27۔ 1 یعنی جس ایمان اور توحید کی وجہ سے مجھے رب نے بخش دیا، کاش میری قوم اس کو جان لے تاکہ وہ بھی ایمان و توحید کو اپنا کر اللہ کی مغفرت اور اس کی نعمتوں کی مستحق ہوجائے۔ اس طرح اس شخص نے مرنے کے بعد بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی۔ ایک مومن صادق کو ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ ہر وقت لوگوں کی خیر خواہی ہی کرے، بد خواہی نہ کرے اور ان کی صحیح رہنمائی کرے، گمراہ نہ کرے، بیشک لوگ اسے جو چاہے کہیں اور جس قسم کا سلوک چاہیں کریں، حتی کہ اسے مار ڈالیں۔
[ ٢٩] قوم اس کی اس قدر دشمن بن گئی تھی کہ اسے جان سے ہی مار ڈالا۔ مگر اس کا اخلاق اس قدر بلند تھا کہ اپنے جانی دشمنوں کے لئے بددعا کے بجائے ان کے حق میں خیر خواہی کی بات ہی اس کے ذہن میں آئی۔ اگر اسے کچھ تمنا تھی تو صرف یہ کہ کاش میری قوم کو یہ معلوم ہوجائے کہ اللہ نے مجھ پر کس قدر انعام و کرام کئے ہیں۔ تو شاید وہ بھی ایمان لے آئیں۔ اس قصہ کو بیان کرکے اللہ تعالیٰ نے دراصل کفار مکہ کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ جس طرح وہ مرد صالح اپنی قوم کا سچا ہمدرد اور خیر خواہ تھا، اسی طرح محمد بھی تمہارے سچے خیر خواہ ہیں۔
بِمَا غَفَرَ لِيْ رَبِّيْ وَجَعَلَنِيْ مِنَ الْمُكْرَمِيْنَ : اس قصّے میں اہل مکہ کے لیے بھی پیغام ہے کہ جس طرح وہ مرد صالح اپنی قوم کا خیر خواہ تھا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تمہارے ایسے ہی سچے خیر خواہ ہیں۔ اس قصّے میں قریش کے لیے ایک اور سبق بھی ہے کہ اگر تم نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لاؤ گے تو اللہ تعالیٰ اور لوگوں کو لے آئے گا جو آپ پر ایمان لائیں گے اور آپ کی مدد کریں گے اور شہادت کی پروا نہیں کریں گے، جیسا کہ اس بستی کے دور ترین حصے سے وہ آدمی آیا تھا۔
یلیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی و جعلنی من المکرمین۔- یہ بزرگ چونکہ بڑی بہادری کے ساتھ اللہ کی راہ میں شہید ہوئے، حق تعالیٰ نے ان کے ساتھ خاص اکرام و اعزاز کا معاملہ فرمایا اور جنت میں داخل ہونے کا حکم دیا۔ اس نے انعام و اکرام اور جنت کی نعمتوں کا مشاہدہ کیا، تو پھر اپنی قوم یاد آئی، اور تمنا کی کہ کاش میری قوم کو میرا حال معلوم ہوجاتا کہ رسولوں پر ایمان لانے کی جزاء میں مجھے اعزازو اکرام اور دائمی نعمتیں کیسے ملیں، تو شاید ان کو بھی ایمان کی توفیق ہوجاتی۔ اس تمنا کا اظہار مذکورہ آیت میں فرمایا گیا ہے۔- پیغمبرانہ دعوت و اصلاح کا طریقہ مبلغین اسلام کے لئے اہم ہدایت :- اس بستی کی طرف جو تین رسول بھیجے گئے، انہوں نے مشرکین و کفار سے جس طرح خطاب کیا اور ان کی سخت و تلخ باتوں اور دھمکیوں کا جس طرح جواب دیا اسی طرح ان کی دعوت سے مسلمان ہونے والے حبیب نجار نے اپنی قوم سے جس طرح خطاب کیا ان سب چیزوں کو ذرا مکرر دیکھئے، تو اس میں تبلیغ دین اور اصلاح خلق کی خدمت انجام دینے والوں کے بڑے بڑے سبق ہیں۔- ان رسولوں کی ناصحانہ تبلیغ و تلقین کے جواب میں مشرکین نے تین باتیں کہیں :۔- (١) تم تو ہمیں جیسے انسان ہو ہم تمہاری بات کیوں مانیں ؟- (٢) اللہ رحمن نے کسی پر کوئی پیغام اور کوئی کتاب نہیں اتاری ؟- (٣) تم خالص جھوٹ بولتے ہو۔ - آپ غور کیجئے کہ بےغرض ناصحانہ کلام کے جواب میں یہ اشتعال انگیز گفتگو کیا جواب چاہتی تھی، مگر ان رسولوں نے کیا جواب دیا۔ صرف یہ کہ (آیت) ربنا یعلم انا الیکم لمرسلون یعنی ہمارا رب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف بھیجے ہوئے آئے ہیں، اور (آیت) ما علینا الا البلغ المبین، یعنی ہمارا جو کام تھا وہ کرچکے کہ تمہیں اللہ کا پیغام واضح کر کے پہنچا دیا، آگے تمہیں اختیار ہے، مانو یا نہ مانو۔ دیکھئے ان کے کسی لفظ میں کیا ان کی اشتعال انگیزی کا کوئی تاثر ہے ؟ کیسا مشفقانہ جواب دیا۔- پھر ان لوگوں نے اور آگے بڑھ کر کہا کہ تم لوگ منحوس ہو، تمہاری وجہ سے ہم مصیبت میں پڑگئے۔ اس کا متعین جواب یہ تھا کہ منحوس تم خود ہو، تمہارے اعمال کی شامت تمہارے گلے میں آ رہی ہے، مگر ان رسولوں نے اس بات کو ایسے مجمل الفاظ میں ادا کیا جس میں ان کے منحوس ہونے کی تصریح نہیں فرمائی، بلکہ یہ فرمایا (آیت) طائرکم معکم یعنی تمہاری بدفالی تمہارے ساتھ ہے۔ اور پھر وہی مشفقانہ خطاب کیا، (آیت) ائن ذکرتم یعنی تم یہ تو سوچو کہ ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے، ہم نے تو صرف تمہیں خیر خواہانہ نصیحت کی ہے، بس سب سے بھاری جملہ جو بولا تو یہ کہ (آیت) بل انتم قوم مسرفون ” یعنی تم لوگ حدود سے تجاوز کرنے والے ہو “ بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہو۔ - یہ تو ان رسولوں کا مکالمہ تھا، اب وہ مکالمہ دیکھئے جو ان رسولوں کی دعوت پر ایمان لانے والے نو مسلم نے کیا۔ اس نے پہلے تو اپنی قوم کو دو باتیں بتا کر رسولوں کی بات ماننے کی دعوت دی۔ اول یہ کہ ذرا یہ تو سوچو کہ یہ لوگ دور سے چل کر تمہیں نصیحت کرنے آئے ہیں، سفر کی تکلیف اٹھا رہے ہیں اور تم سے کچھ مانگتے نہیں، یہ بات خود انسان کو غور کرنے کی دعوت دیتی ہے کہ یہ بےغرض لوگ ہیں ان کی بات میں غور تو کرلیں۔ دوسرے یہ کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں وہ سرا سر عقل و انصاف اور ہدایت کی بات ہے۔ اس کے بعد قوم کو ان کی غلطی اور گمراہی پر متنبہ کرتا تھا کہ اپنے پیدا کرنے والے قادر مطلق کو چھوڑ کر تم لوگ خود تراشیدہ بتوں کو اپنا حاجت روا سمجھ بیٹھے ہو، جبکہ ان کا حال یہ ہے کہ نہ وہ خود تمہارا کوئی کام بنا سکتے ہیں اور نہ اللہ کے یہاں ان کا کوئی مقام اور درجہ ہے کہ اس سے سفارش کر کے تمہارا کام کرا دیں۔- مگر حبیب نجار نے یہ ساری باتیں ان کی طرف منسوب کرنے کے بجائے اپنی طرف منسوب کرنے کا عنوان اختیار کیا کہ میں ایسا کروں تو بڑی گمراہی کی بات ہوگی۔ (آیت) ومالی لا اعبد الذی فطرنی الآیة۔ یہ سب اس لئے کہ مخالف کو اشتعال نہ ہو، بات میں ٹھنڈے دل سے غور کرے۔ پھر جب اس کی قوم نے اس کی شفقت و رحمت کا بھی کچھ اثر نہ لیا، اور ان کو قتل کرنے کے لئے ان پر پل پڑی تو اس وقت بھی ان کی زبان پر کوئی بد دعا کا کلمہ نہ آیا بلکہ یہی کہتے ہوئے جان دے دی کہ رب اھد قومی ” یعنی میرے پروردگار میری قوم کو ہدایت فرما دے “ اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ قوم کے اس ظلم وستم سے شہید ہونے والے کو جب اللہ کی طرف سے انعام و اکرام اور جنت کی نعمتوں کا مشاہدہ ہوا تو اس وقت بھی اپنی یہی ظالم قوم یاد آئی، اور اس کی خیر خواہی و ہمدردی سے یہ تمنا کی کہ کاش میری قوم میرے حالات انعام و اکرام سے واقف ہوجاتی، تو شاید وہ بھی اپنی گمراہی سے باز آ کر ان نعمتوں کی شریک بن جاتی۔ سبحان اللہ خلق اللہ کی خیر خواہی ان کے مظالم کے باوجود کس طرح ان حضرات کی رگ وپے میں پیوست ہوتی ہے۔ یہی وہ چیز تھی جس نے قوموں کی کایا پلٹی ہے، کفر و ضلالت سے نکال کر وہ مقام بخشا ہے کہ فرشتے بھی ان پر رشک کرتے ہیں۔- آج کل کے مبلغین اور خدمت دعوت و اصلاح کے انجام دینے والوں نے عموماً اس پیغمبرانہ اسوہ کو چھوڑ دیا ہے۔ اسی لئے ان کی دعوت و تبلیغ بےاثر ہو کر رہ گئی ہے۔ تقریر و خطاب میں غصہ کا اظہار، مخالف پر فقرے چست کرنا بڑا کمال سمجھا جاتا ہے، جو مخالف کو اور زیادہ ضد وعناد کی طرف دھکیل دیتا ہے، اللہم اجعلنا متبعین لسنن انبیاء ک و رفقنا لما تحب و ترضاہ۔
کہ میرے پروردگار نے توحید کے باعث مجھے بخش دیا اور مجھھے جنت میں کلمہ لا الہ الا اللہ کی بدولت داخل کردیا۔
آیت ٢٧ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ ” وہ جو میرے رب نے میری مغفرت فرمائی ہے اور مجھے باعزت لوگوں میں شامل کرلیا ہے۔ “- ذرا تصور کیجیے ادھر جنت کا تو یہ منظر ہے ‘ مگر دوسری طرف دنیا میں اس کے گھر میں صف ماتم بچھی ہوگی۔ بیوی بچے ہوں گے تو وہ رو رو کر بےحال ہو رہے ہوں گے ‘ والدین ہوں گے تو ان پر غشی کے دورے پڑ رہے ہوں گے۔ غرض بہن بھائی ‘ عزیز و اقارب سب نوحہ کناں ہوں گے کہ اسے اس طرح ناحق قتل کردیا گیا۔ بہرحال ان دونوں جہانوں کے معاملات علیحدہ علیحدہ ہیں ‘ درمیان میں غیب کا پردہ حائل ہے۔ دنیا والوں کو پردہ غیب کی دوسری طرف اس جہان کی کیفیات کا کچھ علم نہیں ‘ جہاں اللہ کا ایک بندہ جنت کے تخت پر بیٹھا کہہ رہا ہے کہ اگر میری قوم کے لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ اللہ کے ہاں میری کیسی قدر و منزلت ہوئی ہے اور مجھے کیسے کیسے اعزازو اکرام سے نوازا گیا ہے تو وہ میری شہادت پر رنجیدہ و غمگین نہ ہوتے۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :23 یہ اس مرد مومن کے کمال اخلاق کا ایک نمونہ ہے ۔ جن لوگوں نے اسے ابھی ابھی قتل کیا تھا ان کے خلاف کوئی غصہ اور جذبۂ انتقام اس کے دل میں نہ تھا کہ وہ اللہ سے ان کے حق میں بد دعا کرتا اس کے بجائے وہ اب بھی ان کی خیر خواہی کیے جا رہا تھا ۔ مرنے کے بعد اس کے دل میں اگر کوئی تمنا پیدا ہوئی تو وہ بس یہ تھی کہ کاش میری قوم میرے اس انجام نیک سے باخبر ہو جائے اور میری زندگی سے نہیں تو میری موت ہی سے سبق لے کر راہ راست اختیار کر لے ۔ وہ شریف انسان اپنے قاتلوں کے لیے بھی جہنم نہ چاہتا تھا بلکہ یہ چاہتا تھا کہ وہ ایمان لا کر جنت کے مستحق بنیں ۔ اسی کی تعریف کرتے ہوئے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ نصح قومہ حیا و میتا ، اس شخص نے جیتے جی بھی اپنی قوم کی خیر خواہی کی اور مر کر بھی ۔ اس واقعہ کو بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کو در پردہ اس حقیقت پر متنبہ فرمایا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ اہل ایمان بھی اسی طرح تمہارے سچے خیر خواہ ہیں جس طرح وہ مرد مومن اپنی قوم کا خیر خواہ تھا ۔ یہ لوگ تمہاری تمام ایذا رسانیوں کے باوجود تمہارے خلاف کوئی ذاتی عناد اور کوئی جذبہ انتقام نہیں رکھتے ۔ ان کو دشمنی تم سے نہیں بلکہ تمہاری گمراہی سے ہے ۔ یہ تم سے صرف اس لیے لڑ رہے ہیں کہ تم راہ راست پر آ جاؤ ۔ اس کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہے ۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے حیات برزخ کا صریح ثبوت ملتا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد سے قیامت تک کا زمانہ خالص عدم اور کامل نیستی کا زمانہ نہیں ہے ، جیسا کہ بعض کم علم لوگ گمان کرتے ہیں ، بلکہ اس زمانہ میں جسم کے بغیر روح زندہ رہتی ہے ، کلام کرتی اور کلام سنتی ہے ، جذبات و احساسات رکھتی ہے ، خوشی اور غم محسوس کرتی ہے ، اور اہل دنیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مرنے کے بعد اس مرد مومن کو جنت کی بشارت کیسے دی جاتی اور وہ اپنی قوم کے لیے یہ تمنا کیسے کرتا کہ کاش وہ اس کے انجام نیک سے باخبر ہو جائے ۔