37۔ 1 یعنی غیروں کی بجائے تیری عبادت اور معصیت کی بجائے اطاعت کریں گے۔ 37۔ 2 اس سے مراد کتنی عمر ہے ؟ مفسرین نے مختلف عمریں بیان کی ہیں بعض نے احادیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ 60 سال کی عمر مراد ہے۔ لیکن ہمارے خیال میں عمر کی تعیین صحیح نہیں اس لیے کہ عمریں مختلف ہوتی ہیں کوئی جوانی میں کوئی بڑھاپے میں فوت ہوتا ہے پھر یہ ادوار بھی لمحہ گزراں کی طرح مختصر نہیں ہوتے، مثلا ہر دور خاصا لمبا ہوتا ہے مثلا جوانی کا دور، بلوغت سے کہولت تک اور کہولت کا دور شیخوخت بڑھاپے تک اور بڑھاپے کا دور موت تک رہتا ہے۔ اور سب سے یہ سوال کرنا صحیح ہوگا کہ ہم نے تجھے اتنی عمر دی تھی کہ اگر تو حق کو سمجھنا چاہتا تو سمجھ سکتا تھا پھر تو نے حق کو سمجھنے اور اسے اختیار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ 37۔ 3 اس سے مراد نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یعنی یاد دہانی اور نصیحت کے لئے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس کے منبر و محراب کے وارث علماء تیرے پاس آئے، لیکن تو نے اپنی عقل فہم سے کام لیا نہ داعیان حق کی باتوں کی طرف دھیان کیا۔
[ ٤١] جہنمیوں کی فریاد کے مختلف جوابات :۔ اہل دوزخ کی اس فریاد کا ذکر بھی قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس کے مختلف جواب بھی۔ مثلاً ایک مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ اگر ہم انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج بھی دیں تو وہ پھر دل کی دلفریبیوں پر مفتون ہوجائیں گے اور پھر ویسے ہی کام کریں گے جیسے پہلے کرکے آئے ہیں۔ دوسرے مقام پر یہ جواب دیا گیا کہ ان کی یہ آرزو بالکل لغو ہوگی۔ کیونکہ ایمان لانے سے مراد غیب پر ایمان لانا ہے اور اعمال صالحہ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے اور یہاں روز آخرت میں جب سب کچھ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا تو پھر یہ تو ایمان بالشہادت ہوگیا۔ اور شہادت یا دیکھی ہوئی چیز پر تو ہر کوئی یقین کرلیتا ہے۔ پھر ان کی آزمائش کیا رہی جبکہ ہر انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور عقل و فہم اس لئے دیا گیا تھا کہ اس کی آزمائش ہوگی اور تیسرا جواب یہاں دیا گیا ہے کہ کیا تمہیں اتنی عمر دنیا میں نہیں دی گئی تھی کہ اگر غور و فکر کرکے تم ایمان لانا چاہتے تو اس میں کوئی بات مانع نہ تھی اس کے علاوہ تمہارے پاس نبی بھی آئے تھے جنہوں نے تمہیں تمہارے اس برے انجام سے پوری طرح آگاہ کردیا تھا۔ اس بات کا ان مجرموں کے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔- اتنی عمر سے مراد سن شعور ہے۔ بلوغت کے بعد انسان میں عقل و شعور آجاتا ہے وہ اپنا نفع و نقصان سوچنے کے قابل ہوجاتا ہے اسی لئے اس عمر میں وہ شرعاً مکلف سمجھا جاتا ہے۔ اس عمر سے پہلے اگر کوئی شخص مرجائے تو اس کا عذر قابل قبول ہوسکتا ہے۔ اور جس شخص کو چالیس یا پچاس یا ساٹھ برس عمر مل جائے تو اس پر تو مکمل طور پر حجت تمام ہوجاتی ہے۔
ۚ وَهُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا۔۔ : ” يَصْطَرِخُوْنَ ‘ ” صَرَخَ یَصْرُخُ صُرَاخًا “ (ن) (سخت چیخنا) سے باب افتعال ہے، جس میں مزید مبالغہ ہے، اصل میں ” یَصْتَرِخُوْنَ “ تھا، ” صاد “ کی مناسبت سے ” تاء “ کو ” طاء “ سے بدل دیا، یعنی بہت چیخیں چلائیں گے۔ جہنمیوں کی تمنا کہ انھیں ایک دفعہ جہنم سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا جائے اور وہ پہلے کے برعکس نیک عمل کریں گے، قرآن مجید میں کئی جگہ ذکر ہوئی ہے، مگر ان کی یہ تمنا پوری نہیں کی جائے گی۔ دیکھیے سورة اعراف (٥٣) ، سجدہ (١٢) ، مؤمن (١١) اور سورة شوریٰ (٤٤) ایک مقام پر فرمایا کہ اگر انھیں واپس بھیج بھی دیا جائے تو دوبارہ وہی کچھ کریں گے جو پہلے کرتے رہے ہیں۔ دیکھیے سورة انعام (٢٨) ۔- اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ ۔۔ : اس آیت کی تفسیر میں امام بخاری (رض) نے ابوہریرہ (رض) سے مروی حدیث بیان فرمائی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَعْذَرَ اللّٰہُ إِلَی امْرِئٍ أَخَّرَ أَجَلَہُ حَتّٰی بَلَّغَہُ سِتِّیْنَ سَنَۃً ) [ بخاري، الرقاق، باب من بلغ ستین سنۃ۔۔ : ٦٤١٩ ]” اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کا عذر ختم کردیا جس کی موت میں اتنی دیر کی کہ وہ ساٹھ برس ہی کو پہنچ گیا۔ “ مگر اس حدیث سے مراد یہ نہیں کہ اس سے کم عمر والے کو یہ بات نہیں کہی جائے گی، بلکہ مراد یہ ہے کہ سب سے زیادہ ڈانٹ اس عمر کے لوگوں کو پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات ہر اس شخص کو کہی جائے گی جو بلوغت کی عمر کو پہنچا، اللہ تعالیٰ نے اسے اچھے برے کی تمیز عطا فرمائی، اگر وہ چاہتا تو ایمان لاسکتا تھا، مگر وہ جان بوجھ کر کفر پر اڑا رہا۔ کیونکہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ ساٹھ سال سے کم عمر والے کفار کو اس عذر کی وجہ سے جہنم سے چھٹکارا نہیں ملے گا کہ انھیں ساٹھ برس کی عمر نہیں ملی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں کتنے ہی کافر جہنم واصل ہوئے، جن کی عمریں ساٹھ سال سے کم تھیں۔ - وَجَاۗءَكُمُ النَّذِيْرُ : اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے بعد ہر وہ شخص ہے جس کے ذریعے سے کسی کو حق کا پیغام پہنچے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے : (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا ) [ بني إسرائیل : ١٥ ] ” اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔ “ ” النذیر “ کا لفظ عام ہے، جس میں رسول اور اس کے نائب کے علاوہ وقتاً فوقتاً پیش آنے والے حوادث بھی شامل ہیں، جن سے بندہ عبرت حاصل کرسکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَوَلَا يَرَوْنَ اَنَّھُمْ يُفْتَنُوْنَ فِيْ كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً اَوْ مَرَّتَيْنِ ) [ التوبۃ : ١٢٦ ] ” اور کیا وہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں، پھر بھی وہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی وہ نصیحت پکڑتے ہیں۔ “ بعض سلف نے سفید بالوں کو بھی النذیر “ میں شامل کیا ہے، کیونکہ وہ زندگی کی مہلت ختم ہونے سے خبردار کرتے ہیں۔- فَذُوْقُوْا فَمَا للظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ : یہاں ظالموں سے مراد مشرک ہیں، کیونکہ جہنم میں ہمیشہ وہی رہیں گے۔
(آیت) اولم نعمرکم ما یذکر فیہ من تذکر و جاء کم النذیر، یعنی جب جہنم میں یہ فریاد کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار آپ ہمیں اس عذاب سے نکال دیجئے اب ہم نیک عمل کریں گے اور پچھلی بد اعمالیوں کو چھوڑ دیں گے۔ اس وقت یہ جواب دیا جائے گا کہ کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر کی مہلت نہیں دی تھی جس میں غور کرنے والا غور کر کے صحیح راستہ پر آجائے۔ حضرت علی ابن حسین زین العابدین (رض) نے فرمایا کہ اس سے مراد سترہ سال کی عمر ہے۔ اور حضرت قتادہ نے اٹھارہ سال کی عمر بتلائی اور مراد اس سے عمر بلوغ ہے، اور سترہ اٹھارہ کا فرق بلوغ میں ہوسکتا ہے کہ کوئی سترہ سال میں بالغ ہو کوئی اٹھارہ سال میں۔ عمر بلوغ شریعت میں پہلی حد ہے، جس میں داخل ہو کر انسان کو منجانب اللہ اتنی عقل دے دی جاتی ہے کہ اپنے بھلے برے کو سمجھنے لگے۔ اس لئے یہ خطاب عام کفار سے ہوگا، خواہ طویل العمر ہوں یا قصیر العمر۔ البتہ جس کو عمر طویل ملی اور پھر بھی اس نے ہوش نہ سنبھالا، اور دلائل قدرت کو دیکھ کر اور انبیاء کی باتیں سن کر حق کو نہ پہچانا وہ زیادہ مستحق ملامت ہوگا۔- خلاصہ یہ ہے کہ جس شخص کو صرف عمر بلوغ ملی اس کو بھی قدرت نے اتنا سامان دے دیا تھا کہ حق و باطل میں امتیاز کرسکے، جب نہ کیا تو وہ بھی مستحق ملامت و عذاب کا ہے، لیکن جس کو زیادہ عمر طویل ملی اس پر اللہ تعالیٰ کی حجت اور زیادہ پوری ہوگئی وہ اگر اپنے کفر و معصیت سے باز نہ آیا وہ زیادہ مستحق عذاب و ملامت ہے۔- حضرت علی مرتضیٰ نے فرمایا وہ عمر جس پر اللہ تعالیٰ نے گناہگار بندوں کو عار دلائی ساٹھ سال ہے۔ اور حضرت ابن عباس نے ایک روایت میں چالیس اور دوسری میں ساٹھ سال کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ وہ عمر ہے جس میں انسان پر اللہ کی حجت تمام ہوجاتی ہے اور انسان کو کوئی عذر کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ ابن کثیر نے حضرت ابن عباس کی اس دوسری حدیث کو ترجیح دی ہے۔- تقریر مذکور سے واضح ہوچکا ہے کہ سترہ اٹھارہ سال کی روایات اور ساٹھ سال کی روایات میں کوئی تعارض نہیں۔ اگرچہ انسان سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں اس قابل ہوتا ہے کہ غور وفکر کر کے حق و باطل میں تمیز کرے، اسی لئے اسی عمر بلوغ سے اس کو احکام شرعیہ کا مکلف قرار دیا گیا ہے، مگر ساٹھ سال ایسی عمر طویل ہے کہ اگر اس میں بھی کسی نے حق کو نہ پہچانا تو اسے کسی عذر کی گنجائش نہیں رہی، اس پر اللہ تعالیٰ کی حجت پوری تمام ہوچکی۔ اسی لئے امت مرحومہ کی عام عمریں ساٹھ سال سے ستر سال تک مقدر ہیں، جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہے :- ” یعنی میری امت کے عمریں ساٹھ سے ستر سال تک ہوں گی، کم لوگ ہوں گے جو اس سے تجاوز کریں گے “- آخر آیت میں فرمایا (آیت) وجاء کم النذیر، اس میں اشارہ ہے کہ انسان کو عمر بلوغ کے وقت سے اتنی عقل وتمیز منجانب اللہ عطا ہوجاتی ہے کہ کم از کم اپنے خالق ومالک کو پہچانے اور اس کی رضا جوئی کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے۔ اتنے کام کے لئے خود انسانی عقل بھی کافی تھی، مگر اللہ جل شانہ، نے صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ اس عقل کی امداد کے لئے نذیر بھی بھیجے، نذیر کے معنی اردو میں ڈرانے والے کے کئے جاتے ہیں، درحقیقت نذیر وہ شخص ہے جو اپنی رحمت و شفقت کے سبب اپنے لوگوں کو ایسی چیزوں سے بچنے کی ہدایت کرے جو اس کو ہلاکت یا مضرت میں ڈالنے والی ہیں، اور ان چیزوں سے لوگوں کو ڈرائے۔ مراد اس سے معروف معنی کے اعتبار سے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے نائب علماء ہیں۔ حاصل آیت کا یہ ہے کہ ہم نے حق و باطل کو پہچاننے کے لئے عقل بھی دی، اس کے ساتھ اپنے پیغمبر بھی بھیجے جو حق کی طرف ہدایت کریں باطل سے بچائیں۔- اور حضرت ابن عباس، عکرمہ اور امام جعفر باقر سے منقول ہے کہ نذیر سے مراد بڑھاپے کے سفید بال ہیں، کہ جب وہ ظاہر ہوجائیں تو وہ انسان کو اس کی ہدایت کرتے ہیں کہ اب رخصت کا وقت قریب آ گیا ہے۔ یہ قول بھی پہلے قول سے متعارض نہیں کہ سفید بال بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نذیر ہوں اور انبیاء و علماء بھی۔- اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کو بالغ ہونے کے بعد سے جتنے حالات پیش آتے ہیں اس کے اپنے وجود اور گردو پیش میں جو تغیرات و انقلابات آتے ہیں، وہ سب ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نذیر اور انسان کو متنبہ کرنے والے ہیں۔
وَہُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْہَا ٠ ۚ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ ٠ ۭ اَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْہِ مَنْ تَذَكَّرَ وَجَاۗءَكُمُ النَّذِيْرُ ٠ ۭ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ ٣٧ۧ- صرخ :- يه لفظ مفردات القرآن سے نهيں ملا - الصَّرْخَةُ : الصَّيْحَةُ الشَّدِيدَةُ عِنْدَ الْفَزَعِ أَو الْمُصِيبَةِ. وَقِيلَ الصُّراخُ الصَّوْتُ الشَّدِيدُ مَا كَانَ ؛ صَرَخَ يصرُخُ صُراخاً. وَمِنْ أَمثالهم : كانَتْ كَصَرْخَةِ الحُبْلى؛ للأَمر يفجَؤُك . وَالصَّارِخُ وَالصَّرِيخُ : الْمُسْتَغِيثُ. وَفِي الْمَثَلِ : عَبْدٌ صَريخُهُ أَمَةٌ أَي نَاصِرُهُ أَذل مِنْهُ وأَضعف؛ وَقِيلَ : الصَّارِخُ الْمُسْتَغِيثُ وَالْمُصْرِخُ الْمُغِيثُ ، ؛ وَقِيلَ : الصَّارِخُ الْمُسْتَغِيثُ وَالصَّارِخُ الْمُغِيثُ ؛ قَالَ الأَزهري : وَلَمْ أَسمع لِغَيْرِ الأَصمعي فِي الصَّارِخِ أَن يَكُونَ بِمَعْنَى الْمُغِيثِ. قَالَ : وَالنَّاسُ كُلُّهُمْ عَلَى أَن الصارخ المستغیث، والمصرخ المغیث، وَالْمُسْتَصْرِخَ الْمُسْتَغِيثُ أَيضاً. وَرَوَى شَمِرٌ عَنْ أَبي حَاتِمٍ أَنه قَالَ : الِاسْتِصْرَاخُ الِاسْتِغَاثَةُ ، والاستصراخ الْإِغَاثَةُ. وَفِي حَدِيثِ- ابْنِ عُمَرَ : أَنه اسْتَصْرَخَ عَلَى امرأَته صَفِيَّةَ اسْتِصْرَاخَ الْحَيِّ عَلَى الْمَيِّتِ- أَي اسْتَعَانَ بِهِ لِيَقُومَ بشأْن الْمَيِّتِ فَيُعِينَهُمْ عَلَى ذَلِكَ ، وَالصُّرَاخُ صَوْتُ اسْتِغَاثَتِهِمْ ؛ قَالَ ابْنُ الأَثير : اسْتُصْرِخ الإِنسان إِذا أَتاه الصَّارِخُ ، وَهُوَ الصَّوْتُ يُعْلِمُهُ بأَمر حَادِثٍ لِيَسْتَعِينَ بِهِ عَلَيْهِ ، أَو يَنْعَى لَهُ مَيْتًا . واسْتَصْرَخْتُهُ إِذا حَمَلْتَهُ عَلَى الصُّرَاخِ. وَفِي التَّنْزِيلِ : مَا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَما أَنْتُمْ بِمُصْرِخِيَ- . والصریخُ :- الْمُغِيثُ ، وَالصَّرِيخُ الْمُسْتَغِيثُ أَيضاً ، مِنَ الأَضداد؛ قَالَ أَبو الْهَيْثَمِ : مَعْنَاهُ مَا أَنا بِمُغِيثِكُمْ. قَالَ : وَالصَّرِيخُ الصَّارِخُ ، وَهُوَ الْمُغِيثُ مِثْلُ قَدِيرٍ وَقَادِرٍ. واصْطَرَخَ القَومُ وَتَصَارَخُوا وَاسْتَصْرَخُوا : اسْتَغَاثُوا . وَالِاصْطِرَاخُ : التَّصَارُخُ ، افْتِعَالٌ. وَالتَّصَرُّخُ : تَكَلُّفُ الصُّرَاخِ. وَيُقَالُ : التَّصَرُّخُ بِهِ حُمْقٌ أَي بِالْعُطَاسِ. وَالْمُسْتَصْرِخُ : الْمُسْتَغِيثُ ؛ تَقُولُ مِنْهُ : اسْتَصْرَخَنِي فأَصرخته . والصَّريخُ : صوتُ الْمُسْتَصْرِخِ. وَيُقَالُ : صَرَخَ فُلَانٌ يصرخُ صُرَاخًا إِذا استغاث فقال : وا غوثاهْ وا صَرْخَتاهْ قَالَ : وَالصَّرِيخُ يَكُونُ فَعَيْلًا بِمَعْنَى مُفعِل مِثْلَ نَذِيرٍ بِمَعْنَى مُنْذِرٍ وَسَمِيعٍ بِمَعْنَى مُسْمِعٍ؛ ( لسان العرب)- یصطرخون۔ مضارع جمع مذکر غائب اصطراخ ( افتعال) مصدر افتعال کی تا کو طا سے بدلا گیا ہے وہ چیخیں گے ۔ وہ چلائیں گے ۔ وہ فریاد کریں گے۔ اور جگہ قرآن مجید ہے فاذا الذی استنصرہ بالامس یستصرخہ (28:18) تو ناگہاں وہی شخص جس نے کل ان سے مدد مانگی تھی پھر ان کو پکار رہا ہے۔ اور وان نشا نغرقہم فلا صریخ لہم (36:43) اور اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں پس ان کا کوئی فریادرس نہ ہو۔ ( انوار البیان)- خرج - خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] ،- ( خ رج ) خرج ۔ ( ن)- خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ - عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - غير - أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] ،- ( غ ی ر ) غیر - اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے - عمر ( زندگی)- والْعَمْرُ والْعُمُرُ : اسم لمدّة عمارة البدن بالحیاة، فهو دون البقاء، فإذا قيل : طال عُمُرُهُ ، فمعناه : عِمَارَةُ بدنِهِ بروحه، وإذا قيل : بقاؤه فلیس يقتضي ذلك، فإنّ البقاء ضدّ الفناء، ولفضل البقاء علی العمر وصف اللہ به، وقلّما وصف بالعمر . والتَّعْمِيرُ : إعطاء العمر بالفعل، أو بالقول علی سبیل الدّعاء . قال : أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] ، وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] ، وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ- [ البقرة 96] ، وقوله تعالی: وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] ، قال تعالی: فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] ، وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] . والعُمُرُ والْعَمْرُ واحد لکن خُصَّ القَسَمُ بِالْعَمْرِ دون العُمُرِ «3» ، نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] ، وعمّرک الله، أي : سألت اللہ عمرک، وخصّ هاهنا لفظ عمر لما قصد به قصد القسم،- ( ع م ر ) العمارۃ - اور العمر والعمر اس مدت کو کہتے میں جس میں بدن زندگی کے ساتھ آباد رہتا ہے اور یہ بقا سے فرو تر ہے چنناچہ طال عمر ہ کے معنی تو یہ ہوتے ہیں کہ اس کا بدن روح سے آباد رہے لیکن طال بقاء ہ اس مفہوم کا مقتضی نہیں ہے کیونکہ البقاء تو فناء کی ضد ہے اور چونکہ بقاء کو عمر پر فضیلت ہے اس لئے حق تعالیٰ بقاء کے ساتھ تو موصؤف ہوتا ہے مگر عمر کے ساتھ بہت کم متصف ہوتا ہے ۔ التعمیر کے معنی ہیں بالفعل عمر بڑھانا نا یا زبان کے ساتھ عمر ک اللہ کہنا یعنی خدا تیری عمر دراز کرے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ ما يَتَذَكَّرُ فِيهِ [ فاطر 37] کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں جو سوچنا چاہتا سوچ لیتا ۔ وَما يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِهِ [ فاطر 11] اور نہ کسی بڑی عمر والے کو عمر زیادہ دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے ۔ وَما هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذابِ أَنْ يُعَمَّرَ [ البقرة 96] اگر اتنی لمبی عمر اس کو مل بھی جائے تو اسے عذاب سے تو نہیں چھڑا سکتی ۔ اور آیت : ۔ وَمَنْ نُعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِي الْخَلْقِ [يس 68] اور جس کو بڑی عمر دیتے ہیں اسے خلقت میں اوندھا کردیتے ہیں ۔ فَتَطاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ [ القصص 45] یہاں تک کہ ( اسی حالت میں ) ان کی عمر ین بسر ہوگئیں ۔ وَلَبِثْتَ فِينا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ [ الشعراء 18] اور تم نے برسوں ہمارے عمر بسر کی ۔ العمر والعمر کے ایک ہی معنی ہیں لیکن قسم کے موقعہ پر خاص کر العمر کا لفظ ہی استعمال ہوتا ہے ۔ عمر کا لفظ نہیں بولا جاتا جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ [ الحجر 72] تمہاری زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں عمرک اللہ خدا تمہاری عمر دارز کرے یہاں بھی چونکہ قسم کی طرح تاکید مراد ہے اس لئے لفظ عمر کو خاص کیا ہے - تَّذْكِرَةُ- : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ - التذکرۃ - جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا - جاء - جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] ، - ( ج ی ء ) جاء ( ض )- جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔- النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ - ذوق - الذّوق : وجود الطعم بالفم، وأصله فيما يقلّ تناوله دون ما يكثر، فإنّ ما يكثر منه يقال له :- الأكل، واختیر في القرآن لفظ الذّوق في العذاب، لأنّ ذلك۔ وإن کان في التّعارف للقلیل۔ فهو مستصلح للکثير، فخصّه بالذّكر ليعمّ الأمرین، وکثر استعماله في العذاب، نحو : لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] - ( ذ و ق ) الذاق ( ن )- کے معنی سیکھنے کے ہیں ۔ اصل میں ذوق کے معنی تھوڑی چیز کھانے کے ہیں ۔ کیونکہ کسی چیز کو مقدار میں کھانے پر اکل کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن نے عذاب کے متعلق ذوق کا لفظ اختیار کیا ہے اس لئے کہ عرف میں اگرچہ یہ قلیل چیز کھانے کے لئے استعمال ہوتا ہے مگر لغوی معنی کے اعتبار سے اس میں معنی کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا معنی عموم کثرت کی صلاحیت موجود ہے ۔ لہذا منعی عموم کے پیش نظر عذاب کے لئے یہ لفظ اختیار کیا ہے ۔ تاکہ قلیل وکثیر ہر قسم کے عذاب کو شامل ہوجائے قرآن میں بالعموم یہ لفظ عذاب کے ساتھ آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ لِيَذُوقُوا الْعَذابَ [ النساء 56] تاکہ ( ہمیشہ ) عذاب کا مزہ چکھتے رہیں ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] - ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچ
سمجھ داری کی عمر - قول باری ہے (اولم نعمر کم ما یتذکر فیہ من تذکروجآء کم النذیر ۔ کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس میں جس کو سمجھنا ہوتا سمجھ لیتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنا تھا) حضرت ابن عباس (رض) اور مسروق سے روایت ہے کہ سمجھ کی جس عمر کا اللہ نے ذکر کیا ہے وہ چالیس برس کی عمر ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت کے مطبق نیز حضرت علی (رض) سے مروی ہے کہ یہ ساٹھ برس ہے۔- ہمیں عبداللہ بن محمد نے روایت بیان کی انہیں الحسن بن الربیع نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے کہا کہ مجھے بنو غفار کے ایک شخص نے سعید المقبری سے روایت سنائی۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لقد اعذر اللہ عبداً احیاہ حتی بلغ ستین اور سبعین سنۃ لقد ا عذر اللہ الیہ لقد اعذر اللہ الیہ۔ اللہ تعالیٰ نے جس بندے کو ساٹھ ستر سال تک زندہ رکھا ہو اس نے گویا اس کا عذر دور کردیا، اس نے گویا اس کا عذر دور کردیا) یعنی اس عمر میں پہنچ کر بھی اگر وہ خدا شناسی سے بےبہرہ رہ جائے تو اس کی کوئی معذرت قابل قبول نہیں ہوگی۔- ہمیں عبداللہ نے روایت بیان کی ، انہیں حسن نے، انہیں عبدالرزاق نے معمر سے، انہوں نے ابوخیثم سے، انہوں نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ ” وہ عمر جس میں اللہ تعالیٰ نے ابن آدم کا عذر دور کردیا ہے ساٹھ برس کی عمر ہے۔ “ اسی استاد سے مجاہد سے بھی اسی قسم کی روایت ہے۔ قول باری (وجاء کم النذیر) کی تفسیر میں ایک قول ہے کہ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات مراد ہے۔ ایک قول ہے کہ اس سے بڑھاپا مراد ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں نذیر سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات نیز وہ تمام دلائل مراد لینا درست ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید، اپنے انبیاء کی تصدیق، اپنے وعدے اور وعید پر قائم کر رکھے ہیں نیز زندگی کے تمام مراحل میں بلوغت سے لے کر موت تک پیدا ہونے والے وہ جسمانی اور ذہنی تغیرات وتبدلات بھی جن میں انسان کو کوئی دخل نہیں ہوتا اور یہ فطری طور پر اپنے اپنے اوقات میں رونما ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عمر کے ایک مرحلے میں ایک شخص نو عمر، پھر جوان ہوتا ہے پھر ادھیڑ عمر کو پہنچ کر بڑھاپے کی سرحد میں داخل ہوجاتا ہے ۔ پھر ان مراحل میں بیماری ، صحت نیز فقہ وغنا اور خوشی غمی کے ادوار گزرتے ہیں۔- یہ خود اپنی جگہ معرفت الٰہی کے دلائل ہیں، علاوہ ازیں ہر شخص اپنی ذات سے باہر دوسروں پر گزرنے والے حوادث کا اور ان حوادث کے نزول میں ان کے بےبسی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ یہ تمام باتیں بھی اسے اللہ کی ذات کی طرف دعوت دینے والی اور اس کی ذات سے ڈرانے والی ہوتی ہیں۔ - جس طرح ارشاد ہے (اولم ینظروا فی ملکوت السموت والارض وما خلق اللہ من شیء کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین میں (اللہ کی) بادشاہت نیز اللہ کی پیدا کردہ چیزوں کو نہیں دیکھا) اللہ تعالیٰ نے یہ بتادیا کہ اس کی پیدا کردہ تمام چیزوں میں اس کی ذات پر دلالت موجود ہے اور بندوں کو اس کی طرف لے جانے کا وسیلہ بھی موجود ہے۔
اور وہ کافر اس دوزخ میں پڑے ہوئے فریاد اور واویلا اور آہ وزاری کریں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں دوزخ سے نکال کر پھر دنیا میں بھیج دیجیے تاکہ ہم آپ پر ایمان لے آئیں اور خوب خلوص کے ساتھ نیک اعمال کریں بجائے ان کاموں کے جو کہ حالت شرک میں کرتے تھے اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ اے گروہ کفار کیا ہم نے تمہیں دنیا میں اتنی مہلت نہیں دیت کہ جس کو نصیحت حاصل کرنی اور ایمان لانا ہوتا وہ نصیحت حاصل کرلیتا اور ایمان لے آتا اور تمہارے پاس رسول اکرم قرآن کریم لے کر آئے تھے اور تمہیں اس دن سے ڈرایا تھا مگر پھر بھی تم ایمان نہیں لائے سو اب دوزخ کے عذاب کا مزہ چکھو ایسے کافروں کا عذاب خداوندی کے مقابلہ میں کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
آیت ٣٧ وَہُمْ یَصْطَرِخُوْنَ فِیْہَاج رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِیْ کُنَّا نَعْمَلُ ” اور وہ اس میں چیخ و پکار کریں گے : اے ہمارے پروردگار ہمیں (یہاں سے) نکال لے اب ہم نیک اعمال کریں گے ‘ ان اعمال سے مختلف جو ہم (پہلے) کیا کرتے تھے۔ “- اَوَلَمْ نُعَمِّرْکُمْ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَنْ تَذَکَّرَ ” کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی کہ اس میں سبق حاصل کرلیا جس نے سبق حاصل کرنا چاہا “- ہم نے تمہیں عمر کی مناسب مہلت دی تھی۔ اسی مہلت میں کچھ لوگوں نے دنیا میں رہتے ہوئے غیب کے پردوں میں ہمیں پہچانا۔ وہ ہم پر ایمان لائے اور بھلائی کا راستہ اختیار کر کے جنت میں پہنچ گئے۔ عمر کی اس مہلت میں اگر وہ لوگ راہ راست پر آسکتے تھے تو تم لوگ ایسا کیوں نہیں کرسکتے تھے ؟- وَجَآئَ کُمُ النَّذِیْرُط ” اور تمہارے پاس خبردار کرنے والا بھی تو آیا تھا “- فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ نَّصِیْرٍ ” تو اب چکھو (مزہ اس عذاب کا اور یاد رکھو کہ) ظالموں کے لیے کوئی مدد گار نہیں ہے۔ “
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :63 اس سے مراد ہر وہ عمر ہے جس میں آدمی اس قابل ہو سکتا ہو کہ اگر وہ نیک و بد اور حق و باطل میں امتیاز کرنا چاہے تو کر سکے اور گمراہی چھوڑ کر ہدایت کی طرف رجوع کرنا چاہے تو کر سکے ۔ اس عمر کو پہنچنے سے پہلے اگر کوئی شخص مر چکا ہو تو اس آیت کی رو سے اس پر کوئی مواخذہ نہ ہوگا ۔ البتہ جو اس عمر کو پہنچ چکا ہو وہ اپنے عمل کے لیے لازماً جواب دہ قرار پائے گا ، اور پھر اس عمر کے شروع ہو جانے کے بعد جتنی مدت بھی وہ زندہ رہے اور سنبھل کر راہ راست پر آنے کے لیے جتنے مواقع بھی اسے ملتے چلے جائیں اتنی ہی اس کی ذمہ داری شدید تر ہوتی چلے جائے گی ، یہاں تک کہ جو شخص بڑھاپے کو پہنچ کر بھی سیدھا نہ ہو اس کے لیے کسی عذر کی گنجائش باقی نہ رہے گی ۔ یہی بات ہے جو ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت سہل بن سَعد ساعِدی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرمائی ہے کہ جو شخص کم عمر پائے اس کے لیے تو عذر کا موقع ہے ، مگر 60 سال اور اس سے اوپر عمر پانے والے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے ( بخاری ، احمد ، نَسائی ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم وغیرہ ) ۔
10: انسان کو اوسطاً جتنی عمر دی جاتی ہے، وہ اتنی طویل ہے، اور اس میں انسان اتنے مختلف مراحل سے گزرتا ہے کہ اگر وہ واقعی حق تک پہنچنا چاہے تو پہنچ سکتا ہے، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دار کرنے والے بھی اسی عمر کے دوران آتے رہتے ہیں، خبر دار کرنے والے سے مراد انبیاء کرام اور اس امت کے لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جنہوں نے انسان کو آخرت کے عذاب سے آگاہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور آپ کے بعد آپ کے صحابہ اور ہر دور میں علماء بھی یہ فریضہ انجام دیتے رہے ہیں، اور بعض مفسرین نے خبردار کرنے والے کی تفسیر یہ کی ہے کہ انسانی عمر کے مختلف مرحلوں پر جو چیزیں موت کی یاد دلاتی ہیں یہاں خبر دار کرنے والے سے مراد وہ ہیں چنانچہ بڑھاپے کے مقدمے کے طور پر انسان کے بال سفید ہوتے ہیں تو وہ بھی خبر دار کرنے والا ہے، جب کسی کے یہاں اس کا پوتا پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی ڈرانے والا ہے کہ موت کا وقت قریب آرہا ہے، نیز انسان کو جو بیماریاں لاحق ہوتی ہیں وہ سب بھی موت کی یاد دلاکر انسان کو خبر دار کرتی ہیں کہ وہ آخرت کی بہتری کا کوئی سامان کرلے۔