Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مدلل پیغام ۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ آپ مشرکوں سے فرمایئے کہ اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارا کرتے ہو تم مجھے بھی تو ذرا دکھاؤ کہ انہوں نے کس چیز کو پیدا کیا ہے؟ یا یہی ثابت کر دو کہ آسمانوں میں ان کا کونسا حصہ ہے؟ جب کہ نہ وہ خالق نہ ساجھی پھر تم مجھے چھوڑ کر انہیں کیوں پکارو؟ وہ تو ایک ذرے کے بھی مالک نہیں ۔ اچھا یہ بھی نہیں تو کم از کم اپنے کفر و شرک کی کوئی کتابی دلیل ہی پیش کر دو ۔ لیکن تم یہ بھی نہیں کر سکتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ تم صرف اپنی نفسانی خواہشوں اور اپنی رائے کے پیچھے لگ گئے ہو دلیل کچھ بھی نہیں ۔ باطل جھوٹ اور دھوکے بازی میں مبتلا ہو ۔ ایک دوسرے کو فریب دے رہے ہو ، اپنے ان جھوٹے معبودوں کی کمزوری اپنے سامنے رکھ کر اللہ تعالیٰ کی جو سچا معبود ہے قدرت و طاقت دیکھو کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں ۔ ہر ایک اپنی جگہ رکا ہوا اور تھما ہوا ہے ۔ ادھر ادھر جنبش بھی تو نہیں کر سکتا ۔ آسمان کو زمین پر گر پڑنے سے اللہ تعالیٰ رکے ہوئے ہے ۔ یہ دونوں اس کے فرمان سے ٹھہرے ہوئے ہیں ۔ اس کے سوا کوئی نہیں جو انہیں تھام سکے ، روک سکے ، نظام پر قائم رکھ سکے ۔ اس حلیم و غفور اللہ کو دیکھو کہ مخلوق و مملوک ، نافرمانی و سرکشی ، کفر و شرک دیکھتے ہوئے بھی بربادی اور بخشش سے کام لے رہا ہے ، ڈھیل اور مہلت دیئے ہوئے ہے ۔ گناہوں کو معاف فرماتا جاتا ہے ۔ ابن ابی حاتم میں اس آیت کی تفسیر میں ایک غریب بلکہ منکر حدیث ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ایک واقعہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ منبر پر بیان فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خیال گذرا کہ اللہ تعالیٰ کبھی سوتا بھی ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ ان کے پاس بھیج دیا جس نے انہیں تین دن تک سونے نہ دیا ۔ پھر ان کے ایک ایک ہاتھ میں ایک ایک بوتل دے دی اور حکم دیا کہ ان کی حفاظت کرو یہ گریں نہیں ٹوٹیں نہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں ہاتھوں میں لے کر حفاظت کرنے لگے لیکن نیند کا غلبہ ہونے لگا اونگھ آنے گی ۔ کچھ جھکولے تو ایسے آئے کہ آپ ہوشیار ہوگئے اور بوتل گرنے نہ دی لیکن آخر نیند غالب آ گئی اور بوتلیں ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گر گئیں اور چورا چور ہو گئیں ۔ مقصد یہ تھا کہ سونے والا دو بوتلیں بھی تھام نہیں سکتا ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں فرما چکا ہے کہ اسے نہ تو اونگھ آئے نہ نیند ۔ زمین و آسمان کی کل چیزوں کا مالک صرف وہی ہے ۔ بخاری و مسلم میں حدیث ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو سوتا ہے نہ سونا اس کی شایان شان ہے ۔ وہ ترازو کو اونچا نیچا کرتا رہتا ہے ۔ دن کے عمل رات سے پہلے اور رات کے اعمال دن سے پہلے اس کی طرف چڑھ جاتے ہیں ۔ اس کا حجاب نور ہے ۔ یا آگ ہے ۔ اگر اسے کھول دے تو اس کے چہرے کی تجلیاں جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے سب مخلوق کو جلا دیں ۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟ اس نے کہا شام سے ۔ پوچھا وہاں کس سے ملے؟ کہا کعب سے ۔ پوچھا کعب نے کیا بات بیان کی؟ کہا یہ کہ آسمان ایک فرشتے کے کندھے تک گھوم رہے ہیں ۔ پوچھا تم نے اسے سچ جانا یا جھٹلا دیا ؟ جواب دیا کچھ بھی نہیں ۔ فرمایا پھر تو تم نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ سنو حضرت کعب نے غلط کہا پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اس کی اسناد صحیح ہے ۔ دوسری سند میں آنے والے کا نام ہے کہ وہ حضرت جندب بجلی تھے ۔ حضرت امام مالک بھی اس کی تردید کرتے تھے کہ آسمان گردش میں ہیں اور اسی آیت سے دلیل لیتے تھے اور اس حدیث سے بھی جس میں ہے مغرب میں ایک دروازہ ہے جو توبہ کا دروازہ ہے وہ بند نہ ہو گا جب تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع نہ ہو ۔ حدیث بالکل صحیح ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

40۔ 1 یعنی ہم نے ان پر کوئی کتاب نازل کی ہو، جس میں درج ہو کہ میرے بھی کچھ شریک ہیں جو آسمان اور زمین کی تخلیق میں حصے دار اور شریک ہیں۔ 40۔ 2 یعنی ان میں سے کوئی بھی بات نہیں ہے بلکہ یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کو گمراہ کرتے آئے ہیں۔ ان کے لیڈر کہتے تھے کہ یہ معبود انہیں نفع پہنچائیں گے، انہیں اللہ کے نزدیک کردیں گے اور ان کی شفاعت کریں گے۔ یا یہ باتیں شیاطین مشرکین سے کہتے تھے یا اس سے وہ وعدہ مراد ہے جس کا اظہار وہ ایک دوسرے کے سامنے کرتے تھے کہ وہ مسلمانوں پر غالب آئیں گے جس سے ان کو کفر پر جمے رہنے کا حوصلہ ملتا تھا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٤] شریکوں کے جواز کی ممکنہ بنیادیں ؟ یعنی تم لوگوں نے اپنے جن معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے اختیارات و تصرفات میں اللہ کا شریک بنا رکھا ہے اس کی بنیاد کیا ہے ؟ ایک بنیاد تو یہ ہوسکتی ہے کہ کائنات کا کوئی دسواں بیسواں حصہ انہوں نے بھی بنایا ہو۔ دوسری بنیاد یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے کائنات کا الگ تو کوئی حصہ نہیں بنایا، البتہ جب اللہ تعالیٰ کائنات پیدا کر رہا تھا تو اس وقت تمہارے ان معبودوں نے اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بٹایا ہو اس طرح اختیارات و تصرفات میں ان کا بھی کچھ حق بن سکتا ہے۔ تیسری بنیاد یہ بھی بن سکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی انہیں کوئی مختار نامہ لکھ دیا ہو کہ فلاں علاقہ کے لوگ، فلاں آستانے یا فلاں بزرگ کے پاس اپنی درخواستیں پیش کیا کریں اور انہیں پکارا کریں اور انہی کے حضور نذریں نیازیں چڑھایا کریں۔ یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے فلاں فلاں بیماری سے تندرست کرنے کے اختیار دے رکھے ہیں اور انگر بیروز گاروں کو روزگار دلوانا ہو تو فلاں بزرگ کے پاس جانا چاہئے۔ وہ آپ کی حاجات کو پورا کرسکتے ہیں۔ اور بگڑی بنا بھی سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ اگر ہم نے کوئی ایسی سند کسی آسمانی کتاب میں لکھی ہے تو وہ دکھا دو ۔ اور اگر ان تینوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو پھر کیا تم خود اللہ تعالیٰ کے اختیار و تصرف کے اجارہ دار بن بیٹھے ہو۔ اور اپنی طرف سے ہی ان اختیارات میں اپنے اپنے معبودوں اور پیروں فقیروں کے حصے کر لئے ہیں۔- [ ٤٥] شرک کی اصل بنیاد بت پرستی ہے :۔ بات یوں نہیں بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ پروہت اور گورو اور ان کے چیلے یا یہ بزرگ پیر فقیر اور ان کے مرید ان باصفا اور قبروں کے مجاور سب مل کر اپنے مفادات دنیوی کی خاطر عوام الناس کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ یہ اپنی اپنی دکانیں چمکانے کے لئے طرح طرح کے افسانے اور قصے گھڑتے ہیں پھر ان کا خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ فلاں صاحب بڑے پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کا دامن پکڑ لیا جائے تو وہ اپنے مریدوں کی سفارش کرکے اللہ سے بخشوا کے چھوڑیں گے۔ فلاں صاحب کی تقدیر میں کوئی اولاد نہ تھی مگر فلاں بزرگ نے اللہ سے اصرار کرکے اسے سات بیٹے دلوا دیئے۔ اور فلاں صاحب نے فلاں قبر پر جاکر فلاں حرکت کی تھی تو چند ہی دنوں میں وہ تباہ و برباد ہوگیا۔ ان کی دکانیں محض جھوٹ اور پروپیگنڈے کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ اور اس سے ان کے دنیوی مفادات وابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیارات و تصرفات کسی بندے کو ہرگز تفویض نہیں کئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَرَءَيْتُمْ شُرَكَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہیں زمین کی خلافت بخشی، تو تم نے اس کی عبادت میں کچھ اوروں کو شریک بنا لیا اور انھیں پکارنا اور ان سے مانگنا شروع کردیا، تو یہ بتاؤ کہ تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے ؟ کیا تمہارے بنائے ہوئے ان شریکوں نے، جنھیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو، زمین یا زمین کی کوئی چیز پیدا کی ہے ؟ اگر کی ہے تو مجھے بھی دکھاؤ وہ کون سی چیز ہے ؟ (دیکھیے حج : ٧٣۔ رعد : ١٦) یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے تو اس کی نشان دہی کرو، یا ہم نے انھیں کوئی تحریر دی ہے، جو اس بات کی دلیل ہو کہ فلاں فلاں کو ہم نے بیماروں کو تندرست کرنے یا بےروزگاروں کو روزگار عطا کرنے یا حاجت مندوں کو ان کی حاجتیں پوری کرنے کے اختیارات دیے ہیں، اس لیے تمہیں یہ سب کچھ ان سے مانگنا چاہیے اور ان کا احسان مند ہونا چاہیے، اگر ایسی کوئی تحریر ہے تو لاؤ پیش کرو اور اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو خود ہی سوچو کہ آخر تم اپنی جانوں پر اتنا بڑا ظلم کیوں کر رہے ہو۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے سورة احقاف (٤) میں بھی بیان فرمائی ہے۔ - بَلْ اِنْ يَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا : یعنی بات یہ نہیں کہ ان شریکوں میں سے کسی کے پاس کوئی اختیار ہے، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ شرک کا کاروبار کرنے والے یہ تمام ظالم، یہ جھوٹے پیشوا اور پیر، یہ پنڈت، پروہت، یہ کاہن اور عراف، یہ مجاور اور ان کے ایجنٹ ایک دوسرے کو محض جھوٹے وعدے دلا رہے ہیں کہ فلاں آستانے پر جاؤ گے تو اولاد ملے گی، فلاں بزرگوں سے مدد مانگو گے تو سنگ دل محبوب موم ہوجائے گا، فلاں درگاہ سے ہر مراد پوری ہوتی ہے۔ غرض یہ سارا کاروبار دھوکے پر اور جھوٹے وعدوں پر چل رہا ہے، جیسا کہ فرمایا : (يَعِدُھُمْ وَيُمَنِّيْهِمْ ۭ وَمَا يَعِدُھُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا ) [ النساء : ١٢٠ ] ” وہ انھیں وعدے دیتا ہے اور انھیں آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انھیں دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتا۔ “ اور قیامت کے دن شیطان صاف کہہ دے گا : (اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْ ) [ إبراہیم : ٢٢ ] ” بیشک اللہ نے تم سے وعدہ کیا، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَرَءَيْتُمْ شُرَكَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ۝ ٠ ۭ اَرُوْنِيْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ۝ ٠ ۚ اَمْ اٰتَيْنٰہُمْ كِتٰبًا فَہُمْ عَلٰي بَيِّنَۃٍ مِّنْہُ۝ ٠ ۚ بَلْ اِنْ يَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا۝ ٤٠- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - شرك ( شريك)- الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی:- وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ- [ الزخرف 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] .- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ - دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دون - يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم :- هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] ،- ( د و ن ) الدون - جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔- ( ماذا)- يستعمل علی وجهين :- أحدهما .- أن يكون ( ما) مع ( ذا) بمنزلة اسم واحد، والآخر : أن يكون ( ذا) بمنزلة ( الذي) ، فالأوّل نحو قولهم : عمّا ذا تسأل ؟ فلم تحذف الألف منه لمّا لم يكن ما بنفسه للاستفهام، بل کان مع ذا اسما واحدا، وعلی هذا قول الشاعر : دعي ماذا علمت سأتّقيه أي : دعي شيئا علمته . وقوله تعالی:- وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] ، فإنّ من قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالنّصب فإنّه جعل الاسمین بمنزلة اسم واحد، كأنّه قال : أيّ شيء ينفقون ؟ ومن قرأ : قُلِ الْعَفْوَ بالرّفع، فإنّ ( ذا) بمنزلة الذي، وما للاستفهام أي : ما الذي ينفقون ؟ وعلی هذا قوله تعالی: ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] ، و (أساطیر) بالرّفع والنصب - ( ماذا ) اور ماذا ، ، بھی دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ اول یہ کہ ، ، مازا کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا لذی کے ہو ( ما بمعنی اول یہ کہ ماذا ، ، کے ساتھ مل کر بمنزلہ ایک اسم کے ہو ۔ دوم یہ کہ ذا بمنزلہ الذی کے ہو ( ما بمعنی ای شئی کے ہو پہلی قسم کی مثال جیسے : عما ذا تسال کہ کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے ہو اس صورت میں چونکہ ، ، ماذا اکیلا ، ، استفہام کے لئے نہیں ہے بلکہ ، ، ذا کے ساتھ مل کر ایک اسم بنتا ہے اس لئے ، ، ما ، ، کے الف کو حزف نہیں کیا گیا ۔ اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے یعنی جو چیز تجھے معلوم ہے اسے چھوڑ دے میں اس سے بچنے کی کوشش کرونگا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ [ البقرة 219] اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ کہ ( خدا کی راہ میں ) کونسا مال خرچ مال کریں ۔ میں جو لوگ کو منصوب پڑھتے ہیں ۔ وہ ماذا کو بمنزلہ ایک اسم کے مانتے ہیں کونسی چیز صرف کریں مگر جن کے نزدیک ہے اور ما استفہا میہ ہے یعنی وہ کونسی چیز ہے جسے خرچ کریں ۔ اس بنا پر آیت کریمہ : ۔ ماذا أَنْزَلَ رَبُّكُمْ ؟ قالُوا : أَساطِيرُ الْأَوَّلِينَ [ النحل 24] کہ تمہارے پروردگار نے کیا اتارا ہی تو کہتے ہیں کہ ( وہ تو ) پہلے لوگوں کی حکایتیں ہیں ۔ میں اساطیر رفع اور نصب دونوں جائز ہیں ۔- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔- آتینا - وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .- [ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] . وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ- [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني .- وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔- كتب - والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ،- ( ک ت ب ) الکتب ۔- الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو - بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - بعض - بَعْضُ الشیء : جزء منه، ويقال ذلک بمراعاة كلّ ، ولذلک يقابل به كلّ ، فيقال : بعضه وكلّه، وجمعه أَبْعَاض . قال عزّ وجلّ : بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] - ( ب ع ض ) بعض - الشئی ہر چیز کے کچھ حصہ کو کہتے ہیں اور یہ کل کے اعتبار سے بولا جاتا ہے اسلئے کل کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے : بعضہ وکلہ اس کی جمع ابعاض آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - غرر - يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ «5» ، وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ- [ الانفطار 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ- [ آل عمران 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً- [ النساء 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا - [ الأنعام 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ- [ لقمان 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ «1» ، والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ» «2» .- والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل :- فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة «3» ، فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها .- ( غ ر ر )- غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

آپ ان کفار مکہ سے یہ تو کہیے کہ تم معبودوں کا حال تو بتاؤ جن کی تم پوجا کرتے ہو کہ انہوں نے زمین کا کون سا حصہ بنایا ان کا آسمانوں کے بنانے میں کچھ حصہ ہے یا ہم نے ان کفار مکہ کو کوئی کتاب دی ہے کہ یہ اس کتاب کی کسی دلیل پر قائم ہوں کہ ان کو عذاب نہیں ہوگا۔- بلکہ یہ مشرک سردار دنیا میں اپنے پیروکاروں سے ایسا وعدہ کرتے آئے ہیں جو آخر بالکل ہی بےبنیاد اور دھوکا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٠ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ شُرَکَآئَ کُمُ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہیے کہ کیا تم نے اپنے ان شریکوں کے بارے میں کبھی غور کیا جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ؟ “- اَرُوْنِیْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمٰوٰتِ ” ذرا مجھے دکھائو کہ انہوں نے زمین میں کونسی چیز پیدا کی ہے یا ان کی کوئی شراکت ہے آسمانوں میں “- اَمْ اٰتَیْنٰہُمْ کِتٰبًا فَہُمْ عَلٰی بَیِّنَتٍ مِّنْہُ ” یا ہم نے انہیں کوئی کتاب عطا کی تھی اور وہ اس کی کسی واضح دلیل پر ہیں “- کیا ان کے پاس ہماری نازل کردہ کوئی کتاب موجود ہے جس کی کسی واضح دلیل کی بنیاد پر انہوں نے اپنے اعتقادات اخذ کیے ہیں ؟- بَلْ اِنْ یَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا ” بلکہ یہ ظالم آپس میں ایک دوسرے کو وعدے نہیں دے رہے مگر فریب کے۔ “- یہ ظالم ایک دوسرے سے محض ُ پرفریب وعدے کر رہے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :66 اپنے شریک کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا گیا ہے کہ درحقیقت وہ خدا کے شریک تو ہیں نہیں ، مشرکین نے ان کو اپنے طور پر اس کا شریک بنا رکھا ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :67 یعنی کیا ہمارا لکھا ہوا کوئی پروانہ ان کے پاس ایسا ہے جس میں ہم نے یہ تحریر کیا ہو کہ فلاں فلاں اشخاص کو ہم نے بیماروں کو تندرست کرنے ، یا بے روزگاروں کو روزگار دلوانے ، یا حاجت مندوں کی حاجتیں پوری کرنے کے اختیارات دیے ہیں ، یا فلاں فلاں ہستیوں کو ہم نے اپنی زمین کے فلاں حصوں کا مختار کار بنا دیا ہے اور ان علاقوں کے لوگوں کی قسمتیں بنانا اور بگاڑنا اب ان کے ہاتھ میں ہے ، لہٰذا ہمارے بندوں کو اب انہی سے دعائیں مانگنی چاہییں اور انہی کے حضور نذریں اور نیازیں چڑھانی چاہییں اور جو نعمتیں بھی ملیں ان پر انہی چھوٹے خداؤں کا شکر بجا لانا چاہیے ۔ ایسی کوئی سند اگر تمہارے پاس ہے تو لاؤ اسے پیش کرو ۔ اور اگر نہیں ہے تو خود ہی سوچو کہ یہ مشرکانہ عقائد اور اعمال آخر تم نے کس بنیاد پر ایجاد کر لیے ہیں ۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ زمین اور آسمان میں کہیں تمہارے ان بناوٹی معبودوں کے شریک خدا ہونے کی کوئی علامت پائی جاتی ہے؟ تم اس کے جواب میں کسی علامت کی نشان دہی نہیں کر سکتے ۔ تم سے پوچھا جاتا ہے کہ خدا نے اپنی کسی کتاب میں یہ فرمایا ہے ، یا تمہارے پاس یا ان بناوٹی معبودوں کے پاس خدا کا دیا ہوا کوئی پروانہ ایسا موجود ہے جو اس امر کی شہادت دیتا ہو کہ خدا نے خود انہیں وہ اختیارات عطا فرمائے ہیں جو تم ان کی طرف منسوب کر رہے ہو؟ تم وہ بھی پیش نہیں کر سکتی ۔ اب آخر وہ چیز کیا ہے جس کی بنا پر تم اپنے یہ عقیدے بنائے بیٹھے ہو؟ کیا تم خدائی کے مالک ہو کہ خدا کے اختیارات جس جس کو چاہو بانٹ دو؟ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :68 یعنی یہ پیشوا اور پیر ، یہ پنڈت اور پروہت ، یہ کاہن اور واعظ ، یہ مجاور اور ان کے ایجنٹ محض اپنی دوکان چمکانے کے لیے عوام کو اُلّو بنا رہے ہیں اور طرح طرح کے قصے گھڑ گھڑ کر لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلا رہے ہیں کہ خدا کو چھوڑ کر فلاں فلاں ہستیوں کے دامن تھام لو گے تو دنیا میں تمہارے سارے کام بن جائیں گے اور آخرت میں تم چاہے کتنے ہی گناہ سمیٹ کر لے جاؤ ، وہ اللہ سے تمہیں بخشوا لیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: کسی دعوے کو ثابت کرنے کے دو ہی طریقے ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ انسان عقل کی کسی دلیل سے اسے ثابت کرے، اور دوسرا یہ کہ اس کے پاس کسی واجب التعمیل ذات کی طرف سے کوئی حکم ملا ہو۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ من گھڑت خدا مان رکھے ہیں، ان کے پاس نہ تو کوئی عقلی دلیل ہے، اس لیے کہ وہ کسی طرح ثابت نہیں کرسکتے کہ ان کے گھڑے ہوئے خداؤں نے زمین یا آسمان کا کوئی حصہ پیدا کیا ہے، یا ان کی تخلیق میں کسی بھی طرح کا کوئی حصہ لیا ہے، اور نہ ان کے پاس کوئی آسمانی کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ ہدایت دی ہو کہ فلاں فلاں دیوتاؤں کو خدا مان کر ان کی عبادت کیا کرو