Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 کہ قیامت برپا ہوگی اور نیک و بد کو ان کے عملوں کی جزا و سزا دی جائے گی۔ 5۔ 2 یعنی آخرت کی ان نعمتوں سے غافل نہ کردے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں اور رسولوں کے پیروکاروں کے لئے تیار کر رکھی ہیں۔ پس اس دنیا کی عارضی لذتوں میں کھو کر آخرت کی دائمی راحتوں کو نظر انداز نہ کرو

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٨] یعنی دنیا کے مال و دولت، اس کے عیش و آرام، اس کی دلکشیوں اور دلفریبیوں میں محو اور مستغرق ہو کر اپنے انجام کو بھول نہ جانا۔ اللہ کے ہاں ہر نعمت سے متعلق باز پرس ہونے والی ہے کہ اس کا شکریہ ادا کیا تھا یا ناشکری کی تھی۔ نیز اس دنیا میں کوئی بھی چیز بےکار پیدا نہیں کی گئی۔ ہر عمل اپنا ایک نتیجہ رکھتا ہے۔ اور اس کے محاسبہ سے تم بچ نہیں سکتے۔ لہذا اس دھوکہ میں نہ رہنا کہ زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے۔ تمہارے تمام تر اعمال ریکارڈ ہو رہے ہیں اور ان کے نتائج تمہیں دوسری زندگی میں بھگتنا ہوں گے۔ اللہ کا یہ وعدہ ہے اور یہی اس کا قانون مکافات ہے جس کا خلاف کبھی نہیں ہوسکتا۔- [ ٩] شیطان کا اللہ کے نام پر لوگوں کو دھوکا دینا :۔ غرور بمعنی بہت بڑا دھوکا باز اور یہ شیطان ہے۔ جو اللہ ہی کے بارے میں انسان کو دھوکا میں ڈالے رکھتا ہے۔ سب سے پہلے تو وہ اللہ کی ہستی کے بارے میں لوگوں کو دھوکا دیتا ہے اور وہ اس کے دھوکہ میں آکر اللہ کی ہستی کے ہی منکر بن جاتے ہیں اور جو لوگ شیطان کے اس فریب سے بچ نکلتے ہیں تو وہ اللہ کی صفات میں بہت سی دوسری ہستیوں کو شریک بنانے کی راہیں سجھاتا ہے اور ہر دور میں نئی نئی راہیں سجھاتا ہے کچھ لوگ مظاہر کائنات کے پجاری ہیں کچھ فرشتوں کچھ جنوں کچھ اولیاء اللہ اور ان کی قبروں سے امید لگائے بیٹھے ہیں۔ ہر دور میں شیطان انہیں شرک کے جواز پر نئی سے نئی دلیلیں سجھاتا رہتا ہے۔ پھر جو لوگ اس فریب سے بھی بچ نکلتے ہیں انہیں یہ پٹی پڑھاتا رہتا ہے کہ اگر تم سے یہ گناہ سرزد ہو بھی گیا تو اللہ بڑا غفور رحیم ہے یا ابھی بہت زندگی پڑی ہے۔ بعد میں توبہ تائب کرلیں گے۔ اس طرح شیطان لوگوں کو اللہ اور اس کے عذاب سے نڈر اور گناہوں پر جری بنا دیتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ : وعدے سے مراد آخرت کا وعدہ ہے، جس کا پچھلی آیت کے آخری جملے میں ذکر ہے کہ تمام معاملات اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہیں۔- فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا : یعنی اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے کہ تمہیں اس کے حضور پیش ہونا ہے تو کہیں دنیا کی زندگی اپنی لذتوں اور دل فریبیوں کے ساتھ تمہیں اس دھوکے میں نہ ڈال دے کہ بس یہی زندگی ہے، کیونکہ اس دنیا نے بہت سے لوگوں کو اس دھوکے میں رکھ کر برباد کردیا۔ دیکھیے سورة انعام (٢٩) ، مؤمنون (٣٧) اور سورة جاثیہ (٢٤) ” الدُّنْيَا “ ” اَلْأَدْنٰی “ کی مؤنث ہے، قریب کی زندگی جو آخرت کے مقابلے میں قریب ہے، یا کمینی اور حقیر زندگی، جیسا کہ ” دَنِئٌ“ بمعنی حقیر ہے۔ مقصود دنیا کی زندگی کی حقارت کی طرف توجہ دلا کر اس سے ہوشیار ہونے کی تاکید ہے۔- وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ باللّٰهِ الْغَرُوْر :” الْغَرُوْر “ غین کے ضمّہ کے ساتھ ” غَرَّ یَغُرُّ “ (ن) کا مصدر ہے، دھوکا دینا اور غین کے فتحہ کے ساتھ صفت مشبہ ہے، جس میں مبالغے کا معنی بھی ہے، یعنی بہت دھوکا دینے والا۔ الف لام اس میں عہد کا ہے، وہ دھوکا دینے والا جسے تم بھی جانتے ہو، یعنی شیطان، جس کی صراحت اگلی آیت میں آرہی ہے، جیسا کہ ” شُکُوْرٌ“ (شین کے ضمّہ کے ساتھ) شکر کرنا اور ” شَکُوْرٌ“ (شین کے فتحہ کے ساتھ) بہت شکر کرنے والا۔- شیطان اللہ تعالیٰ کے بارے میں کئی طرح سے فریب دیتا ہے، کسی کو یہ فریب دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا سرے سے وجود ہی نہیں، یہ کائنات خود بخود چل رہی ہے۔ کسی کو اس غلط فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ اللہ کے سوا اور بھی معبود ہیں جو نفع و نقصان کا اختیار رکھتے ہیں۔ کسی کو یہ حکم دیتا ہے کہ گناہ کرلو پھر توبہ کرلینا، کسی کو اللہ کی رحمت کے نام پر دھوکا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا غفور و رحیم ہے، جتنے چاہو گناہ کرلو، وہ بخش دے گا اور اکثر کو ” تسویف “ کے ساتھ دھوکا دیتا ہے، تسویف کا معنی ہے ” سَوْفَ أَفْعَلُ “ کہ میں نیک عمل کر ہی لوں گا، ایسی بھی کیا جلدی ہے، ابھی بہت وقت باقی ہے، وہ آدمی کو اسی دھوکے میں رکھتا ہے، حتیٰ کہ عمل کی مہلت ختم ہوجاتی ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

معارف و مسائل - (آیت) لایغرنکم باللہ الغرور، غرور بفح غین مبالغہ کا صیغہ ہے، جس کے معنی ہیں بہت دھوکہ دینے والا اور مراد اس سے شیطان ہے کہ اس کا کام ہی لوگوں کو دھوکہ میں ڈال کر کفر و معصیت میں مبتلا کرنا ہے اور یغرنکم باللہ یعنی وہ تمہیں اللہ کے معاملہ میں دھوکہ نہ دیدے، اس دھوکہ سے مطلب یہ ہے کہ شیطان برے کاموں کو اچھا ثابت کر کے تمہیں اس میں مبتلا نہ کر دے اور تمہارا حال یہ ہوجائے کہ گناہ کرتے رہو اور ساتھ ہی یہ سمجھتے رہو کہ ہم اللہ کے نزدیک مقبول ہیں ہمیں عذاب نہیں ہوگا۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوۃُ الدُّنْيَا۝ ٠ ۪ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللہِ الْغَرُوْرُ۝ ٥- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - حقَ- أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة .- والحقّ يقال علی أوجه :- الأول :- يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس 32] .- والثاني :- يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] ،- والثالث :- في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] .- والرابع :- للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا :- فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] - ( ح ق ق) الحق ( حق )- کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور - لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے - ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ - (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو - ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔- (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا - جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی - ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے - اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔- غرر - يقال : غَررْتُ فلانا : أصبت غِرَّتَهُ ونلت منه ما أريده، والغِرَّةُ : غفلة في الیقظة، والْغِرَارُ : غفلة مع غفوة، وأصل ذلک من الْغُرِّ ، وهو الأثر الظاهر من الشیء، ومنه : غُرَّةُ الفرس . وغِرَارُ السّيف أي : حدّه، وغَرُّ الثّوب : أثر کسره، وقیل : اطوه علی غَرِّهِ «5» ، وغَرَّهُ كذا غُرُوراً كأنما طواه علی غَرِّهِ. قال تعالی: ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ- [ الانفطار 6] ، لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ- [ آل عمران 196] ، وقال : وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً- [ النساء 120] ، وقال : بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] ، وقال : يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] ، وقال : وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] ، وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا - [ الأنعام 70] ، ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] ، وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ- [ لقمان 33] ، فَالْغَرُورُ : كلّ ما يَغُرُّ الإنسان من مال وجاه وشهوة وشیطان، وقد فسّر بالشیطان إذ هو أخبث الْغَارِّينَ ، وبالدّنيا لما قيل : الدّنيا تَغُرُّ وتضرّ وتمرّ «1» ، والْغَرَرُ : الخطر، وهو من الْغَرِّ ، «ونهي عن بيع الْغَرَرِ» «2» .- والْغَرِيرُ : الخلق الحسن اعتبارا بأنّه يَغُرُّ ، وقیل :- فلان أدبر غَرِيرُهُ وأقبل هريرة «3» ، فباعتبار غُرَّةِ الفرس وشهرته بها قيل : فلان أَغَرُّ إذا کان مشهورا کريما، وقیل : الْغُرَرُ لثلاث ليال من أوّل الشّهر لکون ذلک منه كالْغُرَّةِ من الفرس، وغِرَارُ السّيفِ : حدّه، والْغِرَارُ : لَبَنٌ قلیل، وغَارَتِ النّاقةُ : قلّ لبنها بعد أن ظنّ أن لا يقلّ ، فكأنّها غَرَّتْ صاحبها .- ( غ ر ر )- غررت ( ن ) فلانا ( فریب دینا ) کسی کو غافل پاکر اس سے اپنا مقصد حاصل کرنا غرۃ بیداری کی حالت میں غفلت غرار اونکھ کے ساتھ غفلت اصل میں یہ غر سے ہے جس کے معنی کسی شے پر ظاہری نشان کے ہیں ۔ اسی سے غرۃ الفرس ( کگوڑے کی پیشانی کی سفیدی ہے اور غر ار السیف کے معنی تلوار کی دھار کے ہیں غر الثواب کپڑے کی تہ اسی سے محاورہ ہے : ۔ اطوہ علی غرہ کپڑے کو اس کی تہ پر لپیٹ دو یعنی اس معاملہ کو جوں توں رہنے دو غرہ کذا غرورا سے فریب دیا گویا اسے اس کی نہ پر لپیٹ دیا ۔ قرآن میں ہے ؛ما غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ [ الانفطار 6] ای انسان تجھ کو اپنے پروردگار کرم گستر کے باب میں کس چیز نے دہو کا دیا ۔ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي الْبِلادِ [ آل عمران 196]( اے پیغمبر ) کافروں کا شہروں میں چلنا پھر تمہیں دھوکا نہ دے ۔ وَما يَعِدُهُمُ الشَّيْطانُ إِلَّا غُرُوراً [ النساء 120] اور شیطان جو وعدہ ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے ۔ بَلْ إِنْ يَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُهُمْ بَعْضاً إِلَّا غُرُوراً [ فاطر 40] بلکہ ظالم جو ایک دوسرے کو وعدہ دیتے ہیں محض فریب ہے ۔ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً [ الأنعام 112] وہ دھوکا دینے کے لئے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالنتے رہتے ہیں ۔ وَمَا الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا مَتاعُ الْغُرُورِ [ آل عمران 185] اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ وَغَرَّتْهُمُ الْحَياةُ الدُّنْيا[ الأنعام 70] اور دنیا کی نے ان کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے ۔ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُوراً [ الأحزاب 12] کہ خدا اور اس کے رسول نے ہم سے دھوکے کا وعدہ کیا تھا ۔ وَلا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللَّهِ الْغَرُورُ [ لقمان 33] اور نہ فریب دینے والا شیطان ) تمہیں خدا کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے ۔ پس غرور سے مال وجاہ خواہش نفسانی ، شیطان اور ہر وہ چیز مراد ہے جو انسان کو فریب میں مبتلا کرے بعض نے غرور سے مراد صرف شیطان لیا ہے کیونکہ چو چیزیں انسان کو فریب میں مبتلا کرتی ہیں شیطان ان سب سے زیادہ خبیث اور بعض نے اس کی تفسیر دنیا کی ہے کیونکہ دنیا بھی انسان سے فریب کھیلتی ہے دھوکا دیتی ہے نقصان پہنچاتی ہے اور گزر جاتی ہے ۔ الغرور دھوکا ۔ یہ غر سے ہے اور ( حدیث میں ) بیع الغرر سے منع کیا گیا ہے (57) الغریر اچھا خلق ۔ کیونکہ وہ بھی دھوکے میں ڈال دیتا ہے ۔ چناچہ ( بوڑھے شخص کے متعلق محاورہ ہے ۔ فلان ادبر غریرہ واقبل ہریرہ ( اس سے حسن خلق جاتارہا اور چڑ چڑاپن آگیا ۔ اور غرہ الفرس سے تشبیہ کے طور پر مشہور معروف آدمی کو اغر کہاجاتا ہے اور مہینے کی ابتدائی تین راتوں کو غرر کہتے ہیں کیونکہ مہینہ میں ان کی حیثیت غرۃ الفرس کی وہوتی ہے غرار السیف تلوار کی دھار اور غرار کے معنی تھوڑا سا دودھ کے بھی آتے ہیں اور غارت الناقۃ کے معنی ہیں اونٹنی کا دودھ کم ہوگیا حالانکہ اس کے متعلق یہ گہان نہ تھا کہ اسکا دودھ کم ہوجائیگا گویا کہ اس اونٹنی نے مالک کو دھوکا دیا ۔- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ «1» ، وتارة عن الأرذل فيقابل بالخیر، نحو : أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] ،- دنا - اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا ہ ۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اے مکہ والو بعث بعد الموت ضرور ہوگا سو ایسا نہ ہو کہ یہ دنیوی زندگی رونق و بہار تمہیں اللہ کی پیروی سے دھوکے میں ڈالے رکھے اور ایسا نہ ہو کہ تمہیں دھوکا باز شیطان دین الہی سے دھوکا میں ڈال دیں یا کہ دنیا کی جھوٹی چیزیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥ یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَاوقفۃ ” اے لوگو اللہ کا وعدہ سچا ہے ‘ تو دیکھو دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں نہ ڈال دے “- وَلَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ ” اور نہ ہی تمہیں دھوکے میں ڈالے اللہ کے بارے میں وہ بڑا دھوکے باز۔ “- اس سے پہلے ہم یہی الفاظ سورة لقمان کی آیت ٣٣ میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ لفظ ” غرور “ اگر ” غ “ کی پیش کے ساتھ ہو تو مصدر ہے ‘ اور اگر ” غ “ کی زبر کے ساتھ (فَعول کے وزن پر) ہوتویہ مبالغے کا صیغہ ہوگا۔ چناچہ ” الـغَرُور “ کے معنی ہیں بہت بڑا دھوکے باز ‘ یعنی ابلیس لعین جو اکثر لوگوں کو اللہ کے بارے میں اس طرح بھی ورغلاتا ہے کہ اللہ بڑا رحیم ‘ کریم ‘ شفیق اور مغفرت کرنے والا ہے۔ تمہیں کا ہے کی فکر ہے ؟ تم نے کون سے ایسے بڑے گناہ کیے ہیں۔ اور یہ سودی کاروبار اس کا کیا ہے ؟ یہ تو سب کرتے ہیں۔ اور وہ فلاں غلط کام اگر تم سے ہوگیا ہے تو کیا ہوا ؟ اللہ غفورٌ رحیم ہے ‘ وہ تو بڑے بڑے گناہگاروں کو بخش دیتا ہے ‘ چناچہ پریشانی کی کوئی بات نہیں ‘ تم جو کچھ کر رہے ہو کرتے جائو اور جس راستے پر چل رہے ہو چلتے جائو - اللہ کی شان کریمی اور صفت ِغفاری کے نام پر انسان کو دھوکے میں ڈالنے کا یہ ایک ابلیسی حربہ ہے جس سے یہاں خبردار کیا گیا ہے کہ دیکھو یہ ابلیس بہت بڑا دھوکے باز ہے ‘ یہ کہیں تمہیں اللہ کی رحمت کے حوالے سے ہی دھوکے میں نہ ڈال دے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے بہلاوے میں آکر تم دنیوی زندگی کی رنگینیوں میں گم ہو کر اللہ کو بھول جائو اور اس طرح تمہاری یہ زندگی تمہارے لیے ایک بہت بڑا دھوکہ بن جائے۔ اور دیکھو دُنیوی زندگی کے بارے میں یہ حقیقت کبھی تمہاری نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائے : وَما الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (آل عمران) ” اور دنیا کی زندگی تو اس کے سوا کچھ نہیں کہ صرف دھوکے کا سامان ہے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :10 وعدے سے مراد آخرت کا وعدہ ہے جس کی طرف اوپر کے اس فقرے میں اشارہ کیا گیا تھا کہ تمام معاملات آخر کار اللہ کے حضور پیش ہونے والے ہیں ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :11 یعنی اس دھوکے میں کہ جو کچھ ہے بس یہی دنیا ہے ، اس کے بعد کوئی آخرت نہیں ہے جس میں اعمال کا حساب ہونے والا ہو ۔ یا اس دھوکے میں کہ اگر کوئی آخرت ہے بھی تو جو اس دنیا میں مزے کر رہا ہے وہ وہاں بھی مزے کرے گا ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :12 بڑے دھوکے باز سے مراد یہاں شیطان ہے ، جیسا کہ آگے کا فقرہ بتا رہا ہے ۔ اور اللہ کے بارے میں دھوکا دینے سے مراد یہ ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو تو یہ باور کرائے کہ خدا سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ اور کچھ لوگوں کو اس غلط فہمی میں ڈالے کہ خدا ایک دفعہ دنیا کو حرکت دے کر الگ جا بیٹھا ہے ، اب اسے اپنی بنائی ہوئی اس کائنات سے عملاً کوئی سروکار نہیں ہے ۔ اور کچھ لوگوں کو یہ چکر دے کہ خدا کائنات کا انتظام تو بے شک کر رہا ہے ، مگر اس نے انسانوں کی رہنمائی کرنے کا کوئی ذمہ نہیں لیا ہے ، اس لیے یہ وحی و رسالت محض ایک ڈھکوسلا ہے ۔ اور کچھ لوگوں کو یہ جھوٹے بھروسے دلائے کہ اللہ بڑا غفور رحیم ہے ، تم خواہ کتنے ہی گناہ کرو ، وہ بخش دے گا ، اور اس کے کچھ پیارے ایسے ہیں کہ ان کا دامن تھام لو تو بیڑا پار ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani