Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

39۔ 1 یعنی اللہ کے ہاں کفر کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا، بلکہ اس سے اللہ کے غضب اور ناراضگی میں بھی اضافہ ہوگا اور انسان کے اپنے نفس کا خسارہ بھی زیادہ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٣] انسان زمین میں خلیفہ کس کا ہے ؟ اس جملہ کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ تم سے پہلی قوم کو ان کے جرم کی پاداش میں ہلاک کرکے تمہیں ان کا جانشین بنایا۔ دوسرا یہ کہ تم سے پہلی نسل مرگئی تو ان کی جگہ تم ان کے جانشین ہوئے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کا اور اسی طرح اس زمین کا اصل مالک اور حاکم تو اللہ تعالیٰ ہے اور تمہیں اس کے نائب کی حیثیت سے یہاں بھیجا گیا ہے۔ اور اس لئے بھیجا گیا ہے کہ تم اس کی عطا کردہ چیزوں کو اسی کے حکم اور اسی کی مرضی کے مطابق استعمال کرتے ہو۔ یا اس کے باغی بن کر اپنی خواہشات کی پیروی کرنے لگ جاتے ہو۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اختیارات کا اس کی مرضی کے خلاف غلط استعمال کرو گے تو یہ بددیانتی ہوگی اور اس کا تمہیں بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ تمہارا اصل مالک یقیناً تم سے ناراض ہوجائے گا پھر اس کی ناراضگی اور غصہ تمہارے لئے مزید نقصان کا باعث بن جائے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ ۭ : اس کے انعام اور اپنے کفر اور ناشکری پر غور کرو، اس کا احسان دیکھو کہ اس نے پہلی نسل کو فوت کرکے تمہیں اس کی جگہ زمین اور اس میں موجود تمام چیزوں کا مالک بنادیا۔ (خلیفہ کا مطلب سمجھنے کے لیے سورة بقرہ کی آیت (٣٠) ” اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً “ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں) اگر ہر آنے والی نسل کے ساتھ پہلی تمام نسلیں بھی موجود رہتیں تو زمین میں نہ رہنے کی گنجائش رہتی، نہ ان کی ضروریات پوری ہوتیں۔ اس احسان کا بدلا تم نے یہ دیا کہ اس کی ناشکری کی، اس کا احسان ماننے سے انکار کیا اور اس کے ساتھ شریک بنا لیے، جنھوں نے نہ کچھ پیدا کیا، نہ ان کا زمین کی پیدائش یا ملکیت میں کوئی حصہ ہے اور تم نے انھیں پکارنا شروع کردیا۔ - فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهٗ : تو جو اس نعمت کی ناشکری کرے اور اس کا احسان ماننے اور اس کے احکام تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو اس کی ناشکری اور انکار کا وبال اسی پر پڑے گا، کسی دوسرے کو اس کا کچھ نقصان نہیں۔ - وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ اِلَّا مَقْتًا۔ : یعنی اگر کفار کو ان کے کفر کے باوجود زمین کی خلافت ملی ہوئی ہے اور مال و اولاد اور دوسری نعمتوں کے ساتھ لمبی عمر ملی ہوئی ہے اور ان کی رسی دراز ہے، تو یہ نہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر خوش ہے، اس لیے انھیں نعمتیں دیے جا رہا ہے اور نہ یہ سمجھیں کہ وہ اس طرح نفع کا سودا کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کافروں کے کفر سے ان پر اللہ تعالیٰ کے شدید غضب میں اضافہ ہی ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کے کفر سے ان کا خسارا ہی بڑھ رہا ہے، کیونکہ اس سے ان پر حجت تمام ہو رہی ہے اور ان کے عذر ختم ہو رہے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف ومسائل - (آیت) ہوالذی جعلکم خلئف فی الارض، خلائف خلیفہ کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں نائب اور قائم مقام۔ مراد یہ ہے کہ ہم نے انسانوں کو یکے بعد دیگرے زمین و مکان وغیرہ کا مالک بنایا ہے ایک جاتا ہے تو دوسرے کو اس کی جگہ ملتی ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے لئے بڑی عبرت ہے۔ اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ خطاب امت محمدیہ کو ہو کہ ہم نے پچھلی قوموں کے بعد ان کے خلیفہ کی حیثیت سے تم کو مالک و متصرف بنایا ہے، لہٰذا تمہارا فرض ہے کہ اپنے سے پہلے لوگوں کے حالات سے عبرت حاصل کرو، عمر کے قیمتی لمحات کو غفلت میں نہ گزارو۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ہُوَالَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ ۭ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْہِ كُفْرُہٗ۝ ٠ ۭ وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِلَّا مَقْتًا۝ ٠ ۚ وَلَا يَزِيْدُ الْكٰفِرِيْنَ كُفْرُہُمْ اِلَّا خَسَارًا۝ ٣٩- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- زاد - الزِّيادَةُ : أن ينضمّ إلى ما عليه الشیء في نفسه شيء آخر، يقال : زِدْتُهُ فَازْدَادَ ، وقوله وَنَزْداد كَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] - ( زی د ) الزیادۃ - اس اضافہ کو کہتے ہیں جو کسی چیز کے پورا کرنے کے بعد بڑھا جائے چناچہ کہاجاتا ہے ۔ زدتہ میں نے اسے بڑھا یا چناچہ وہ بڑھ گیا اور آیت :۔ وَنَزْدادُكَيْلَ بَعِيرٍ [يوسف 65] اور ( اس کے حصہ کا ) ایک بار شتر غلہ اور لیں گے ۔ - عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- مقت - المَقْتُ : البغض الشدید لمن تراه تعاطی القبیح . يقال : مَقَتَ مَقاتَةً فهو مَقِيتٌ ، ومقّته فهو مَقِيتٌ ومَمْقُوتٌ. قال تعالی: إِنَّهُ كانَ فاحِشَةً وَمَقْتاً وَساءَ سَبِيلًا [ النساء 22] وکان يسمّى تزوّج الرّجل امرأة أبيه نکاح المقت، وأما المقیت فمفعل من القوت، وقد تقدّم - ( م ق ت ) المقت کے معنی کسی شخص کو فعل قبیح کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھ کر اس سے بہت بغض رکھتے کے ہیں ۔ یہ مقت مقاتۃ فھو مقیت ومقتہ فھو مقیت وممقوت سے اسم سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ یہ نہایت بےحیائی اور ( خدا کی ) ناخوشی کی بات تھی اور بہت برا دستور تھا ۔ جاہلیت میں اپنے باپ کی بیوہ سے شادی کرنے کو نکاح المقیت کہا جاتا تھا ۔ المقیت کی اصل قوۃ ہے جس کی تشریح پہلے گزر چکی ہے ۔- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

وہی ایسا ہے اے امت محمدیہ جس نے تمہیں پچھلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد زمین پر آباد کیا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہی بڑھنے کا باعث ہوتا ہے۔- اور نیز کافروں کے لیے ان کا دنیوی کفر آخرت میں خسارہ ہی بڑھنے کا باعث ہوتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣٩ ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ فِی الْاَرْضِ ” وہی تو ہے جس نے تمہیں جانشین بنایا زمین میں۔ “- فَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ ” تو جس کسی نے کفر کیا تو اس کے کفر کا وبال اسی پر ہوگا۔ “- وَلَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ اِلَّا مَقْتًاج ” اور کافروں کے لیے ان کا کفر ان کے رب کے نزدیک سوائے غضب کے کسی چیز میں اضافہ نہیں کرے گا۔ “- وَلَا یَزِیْدُ الْکٰفِرِیْنَ کُفْرُہُمْ اِلَّا خَسَارًا ” اور کافروں کے لیے ان کا کفر سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں بڑھائے گا۔ “- ان کے کفر کے سبب ان کے خلاف اللہ کے غصے اور اس کی بےزاری میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا۔ اس طرح ان کی تباہی اور بربادی بڑھتی ہی چلی جائے گی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :64 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ اس نے پچھلی نسلوں اور قوموں کے گزر جانے کے بعد اب تم کو ان کی جگہ اپنی زمین میں بسایا ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ اس نے تمہیں زمین میں تصرف کے جو اختیارات دیے ہیں وہ اس حیثیت سے نہیں ہیں کہ تم ان چیزوں کے مالک ہو ، بلکہ اس حیثیت سے ہیں کہ تم اصل مالک کے خلیفہ ہو ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :65 اگر پہلے فقرے کا یہ مطلب لیا جائے کہ تم کو پچھلی قوموں کا جانشین بنایا ہے تو اس فقرے کے معنی یہ ہوں گے کہ جس نے گزشتہ قوموں کے انجام سے کوئی سبق نہ لیا اور وہی کفر کا رویہ اختیار کیا جس کی بدولت وہ قومیں تباہ ہو چکی ہیں ، وہ اپنی اس حماقت کا نتیجہ بد دیکھ کر رہے گا ۔ اور اگر اس فقرے کا مطلب یہ لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے خلیفہ کی حیثیت سے زمین میں اختیارات عطا کیے ہیں تو اس فقرے کے معنی یہ ہوں گے کہ جو اپنی حیثیت خلافت کو بھول کر خود مختار بن بیٹھا یا جس نے اصل مالک کو چھوڑ کر کسی اور کی بندگی اختیار کر لی وہ اپنی اس باغیانہ روش کا برا انجام دیکھ لے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani