Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 یہ اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت وصنعت کا بیان ہے بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ ان کے شرک اقتضاء ہے کہ آسمان و زمین اپنی حالت پر برقرار نہ رہیں بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائیں جیسے آیت تکاد السموات۔۔ مریم) کا مفہوم ہے۔ 41۔ 2 یعنی یہ اللہ کے کمال قدرت کے ساتھ اس کی کمال مہربانی بھی ہے کہ وہ آسمان و زمین کو تھامے ہوئے ہے اور انہیں اپنی جگہ سے ہلنے اور ڈولنے نہیں دیتا ہے ورنہ پلک جھپکتے میں دنیا کا نظام تباہ ہوجائے کیونکہ اگر وہ انہیں تھامے نہ رکھے اور انہیں اپنی جگہ سے پھیر دے تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں ہے جو ان کو تھام لے۔ اللہ نے اپنے اس احسان اور نشانی کا تذکرہ دوسرے مقامات پر بھی فرمایا ہے۔ (وَيُمْسِكُ السَّمَاۗءَ اَنْ تَقَعَ عَلَي الْاَرْضِ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ) 22 ۔ الحج :65) ۔ اسی نے آسمان کو زمین پر گرنے سے روکا ہوا ہے مگر جب اس کا حکم ہوگا " اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ آسمان و زمین اس کے حکم سے قائم ہیں "۔ 41۔ 3 اتنی قدرتوں کے باوجود وہ حلیم ہے اپنے بندوں کو دیکھتا ہے کہ وہ کفر و شرک اور نافرمانی کر رہے ہیں پھر بھی وہ ان کی گرفت میں جلدی نہیں کرتا بلکہ ڈھیل دیتا ہے اور غفور بھی ہے کوئی تائب ہو کر اس کی بارگاہ میں جھک جاتا ہے توبہ واستغفار و ندامت کا اظہار کرتا ہے وہ معاف فرما دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٦] آسمانوں اور زمین کے الفاظ بول کر قرآن کریم بالعموم اس سے پورا نظام کائنات مراد لیتا ہے اور یہ اس قدر پیچیدہ نظام ہے جو سائنس کے آئے دن کے انکشافات اور ایجادات کے باوجود انسان کے لئے محیر العقول بنا پڑا ہے۔ کہ آیا یہ سب سیارے فضا میں پوری تیزی کے ساتھ گھومنے کے باوجود کس طرح اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ کوئی سیارہ ایک دوسرے پر گر نہیں پڑتا کہیں ٹکراتا بھی نہیں۔ اس کی رفتار میں بھی فرق نہیں آتا۔ وہ اپنے رخ اور سمت میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو انسان کو اس اعتراف پر مجبور کردیتی ہے کہ اس نظام کو بنانے والی، جاری رکھنے والی اور کنٹرول کرنے والی ہستی انتہا درجہ کی دانشور، مدبر اور صاحب اقتدار اور اختیار ہو۔ جس کی حکمت بالغہ کے تحت اس قدر گرانڈیل اور عظیم الجثہ کرے فضائے کائنات میں تیرتے پھرتے ہیں۔- [ ٤٧] وہ ہستی اس قدر صاحب قوت، اقتدار اور انختیار رکھنے کے باوجود بردبار ہے۔ جو اس کے اختیارات کو دوسروں میں بانٹنے والوں کو فوراً تباہ نہیں کردیتا۔ اور اپنے باغیوں، منکروں اور نافرمانوں سے درگزر کئے جاتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ڬ ۔۔ : یعنی تمہارے بنائے ہوئے شریکوں کا تو یہ حال ہے کہ نہ انھوں نے زمین یا اس کی کوئی چیز پیدا کی، نہ آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے، وہ بےچارے تو اپنا آپ بھی نہیں سنبھال سکتے، جب کہ اللہ جل شانہ وہ ہے جس نے ساری کائنات پیدا فرمائی اور وہی اس کا نظام چلا رہا ہے۔ اسی نے اتنے عظیم آسمانوں کو اور زمین کو ان کی اپنی اپنی جگہ تھام رکھا ہے کہ کسی زلزلے یا حادثے سے اپنی جگہ سے ادھر ادھر نہیں ہوتے اور اگر یہ اپنی جگہ سے ہٹ جائیں تو اس کے سوا کوئی نہیں جو انھیں تھام سکے۔ اگر تم کہتے ہو کہ تمہارے شریک پیدا تو نہیں کرسکتے، نہ آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے مگر وہ گرتے ہوؤں کو تھام لیتے ہیں تو تمہارا یہ خیال بھی غلط ہے۔ گرتے ہوؤں کو تھامنا بھی اسی کا کام ہے جس نے ہر چیز کو اس کی جگہ تھام رکھا ہے۔- ۭاِنَّهٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا : یعنی تمہارے مشرکانہ اقوال و افعال تو اتنے خوفناک عذاب کے طالب ہیں کہ ان کی وجہ سے آسمان پھٹ جائیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ تم پر ڈھے کر گرپڑیں، جیسا کہ فرمایا : (تَكَاد السَّمٰوٰتُ يَــتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا اَنْ دَعَوْا للرَّحْمٰنِ وَلَدًا) [ مریم : ٩٠، ٩١ ] ” آسمان قریب ہیں کہ اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ڈھے کر گرپڑیں کہ انھوں نے رحمٰن کے لیے کسی اولاد کا دعویٰ کیا۔ “ مگر اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو گرنے سے روک رکھا ہے، کیونکہ وہ بیحد بردبار ہے، اس لیے مہلت پر مہلت دیے جا رہا ہے، بیحد بخشنے والا ہے، جو اس کے حلم سے فائدہ اٹھا کر توبہ کرے اس کے تمام گناہ بخش دیتا ہے۔ آیت کا ایک معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مشرک اپنے شرک اور نافرمانی کی وجہ سے اس کے مستحق ہوچکے ہیں کہ ان پر آسمان گرا کر اور زمین شق کرکے انھیں تباہ و برباد کردیا جائے، مگر اللہ تعالیٰ اپنے حلم و مغفرت کی وجہ سے آسمانوں کو اور زمین کو تھامے ہوئے ہے اور اگر یہ اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو اس کے سوا کوئی طاقت نہیں جو انھیں تھام سکے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ان اللہ یمسک السموٰت، آسمانوں کو روکنے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کی حرکت بند کردی بلکہ مراد اپنی جگہ سے ہٹ جانا اور ٹل جانا ہے، جیسا کہ لفظ ان تزولا اس پر شاہد ہے اس لئے اس آیت میں آسمان کے متحرک یا ساکن ہونے میں سے کسی جانب پر کوئی دلیل نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ يُمْسِكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا۝ ٠ۥۚ وَلَىِٕنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَكَـہُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْۢ بَعْدِہٖ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ كَانَ حَلِــيْمًا غَفُوْرًا۝ ٤١- مسك - إمساک الشیء : التعلّق به وحفظه . قال تعالی: فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] ، وقال : وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] ، أي : يحفظها، واستمسَكْتُ بالشیء : إذا تحرّيت الإمساک . قال تعالی: فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ- [ الزخرف 43] ، وقال : أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] ، ويقال : تمَسَّكْتُ به ومسکت به، قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ- [ الممتحنة 10] . يقال : أَمْسَكْتُ عنه كذا، أي : منعته . قال :- هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] ، وكنّي عن البخل بالإمساک . والمُسْكَةُ من الطعام والشراب : ما يُمْسِكُ الرّمقَ ، والمَسَكُ : الذَّبْلُ المشدود علی المعصم، والمَسْكُ : الجِلْدُ الممسکُ للبدن .- ( م س ک )- امسک الشئی کے منعی کسی چیز سے چمٹ جانا اور اس کی حفاطت کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ [ البقرة 229] پھر ( عورت کو ) یا تو بطریق شاہستہ نکاح میں رہنے دینا یا بھلائی کے ساتھ چھور دینا ہے ۔ وَيُمْسِكُ السَّماءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ [ الحج 65] اور وہ آسمان کو تھا مے رہتا ہے کہ زمین پر نہ گر پڑے ۔ استمسکت اشئی کے معنی کسی چیز کو پکڑنے اور تھامنے کا ارداہ کرنا کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَاسْتَمْسِكْ بِالَّذِي أُوحِيَ إِلَيْكَ [ الزخرف 43] پس تمہاری طرف جو وحی کی گئی ہے اسے مضبوط پکرے رہو ۔ أَمْ آتَيْناهُمْ كِتاباً مِنْ قَبْلِهِ فَهُمْ بِهِ مُسْتَمْسِكُونَ [ الزخرف 21] یا ہم نے ان کو اس سے پہلے کوئی کتاب دی تھی تو یہ اس سے ( سند ) پکڑتے ہیں ۔ محاورہ ہے : ۔ کیس چیز کو پکڑنا اور تھام لینا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوافِرِ [ الممتحنة 10] اور کافر عورتوں کی ناموس قبضے میں نہ رکھو ( یعنی کفار کو واپس دے دو ۔ امسکت عنہ کذا کسی سے کوئی چیز روک لینا قرآن میں ہے : ۔ هُنَّ مُمْسِكاتُ رَحْمَتِهِ [ الزمر 38] تو وہ اس کی مہر بانی کو روک سکتے ہیں ۔ اور کنایہ کے طور پر امساک بمعنی بخل بھی آتا ہے اور مسلۃ من الطعام واشراب اس قدر کھانے یا پینے کو کہتے ہیں جس سے سد رہق ہوسکے ۔ المسک ( چوڑا ) ہاتھی دانت کا بنا ہوا زبور جو عورتیں کلائی میں پہنتی ہیں المسک کھال جو بدن کے دھا نچہ کو تھا مے رہتی ہے ۔ - زال - زَالَ الشیء يَزُولُ زَوَالًا : فارق طریقته جانحا عنه، وقیل : أَزَلْتُهُ ، وزَوَّلْتُهُ ، قال : إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولا [ فاطر 41]- زول - زال الشئ یزول زوالا کسی چیز کا اپنا صحیح رخ چھوڑ کر ایک جانب مائل ہونا ( اپنی جگہ سے ہٹ کر جانا اور ازلتہ وزولتہ کے معنی ہیں ایک جانب مائل کردینا ۔ کسی چیز کو اس کو اس کی جگہ سے ہٹا دینا ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولا [ فاطر 41]- حلم - الحِلْم : ضبط النّفس والطبع عن هيجان الغضب، وجمعه أَحْلَام، قال اللہ تعالی: أَمْ تَأْمُرُهُمْ أَحْلامُهُمْ بِهذا [ الطور 32] ، قيل معناه : عقولهم «5» ، ولیس الحلم في الحقیقة هو العقل، لکن فسّروه بذلک لکونه من مسبّبات العقل «6» ، وقد حَلُمَ «7» وحَلَّمَهُ العقل وتَحَلَّمَ ، وأَحْلَمَتِ المرأة : ولدت أولادا حلماء «8» ، قال اللہ تعالی: إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ- [هود 75] ، وقوله تعالی: فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات 101] ، أي : وجدت فيه قوّة الحلم، وقوله عزّ وجل : وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ- [ النور 59] ، أي : زمان البلوغ، وسمي الحلم لکون صاحبه جدیرا بالحلم، ويقال : حَلَمَ «1» في نومه يَحْلُمُ حُلْماً وحُلَماً ، وقیل : حُلُماً نحو : ربع، وتَحَلَّمَ واحتلم، وحَلَمْتُ به في نومي، أي : رأيته في المنام، قال اللہ تعالی: قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 54] ، والحَلَمَة : القراد الکبير، قيل : سمیت بذلک لتصوّرها بصورة ذي حلم، لکثرة هدوئها، فأمّا حَلَمَة الثدي فتشبيها بالحلمة من القراد في الهيئة، بدلالة تسمیتها بالقراد في قول الشاعر :- 125-- كأنّ قرادي زوره طبعتهما ... بطین من الجولان کتّاب أعجمي - «2» وحَلِمَ الجلد : وقعت فيه الحلمة، وحَلَّمْتُ البعیر : نزعت عنه الحلمة، ثم يقال : حَلَّمْتُ فلانا : إذا داریته ليسكن وتتمکّن منه تمكّنک من البعیر إذا سكّنته بنزع القراد عنه «3» .- ( ح ل م ) الحلم کے معنی ہیں نفس وطبیعت پر ایسا ضبط رکھنا کہ غیظ وغضب کے موقع پر بھڑ کنہ اٹھے اس کی جمع احلام ہے اور آیت کریمہ : ۔ کیا عقلیں ان کو ۔۔۔ سکھاتی ہیں ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ احلام سے عقیں مراد ہیں اصل میں ھلم کے معنی متانت کے ہیں مگر چونکہ متانت بھی عقل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اس لئے حلم کا لفظ بول کر عقل مراد لے لیتے ہیں جیسا کہ مسبب بول کر سبب مراد لے لیا جاتا ہے حلم بردبار ہونا ۔ عقل نے اسے برد بار رہنا دیا ۔ عورت کا حلیم بچے جننا ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود 75] بیشک ابراہیم بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَبَشَّرْناهُ بِغُلامٍ حَلِيمٍ [ الصافات 101] تو ہم نے ان کو ایک نرم دل لڑکے کی خوشخبری دی ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اس غلام ہیں قوت برداشت ۔۔۔۔۔۔ تھی اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا بَلَغَ الْأَطْفالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ [ النور 59] اور جب تمہارے لڑکے بالغ ہوجائیں میں حلم کے معنی سن بلوغت کے ہیں اور سن بلوغت کو حلم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس عمر میں طور عقل وتمیز آجاتی ہے کہا جاتا ہے ۔ حلم ( ن ) فی نومہ خواب دیکھنا مصدر حلم اور حلم مثل ربع بھی کہا گیا ہے ۔ اور ۔ یہی معنی تحلم واحتلم کے ہیں ۔ حلمت بہ فی نومی ۔ میں نے اسے خواب میں دیکھا ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا أَضْغاثُ أَحْلامٍ [يوسف 54] انہوں نے کہا یہ تو پریشان سے خواب ہیں ۔ الحلمۃ بڑی چیچڑی ۔ کیونکہ وہ ایک جگہ پر جمے رہنے کی وجہ سے حلیم نظر آتی ہے اور سر پستان کو حلمۃ الثدی کہنا محض ہیت میں چیچڑی کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ہے ۔ اس مجاز کی دلیل یہ ہے کہ سر پستان کو قراد بھی کہہ دیتے ہیں ۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) اس کے سینے پر پستانوں کے نشانات اسطرح خوشمنا نظر اتے ہیں کہ گویا کسی کاتب لے مٹی کی مہریں لگادیں ہیں چمڑے کو کیڑا الگ جانا ۔ حلمت البعیر میں نے اونٹ سے خیچڑ نکالے حلمت فلانا کسی پر قدرت حاصل کے لئے اس کے ساتھ مدارات سے پیش آنا تاکہ وہ مطمئن رہے جیسا کہ اونٹ سے چیچڑ دور کرنے سے اسے سکون اور راحت محسوس ہوتا ہے اور انسان اس پر پوری طرح قدرت پالیتا ہے - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ کہیں وہ یہود و نصاری کی باتیں سن کر کہ عزیر (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور مسیح (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں وہ اپنی اس موجودہ حالت کو چھوڑ نہ دیں ار اگر بالفرض وہ اپنی حالت موجودہ کو چھوڑ بھی دیں تو پھر اللہ کے سوا اور کوئی ان کو تھام بھی نہیں سکتا وہ یہود و نصاری کی باتوں پر تحمل والا ہے جو ان میں سے توبہ کرے تو اس کے حق میں غفور ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ اِنَّ اللّٰہَ یُمْسِکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلَا ” یقینا اللہ ہی تھامے ہوئے ہے آسمانوں اور زمین کو کہ وہ (اپنے راستے سے) ہٹ نہ جائیں۔ “- وَلَئِنْ زَالَتَآ اِنْ اَمْسَکَہُمَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْم بَعْدِہٖ ” اور اگر وہ ہٹ جائیں تو کوئی نہیں جو ان کو تھام سکے اس کے بعد “- اِنَّہٗ کَانَ حَلِیْمًا غَفُوْرًا ” یقینا وہ بہت بردبار ‘ بہت بخشنے والا ہے۔ “- یہی وجہ ہے کہ وہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی لوگوں کی غلطیوں پر فوراً پکڑ نہیں کرتا اور انہیں مہلت دیے جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :69 یعنی یہ اتھاہ کائنات اللہ تعالیٰ کے قائم رکھنے سے قائم ہے ۔ کوئی فرشتہ یا جن یا نبی یا ولی اس کو سنبھالے ہوئے نہیں ہے ۔ کائنات کو سنبھالنا تو درکنار ، یہ بے بس بندے تو اپنے وجود کے سنبھالنے پر بھی قادر نہیں ۔ ہر ایک اپنی پیدائش اور اپنے بقاء کے لیے ہر آن اللہ جل شانہ کا محتاج ہے ۔ ان میں سے کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اس کا کوئی حصہ ہے خالص حماقت اور فریب خوردگی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :70 یعنی یہ سراسر اللہ کا حِلم اور اس کی چشم پوشی ہے کہ اتنی بڑی گستاخیاں اس کی جناب میں کی جا رہی ہیں اور پھر بھی وہ سزا دینے میں جلدی نہیں کر رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani