52۔ 1 قبر کو خواب گاہ سے تعبیر کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبروں میں ان کو عذاب نہیں ہوگا، بلکہ بعد میں جو ہولناک مناظر اور عذاب کی شدت دیکھیں گے، اس کے مقابلے میں انہیں قبر کی زندگی ایک خواب ہی محسوس ہوگی۔
[ ٤٩] دوسری مرتبہ صور پھونکنے کا اثر :۔ نفخہ صور اول سے تمام لوگ بےہوش ہوجائیں گے اور اسی بےہوشی کے عالم میں ہی ان کی موت واقع ہوگی۔ پھر جب دوسری مرتبہ صور پھونکا جائے گا تو وہ قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔ اس وقت انہیں یہ معلوم نہ ہوسکے گا کہ کیا حادثہ پیش آیا تھا اور وہ اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ جیسے کسی شخص کا بس سے ایکسیڈنٹ ہوجائے تو وہ بےہوش ہوجائے۔ اور اسے ہسپتال پہنچا دیا جاتا ہے۔ پھر جب وہ کچھ مدت بعد ہوش میں آتا اور آنکھیں کھولتا ہے تو اس وقت وہ یہ دیکھتا ہے کہ میں اس وقت کہاں ہوں اور کیسے یہاں پہنچ گیا ہوں ؟ اسے اپنی بےہوشی کی بھی کچھ خبر نہیں ہوتی یہی حال ان لوگوں کا ہوگا۔ وہ بالکل اجنبی اور دہشت ناک ماحول دیکھ کر پہلی بات جو کریں گے وہ یہ ہوگی کہ ہم تو آرام سے پڑے سو رہے تھے ہمیں کس نے جگا دیا ہے ؟ انہیں کچھ اپنی موت سے پہلے کی کوئی خبر ذہن میں آئے گی نہ عذاب قبر کی۔ وہ قیامت کی ہولناکیوں کے مقابلہ میں اسے بھی بس ایک خواب ہی سمجھیں گے۔- [ ٥٠] اس جملہ کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب وہ اس ماحول کو سمجھنے کے لئے اپنے ذہن پر زور ڈالیں گے تو انہیں از خود یہ معلوم ہوجائے گا کہ یہ تو وہی چیز ہے جو رسول ہمیں کہا کرتے تھے اور ہم اس کا انکار کردیا کرتے تھے۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان کی اس سراسیمگی کی حالت میں اہل ایمان یا فرشتے انہیں مطلع کریں گے کہ یہی وہ دن ہے جس کا اللہ نے تم لوگوں سے وعدہ کیا تھا اور جب بھی رسول تمہیں اللہ کے اس وعدہ اور اس قیامت کے دن سے ڈراتے تھے تو ہر بار تم یہی کہہ دیتے تھے کہ وہ کب ہوگا سو آج اپنی آنکھوں سے وہ دن دیکھ لو۔
قَالُوْا يٰوَيْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا : یعنی اس وقت انھیں یہ احساس نہیں ہوگا کہ وہ مرچکے تھے اور اب زندہ کیے گئے ہیں، بلکہ سمجھیں گے کہ ہم سوئے ہوئے تھے اور کسی نے ہمیں جگا دیا ہے۔ گزری ہوئی لمبی مدت انھیں ایک لمحہ معلوم ہوگی۔ مزید دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٥٢) اور روم (٥٥) ۔- ۆھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ : یہاں یہ ذکر نہیں کہ یہ بات کون کہے گا، عین ممکن ہے کہ خود ہی ان کی سمجھ میں آجائے کہ یہ تو وہی قیامت ہے جو رسول ہمیں بتایا کرتے تھے اور ہم اسے جھٹلاتے تھے، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مومن یا فرشتے انھیں یہ بات کہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مستقبل کو حاضر قرار دے کر اب یہ جواب دے رہے ہوں۔ - یہاں لفظ ” الرَّحْمٰنُ “ صرف اس کا وعدہ یاد دلانے کے لیے نہیں، بلکہ یہ بتانے کے لیے ہے کہ اس خوف ناک دن میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ننانوے حصوں کے وہ جلوے نظر آئیں گے جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے، جیسا کہ فرمایا : (اَلْمُلْكُ يَوْمَىِٕذِۨ الْحَقُّ للرَّحْمٰنِ ) [ الفرقان : ٢٦ ] ” اس دن حقیقی بادشاہی رحمٰن کی ہوگی۔ “ اور فرمایا : (وَخَشَعَتِ الْاَصْوَات للرَّحْمٰنِ ) [ طٰہٰ : ١٠٨ ] ” اور سب آوازیں رحمٰن کے لیے پست ہوجائیں گی۔ “
(آیت) قالوا یا ویلنا من بعثنا من مرقدنا، کفار اگرچہ قبروں میں بھی عذاب قبر میں مبتلا تھے، وہاں کچھ آرام نہ تھا، مگر قیامت کے عذاب کے مقابلہ میں وہ پہلا عذاب کالعدم معلوم ہوگا اس لئے پکاریں گے کہ ہمیں کس نے قبروں سے نکال لیا، وہیں رہتے تو اچھا ہوتا۔ اس پر فرشتے یا عام مومنین جواب دیں گے۔- (آیت) ھذا ما وعدالرحمن وصدق المرسلون، یعنی یہ وہی قیامت ہے جس کا رحمن نے وعدہ کیا تھا، اور اس کے رسولوں نے اس کی سچی خبر تم کو سنائی تھی، تم نے توجہ نہ دی۔ اس مقام پر اللہ کی صفات میں سے لفظ رحمن اختیار کرنے میں اشارہ ہے کہ اس نے تو اپنی رحمت سے تمہارے لئے اس عذاب سے بچنے کے بہت سامان کئے تھے اور قبل از وقت اس کا وعدہ اور اپنی کتابوں اور انبیاء کے ذریعہ اس کی خبر تک پہنچانا بھی صفت رحمت ہی کا اقتضا تھا۔
قَالُوْا يٰوَيْلَنَا مَنْۢ بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا ٠ڄ ھٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ ٥٢- ويل - قال الأصمعيّ : وَيْلٌ قُبْحٌ ، وقد يستعمل علی التَّحَسُّر .- ووَيْسَ استصغارٌ. ووَيْحَ ترحُّمٌ. ومن قال : وَيْلٌ وادٍ في جهنّم، قال عز وجل : فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ، وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2]- ( و ی ل ) الویل - اصمعی نے کہا ہے کہ ویل برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر ویل اور تحقیر کے لئے ویس اور ترحم کے ویل کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ اور جن لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ ویل جہنم میں ایک وادی کا نام ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ [ البقرة 79] ان پر افسوس ہے اس لئئے کہ بےاصل باتیں اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں اور پھر ان پر افسوس ہے اس لئے کہ ایسے کام کرتے ہیں وَوَيْلٌ لِلْكافِرِينَ [إبراهيم 2] اور کافروں کے لئے سخت عذاب کی جگہ خرابی ہے ۔- بعث - أصل البَعْث : إثارة الشیء وتوجيهه، يقال : بَعَثْتُهُ فَانْبَعَثَ ، ويختلف البعث بحسب اختلاف ما علّق به، فَبَعَثْتُ البعیر : أثرته وسيّرته، وقوله عزّ وجل : وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] ، أي : يخرجهم ويسيرهم إلى القیامة، يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] ، زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] ، ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] ،- فالبعث ضربان :- بشريّ ، کبعث البعیر، وبعث الإنسان في حاجة .- وإلهي، وذلک ضربان :- أحدهما : إيجاد الأعيان والأجناس والأنواع لا عن ليس «3» ، وذلک يختص به الباري تعالی، ولم يقدر عليه أحد .- والثاني : إحياء الموتی، وقد خص بذلک بعض أولیائه، كعيسى صلّى اللہ عليه وسلم وأمثاله، ومنه قوله عزّ وجل : فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] ، يعني : يوم الحشر، وقوله عزّ وجلّ : فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] ، أي : قيّضه، وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] ، نحو : أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] ، وقوله تعالی: ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] ، وذلک إثارة بلا توجيه إلى مکان، وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] ، قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] ، وقالعزّ وجلّ : فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] ، والنوم من جنس الموت فجعل التوفي فيهما، والبعث منهما سواء، وقوله عزّ وجلّ : وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] ، أي : توجههم ومضيّهم .- ( ب ع ث ) البعث - ( ف ) اصل میں بعث کے معنی کسی چیز کو ابھارنے اور کسی طرف بھیجنا کے ہیں اور انبعث در اصل مطاوع ہے بعث کا مگر متعلقات کے لحاظ سے اس کے معنی مختلف ہوتے رہتے ہیں مثلا بعثت البعیر کے معنی اونٹ کو اٹھانے اور آزاد چھوڑ دینا کے ہیں اور مردوں کے متعلق استعمال ہو تو قبروں سے زندہ کرکے محشر کی طرف چلانا مراد ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَالْمَوْتى يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ [ الأنعام 36] اور مردوں کو تو خدا ( قیامت ہی کو ) اٹھایا جائے گا ۔ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً [ المجادلة 6] جس دن خدا ان سب کو جلا اٹھائے گا ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن 7] جو لوگ کافر ہوئے ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردیگا رکی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤگے ۔ ما خَلْقُكُمْ وَلا بَعْثُكُمْ إِلَّا كَنَفْسٍ واحِدَةٍ [ لقمان 28] تمہارا پیدا کرنا اور جلا اٹھا نا ایک شخص د کے پیدا کرنے اور جلانے اٹھانے ) کی طرح ہے - پس بعث دو قسم پر ہے - بعث بشری یعنی جس کا فاعل انسان ہوتا ہے جیسے بعث البعیر ( یعنی اونٹ کو اٹھاکر چلانا ) کسی کو کسی کام کے لئے بھیجنا - دوم بعث الہی - یعنی جب اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو پھر اس کی بھی دوقسمیں ہیں اول یہ کہ اعیان ، اجناس اور فواع کو عدم سے وجود میں لانا ۔ یہ قسم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور اس پر کبھی کسی دوسرے کو قدرت نہیں بخشی ۔ دوم مردوں کو زندہ کرنا ۔ اس صفت کے ساتھ کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بھی سرفراز فرمادیتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی (علیہ السلام) اور ان کے ہم مثل دوسری انبیاء کے متعلق مذکور ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَهذا يَوْمُ الْبَعْثِ [ الروم 56] اور یہ قیامت ہی کا دن ہے ۔ بھی اسی قبیل سے ہے یعنی یہ حشر کا دن ہے اور آیت کریمہ : ۔ فَبَعَثَ اللَّهُ غُراباً يَبْحَثُ فِي الْأَرْضِ [ المائدة 31] اب خدا نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید نے لگا ۔ میں بعث بمعنی قیض ہے ۔ یعنی مقرر کردیا اور رسولوں کے متعلق کہا جائے ۔ تو اس کے معنی مبعوث کرنے اور بھیجنے کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَلَقَدْ بَعَثْنا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا [ النحل 36] اور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا ۔ جیسا کہ دوسری آیت میں أَرْسَلْنا رُسُلَنا [ المؤمنون 44] فرمایا ہے اور آیت : ۔ ثُمَّ بَعَثْناهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصى لِما لَبِثُوا أَمَداً [ الكهف 12] پھر ان کا جگا اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ جتنی مدت وہ ( غار میں ) رہے دونوں جماعتوں میں سے اس کو مقدار کس کو خوب یاد ہے ۔ میں بعثنا کے معنی صرف ۃ نیند سے ) اٹھانے کے ہیں اور اس میں بھیجنے کا مفہوم شامل نہیں ہے ۔ وَيَوْمَ نَبْعَثُ مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيداً [ النحل 84] اور اس دن کو یا د کرو جس دن ہم ہر امت میں سے خود ان پر گواہ کھڑا کریں گے ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ [ الأنعام 65] کہہ و کہ ) اس پر بھی ) قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ عذاب بھیجے ۔ فَأَماتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ [ البقرة 259] تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی ( اور ) سو برس تک ( اس کو مردہ رکھا ) پھر اس کو جلا اٹھایا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ ما جَرَحْتُمْ بِالنَّهارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو رات کو ( سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے اور جو کبھی تم دن میں کرتے ہو اس سے خبر رکھتا ہے پھر تمہیں دن کو اٹھادیتا ہے ۔ میں نیند کے متعلق تونی اور دن کو اٹھنے کے متعلق بعث کا لفظ استعمال کیا ہے کیونکہ نیند بھی ایک طرح کی موت سے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعاثَهُمْ [ التوبة 46] لیکن خدا نے ان کا اٹھنا ( اور نکلنا ) پسند نہ کیا ۔ میں انبعاث کے معنی جانے کے ہیں ۔- رقد - الرُّقَادُ : المستطاب من النّوم القلیل . يقال : رَقَدَ رُقُوداً ، فهو رَاقِدٌ ، والجمع الرُّقُودُ ، قال تعالی:- وَهُمْ رُقُودٌ [ الكهف 18] ، وإنما وصفهم بالرّقود۔ مع کثرة منامهم۔ اعتبارا بحال الموت، وذاک أنه اعتقد فيهم أنهم أموات، فکان ذلک النوم قلیلا في جنب الموت . وقال تعالی: يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا مِنْ مَرْقَدِنا[يس 52] ، وأَرْقَدَ الظّليم : أسرع، كأنّه رفض رُقَاده .- ( ر ق د ) الرقاد - خوشگوار اور ہلکی سی نیند کو کہتے ہیں کہا جاتا ہے رقد ( ن ) رقودا فھو راقد اور راقد کی جمع رقود آتی ہے جیسے فرمایا :۔ وَهُمْ رُقُودٌ [ الكهف 18] حالانکہ وہ ( اصحاب کہف ) سوئے ہوئے ہیں ۔ اصحاب کہف کی گہری اور لمبی نیند کے باوجود ان پر رقود کا لفظ بول کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نیند خواہ کتنی ہی گہری اور لمبی نہ ہو موت کے مقابلہ میں وہ نوم خفیف کے حیثیت رکھتی ہے ۔ لوگوں کو یقین ہوچکا تھا کہ اصحاب کہف فوت ہوچکے ہیں ۔ قرآن نے وھم رقود کہہ کر ان سے موت کی نفی کی ہے ۔ اور مرقد ( ظرف ) خواب گاہ کو کہتے ہیں ۔ چنانچۃ قرآن میں ہے :۔ يا وَيْلَنا مَنْ بَعَثَنا مِنْ مَرْقَدِنا [يس 52] ہم پر افسوس ہے کس نے ہمیں ہماری خواب گاہوں سے جگا اٹھایا ۔ اور ارقد الظلیم کے معنی شتر مرغ کے تیز دوڑنے کے ہیں گویا اس نے تیز روی سے اپنی نیند کو دور کردیا ۔- وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ- [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- صدق - الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] ،- ( ص دق) الصدق ۔- یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال - ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ - رسل - وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ، - ( ر س ل ) الرسل - اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔
اور قبروں سے نکل کر کہیں گے ہائے ہماری کم بختی ہمیں ہماری خوب گاہوں سے کس نے بیدار کردیا تو ایک دوسرے سے کہیں گے کہ یہ وہی وقت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ہم سے دنیا میں وعدہ کیا تھا یا یہ کہ ان سے محافظ فرشتے کہیں گے کہ یہ وہی ہے جس کا انبیاء کرام کی زبانی دنیا میں وعدہ کیا تھا۔
آیت ٥٢ قَالُوْا یٰوَیْلَنَا مَنم بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَاسکۃ ” وہ کہیں گے : ہائے ہماری شامت ہمیں کس نے اٹھا دیا ہماری قبروں سے ؟ “- ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ ” (پھر خود ہی کہیں گے : ) ارے یہ تو وہی (دن) ہے جس کا رحمن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔ “- پیغمبروں نے بعث بعد الموت کے بارے میں جو خبریں دی تھیں وہ سب کی سب سچ ثابت ہوئیں اور آج واقعی وہ دن آن پہنچا ہے جس کے بارے میں وہ ہمیں بار بار یاد دہانی کرایا کرتے تھے۔
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :48 یعنی اس وقت انہیں یہ احساس نہ ہو گا کہ وہ مر چکے تھے اور اب ایک مدت دراز کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گئے ہیں ، بلکہ وہ اس خیال میں ہوں گے کہ ہم سوئے پڑے تھے ، اب یکایک کسی خوفناک حادثہ کی وجہ سے ہم جاگ اٹھے ہیں اور بھاگے جا رہے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم ، ص 123 ۔ 199 ۔ 200 ۔ ) سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :49 یہاں اس امر کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ یہ جواب دینے والا کون ہو گا ۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ دیر بعد خود انہی لوگوں کی سمجھ میں معاملہ کی اصل حقیقت آ جائے اور وہ آپ ہی اپنے دلوں میں کہیں کہ ہائے ہماری کم بختی ، یہ تو وہی چیز ہے جس کی خبر خدا کے رسول ہمیں دیتے تھے اور ہم اسے جھٹلایا کرتے تھے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اہل ایمان ان کی غلط فہمی رفع کریں اور ان کو بتائیں کہ یہ خواب سے بیداری نہیں بلکہ موت کے بعد دوسری زندگی ہے ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جواب قیامت کا پورا ماحول ان کو دے رہا ہو ، یا فرشتے ان کو حقیقت حال سے مطلع کریں ۔