42۔ 1 اس سے مراد ایسی سواریاں ہیں جو کشتی کی طرح انسانوں اور سامان تجارت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں، اس میں قیامت تک پیدا ہونے والی چیزیں آگئیں۔ جیسے ہوائی جہاز، بحری جہاز، ریلیں، بسیں، کاریں اور دیگر نقل و حمل کی اشیاء۔
[ ٤١] من مثلہ سے مراد یہ بھی لی جاسکتی ہے کہ سیدنا نوح کی کشتی جیسی کشتی بنانا انسان نے سیکھ لیا جس کی تعلیم اللہ نے دی تھی۔ اس لحاظ سے سیدنا نوح ہی کشتی یا جہاز کے موجد ہیں اور یہ مراد بھی لی جاسکتی ہے کہ کشتی جیسی کوئی اور چیز یا چیزیں بھی پیدا کیں اور اس سے مراد وہ تمام سواریاں لی جاسکتی ہیں جو سمندر یا خشکی یا فضا میں چلتی ہیں اور انسان ان پر سوار ہوتا ہے۔
وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا يَرْكَبُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے انسان کو کشتی بنانے کا علم نہ تھا۔ نوح (علیہ السلام) کی بنائی ہوئی کشتی کے ذریعے سے طوفان سے بچ نکلنے والوں نے بحری سفر کے لیے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کردیا جو عام کشتیوں سے باد بانی جہازوں تک پہنچا، پھر انجن والے جہاز ایجاد ہوئے، جن کا سلسلہ ایٹمی ایندھن سے چلنے والے طیارہ بردار جہازوں اور آبدوزوں تک جا پہنچا ہے۔ آگے دیکھیے کیا کچھ ایجاد ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت سے مراد یہ لیا ہے کہ ہم نے ان کے لیے کشتی کی طرح اور سواریاں بھی پیدا کی ہیں، مثلاً اونٹ جو صحرا کا جہاز کہلاتا ہے، اسی طرح موٹر، ریل اور ہوائی جہاز وغیرہ۔ اگرچہ یہ معنی بھی ہوسکتا ہے، مگر اگلی آیت میں غرق کے ذکر کی وجہ سے ” مِّنْ مِّثْلِهٖ “ سے مراد ایسی سواریاں لینا بہتر ہے جو سمندری سفر میں کام آتی ہیں، جن میں ہوائی جہاز بھی شامل ہیں۔ نو ایجاد سواریوں کا پیشگی ذکر سورة نحل (٨) میں ملاحظہ فرمائیں۔
قرآن میں ہوائی جہاز کا ذکر :- مگر یہ ظاہر ہے کہ قرآن نے اس جگہ اونٹ یا کسی خاص سواری کا نام نہیں لیا، بلکہ مبہم چھوڑا ہے، جس میں ہر ایسی سواری داخل ہے جو انسان اور اس کے اسباب و سامان کو زیادہ سے زیادہ اٹھا کر منزل مقصود پر پہنچا دے۔ اس زمانے کی نئی ایجاد ہوائی جہازوں نے یہ واضح کردیا کہ من مثلہ کا سب سے بڑا مصداق ہوائی جہاز ہیں، اور کشتی کے ساتھ اس کی تمثیل بھی اس کی زیادہ موید ہے، کہ جس طرح پانی کا جہاز پانی پر تیرتا ہے پانی اس کو غرق نہیں کرتا، ہوائی جہاز ہوا پر تیرتا ہے ہوا اس کو نیچے نہیں گراتی، اور عجب نہیں کہ قرآن حکیم نے اسی لئے من مثلہ ما یرکبون کو مبہم رکھا ہو تاکہ قیامت تک ایجاد ہونے والی سب سواریاں اس میں شامل ہوجائیں۔ واللہ اعلم۔
وَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا يَرْكَبُوْنَ ٤٢- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - مثل - والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] .- ( م ث ل ) مثل ( ک )- المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔- ركب - الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ- ) رک ب ) الرکوب - کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔
قول باری ہے (وخلقنا لھم من مثلہ ما یرکبون اور ہم نے ان کے لئے اسی کشتی جیسی چیزیں اور بھی پیدا کی ہیں جس پر یہ سوار ہوتے ہیں) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے ” یعنی حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی کے بعد دوسری کشتیاں “۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ایک اور روایت بھی ہے اور مجاہد سے بھی کہ اونٹ خشکی کے جہاز ہیں۔
اور حضرت نوح کی کشتی ہی جیسی چیزیں یعنی اونٹ اور دیگر سواریاں پیدا کیں۔
آیت ٤٢ وَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُوْنَ ” اور ہم نے ان کے لیے اسی طرح کی اور چیزیں بھی پیدا کردیں جن پر یہ لوگ سواری کرتے ہیں۔ “
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :39 اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ تاریخ میں پہلی کشتی جو بنی وہ حضرت نوح علیہ السلام والی کشتی تھی ۔ اس سے پہلے انسان کو دریاؤں اور سمندروں کے عبور کرنے کا کوئی طریقہ معلوم نہ تھا ۔ اس طریقے کی تعلیم سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو دی ۔ اور جب ان کی بنائی ہوئی کشتی پر سوار ہو کر اللہ کے کچھ بندے طوفان سے بچ نکلے تو آئندہ ان کی نسل نے بحری سفروں کے لیے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا ۔
18: کشتی جیسی دوسری سواری کی تشریح عام طور سے مفسرین نے اونٹوں سے کی ہے، کیونکہ اہل عرب اونٹوں کو صحرا کا جہاز کہا کرتے تھے۔ لیکن قرآن کریم کے الفاظ عام ہیں جس میں کشتی کے مشابہ ہر طرح کی سواریاں داخل ہیں، بلکہ عربی قواعد کی رو سے آیت کا ترجمہ اس طرح بھی کیا جاسکتا ہے کہ : ہم نے ان کے لیے اسی جیسی اور چیزیں بھی پیدا کی ہیں جن پر یہ ( آئندہ) سواری کریں گے۔ اس صورت میں وہ تمام سواریاں اس عبارت میں داخل ہوجاتی ہیں جو قیامت تک پیدا ہوں گی، مثلاً آبدوزیں، اور ہوائی جہاز جو اس لحاظ سے کشتی کے مشابہ ہیں کہ کشتی پانی پر تیرتی ہے، اور ہوائی جہاز ہوا پر تیرتا ہے۔