6۔ 1 یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول اس لئے بنایا ہے اور یہ کتاب اس لئے نازل کی ہے تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قوم کو ڈرائیں جن میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، اس لئے ایک مدت سے یہ لوگ دین حق سے بیخبر ہیں۔ یہ مضمون پہلے بھی کئی جگہ گزر چکا ہے کہ عربوں میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے براہ راست کوئی نبی نہیں آیا۔ یہاں بھی اس چیز کو بیان کیا گیا ہے۔
[ ٥] مکہ میں شعیب کے دو ہزار سال بعد آپ مبعوث ہوئے :۔ اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ مَااُنْذِرَمیں اگر ما کو نافیہ سمجھا جائے جیسا کہ اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چونکہ ان کی طرف کوئی نبی نہیں آیا لہذا یہ لوگ گہری غفلت اور جہالت میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر ما کو موصولہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے قدیمی آباء و اجداد مدتوں پہلے جس چیز سے ڈرائے گئے تھے اسی چیز سے آپ ان کو ڈرائیں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل اور سیدنا شعیب انہی کے آباء و اجداد کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور آخری نبی شعیب تھے انہیں بھی دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اتنی مدت بعد رسول اللہ ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ - خ آپ کی بعثت سے پہلے عرب کی حالت :۔ اور یہ اس طویل مدت کا ہی اثر تھا کہ یہ لوگ انتہائی جہالت اور غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے عادات و خصائل سخت بگڑ چکے تھے۔ شرک اس قدر عام تھا کہ کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت موجود تھے اور ہر قبیلہ کا الگ الگ بت بھی موجود تھا۔ ان میں اکثر لوگوں کا پیشہ لوٹ مار اور رہزنی تھا۔ شراب کے سخت رسیا تھے۔ فحاشی اور بےحیائی عام تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کھڑے کردینا ان کا معمول تھا۔ پھر ان کے قبائلی نظام کی وجہ سے قبیلوں میں ایسی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا جو ختم ہونے میں آتا ہی نہ تھا۔ غرض ہر لحاظ سے یہ قوم ایک اجڈ، تہذیب سے ناآشنا اور ایک ناتراشیدہ اور اکھڑ قوم تھی جس کی اصلاح و ہدایت کے لئے آپ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اسی صورت حال سے اس بات کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ کی یہ ذمہ داری کس قدر سخت اور عظیم تھی۔
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُهُمْ : یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس لیے رسول بنایا اور یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جس میں اس سے پہلے کوئی نبی نہیں آیا، اس لیے وہ دین حق سے بیخبر ہیں۔ یہی مضمون سورة سجدہ (٤) میں ملاحظہ فرمائیں۔- ابن کثیر نے فرمایا کہ ” لِتُنْذِرَ قَوْمًا “ میں قوم سے مراد عرب ہیں، جن کے آباء کو ڈرایا نہیں گیا، مگر اس پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف عرب ہی کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اس کا جواب ابن کثیر نے یہ دیا ہے کہ اکیلے عرب کے ذکر سے دوسری اقوام کی طرف مبعوث ہونے کی نفی نہیں ہوتی، جس طرح بعض افراد کے ذکر سے عموم کی نفی نہیں ہوتی۔ یہاں بہت سی آیات اور متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ آپ تمام اقوام کی طرف مبعوث ہیں اور آپ کی بعثت قیامت تک کے لیے ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٥٧) اور سورة سبا (٢٨) مفسر سلیمان الجمل نے فرمایا : ” لِتُنْذِرَ قَوْمًا “ سے مراد عرب اور غیر عرب تمام اقوام ہیں اور ” اٰبَاۗؤُهُمْ “ سے مراد قریب کے آباء ہیں، یعنی قریب زمانے میں نہ عرب کی طرف کوئی نبی آیا نہ غیر عرب کی طرف۔ ہاں بعید زمانے میں عرب کی طرف اسماعیل، ہود، صالح اور شعیب (علیہ السلام) مبعوث ہوئے اور غیر عرب کی طرف سب سے آخر میں عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے، جن کی بعثت کو تقریباً چھ سو برس گزر چکے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے زمانے کے تمام لوگوں کی طرف مبعوث ہیں، خواہ عرب ہو یا عجم، کیونکہ ان کے قریب آباء کی طرف کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔ انبیاء کی آمد پر مدت دراز گزرنے کی وجہ سے یہ سب لوگ اصل دین سے بیخبر ہیں۔ “ یہ تفسیر بھی بہت عمدہ ہے۔ اس پر وہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا جو ابن کثیر (رض) کی تفسیر پر وارد ہوتا ہے۔- ایک اور سوال یہ ہے کہ زمانۂ فترت (جس میں کوئی رسول نہیں آیا) کے لوگوں کو شرک اور گمراہی کی وجہ سے عذاب کیوں ہوگا، جب کہ اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے : (وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا) [ بني إسرائیل : ١٥ ] ” اور ہم کبھی عذاب دینے والے نہیں، یہاں تک کہ کوئی پیغام پہنچانے والا بھیجیں۔ “ جواب اس کا سورة بنی اسرائیل میں اسی مذکورہ بالا آیت (١٥) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔
(آیت) لتنذر قوماً ما انذر اباؤہم، مراد اس سے عرب ہیں۔ معنی یہ ہیں کہ ان کے آباء و اجداد میں کوئی نذیر یعنی پیغمبر عرصہ دراز سے نہیں آیا۔ اور آباء و اجداد سے مراد قریبی آباء و اجداد ہیں، ان کے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے بعد کتنی صدیوں سے عرب میں کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔ اگرچہ دعوت و تبلیغ اور انذار وتبشیر کا سلسلہ برابر جاری رہا جس کا ذکر قرآن کریم کی آیت میں بھی ہے جو خلاصہ تفسیر میں آ چکی ہے اور آیت (آیت) ان من امة الا خلا فیہا نذیر کا بھی یہی مقتضی ہے کہ رحمت خداوندی نے کسی قوم و ملت کو دعوت و انذار سے کسی زمانے اور کسی خطہ میں محروم نہیں رکھا۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ انبیاء کی تعلیمات ان کے نائبوں کے ذریعہ پہنچنا وہ اثر نہیں رکھتا جو خود نبی یا پیغمبر کی دعوت وتعلیم کا ہوتا ہے۔ اس لئے آیت مذکورہ میں عربوں کے متعلق یہ فرمایا گیا کہ ان میں کوئی نذیر نہیں آیا۔ اسی کا یہ اثر تھا کہ عرب میں عام طور پر پڑھنے پڑھانے اور تعلیم کا کوئی مستحکم نظام نہیں تھا، اسی وجہ سے ان کا لقب امین ہوا۔
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ ٦- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - أب - الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب 6]- ( اب و ) الاب - ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔- غفل - الغَفْلَةُ : سهو يعتري الإنسان من قلّة التّحفّظ والتّيقّظ، قال تعالی: لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] - ( غ ف ل ) الغفلتہ - ۔ اس سہو کو کہتے ہیں جو قلت تحفظ اور احتیاط کی بنا پر انسان کو عارض ہوجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِنْ هذا[ ق 22] بیشک تو اس سے غافل ہو رہا تھا
آیت ٦ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَآؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ ” تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خبردار کردیں اس قوم کو جن کے آباء و اَجداد کو خبردار نہیں کیا گیا ‘ پس وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ “- یہ مضمون اس سے پہلے سورة السجدۃ کی آیت ٣ میں بھی آچکا ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے چونکہ اس قوم میں کوئی نبی یا رسول نہیں آیا ‘ اس لیے نہ تو انہیں نبوت و رسالت کے بارے میں کچھ معلوم ہے اور نہ وہ کتاب و شریعت سے واقف ہیں۔ - یہاں پر فَہُمْ غٰفِلُوْنَ کے الفاظ میں رعایت کا انداز بھی پایا جاتا ہے ‘ یعنی چونکہ اس قوم میں اس سے پہلے نہ تو کوئی پیغمبر آیا ہے اور نہ ہی کوئی الہامی کتاب ان لوگوں تک پہنچی ہے اس لیے ان کا ” غافل “ ہونا بالکل قرین قیاس تھا۔ لیکن اب جبکہ ان میں پیغمبر بھی مبعوث ہوچکا ہے اور ایک حکمت بھری کتاب کی آیات بھی ان تک پہنچ چکی ہیں تو اس کے بعد ان کی گمراہی کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن یہ لوگ ہیں کہ اب بھی گمراہی سے چمٹے ہوئے ہیں اور چونکہ انہوں نے ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت کو ٹھکرا دیا ہے اس لیے :
سورة یٰسٓ حاشیہ نمبر :4 اس آیت کے دو ترجمے ممکن ہیں ۔ ایک وہ جو اوپر متن میں کیا گیا ہے ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم ڈراؤ ایک قوم کے لوگوں کو اسی بات سے جس سے ان کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے ، کیونکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔ پہلا مطلب اگر لیا جائے تو باپ دادا سے مراد زمانۂ قریب کے باپ دادا ہوں گے ، کیونکہ زمانۂ بعید میں تو عرب کی سر زمین میں متعدد انبیاء آچکے تھے اور دوسرا مطلب اختیار کرنے کی صورت میں مراد یہ ہو گی کہ قدیم زمانے میں جو پیغام انبیاء کے ذریعہ سے اس قوم کے آباؤ اجداد کے پاس آیا تھا اس کی اب پھر تجدید کرو ، کیونکہ یہ لوگ اسے فراموش کر گئے ہیں ۔ اس لحاظ سے دونوں ترجموں میں درحقیقت کوئی تضاد نہیں ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں ۔ اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے اسلاف پر جو زمانہ ایسا گزرا تھا جس میں کوئی خبردار کرنے والا ان کے پاس نہیں آیا ، اس زمانے میں اپنی گمراہی کے وہ کس طرح ذمہ دار ہو سکتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی نبی دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی تعلیم و ہدایت کے اثرات دور دور تک پھیلتے ہیں اور نسلاً بعد نسلٍ چلتے رہتے ہیں ۔ یہ آثار جب تک باقی رہیں اور نبی کے پیروؤں میں جب تک ایسے لوگ اٹھتے رہیں جو ہدایت کی شمع روشن کرنے والے ہوں ، اس وقت تک زمانے کو ہدایت سے خالی نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ اور جب اس نبی کی تعلیم کے اثرات بالکل مٹ جائیں یا ان میں مکمل تحریف ہو جائے تو دوسرے نبی کی بعثت ناگزیر ہو جاتی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب میں حضرت ابراہیم و اسماعیل اور حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کی تعلیم کے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور وقتاً فوقتاً ایسے لوگ اس قوم میں اٹھتے رہے تھے ، یا باہر سے آتے رہے تھے جو ان اثرات کو تازہ کرتے رہتے تھے ۔ جب یہ اثرات مٹنے کے قریب ہو گئے اور اصل تعلیم میں بھی تحریف ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور ایسا انتظام فرمایا کہ آپ کی ہدایت کے آثار نہ مٹ سکتے ہیں اور نہ محرف ہو سکتے ہیں ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، سورۃ سبا ، حاشیہ نمبر 5 )
1: یعنی مکہ مکرمہ اور اس کے اطراف میں مدت سے کوئی پیغمبر نہیں آیا تھا۔