Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٤٣] یہ بس اللہ کی رحمت ہی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ سمندر اور ہواؤں کی سرکش اور بےپناہ قوت کو کنٹرول میں رکھتا ہے اور مسافر اور تاجر اکثر اوقات صحیح و سلامت دوسرے کنارے پر جا اترتے ہیں۔ اگر اللہ کی رحمت شامل حال نہ ہو تو بنی نوع انسان کی ایک کثیر تعداد سمندر کا لقمہ اجل بن جائے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِلَّا رَحْمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ : یہ بس ہماری رحمت اور زندگی کی مقررہ مدت تک مہلت دینے ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم سمندر اور ہواؤں کی سرکش اور بےپناہ قوتوں کو اپنے کنٹرول میں رکھتے ہیں، جس سے مسافر اور تاجر صحیح سلامت دوسرے کنارے پر جا اترتے ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِلَّا رَحْمَۃً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ۝ ٤٤- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی:- وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] ،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔- حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤ اِلَّا رَحْمَۃً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰی حِیْنٍ ” مگر یہ ہماری طرف سے رحمت ہے اور فائدہ اٹھانا ہے ایک وقت ِمعین ّتک کے لیے۔ “- ہم نے اپنی خصوصی رحمت سے اس زمین کے ماحول کو انسانی زندگی کے لیے سازگار بنایا ہے اور اس میں انسانوں کے رہنے اور بسنے کے لیے ضرورت کا تمام سازوسامان فراہم کردیا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :40 پچھلی نشانیوں کا ذکر دلائل توحید کی حیثیت سے کیا گیا تھا ، اور اس نشانی کا ذکر یہ احساس دلانے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان کو فطرت کی طاقتوں پر تصرف کے جو اختیارات بھی حاصل ہیں وہ اللہ کے دیے ہوئے ہیں ، اس کے اپنے حاصل کیے ہوئے نہیں ہیں ۔ اور ان طاقتوں پر تصرف کے جو طریقے اس نے دریافت کیے ہیں وہ بھی اللہ کی رہنمائی سے اس کے علم میں آئے ہیں ، اس کے اپنے معلوم کیے ہوئے نہیں ہیں ۔ انسان کا اپنا بل بوتا یہ نہ تھا کہ اپنے زور سے وہ ان عظیم طاقتوں کو مسخر کرتا اور نہ اس میں یہ صلاحیت تھی کہ خود اسرار فطرت کا پتہ چلا لیتا اور ان قوتوں سے کام لینے کے طریقے جان سکتا ۔ پھر جن قوتوں پر بھی اللہ نے اس کو اقتدار عطا کیا ہے ان پر اس کا قابو اسی وقت تک چلتا ہے جب تک اللہ کی مرضی یہ ہوتی ہے کہ وہ اس کے لیے مسخر ہیں ۔ ورنہ جب مرضی الٰہی کچھ اور ہوتی ہے تو وہی طاقتیں جو انسان کی خدمت میں لگی ہوتی ہیں ، اچانک اس پر پلٹ پڑتی ہیں اور آدمی اپنے آپ کو ان کے سامنے بالکل بے بس پاتا ہے ۔ اس حقیقت پر متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بحری سفر کے معاملہ کو محض بطور نمونہ پیش کیا ہے ۔ نوع انسانی پوری کی پوری طوفان میں ختم ہو جاتی اگر اللہ تعالیٰ کشتی بنانے کا طریقہ حضرت نوح علیہ السلام کو نہ سجھا دیتا اور ان پر ایمان لانے والے لوگ اس میں سوار نہ ہو جاتے ۔ پھر نوع انسانی کے لیے تمام روئے زمین پر پھیلنا اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ اللہ سے کشتی سازی کے اصولوں کا علم پاکر لوگ دریاؤں اور سمندروں کو عبور کرنے کے لائق ہو گئے مگر اس ابتدا سے چل کر آج کے عظیم الشان جہازوں کی تعمیر تک انسان نے جتنی کچھ ترقی کی ہے اور جہاز رانی کے فن میں جتنا کچھ بھی کمال حاصل کیا ہے اس کے باوجود وہ یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ دریا اور سمندر ، سب اس کے قابو میں آ گئے ہیں اور ان پر اسے مکمل غلبہ حاصل ہو گیا ہے ۔ آج بھی خدا کا پانی خدا ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے اور جب وہ چاہتا ہے انسان کو اس کے جہازوں سمیت اس میں غرق کر دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani