39۔ 1 چاند کی 28 منزلیں ہیں، روزانہ ایک منزل طے کرتا ہے، پھر غائب رہ کر تیسری رات کو نکل آتا ہے 39۔ 2 یعنی جب آخری منزل پر پہنچتا ہے تو بالکل باریک اور چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے کھجور کی پرانی ٹہنی ہو، جو سوکھ کر ٹیڑھی ہوجاتی ہے۔ چاند کی انہی گردشوں سے اپنے دنوں مہینوں اور سالوں کا حساب اور اپنے اوقات عبادات کا تعین کرتے ہیں۔
[ ٣٧] اشکال قمر اور منازل قمر :۔ سورج ہمیشہ مشرق سے طلوع ہو کر شام کو مغرب میں غروب ہوجاتا ہے۔ اور اس کی شکل بھی ایک ہی جیسی رہتی ہے لہذا اس کے معمول میں کبھی فرق نہیں آتا۔ جبکہ چاند کا مسئلہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ وہ کسی بھی قمری مہینے کی ابتدا میں مغرب کی سمت نمودار ہوتا ہے اور بالکل ایک پھانک سی نظر آتا ہے جسے قرآن نے کھجور کی پرانی اور خشک ٹہنی سے تشبیہ دی ہے اور اسے ہلال کہتے ہیں۔ دوسرے دن یہ ذرا موٹا بھی ہوجاتا ہے اور مشرق کی طرف ہٹ کر نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ روز موٹا ہوتا جاتا ہے اور شکلیں بدلتا رہتا ہے۔ اور چاند بنتا جاتا ہے حتیٰ کہ سات دن بعد عین سر پر طلوع ہوتا ہے اور نصف دائرہ کی شکل اختیار کرلیتا ہے پھر چودھویں دن مشرق سے طلوع ہوتا ہے اور پورا گول ہوتا ہے۔ گویا ہر روز وہ نئی شکل بدلتا ہے اور ہر روز اس کی منزل جداگانہ ہوتی ہے پھر یہ گھٹنا شروع ہوجاتا ہے پھر پہلے کی طرح پھانک کی شکل اختیار کرلیتا ہے یہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاند کے لئے مقرر کردہ منزلیں ہیں۔
وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ : ” اَلْعُرْجُوْنَ “ بروزن ” فُعْلُوْنَ “ جمع ” عَرَاجِیْنُ “ یہ ” اَلْعِرَاجُ “ سے مشتق ہے، جس کا معنی ٹیڑھا ہونا ہے۔ کھجور کے گچھے کی وہ ٹیڑھی میڑھی ڈنڈیاں جن کے ساتھ کھجوریں لگی ہوتی ہیں۔- یہ تیسری دلیل ہے، سورج کی طرح چاند ہمیشہ ایک شکل کا نہیں رہتا، بلکہ روزانہ گھٹتا بڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اٹھائیس منزلیں مقرر فرمائیں جن میں وہ نظر آتا ہے۔ پھر ایک دن یا دو دن غائب رہ کر دوبارہ طلوع ہوجاتا ہے۔ پہلی رات وہ پتلی ٹیڑھی سی لکیر کی طرح ہوتا ہے جس کی روشنی بھی مدھم ہوتی ہے، پھر وہ بڑھتا ہوا چودھویں رات کو پورا روشن ہوجاتا ہے، پھر گھٹتا ہوا اٹھائیسویں رات کو دوبارہ اس حالت میں پلٹ جاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کھجور کی پرانی ٹیڑھی بےرونق ڈنڈی کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ لاکھوں برس سے چاند کا گھٹنا بڑھنا اور طلوع و غروب اسی طرح جاری ہے۔ اتنے زبردست غلبے اور کامل علم والے کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔
(آیت) والقمر قدرناہ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم، عرجون، کھجور کے درخت کی خشک شاخ کو کہا جاتا ہے جو مڑ کر کمان جیسی ہوجاتی ہے۔- منازل قمر :- منازل، منزل کی جمع ہے، جائے نزول کو منزل کہا جاتا ہے۔ حق تعالیٰ نے چاند اور سورج دونوں کی رفتار کے لئے خاص حدود مقرر فرمائی ہیں جن میں سے ہر ایک کو منزل کہا جاتا ہے۔ چاند چونکہ اپنا دورہ ایک مہینہ میں پورا کرلیتا ہے اس لئے اس کی منزلیں تیس یا انتیس ہوتی ہیں، مگر چونکہ ہر مہینہ میں چاند کم از کم ایک دن غائب رہتا ہے، اس لئے عموماً اس کی منزلیں اٹھائیس کہی جاتی ہیں۔ اہل ہیئت ویرضاء نے ان منزلوں کے خاص خاص نام ان ستاروں کی مناسبت سے رکھ دیئے ہیں جو ان منازل کی محاذات میں پائے جاتے ہیں۔ جاہلیت عرب میں بھی انہی ناموں سے منزلوں کی تعیین کی جاتی تھی۔ قرآن کریم ان اصطلاحی ناموں سے بالاتر ہے، اس کی مراد صرف وہ فاصلے ہیں جن کو چاند خاص خاص دنوں میں طے کرتا ہے۔- سورة یونس میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے، جو معارف القرآن جلد چہارم کے صفحہ ٥٠٥ و 506 میں بیان ہوئی ہے، اس کو دیکھ لیا جائے۔ سورة یونس کی آیت میں شمس وقمر دونوں کی منزلوں کا ذکر ہے۔ جعل الشمس ضیاء و القمر نوراً وقدرہ منزل الآیة، فرق اتنا ہے کہ چاند کی منزلیں مشاہدہ سے پہچانی جاتی ہیں اور آفتاب کی منزلیں ریاضی کے حسابات سے۔ (آیت) حتی عاد کالعرجون القدیم میں چاند کی کیفیت آخر مہینہ کی بتلائی ہے جب وہ مکمل بدر ہونے کے بعد گھٹتا گھٹتا ایک قوس کی صورت اختیار کرلیتا ہے، عربوں کے ماحول کے مناسب اس کی مثال کھجور کی خشک شاخ سے دی گئی ہے، جو ہلالی شکل اختیار کرلیتی ہے۔
وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ ٣٩- قمر - القَمَرُ : قَمَرُ السّماء . يقال عند الامتلاء وذلک بعد الثالثة، قيل : وسمّي بذلک لأنه يَقْمُرُ ضوء الکواکب ويفوز به . قال : هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] - ( ق م ر ) القمر - ۔ چاند جب پورا ہورہا ہو تو اسے قمر کہا جاتا ہے اور یہ حالت تیسری رات کے بعد ہوتی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ چاندکو قمر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ستاروں کی روشنی کو خیاہ کردیتا ہے اور ان پر غالب آجا تا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا ۔- قَدَرُ ( معین وقت)- وقت الشیء المقدّر له، والمکان المقدّر له، قال : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات 22] ، وقال : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد 17] ، أي : بقدر المکان المقدّر لأن يسعها، وقرئ :( بِقَدْرِهَا) «2» أي : تقدیرها . وقوله : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم 25] ، قاصدین، أي : معيّنين لوقت قَدَّرُوهُ ، وکذلک قوله فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر 12] ، وقَدَرْتُ عليه الشیء : ضيّقته، كأنما جعلته بقدر بخلاف ما وصف بغیر حساب . قال تعالی: وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] ، أي : ضيّق عليه، وقال : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم 37] ، وقال : فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] ، أي : لن نضيّق عليه، وقرئ : ( لن نُقَدِّرَ عليه) «3» ، ومن هذا - قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ ہے۔- عود - الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] - ( ع و د ) العود ( ن)- کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔- عرجن - قال تعالی: حَتَّى عادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] ، أي : ألفافه من أغصانه .- ( ع ر ج ن ) العرجون کھجور کے خوشے کی ڈنڈی جو خشک ہو کر خمیدہ ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : حَتَّى عادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] والعَوْدُ : الطریق القدیم الذي يَعُودُ إليه السّفر القَدِيمُ في وصف اللہ تعالی، والمتکلّمون يستعملونه، ويصفونه به وأكثر ما يستعمل القدیم باعتبار الزمان نحو : كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [يس 39] ،
اور سورج کی طرح ہم نے چاند کے لیے منازل مقرر کیں کہ وہ گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے حتی کہ سال کے آخر میں کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح خمد اور پتلا رہ جاتا ہے۔
آیت ٣٩ وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰـہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ ” اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں ‘ یہاں تک کہ وہ پھر کھجور کی پرانی سوکھی ٹہنی کی طرح ہوجاتا ہے۔ “- ستائیسویں شب کی صبح کو دیکھیں تو چاند واقعی ایک سوکھی ہوئی ٹہنی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :34 یعنی مہینے کے دوران میں چاند کی گردش ہر روز بدلتی رہتی ہے ۔ ایک دن وہ ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے ۔ پھر روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ چودھویں رات کو بدر کامل بن جاتا ہے ۔ اس کے بعد روز گھٹتا چلا جاتا ہے ۔ حتی کہ آخر کار پھر اپنی ابتدائی ہلالی شکل پر واپس پہنچ جاتا ہے ۔ یہ چکر لاکھوں برس سے پوری باقاعدگی کے ساتھ چل رہا ہے اور چاند کی ان مقررہ منزلوں میں بھی فرق نہیں آتا ۔ اسی وجہ سے انسان حساب لگا کر ہمیشہ یہ معلوم کر سکتا ہے کہ کس روز چاند کس منزل میں ہو گا ۔ اگر اس کی حرکت کسی ضابطہ کی پابند نہ ہوتی تو یہ حساب لگانا ممکن نہ ہوتا ۔
15: یعنی پورے مہینے کا دورہ مکمل کرنے کے بعد آخر میں ایک یا دو راتوں میں تو وہ غائب رہتا ہے، پھر جب دُوسرا دورہ شروع کرتا ہے تو وہ اتنا پتلا، خم دار اور پیلا ہوجاتا ہے جیسے کھجور کے درخت کی وہ شاخ جو پُرانی ہو کر پتلی، ختم دار اور پیلی ہو جاتی ہے۔