نیک و بد علیحدہ علیحدہ کر دیئے جائیں گے ۔ فرماتا ہے کہ نیک کاروں سے بدکاروں کو چھانٹ دیا جائے گا ، کافروں سے کہدیا جائے گا کہ مومنوں سے دور ہو جاؤ ، پھر ہم ان میں امتیاز کر دیں گے انہیں الگ الگ کر دیں گے ۔ اسی طرح سورہ یونس میں ہے ( ترجمہ ) جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز سب کے سب جدا جدا ہو جائیں گے ۔ یعنی ان کے دو گروہ بن جائیں گے ۔ سورہ و الصافات میں فرمان ہے ( اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ 22ۙ ) 37- الصافات:22 ) یعنی ظالموں کو اور ان جیسوں کو اور ان کے جھوٹے معبودوں کو جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے جمع کرو اور انہیں جہنم کا راستہ دکھاؤ ۔ جنتیوں پر جو طرح طرح کی نوازشیں ہو رہی ہوں گی اس طرح جہنمیوں پر طرح طرح کی سختیاں ہو رہی ہوں گی انہیں بطور ڈانٹ ڈپٹ کے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تم سے عہد نہیں لیا تھا کہ شیطان کی نہ ماننا ، وہ تمہارا دشمن ہے؟ لیکن اس پر بھی تم نے مجھ رحمان کی نافرمانی کی اور اس شیطان کی فرمانبرداری کی ۔ خالق مالک رازق میں اور فرمانبرداری کی جائے میرے راندہ درگاہ کی؟ میں تو کہہ چکا تھا کہ ایک میری ہی ماننا صرف مجھ ہی کو پوجنا مجھ تک پہنچنے کا سیدھا قریب کا اور سچا راستہ یہی ہے لیکن تم الٹے چلے ، یہاں بھی الٹے ہی جاؤ ، ان نیک بختوں کی اور تمہاری راہ الگ الگ ہے یہ جنتی ہیں تم جہنمی ہو ۔ جبلا سے مراد خلق کثیر بہت ساری مخلوق ہے لغت میں جبل بھی کہا جاتا ہے اور جبل بھی کہا جاتا ہے ، شیطان نے تم میں سے بکثرت لوگوں کو بہکا دیا اور صحیح راہ سے ہٹا دیا ، تم میں اتنی بھی عقل نہ تھی کہ تم اس کا فیصلہ کر سکتے کہ رحمان کی مانیں یا شیطان کی؟ اللہ کو پوجیں یا مخلوق کو؟ ابن جریر میں ہے قیامت کے دن اللہ کے حکم سے جہنم اپنی گردن نکالے گی جس میں سخت اندھیرا ہو گا اور بالکل ظاہر ہو گی وہ بھی کہے گی کہ اے انسانو کیا اللہ تعالیٰ نے تم سے وعدہ نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا ؟ وہ تمہارا ظاہری دشمن ہے اور میری عبادت کرنا یہ سیدھی راہ ہے ، اس نے تم میں سے اکثروں کو گمراہ کر دیا کیا تم سمجھتے نہ تھے؟ اے گنہگارو آج تم جدا ہو جاؤ ۔ اس وقت نیک بدا الگ الگ ہو جائیں گے ، ہر ایک گھنٹوں کے بل گر پڑے گا ، ہر ایک کو اس کے نامہ اعمال کی طرف بلایا جائے گا ، آج ہی بدلے دیئے جاؤ گے جو کر کے آئے ہو ۔
59۔ 1 یعنی اہل ایمان سے الگ ہو کر کھڑے ہو۔ یعنی میدان محشر میں اہل ایمان و اطاعت اور اہل کفر و معصیت الگ الگ کردیئے جائیں گے، دوسرا مطلب یہ ہے کہ مجرمین کو ہی مختلف گروہوں میں الگ الگ کردیا جائے گا۔ مثلًا یہودیوں کا گروہ، عیسائیوں کا گروہ، صائبین اور مجوسیوں کا گروہ، زانیوں کا گروہ، شرابیوں کا گروہ وغیرہ وغیرہ۔
[ ٥٤] اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ دنیا میں مجرم اور فرمانبردار سب ملے جلے رہتے ہیں اور ایسا ہی ممکن ہے کہ باپ مجرم اور بیٹا اللہ کا فرمانبردار ہو اور وہ ایک ہی جگہ رہتے ہوں۔ وہاں یہ صورت نہیں ہوگی۔ نہ وہاں نسب کا لحاظ ہوگا۔ بلکہ مجرموں کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اللہ کے فرمانبرداروں سے الگ ہوجائیں اور جن لوگوں کا وہ دنیا میں مذاق اڑایا کرتے تھے بچشم خود دیکھ لیں کہ آج ان کو کیسی کیسی نعمتیں اور آرام مہیا ہیں۔ اور دوسرا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اے گروہ مجرمین تم باہم مل کر نہ رہو۔ بلکہ الگ الگ کھڑے ہوجاؤ۔ کیونکہ تم سے انفرادی طور پر ٹھیک ٹھاک باز پرس ہونے والی ہے۔
وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ : جنتیوں کی ہر لحاظ سے تکریم اور رب رحیم کی طرف سے سلام کے ذکر کے بعد بتایا کہ جہنمیوں سے کیا کہا جائے گا، یعنی ان سے کہا جائے گا کہ اے مجرمو تم جنتیوں سے الگ ہوجاؤ۔ دنیا میں بیشک تم اکٹھے رہے، مگر آج تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ چناچہ یہود و نصاریٰ ، مجوس اور مشرکین سب الگ ہوجائیں گے (دیکھیے یونس : ٢٨۔ روم : ١٤ تا ١٦) اور جو جس کی پرستش کرتا تھا اس کے پیچھے چلا جائے گا، صرف موحد باقی رہ جائیں گے۔ دیکھیے سورة قلم کی آیت (٤٢) (يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ ) کی تفسیر۔
(آیت) وامتاز وا الیوم ایھا المجرمون، میدان حشر میں اول جب لوگ اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو سب گڈ مڈ منتشر ہوں گے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا کانھم جواد منتشر، یعنی وہ منتشر ٹڈیوں کے دل کی طرح ہوں گے۔ مگر بعد میں ان کے گروہ گروہ اپنے اعمال کے اعتبار سے الگ کردیئے جائیں گے، کفار ایک جگہ مومن دوسری جگہ، فجار فساق الگ، صلحاء اور مقبول بندے الگ۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا ہے (آیت) واذ النفوس زوجت یعنی جبکہ نفوس جوڑ جوڑ کردیئے جائیں گے۔ آیت مذکورہ میں بھی اسی امتیاز کا بیان ہے۔
وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّہَا الْمُجْرِمُوْنَ ٥٩- ميز - المَيْزُ والتَّمْيِيزُ : الفصل بين المتشابهات، يقال : مَازَهُ يَمِيزُهُ مَيْزاً ، ومَيَّزَهُ تَمْيِيزاً ، قال تعالی:- لِيَمِيزَ اللَّهُ [ الأنفال 37] ، وقرئ : لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ والتَّمْيِيزُ يقال تارة للفصل، وتارة للقوّة التي في الدّماغ، وبها تستنبط المعاني، ومنه يقال : فلان لا تمييز له، ويقال : انْمَازَ وامْتَازَ ، قال : وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس 59] وتَمَيَّزَ كذا مطاوعُ مَازَ. أي : انْفَصَلَ وانْقَطَعَ ، قال تعالی: تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک 8] .- ( م ی ز ) المیر والتمیز کے معنی متشابہ اشیاء کو ایک دوسری سے الگ کرنے کے ہیں ۔ اور مازہ یمیزہ میزا ومیزاہ یمیزا دونوں ہم معنی ہیں چناچہ فرمایا ۔ لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ تاکہ خدا ناپاک کو پاک سے الگ کر دے اور ایک قراءت میں لیمیز اللہ الخبیث ہے ۔ التمیز کے معنی الگ کرنا بھی آتے ہیں اور اس ذہنی قوت پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے فلان لا تمیز لہ فلاں میں قوت تمیز نہیں ہے ۔ انما ز اور امتاز کے معنی الگ ہونے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے :۔ وَامْتازُوا الْيَوْمَ [يس 59] اور آج الگ ہوجاؤ اور تمیز کذا ( تفعل ) ماز کا مطاوع آتا ہے اور اس کے معنی الگ اور منقطع ہونے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ تَكادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ [ الملک 8] گو یا مارے جوش کے پھٹ پڑے گی ۔- أيا - أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص 28]- ( ا ی ی ) ای ۔- جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔- جرم - أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة :- ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، - قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] ، - ( ج ر م ) الجرم ( ض)- اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے - متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔
اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے کافرو آج کے دن علیحدہ ہوجاؤ چناچہ اللہ تعالیٰ ان کفار کو اہل ایمان سے جدا کردے گا۔
آیت ٥٩ وَامْتَازُوا الْیَوْمَ اَیُّہَا الْمُجْرِمُوْنَ ” اور (اعلان کیا جائے گا : ) اے مجرمو آج تم الگ ہو جائو۔ “- پھر تمام کافر اور مشرک لوگوں کو چھانٹ کر الگ کرلیا جائے گا اور انہیں مخاطب کر کے پوچھا جائے گا :
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :52 اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ مومنین صالحین سے الگ ہو جاؤ ، کیونکہ دنیا میں چاہے تم ان کی قوم اور ان کے کنبے اور برادری کے لوگ رہے ہو ، مگر یہاں اب تمہارا ان کا کوئی رشتہ باقی نہیں ہے ۔ اور دوسرا مفہوم یہ کہ تم آپس میں الگ الگ ہو جاؤ ۔ اب تمہارا کوئی جتھا قائم نہیں رہ سکتا ۔ تمہاری سب پارٹیاں توڑ دی گئیں ۔ تمہارے تمام رشتے اور تعلقات کاٹ دیے گئے ۔ تم میں سے ایک ایک شخص کو اب تنہا اپنی ذاتی حیثیت میں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو گی ۔