Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سمندر کی تسخیر ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی قدرت کی ایک اور نشانی بتا رہا ہے کہ اس نے سمندر کو مسخر کر دیا ہے جس میں کشتیاں برابر آمد و رفت کر رہی ہیں ۔ سب سے پہلی کشتی حضرت نوح علیہ السلام کی تھی جس پر سوار ہو کر وہ خود اور ان کے ساتھ ایماندار بندے نجات پا گئے تھے باقی روئے زمین پر ایک انسان بھی نہ بچا تھا ، ہم نے اس زمانے والے لوگوں کے آباؤ اجداد کو کشتی میں بٹھا لیا تھا جو بالکل بھرپور تھی ۔ کیونکہ اس میں ضرورت اکل اسباب بھی تھا اور ساتھ ہی حیوانات بھی تھے جو اللہ کے حکم سے اس میں بٹھا لئے گئے تھے ہر قسم کے جانور کا ایک ایک جوڑا تھا ، بڑا باوقار مضبوط اور بوجھل وہ جہاز تھا ، یہ صفت بھی صحیح طور پر حضرت نوح کی کشتی پر صادق آتی ہے ۔ اسی طرح کی خشکی کی سواریاں بھی اللہ نے ان کے لئے پیدا کر دی ہیں مثلاً اونٹ جو خشکی میں وہی کام دیتا ہے جو تری میں کشتی کام دیتی ہے ۔ اسی طرح دیگر چوپائے جانور ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کشتی نوح نمونہ بنی اور پھر اس نمونے پر اور کشتیاں اور جہاز بنتے چلے گئے ۔ اس مطلب کی تائید آیت ( لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّتَعِيَهَآ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ 12۝ ) 69- الحاقة:12 ) سے بھی ہوتی ہے یعنی جب پانی نے طغیانی کی تو ہم نے انہیں کشتی میں سوار کر لیا تاکہ اسے تمہارے لئے ایک یادگار بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔ ہمارے اس احسان کو فراموش نہ کرو کہ سمندر سے ہم نے تمہیں پار کر دیا اگر ہم چاہتے تو اسی میں تمہیں ڈبو دیتے کشتی کی کشتی بیٹھ جاتی کوئی نہ ہوتا جو اس وقت تمہاری فریاد رسی کرتا نہ کوئی ایسا تمہیں ملتا جو تمہیں بچا سکتا ۔ لیکن یہ صرف ہماری رحمت ہے کہ خشکی اور تری کے لمبے چوڑے سفر تم با آرام و راحت طے کر رہے ہو اور ہم تمہیں اپنے ٹھہرائے ہوئے وقت تک ہر طرح سلامت رکھتے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 اس میں اللہ تعالیٰ اپنے اس احسان کا تذکرہ فرما رہا ہے کہ اس نے سمندر میں کشتیوں کا چلنا آسان فرما دیا، حتٰی کہ تم اپنے ساتھ بھری ہوئی کشتیوں میں اپنے بچوں کو بھی لے جاتے ہو اور دوسرے معنی سے یہ مراد کشتی نوح (علیہ السلام) ہے۔ یعنی سفینہ نوح (علیہ السلام) میں لوگوں کو بٹھایا جن سے بعد میں نسل انسانی چلی۔ گویا نسل انسانی کے آبا اس میں سوار تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٠] بھری ہوئی کشتی سے مراد وہ کشتی ہے جو سیدنا نوح نے اللہ تعالیٰ کی ہدایات کے مطابق طوفان سے پہلے بنائی تھی۔ جس میں سیدنا نوح کے علاوہ تمام ایماندار، ان کا سامان خوردونوش، ہر قسم کے جاندار کا ایک ایک جوڑا لدا ہوا تھا۔ جس سے یہ کشتی بھر گئی تھی اور اس میں گویا پوری بنی نوع انسان لدی ہوئی تھی وہ یوں کہ جتنے بھی انسان موجود ہیں سب کے سب ان کشتی میں سوار لوگوں کی اولاد ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ : ” ذُرِّیَّۃٌ“ کا لفظی معنی اولاد ہے۔ ” ذُرِّيَّــتَهُمْ “ میں ضمیر ” ھُمْ “ سے مراد انسان ہیں۔ ” الْمَشْحُوْنِ “ بھری ہوئی، مراد اس سے نوح (علیہ السلام) کی کشتی ہے۔ یعنی ایک اور نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ ہم نے نسل انسان کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا اور وہ پانی جو لوہے کی سوئی اور لکڑی کے ایک ڈنڈے تک کو نہیں اٹھاتا، بلکہ غرق کردیتا ہے، اسی پانی نے ہمارے سکھانے کے مطابق لوہے یا لکڑی سے بنی ہوئی کشتی کو اٹھا لیا، جو آدمیوں سے اور ہر جانور کے ایک ایک جوڑے اور ان کی ضرورت کی اشیاء سے خوب بھری ہوئی تھی۔- یہاں ایک سوال ہے کہ کشتی میں اولاد ہی نہیں ان کے باپ بھی سوار ہوتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا کہ ” ہم نے ان کی نسل (یا اولاد) کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا “ یہ کیوں نہ فرما دیا کہ ” ہم نے ان کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا ؟ “ جواب اس کا یہ ہے کہ نوح (علیہ السلام) سے پہلے آباء کو کشتی بنانے کا طریقہ معلوم نہ تھا، نہ وہ سمندر میں سفر کرسکتے تھے۔ آدم (علیہ السلام) کے بعد ان کی اولاد، جسے باقی رکھنا منظور تھا، ساری کی ساری اس کشتی میں سوار تھی اور طوفان کے بعد وہی زمین پر باقی رہی، باقی سب غرق ہوگئی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : (وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهٗ هُمُ الْبٰقِيْنَ ) [ الصافات : ٧٧ ] ” اور ہم نے اس کی اولاد ہی کو باقی رہنے والے بنادیا۔ “ اس لیے یہاں ” اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ “ فرمایا۔ (نظم الدرر) دوسری جگہ اسی کشتی کا ذکر ان الفاظ میں ہے : (اِنَّا لَمَّا طَغَا الْمَاۗءُ حَمَلْنٰكُمْ فِي الْجَارِيَةِ ۔ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّتَعِيَهَآ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ) [ الحآقۃ : ١١، ١٢ ] ” بلاشبہ ہم نے ہی جب پانی حد سے تجاوز کر گیا، تمہیں کشتی میں سوار کیا، تاکہ ہم اسے تمہارے لیے ایک یاد دہانی بنادیں اور یاد رکھنے والا کان اسے یاد رکھے۔ “

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وایة لہم انا حملنا ذریتہم فی الفلک المشحون وخلقنا لہم من مثلہ ما یرکبون، پہلے زمینی مخلوقات کا پھر آسمانی کا بیان اور ان میں اللہ تعالیٰ شانہ، کی حکمت وقدرت کے مظاہر کا بیان آ چکا ہے۔ اس آیت میں بحر اور اس سے متعلقہ اشیاء میں مظاہر قدرت کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کشتیوں کو خود وزنی بوجھ سے بھری ہوئی ہونے کے باوجود پانی کی سطح پر چلنے کے قابل بنادیا کہ پانی ان کو غرق کرنے کے بجائے دور ملکوں تک پہنچاتا ہے۔ اور آیت میں ارشاد یہ ہے کہ ہم نے ان کی ذریت کو کشتیوں میں سوار کیا، حالانکہ سوار ہونے والے خود یہ لوگ تھے۔ ذریت کا ذکر شاید اس لئے کیا کہ انسان کا بڑا بوجھ اس کی اولاد و ذریت ہوتی ہے، خصوصاً جبکہ وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ ہو۔ اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ صرف یہی نہیں کہ تم خود ان کشتیوں میں سوار ہو سکو بلکہ چھوٹے بچے اور ضعیف آدمی اور ان کے سب سامان یہ کشتیاں اٹھاتی ہیں۔ اور خلقنا لہم من مثلہ ما یرکبون کے معنی یہ ہیں کہ انسان کی سواری اور بار برداری کے لئے صرف کشتی ہی نہیں بلکہ کشتی کی مثل اور بھی سواری بنائی ہے۔ اس سے اہل عرب نے اپنی عادت کے مطابق اونٹ کی سواری مراد لی ہے، کیونکہ اونٹ بار برادری میں سب جانوروں سے زیادہ ہے، بڑے بڑے بوجھ کے انبار لے کر ملکوں کا سفر کرتا ہے، اسی لئے عرب اونٹ کو سفینة البر یعنی خشکی کی کشتی کہا کرتے تھے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاٰيَۃٌ لَّہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَہُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ۝ ٤١ۙ- الآية- والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع .- الایۃ ۔- اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔- حمل - الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل .- وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی:- وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] ،- ( ح م ل ) الحمل - ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ - وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔- ذر - الذّرّيّة، قال تعالی: وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124]- ( ذ ر ر) الذریۃ ۔- نسل اولاد ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي [ البقرة 124] اور میری اولاد میں سے بھی - شحن - قال تعالی: فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الشعراء 119] ، أي : المملوء، والشَّحْنَاءُ :- عداوة امتلأت منها النّفس . يقال : عدوّ مُشَاحِنٍ ، وأَشْحَنَ للبکاء : امتلأت نفسه لتهيّئه له .- ( ش ح ن ) الشحن ۔ کشتی یا جہاز میں سامان لادنا بھرنا قرآن میں ہے : فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ [ الشعراء 119] بھری ہوئی کشتی میں ( سوار ) تھے ۔ الشحناء کینہ و عداوت جس سے نفس پر اور بھر ہوا ہو عدو مشاحن بہت سخت دشمن گویا وہ دشمنی سے پر ہے ۔ اشحن للبکاء غم سے بھر کر رونے کیلئے آمادہ ہونا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

کشتی نوح میں سوار کیا - قول باری ہے (وایۃ لھم انا حملنا ذریتھم فی الفلک المشحون اور ان کے لئے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی اولاد کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کرایا) ضحاک اور قتادہ سے مروی ہے کہ اس سے کشتی نوح مراد ہے۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اولاد کی نسبت مخاطبین کی طرف کی گئی ہے اس لئے کہ مخاطبین بھی ان کی جنس میں سے ہیں گویا یوں فرمایا : ” ذریۃ الناس “ (لوگوں کی اولاد)

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

اور ان مکہ والوں کے لیے ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کو ان کے آباء کی پشتوں میں حضرت نوح کی کشتی میں سوار کیا جو کہ سب کو لیے ہوئے پانی پر تھی اور کسی کو اس نے زمین پر باقی نہیں چھوڑا تھا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤١ وَاٰیَۃٌ لَّہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَہُمْ فِی الْْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ ” اور ان کے لیے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کردیا۔ “- اس بارے میں عام رائے یہی ہے کہ اس سے خاص طور پر حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی مراد ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :38 بھری ہوئی کشتی سے مراد ہے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ۔ اور نسل انسانی کو اس پر سوار کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کشتی میں بظاہر تو حضرت نوح علیہ السلام کے چند ساتھی ہی بیٹھے ہوئے تھے مگر درحقیقت قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اس پر سوار تھے ۔ کیونکہ طوفان نوح ( علیہ السلام ) میں ان کے سوا باقی پوری اولاد آدم کو غرق کر دیا گیا تھا اور بعد کی انسانی نسل صرف انہی کشتی والوں سے چلی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

17: اولاد کا ذکر خاص طور پر اس لیے فرمایا گیا ہے کہ اہل عرب اپنی جوان اولاد کو تجارت کی غرض سے سمندری سفر پر بھیجا کرتے تھے۔