Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

برے لوگوں کا روح فرسا حال ۔ نیک لوگوں کا حال بیان فرما کر اب برے لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ یہ دوزخ کی آگ میں جلتے جھلستے رہیں گے ۔ انہیں وہاں موت بھی نہیں آئے گی جو مر جائیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( ثُمَّ لَا يَمُوْتُ فِيْهَا وَلَا يَحْيٰي 13۝ۭ ) 87- الأعلى:13 ) نہ وہاں انہیں موت آئے گی نہ کوئی اچھی زندگی ہو گی ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ جوابدی جہنمی ہیں انہیں وہاں موت نہیں آئے گی اور نہ اچھائی کی زندگی ملے گی ۔ وہ تو کہیں گے کہ اے داروغہ جہنم تم ہی اللہ سے دعا کرو کہ اللہ ہمیں موت دے دے لیکن جواب ملے گا کہ تم تو یہیں پڑے رہو گے ۔ پس وہ موت کو اپنے لئے رحمت سمجھیں گے لیکن وہ آئے گی ہی نہیں ۔ نہ مریں نہ عذابوں میں کمی دیکھیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( اِنَّ الْمُجْرِمِيْنَ فِيْ عَذَابِ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَ 74؀ښ ) 43- الزخرف:74 ) یعنی کفار دائماً عذاب جہنم میں رہیں گے جو عذاب کبھی بھی نہ ہٹیں گے نہ کم ہوں گے ۔ یہ تمام بھلائی سے محض مایوس ہوں گے اور جگہ فرمان ہے ( كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِيْرًا 97؀ ) 17- الإسراء:97 ) آگ جہنم ہمیشہ تیز ہوتی رہے گی ۔ فرماتا ہے ( فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا 30؀ۧ ) 78- النبأ:30 ) لو اب مزے چکھو ، عذاب ہی عذاب تمہارے لئے بڑھتے رہیں گے ۔ کافروں کا یہی بدلہ ہے ، وہ چیخ و پکار کریں گے ہائے وائے کریں گے دنیا کی طرف لوٹنا چاہیں گے اقرار کریں گے کہ ہم گناہ نہیں کریں گے نیکیاں کریں گے ۔ لیکن رب العالمین خوب جانتا ہے کہ اگر یہ واپس بھی جائیں گے تو وہی سرکشی کریں گے اسی لئے ان کا یہ ارمان پورا نہ ہو گا ۔ جیسے اور جگہ فرمایا کہ انہیں ان کے اس سوال پر جواب ملے گا کہ تم تو وہی ہو کہ جب اللہ کی وحدانیت کا بیان ہوتا تھا تو تم کفر کرنے لگتے تھے وہاں اس کے ساتھ شرک کرنے میں تمہیں مزہ آتا تھا ۔ پس اب بھی اگر تمہیں لوٹا دیا گیا تو وہی کرو گے جس سے ممانعت کئے جاتے ہو ۔ پس فرمایا انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تو تم بہت جئے ، تم اس لمبی مدت میں بہت کچھ کر سکتے تھے مثلاً سترہ سال جئے ۔ حضرت قتادہ کا قول ہے کہ لمبی عمر میں بھی اللہ کی طرف سے حجت پوری کرنا ہے ۔ اللہ سے پناہ مانگنی چاہئے کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ہی انسان برائیوں میں بڑھتا چلا جائے دیکھو تو یہ آیت جب اتری ہے اس وقت بعض لوگ صرف اٹھارہ سال کی عمر کے ہی تھے ۔ وہب بن منبہ فرماتے ہیں مراد بیس سال کی عمر ہے ۔ حسن فرماتے ہیں چالیس سال ۔ مسروق فرماتے ہیں چالیس سال کی عمر میں انسان کو ہوشیار ہو جانا چاہئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں اس عمر تک پہنچنا اللہ کی طرف سے عذر بندی ہو جاتا ہے ۔ آپ ہی سے ساٹھ سال بھی مروی ہیں اور یہی زیادہ صحیح بھی ہے ۔ جیسے ایک حدیث میں بھی ہے گو امام ابن جریر اس کی سند میں کلام کرتے ہیں لیکن وہ کلام ٹھیک نہیں ۔ حضرت علی سے بھی ساٹھ سال ہی مروی ہیں ۔ ابن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن ایک منادی یہ بھی ہو گی کہ ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ جانے والے کہاں ہیں؟ لیکن اس کی سند ٹھیک نہیں ۔ مسند میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ساٹھ ستر برس کی عمر کو پہنچا دیا اس کا کوئی عذر پھر اللہ کے ہاں نہیں چلے گا ۔ صحیح بخاری کتاب الرقاق میں ہے اس شخص کا عذر اللہ نے کاٹ دیا جسے ساٹھ سال تک دنیا میں رکھا ۔ اس حدیث کی اور سندیں بھی ہیں لیکن اگر نہ بھی ہوتیں تو بھی صرف حضرت امام بخاری کا اسے اپنی صحیح میں وارد کرنا ہی اس کی صحت کا ثبوت تھا ۔ ابن جریر کا یہ کہنا کہ اس کی سند کی جانچ کی ضرورت ہے امام بخاری کے صحیح کہنے کے مقابلے میں ایک جو کی بھی قیمت نہیں رکھتا ۔ واللہ اعلم ، بعض لوگ کہتے ہیں اطباء کے نزدیک طبعی عمر ایک سو بیس برس کی ہے ساٹھ سال تک تو انسان بڑھوتری میں رہتا ہے ۔ پھر گھٹنا شروع ہو جاتا ہے ۔ پس آیت میں بھی اسی عمر کو مراد لینا اچھا ہے اور یہی اس امت کی غالب عمر ہے ۔ چنانچہ ایک حدیث میں ہے میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال تک ہیں اور اس سے تجاوز کرنے والے کم ہیں ۔ ( ترمذی وغیرہ ) امام ترمذی تو اس حدیث کی نسبت فرماتے ہیں اس کی اور کوئی سند نہیں لیکن تعجب ہے کہ امام صاحب نے یہ کیسے فرما دیا ؟ اس کی ایک دوسری سند ابن ابی الدین میں موجود ہے ۔ خود ترمذی میں بھی یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الزہد میں مروی ہے ۔ ایک اور ضعیف حدیث میں ہے میری امت میں ستر سال کی عمر والے بھی کم ہوں گے اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی امت کی عمر کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا پچاس سے ساٹھ سال تک کی عمر ہے پوچھا گیا ستر سال کی عمر والے؟ فرمایا بہت کم اللہ ان پر اور اسی سال والوں پر اپنا رحم فرمائے ۔ ( بزار ) اس حدیث کا ایک راوی عثمان بن مطر قوی نہیں ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر تریسٹھ سال کی تھی ایک قول ہے کہ ساٹھ سال کی تھی یہ بھی کہا گیا ہے کہ پینسٹھ برس کی تھی ۔ واللہ اعلم ۔ ( تطبیق یہ ہے کہ ساٹھ سال کہنے والے راوی دہائیوں کو لگاتے ہیں اکائیوں کو چھوڑ دیتے ہیں پینسٹھ سال والے سال تولد اور سال وفات کو بھی گنتے ہیں اور تریسٹھ والے ان دونوں برسوں کو نہیں لگاتے ۔ پس کوئی اختلاف نہیں فالحمد اللہ ۔ مترجم ) اور تمہارے پاس ڈرانے والے آ گئے یعنی سفید بال ۔ یا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ زیادہ صحیح قول دوسرا ہی ہے جیسے فرمان ہے ( ھذا نذیر من النذر الاولی ) یہ پیغمبر نذیر ہیں ۔ پس عمر دے کر ، رسول بھیج کر اپنی حجت پوری کر دی ۔ چنانچہ قیامت کے دن بھی جب دوزخی تمنائے موت کریں گے تو یہی جواب ملے گا کہ تمہارے پاس حق آ چکا تھا یعنی رسولوں کی زبانی ہم پیغام حق تمہیں پہنچا چکے تھے لیکن تم نہ مانے اور آیت میں ہے ( وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا 15؀ ) 17- الإسراء:15 ) ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے ۔ سورہ تبارک الذی میں فرمان ہے جب جہنمی جہنم میں ڈالے جائیں گے وہاں کے داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں آئے تھے لیکن ہم نے انہیں نہ مانا ، انہیں جھوٹا جانا اور کہہ دیا کہ اللہ نے تو کوئی کتاب وغیرہ نازل نہیں فرمائی ۔ تم یونہی بک رہے ہو ، پس آج قیامت کے دن ان سے کہہ دیا جائے گا کہ نبیوں کی مخالفت کا مزہ چکھو مدت العمر انہیں جھٹلاتے رہے اب آج اپنے اعمال کے بدلے اٹھاؤ اور سن لو کوئی نہ کھڑا ہو گا جو تمہارے کام آ سکے تمہاری کچھ مدد کر سکے اور عذابوں سے بچا سکے یا چھڑا سکے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٠] مینڈھے کی شکل میں موت کا ذبح ہونا :۔ صحیح احادیث میں آیا ہے کہ میدان محشر میں جب ایمانداروں اور نافرمانوں کا فیصلہ ہوچکے گا تو سب کے سامنے ایک مینڈھا لا کر اسے ذبح کردیا جائے گا اور لوگوں سے پوچھا جائے گا کہ جانتے ہو یہ مینڈھا کیا چیز ہے ؟ سب کہیں گے۔ ہاں ہم جانتے ہیں یہ موت ہے۔ پھر ایک فرشتہ اہل جنت کو مخاطب کرکے کہے گا۔ اب تم ہمیشہ جنت میں رہو گے اور تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ پھر وہی فرشتہ اہل دوزخ کو مخاطب کرکے کہے گا کہ اب تم ہمیشہ دوزخ میں رہو گے اور تمہیں کبھی موت نہیں آئے گی۔ (مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا۔ باب جہنم)- یہ تو کافروں اور اللہ کی نمک حرامی کرنے والوں کی ایک سزا ہوگی۔ دوسری سزا یہ ہوگی کہ ان کے عذاب میں نہ کبھی وقفہ آئے گا اور نہ عذاب کی شدت میں کمی کی جائے گی۔ بلکہ اس کے بجائے ان کے عذاب میں دم بدم اضافہ ہی کیا جاتا رہے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ ۚ : جنت میں جانے والے خوش نصیبوں کے بعد جہنم میں جانے والے بدنصیبوں کا ذکر فرمایا، یعنی جن لوگوں نے اس کتاب کو ماننے سے انکار کردیا جو ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی اور جس کے وارث ہمارے چنے ہوئے بندے ہیں، ان کے لیے جہنم کی آگ ہے۔ - لَا يُقْضٰى عَلَيْهِمْ فَيَمُوْتُوْا : جہنمی موت کو راحت خیال کریں گے اور اس کی تمنا کریں گے، مگر ان کی یہ تمنا کبھی پوری نہیں ہوگی۔ قرآن مجید کی کئی آیات میں یہ ذکر فرمایا ہے کہ جہنمیوں پر موت نہیں آئے گی کہ وہ عذاب سے رہائی پاجائیں، نہ ہی ان کی زندگی کوئی زندگی ہوگی، جیسا کہ فرمایا : (] يَحْيٰي : حیات، حیات جاوداں، موت و حیات۔] ) [ الأعلٰی : ١٣ ] ” پھر وہ نہ اس میں مرے گا اور نہ زندہ رہے گا۔ “ اور دیکھیے سورة ابراہیم (١٥ تا ١٧) اور سورة زخرف (٧٧) ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( یُؤْتٰی بالْمَوْتِ کَہَیْءَۃِ کَبْشٍ أَمْلَحَ فَیُنَادِيْ مُنَادٍ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَ یَنْظُرُوْنَ فَیَقُوْلُ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہٰذَا ؟ فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ہٰذَا الْمَوْتُ ، وَ کُلُّہُمْ قَدْ رَآہُ ، ثُمَّ یُنَادِيْ یَا أَہْلَ النَّارِ فَیَشْرَءِبُّوْنَ وَ یَنْظُرُوْنَ ، فَیَقُوْلُ ہَلْ تَعْرِفُوْنَ ہٰذَا ؟ فَیَقُوْلُوْنَ نَعَمْ ہٰذَا الْمَوْتُ ، وَ کُلُّہُمْ قَدْ رَآہُ ، فَیُذْبَحُ ثُمَّ یَقُوْلُ یَا أَہْلَ الْجَنَّۃِ خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ ، وَ یَا أَہْلَ النَّارِ خُلُوْدٌ فَلَا مَوْتَ ، ثُمَّ قَرَأَ : وَ ہٰؤُلَاَءِ فِيْ غَفْلَۃٍ أَہْلُ الدُّنْیَا [ بخاري، التفسیر، سورة کھیعص، باب قولہ عزوجل : ( و أنذرھم یوم الحسرۃ ) : ٤٧٣٠ ] ” موت کو ایک چتکبرے مینڈھے کی شکل میں لایا جائے گا، پھر ایک آواز دینے والا آواز دے گا : ” اے جنت والو “ وہ گردنیں اٹھا کر دیکھیں گے، وہ کہے گا : ” کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے : ” ہاں، یہ موت ہے۔ “ اور ان سب نے اسے دیکھا ہوگا، پھر وہ آواز دے گا : ” اے آگ والو “ وہ گردنیں اٹھا کر دیکھیں گے، وہ کہے گا : ” کیا تم اسے پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے : ” ہاں، یہ موت ہے۔ “ اور ان سب نے اسے دیکھا ہوگا، پھر اسے ذبح کردیا جائے گا، پھر وہ کہے گا : ” اے جنت والو (اب) ہمیشگی ہے اور کوئی موت نہیں اور اے آگ والو (اب) ہمیشگی ہے اور کوئی موت نہیں۔ “ پھر یہ آیت پڑھی : (وَاَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ ۘ وَهُمْ فِيْ غَفْلَةٍ وَّهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) [ مریم : ٣٩ ] ” اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب (ہر) کام کا فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں (یعنی دنیا دار لوگ) اور وہ ایمان نہیں لاتے۔ “ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْر : کفار کی ایک سزا تو یہ ہوگی کہ ان کی موت کی تمنا کبھی پوری نہیں ہوگی، اس پر مزید سزا یہ ہوگی کہ کبھی عذاب میں وقفہ نہیں ہوگا، نہ عذاب کی شدت میں کمی ہوگی، بلکہ لمحہ بہ لمحہ ان کے عذاب میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٦١، ١٦٢) ، زخرف (٧٤) ، بنی اسرائیل (٩٧) اور سورة نبا (٣٠) ۔- وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْهُمْ مِّنْ عَذَابِهَا : ہم ہر ناشکرے کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں جو ہماری نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہوئے ایمان لانے کے بجائے کفر پر اصرار کرتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمَ۝ ٠ ۚ لَا يُقْضٰى عَلَيْہِمْ فَيَمُوْتُوْا وَلَا يُخَـفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِيْ كُلَّ كَفُوْرٍ۝ ٣٦ۚ- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- نار - والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] ، - ( ن و ر ) نار - اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ - جهنم - جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام - ( ج ھ ن م ) جھنم - ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ - قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - خفیف - الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل .- والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان،- نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد .- الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس،- و ثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی:- الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86]- ( خ ف ف ) الخفیف - ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا - جزا - الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، - ( ج ز ی ) الجزاء ( ض )- کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ - كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور جو کافر ہیں یعنی ابو جہل وغیرہ ان کے لیے آخرت میں دوزخ کی آگ ہوگی نہ تو ان کی قضا آئے گی کہ وہ مر ہی جائیں کہ اس عذاب سے آرام ہو اور نہ ایک لمحہ کے برابر ان سے دوزخ کا عذاب ہی ہلکا اور نہ ختم کیا جائے گا۔ آخرت میں اسی طرح ہم ہر ایک کافر کو سزا دیتے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٦ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَہُمْ نَارُ جَہَنَّمَ ” (اس کے برعکس) جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کے لیے جہنم کی آگ ہوگی۔ “- لَا یُقْضٰی عَلَیْہِمْ فَیَمُوْتُوْا وَلَا یُخَفَّفُ عَنْہُمْ مِّنْ عَذَابِہَا ” نہ تو ان کا قصہ چکایا جائے گا کہ وہ مرجائیں اور نہ ہی ان کے لیے اس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی ۔ “- اس وقت اہل جہنم کی سب سے بڑی خواہش تو یہی ہوگی کہ انہیں موت آجائے اور وہ اس کے لیے دعا بھی کریں گے۔ سورة الفرقان میں ان کی اس خواہش اور دعا کا جواب ان الفاظ میں دیا گیا ہے : لَا تَدْعُوا الْیَوْمَ ثُبُوْرًا وَّاحِدًا وَّادْعُوْا ثُـبُوْرًا کَثِیْرًا۔ ” (تب ان سے کہا جائے گا کہ) آج ایک موت نہ مانگو بلکہ بہت سی موتیں مانگو “- کَذٰلِکَ نَجْزِیْ کُلَّ کَفُوْرٍ ” اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہر ناشکرے انسان کو۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :62 یعنی اس کتاب کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani