60۔ 1 اس سے مراد عہد الست ہے جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکالنے کے وقت لیا گیا تھا یا وہ وصیت ہے جو پیغمبروں کی زبانی لوگوں کو جاتی رہی۔ اور بعض کے نزدیک وہ دلائل عقلیہ ہیں جو آسمان و زمین میں اللہ نے قائم کئے ہیں۔ (فتح القدیر) (2) یہ اسکی علت ہے کہ تمہیں شیطان کی عبادت اور اس کے وسوسے قبول کرنے سے اس لیے روکا گیا تھا کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور اس نے تمہیں ہر طرح گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔
[ ٥٥] شیطان کی عبادت کیسے ہوتی ہے ؟ اس آیت میں عبادت کا لفظ دو معنی ادا کر رہا ہے۔ ایک یہ کہ عبادت بمعنی اطاعت لیا جائے۔ کیونکہ شیطان کی عبادت تو کوئی کیا کرے گا اس پر تو سب لعنت ہی بھیجتے ہیں اور دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ آج تک اللہ کے سوا جتنے بھی معبودوں کی عبادت کی جاتی رہی ہے شیطان کے بہکانے کی وجہ سے ہی کی جاتی رہی ہے۔ لہذا فی الحقیقت یہ شیطان ہی کی عبادت ہوئی۔
اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ :” عَھِدَ إِلَیْہِ “ کا معنی ہے اس کو وصیت کی۔ آلوسی نے فرمایا، اس تاکیدی نصیحت سے مراد اللہ تعالیٰ کے وہ اوامرو نواہی ہیں جو اس نے اپنے رسولوں کی معرفت بنی آدم کے لیے بھیجے، جن میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : (يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَمَآ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ يَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْاٰتِهِمَا ۭاِنَّهٗ يَرٰىكُمْ هُوَ وَقَبِيْلُهٗ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۭاِنَّا جَعَلْنَا الشَّيٰطِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) [ الأعراف : ٢٧ ] ” اے آدم کی اولاد کہیں شیطان تمہیں فتنے میں نہ ڈال دے، جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا، وہ دونوں سے ان کے لباس اتارتا تھا، تاکہ دونوں کو ان کی شرم گاہیں دکھائے، بیشک وہ اور اس کا قبیلہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں جہاں سے تم انھیں نہیں دیکھتے۔ بیشک ہم نے شیطانوں کو ان لوگوں کے دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں رکھتے۔ “ بعض نے کہا، مراد وہ عہد ہے جو ” اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ “ میں مذکور ہے، (دیکھیے سورة اعراف : ١٧٢ کی تفسیر) یا وہ عقلی دلائل ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے کائنات میں رکھے ہیں۔
(آیت) الم اعھد الکم بینی آدم ان لا تعبدوالشیطن، یعنی تمام بنی آدم کو (بلکہ جناب کو بھی) مخاطب کر کے قیامت میں کہا جائے گا کہ کیا میں نے دنیا میں تم کو یہ ہدایت نہ کی تھی کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا۔ یہاں سوال یہ ہوتا ہے کہ کفار عموماً شیطان کی تو عبادت نہ کرتے بتوں کو یا دوسری چیزوں کو پوجتے تھے، اس لئے ان پر عبادت شیطان کا الزام کیسے عائد ہوا ؟ جواب یہ ہے کہ کسی کی اطاعت مطلقہ کرنا کہ ہر کام ہر حال میں اس کا کہنا مانے اسی کا نام عبادت ہے چونکہ ان لوگوں نے ہمیشہ شیطانی تعلیم ہی کی پیروی کی، اس لئے ان کو عابد شیطان کہا گیا۔ جیسا کہ حدیث میں اس شخص کو جو مال یا بیوی کی محبت میں آ کر ہر وہ کام کرنے لگے جس سے مال بڑھے یا بیوی راضی ہو اگرچہ خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہو ایسے شخص کو حدیث میں عبدالدرہم اور عبدالزوجہ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔- بعض صوفیائے کرام کے کلمات میں جو اپنے نفس کے لئے بت پرستی کے الفاظ آئے ہیں، اس سے مراد نفس کی خواہشات کا اتباع کرنا ہے، کفر و شرک مراد نہیں۔ جیسا کہ بعض نے فرمایا - سودہ گشت از سجدہ راہ بتاں پیشانیم - چند برخود تہمت دین مسلمانی نہم
اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَيْكُمْ يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ٠ ۚ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ٦ ٠ۙ- عهد - العَهْدُ : حفظ الشیء ومراعاته حالا بعد حال، وسمّي الموثق الذي يلزم مراعاته عَهْداً.- قال : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] ، أي : أوفوا بحفظ الأيمان، قال : لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] - ( ع ھ د ) العھد - ( ض ) کے معنی ہیں کسی چیز کی پیہم نگہہ داشت اور خبر گیری کرنا اس بنا پر اس پختہ وعدہ کو بھی عھد کہاجاتا ہے جس کی نگہداشت ضروری ہو ۔ قرآن میں ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كانَ مَسْؤُلًا[ الإسراء 34] اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی ۔ یعنی اپنی قسموں کے عہد پورے کرو ۔ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ [ البقرة 124] کہ ظالموں کے حق میں میری ذمہ داری پوری نہیں ہوسکتی ۔- آدم - آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب .- ( ادم ) ادم - ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - عدو - العَدُوُّ : التّجاوز ومنافاة الالتئام، فتارة يعتبر بالقلب، فيقال له : العَدَاوَةُ والمُعَادَاةُ ، وتارة بالمشي، فيقال له : العَدْوُ ، وتارة في الإخلال بالعدالة في المعاملة، فيقال له : العُدْوَانُ والعَدْوُ. قال تعالی: فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] ، وتارة بأجزاء المقرّ ، فيقال له : العَدْوَاءُ. يقال : مکان ذو عَدْوَاءَ «3» ، أي : غير متلائم الأجزاء . فمن المُعَادَاةِ يقال :- رجلٌ عَدُوٌّ ، وقومٌ عَدُوٌّ. قال تعالی: بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123]- ( ع د و ) العدو - کے معنی حد سے بڑھنے اور باہم ہم آہنگی نہ ہونا ہیں اگر اس کا تعلق دل کی کیفیت سے ہو تو یہ عداوۃ اور معاداۃ کہلاتی ہے اور اگر رفتار سے ہو تو اسے عدو کہا جاتا ہے اور اگر عدل و انصاف میں خلل اندازی کی صورت میں ہو تو اسے عدوان اور عدو کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْواً بِغَيْرِ عِلْمٍ [ الأنعام 108] کہ یہ بھی کہیں خدا کو بےادبی سے بےسمجھے برا نہ کہہ بیٹھیں ۔ اور اگر اس کا تعلق کسی جگہ کے اجزاء کے ساتھ ہو تو اسے عدواء کہہ دیتے ہیں جیسے مکان ذوعدوء ناہموار مقام چناچہ معاداۃ سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے رجل عدو وقوم عدو اور یہ واحد جمع دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ طه 123] اب سے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو ۔
(٦٠۔ ٦١) پھر ان سے فرمائے گا کیا میں نے رسول پر کتاب نازل کر کے تمہیں اس چیز کی تاکید نہیں کردی تھی کہ تم شیطان کی پیروی ہرگز مت کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور یہ کہ صرف میری ہی توحید کے قائل رہنا کیونکہ توحید خداوندی ہی سچا اور سیدھا رستہ ہے۔
آیت ٦٠ اَلَمْ اَعْہَدْ اِلَیْکُمْ یٰــبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَج اِنَّہٗ لَـکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ” اے آدم کی اولاد کیا میں نے تم سے یہ وعدہ نہیں لے لیا تھا کہ تم شیطان کی بندگی مت کرنا ‘ بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ “