28۔ 1 یعنی حبیب نجار کے قتل کے بعد ہم نے ان کی ہلاکت کے لئے آسمان سے فرشتوں کا کوئی لشکر نہیں اتارا۔ یہ اس قوم کی حقیر شان کی طرف اشارہ ہے۔ 28۔ 2 یعنی جس قوم کی ہلاکت کسی دوسرے طریقے سے لکھی جاتی ہے وہاں ہم فرشتے نازل بھی نہیں کرتے۔
وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ : اس قوم کے بالکل حقیر اور بےوقعت ہونے کے اظہار کے لیے فرمایا کہ ہم نے اس کے بعد اس کی قوم کو ہلاک کرنے کے لیے آسمان سے فرشتوں کا کوئی لشکر نہیں اتارا اور نہ ہی جب ہم کسی قوم کو مکمل طور پر نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں تو فرشتوں کی فوج بھیجتے ہیں، کیونکہ اس کام کے لیے اس کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے ایک فرشتے کی ایک چیخ ہی کافی ہوتی ہے۔ ہاں، اپنے مومن بندوں کی مدد کے لیے ہم ہزاروں فرشتے نازل کردیتے ہیں جو ان کے دل کو مضبوط رکھتے ہیں، اور اس وقت کفار کو عذاب آسمان کے فرشتوں کے ذریعے سے نہیں بلکہ ایمان والوں کے ہاتھوں سے دیا جاتا ہے۔
وما انزلنا علیٰ قومہ من بعدہ من جند من السماء وما کنا منزلین، ان کانت الا صیحة واحدة فاذا ھم خامدون، یہ اس قوم پر آسمانی عذاب کا ذکر ہے جس نے رسولوں کی تکذیب کی اور حبیب نجار کو مار مار کر شہید کردیا تھا۔ اور عذاب کی تمہید میں یہ فرمایا کہ اس قوم کو عذاب میں پکڑنے کے لئے ہمیں آسمان سے کوئی فرشتوں کا لشکر بھیجنا نہیں پڑا اور نہ ایسا لشکر بھیجنا ہمارا دستور ہے۔ کیونکہ اللہ کا تو ایک ہی فرشتہ بڑی بڑی قوی بہادر قوموں کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہے، اس کو فرشتوں کا لشکر بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر ان پر آنے والے عذاب کو بیان فرمایا کہ بس اتنا ہوا کہ فرشتے نے ایک زور کی آواز لگائی جس سے یہ سب کے سب ٹھنڈے ہو کر رہ گئے۔- روایات میں ہے کہ جبرئیل امین نے شہر کے دروازے کے دونوں بازو پکڑ کر ایک سخت ہیبت ناک آواز لگائی جس کے صدمہ کو کسی کی روح برداشت نہ کرسکی سب کے سب مرے رہ گئے۔ ان کے مر جانے کو قرآن نے خامدون کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ خمود آگ بجھ جانے کے معنی میں آتا ہے، جاندار کی حیات حرارت غریزی پر موقوف ہے، جب یہ حرارت ختم ہوجائے تو اسی کا نام موت ہے۔ خامدون یعنی بجھنے والے ٹھنڈے ہوجانے والے۔
وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي قَوْمِہٖ مِنْۢ بَعْدِہٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَمَا كُنَّا مُنْزِلِيْنَ ٢٨- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - جند - يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] - ( ج ن د ) الجند - کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔- سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه،- قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔
اور جب ہم نے اس بستی والوں کو ہلاک کیا تو ہم نے اس شخص کی قوم پر ان کی شہادت کے بعد آسمان سے ان کی ہلاکت کے لیے فرشتوں کا کوئی لشکر نہیں اتارا اور نہ ہمیں اتارنے کی ضرورت تھی یا یہ کہ ان کی شہادت کے بعد پھر ہم نے ان کے پاس اور کوئی رسول نہیں بھیجا۔
آیت ٢٨ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی قَوْمِہٖ مِنْم بَعْدِہٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَمَا کُنَّا مُنْزِلِیْنَ ” اور اس کے بعد ہم نے اس کی قوم پر آسمان سے کوئی لشکر نازل نہیں کیا تھا اور نہ ہی ہم (لشکر) نازل کرنے والے تھے۔ “- اپنے منکروں اور نافرمانوں کو سزا دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کو آسمانوں سے کوئی فوج اتارنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
11: یعنی اس ظالم اور نافرمان قوم کو ہلاک کرنے کے لیے ہمیں فرشتوں کا کوئی لشکر آسمان سے اتارنے کی ضرورت نہیں تھی۔ بس ایک ہی فرشتے نے ایک زور دار آواز نکالی تو اسی سے ان کے کلیجے پھٹ گئے، اور پوری قوم ہلاک ہو کر ایسی ہوگئی جیسے آگ بجھ کر راکھ کا ڈھیر بن جائے۔ والعیاذ باللہ العلی العظیم۔