وسیع العلم اللہ تعالیٰ کا فرمان ۔ اللہ تعالیٰ اپنے وسیع اور بےپایاں علم کا بیان فرما رہا ہے کہ وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا عالم ہے دلوں کے بھید سینوں کی باتیں اس پر عیاں ہیں ۔ ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ وہ دے گا ، اس نے تمہیں زمین میں ایک دوسرے کا خلیفہ بنایا ہے ۔ کافروں کے کفر کا وبال خود ان پر ہے ۔ وہ جیسے جیسے اپنے کفر میں بڑھتے ہیں ویسے ہی اللہ کی ناراضگی ان پر بڑھتی ہے اور ان کا نقصان اور زیاں ہوتا جاتا ہے ۔ برخلاف مومن کے کہ اس کی عمر جس قدر بڑھتی ہے نیکیاں بڑھتی ہیں اور درجے پاتا ہے اور اللہ کے ہاں مقبول ہوتا جاتا ہے ۔
38۔ 1 یہاں یہ بیان کرنے سے یہ مقصد بھی ہوسکتا ہے کہ تم دوبارہ دنیا میں جانے کی آرزو کر رہے ہو اور دعوٰی کر رہے ہو کہ اب نافرمانی کی جگہ اطاعت اور شرک کی جگہ توحید اختیار کرو گے۔ لیکن ہمیں علم ہے تم ایسا نہیں کرو گے۔ تمہیں اگر دنیا میں دوبارہ بھیج دیا جائے تو وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے ہو جیسے دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا اگر انہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تو وہی کام کریں گے جن سے انہیں منع کیا گیا ۔ 38۔ 2 یہ پچھلی بات کی دلیل ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو آسمان اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا علم کیوں نہ ہو، جبکہ وہ سینوں کی باتوں اور رازوں سے بھی واقف ہے جو سب سے زیادہ پوشیدہ ہوتے ہیں۔
[ ٤٢] یعنی وہ ان فریاد کرنے والے اہل دوزخ کے متعلق خوب جانتا ہے کہ وہ اب بھی جھوٹ بک رہے ہیں۔ ان کی افتاد طبع ہی ایسی ہے کہ اگر انہیں دنیا میں بھیج بھی دیا جائے تو اپنی خباثتوں اور شرارتوں سے کبھی باز نہ آئیں گے جیسا کہ سورة انعام میں فرمایا : ( وَلَوْرُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُھُوْا عَنْہُ وَإنَّھُمْ لَکَاذِبُوْنَ ) (٦: ٢٨)
اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَيْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۔ : اللہ تعالیٰ آسمان و زمین میں ہر غائب چیز کو جاننے والا ہے، اس کے علم سے کوئی چیز مخفی نہیں، وہ سینوں میں چھپی ہوئی باتوں کو بھی خوب جانتا ہے اور تمہارے دلوں میں چھپے ہوئے کفر پر اصرار سے بھی خوب واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اتنی مدت تک عمر دینے پر جب تم کفر پر قائم رہے تو مزید عمر دینے پر بھی تم یہی کچھ کرتے اور اسے خوب معلوم ہے کہ اگر وہ تمہاری درخواست قبول کرکے تمہیں دوبارہ دنیا میں بھیج دے تو تم پھر وہی کچھ کرو گے جو پہلے کرتے رہے، جیسا کہ فرمایا : (وَلَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ) [ الأنعام : ٢٨ ] ” اور اگر انھیں دوبارہ بھیج دیا جائے تو دوبارہ وہی کام کریں گے جس سے انھیں منع کیا گیا تھا اور یقیناً وہ جھوٹے ہیں۔ “
خلاصہ تفسیر - بیشک اللہ (وہی) جاننے والا ہے آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کا بیشک وہی جاننے والا ہے دل کی باتوں کا (پس کمال علمی تو اس کا ایسا ہے، اور کمال عملی جو کہ قدرت اور نعمت دونوں پر دلالت کرتا ہے یہ ہے کہ) وہی ایسا ہے جس نے تم کو زمین میں آباد کیا (اور ان دلائل احسانات کا مقتضا یہ تھا کہ استدلا لاً وشکراً توحید و اطاعت اختیار کرلیتے، مگر بعضے اس کے خلاف کفر و عداوت پر مصر ہیں) سو (کسی دوسرے کا کیا بگڑتا ہے، بلکہ) جو شخص کفر کرے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر پڑے گا اور (اس وبال کی تفصیل یہ ہے کہ) کافروں کے لئے ان کا کفر ان کے پروردگار کے نزدیک ناراضگی ہی بڑھنے کا باعث ہوتا ہے (جو دنیا ہی میں متحقق ہوجاتی ہے) اور (نیز) کافروں کے لئے ان کا کفر (آخرت میں) خسارہ بڑھنے کا باعث ہوتا ہے (کہ وہ حرمان ہے۔ جنت سے اور کندہ بنتا ہے جہنم کا اور یہ جو کفر و شرک پر مصر ہیں) آپ (ان سے ذرا یہ تو) کہتے کہ تم اپنے قرار دادہ شریکوں کا حال تو بتلاؤ جن کو تم خدا کے سوا پوجا کرتے ہو، یعنی مجھ کو یہ بتلاؤ کہ انہوں نے زمین کا کونسا حصہ بنایا ہے یا ان کا آسمان (بنانے) میں کچھ ساجھا ہے، (تا کہ دلیل عقلی سے ان کا استحقاق عبادت ثابت ہو) یا ہم نے ان (کافروں) کو کوئی کتاب دی ہے (جس میں شرک کے اعتقاد کو درست لکھا ہو) کہ یہ اس کی دلیل پر قائم ہوں (اور اس دلیل نقلی سے اپنے دعوے کو ثابت کردیں۔ اصل یہ ہے کہ نہ دلیل عقلی ہے نہ دلیل نقلی ہے) بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے سے نری دھوکہ کی باتوں کا وعدہ کرتے آئے ہیں (کہ ان کے بڑوں نے ان کو بےسند غلط بات بتلا دی کہ (لہولاء شفعاؤنا عند اللہ) حالانکہ واقع میں وہ محض بےاختیار ہیں، پس وہ مستحق عبادت نہیں ہو سکتے۔ البتہ مختار مطلق حق تعالیٰ ہے تو وہی قابل عبادت ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ کے مختار اور دوسروں کے غیر مختار ہونے کے دلائل میں سے نمونہ کے طور پر ایک مختصر سی بات بیان کرتے ہیں کہ دیکھو یہ تو) یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو (اپنی قدرت سے) تھامے ہوئے ہے کہ وہ موجودہ حالات کو چھوڑ نہ دیں اور اگر (بالفرض) وہ موجودہ حالت کو چھوڑ بھی دیں تو پھر خدا کے سوا اور کوئی ان کو تھام بھی نہیں سکتا۔ (جب ان سے پیدا شدہ عالم کی حفاظت بھی نہیں ہو سکتی تو عالم کو وجود میں لانے اور ایجاد کرنے کی ان سے کیا توقع رکھی جاسکتی ہے، پھر استحقاق عبادت کیسا اور باوجود بطلان کے شرک کرنا مقتضی اس کو تھا کہ ان کو ابھی سزا دی جاوے مگر چونکہ) وہ حلیم (ہے اس لئے مہلت دے رکھی ہے اور اگر اس مہلت میں یہ لوگ حق کی طرف آ جاویں تو چونکہ وہ) غفور (بھی) ہے، اس لئے سب گزشتہ شرارتیں ان کی معاف کردی جاویں) ۔
اِنَّ اللہَ عٰلِمُ غَيْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ ۭ اِنَّہٗ عَلِـيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ٣٨- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] ، وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] ، ثم استعیر لمقدّم الشیء كَصَدْرِ القناة، وصَدْرِ المجلس، والکتاب، والکلام، وصَدَرَهُ أَصَابَ صَدْرَهُ ، أو قَصَدَ قَصْدَهُ نحو : ظَهَرَهُ ، وكَتَفَهُ ، ومنه قيل : رجل مَصْدُورٌ:- يشكو صَدْرَهُ ، وإذا عدّي صَدَرَ ب ( عن) اقتضی الانصراف، تقول : صَدَرَتِ الإبل عن الماء صَدَراً ، وقیل : الصَّدْرُ ، قال : يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] ، والْمَصْدَرُ في الحقیقة : صَدَرٌ عن الماء، ولموضع المصدر، ولزمانه، وقد يقال في تعارف النّحويّين للّفظ الذي روعي فيه صدور الفعل الماضي والمستقبل عنه .- ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے ۔ وَلكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ [ الحج 46] بلکہ دل جو سینوں میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ ہر چیز کے اعلیٰ ( اگلے ) حصہ کو صدر کہنے لگے ہیں جیسے صدرالقناۃ ( نیزے کا بھالا ) صدر المجلس ( رئیس مجلس ) صدر الکتاب اور صدرالکلام وغیرہ صدرہ کے معنی کسی کے سینہ پر مارنے یا اس کا قصد کرنے کے ہیں جیسا کہ ظھرہ وکتفہ کے معنی کسی کی پیٹھ یا کندھے پر مارنا کے آتے ہیں ۔ اور اسی سے رجل مصدور کا محاورہ ہے ۔ یعنی وہ شخص جو سینہ کی بیماری میں مبتلا ہو پھر جب صدر کا لفظ عن کے ذریعہ متعدی ہو تو معنی انصرف کو متضمن ہوتا ہے جیسے صدرن الابل عن الماء صدرا وصدرا اونٹ پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹ آئے ۔ قرآن میں ہے - :۔ يَوْمَئِذٍ يَصْدُرُ النَّاسُ أَشْتاتاً [ الزلزلة 6] اس دن لوگ گروہ گروہ ہو کر آئیں گے ۔ اور مصدر کے اصل معنی پانی سے سیر ہوکر واپس لوٹنا کے ہیں ۔ یہ ظرف مکان اور زمان کے لئے بھی آتا ہے اور علمائے نحو کی اصطلاح میں مصدر اس لفظ کو کہتے ہیں جس سے فعل ماضی اور مستقبل کا اشتقاق فرض کیا گیا ہو ۔
اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کی تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے اگر تمہیں پھر دنیا میں بھیج دیا جائے تو پھر تم ان ہی باتوں کا ارتکاب کرو گے جن سے تمہیں روکا گیا تھا اور دلوں میں جو نیکی اور برائی پوشیدہ ہے وہ ہی اس کا جاننے والا ہے۔
آیت ٣٨ اِنَّ اللّٰہَ عٰلِمُ غَیْبِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ” یقینا اللہ خوب جاننے والا ہے آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کا۔ “- اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ” یقینا وہ واقف ہے سینوں میں چھپے رازوں سے۔ “