Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

مایوسی کی ممانعت ۔ اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر آپ کے زمانے کے کفار آپ کی مخالفت کریں اور آپ کی بتائی ہوئی توحید اور خود آپ کی سچی رسالت کو جھٹلائیں ۔ تو آپ شکستہ دل نہ ہو جایا کریں ۔ اگلے نبیوں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ۔ سب کاموں کا مرجمع اللہ کی طرف ہے ۔ وہ سب کو ان کے تمام کاموں کے بدلا دے گا اور سزا جزا سب کچھ ہو گی ، لوگو قیامت کا دن حق ہے وہ یقیناً آنے والا ہے وہ وعدہ اٹل ہے ۔ وہاں کی نعمتوں کے بدلے یہاں کے فانی عیش پر الجھ نہ جاؤ ۔ دنیا کی ظاہری عیش کہیں تمہیں وہاں کی حقیقی خوشی سے محروم نہ کر دے ۔ اسی طرح شیطان مکار سے بھی ہوشیار رہنا ۔ اس کے چلتے پھرتے جادو میں نہ پھنس جانا ۔ اس کی جھوٹی اور چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اللہ رسول کے حق کلام کو نہ چھوڑ بیٹھنا ۔ سورہ لقمان کے آخر میں بھی یہی فرمایا ہے ۔ پس غرور یعنی دھوکے باز یہاں شیطان کو کہا گیا ہے ۔ جب مسلمانوں اور منافقوں کے درمیان قیامت کے دن دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں دروازہ ہو گا ۔ جس کے اندرونی حصے میں رحمت ہو گی اور ظاہری حصے میں عذاب ہو گا اس وقت منافقین مومنین سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھی نہ تھے؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں ساتھ تو تھے لیکن تم نے تو اپنے تئیں فتنے میں ڈال دیا تھا اور سوچتے ہی رہے شک شبہ دور ہی نہ کیا خواہشوں کو پورا کرنے میں ڈوبے رہے ۔ یہاں تک کہ اللہ کا حکم آپہنچا اور دھوکے باز شیطان نے تمہیں بہلا وے میں ہی رکھا ۔ اس آیت میں بھی شیطان کو غرور کہا گیا ہے ، پھر شیطانی دشمنی کو بیان کیا کہ وہ تو تمہیں مطلع کر کے تمہاری دشمنی اور بربادی کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے ۔ پھر تم کیوں اس کی باتوں میں آجاتے ہو؟ اور اس کے دھوکے میں پھنس جاتے ہو؟ اس کی اور اس کی فوج کی تو عین تمنا ہے کہ وہ تمہیں بھی اپنے ساتھ گھسیٹ کر جہنم میں لے جائے ۔ اللہ تعالیٰ قوی و عزیز سے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں شیطان کا دشمن ہی رکھے اور اس کے مکر سے ہمیں محفوظ رکھے اور اپنی کتاب اور اپنے نبی کی سنتوں کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے ۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور دعاؤں کا قبول فرمانے والا ہے ۔ جسطرح اس آیت میں شیطان کی دشمنی کا بیان کیا گیا ہے ۔ اسی طرح سورہ کہف کی آیت ( وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ ۭ اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَذُرِّيَّتَهٗٓ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۭ بِئْسَ لِلظّٰلِمِيْنَ بَدَلًا 50؀ ) 18- الكهف:50 ) میں بھی اس کی دشمنی کا ذکر ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھٹلا کر کہاں جائیں گے ؟ بالآخر تمام معاملات کا فیصلہ تو ہمیں نے کرنا ہے، اس لئے اگر یہ باز نہ آئے، تو ان کو بھی ہلاک کرنا ہمارے لئے مشکل نہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٧] یہ مضمون قرآن میں متعدد بار آیا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اکثر مکی سورتوں میں آیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ تیرا سالہ مکی دور میں کفار مکہ ڈٹ کر آپ کی مخالفت کرتے رہے اور اس سلسلہ میں انہوں نے اوچھے سے اوچھے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے۔ ایذائیں بھی پہنچائیں، تکذیب بھی کرتے رہے۔ تمسخر بھی اڑاتے رہے۔ جبکہ مسلمانوں کو صرف یہ حکم تھا کہ یہ سب باتیں صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کرتے جائیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بار بار پیغمبراسلام اور مسلمانوں کی تسلی اور حوصلہ افزائی کے لئے ایسے جملے نازل کرتا رہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ حق و باطل کی کشمکش میں پہلے بھی رسولوں سے ایسا ہی سلوک ہوتا رہا ہے اور کسی بھی بات کا فیصلہ اور انجام ان لوگوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ سب کاموں کا انجام اور فیصلہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا اطمینان رکھئے اور اللہ پر توکل کیجئے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ ۭ : توحید کے بعد رسالت کا ذکر ہے۔ ” وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ “ میں واؤ عطف دلیل ہے کہ اس سے پہلے ایک جملہ محذوف ہے، جس کا مفہوم یہ ہے : ” فَإِنْ یُصَدِّقُوْکَ فَقَدْ فَازُوْا لِأَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ حَقًّا “ یعنی اگر یہ آپ کی تصدیق کریں تو یہ کامیاب ہیں، کیونکہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں۔- وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ ‘ : شرط ہے، اس کی جزا محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آرہی ہے : ” وَإِنْ یُکَذِّبُوْکَ فَتَأَسَّ بالرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِکَ “ یعنی اگر یہ آپ کو جھٹلا دیں تو آپ اپنے سے پہلے رسولوں کے حالات سے تسلی حاصل کریں، کیونکہ آپ سے پہلے کئی رسول جھٹلائے گئے اور انھوں نے قوم کے جھٹلانے پر صبر کیا۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے تسلی ہے اور جھٹلانے والوں کے لیے وعید کہ رسولوں کو پہلے جھٹلانے والے لوگوں کی طرح یہ لوگ بھی برباد ہوں گے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر پہلے رسولوں کا حوالہ دے کر آپ کو تسلی دی گئی، جیسا کہ فرمایا : (وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ 34؀) [ الأنعام : ٣٤ ] ” اور بلاشبہ یقیناً تجھ سے پہلے کئی رسول جھٹلائے گئے تو انھوں نے اس پر صبر کیا کہ وہ جھٹلائے گئے اور ایذا دیے گئے، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی اور کوئی اللہ کی باتوں کو بدلنے والا نہیں اور بلاشبہ یقیناً تیرے پاس ان رسولوں کی کچھ خبریں آئی ہیں۔ “ اور دیکھیے سورة حٰم السجدہ (٤٣) ۔- وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْر : یعنی یہ لوگ آپ کو جھٹلا کر آخر کہاں جائیں گے، تمام معاملات آخر پیش تو ہمارے سامنے ہی ہوں گے اور ہم نے ہی ان کا فیصلہ کرنا ہے۔ توحید و رسالت کے ساتھ آخرت کا ذکر ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور (اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر یہ لوگ (دوبارہ توحید و رسالت وغیرہ) آپ کو جھٹلائیں تو (آپ غم نہ کریں کیونکہ آپ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر جھٹلائے جا چکے ہیں (ایک تو اس سے تسلی حاصل کیجئے) اور (دوسری بات یہ کہ) سب امور اللہ ہی کے روبرو پیش کئے جاویں گے (وہ خود سب سے سمجھ لے گا آپ کیوں فکر میں پڑے۔ آگے عام لوگوں کو خطاب ہے کہ) اے لوگو (الی اللہ ترجع الامور) جس میں قیامت کی خبر ہے اس کو سن کر تعجب واستبعاد مت کرنا) اللہ تعالیٰ کا (یہ) وعدہ ضرور سچا ہے، سو ایسا نہ ہو کہ یہ (دنیوی زندگی تم کو دھوکہ میں ڈالے رکھے (کہ اس میں منہمک ہو کر اس یوم موعود سے غافل (ہو) اور ایسا نہ ہو کہ تم کو دھوکہ باز شیطان اللہ سے دھوکہ میں ڈال دے (کہ تم اس کے اس بہکانے میں نہ آجاؤ کہ اللہ تعالیٰ تم کو عذاب نہ دے گا جیسا کہ کہا کرتے تھے (آیت) ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنے اور) یہ شیطان (جس کے دھوکہ کا اوپر ذکر ہے) بیشک تمہارا دشمن ہے سو تم اس کو (اپنا) دشمن (ہی) سمجھتے رہو وہ تو اپنے گروہ کو (یعنی اپنے متعبین کو) محض اس لئے (باطل کی طرف) بلاتا ہے تاکہ وہ لوگ دوزخیوں میں سے ہوجاویں (پس) جو لوگ کافر ہوگئے (اور اس کی دعوت و غرور میں پھنس گئے) ان کے لئے سخت عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے (اور اس کی دعوت و غرور میں نہیں پھنسے) ان کے لئے (معاصی کی) بخشش اور (ایمان و عمل صالح پر) بڑا اجر ہے (اور جب کافر کا انجام شدید اور مؤمن کا انجام مغفرت و اجر کبیر ہے) تو کیا (دونوں مساوی ہو سکتے ہیں یعنی) ایسا شخص جس کو اس کا عمل بد اچھا کر کے دکھلایا گیا، پھر وہ اس کو اچھا سمجھنے لگا (اور ایسا شخص جو برے کو برا سمجھتا ہے کہیں برابر ہو سکتے ہیں ؟ پہلے شخص سے مراد کافر ہے جو اغواء شیطان سے باطل کو حق اور مضر کو نافع سمجھتا ہے اور دوسرے شخص سے مراد مومن ہے جو اتباع انبیاء و مخالفت شیطان سے باطل کو باطل حق کو حق ضار کو ضار، نافع کو نافع جانتا ہے۔ یعنی دونوں برابر کہاں ہوئے بلکہ ایک جہنمی اور دوسرا جنتی ہے۔ پس شیطان کے دھوکہ میں آنے والے اور اس کو دشمن سمجھنے والوں میں یہ تفاوت ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں لا یغرنکم اور ان الشیطن لکم عدو اور اگر اس پر تعجب ہو کہ عاقل آدمی بد کو نیک کیسے سمجھ لیتا ہے سو (اس کی وجہ یہ ہی کہ) اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے (اس کی عقل الٹی ہوجاتی) اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے (اس کا ادراک صحیح رہتا ہے، پھر جب ہدایت و ضلال کا اصل مدار مشیت ہے تو ان پر افسوس کر کے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے (یعنی کچھ افسوس نہ کیجئے صبر سے بیٹھے رہیں اللہ تعالیٰ کو ان کے کاموں کی خبر ہے ( وقت پر ان سے سمجھ لے گا۔ )

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ۝ ٠ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝ ٤- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا .- وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ.- فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»- وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] وقرئ :- ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا .- ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم )- رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے - أمر - الأَمْرُ : الشأن، وجمعه أُمُور، ومصدر أمرته :- إذا کلّفته أن يفعل شيئا، وهو لفظ عام للأفعال والأقوال کلها، وعلی ذلک قوله تعالی: إِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ [هود 123] - ( ا م ر ) الامر - ( اسم ) کے معنی شان یعنی حالت کے ہیں ۔ اس کی جمع امور ہے اور امرتہ ( ن ) کا مصدر بھی امر آتا ہے جس کے معنی حکم دینا کے ہیں امر کا لفظ جملہ اقوال وافعال کے لئے عام ہے ۔ چناچہ آیات :۔- وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ ( سورة هود 123) اور تمام امور کا رجوع اسی طرف ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور اگر قریش آپ کو جھٹلائیں تو آپ کی قوم سے پہلے بھی دوسری قوموں نے جھٹلایا تھا اور بالآخر تمام امور اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤ وَاِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) اگر یہ لوگ آپ کو جھٹلا رہے ہیں تو آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں ( علیہ السلام) کو جھٹلایا گیا ہے۔ “- وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ” اور (بالآخر) تمام معاملات اللہ ہی کی طرف لوٹا دیے جائیں گے۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :8 یعنی تمہاری اس بات کو نہیں مانتے کہ اللہ کے سوا عبادت کا مستحق کوئی نہیں ہے ، اور تم پر یہ الزام رکھتے ہیں کہ تم نبوت کا ایک جھوٹا دعویٰ لے کر کھڑے ہو گئے ہو ۔ سورة فَاطِر حاشیہ نمبر :9 یعنی فیصلہ لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے کہ جسے وہ جھوٹا کہہ دیں وہ حقیقت میں جھوٹا ہو جائے فیصلہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ آخر کار بتا دے گا کہ جھوٹا کون تھا اور جو حقیقت میں جھوٹے ہیں انہیں ان کا انجام بھی دکھا دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani