض فرائض چھوڑدئیے، اور گناہوں کا بھی ارتکاب کرلیا، ان کے بارے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، کیونکہ ایمان کا تقاضہ تو یہ تھا کہ انہیں جنت میں فوری داخلہ نصیب ہوتا، لیکن انہوں نے گناہ کرکے اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنالیا، جس کے نتیجے میں قانون کا تقاضا یہی ہے کہ ایسے شخص کو پہلے اپنے گناہوں کا عذاب بھگتنا ہوگا، دوسری قسم جس کو درمیانے درجے کا کہا گیا ہے، اس سے مراد وہ مسلمان ہیں جو فرائض وواجبات پر تو عمل کرتے ہیں اور گناہوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں ؛ لیکن نفلی عبادتیں اور مستحب کاموں پر عمل نہیں کرتے، اور تیسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو صرف فرائض وواجبات پر اکتفا کرنے کے بجائے نفلی عبادتوں اور مستحب کاموں کا بھی پورا اہتمام کرتے ہیں، یہ تینوں قسمیں مسلمانوں ہی کی بیان کی ہوئی ہیں، اور آخر کار مغفرت کے بعد جنت میں ان شاء اللہ تینوں قسمیں داخل ہوں گی۔