Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ظالموں کیلئے عذاب الٰہی ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کفار نے اس مومن کامل کو بری طرح مارا پیٹا اسے گرا کر اس کے پیٹ پر چڑھ بیٹھے اور پیروں سے اسے روندنے لگے یہاں تک کہ اس کی آنتیں اس کے پیچھے کے راستے سے باہر نکل آئیں ، اسی وقت اللہ کی طرف سے اسے جنت کی خوشخبری سنائی گئی ، اسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کے رنج و غم سے آزاد کردیا اور امن چین کے ساتھ جنت میں پہنچا دیا ان کی شہادت سے اللہ خوش ہوا جنت ان کیلئے کھول دی گئی اور داخلہ کی اجازت مل گئی ، اپنے ثواب و اجر کو ، عزت و اکرام کو دیکھ کر پھر اس کی زبان سے نکل گیا کاش کہ میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے میرے رب نے بخش دیا اور میرا بڑا ہی اکرام کیا ۔ فی الواقع مومن سب کے خیر خواہ ہوتے ہیں وہ دھوکے باز اور بدخواہ نہیں ہوتے ۔ دیکھئے اس اللہ والے شخص نے زندگی میں بھی قوم کی خیر خواہی کی اور بعد مرگ بھی ان کا خیرخواہ رہا ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ وہ کہتا ہے کاش کہ میری قوم یہ جان لیتی کہ مجھے کس سبب سے میرے رب نے بخشا اور کیوں میری عزت کی تو لامحالہ وہ بھی اس چیز کو حاصل کرنے کی کوشش کرتی ، اللہ پر ایمان لاتی اور رسولوں کی پیروی کرتی ، اللہ ان پر رحمت کرے اور ان سے خوش رہے ۔ دیکھو تو قوم کی ہدایت کے کس قدر خواہش مند تھے ۔ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور اگر اجازت دیں تو میں اپنی قوم میں تبلیغ دین کیلئے جاؤں اور انہیں دعوت اسلام دوں؟ آپ نے فرمایا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں قتل کردیں؟ جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کا تو خیال تک نہیں ۔ انہیں مجھ سے اس قدر الفت و عقیدت ہے کہ میں سویا ہوا ہوں تو وہ مجھے جگائیں گے بھی نہیں ، آپ نے فرمایا اچھا پھر جایئے ، یہ چلے ، جب لات و عزیٰ کے بتوں کے پاس سے ان کا گزر ہوا تو کہنے لگے اب تمہاری شامت آگئی قبیلہ ثقیف بگڑ بیٹھا انہوں نے کہنا شروع کیا کہ اے میری قوم کے لوگو تم ان بتوں کو ترک کرو یہ لات و عزیٰ دراصل کوئی چیز نہیں ، اسلام قبول کرو تو سلامتی حاصل ہوگی ۔ اے میرے بھائی بندو یقین مانو کہ یہ بت کچھ حقیت نہیں رکھتے ، ساری بھلائی اسلام میں ہے وغیرہ ۔ ابھی تو تین ہی مرتبہ صرف اس کلمہ کو دوہرایا تھا جب ایک بدنصیب تن جلے نے دور سے ایک ہی تیر چلایا جو رگ اکحل پر لگا اور اسی وقت شہید ہوگئے ۔ حضور علیہ السلام کے پاس جب یہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا یہ ایسا ہی تھا جیسے سورۃ یس والا جس نے کہا تھا کاش کہ میری قوم میری مغفرت و عزت کو جان لیتی ۔ حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ کے پاس جب حبیب بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر آیا جو قبیلہ بنو مازن بن نجار سے تھے جنہیں یمامہ میں مسیلمہ کذاب ملعون نے شہید کردیا تھا تو آپ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ حبیب بھی اسی حبیب کی طرح تھے جن کا ذکر سورۃ یاسین میں ہے ، ان سے اس کذاب نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا بیشک وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس نے کہا میری نسبت بھی تو گواہی دیتا ہے کہ میں رسول اللہ ہوں؟ تو حضرت حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نہیں سنتا ۔ اس نے کہا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نسبت تو کیا کہتا ہے؟ جواب دیا کہ میں ان کی سچی رسالت کو مانتا ہوں ، اس نے پھر پوچھا میری رسالت کی نسبت کیا کہتا ہے؟ جواب دیا کہ میں نہیں سنتا اس ملعون نے کہا ان کی نسبت تو سن لیتا ہے اور میری نسبت بہرا بن جاتا ہے ۔ ایک مرتبہ پوچھتا اور ان کے اس جواب پر ایک عضو بدن کٹوا دیتا پھر پوچھتا پھر یہی جواب پاتا پھر ایک عضو بدن کٹواتا اسی طرح جسم کا ایک ایک جوڑ کٹوا دیا اور وہ اپنے سچے اسلام پر آخری دم تک قائم رہے اور جو جواب پہلے تھا وہی آخر تک رہا یہاں تک کہ شہید ہوگئے ۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ ۔ اس کے بعد ان لوگوں پر جو اللہ کا غضب نازل ہوا اور جس عذاب سے وہ غارت کردیئے گئے اس کا ذکر ہو رہا ہے ، چونکہ انہوں نے اللہ کے رسولوں کو جھٹلایا اللہ کے ولی کو قتل کیا اس لئے ان پر عذاب اترا اور ہلاک کردیئے گئے ، لیکن انہیں برباد کرنے کیلئے اللہ نے تو کوئی لشکر آسمان سے بھیجا نہ کوئی خاص اہتمام کرنا پڑا نہ کسی بڑے سے بڑے کام کیلئے اس کی ضرورت ، اس کا تو صرف حکم کر دینا کافی ہے ، نہ انہیں اس کے بعد کوئی تنبیہہ کی گئی نہ ان پر فرشتے اتارے گئے ، بلکہ بلا مہلت عذاب میں پکڑلئے گئے اور بغیر اس کے کہ کوئی نام لینے والا پانی دینے والا ہو اول سے آخر تک ایک ایک کرکے سب کے سب فنا کے گھاٹ اتار دیئے گئے ۔ جبرائیل علیہ السلام آئے اور ان کے شہر انطاکیہ کے دروازے کی چوکھٹ تھام کر اس زور سے ایک آواز لگائی کہ کلیجے پاش پاش ہوگئے ، دل اڑگئے اور روحیں پرواز کر گئیں ۔ حضرت قتادہ سے مروی ہے کہ ان لوگوں کے پاس جو تینوں رسول آئے تھے یہ حضرت عیسیٰ کے بھیجے ہوئے قاصد تھے ، لیکن اس میں قدرے کلام ہے ، اولاً تو یہ کہ قصے کے ظاہر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مستقل رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔ فرمان ہے ( اِذْ اَرْسَلْنَآ اِلَيْهِمُ اثْــنَيْنِ فَكَذَّبُوْهُمَا فَعَزَّزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُـوْٓا اِنَّآ اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ 14؀ ) 36-يس:14 ) ، جبکہ ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے جب انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تو ہم نے ان کی مدد کیلئے تیسرا رسول بھیجا ۔ پھر اللہ کے یہ رسول اہل انطاکیہ سے کہتے ہیں ( اِنَّآ اِلَيْكُمْ مُّرْسَلُوْنَ 14؀ ) 36-يس:14 ) ، یعنی ہم تمہاری طرف رسول ہیں ۔ پس اگر یہ تینوں حضرت عیسیٰ کے حواریوں میں سے حضرت عیسیٰ کے بھیجے ہوئے ہوتے تو انہیں یہ کہنا مناسب نہ تھا بلکہ وہ کوئی ایساجملہ کہتے جس سے معلوم ہو جاتا کہ یہ حضرت عیسی کے قاصد ہیں واللہ اعلم ۔ پھر یہ بھی ایک قرینہ ہے کہ کفار انطاکیہ ان کے جواب میں کہتے ہیں ( اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا ۭ تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا فَاْتُوْنَا بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ 10؀ ) 14- ابراھیم:10 ) تم تو ہم ہی جیسے انسان ہو ، دیکھ لو یہ کلمہ کفار ہمیشہ رسولوں کو ہی کہتے رہے ۔ اگر وہ حواریوں میں سے ہوتے تو ان کا مستقل دعویٰ رسالت کا تھا ہی نہیں پھر انہیں یہ لوگ یہ الزام ہی کیوں دیتے؟ ثانیا اہل انطاکیہ کی طرف حضرت مسیح کے قاصد گئے تھے اور اس وقت اس بستی کے لوگ ان پر ایمان لائے تھے بلکہ یہی وہ بستی ہے جو ساری کی ساری جناب مسیح پر ایمان لائی اسی لئے نصرانیوں کے وہ چار شہر جو مقدس سمجھے جاتے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے ۔ بیت المقدس کی بزرگی کے وہ قائل اس لئے کہ وہ حضرت مسیح کا شہر ہے اور انطاکیہ کو حرمت والا شہر اس لئے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یہیں کے لوگ حضرت مسیح پر ایمان لائے ۔ اور اسکندریہ کی عظمت کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مذہبی عہدیداروں کے تقرر پر اجماع کیا ۔ اور رومیہ کی حرمت کے قائل اس وجہ سے ہیں کہ شاہ قسطنطین کا شہر یہی ہے اور اسی بادشاہ نے ان کے دین کی امداد کی تھی اور یہیں ان کے تبرکات کو رومیہ سے یہاں لا رکھا ۔ سعد بن بطریق وغیرہ نصرانی مورخین کی کتابوں میں یہ سب واقعات مذکور ہیں ۔ مسلمان مورخین نے بھی یہی لکھا ہے پس معلوم ہوا کہ انطاکیہ والوں نے حضرت عیسیٰ کے قاصدوں کی تو مان لی تھی اور یہاں بیان ہے کہ انہوں نے نہ مانی اور ان پر عذاب الٰہی آیا اور تہس نہس کردیئے گئے تو ثابت ہوا کہ یہ واقعہ اور ہے یہ رسول مستقل رسالت پر مامور تھے انہوں نے نہ مانا جس پر انہیں سزا ہوئی اور وہ بےنشان کردیئے گئے اور چراغ سحری کی طرح بجھا دیئے گئے واللہ اعلم ۔ ثانیاً انطاکیہ والوں کا قصہ جو حضرت عیسیٰ کے حواریوں کے ساتھ وقوع میں آیا وہ قطعاً تورات کے اترنے کے بعد کا ہے اور حضرت ابو سعید خدری اور سلف کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ توراۃ کے نازل ہوچکنے کے بعد کسی بستی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے آسمانی عذاب سے بالکل برباد نہیں کیا بلکہ مومنوں کو کافروں سے جہاد کرنے کا حکم دے کر کفار کو نیچا دکھایا ہے ۔ جیسا کہ آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ 43؀ ) 28- القصص:43 ) ، کی تفسیر میں ہے اور اس بستی کی آسمانی ہلاکت پر آیات قرآنی شاہد عدل موجود ہیں اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ انطاکیہ کا نہیں جیسے کہ بعض سلف کے اقوال بھی اسے مستثنیٰ کرکے بتاتے ہیں کہ اس سے مراد مشہور شہر انطاکیہ نہیں ، ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انطاکیہ نامی کوئی شہر اور بھی ہو اور یہ واقعہ وہاں کا ہو ۔ اس لئے کہ جو انطاکیہ مشہور ہے اس کا عذاب الٰہی سے نیست و نابود ہونا مشہور نہیں ہوا نہ تو نصرانیت کے زمانہ میں اور نہ اس سے پہلے ۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ، یہ بھی یاد رہے کہ طبرانی کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ دنیا میں تین ہی شخص سبقت کرنے میں سب سے آگے نکل گئے ہیں ، حضرت موسیٰ کی طرف سبقت کرنے والے تو حضرت یوشع بن نون تھے اور حضرت عیسیٰ کی طرف سبقت کرنے والے وہ شخص تھے جن کا ذکر سورۃ یٰسین میں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آگے بڑھنے والے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے ، یہ حدیث بالکل منکر ہے ۔ صرف حسین اشعر اسے روایت کرتا ہے اور وہ شیعہ ہے اور متروک ہے ۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بالصواب ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٢٨] مرد حق گو کی شہادت :۔ رسولوں کی دعوت پر تو یہ لوگ محض دھمکیاں ہی دے رہے تھے اور شاید ڈرتے بھی ہوں کہ اگر فی الواقع رسول ہوں تو ہم پر کوئی آفت نہ آئے۔ مگر جب اس مرد حق گو نے ناصحانہ انداز میں ان کے معبودوں کی سب خامیاں ان پر واضح کردیں تو اسے انہوں نے اپنی اور اپنے معبودوں کی توہین اور ان کی شان میں گستاخی سمجھ کر اسے فوراً قتل کردیا اور اس کے قتل ہونے کے ساتھ اسے فرشتوں نے یہ خوشخبری دے دی کہ جنت تمہاری منتظر ہے۔ اس میں داخل ہوجاؤ۔ کیونکہ وہ صحیح معنوں میں شہید تھا اور اس نے اللہ کے دین کی خاطر اپنی جان دی تھی۔ اور شہداء کے متعلق قرآن اور صحیح احادیث میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ شہید براہ راست جنت میں چلے جاتے ہیں اور وہاں انہیں رزق دیا جاتا ہے۔ ان کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں جنت کے باغوں میں چہچہاتی پھرتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ : یہاں درمیان کی بات محذوف ہے جو خود بخود سمجھ میں آرہی ہے کہ اس کی اس بات پر قوم کے لوگ اس پر پل پڑے اور اسے شہید کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کی شہادت کو قبول فرمایا اور شہادت کی دیر تھی کہ اسے جنت میں داخلے کی بشارت مل گئی۔ شہداء کے جنت میں داخلے کی کیفیت کے متعلق دیکھیے سورة بقرہ (١٥٤) اور آل عمران (١٦٩ تا ١٧١) ۔- قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ : اس سے ظاہر ہے کہ وہ بندہ اپنی قوم کا کس قدر خیر خواہ تھا کہ زندگی میں بھی اس نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے قوم کو نصیحت کی اور مرنے کے بعد بھی ان کے لیے اس کی خیر خواہی جاری رہی، پھر اپنے قاتلوں کے متعلق اس کی تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو اعزازو اکرام بخشا کسی طرح ان کو بھی معلوم ہوجائے اور اسے جان کر وہ بھی ایمان لے آئیں اور اس اکرام کے حق دار بن جائیں۔ فی الحقیقت مومن ایسا ہی خیر خواہ ہوتا ہے، احد کے شہداء نے شہادت کے بعد اسی تمنا کا اظہار کیا تھا۔ ہمارے لیے اس میں سبق ہے کہ دعوت دیتے ہوئے کبھی غیظ و غضب اور انتقامی جذبے سے مغلوب نہ ہوں، بلکہ نہایت صبرو ہمت کے ساتھ دعوت جاری رکھیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) قیل ادخل الجنة قال یلیت قومی یعلمون الآیة، یعنی اس شخص کو جو گوشہ شہر سے رسولوں پر ایمان لانے کی تلقین کے لئے آیا تھا اس کو کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجاؤ۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ خطاب کسی فرشتے کے ذریعے ہوا ہے، کہ جنت میں چلے جاؤ۔ اور مراد جنت میں داخل ہونے سے یہ خوش خبری دینا ہے کہ جنت تمہارا مقام متعین ہوچکا ہے، جو اپنے وقت پر حشر ونشر کے بعد حاصل ہوگا۔ (قرطبی)- اور یہ بھی بعید نہیں کہ ان کو ان کا مقام جنت اس وقت دکھلا دیا گیا ہو، اس کے علاوہ برزخ میں بھی اہل جنت کو جنت کے پھل پھول اور راحت کی چیزیں ملتی ہیں۔ اس لئے ان کا عالم برزخ میں پہنچنا ایک حیثیت سے جنت ہی میں داخل ہونا ہے۔- قرآن کریم کے اس لفظ سے کہ اس کو کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجا اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس شخص کو شہید کردیا گیا تھا، کیونکہ دخول جنت یا آثار جنت کا مشاہدہ بعد موت ہی ہوسکتا ہے۔- تاریخی روایات میں حضرت ابن عباس، مقاتل، مجاہد ائمہ تفسیر سے منقول ہے کہ یہ شخص حبیب ابن اسماعیل نجار تھا، اور یہ ان لوگوں میں ہے جو ہمارے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ کی بعثت سے چھ سو سال پہلے ایمان لایا ہے۔ جیسا کہ تبع اکبر کے متعلق منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت کتب سابقہ میں پڑھ کر آپ کی ولادت سے بہت پہلے آپ پر ایمان لایا تھا۔ تیسرے بزرگ آدمی جو آپ پر آپ کی بعثت اور دعوے سے پہلے ایمان لائے ورقہ بن نوفل ہیں جن کا ذکر صحیح بخاری کی حدیث ابتداء وحی کے واقعات میں آیا ہے۔ یہ بھی رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت ہے کہ آپ کی ولادت وبعثت سے پہلے آپ پر یہ تین آدمی ایمان لے آئے تھے یہ معاملہ کسی اور رسول و نبی کے ساتھ نہیں ہوا۔- وہب بن منبہ کی روایت میں ہے کہ یہ شخص جذامی تھا، اور ان کا مکان شہر کے سب سے آخری دروازہ پر تھا۔ اپنے مفروضہ معبودوں سے دعا کرتا تھا کہ مجھے تندرست کردیں جس پر ستر سال گزر چکے تھے۔ یہ رسول شہر انطاکیہ میں اتفاقاً اسی دروازے سے داخل ہوئے تو اس شخص سے پہلے پہل ملاقات ہوئی تو انہوں نے اس کو بت پرستی سے باز آنے اور ایک خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت دی۔ اس نے کہا کہ آپ کے پاس آپ کے دعویٰ کی کوئی دلیل و علامت صحت بھی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ہے۔ اس نے اپنی جذام کی بیماری بتلا کر پوچھا کہ آپ یہ بیماری دور کرسکتے ہیں ؟ انہوں نے کہا ہاں ہم اپنے رب سے دعا کریں گے وہ تمہیں تندرست کر دے گا۔ اس نے کہا کہ کیا عجیب بات کہتے ہو، میں ستر سال سے اپنے معبودوں سے دعا مانگتا ہوں کچھ فائدہ نہیں ہوا، تمہارا رب کیسے ایک دن میں میری حالت بدل دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں ہمارا رب ہر چیز پر قادر ہے، اور جن کو تم نے خدا بنا رکھا ہے ان کی کوئی حقیقت نہیں، یہ کسی کو نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ سن کر یہ شخص ایمان لے آیا اور ان بزرگوں نے اس کے لئے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا تندرست کردیا کہ بیماری کا کوئی اثر باقی نہ رہا۔ اب تو اس کا ایمان پختہ ہوگیا، اور اس نے عہد کیا کہ دن بھر میں جو کچھ کمائے گا اس کا آدھا اللہ کی راہ میں خرچ کرے گا۔ جب ان رسولوں پر شہر کے لوگوں کی یلغار کی خبر پائی تو یہ دوڑ کر آیا، اور اپنی قوم کو سمجھایا اور اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔ پوری قوم اس کی دشمن ہوگئی، اور سب مل کر اس پر ٹوٹ پڑے۔ حضرت ابن مسعود کی روایت میں ہے کہ لاتوں اور ٹھوکروں سے سب نے مل کر اس کو شہید کردیا۔ بعض روایات میں ہے کہ اس پر پتھر برسائے، اور اس وقت بھی ان سب کی بےتحاشا مار پڑنے کے وقت وہ کہتا جاتا تھا رب اھد قومی، ” اے میرے پروردگار میری قوم کو ہدایت کر دے “- بعض روایتوں میں ہے کہ ان لوگوں نے تینوں رسولوں کو شہید کردیا مگر کسی صحیح روایت میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ ان کا کیا حال رہا بظاہر وہ مقتول نہیں ہوئے۔ (قرطبی)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ۝ ٠ ۭ قَالَ يٰلَيْتَ قَوْمِيْ يَعْلَمُوْنَ۝ ٢٦ۙ- دخل - الدّخول : نقیض الخروج، ويستعمل ذلک في المکان، والزمان، والأعمال، يقال : دخل مکان کذا، قال تعالی: ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58]- ( دخ ل ) الدخول - ( ن ) یہ خروج کی ضد ہے ۔ اور مکان وزمان اور اعمال سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے کہا جاتا ہے ( فلاں جگہ میں داخل ہوا ۔ قرآن میں ہے : ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ [ البقرة 58] کہ اس گاؤں میں داخل ہوجاؤ ۔- جَنَّةُ :- كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]- الجنۃ - ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ - حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔- ليت - يقال : لَاتَهُ عن کذا يَلِيتُهُ : صرفه عنه، ونقصه حقّا له، لَيْتاً. قال تعالی: لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات 14] أي : لا ينقصکم من أعمالکم، لات وأَلَاتَ بمعنی نقص، وأصله : ردّ اللَّيْتِ ، أي : صفحة العنق . ولَيْتَ : طمع وتمنٍّ. قال تعالی: لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان 28] ، يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] ، يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان 27] ، وقول الشاعر : ولیلة ذات دجی سریت ... ولم يلتني عن سراها ليت - «1» معناه : لم يصرفني عنه قولي : ليته کان کذا . وأعرب «ليت» هاهنا فجعله اسما، کقول الآخر :إنّ ليتا وإنّ لوّا عناء«2» وقیل : معناه : لم يلتني عن هواها لَائِتٌ.- أي : صارف، فوضع المصدر موضع اسم الفاعل .- ( ل ی ت ) لا تہ - ( ض ) عن کذا لیتا ۔ کے معنی اسے کسی چیز سے پھیر دینا اور ہٹا دینا ہیں نیز لا تہ والا تہ کسی کا حق کم کرنا پوا را نہ دینا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمالِكُمْ شَيْئاً [ الحجرات 14] تو خدا تمہارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا ۔ اور اس کے اصلی معنی رد اللیت ۔ یعنی گر دن کے پہلو کو پھیر نے کے ہیں ۔ لیت یہ حرف طمع وتمنی ہے یعنی گذشتہ کوتاہی پر اظہار تاسف کے لئے آتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلاناً خَلِيلًا [ الفرقان 28] کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا يَقُولُ الْكافِرُ يا لَيْتَنِي كُنْتُ تُراباً [ النبأ 40] اور کافر کہے کا اے کاش میں مٹی ہوتا يا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [ الفرقان 27] کہے گا اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رستہ اختیار کیا ہوتا ۔ شاعر نے کہا ہے ( 406 ) ولیلۃ ذات وجی سریت ولم یلتنی عن ھوا ھا لیت بہت سی تاریک راتوں میں میں نے سفر کئے لیکن مجھے کوئی پر خطر مر حلہ بھی محبوب کی محبت سے دل بر داشت نہ کرسکا ( کہ میں کہتا کاش میں نے محبت نہ کی ہوتی ۔ یہاں لیت اسم معرب اور لم یلت کا فاعل ہے اور یہ قول لیتہ کان کذا کی تاویل میں سے جیسا کہ دوسرے شاعر نے کہا ہے ( 403 ) ان لینا وان لوا عناء ۔ کہ لیت یا لو کہنا سرا سرباعث تکلف ہے بعض نے کہا ہے کہ پہلے شعر میں لیت صدر بمعنی لائت یعنی اس فاعلی ہے اور معنی یہ ہیں کہ مجھے اس کی محبت سے کوئی چیز نہ پھیر سکی ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- كرم - الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی:- فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] .- والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ :- أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ- [ الذاریات 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] منطو علی المعنيين .- ( ک ر م ) الکرم - ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ - الا کرام والتکریم - کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اس پر ان کی مشرک قوم نے ان کو پکڑ لیا اور قتل کر کے سولی پر چڑھایا اور پیروں سے اس قدر روندا کہ آنتیں تک نکل پڑیں۔ چناچہ ان کے لیے جنت ثابت ہوگئی اور ان کی روح سے کہا گیا کہ جنت میں داخل ہوجا چناچہ ان کی روح جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی کہنے لگی کاش میری قوم سمجھتی اور اس بات کی تصدیق کرتی۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ ” کہہ دیا گیا کہ تم داخل ہو جائو جنت میں “- وہ شخص چونکہ اللہ کی راہ کا مقتول تھا ‘ اس لیے جنت تو گویا اس کے انتظار میں تھی۔ شہادت کے رتبے پر فائز ہوجانے والے خوش قسمت لوگوں کو جنت میں داخلے کے لیے روز حشر کا انتظار نہیں کرنا پڑتا ‘ بلکہ جس لمحے ایسے کسی مومن کی شہادت ہوتی ہے اسی لمحے اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔- قَالَ یٰـلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ ” اس نے کہا : کاش میری قوم کو معلوم ہوجاتا۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :22 یعنی شہادت نصیب ہوتے ہی اس شخص کو جنت کی بشارت دے دی گئی ۔ جونہی کہ وہ موت کے دروازے سے گزر کر دوسرے علم میں پہنچا ، فرشتے اس کے استقبال کو موجود تھے اور انہوں نے اسے خوش خبری دے دی کہ فردوس بریں اس کی منتظر ہے ۔ اس فقرے کی تاویل میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ قَتَادہ کہتے ہیں کہ اللہ نے اسی وقت اسے جنت میں داخل کر دیا اور وہ وہاں زندہ ہے ۔ یہ بات ملائکہ نے اس سے بشارت کے طور پر کہی اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے بعد جب تمام اہل ایمان جنت میں داخل ہوں گے تو وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہو گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

9: بعض روایتوں میں ہے کہ سنگدل قوم نے ان کی خیر خواہانہ تقریر کے جواب میں انہیں لاتیں، گھونسے اور پتھر مار مار کر شہید کردیا۔ 10: جنت میں اصل داخلہ تو حشر و نشر کے بعد ہوگا، البتہ نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ عالم برزخ میں بھی جنت کی بعض نعمتیں عطا فرما دیتے ہیں۔ یہاں ان کو ایک طرف خوشخبری دی گئی کہ ان کا مقام جنت ہے، اور دوسری طرف جنت کی کچھ نعمتیں عالم برزخ ہی میں عطا فرما دی گئیں جنہیں دیکھ کر انہوں نے پھر اپنی قوم ہی کی خیر خواہی کی بات فرمائی کہ کاش انہیں یہ پتہ چل جائے کہ مجھے کن نعمتوں سے سرفراز فرمایا گیا ہے تو شاید ان کے بھی آنکھیں کھل جائیں۔