43۔ 1 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر ایمان لانے کی بجائے، انکار و مخالفت کا راستہ محض استکبار اور سرکشی کی وجہ سے اختیار کیا۔ 43۔ 2 اور بری تدبیر یعنی حیلہ، دھوکا اور عمل قبیح کی وجہ سے کیا۔ 43۔ 3 یعنی لوگ مکر و حیلہ کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ بری تدبیر کا انجام برا ہی ہوتا ہے اور اس کا وبال بالآخر مکر و حیلہ کرنے والوں پر ہی پڑتا ہے۔ 43۔ 4 یعنی کیا یہ اپنے کفر و شرک، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت اور مومنوں کو ایذائیں پہنچانے پر مصر رہ کر اس بات کے منتظر ہیں کہ انہیں بھی اس طرح ہلاک کیا جائے جس طرح پچھلی قومیں ہلاکت سے دو چار ہوئیں۔ 43۔ 5 بلکہ یہ اسی طرح جاری ہے اور ہر مکذب (جھٹلانے والے) کا مقدر ہلاکت ہے یا بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے عذاب کو رحمت کے سائے سے بدلنے پر قادر نہیں ہے۔ 43۔ 6 یعنی کوئی اللہ کے عذاب کو دور کرنے والا یا اس کا رخ پھیرنے والا نہیں ہے یعنی جس قوم کو اللہ عذاب سے دوچار کرنا چاہے کوئی اس کا رخ کسی اور قوم کی طرف پھیر دے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے۔ کوئی بھی اس قانون الہی کو بدلنے پر قادر ہے اور نہ عذاب الہی کو پھیرنے پر۔
[ ٤٩] یعنی ان چودھریوں اور سرداروں کا اپنے نبی کی مخالفت کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ پہلے بھی سرکش اور نافرمان قومیں یہی کچھ کرتی رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کی سنت جاریہ بھی ہمیشہ یہی رہی کہ وہ ایسے باغیوں کو سر کچلتا رہا۔ اور اپنے انبیاء کی اور اس پر ایمان لانے والوں کی سرپرستی کرتا اور ان کی مدد کرکے ان ظالموں سے نجات دلاتا رہا ہے۔ اور اللہ کا یہ ایسا طریقہ ہے جس میں تخلف یا تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا۔ گویا اس آیت میں معاندین حق کے لئے یہ دھمکی اور پیشین گوئی تھی کہ اگر تم نے اپنا یہ معاندانہ رویہ نہ بدلا تو تمہیں بھی ایسے برے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ جس سے سابقہ اقوام دوچار ہوچکی ہیں۔- [ ٥٠] اللہ کا دستور یہ ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے مخالفوں کی کمر توڑ دے۔ اس دستور میں ایسا تغیر کبھی نہیں آسکتا کہ اللہ تعالیٰ ایسے مجرموں کو سزا دینے کی بجائے ان پر انعام و اکرام کرنے لگے یا ان مجرموں کی سزا دوسرے لوگوں کو دینے لگے۔
اسْـتِكْبَارًا فِي الْاَرْضِ وَمَكْرَ السَّــﮧ ۭ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّ : یعنی ان کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلانے اور ہدایت سے بدکنے اور دور بھاگنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا سمجھتے تھے، بلکہ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ زمین پر رہ کر، جو اللہ تعالیٰ کی کائنات میں پستی کی انتہا ہے، اونچے اور بڑے بن کر رہنا چاہتے تھے، جو پیغمبر کی اطاعت قبول کرنے کی صورت میں ممکن نہ تھا، کیونکہ اس وقت انھیں اپنی مرضی چھوڑ کر اللہ کے حکم کے تابع ہونا پڑتا تھا، جو انھیں منظور نہ تھا۔ - وَمَكْرَ السَّــی : اور حق سے زیادہ دور ہونے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صدق و امانت کو جاننے کے باوجود آپ پر ایمان لانے کے بجائے حق کا راستہ روکنے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نقصان پہنچانے کے لیے بہت بری تدبیریں اور خوف ناک سازشیں اختیار کیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ حق قبول کرنے کے بجائے ضد میں آ کر وہ اس سے بہت دور ہوگئے، جیسا کہ سورة انفال (٣٠) میں کفار مکہ کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف قید، جلاوطنی یا قتل کی تدبیروں کا ذکر ہے۔ - وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ ” حَاقَ یَحِیْقُ “ اور ” أَحَاطَ یُحِیْطُ “ دونوں کا معنی گھیرنا ہے، یعنی بری تدبیر جس کے متعلق کی جائے ہوسکتا ہے اسے تھوڑا بہت نقصان پہنچ جائے، مگر وہ پوری طرح گھیرا اور احاطہ بری تدیبر کرنے والے ہی کا کرتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف سازشوں سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نہیں بگڑا، بلکہ ان سازشوں نے غزوۂ بدر، احد، خندق اور فتح مکہ میں کفار ہی کو گھیرے میں لے کر انھیں ناکام و نامراد کردیا۔- فَهَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَ یعنی اگر یہ اپنی روش نہ بد لیں گے اور اپنی سرکشی میں بڑھتے جائیں گے تو پہلے کافروں کی طرح ان پر عذاب نازل ہو کر رہے گا۔ - فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا : یعنی اللہ تعالیٰ کا دستور جو پہلے سے چلا آ رہا ہے کہ وہ مجرموں کو مہلت دیتا ہے، پھر پکڑ لیتا ہے، تم اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں پاؤ گے کہ ان مجرموں کی رسی ہمیشہ دراز رہے، یا انھیں عذاب کے بجائے انعام سے نوازا جائے۔ اس میں کفار کے لیے وعید ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل ایمان کے لیے تسلی اور بشارت ہے۔ - وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَحْوِيْلًا : نہ ہی یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کوئی کام ہونے کا حکم دے یا کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کا ارادہ کرے اور عذاب نازل نہ ہو، یا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرے اور وہ اس سے پھیر کر کسی اور قوم پر نازل کردیا جائے، جیسا کہ فرمایا : ( وَاِذَآ اَرَاد اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ ) [ الرعد : ١١ ] ” اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرلے تو اسے ہٹانے کی کوئی صورت نہیں۔ “
معارف ومسائل - (آیت) ولا یحیق المکر السیی الا باھلہ، لا یحیق کے معنی لا یحیط یا لا یصیب کے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ بری تدبیر کا وبال اور کسی پر نہیں پڑتا، بلکہ خود ایسی تدبیر کرنے والے پر ہی پڑتا ہے۔ یعنی جو شخص دوسروں کا برا چاہتا ہے وہ خود برائی کا شکار ہوجاتا ہے۔- اس پر جو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ دنیا میں تو بہت مرتبہ یہ بھی مشاہدہ ہوتا ہے کہ بری تدبیر کرنے والے کی تدبیر چل جاتی ہے اور جس کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے اس کو نقصان پہنچ جاتا ہے اس کا ایک جواب تو خلاصہ تفسیر میں آ گیا ہے کہ اس کو جو تکلیف یا نقصان پہنچا وہ تو دنیا کا نقصان ہے، اور ایسی بری تدبیر کرنے والے کا نقصان آخرت کا عذاب ہے، جو اشد بھی ہے اور دائمی بھی، اس کے مقابلہ میں اس کا دنیوی نقصان کالعدم ہے۔- دوسرا جواب بعض حضرات نے یہ بھی دیا ہے کہ کسی بےگناہ کے خلاف تدبیر کرنے اور اس پر ظلم کرنے کا وبال ظالم پر اکثر دنیا میں بھی پڑجاتا ہے۔ محمد بن کعب قرظی نے فرمایا کہ تین کام ایسے ہیں جن کا کرنے والا دنیا میں بھی وبال عذاب سے نہیں بچتا، ایک کسی بےگناہ کے حق میں بری تدبیر کر کے اس کو ایذا پہنچانا، دوسرے عام ظلم، تیسرے عہد شکنی (ابن کثیر) خصوصاً جو کسی ایسے شخص پر کیا جائے جو بےکس بےبس ہو، انتقام پر قدرت نہ رکھتا ہو یا باوجود قدرت انتقام کے صبر کرے، اس پر ظلم کے وبال سے دنیا میں بھی کسی کو بچتے نہیں دیکھا۔- بس تجربہ کردیم دریں دیر مکافات - بادر دکشاں ہر کہ در افتاد برافتاد - اس کا حاصل یہ ہوگا کہ آیت میں جو حصر یہاں کیا گیا ہے وہ اکثری قاعدہ کے اعتبار سے ہے کلی نہیں۔ واللہ اعلم
اسْـتِكْبَارًا فِي الْاَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ٠ ۭ وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ ٠ ۭ فَہَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِيْنَ ٠ ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِيْلًا ٠ۥۚ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَحْوِيْلًا ٤٣- الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( استتعال ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مدموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - مكر - المَكْرُ : صرف الغیر عمّا يقصده بحیلة، وذلک ضربان : مکر محمود، وذلک أن يتحرّى بذلک فعل جمیل، وعلی ذلک قال : وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] . و مذموم، وهو أن يتحرّى به فعل قبیح، قال تعالی: وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] - ( م ک ر ) المکر ک - ے معنی کسی شخص کو حیلہ کے ساتھ اس کے مقصد سے پھیر دینے کے ہیں - یہ دو قسم پر ہے ( 1) اگر اس سے کوئی اچھا فعل مقصود ہو تو محمود ہوتا ہے ورنہ مذموم چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ خَيْرُ الْماكِرِينَ [ آل عمران 54] اور خدا خوب چال چلنے والا ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔- اور دوسرے معنی کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ [ فاطر 43] اور بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے :- سَّيِّئَةُ :- الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] - سَّيِّئَةُ :- اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :،- ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة 81] جو برے کام کرے - نظر - النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] ، وقال : إِلى طَعامٍ غَيْرَ ناظِرِينَ إِناهُ [ الأحزاب 53] أي :- منتظرین،- ( ن ظ ر ) النظر - کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔- اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں - سنن - وتنحّ عن سَنَنِ الطّريق، وسُنَنِهِ وسِنَنِهِ ، فالسُّنَنُ : جمع سُنَّةٍ ، وسُنَّةُ الوجه : طریقته، وسُنَّةُ النّبيّ :- طریقته التي کان يتحرّاها، وسُنَّةُ اللہ تعالی: قد تقال لطریقة حکمته، وطریقة طاعته، نحو :- سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح 23] ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر 43] ، فتنبيه أنّ فروع الشّرائع۔ وإن اختلفت صورها۔ فالغرض المقصود منها لا يختلف ولا يتبدّل، وهو تطهير النّفس، وترشیحها للوصول إلى ثواب اللہ تعالیٰ وجواره، وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ- [ البقرة 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» .- سنن - تنح عن سنن الطریق ( بسین مثلثہ ) راستہ کے کھلے حصہ سے مٹ ج اور ۔ پس سنن کا لفظ سنۃ کی جمع ہے اور سنۃ الوجہ کے معنی دائرہ رد کے ہیں اور سنۃ النبی سے مراد آنحضرت کا وہ طریقہ ہے جسے آپ اختیار فرماتے تھے ۔ اور سنۃ اللہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے جیسے فرمایا : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح 23]( یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر 43] اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے ۔ تو آیت میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ کہ شرائع کے فروغی احکام کی گو مختلف صورتیں چلی آئی ہیں ۔ لیکن ان سب سے مقصد ایک ہی ہے ۔ یعنی نفس کو پاکر کرنا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب اور اس کا جوار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنا اور یہ مقصد ایسا ہے کہ اس میں اختلاف یا تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور آیت :- مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔ - وجد - الوجود أضرب : وجود بإحدی الحواسّ الخمس . نحو : وَجَدْتُ زيدا، ووَجَدْتُ طعمه .- ووجدت صوته، ووجدت خشونته . ووجود بقوّة الشّهوة نحو : وَجَدْتُ الشّبع . ووجود بقوّة الغضب کو جود الحزن والسّخط . ووجود بالعقل، أو بواسطة العقل کمعرفة اللہ تعالی، ومعرفة النّبوّة، وما ينسب إلى اللہ تعالیٰ من الوجود فبمعنی العلم المجرّد، إذ کان اللہ منزّها عن الوصف بالجوارح والآلات . نحو : وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] . - ( و ج د ) الو جود - ( ض) کے معنی کسی چیز کو پالینا کے ہیں اور یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے حواس خمسہ میں سے کسی ایک حاسہ کے ساتھ اور اک کرنا جیسے وجدت طعمہ ( حاسہ ذوق ) وجدت سمعہ ( حاسہ سمع ) وجدت خثومتہ حاسہ لمس ) قوی باطنہ کے ساتھ کسی چیز کا ادراک کرنا ۔ جیسے وجدت الشبع ( میں نے سیری کو پایا کہ اس کا تعلق قوت شہو یہ کے ساتھ ہے ۔ وجدت الحزن وا لسخط میں نے غصہ یا غم کو پایا اس کا تعلق قوت غضبہ کے ساتھ ہے ۔ اور بذریعہ عقل کے کسی چیز کو پالیتا جیسے اللہ تعالیٰ یا نبوت کی معرفت کہ اسے بھی وجدان کہا جاتا ہے ۔ جب وجود پالینا ) کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے تو اس کے معنی محض کسی چیز کا علم حاصل کرلینا کے ہوتے ہیں کیونکہ ذات باری تعالیٰ جوارح اور آلات کے ذریعہ کسی چیز کو حاصل کرنے سے منزہ اور پاک ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَإِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقِينَ [ الأعراف 102] اور ہم نے ان میں سے اکثروں میں عہد کا نباہ نہیں دیکھا اور ان میں اکثروں کو ( دیکھا تو ) بد عہد دیکھا ۔- بدل - الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» .- وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] - والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع :- البَئَادِل «2» ، قال الشاعر :- 41-- ولا رهل لبّاته وبآدله - ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال - کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔- حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی:- وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔
بلکہ رسول اکرم کو نقصان پہنچانے کے لیے ان کی بری تدبیروں کو ترقی ہوتی رہی کیونکہ میری تدبیروں اور برے کاموں کا اصلی وبال ان تدبیروں والوں ہی پر پڑتا ہے سو اگر آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے تو یہ اسی عذاب کے منتظر ہیں جو رسولوں کی تکذیب کرنے پر اگلے لوگوں پر نازل ہوتا رہا اور آپ عذاب الہی کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے اور اسی طرح آپ عذاب الہی کو کبھی دوسروں کی طرف منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے۔
آیت ٤٣ نِ اسْتِکْبَارًا فِی الْاَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّیِٔ ” زمین میں تکبر کرتے ہوئے اور ُ بری چالیں چلتے ہوئے۔ “- انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف متکبرانہ رویہ بھی اختیار کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کا راستہ روکنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں بھی کیں ۔- وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّئُ اِلَّا بِاَہْلِہٖ ” اور ُ بری چال کا وبال نہیں پڑتا مگر اس کے چلنے والے پر ہی۔ “- فَہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا سُنَّتَ الْاَوَّلِیْنَ ” تو وہ کس چیز کے انتظار میں ہیں سوائے پہلے والوں کے انجام کے “- ” سُنّتُ الاَوّلیْن “ سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے مطابق پچھلی نافرمان قومیں ہلاک ہوئیں۔ گویا اب یہ لوگ انتظار کر رہے ہیں کہ قانونِ خداوندی کا انطباق جس طرح پچھلی اقوام پر ہوا تھا اسی طرح اب ان پر بھی ہو اور جس طرح ماضی میں نافرمان اقوام کو ہلاک کیا جاتا رہا اسی طرح انہیں بھی ہلاک کردیا جائے۔- فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحْوِیْلًا ” تو تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے قانون میں کوئی تبدیلی ‘ اور تم ہرگز نہیں پائو گے اللہ کے قانون کو رخ پھیرتے ہوئے۔ “- تبدیل اور تحویل دو الگ الگ لیکن قریب المعانی الفاظ ہیں۔ تبدیل یا تبدیلی کا مفہوم تو عام فہم ہے ‘ جبکہ تحویل کے معنی رخ پھیرنے یا سمت بدلنے کے ہیں۔ آیت زیر مطالعہ میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کا قانون کسی کے لیے اپنا رخ نہیں بدلتا اور اگر کوئی شخص یا کوئی قوم اللہ کے قانون کی زد میں آنے والی ہو تو اس قانون کے رخ کو کسی طور سے پھیرا نہیں جاسکتا۔ چناچہ اگر یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں تو اللہ کا قانون بھی بدلنے والا نہیں۔ ان سے پہلے کی قومیں اگر ایسی روش کو اپنا کر نشان عبرت بنتی رہی ہیں تو یہ لوگ بھی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔
سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :72 یعنی اللہ کا یہ قانون ان پر بھی جاری ہو جائے کہ جو قوم اپنے نبی کو جھٹلاتی ہے وہ تباہ کر کے رکھ دی جاتی ہے ۔
13: بد نیتی سے کسی کے خلاف جو ناحق تدبیریں کی جاتی ہیں، اکثر تو دنیا ہی میں وہ الٹی پڑجاتی ہیں، اور ان کا نقصان خود تدبیر کرنے والے کو اٹھانا پڑتا ہے، چنانچہ کافروں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف جو چالیں چلی تھیں، وہ آخر کار انہی کے خلاف پڑیں، اور اگر کبھی دنیا میں نقصان اٹھانا نہ پڑے تو ان بری تدبیروں کا عذاب آخرت میں تو ہوتا ہی ہے جو دنیا کے عذاب سے زیادہ سخت ہے۔