Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی اس سے سخت عداوت رکھو، اس کے فریب اور ہتھکنڈوں سے بچو، جس طرح دشمن کے بچاؤ کے لئے انسان کرتا ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ١٠] لہذا اے لوگو تم شیطان کے فریب میں نہ آجانا۔ اس کی ایک بھی بات نہ ماننا۔ وہ پہلے دن سے تمہارا دشمن ہے۔ لہذا تم اسے دشمن ہی سمجھو گے تو اسی میں تمہاری عافیت ہے وہ کبھی تمہارا دوست نہیں بن سکتا۔ وہ شرکیہ عقائد و بدعات خواہ کس خوبصورت انداز میں پیش کرے اور تم اسے کار ثواب اور اس میں فلاح دارین ہی سمجھنے لگو حقیقت میں وہ تمہارے ساتھ دشمنی کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا تو اولین مقصد ہی یہ ہے کہ وہ اکیلا دوزخ میں نہ جائے بلکہ جنوں اور انسانوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنا ساتھی بناکر اپنے ہمراہ دوزخ میں لے جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ : شیطان تمہارا دشمن ہے، تمہارے ساتھ اس کی عداوت قدیم اور قیامت تک کے لیے دائمی ہے، جس کی بنیاد حسد پر ہے اور حاسد کی عداوت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ سورة کہف میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا : (وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ ۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ للظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا) [ الکہف : ٥٠ ] ” اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ جنوں میں سے تھا، سو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، تو کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو، حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، وہ (شیطان) ظالموں کے لیے بطور بدل برا ہے۔ “- فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا ۭ : جب وہ تمہارا دشمن ہے تو تم بھی ہمیشہ اسے دشمن ہی سمجھو، وہ کبھی تمہارا خیر خواہ یا دوست نہیں ہوسکتا، اپنے عقائد و اعمال اور اپنے اقوال و افعال اور احوال، غرض ہر چیز میں اس کی مخالفت کرو اور مرتے دم تک یہ عداوت قائم رکھو۔- اِنَّمَا يَدْعُوْ احِزْبَهٗ لِيَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ : اپنے گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس کا کہا مانتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں۔ یعنی شیطان بظاہر جتنی بھی خیر خواہی کرے مقصد اس کا یہی ہے کہ وہ اکیلا جہنم میں جانے کے بجائے اپنے دوستوں کو بھی اپنے ساتھ لے کر جائے۔ اس لیے اس کی خیر خواہی پر کبھی بھی اعتماد نہ کرو۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الشَّيْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا۝ ٠ ۭ اِنَّمَا يَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِيَكُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ۝ ٦ۭ- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - حزب - الحزب : جماعة فيها غلظ، قال عزّ وجلّ : أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] - ( ح ز ب ) الحزب - وہ جماعت جس میں سختی اور شدت پائی جائے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] دونوں جماعتوں میں سے اس کی مقدار کسی کو خوب یاد ہے - صحب - الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، - ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40]- ( ص ح ب ) الصاحب - ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ - سعر - السِّعْرُ : التهاب النار، وقد سَعَرْتُهَا، وسَعَّرْتُهَا، وأَسْعَرْتُهَا، والْمِسْعَرُ : الخشب الذي يُسْعَرُ به، واسْتَعَرَ الحرب، واللّصوص، نحو : اشتعل، وناقة مَسْعُورَةٌ ، نحو : موقدة، ومهيّجة . السُّعَارُ :- حرّ النار، وسَعُرَ الرّجل : أصابه حرّ ، قال تعالی: وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً- [ النساء 10] ، وقال تعالی: وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير 12] ، وقرئ بالتخفیف «2» ، وقوله : عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک 5] ، أي : حمیم، فهو فعیل في معنی مفعول، وقال تعالی: إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر 47] ، والسِّعْرُ في السّوق، تشبيها بِاسْتِعَارِ النار .- ( س ع ر ) السعر - کے معنی آگ بھڑکنے کے ہیں ۔ اور سعرت النار وسعر تھا کے معنی آگ بھڑکانے کے ۔ مجازا لڑائی وغیرہ بھڑکانے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ استعر الحرب لڑائی بھڑک اٹھی ۔ استعر اللصوص ڈاکو بھڑک اٹھے ۔ یہ اشتعل کے ہم معنی ہے اور ناقۃ مسعورۃ کے معنی دیوانی اونٹنی کے ہیں جیسے : ۔ موقدۃ ومھیجۃ کا لفظ اس معنی میں بولا جاتا ہے ۔ المسعر ۔ آگ بھڑکانے کی لکڑی ( کہرنی ) لڑائی بھڑکانے والا ۔ السعار آگ کی تپش کو کہتے ہیں اور سعر الرجل کے معنی آگ یا گرم ہوا سے جھلس جانے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيراً [ النساء 10] اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعِّرَتْ [ التکوير 12] اور جب دوزخ ( کی آگ ) بھڑکائی جائے گی ۔ عَذابَ السَّعِيرِ [ الملک 5] دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ تو یہاں سعیر بمعنی مسعور ہے ۔ نیز قران میں ہے : ۔ إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَلالٍ وَسُعُرٍ [ القمر 47] بیشک گنہگار لوگ گمراہی اور دیوانگی میں ( مبتلا ہیں ) السعر کے معنی مروجہ نرخ کے ہیں اور یہ استعار ہ النار ( آگ کا بھڑکنا ) کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے دین الہی اور اطاعت خداوندی میں ہرگز اس کی اطاعت مت کرو وہ تو اپنے گروہ اور اپنے ماننے والوں کو اس لیے بلاتا ہے تاکہ وہ بھی دوزخیوں کے ساتھ جہنم میں جمع ہوجائیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا ” یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے ‘ چناچہ تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو “- اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ ” یہ تو بلاتا ہے اپنے ہی گروہ کے لوگوں کو تاکہ وہ جہنم والوں میں سے ہوجائیں۔ “- اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایسا انسان جس کی نیت درست نہیں اور اس کے اندر شیطانی رجحانات بالقوہ ( ) موجود ہیں وہ شیطان کا آسان شکار ہے۔ چناچہ شیطان ہر ایسے انسان کی طرف خصوصی طور پر دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑنے کے بعد اسے راستے میں نہیں چھوڑتا ‘ بلکہ اس کی منزل (جہنم) تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ ” برے “ کو اس کے گھر تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ اس حوالے سے سورة الاعراف کے ٢٢ ویں رکوع میں بلعم بن باعوراء کا واقعہ بڑا عبرت انگیز ہے۔ وہ اللہ کے نیک بندوں میں سے تھا۔ صرف عابد و زاہد نہیں ‘ عالم بھی تھا۔ لیکن جب وہ غلطی کا ارتکاب کر کے اللہ کی اطاعت سے نکل بھاگا تو شیطان نے اس کا پیچھا کیا اور اسے دھکے دیتا ہوا گمراہی اور بےحیائی میں آگے سے آگے بڑھاتا چلا گیا : فَاَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ ۔ (الاعراف) ” پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ ہوگیا گمراہوں میں سے “۔ گویا جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ اور ارادوں میں فتور ہو ‘ شیطان انہیں چن ُ چن کر ڈھونڈتا ہے ‘ انہیں اپنی طرف بلاتا ہے اور اپنے گروہ (حزب الشیطان) میں شامل کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ اولیاء الرحمن اور عباد الرحمن کے زمرے میں آتے ہیں ان پر شیطان کا بس نہیں چلتا۔ - اس حوالے سے یہ بات بھی نوٹ کرلیجئے کہ جس طرح بعض لوگوں میں حزب الشیطان سے موافقت کا رجحان ( ) پہلے سے موجود ہوتا ہے اسی طرح کچھ لوگ بالقوہ ( ) حزب اللہ والے بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمر اور حضرت حمزہ میں شروع ہی سے حزب اللہ میں شامل ہونے کی صلاحیت موجود تھی۔ چناچہ اگرچہ ان کے فیصلے میں کچھ تاخیر ہوئی ‘ قبولِ اسلام میں چھ سال لگ گئے ‘ لیکن بالآخر وہ صلاحیت ظاہر ہوگئی ۔ - ۔ ” حزب اللہ “ اور ” حزب الشیطان “ قرآنی اصطلاحات ہیں ‘ ان کی وضاحت سورة المجادلہ کی آخری آیات میں آئی ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani