کفار کا تکبر ۔ کافروں کی سرکشی نادانی اور عناد تکبر بیان ہو رہا ہے کہ جب ان سے گناہوں سے بچنے کو کہا جاتا ہے کہ جو کر چکے ان پر نادم ہو جاؤ ان سے توبہ کر لو اور آئندہ کے لئے ان سے احتیاط کرو ۔ اس سے اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تمہیں اپنے عذابوں سے بچا لے گا ۔ تو وہ اس پر کار بند ہوا تو ایک طرف اور منہ پھلا لیتے ہیں ، قرآن نے اس جملے کو بیان نہیں فرمایا کیونکہ آگے جو آیت ہے وہ اس پر صاف طور سے دلالت کرتی ہے ۔ اس میں ہے کہ یہی ایک بات کیا ؟ ان کی تو عادت ہو گئی ہے کہ اللہ کی ہر بات سے منہ پھیر لیں ۔ نہ اسکی توحید کو مانتے ہیں نہ رسولوں کو سچا جانتے ہیں نہ ان میں غور و خوض کی عادت نہ ان میں قبولیت کا مادہ ، نہ نفع کو حاصل کرنے کا ملکہ ۔ ان کو جب کبھی اللہ کی راہ میں خیرات کرنے کو کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اس میں فقراء مساکین اور محتاجوں کا حصہ بھی ہے ۔ تو یہ جواب دیتے ہیں کہ اگر اللہ کا ارادہ ہوتا تو ان غریبوں کو خود ہی دیتا ، جب اللہ ہی کا ارادہ انہیں دینے کا نہیں تو ہم اللہ کے ارادے کے خلاف کیوں کریں؟ تم جو ہمیں خیرات کی نصیحت کر رہے ہو اس میں بالکل غلطی پر ہو ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ پچھلہ جملہ کفار کی تردید میں اللہ کی طرف سے ہو ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کفار سے فرما رہا ہے کہ تم کھلی گمراہی میں ہو لیکن ان سے یہی اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی کفار کے جواب کا حصہ ہے ۔ واللہ اعلم ۔
[ ٤٤] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ سابقہ قوموں کا یہ انجام بھی تمہارے سامنے ہے اور تم خود بھی ایسے ہی انجام کی طرف جارہے ہو کیونکہ جس قوم نے اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کی راہ اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کا زور توڑ کے رکھ دیا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آئندہ تم سے تمہارے اعمال کا محاسبہ کیا جانے والا ہے اس کو بھی مدنظر رکھو اور ان اعمال کو بھی جو تم کرچکے ہو۔ اگر تم اپنے برے انجام سے ڈر گئے اور کچھ سبق حاصل کرلیا تو پھر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ اللہ تم پر مہربانی فرمائے گا۔
وَاِذَا قِيْلَ لَهُمُ اتَّقُوْا مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ : کائنات میں پھیلی ہوئی توحید اور آخرت کی نشانیوں اور دلیلوں کے ذکر کے بعد، جن سے مشرکین نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، اب نصیحت کرنے والوں کے ساتھ ان کے سلوک کا ذکر فرمایا۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انھوں نے خیر خواہی کی ہر بات سے بھی کان بند کر رکھے ہیں۔ ” مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ “ سے مراد پہلے گناہ اور ” وَمَا خَلْفَكُمْ “ سے مراد بعد کے گناہ ہیں، یا ” مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ “ سے مراد دنیا کا عذاب اور ” وَمَا خَلْفَكُمْ “ سے مراد آخرت کا عذاب ہے۔ یعنی جب ان سے ان گناہوں سے بچنے کے لیے کہا جاتا ہے جو وہ کرچکے ہیں کہ ان پر نادم ہوجاؤ، ان سے توبہ کرلو اور آئندہ کے لیے ان سے بچ جاؤ، یا جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس عذاب سے بچ جاؤ جو تمہارے گناہوں کی پاداش میں تم پر دنیا میں آسکتا ہے اور اس سے بھی جو آخرت میں آ رہا ہے، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ اس جملے کا جواب یہ ہے ” أَعْرَضُوْا عَنْہُ “ یعنی وہ اس نصیحت سے منہ پھیر لیتے ہیں، مگر یہاں یہ جواب حذف کردیا گیا ہے، کیونکہ یہ اگلی آیت سے خود بخود معلوم ہو رہا ہے۔
خلاصہ تفسیر - اور جب ان لوگوں سے (دلائل توحید اور اس کے نہ ماننے پر عذاب کی وعید سنا کر) کہا جاتا ہے کہ تم لوگ اس عذاب سے ڈرو جو تمہارے سامنے (یعنی دنیا میں آسکتا) ہے (جیسے اوپر کی (آیت) وان نشاء نغرقہم میں بیان فرمایا کہ کشتی کا صحیح سالم منزل پر پہنچانا اللہ کی قدرت و مشیت سے ہے، وہ چاہے تو غرق کرسکتا ہے۔ غرض دنیا میں غرق کا عذاب بھی آسکتا ہے اور دوسرے عذاب بھی) اور جو تمہارے (مرے) پیچھے (یعنی آخرت میں یقینی آنے والا) ہے، (مطلب یہ ہے کہ انکار توحید کی وجہ سے جو عذاب تم پر آنے والا ہے، خواہ صرف آخرت میں یا دنیا میں بھی، تم اس عذاب سے ڈرو اور ایمان لے آؤ) تاکہ تم پر رحمت کی جائے (تو وہ اس ترہیب اور عذاب سے ڈرانے کی ذرہ پرواہ نہیں کرتے) اور (اسی بات کے نہ ماننے کی کیا تخصیص ہے وہ تو ایسے سنگدل ہوگئے ہیں کہ) ان کے رب کی آیتوں میں سے کوئی آیت بھی ان کے پاس ایسی نہیں آتی جس سے یہ سرتابی نہ کرتے ہوں اور (جس طرح وعید عذاب سے وہ متاثر نہیں ہوتے اسی طرح ثواب اور جنت کی ترغیب بھی ان کو نافع نہیں ہوتی چنانچہ) جب (ان کو نعم الہیہ یاد دلا کر) ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں سے (اللہ کی راہ میں فقیروں مسکینوں پر) خرچ کرو تو (شرارت اور استہزاء کے طور پر) یہ کفار ان مسلمانوں سے (جنہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کیلئے کہا تھا) یوں کہتے ہیں کہ کیا ہم ایسے لوگوں کو کھانے کو دیں جن کو اگر خدا چاہے تو (بہت کچھ) کھانے کو دے دے، تم صریح غلطی میں (پڑے) ہو۔ - معارف و مسائل - سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ کے مظاہر قدرت و حکمت، زمین، آسمان وغیرہ میں بیان کر کے خدا شناسی اور توحید کی دعوت دی گئی تھی، اور اس کے قبول کرنے پر جنت کی دائمی نعمتوں اور راحتوں کا وعدہ تھا، اور نہ ماننے پر عذاب شدید کی وعید۔ آیات مذکورہ اور ان کے بعد آنے والی آیات میں کفار مکہ جو اس کے بلاواسطہ مخاطب تھے ان کی کج روی کا بیان ہے، کہ نہ ان پر ترغیب ثواب کا اثر ہوتا ہے، نہ ترہیب عذاب کا۔- اس سلسلے میں کفار کے ساتھ مسلمانوں کے دو مکالمے ذکر کئے گئے ہیں کہ جب مسلمان ان سے یہ کہتے ہیں کہ تم اللہ کے عذاب سے ڈرو جو تمہارے سامنے دنیا میں آسکتا ہے، اور تمہارے مرنے کے بعد آخرت میں تو آنا ہی ہے، اگر تم نے اس عذاب سے ڈر کر ایمان قبول کرلیا، تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ مگر یہ سن کر بھی اعراض کرتے ہیں۔ الفاظ قرآن میں اس جگہ ان کے اعراض کا ذکر صراحةً اس آیت میں نہیں کیا، کیونکہ اگلی آیت میں جو اعراض کا ذکر ہے اس سے خودبخود یہاں پر بھی اعراض کرنا ثابت ہوجاتا ہے۔ اور نحوی قاعدہ سے اذا قیل لہم کی شرط کی جزاء اعرضوا محذوف ہے، جس کے محذوف ہونے پر اگلی آیت کے الفاظ شاہد ہیں کہ ان کے پاس ان کے رب کی جو بھی آیت آتی ہے وہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں۔- اللہ کا رزق بعض کو بالواسطہ ملنے کی حکمت :- دوسرا مکالمہ یہ ہے کہ جب مسلمان کفار کو غریبوں فقیروں کی امداد کرنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کے لئے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو تمہیں دیا ہے تم اس میں سے محتاجوں کو دیا کرو، تو یہ لوگ بطور استہزاء کے کہتے ہیں کہ جب تم یہ کہتے ہو کہ رازق سب مخلوق کا اللہ تعالیٰ ہے اور اس نے ان کو نہیں دیا، تو ہم کیوں دیں تم جو ہمیں نصیحت کرتے ہو کہ ہم ان کو رزق دیا کریں یہ تو تمہاری گمراہی ہے کہ ہمیں رازق بنانا چاہتے ہو۔ یہ کفار بھی اگرچہ اللہ تعالیٰ کے رازق ہونے کا اقرار کرتے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ولئن سالتہم من نزل من السماء ماء فاحیا بہ الارض من بعد موتہا لیقولن اللہ ” یعنی اگر آپ ان لوگوں سے پوچھیں کہ آسمان سے پانی کس نے نازل کیا، جس سے زمین میں حیات نباتی پیدا ہوئی، اور طرح طرح کے پھل پھول نکلے ؟ تو وہ اقرار کریں گے کہ یہ پانی اللہ ہی نے نازل کیا ہے “- اس سے معلوم ہوا کہ یہ لوگ بھی رازق اللہ تعالیٰ ہی کو مانتے تھے، مگر مسلمانوں کے جواب میں بطور استہزاء کے یہ کہا کہ جب خدا تعالیٰ رازق ہے تو وہی غریبوں کو بھی دے گا ہم کیوں دیں۔ گویا ان احمقوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور غریبوں کو دینے کو اللہ کی رزاقیت کے منافی سمجھا۔ اور یہ نہ سمجھا کہ رازق مطلق کا قانون حکیمانہ یہ ہے کہ ایک انسان کو دے کر اس کو دوسروں کے لئے واسطہ بناتا ہے، اور بالواسطہ دوسروں کو دیتا ہے، اگرچہ وہ اس پر بھی یقینا قادر ہے کہ سب کو خود ہی بلاواسطہ رزق پہنچا دے، جیسا کہ حیوانات میں عموماً اس طرح ہر کیڑے مکوڑے اور درندے پرندے کو بلاواسطہ رزق ملتا ہے۔ ان میں کوئی مالدار کوئی غریب نہیں، کوئی کسی کو نہیں دیتا، سب کے سب قدرتی دستر خوان سے کھاتے ہیں۔ مگر انسانوں میں نظام معیشت اور باہمی تعاون و تناصر کی روح پیدا کرنے کے لئے رزق پہنچانے میں بعض کو بعض کے لئے واسطہ بناتا ہے، تاکہ خرچ کرنے والے کو ثواب ملے اور جس کو دیا جائے وہ اس کا احسان مند ہو۔ کیونکہ انسانوں کا باہمی تعاون و تناصر جس پر سارا نظام عالم قائم ہے، یہ جبھی باقی رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک کو دوسرے کی حاجت ہو، غریب کو مالدار کے پیسے کی حاجت ہے اور مالدار کو غریب کی محنت کی ضرورت، ان میں سے کوئی کسی سے بےنیاز نہیں۔ اور غور کریں تو کسی کا کسی پر احسان بھی نہیں، ہر شخص جو کچھ کسی کو دیتا ہے وہ اپنے مطلب کے لئے دیتا ہے۔- رہا یہ سوال کہ مسلمانوں نے کفار کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم کس بنا پر دیا جبکہ ان کا ایمان ہی اللہ پر نہیں اور بتصریح فقہاء وہ احکام فرعیہ کے مخاطب بھی نہیں۔ سو اس کا جواب واضح ہے کہ مسلمانوں کا یہ کہنا کسی تشریعی حکم کی تعمیل کرانے کی حیثیت سے نہیں، بلکہ انسانی ہمدردی اور شرافت کے مروجہ اصول کی بنا پر تھا۔
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّقُوْا مَا بَيْنَ اَيْدِيْكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ٤٥- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35]- ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔- خلف ( پیچھے )- خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11]- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔- لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔- رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )
اور جس وقت ان مکہ والوں سے رسول اکرم نے فرمایا کہ آخرت سے ڈرو اس پر ایمان لاؤ اور اس کے لیے تیاری کرو اور امور دنیا سے ڈرو اور اس کی زیب وزینت سے دھوکا مت کھاؤ تاکہ آخرت میں تم پر رحمت کی جائے اور تمہیں عذاب نہ دیا جائے۔
آیت ٤٥ وَاِذَا قِیْلَ لَہُمُ اتَّقُوْا مَا بَیْنَ اَیْدِیْکُمْ وَمَا خَلْفَکُمْ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ سبق حاصل کرو اس سے جو تمہارے سامنے ہے اور جو تمہارے پیچھے ہے تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ “- یہاں پر اِتَّقُوْا بچنے اور ڈرنے کے بجائے سوچنے ‘ توجہ کرنے اور عبرت حاصل کرنے کے معنی میں آیا ہے۔ اس طرح نگاہوں کے سامنے سے مراد آیات آفاقیہ (آلاء اللہ) اور پیچھے سے مراد نسل انسانی کی پرانی تاریخ (ایام اللہ) ہے ۔ ( مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو زیر مطالعہ سورة کی آیت ٩ کی تشریح )
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :41 یعنی جو تم سے پہلے کی قومیں دیکھ چکی ہیں ۔