29۔ 1 کہتے ہیں کہ جبرائیل (علیہ السلام) نے ایک چیخ ماری، جس سے سب جسموں سے روحیں نکل گئیں اور وہ بجھی آگ کی طرح ہوئے۔ گویا زندگی، شعلہ فروزاں ہے اور موت، اس کا بجھ کر راکھ کا ڈھیر ہوجانا۔
[ ٣٠] اصحاب القریہ پر چیخ کا عذاب :۔ یہ مرد صالح تو شہید ہوگیا، رہے پیغمبر تو ان کے متعلق کوئی صراحت نہیں کہ ان کا کیا انجام ہوا ؟ تاہم قرآن کی صراحت سے ایک ضابطہ الٰہی معلوم ہوتا ہے کہ جس بستی پر اللہ اپنا عذاب نازل کرتا ہے تو اپنے رسولوں اور ایمانداروں کو اس عذاب سے بچانے کا پہلے انتظام کردیتا ہے۔ اور یہ تو اس آیت سے واضح ہے کہ ان رسولوں کی تکذیب اور اس مرد مومن کی شہادت کے بعد اس قوم پر عذاب آیا تھا اور یہ عذاب کچھ ایسا نہ تھا جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی فوجیں نازل کی ہوں نہ ہی اتنے معمولی سے کام کے لئے اللہ تعالیٰ کو فوجیں بھیجنے کی ضرورت تھی۔ اس قوم سے بس اتنا ہی معاملہ ہوا کہ زور کا ایک دھماکہ ہوا جس کی پہلی ضرب بھی وہ سہار نہ سکے اور جہاں جہاں تھے۔ اسی مقام پر ہی ڈھیر ہو کر رہ گئے۔
اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ خٰمِدُوْنَ : یعنی فرشتے نے ایک چیخ ماری جس سے ان سب کی زندگی کا شعلہ بجھ گیا۔ ان کے یک لخت ہلاک ہونے کو آگ کے بجھنے کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ ابو العلاء المعری نے کہا ہے - وَ کَالنَّارِ الْحَیَاۃُ فَمِنْ رَمَادٍ- أَوَاخِرُھَا وَ أَوَّلُھَا دُخَانٗ- ” زندگی آگ کی طرح ہے، جس کا آخر راکھ اور ابتدا دھواں ہے۔ “
اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَيْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ خٰمِدُوْنَ ٢٩- صاح - الصَّيْحَةُ : رفع الصّوت . قال تعالی: إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس 29]- ( ص ی ح ) الصیحۃ - کے معنی آواز بلندکرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنْ كانَتْ إِلَّا صَيْحَةً واحِدَةً [يس 29] وہ تو صرف ایک چنگھاڑ تھی ( آتشین ۔- خمد - قوله تعالی: جَعَلْناهُمْ حَصِيداً خامِدِينَ [ الأنبیاء 15] ، كناية عن موتهم، من قولهم :- خَمَدَتِ النار خُمُودا : طفئ لهبها، وعنه استعیر : خمدت الحمّى: سکنت، وقوله تعالی: فَإِذا هُمْ خامِدُونَ [يس 29] . - ( خ م د ) خمدن ( ن ) النار ۔ آگ کے شعلوں کا ساکن ہوجانا ( جب کہ اس کا انگارہ نہ بجھا ہو ) اور اسی سے بطور استعارہ خمدت الحمی کا محاورہ ہے جس کے معنی بخار کا جوش کم ہوجانے کے ہیں ۔ اور کبھی بطور کنایہ خمود بمعنی موت بھی آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ جَعَلْناهُمْ حَصِيداً خامِدِينَ [ الأنبیاء 15] ہم نے ان کو ( کھیتی کی طرح ) کاٹ کر ( آگ کی طرح ) بجھا کر ڈھیر کردیا ۔ فَإِذا هُمْ خامِدُونَ [يس 29] سو وہ الہی سے ) ناگہاں بجھ کر رہ گئے ۔
اور وہ سزا صرف ایک جبریل امین کی سخت آواز تھی کہ وہ سب اسی وقت اس سے بجھ کر رہ گئے۔
آیت ٢٩ اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ہُمْ خٰمِدُوْنَ ” وہ تو بس ایک زور دار چنگھاڑ تھی ‘ جبھی وہ سب بجھ کر رہ گئے۔ “- اس یکبارگی خوفناک چنگھاڑ کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ پوری آبادی چشم ِزدن میں گویا راکھ کا ڈھیر بن کر رہ گئی۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :24 ان الفاظ میں ایک لطیف طنز ہے ۔ اپنی طاقت پر ان کا گھمنڈ اور دین حق کے خلاف ان کا جوش و خروش گویا ایک شعلۂ جوالہ تھا جس کے متعلق اپنے زعم میں وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ ان تینوں انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں کو بھسم کر ڈالے گا ۔ لیکن اس شعلے کی بساط اس سے زیادہ کچھ نہ نکلی کہ خدا کے عذاب کی ایک ہی چوٹ نے اس کو ٹھنڈا کر کے رکھ دیا ۔